مقصوددانش (کولکاتا)
آل احمد سرور نے ریکس وارنر (Rex Warner)کے حوالے سے کہا ہے کہ’’ ‘ناول ایک فلسفیانہ مشغلہ ہے‘‘اس خیال کی جزوی طور پر حمایت کی جاسکتی ہےکیوں کہ ناول علم کے بجائے فکر و نظر کا وسیلہ ہے،تسلیم کہ ناول قصہ ،کہانیوں کی سرحدوں کو عبور کرچکا ہے اور اب محض تفریح کا ذریعہ نہیں رہا،لیکن فلسفہ کا بوجھ بھی اٹھانے سے قاصر ہے۔میرے خیالات کی پوری طرح وضاحت میلن کنڈیرا کے درج ذیل اقتباس سے ہوسکتی ہے۔وہ کہتے ہیں:
’’ذات و کائنات اور سچ کی تفتیش کے عمل سے میری مراد ناول میں فلسفے کی آمیزش کرنا نہیں ہے۔اسی لیے’’فلسفیانہ ناول‘‘کی کوئی اصطلاح کبھی بھی رواج نہیں پاسکی مگر ناول میں ایک سوچتی ہوئی آواز ضرور شامل ہونا چاہیے۔‘‘
(ارمغان-10،جامیہ ملیہ اسلامیہ،صفحہ-21)
’’ ایک سوچتی ہوئی آواز‘‘کو اگر’’فکری طرز احساس‘‘ یا’’فکری مشغلہ‘‘کہا جائے تو بہت حد تک ناول کے تناظر میں یہ اصطلاح اطمینان بخش ہوسکتی ہے۔ایک اور اہم بات یہ کہ فنکار کبھی سماجی قدروں کے تابع رہ کر افکار و خیالات کی حدیں نہیں پھیلا سکتا۔
مغرب کے اکثر ناول نگار سماجی رسومات سے الگ ہوکر فکری و معنوی اہمیت منواتے رہے ہیں۔ کافکا کا ناول ’’مقدمہ‘‘(The Trail) وجودی تصورات پر مبنی ہے۔ناول میں فکری جہتیں کافی مؤثر ہیں۔بعض مقامات پر کافکا سماجی و تہذیبی قدروں کا منحرف بھی نظر آتا ہے۔
کامیو کےناول’’اجنبی‘‘ (The Stranger) کا وہ منظر یاد کریں جب آشرم میں ماں کے انتقال کے بعد اس کابیٹا جنازہ میں شریک ہوتاہے،اس وقت ایک عام بیٹے طرح وہ دہاڑیں نہیں مارتا ہے ،دفنانے سے قبل ماں کا آخری دیدار کرلینے کی بھی خواہش نہیں بلکہ وہ اس سوگوار ماحول میں سگریٹ کا دھواں اڑا رہا ہے۔ذرا غور کریں ،کامیو کس طرح سماجی اور اقداری آدمی ہونے سے گریزاں ہے،کامیو کو ایک ایسا منظر خلق کرنا تھا کہ سماجی،اخلاقی اور تہذیبی قدریں کس حد تک سنگین صورتحال کی شکار ہوچکی ہیں ۔مغرب کے ناولوں میں ایسے مناظر کی روشنی میں آدمی کی نفسیاتی پیچیدگیوں اور اس کی باطنی خباثتوں کو منور کرنے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ اردو کے اکثر ناول نگار پہلے سماجی آدمی ہونے پر اصرار کرتا ہے پھر تخلیقی سفر کے دوران کہیں وہ سیاسی آدمی ہوجاتاہے تو کہیں اقداری آدمی ،کہیں مذہبی تو کہیں غیر مذہبی ،اتنے سارے حصوں میں منقسم ہوکر ناول تخلیق کیا جائے تو تعصب کا آجانا لازمی ہے،بابری مسجد کی شہادت ایک مخصوص قوم کے لیے روح فرسا سانحہ ہے ،لیکن اس سانحہ کی روشنی میں فنکار جانب دار نہیں ہوسکتا ہے،اردو کے اکثر ناول نگار جانبدار نظر آتے ہیں،سانحے کے بعد لکھے گئے جملہ ناولوں میں مشرف عالم ذوقی جانب داری سے خود کو بچا نہیں سکے،اکثر اردو ناولوں میں افکار و تصورات کی معنوی حدیں سکڑی ہوئی نظر آتی ہیں ،اس کی ایک وجہ تاریخی صداقت کا آزادانہ تصور ہے۔اس سلسلے میں شمیم حنفی صاحب کے خیالات سے اتفاق کیا جاسکتا ہے۔وہ رقمطراز ہیں:
’’تاریخ کے نام پر ماضی کی تعصب آمیز اور فرقہ وارانہ تعبیر،رجعت پرستی اور عقل دشمنی کی باتیں بھی کی جا سکتی ہیں، سیکولرازم اور جمہوریت کی دشمن سیاسی جماعتوں کے ایجنڈے کی تقلید بھی کی جا سکتی ہے۔تاریخی صداقت کا من مانا تصور قائم کیا جاسکتا ہے،ہمارے عہد کے ایک ممتاز فکشن نگار (نرمل ورما)نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ رامائن اور مہابھارت کے بعد ہمارا تیسرا سب سے بڑا رزمیہ’’ہماری ہندوستانی تہذیب‘‘ہے۔‘‘
(ارمغان 10-، شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ،صفحہ:112)
اس پس منظر میں یہ سوچنا غلط نہیں کہ اردو ناول نگاری فکری مشغلہ نہیں بلکہ سماجی ،سیاسی اور مذہبی مسائل کا اسیر ہے۔بعض ناول نگاروں کی تخلیقی سوچ محدود نظر آتی ہے۔مثلاً انل ٹھکر اپنے ناول’’گمشدہ شناخت‘‘ لکھنے کی وجہ ان الفاظ میں ظاہر کرتے ہیں:
’’ایک انگریزی روزنامہ کے نوجوان کو اس پر لگائے گئے الزامات ثابت نہ ہونے سے سات ،آٹھ مہینوں کے بعد چھوڑ دیا گیا۔وہ اپنے والدین سے ملنے ہبلی آیا ہوا تھا۔میں اس سے ملا،اسے حراست میں لینے کے بعد پولس کا اس کے ساتھ سلوک کیا رہا؟جیل میں کیسا برتاؤ رہا اس کے ساتھ؟یہ معاملات اسی سے میں نے حاصل کئے،ایسی تحقیقات ہر ادیب اپنی تخلیق کے لیے کرتا ہے۔‘‘
( رسالہ ‘فکر وتحقیق،2016،ناول نمبر ،صفحہ: 413)
ایسی تحقیقات فنکار کےپرواز تخیل کےپاؤں کی زنجیر ثابت ہوتی ہیںاسی شمارے میں مشاہدات کے تعلق سے نورالحسنین صاحب کا بیان بھی تخلیقی بہاؤ کی راہ رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔وہ فرماتے ہیں:
’’اسی ناول (اہنکار) میں میرا ایک کردار گاؤں کی لوہے کی بھٹی میں گھن مارنے کا کام کرتا ہے۔اس کی خاطر پھر ایک مرتبہ مجھے گاؤں جانا پڑا اور ایک گھنٹہ لوہے کی بھٹی میں گزارنا پڑا،تب جاکر وہ سارا منظر میں لکھ پایا۔‘‘ (صفحہ -413)
دنیا کے کسی بھی خطے کا لوہار کیوں نہ ہو،اس کی باطنی کیفیات اورذہنی صورت حال یکساں ہوں گی۔نورالحسنین صاحب اگر رنگ ،روپ،پوشاک،کھان پان دیکھ کر جزیات نگاری کرنے کی ضرورت محسوس کررہے ہوں تو مذکورہ بیانات اہم ہیں لیکن یہ سارے بیانات فنکار کے کام کے لیے مناسب معلوم نہیں ہوتے پرواز تخیل ہو تو تاریک کمرے میں بیٹھے بیٹھے لوہار،سناراور کارپینٹر وغیرہ کے دل کی دھڑکنیں سنی جاسکتی ہیں۔حسین الحق بھی اپنے ناولوں میں آنکھوں دیکھا احوال و آثار دکھانے کے متمنی نظر آتے ہیں۔ان کی گفتگو سنیں:
’’بہر حال یہ سارا مرحلہ اذیت سے مسلسل گذرنے کا مرحلہ ہے،کھنڈر ہوتے ہوئے محلات اور محلے اور لوگ اور تہذیبیں بار بار دل دہلاتی رہتی ہیں اور دوسری طرف ایسے نئے نئے مناظر جن میں جہالت،رذالت اور حماقت کے علاوہ کسی عنصر کا گذر نہیں اور اس پر مستزاد پرق رفتاری سے ارتقا اور انارکی کی طرف آگے بڑھتا ہوا عالمی منظرنامہ،یہ ایک ایسی کشمکش کا عالم ہے جس میں نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والی ایک مسلسل اذیت مقابل ہے،میری نظر میں میرے اور میرے معاصرین کے ناول ایسی اذیت کا اظہار ہیں۔‘‘ (صفحہ-412)
حسین الحق کا آخری جملہ میرے خیالات کی ترجمانی کررہا ہے۔جس’’ اذیت‘‘ کی بات کی گئی ہے،کیا واقعی وہ ’’اذیت‘‘ انسانی زندگی کی پیچیدگیوں اور صورتحال کو ظاہر کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔جس طرح نیر مسعود نے علاقے،خطے ،رنگ و نسل بتائے بغیر ان زوال آمادہ قدروں کی نوحہ گری کی ہے جو صرف لکھنؤ تک محدود نہیں،کراچی میں بھی اس درد کو محسوس کیا جا سکتا ہے،کتنے معاصر ناول نگار ہیں،جن کے ہاں خطہ ،رنگ و نسل اور ذات پات سے آزاد ہوکر بصیرت کی روشنی میں ناول تخلیق کئے گئے ہیں ؟ چند ہی ناول نگار ہیں جنہوں نے اپنی وجدانی کیفیت کو تخلیقی شعور کا حصہ بنایا ہے۔ ناول’’پارپرے‘‘ (جوگندر پال) کا مذکورہ تناظر میں مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ہندوستان کے مشترکہ کلچر کو اس وقت دھچکا پہنچا جب ایک خاص ذہنیت کی بیج بھارت ورش کی مٹی میں بوئی گئی۔کیا عمدہ نکتہ فنکار نے پیش کیا ہے کہ دو قوموں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے اکثر کہا جاتا ہے کہ’’ہم بھائی بھائی ہیں‘‘بھائی ہیں تو ہیں،اس کا اظہار کیوں؟اظہار ہی ثابت کررہا ہے کہ ہم بھائی بھائی نہیں رہے، ناول کا پس منظر پورٹ بلیئر ہے،جہاں ایک ایسی عبادت گاہ ہے جہاں ہر مذہب کے لوگ اپنے اپنے عقائد کے مطابق عبادت کرسکتے ہیں۔یہی کلچر اصل ہندوستانیت ہے جو ناپید ہوتا جا رہا ہے۔فنکار نے کہیں سماجی و سیاسی اور مذہبی آدمی ہونے کے دلائل پیش نہیں کیا ہے۔اپنی بصیرت اور وجدان کی بدولت عمدہ ناول تخلیق کیا ہے۔ اس تناظر میں ایک اقتباس ملاحظہ کریں:
’’ کہیں ایسا تو نہیں ہورہا ہے کہ باہر والے اب ہماری ماؤں کی کوکھوں میں ہی ان کے بجے تلف کر دیتے ہیں اور ان کی جگہ آپ پیدا ہوجاتے ہیں۔‘‘
