ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی
آراضی باغ، اعظم گڑھ
دور جدید مادہ پرستی میں ڈوبا ایک ایسا دور ہے جہاں مذہب اور دین کی حیثیت ثانوی ہوکر رہ گئی ہے۔ نتیجتا عصر حاضر کے مسلمان دین اسلام کے رہنما صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے بے خبر ہیں۔ اور بے خبری اور غفلت کی تہہ اس قدر دبیز ہوچکی ہے کہ شان رسول میں جب کوئی گستاخی ہوتی ہے تو مسلم امت کے پاس کوئی معتبر دلیل نہیں ہوتی جس سے وہ گستاخ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان بند کرنے میں بطور دفاع استعمال کرے۔
محسن انسانیت اور ہادی کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت پر اعتراضات کی ایک ہیئت جو دور حاضر کے ملحدين کی آنکھوں میں کھٹک رہی ہے وہ ہے تعدد ازدواج۔
آج رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک شخصیت پر جو کیچڑ اچھالے جارہے ہیں اس کی اصل وجہ دین سے بے اعتنائی اور سیرت رسول سے عدم معرفت ہے۔ لہٰذا تعدد ازدواج کی حکمت پر غور کرنے سے پہلے اس بات کا بغور جائزہ لینا مناسب ہوگا کہ آیا یہ عمل اسلام کی ایجاد ہے یا اس سے پہلے بھی موجود تھا۔
تاریخی قرائن کے مطالعہ سے یہ بات منکشف ہوتی ہے کہ تعدد ازدواج کا رواج اسلام سے بہت پہلے سے زمانہ قدیم میں ہر دور میں رہا ہے۔ چنانچہ انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکا کے مطابق مشہور ماہر لسانیات جارج مرڈاک کی 1949 کی رپورٹ کے مطابق 554 قوموں میں سے 415 میں تعدد ازدواج کا رواج پایا جاتا ہے۔
اسی طرح یہودیت میں بھی تعدد ازدواج کا رواج ملتا ہے حتی کہ ان کے یہاں کوئی حد بندی بھی نہیں ملتی البتہ تلمود کے مطابق چار کی حد متعین کردی گئی ہے۔ علاوہ ازیں حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی بھی متعدد بیویوں کا ثبوت ملتا ہے۔ بنا بریں عیسائیت میں بھی تعدد ازدواج کا اقرار ملتا ہے جس کا سلسلہ سترہویں صدی تک جاری رہا پھر 1750 میں اس کی ممانعت کردی گئی ۔ ابتدا میں یہ پابندی پادریوں تک محدود تھی پھر عام لوگوں تک پہنچ گئی۔
اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں بھی اہل عرب بنا کسی قید و شرط کے تعدد ازدواج پر کثرت سے عمل کرتے تھے۔
آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت پر سب سے زیادہ اعتراضات کرنے والی قوم کے مذہب ہندو دھرم کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ہندو دھرم میں قدیم زمانے سے موجودہ زمانے تک اس کی اہمیت مسلم ہے۔
The position of women in Hindu Civilization کے مصنف ڈاکٹر
- S. Aleskar اس سچائی کو بیان کرتے ہیں کہ ویدک لٹریچر میں تعدد ازدواج یعنی پولیگیمی کے حوالے قطعی طور پر زیادہ ہیں۔
ہندو دھرم کے پیروکار رام چندر جی کو اپنا بھگوان مانتے ہیں اور ان کے والد راجہ دشرتھ کی متعدد بیویاں تھیں اور اسی طرح سری کرشن جی کی بھی ہزاروں گوپیاں اور بہت سی بیویاں تھیں جبکہ ہندو انہیں اپنا اوتار مانتے ہیں۔
اسی طرح ان کے ہاں ہر طبقے کے اعتبار سے بیویوں کا رواج ہے جیسا کہ برہمن کے لئے چار کشتری کے لئے تین ویش کے لئے دو اور شودر کے لئے ایک بیوی ہوگی۔
