نسیم اشک کا تنقیدی اختصاص :’بساط فن‘ کے حوالے سے – ڈاکٹر محمد علی حسین شائق
از : *ڈاکٹر محمد علی حسین شائق*
(گیسٹ لکچرار ، شعبہ اردو ،آر۔ بی ۔ سی کالج فا ومین ، نئی ہٹی ، موبائل: 9831530259 )
ادب زندگی کے گو نا گوں پہلوئوں کو کرید کر صفحہء ابیض پر پیش کرنے کا نام ہے ۔تخلیق کائنات کے ساتھ ہی زندگی تغیر کا شکار ہونے لگی تھی اور رفتہ رفتہ اس کے اندر تغیر پیدا ہوتا گیا ۔اور آج اس نہج پر آپہنچی ہے کہ ہم زندگی جی رہے ہیں یا نہیں ہمیں اس کاپتہ نہیں لیکن پھر بھی زندگی جی رہے ہیں ۔آج سائنس اور ٹکنالوجی کازمانہ ہے ۔ دنیا بنا سوچے سمجھے برق رفتاری کے ساتھ ایک سمت بھاگے جارہی ہے ۔کہاں بھاگے جارہی ہے اس کا علم اسے بھی نہیں ہے لیکن اس دنیا کی ایک حد تو ہے وہاں جاکر اسے تھم ہی جانا ہے لیکن اس باوجود بھی حضرت انسان کو اس بات کا احساس نہیں ہے اور چاند کی سطح پر قدم رکھنے کے بعد سورج تک پہنچنے کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں ۔ میں اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہو کہ اسے انسان کی ترقی کہی جائے یا تنزلی یا لاعلمی؟تنزلی کہینگے تو ہر کوئی مجھے احمق گردانے گا ، لا علمی کہینگے تو ہر کوئی ما قبل تاریح کا انسان سمجھے گا ۔ چلئے اسے ترقی ہی کہہ لیتے ہیں ۔لیکن اب میرے اندر کا ضمیر کریدنے لگتا ہے اور مجھ سے سوال کرنے لگتا ہے ۔ میں گھبرا جاتا ہوں ۔تاہم مجموعی طور پر سبھوں کا خیال ہے کہ آج کا انسان بہت آگے نکل چکا ہے ۔ایسی صورت میں ادب اپنے فنکار کو تلاش کر لیتا ہے اور اس کے اندر موجود فن کی خوبیوں کو کریدناشروع کردیتا ہے ۔ پھر اس کے اندر موجود تنقیدی،تخیلاتی،تاثراتی فنکار تحریر کی شکل میں صفحہ قرطاس پر نمودار ہوجاتا ہے جہاں سے وہ مزید تنقید ،تخیل اور تاثر کو جلا بخشتا ہے ۔
مغربی بنگال میں اگر ایسے فنکاروں کی فہرست سازی کی جائے جو نئی نسل سے تعلق رکھتے ہیں تو کئی ایک ناموں میں ایک نام نسیم اشک کا بھی ضرور شامل ہوگا ۔۔ نسیم اشک کے اندر بیک وقت کئی فنکار بستا ہے ۔ وہ ایک افسانہ نگار ہیں ، ایک مقالہ نگار ، ایک شاعر اور ایک مضمون نگار وغیرہ ۔ شاید ہی کوئی ایسا فنکار ہو جس میں یہ ساری خوبیاں موجود ہوں اور ان چاروں اصناف کے ساتھ یکساں سلوک کرتا ہو۔ نسیم اشک کا سب سے اہم اختصاص یہ ہے کہ وہ کم گو ہیں لیکن بسیار نویس ضرور ہیں ۔ کم بول کر زیادہ لکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور کامیابی کے ساتھ لکھتے بھی ہیں ۔جب وہ افسانہ لکھتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ افسانے کے فن میں ڈوب جاتے ہیں پھر افسانہ لکھتے ہیں ، جب شاعری کرتے ہیں تو وہ شعر کے فنی محاسن کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے شعر کہتے ہیں ۔ جب تحقیقی مضامین لکھتے ہیں تو تحقیق کے فنی لوازم کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں اور پوری تحقیق کے سا تھ مضمون لکھتے ہیں اور جب وہ تنقید کو ہاتھ لگاتے ہیںں تو اس کے فنی لوازم کو اتنی خو بصورتی کے ساتھ برتتے ہیں کہ جہاں تنقید کو عام قاری شدت پسندی سے تعبیر کرتا ہے وہیں نسیم اشک تنقید کے اندر شائستگی ، سلاست اور نرم روی کے ذریعہ اپنے مضمون کو اختتام تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