لفظ ‘’باہر والے‘ فرنگیوں کا استعارہ ہے جو فکری طرز احساس کا عمدہ نمونہ ہے۔’کل جہاں کاٹی گئی تھیں سروں کی فصلیں‘کے پس منظر میں سید محمد اشرف کا کا ناول’’آخری سواریاں‘‘فنکار کے فکری مشغلے کا شناخت نامہ ہے۔کٹے،پھٹے اور کچلے سروں کے بجائے سالم سروں کا مینار بناکر تماشا دیکھنے والے تیمور کی کالی کرتوتوں اور بہادر شاہ ظفر کے دور حکومت کے ذہنی و روحانی اذیتوں کی تاریخ دہرانے کے بجائے فنکار نےاپنے وجدانی قوت اور بصیرت کا اظہار کیا ہے۔ملک کی موجودہ زعفرانی سیاسی صورتحال میں ناول کا مرکزی موضوع مفکرانہ احساسات پر مبنی ہے۔
سید محمد اشرف کے افکار و تصورات کو نمایاں کرنے میں بلند آہنگی نہیں بلکہ ان کے ہاں بیانیہ رنگ صوفیانہ کا مظہر ہے جہاں مراقبے سی کیفیت پیدا ہوتی ہے بیانیہ کی زیریں لہروں کے ساتھ فکری و معنوی موجیں محو سفر رہتی ہیں۔ نرمل ورما نے سب سے بڑا رزمیہ ہندوستانی تہذیب کو بتایا ہے ۔غائر مطالعہ کی روشنی میں ناول‘‘کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ (شمس الرحمن فاروقی)’’ایوانوں کے خوابیدہ چراغ‘‘ ( نورالحسنین )اور’’بدروہی‘‘( شبیر احمد ) اسی رزمیہ کی مثالیں ہیں۔تاریخ میں موجود واقعات و سانحات اور شخصیات کا ازسرنو بیان’’سیکنڈ ہینڈ‘‘بیانات میں شامل ہیں،انہیں پڑھ کر کف افسوس ملا جاسکتا ہے، جلوت یا خلوت میں سسکیاں لی جاسکتی ہیں لیکن فکر وآگہی کے گوہر نہیں چنے جاسکتے۔
فن ناول نگاری کے زمرے میں خود فاروقی صاحب نے ناول کو مرقع نگاری سے تعبیر کیا ہے۔وہ خود شناس ادیب و فن کار تھے،جانتے تھے کہ کل یہ قضایا اٹھ کھڑا ہوسکتا ہے کہ ناول یا مرقع نگاری؟پہلے ہی انہوں نے ہاتھ کھینچ لیا،دوسرا ناول ’’ایوانوں کےخوابیدہ چراغ‘‘اپنے عنوان سے ہی ظاہر کررہا ہے کہ گزرنے والوں پر اشکبار ہونا ہے۔دوسری طرف مصنف نے اپنی حدوں کا خود ہی تعین کرلیا ہے۔انہوں نے’’دو باتیں آپ سے‘‘کے عنوان سے پیش لفظ لکھا ہے۔ اس تحریر سے ایک غیر سنجیدہ ٹکڑا ملاحظہ کریں:
’’میں (مصنف)معین الدین جینابڑے کی تنقیدی کتاب’’اردو میں بیانیہ کی روایت‘‘پڑھ رہا تھا، اس میں ،ایک مضمون میں ڈاکٹر صاحب نے لکھا تھا کہ 1857 جنگ آزادی کا اتنا بڑا مومنٹ مکمل طور پر ہمارے کسی ناول کا حصہ نہیں بن سکا۔اسے پڑھ کر مجھے حیرت ہوئی اور میں نے چیلنج قبول کیا اور آٹھ فروری2012ءرات دو بجے اس ناول کی پہلی سطر نے کاغذ کی سطح پر آنکھ کھو لی اور آٹھ مئی 2012 کی رات دو بجے اس ناول کی آخری سطر نے اپنے مکمل ہونے کا اعلان کیا۔‘‘
کلیم الدین احمد اور وارث علوی کی نگاہ سے یہ سطریں گزر جاتیں تو پتہ نہیں ان کی ذہنی کیفیات کیا ہوتیں۔میرے سامنے معاملہ حد ادب کا ہے۔خیر، ناول میں’’فکرونظر کا علاقہ موجود نہیں۔ گزرنے والوں کی یاد میں روئیے زار زار،مگر کب تک؟ناول کا بیانیہ فکری طرز احساس سے آزاد نظر آتا ہے۔