مذہب اسلام چونکہ ایک آفاقی مذہب ہے اور لوگوں کے معاملات اور ان کے احوال کو منظم کرنے کے لئے آیا ہے چنانچہ تعدد ازدواج میں بھی حد بندی کی اور چار کی تعیین کی۔ اس سلسلے میں احتیاطی پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ حدود قیود مثلا مساوات و برابری اور عدل و انصاف کے ساتھ اجازت دی تاکہ معاشرہ فتنہ ، بدکاری و فحاشی اور معاشی بدحالی سے پاک ہوجائے مگر ساتھ ہی عدم مساوات کی صورت میں صرف ایک کی تحديد کردی۔ ارشاد باری تعالٰی ہے: وان خفتم ألا تعدلوا فواحدة أو ما ملكت أيمانكم ” ( سورہ نساء: 19)
ترجمہ: اور اگر تمہیں نا انصافی کا خوف ہو تو پھر ایک ہی جائز ہے یا پھر باندیوں پر اکتفا کرو۔
تعدد ازدواج کا مقصد جوانی کی تکمیل یا عورتوں کا بدلنا نہیں ہے بلکہ متعدد ضرورتوں و پریشانیوں کا یہ ضروری حل ہے تاکہ مذہب اسلام زندگی کی ضرورتوں اور پریشانیوں کے آڑے نہ آئے۔
تعدد ازدواج کی حکمت کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرحلہ وار شادیوں پر مختصرا روشنی ڈالی جائے تاکہ اس کی حکمت کے پہلو از خود واضح ہونے لگیں۔
پہلا نکاح : حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہوا جن کی عمر اس وقت 40 سال تھی اور دو بار بیوہ ہوچکی تھیں جب کہ آپ کی عمر 25 برس تھی۔ نیز پیغام نکاح نبی کی جانب سے نہیں بلکہ حضرت خدیجہ کی جانب سے آیا تھا جسے آپ نے اپنے چچا کے سپرد کردیا اور پھر آپ کے چچا نے اسے ایک بہتر رشتہ قرار دیتے ہوئے آپ کے نکاح کا بندوبست کردیا۔ ابراهيم رضی اللہ عنہ کے علاوہ آپ کے تمام بچے انہی کے بطن سے تھے اور آپ ان کی حیات میں کسی دوسری شادی کی طرف مائل نہ ہوئے اور بخوشی ان کے ساتھ وقت گزارا یہاں تک کہ آپ کی وفات سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اس سال کو عام حزن قرار دے دیا۔
دوسرا نکاح: حضرت خدیجہ کی وفات کے وقت غالبا دو بچیوں کی شادیاں ہوگئی تھیں یا بعض روایت کے مطابق تین کی ہوئی تھیں۔ بہرکیف بچوں کی دیکھ بھال کے لئے ایک مہذب نگراں یعنی خاتون کی ضرورت تھی لہٰذا خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا کے مشورے سے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا کیا جواس وقت 51 سال یا بعض روایت کے مطابق 55 سال کی تھیں اور بیوہ ہوچکی تھیں اور معاشی و معاشرتی اعتبار سے بالکل بے سہارا تھیں۔ آپ کا یہ نکاح ان سے اس صورت میں ہوا جب آپ کے پاس ایک کنواری حضرت عائشہ اور دوسری بیوہ حضرت سودہ کے اختیار کرنے کا آپشن تھا مگر آپ نے بنیادی ضرورت کی تکمیل کے لیے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو منتخب کیا۔
تیسرا نکاح: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کیا جس کے سلسلے میں وہ دو بار خواب میں حضرت جبریل علیہ السلام سے اشارہ پا چکے تھے کہ یہ تمہاری زوجہ ہے۔ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دوستی کو رشتہ داری میں تبدیل کرایا کیونکہ یہ واحد ایسے شخص تھے جنہوں نے بلا تامل و توقف نبوت کا اقرار کیا اور معراج کے واقعہ پر آپ کی تصدیق کی۔
چوتھا نکاح: حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے کیا جو کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں اور بیوہ ہوچکی تھیں اور حضرت عمر ان کے لئے بہت فکر مند رہتے تھے۔ آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس پیغام نکاح بھیجا تو آپ نے اسے رد کردیا۔ پھر آپ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا تو انہوں نے بھی خاموشی اختیار کر لی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر کی فکر کو دور کرنے کے لئے ان سے نکاح کیا تاکہ دوستی بھی مستحکم ہوجائے اور اس طرح اسلام کو ایسا قائد مل جائے جس کی دنیا آج بھی تمنا کرتی ہے۔