حقانی القاسمی نے نسیم اشک کے حوالے سے بہت عمدہ بات کہی ہے ۔ملاحظہ کیجئے: ’’نسیم اشک نے اپنے اس مجموعے میں شمس و قمر ، لعل و گہر ، نجوم و جواہر اور نئی جہات کی جستجو کا جو فریضہ انجام دیا ہے وہ قا بل داد ہے۔توغل کے فقدان کی وجہ سے اردو زبان و ادب میں موضوعی سطح پر جو بحران کی کیفیت طاری ہے ، نسیم اشک نے اس سے نجات دلانے کی اچھی کوشش کی ہے۔ انہوں نے اپنے تنقیدی تاثرات کا اظہار سادہ اور سلیس انداز میں کیا ہے ۔ ان کی تنقیدی زبان میں زولیدگی اور ابہام نہیں ہے ۔ فنکاروں کے امتیازات اور اختصاصات کی نشاندہی بھی خوب صورت پیرائے میں کی ہیں ۔‘‘ ( بیک فلیپ پر ، بساط فن )
نسیم اشک مغربی بنگال کے نئی نسل کے ایک اہم اور معتبر ادیب ہیں ۔انہوں نے ادب میں اپنی مستحکم پہچان بنا لی ہے ۔ وہ بیک وقت شاعر ، افسانہ نگار ،اور تنقید نگار بھی ہیں ۔ نئی نسل میں تنقید لکھنا تو دور کی بات ، پڑھنے کا رجحان بھی نظر نہیں آتا ہے ۔لیکن نسیم اشک کے یہاں یہ خوبی بدرجہ اتم موجود ہے ۔
تنقید ان کا پسندیدہ باب ہوتا ہے ۔وہ صر ف تنقید پڑھتے ہی نہیں بلکہ خود کو اس میں گم کرکے کچھ نئی چیز کی بازیافت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یقین جانئیے ادب ایک ایسا بیش بہا خزانہ ہے کہ اس کی گہرائی میں آپ جتنا اتر تے جائینگے اتنا ہی نئی چیز کی بازیافت ہوتی جائے گی ۔نسیم اشک کچھ ایسا ہی جوکھم کا کام کرتے ہیں ۔ اب تک ان کی تین کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ۔ ایک شعری مجموعہ نثری نظموں کی شکل میں ’’ دل کا موسم ‘‘ کے نام سے اور دوسری کتاب تنقیدی و تاثراتی مضامین کا مجموعہ’’ بساط فن ‘‘ کے نام سے منظرعام پر آچکی ہے۔ ان کی تیسری کتا ب جو افسانوں کا مجموعہ ہے ’’ ’’ رات ڈھلنے کو ہے ‘‘کے نام سے منصہء شہود پر آچکی ہے ۔لیکن سر دست ان کی دوسری کتاب ’’ بساط فن ‘‘ پر گفتگو مقصود ہے ۔ ’’ بساط فن ‘‘ میں کل ۲۲ مضامین شامل ہیں ۔جن میں شخصی مضامین کے ساتھ کچھ فنکاروں کے فن اور ان کی تخلیقات پر بھی گفتگو کی ہے ۔ نسیم اشک کی تحریری انفراد واختصاص یہ ہے کہ ان کے یہاں تحریری اعتدال نظر آتا ہے ۔وہ نہ صرف نئے فنکاروں پر خامہ فرسائی کرتے ہیں بلکہ ترقی پسند ادب و دیگر فنکاروں کی تخلیقات پر بھی اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں ۔ ان کی تحریریں اس ضمن میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں ۔