ناول’’بدروہی‘‘ میں ناول نگار نے قاضی نذر الاسلام کی داستان عشق اور ان کے عہد کی سیاسی صورتحال کو فنکارانہ مہارت سے اجاگر کیا ہے،قاضی نذرالاسلام صداقت اور خیر کےپیغامبر تھے،اچھے اور نیک انسان میں آدمی والی خباثتیں نہیں ہوتیں ،جبکہ تخلیقی فن آدمی کے اندر موجود شر کو نمایاں کرنے وسیلہ ہے۔ دوسری طرف ناول میں موجود اکثر مجاہدین آزادی کی حیات و خدمات تحریری طور پر موجود ہیں۔ ناول کے آخر میں ان تمام کتابوں کے نام بھی درج کر دئیے گئے ہیں جن سے حوالاجات منقول ہیں یا ان حوالوں کو افسانہ بنایا گیا ہے۔ناول میں تاریخ کا جبر دیکھا جا سکتا ہے، ناول نگار دریافت کے بجائے نادریافت کی کھوج کرتا ہے ورنہ تاریخی حقائق کا ازسرنو بیانات میلن کنڈیرا کی زبان میں’’سیکنڈ ہینڈ‘‘اطلاعات کے زمرے میں شامل ہوجاتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ شجر قاضی نذرالاسلام پر اتنے فکروآگہی کے پھل نہیں اگےتھے جن سے دامن ناول کی وسعت کو بھرا جا سکے۔اس ناول کی واحد خوبی Art Of Performance ہے جو فن ناول نگاری میں اہم خوبی تصور کی جاتی ہے۔جبکہ یہاں موضوع فکری طرز اظہارہے جس کی کمی کا احساس ہوتا ہے۔
اس تناظر میں شبیر احمد کا ناول’’ ہجور آما‘‘ کی فکری و معنوی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔اس ناول میں ارسطو سے لے کر فرائیڈ تک کے فکری و معنوی تصورات مؤثر طریقے سے اجاگر کئے گئے ہیں۔متعدد نظریات ناول میں نظریات کے بجائے ‘نظر،کی صورت اجاگر ہوئے ہیں۔کہا جا سکتا ہے کہ نئی صدی میں’’پار پرے‘‘،’’آخری سواریاں‘‘،’’نعمت خانہ‘‘، ’’موت کی کتاب‘‘کے بعد کسی اردو ناول میں سنجیدگی سے افکار و تصورات کا فنکارانہ اظہار ہوا ہے تو وہ ناول’’ہجور آما‘‘ ہے۔خالد جاوید کے فن ناول نگاری کا اختتاص یہ ہے کہ ان کے ناولوں کے بیانیات کی سطر سطر میں ایک سوچتی ہوئی آواز سنائی دیتی ہے۔ فلسفیانہ خیالات ٹھوس صورت میں نمایاں نہیں ہوتےاور ہونا بھی نہیں چاہئے۔ فلسفے سے شغف ہونے کے باوجود انہوں Thinking Novel کی بات کہی ہے،بالکل سچ ہے کہ بیانیہ کی تہہ میں افکار و تصورات قاری محسوس کرے۔ ناول ’’نعمت خانہ‘‘کا فکری دائرہ کافی وسیع ہے،مختصراً کہا جا سکتا ہے کہ ناول میں دوستو سکی کے ناول جرم و سزا) Crime and (Punishment کے کلیدی نکتے کی صراحت کرتے ہوئے کہ کوئی بھی سزا ،جرم کے انسداد کاسبب نہیں بن سکتی بلکہ وسیع ہونے کے اسباب پیدا کرسکتی ہے۔ناول نگار کا اصرار ہے کہ ایسے معاشرے کی نمود ہو جہاں احتجاج کی راہیں مسدود ہوں،نئی نئی ٹیکنالوجی کا غلام نہ ہوکر اس کے روشن پہلوؤں کو اجاگر کیا جائے اور جدید تر آلہ جات کا بامعنی استعمال کیا جائے۔ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ بھوک نے صرف شکم کو ہی ہوس پرست نہیں بنایا ہے بلکہ بھوک کی نئی نئی شکلیں نمایاں ہو چکی ہیں جو تیسری عالمی جنگ کی راہیں ہموار کررہی ہیں۔’’