پانچواں نکاح : حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا سے کیا جو کہ ایک بیوہ تھیں۔ آپ نہایت سخی اور فیاض تھیں لہٰذا آپ کو ام المساکین کا لقب ملا۔ آپ کی انہی خوبیوں کی بنا پر آپ نے انہیں اپنی زوجیت میں لیا تاکہ ایک بیوہ کو سہارا مل سکے۔
چھٹا نکاح: حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے کیا جن کے شوہر غالبا غزوہ احد میں شہید ہوچکے تھے اور آپ حاملہ تھیں۔ وضع حمل کے بعد آپ نے ان سے نکاح کیا۔
ساتواں نکاح: حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے کیا جو کہ مطلقہ تھیں۔ اس نکاح کے پس پشت دو حکمتیں تھیں۔ ایک یہ کہ زینب اعلی خاندان سے تھیں جب کہ زید غلام تھے تو ان کا باہم نکاح کرایا جب کہ عربوں میں یہ معیوب بات تھی۔ دوسری اس رسم کا خاتمہ جو کہ متبنی کی مطلقہ یا بیوہ کے متعلق تھی کہ کوئی اپنے لے پالک بیٹے کی بیوہ یا مطلقہ سے نکاح نہیں کرسکتا تھا۔
آٹھواں نکاح: حضرت جویریہ سے ہوا جو کہ قید ہوکر آئی تھیں۔ وہ قبیلہ بنی مصطلق کے سردار کی بیٹی تھیں۔ لہٰذا ان کی عزت و منزلت کو دیکھتے ہوئے صحابہ کرام نے آپ سے شادی کا مشورہ دیا۔ اس طرح عداوت کا خاتمہ ہوا کیونکہ یہود و نصارٰی کے ہاں نبوت کے سلسلے میں ایک تعصب پایا جاتا تھا کہ ایک امی اور ناتراشیدہ قوم میں ایک نبی کیسے آ سکتا ہے۔
نواں نکاح: حضرت صفیہ سے ہوا جو ایک یہودی سردار حی بن اخطب کی بیٹی تھیں۔ قید سے آزاد ہوئیں تو آپ نے ایک مصلحت کے تحت ان سے نکاح کیا تاکہ باہم خونریزی اور قتل و جدال کا خاتمہ ہو۔
دسواں نکاح: حضرت ام حبیبہ سے کیا جو ابو سفیان اور ہند بن عتبہ کی بیٹی تھیں۔ یہ نکاح مشرکین مکہ کے سردار کی بیٹی سے کیا جب کہ وہ بیوہ ہو چکی تھیں کیونکہ عربوں کی ایک عادت تھی کہ وہ بیٹی کا رشتہ کسی قبیلے یا خاندان میں کرنے کے بعد جنگ بند کر دیتے تھے۔
گیارہواں نکاح: حضرت میمونہ بنت حارثہ سے کیا جو مطلقہ تھیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ سارے نکاح اس آیت سے پہلے ہوچکے تھے جس میں مسلمانوں کے لئے چار نکاح کی مشروط حد بندی کردی گئی ہے۔ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوئے یا کفار مکہ نے مسلمان عورتوں کو طلاق دے دی تو آپ نے ان سے نکاح کر لیا اور مسلمانوں کو بیوہ اور مطلقہ عورتوں سے نکاح کرنے کی ترغیب دی۔
آپ نے اس معاملے میں نہ صرف ترغیب دی بلکہ پہلے عمل کرکے دکھایا کیونکہ بزبان قرآن ” لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوہ حسنہ ” آپ امت کے لئے رول ماڈل ہیں جس کا اطلاق زندگی کے تمام معاملات پر ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر آپ صرف کنواری سے شادی کرتے تو مطلقہ کے لئے رول ماڈل کیسے بنتے اور اگر صرف مطلقہ سے شادی کرتے تو کنواری کے لئے امت کو عملی نمونہ کیسے دکھاتے اور دیگر ازواج سے شادیاں نہ کرتے تو مساوات و برابری اور عدل و انصاف کا پیمانہ امت کے سامنے کیسے پیش کرتے؟
اب رہا عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر کا معاملہ جو آج نشان زد پر ہے تو اس کی توثیق زیادہ تر روایات کے مطابق ان کی عمر نکاح کے وقت 6 سال اور رخصتی کے وقت 9 سال ملتی ہے۔ جب کہ تاریخ طبری کے مطابق نکاح کے وقت 17 سال اور رخصتی کے وقت 19 سال تھی۔ چنانچہ تاریخ طبری کے مطابق تنازع کی کوئی صورت ہی نہیں رہتی۔
