طارق چھتاری کے افسانوں کے انگریزی ترجمے (دی نیم پلیٹ)مترجم: اے نصیب خان -حقانی القاسمی
زبانیں جب اپنی زمین تک ہی محدود رہ جاتی ہیں تو پھر اس کا دائرہ بہت مختصر ہوجاتا ہے اور جب زبانیں اجنبی سمتوں میں سفر کرتی ہیں تو اس کے اثرات لامحدود ہوجاتے ہیں۔ اس طرح سے لسانی، ثقافتی تعامل اور تفاہم کی جو صورت نکلتی ہے وہ بہت سی غلط فہمیوں، شکوک و شبہات اور مفروضات کا ازالہ بھی کرتی ہے۔
ترجمے کا عمل نہ ہوتا تو شاید تہذیبیں ایک دوسرے سے مانوس نہیں ہوپاتیں اور مختلف قوموں، زبانوں کے مابین اجنبیت، بیگانگی کی دیوار ہمیشہ کھڑی رہتی۔ لیکن ترجمے سے بہت سے دریچے کھلے ہیں اور ایک دوسرے کے لسانی اور تخلیقی کلچر سے مانوس ہونے کا رجحان بڑھا ہے۔ اگر انگریزی سے اردو میں ترجمے نہ ہوئے ہوتے تو شاید ہم اہم علمی، ادبی اور ثقافتی سرمائے سے محروم ہوجاتے۔ ہماری زبان کی ثروت میں تراجم کے ذریعے بہت اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح اردو زبان سے انگریزی اور دوسری زبانوں میں جو ترجمے ہوئے ہیں ان سے اردو زبان کی اہمیت، معنویت اور عظمت بڑھی ہے اور دوسری زبانوں پر ہمارے افکار و تصورات کا عمدہ تاثر قائم ہواہے۔ اردو زبان کی خوش نصیبی ہے کہ اس کے بہت سے شاہکار انگریزی اور دوسری زبانوں میں منتقل کیے گئے جس کی وجہ سے دوسری زبانوں کے تخلیق کاروں اور ناقدین کو بھی اس زبان سے دلچسپی پیدا ہوئی۔یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ اردو سے انگریزی میں سب سے پہلا ترجمہ ایک انگریز Duncan Forbes L.L.D. نے کیا یہ میرامن کے ’باغ و بہار‘ کا ترجمہ تھا جو The Tale of Fourdervishesکے عنوان سے شائع ہوا۔
مشاہیر اردو شعرا کے انگریزی میں ترجمے ہوچکے ہیں، خاص طو رپر بہادر شاہ ظفر، غالب، میر، اقبال، فیض، فراق، میراجی، ن۔م۔ راشد، اخترالایمان، ساحر، گلزار، جینت پرمار وغیرہ کے ترجمے کیے گئے ہیں۔ اسی طرح فکشن کے ترجمے بھی انگریزی میں ہوتے رہے ہیں، خاص طور پرڈپٹی نذیر احمد کی ’مراۃ العروس‘،قرۃالعین حیدر کی ’آگ کا دریا‘، راجندر سنگھ بیدی کی ’ایک چادر میلی سی‘پریم چند کی ’بازار حسن‘مرزا ہادی رسوا کی ’امراؤ جان ادا‘ کے ترجمے بہت مقبول ہیں۔مرأۃالعروس کا ترجمہG.E.Wardنے Brides Mirror،آگ کا دریا کا ترجمہ The River of Fireخود مصنفہ نے کیا۔ پریم چند کے بازار حسن کا ترجمہSnehalShingaviنے اور ایک چادر میلی سی کا ترجمہ خشونت سنگھ نے I Take This Womanکے عنوان سے کیا۔امراؤ جان ادا کا انگریزی میں ترجمہ خشونت سنگھ اور ایم اے حسینی نے مل کر کیا ہے۔