وہ فنکاروں کے عہدوں ںسے متاثر نہیں ہیں بلکہ ان کی تخلیقا ت سے متاثر نظر آتے ہیں ۔ان کے یہاں جو تنقیدی بصیرت نظر آتی ہے وہ اعتدال پسند تنقید ہے ۔شاید وہ اس بات کو محسوس کرتے ہیں کہ شدت پسند تنقید نہ صرف ادب کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ قاری کو بھی مطالعے سے دور کر دیتی ہے ۔تنقید میں اگر رواداری نہیں برتی گئی تو تخلیق کی اپنی شناخت ختم ہو جائے گی ۔آج کی تنقید ماضی کی تنقید سے قدر مختلف ہے ۔ہم جمالیاتی ، نفسیاتی ، ترقی پسند ،جدید ، شعور کی رو کی تنقید سے متنفر نہیں لیکن اس بات پر مضر ضرور ہیں کہ آج جبکہ زمانے کی قدریں فکری منتہائے کمال تک پہنچ گئی ہیں اور تحریری اقدار میں کافی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ، ایسے میں اگر ہم اپنی تنقید کو اسی روش پر لے کر چلینگے تو پھر ہمارا ادب سابقہ تخلیق کا متقاضی ہوگا ۔اس لئے آج کی تنقید میں اعتدال پسندی کا ہونا بہت ضروری ہے اس لئے کہ اعتدال پسند تنقید میں ادب کی چاشنی باقی بھی رہتی ہے اور قاری مصروف ہونے کے باوجود تخلیق میں فصاحت و بلاغت پاکر مطالعے کی طرف مراجعت کرے گا ۔
بہر حال نسیم اشک کے حوالے سے گفتگو ہورہی تھی کہ وہ ماضی اور حال کے فنکاروں کو اپنے احاطہ تحریر میں لاتے ہیں اس بات کا اعتراف ڈاکٹر نسیم احمد نسیم نے کتا ب کے فلیپ پر کیا ہے ۔ملا حظہ کیجئے: ’’ نسیم اشک کا ایک اختصاص یہ ہے کہ انہوں نے کثرت سے نئے اور نسبتا کم معروف ادیبوں ، شاعروں کو اپنا موضوع بنایا ہے ، جبکہ آج کی مصلحتی تنقید صرف انہیں اشخاص کا کرو فر کے ساتھ ذکر کرتی ہے جو یا تو منصبی حیثیت رکھتے ہیں یا سماجی ۔ اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ابتداء میں ہی اپنے لئے ایک ایسی ڈگر کا انتخاب کر لیا ہے جو انہیں بہتوں سے الگ ایک مقام کی طرف لے کر جائے گی جس کی تمنا میں بہترے نقاد شب و روز سر گرداں رہتے ہیں ۔‘‘
کتاب میں شامل ۲۲ مضامین میں پہلا مضمون ہی انفرادیت کا حامل ہے ۔نسیم اشک نے غالب کی غزل گوئی سے پرے غالب کے سلام کو موضوع بنا یا ہے۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ غزل کو جدید لہجہ غالب نے ہی دیا ۔ اسی لئے انہیں جدید غزل کا امام کہا جاتا ہے ۔تاہم سلام کے مطالعے سے ان کی ایک الگ فکری ابعاد کا پتہ چلتا ہے ۔ یہ تو پوری اردو دنیا جانتی ہے کہ غالب شراب کے پکے عادی تھے لیکن ان کے یہاں اہل بیعت اطہار کے تئیں محبت کا جزبہ بھی کار فرما تھا ۔ ان کے یہاں مذہب کا رنگ بھی غالب تھا اور مذہب کا احترام بھی کرتے تھے ، حالانکہ کہیں کہیں انہوں نے مذہب کے حوالے سے کچھ ایسی گفتگو کردی ہے کہ ان پر مذہبی نقطہ نگاہ سے سوالیہ نشان بھی لگا یا جا سکتا ہے ۔ ان تمام باتوں سے الگ ہٹ کر جب ہم ان کے سلام پر گفتگو کرتے ہیں تا ان کے یہاں مذہی رنگ کی جھلک نمایا ںطور پر غالب نظر آتی ہے ۔ جبکہ یہ وہی غالب ہیں جو یہ کہنے میں ذرہ برابر بھی تامل نہیں کرتے کہ :