اور رہا نو سال کی عمر میں رخصتی کا معاملہ تو یہ عربوں کے ہاں عام کلچر تھا۔ چنانچہ بعض تاریخی روایات کے مطابق بعض بچیاں 12 یا 13 سال کی عمر میں ماں بن جاتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت سے اب تک کسی نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ عربوں نے آپ کو ساحر ، کاہن یا مجنوں کا لقب تو دیا مگر اس ضمن میں کسی نے آپ پر انگلی نہ اٹھائی اور نہ ہی اسے ظلم سے تعبیر کیا کیونکہ یہ ان کے ہاں کوئی معیوب بات نہیں تھی۔
اکیسویں صدی میں ایک مستشرق نے اس پر سوال اٹھایا جو آج ایک موضوع بحث بنا ہوا ہے۔
اور دور جدید میں گوگل سروے کے مطابق ہر آٹھویں لڑکی کی شادی child hood ہوتی ہے۔ اور ہندوستانی قوانین کے مطابق 1980 تک شادی کے لئے لڑکی کی عمر 10 سال تھی اس کے بعد 12 کی گئی پھر اسے بڑھا کر 18 اور اب 21 سال کردی گئی ہے اور یہ تمام قوانین بننے کے بعد بھی آج بھی ہر آٹھویں لڑکی childhood marriage کا شکار ہے۔
دشمنان دین کے بے جا اعتراضات کی قلعی اس وقت کھل جاتی ہے جب ہم سیرت مطہرہ پر نظر ڈالتے ہیں اور ابتدائے نبوت کے واقعات کا سرسری جائزہ لیتے ہیں کہ جب کافر سردار نے آپ کو پیشکش کی کہ اگر کسی اعلی قبیلے کی خوبصورت لڑکی سے نکاح کرنا چاہو تو کرلو مگر نبوت کا کام چھوڑ دو تو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا :” ایک ہاتھ پر چاند اور ایک پر سورج رکھ دو تب بھی نبوت کا کام نہیں چھوڑوں گا”۔
آپ ایک معزز خاندان سے تعلق رکھنے والے انتہائی خوبرو اور باوقار نوجوان تھے جس کے لئے خوبصورت اور کم عمر لڑکیوں کی کوئی کمی نہ تھی مگر عنفوان شباب میں اپنی عمر سے دوگنا اور دو مرتبہ بیوہ عورت سے نکاح اس بات کا غماز ہے کہ آپ کا متعدد عورتوں سے شادی کا مقصد جنسی ہوس کی تکمیل نہیں بلکہ ایک صالح اور مستحکم معاشرے کی تشکیل میں ایک بنیادی پیش رفت ہے۔
آپ کے متعدد عورتوں سے نکاح کے پیچھے جو حکمتیں پوشیدہ تھیں وہ مختصرا یہ ہیں:
- عداوت کا خاتمہ
- اسلام کا وسیع پیمانے پر فروغ
- بے جا رسوم و رواج کا خاتمہ
- جنگ و جدال کا خاتمہ
- مطلقہ اور بیواؤں کو سہارا
- معاشرے کی خوشحالی
- حسب و نسب پر فخر و مباہات کا خاتمہ
- خواتین سے متعلق اسلامی تعلیمات کا رواج
مذکورہ بالا دلائل کے تناظر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ تعدد ازدواج آپ کا ایجاد کردہ کوئی ایجنڈا نہیں ہے بلکہ زمانہ قدیم سے اس پر عمل ہوتا آرہا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس پر عملدرآمد محض ایک مضبوط و مستحکم معاشرے کی تشکیل کے پیش نظر تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں آپ کی شان میں کیچڑ اچھالنے والوں نے جب یہ گھناؤنی حرکت کی تو چشم فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ ” و رفعنا لک ذکرک ” کے مصداق آپ کی پاک ذات کی حقیقت اوروں پر آشکار ہوئی اور کروڑوں افراد میں اسلامی تعلیمات اور سیرت رسول سے متعارف ہونے کی جستجو پیدا ہوئی اور نتیجتا فرزندان اسلام کی تعداد میں اضافہ ہی ہوا کیونکہ:
تم جتنا گرانا چاہو گے وہ اتنا ہی اوپر اٹھے گا
ہو شمع ہدایت گُل کیسے، خود ذات ہی جس کی فائق ہو
بے نام ہوئے اعدائے دیں، نابود ہوئے گستاخ رسول
اس ذات کا بگڑے کیا جس کا، الله محافظ، واثق ہو
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page