ان کے علاوہ سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، انتظار حسین، نیر مسعود، سید محمد اشرف،پیغام آفاقی، رحمان عباس، شمویل احمد، ذکیہ مشہدی، علی امام نقوی، خدیجہ اصغر اور دیگر فکشن نگاروں کے انگریزی میں ترجمے ہوتے رہے ہیں اور ترجمہ کرنے والے بھی ایسے لوگ ہیں جنھیں ادبی دنیا میں شہرت و مقبولیت حاصل ہے۔ اردو سے انگریزی میں جن ترجمہ نگاروں نے اپنی الگ شناخت قائم کی ہے، ان میں خوشونت سنگھ، قرۃ العین حیدر، شمس الرحمن فاروقی،کے سی کانڈا، سی ایم نعیم، کلدیپ سلیل، محمد عمر میمن، سعید نقوی، رخشندہ جلیل، طاہرہ نقوی، امینہ ظفر، انیس الرحمن، پروفیسر اسد الدین، بیدار بخت، جی ای وارڈ، ڈیوڈ میتھیوز، رالف رسل، اعجاز احمد، خواجہ طارق، Frances W Pritchett، باراں فاروقی، یوگیندر بالی، امینہ قاضی انصاری، نشاط زیدی، سیدہ سیدین حمید، عصمت جہاں، مشرف علی فاروقی، جے ایل کول، صفیہ صدیقی، عزیز پریہار، خالد حسن، آلوک بھلّہ، سریندر دیول، رضوان اللہ فاروقی، اطہر فاروقی، محمود احمد کریمی، سنجیوصراف، محمود جمال، ہما خلیل، معاذ بن بلال وغیرہ بہت اہم ہیں جنھوں نے اردو کی شاعری اور فکشن اور دیگر تخلیقات کے ترجمے انگریزی زبان میں کیے ہیں اور ان کے ترجموں کو انگریزی حلقوں میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا بھی گیا ہے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے A Bibliography of Short Stories in English Translation کے عنوان سے ایک مضمون لکھا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انگریزی میں اردو کی بہت سی شاہکار کہانیو ںکے ترجمے ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ ساہتیہ اکادمی کے انگریزی مجلہ ’دی انڈین لٹریچر‘ اور محمد عمر کے ’دی اینول آف اردو اسٹڈیز‘ عزیز پریہار کی Urdu A live اور جرنل آف اردو اسٹڈیز وغیرہ میں انگریزی میں اردو ادبیات پر مضامین اور ترجمے شائع ہوتے رہے ہیں۔
طارق چھتاری بھی ان خوش نصیبوں میں سے ہیں جن کے اردو افسانو ںکے ترجمے انگریزی اور دیگر زبانوں میںہوئے ہیں۔ طارق چھتاری اردو فکشن کا ایک معتبر نام ہے۔ جن کا افسانوی مجموعہ ’باغ کا دروازہ‘ بہت مشہور ہے۔ اس میں بہت سے ایسے افسانے ہیں جن پر تنقیدی گفتگو ہوتی رہی ہے۔ ایسے ہی عمدہ افسانوں کا انتخاب اور ترجمہ مشہور مترجم اور انگریزی کے شاعر اور ادیب ڈاکٹر اے نصیب خان نے کیا ہے جو بہ حیثیت مترجم نمایاں شناخت رکھتے ہیں۔ انھوں نے خالد جاوید کے مشہور ناول ’مو ت کی کتاب‘ اور معین احسن جذبی کے مونوگراف کے علاوہ غالب کے اشعار کا ترجمہ بھی کیا ہے اور انھیں دہلی اردو اکیڈمی کی طرف سے ترجمے کا ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔
عبدالنصیب صاحب انگریزی زبان پر عبور کے ساتھ ساتھ اردو زبان کے آداب و اسالیب سے بھی اچھی طرح واقف ہیں، مصدر اور مستہدف (Source & Target Language) دونوں زبانوں پر انھیں دسترس حاصل ہے۔ اسی لیے انھوں نے طارق چھتاری کے افسانوں کا بہت عمدہ ترجمہ کیا ہے۔ پروفیسر محمد اسدالدین نے یہ اعتراف کیا ہے کہ ان کی زبان میں Source Languageکا ذائقہ موجود ہے۔ عبدالنصیب خان نے ترجمے میں اردو کی لطافت، سلاست اور نزاکت کا خاص طور پر خیال رکھا ہے اور کہیں بھی ترجمے میں سقم کا احساس نہیں ہوتا۔ وہی روانی و سلاست ہے جو طارق چھتاری کے اردو افسانوں میں ملتی ہے۔انھوں نے انگریزی ترجمے میں اردو کے Essence کو برقرار رکھا ہے۔ عبدالنصیب خان نے صرف ترجمہ ہی نہیں کیا ہے بلکہ طارق چھتاری کے اافسانوں پر ایک بیش قیمت مقدمہ بھی تحریر کیا ہے اور ان کے افسانوی ابعاد کا تنقیدی احاطہ بھی کیا ہے جس سے ترجمہ نگار کے تنقیدی شعور کا اندازہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر عبدالنصیب قابل مبارکباد ہیں کہ وہ اردو زبان کے تخلیقی سرمائے سے انگریزی داں حلقے کو متعارف کرا رہے ہیں۔ یہ عمل بہت ضروری ہے کیونکہ انگریزی جیسی زبان کے ذریعے ہی عالمی شناخت اور رسائی کا دائرہ وسیع ہوسکتا ہے اور دوسری زبانوں میں ترسیل کی صورت نکلنے سے ایک وسیع تر ریڈر شپ بھی حاصل ہوتی ہے۔ آج یہ بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ عالمگیر مقبولیت اور گلوبل ریڈرشپ کے لیے انگریزی ترجمے کی نہایت شدید ضرورت ہے کیونکہ ہم نے بہت سے اہم تخلیق کاروں کو انگریزی کے وسیلے سے ہی جانا پہچانا ہے۔ گابریل مارکیز اور اورہان پامک کو انگریزی کی وجہ سے بہت دور دور تک شہرت اور مقبولیت ملی ہے ۔ مرزا غالب اور دیگر شعرا کی عالمی شہرت و شناخت کا ایک ذریعہ انگریزی ترجمہ بھی ہے۔ رابندرناتھ ٹیگور کو نوبل پرائز بھی شاید ’گیتانجلی‘ کے انگریزی ترجمے کی وجہ سے ہی ملا۔اسی سیاق و سباق میں عالمی سطح پر اردو کی ثقافتی نمائندگی کا اہم سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ انگریزی اور دیگر زبانوں میں نمائندگی کا تناسب کیا ہے؟ اس پر غور کیا جائے تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ انگریزی سے اردو میں تو بہت سے ترجمے ہوچکے ہیں مگر اردو سے انگریزی میں کم ترجمے ہوئے ہیں۔ کیفیت اور کمیت کا بہت فاصلہ ہے جس کی وجہ سے ہمارے بہت سے اہم تخلیق کارتمام تر تخلیقی قوتو ںکے باوجود عالمی شہرت و شناخت سے ہنوز محروم ہیں۔
اب یہ پتہ لگانا ضروری ہے کہ انگریزی میں اردو زبان کی شاہکار کتابوں کے کتنے ترجمے ہوئے ہیں، ان پر دوسری زبان کے قارئین اور ناقدین کا کیا ردعمل ہے۔ مجھے یقین ہے کہ دوسری زبانوں کے قارئین ایسے ترجموں سے نہ صرف محظوظ ہوں گے بلکہ انھیں ہماری لسانی اور ادبی قوت اور ثروت کا بھی احساس ہوگا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
1 comment
ماشاءاللہ تحریر فکر انگیز اور لسانیاتی تعامل کے حوالے سے چشم کشا ہے۔