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کو بہلانے کا غالب یہ خیال اچھا ہے
ایسے میں غالب کے سلام کو سامنے رکھ کر جب ہم ان کی شخصیت پر غور کرتے ہیں تو ان کے یہاں اہل بیعت اطہار سے گہری وابستگی کا بھی پتہ چلتا ہے ۔اور اپنی شدید محبت کا اظہار اپنے اشعار میں کرتے ہیں ۔نسیم اشک نے غالب کی اس انفرادی خوبی کر منصئہ شہود پر لانے کی جسارت کی ہے ۔اب تک غا لب پر جتنے مضامین لکھے گئے ہیں ان میں زیادہ تر ان کی غزل گوئی اور مکتوب نگاری شامل ہیں۔لیکن نسیم اشک نے روایت سے انحراف کرتے ہوئے غالب کی اس نمایاں خوبی کو سامنے لانے کی کامیاب جسارت کی ہے جس جانب کم لوگوں کی نگاہ جاتی ہے ۔
غالب کے ذریعہ لکھا گیا سلام کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ غالب کے یہاں اہل بیعت سے حد درجہ محبت و عقیدت تھی ۔ اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہائے یہ کہنے سے دریغ نہیں کرتے کہ جس نے حسین سے بغض و عناد رکھا ، حضرت علی سے دشمنی رکھی وہ بھلا اچھا انسان کیسے ہو سکتا ہے ۔ یہ کھلی حقیقت بھی ہے کہ اہل بیعت سے دشمنی رکھنے والا ، کبھی بھی اچھا انسان نہیں ہو سکتا کیونکہ اہل بیعت نے انسانیت کا درس دیا ، آدمیت کا سبق پڑھانے کی کو شش کی۔حق و باطل کے درمیان فرق کو واضح کیا ۔ لہذا یہ مضمون اپنے اندر انفراد و اختصاص رکھے ہوئے ہے ۔
کتاب میں شامل دوسرا مضمون ’’ فیض ‘‘پر ہے ۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ فیض کا تعلق ترقی پسند تحریک سے تھا اور فیض کی شاعری پر اب تک بہت کچھ لکھا جا چکا ہے ۔شاعری کے علاوہ فیض کے خطوط کا مجموعہ ’’صلیبیں مرے دریچے میں ‘‘ بھی انفرادیت کاحا مل ہے ۔ نسیم اشک نے فیض کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے فیض کے اسلوب سے بحث کر نے کی جسارت کی ہے ۔ فیض نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز غزل گوئی سے کی لیکن شہرت انہیں نظم گوئی سے حاصل ہوئی ۔یقینا فیض کی شاعری کے حوالے سے جس طرح گفتگو کی ہے وہ انفراد رکھتا ہے ۔ فیض کی شاعری میں جو انفراد و اختصاص محسوس کیا ہے وہ یہ کہ ان کے یہاں اظہار میں شگفتگی ، ندرت اور معنویت کی تہہ داری بدرجہ اتم نظر آتی ہے ۔اس کے علاوہ فیض کی نظموں میں انقلابی فکر ،درد مندی ، دلآویزی اور غنائیت وغیرہ کا اظہار خوب صورت پیرائے میں ملتا ہے ۔فیض کے یہاں جہاں انقلاب کی آہٹ سنائی دیتی ہے وہیں موصوف فیض کی نظموں میں موصوف رومان پسند لہجے کی دھیمی آہٹ بھی محسوس کرتے ہیں ۔ مختصر یہ کہ انہوں نے فیض کی نظم نگاری کے مختلف پہلوؤں پر نظر ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔
حقیقت کی دنیا میں جب انسان تجربے کے دور سے گذرتا ہے تو اس سفر میں نا ہموار حا لات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے لیکن ایسے نا ہموار پڑاؤ میں بھی وہ انسان کامیاب و کامران رہتا ہے جو اس ناہموار ی کو ایک تجربہ سمجھ کر آگے گذر جاتا ہے ۔لہذا لوگوں کے تناؤ زدہ ذہن و دماغ کو فرحت و تازگی بخشنے کے لئے کچھ ایسی تحریریں بھی منظر عام پر آتی رہتی ہیں جس سے قاری کے تناؤ زدہ ذہن و فکر پر راحت و اطمینان کی لکیریں ابھر آتی ہیں ۔ ایسا ہی ایک ادیب جس کے یہاں یہ فن پایا جاتا ہے وہ یقینا طنز و مزاح نگار یا انشائیہ نگار ہی ہو سکتا ۔ اردو ادب کے ایسے ہی ایک طنزو مزاح نگار کا نام پطرس بخاری ہے ۔موصوف نے پطرس بخاری کی انشائیہ نگاری پر مضمون لکھ کر ان کے مختلف گوشوں کو ابھارنے کی کوشش کی ہے ۔ایک کامیاب مزاح نگار وہی ہو سکتا ہے جو طنزکے خوبصورت تیر کو آہستگی کے ساتھ چبھو کر غیر ضروری مادہ کو باہر نکال دے اور پھر مزاح کا مرہم وہاں رکھ کر اس کی تکلیف کو دور کردے ۔ پطرس بخاری نے آس پاس کے موضوعات کو اپنے احاطہ تحریر میں پرونے کی کوشش کی ہے۔انہوں نے پطرس بخاری کے فن پر اطمینان بخش گفتگو کی ہے ۔
فلمی دنیا میں ساحر لدھیانوی کو کون نہیں جانتا ہے۔ساحر لدھیانوی نے اپنی غزلوں میں دنیا کی جس شکل کو پیش کیا ہے موصوف نے اس کا خوبصورتی کے ساتھ جائزہ لیا ہے ۔ایک بات حقیقت پر مبنی ہے کہ جب کچھ نہیں تھا تب بھی خدا تھا اور جب کچھ نہ ہوگا تب بھی خدا کاوجود باقی رہے گا۔ ایسی صورت حال میں دنیا کی حقیقت ہمارے سامنے وا ہو جاتی ہے کہ یہ دنیا ایک بے معنی شئے ہے اور اس کے پیچھے بھاگنے والا انسان یقینا عقل وشعور سے بہت دور ہے ۔ساحر لدھیانوی کی غزلوں میں دنیا کی بے ثباتی واضح طور پرنظر آتی ہے ۔دنیا ایک ایسی جگہ بن گئی ہے جہاں مختلف خداؤں کا تصور عام انسانوں کو کنفیوز کر دیتا ہے اور انسان پریشان ہوکر رہ جاتا ہے ۔انسان سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ :
ہر اک دور کا مذہب نیا خدا لایا
کریں تو ہم بھی مگر کس خدا کی بات کریں
ساحر لدھیانوی نے جس طرح کی گفتگو کی ا س سے ان کی ایک خدا کی پہچان کی لا علمی جھلکتی ہے ویسے بھی ساحر لدھیانوی کا خدا کے وجود پر یقین نہیں تھا ۔ وہ دنیا پر یقین رکھتے تھے ۔نتیجے میں وہ اس طرح کی بات کہنے پر مضر ہوئے اگر وحدت الوجود کے نظر یئے پر ان کا یقین ہوتا تو شاید اس طرح کی بات نہیں کرتے ۔ بہر حال موصوف نے ان کی غزل گوئی کے حوالے سے اچھی گفتگو کی ہے۔اور ساحر لدھیانوی نے اپنی غزلوں میں دنیا کو مختلف روپ میں پیش کیا ہے۔
ترقی پسند تحریک کے نمائندہ شعرا میں مخدوم محی الدین کا نام بھی شامل ہے۔موصوف نے مخدوم محی الدین کی انقلابی شاعری کا خوبصورت احاطہ کیا ہے ۔نسیم اشک مخدوم محی الدین کی شاعری کا احاطہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ : ’’ انقلاب کا تصور ہی ان کی شاعری کا محور ہے ۔ان کے نظریے کے مطابق انقلاب ہی مظلوموں کو ان کا حق دلائے گا ۔ان کے خون پسینے کا اجر ادا کروائے گا ۔ بغیر انقلاب یہ ممکن نہیں ہے۔ مذہب کے نام پر ، کبھی قوم کے نام پر جو سیاسی روٹیاں سینکی جاتی ہیں ، مخدوم نے اس کی پر زور مخالفت کی ہے ۔‘‘ (ص: 31-32 )
مخدوم محی الدین کی نظم ’’ انقلاب ‘‘ سے چار مصرعے دیکھیں :
حیات بخش ترا نے اسیر ہیں کب سے
گلوئے زہرہ میں پیوست تیر ہیں کب سے
قفس میں بند ترے صغیر ہیں کب سے
گزر بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے
جگر مراد آبادی کی شاعری کا خوبصورت احاطہ موصوف کا مضمون ’’ تخیل کا شاعر : جگر مرادآبادی ‘‘ میں نظر آتا ہے ۔عام طور سے لوگوں کی رائے ہے کہ عشق کے میدان ، اور عشق کے آداب سے واقف صرف میر ہی ہیں لیکن ایسا ہر گز نہیں ۔ جگر کے یہاں بھی یہ معاملہ نظر آتا ہے ۔جگر کے یہاں آداب حسن کیسا ہے ۔ اس کی مثال اس شعر میں دیکھیں :
حسن کی بارگاہ میں رکھئے سنبھال کر قدم
یہ وہ مقام ہے جہاں خواہش دل حرام ہے
اس طرح موصوف نے جگر کی شاعری کا خوبصورت پیرائے میں جائزہ لینے کی کوشش کی ہے ۔’’ محفل کیف و مستی مجاز ‘‘ کے عنوان سے مجاز کی شاعری کو احاطہ تحریر میں لانے کی جسارت کی ہے ۔مجاز کی شاعری میں انقلاب کی آہٹ کے ساتھ رومان پسندی کی جھلک بھی نظر آتی ہے ۔ان کا ایک شعر جو ان کو شہرت دوام بخشتا ہے دیکھیں :
تیرے ماتھے پہ یہ آنچل بہت خوب ہے لیکن
لیکن تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا
’’ پریت کا جوگی شاعر:ارمان شام نگری ‘‘ میں موصوف نے ارمان شام نگری کی شاعری کا جائزہ لیا ہے ۔ ارمان شام نگری شمالی ۲۴ پرگنہ میں ایک استاد شاعر کی حیثیت رکھتے تھے۔ لیکن حالات کے تھپیڑوں نے انہیں خود کے اندر گم کر دیا ۔ارمان شام نگری سے میری ذاتی ملاقات بھی رہی ہے اور ابتداء میں ، میں نے بھی غزلیں کہنے کی جسارت کی اور اصلاح کی خاطر ان سے رابطہ کیا ۔ ارمان شام نگری کی شاعری یقینابہت عمیق مفاہیم لئے رہتی ہیں ۔ دوران ملاقات انہوں نے ایک جملہ کہا تھا جو مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے ۔وہ یہ کہ : ’’ میری شاعری کو سمجھنے کے لئے دماغی ورزش کی ضروت پڑتی ہے ۔‘‘
اور یہ بات بالکل صد فی صد درست ہے ۔ ان کی شاعری میں اتنی گہرائی و گیرائی ہوتی ہے کہ قاری سے وقت طلب کرتی ہے ۔غزلوں سے کہیں زیادہ ان کی نظمیں ابہام میں ڈوبی ہو ئی رہتی ہیں ۔ ان کی ایک نظم دیکھئے جو موصوف نے کوٹ کیا ہے:
’’ دیکھتے دیکھتے /بولنا/ شروع کیا /بولتے بولتے / چیخنے لگا /مگر کسی نے نہیں سنی /تو/چپ ہو گیا /ایسا چپ کہ /پتھر /پھر /لوگوں نے اسے /مجسمہ /بنا دیا !‘‘
( نظم :چیخ کے پتھر)
نسیم اشک نے ارمان شام نگری کی نظموں کو خوبصورت پیرائے میں جائزہ لیا ہے جو ان کی فنکارانہ صلاحیت کی پہچان ہے ۔
حشم الرمضان پر نسیم اشک کا بہت ہی معلوماتی مضمون ’’ فکر و احساس کی لطافت کی شان: حشم الرمضان ‘‘ ہے ۔ حشم الرمضان نہ صرف ایک شاعر تھے بلکہ ایک کامیاب استاد کے ساتھ ایک کامیاب ناقد بھی تھے ۔ان کی کتاب ’’ قلم بولتا ہے ‘‘تنقیدی ادب میں منفرد اہمیت رکھتا ہے ۔
ان مضامین کے علاوہ کتاب میں شامل مضامین ’’ صابر اقبال ‘‘، ’’ خلش امتیازی ‘‘ ، دل عرفانی ‘‘، ’’ نور اقبال ‘‘ ، ’’ مشتاق احمد حامی ‘‘ ، ’’ سیف الدین محمد عادل ‘‘، ’’ اور افضال عاقل ‘‘ کی شاعری پر موصوف نے سیر حاصل گفتگو کی ہے اور ان شعراء کی غزلوں میں نئے وزن کی تلاش و جستجو کی بھر پور سعی کی ہے ۔
اردو ادب میں نثر کے حوالے سے جہاں افسانے ، ناول وغیرہ اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں وہیں فن ترجمہ نگاری بھی کم اہمیت کی حامل نہیں ہے ۔موصوف نے عظیم انصاری کی بنگلہ کہانیوں کے ترجمے کی کتا ب’’ دو گھنٹے کی محبت ‘‘پر خامہ فرسائی کی ہے ۔ترجمہ نگاری آسان فن نہیں ہے ۔ ذراسی چوک مضمون کے اصل موضوع کو دوسری طرف موڑ دیتا ہے ۔لیکن ’’دو گھنٹے کی محبت ‘‘ کے حوالے سے موصوف نے عظیم انصاری کی فن ترجمہ نگاری پر معلوماتی گفتگو کی ہے ۔
مغربی بنگال میں نئی نسل کے نمائندہ ادباء کی فہرست میں ایک محترم نام ڈاکٹر دبیر احمد کا ہے ۔ڈاکٹر دبیر احمد کی کئی ایک کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ۔ان میں تنقیدی مضامین کے مجموعوں کے علاوہ ان کی تحقیقی کتاب ’’ ظفر اوگانوی:حیات و خدمات ‘‘ جس پر انہیں کلکتہ یو نیور سیٹی نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض کی وہ بھی منظر عام پر آکر شرف قبولیت حاصل کر چکی ہے ۔نسیم اشک نے ڈاکٹر دبیر احمد کی تحقیقی اور تنقیدی فنکاری کو خوبصورت طریقے سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔
ڈاکٹر مستمر کا افسانوی مجموعہ ’’ ارتکاب ‘‘ کے حوالے سے نسیم اشک نے ان کی افسانہ نگاری کا جائزہ لیا ہے ۔ اس کے علاوہ موصوف نے ڈاکٹر تسلیم عارف کے تحقیقی اور راقم الحروف کے افسانوی فن پر سیر حاصل گفتگو کی ہے ۔
مجموعی طور پر نسیم اشک کی کتاب ’’ بساط فن ‘‘ ایک بہترین، قابل قدر اور قابل مطالعہ کتا ب ہے ۔ان کا انفراد و اختصاص یہ ہے کہ وہ اپنی تحریروں میں بے جا تعریف سے گریز کرتے ہیں ۔ فن کو فن کی کسو ٹی پر جانچنے اور پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کم سے کم لفظوں کا استعمال کرکے ز یادہ سے زیادہ باتیں کرنے کا ہنر انہیں آتا ہے ۔ تنقید کے حوالے سے اعتدال پسند رویہ اختیار کرتے ہیں ۔ کم لفظوں میں باتیں کرنے کا یہی اختصاص ہے جو انہیں ان کے ہم عصروں میں ممتاز و ممیز کرتا ہے ۔ نسیم اشک کی یہ کوشش بہت ہی کامیاب ہے ۔ ان کے اندر لکھنے کی جو روانی ہے اس سے اردو ادب کو اور بھی بہت ساری امیدیں وابستہ ہیں جو قاری کے لئے ایک تحفہ سے کم نہ ہوگا ۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page
1 comment
بہت خوبصورت ۔۔۔۔بہت عمدہ۔۔۔۔ماشاء اللہ۔۔۔۔۔بہت بہت مبارک ہو