نعمت خانہ‘‘کے بعد خالد جاوید کا ناول’’ارسلان‘‘ اور’’ بہزاد‘‘بھی افکار و تصورات کے نئے نئے در وا کرتا ہے۔ناول تین حصوں میں منقسم ہے،پہلا حصہ تفتیشی بنیاد پر جاسوسی ناولوں کے زمرے میں داخل ہوجاتا ہے۔ظاہر ہے کہ ادبی و فکری طور پر یہ صنف ادب عالیہ میں شمار نہیں کیا جا سکا،لیکن دوسرا اور تیسرا حصہ فکرو آگہی کا گہوارہ ہے۔خالد جاوید کسی پلاٹ اورسکہ بند موضوعات کے پیچھے نہیں بھاگتے،ان کے ہاں وجودی تصورات بیانیہ کی تشکیل میں معاونت کرتے ہیں اور اس سلسلے میں گہری بصیرتوں کا احساس ہوتا ہے۔اس طرح کے احساسات بیانیہ کی زیریں لہروں میں بکھری ہوئی صورت میں موجود رہتے ہیں۔ ان کے ہاں زندگی کی رمق اور چمک کا دارومدار موت پر منحصر ہے،اقبال کہتے ہیں کہ’’دانہ خاک میں مل کر گل گلزار ہوتا ہے‘‘خالد جاوید اسی خیال کو میر انیس کی طرح’’سو رنگ‘‘میں نمایاں کرنے کے ہنر سے واقف ہیں،وہ خود کہتے ہیں کہ ان کے تمام ناول موت سیریز ہیں۔زیرمطالعہ ناول میں بھی موت کی مختلف صورتوں میں زندگی کی تجسیمی سالمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔اس ناول میں سینکڑوں اقوال زریں ہیں،جو آدمی کو تزکیہ نفس پر آمادہ کرتے ہیں۔چند اقوال آپ بھی سنیں:
* روح کا کمینہ پن یہ ہے کہ وہ ہر اس چیز سے خوش ہوتی ہے جس سے جسم کو درد سہنا پڑتا ہے۔
* زمین پر رینگتا ہوا کینچوا ایک مرے ہوئے آدمی سے بہتر ہے۔
* نیکی کا ارتقا بدی کے راستوں سے ہوتا ہے۔
* میں شاید زوال آدم کی معاف کی ہوئی سزا کو اپنے اوپر بھگت رہا ہوں۔
* خالص اور اصل محبت میں بھوک نہیں لگتی۔
* قدرت کو ہم اپنے غرور میں حقارت اور نفرت سے دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں۔
* یہ دنیا الٹی لٹکی ہوئی اوٹ پٹانگ تصویروں سے سجی ہوئی کسی آرٹ گیلری سے کم نہیں۔
فکرونظر اور مختلف تکنیکی اشکال میں صدیق عالم کے ناولوں کا بھی مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ان کے ناولوں کے بیانیات میں ایک سوچتی ہوئی آواز سنائی دیتی ہے لیکن ایک مسئلہ ہے۔خالد جاوید کے ہاں بیانیہ تیز حسیت پر مبنی ہے اور کافی متحرک ہےکان کے قریب سرگوشیاں بھی سنائی دیتی ہیں لیکن فاصلے سے چیخ بھی مدھم پڑ جاتی ہے۔خالد جاوید کے ناولوں میں ایک نکتہ سے دوسرے نکتہ تک کا سفر محض تین ،چار،یا چھ سطریں ہوتی ہیں جبکہ صدیق عالم کے مطالعہ کے گہرائی و گیرائی ہونے کے باوجود صدیق عالم کے ناولوں کا بیانیہ فکری سطح پر سست رفتاری کا احساس دلاتا ہے۔ طویل فاصلہ سوچ کے بہاؤ کو منتشر کر دیا کرتا ہے۔ پہلا ناول’’چارنک کی کشتی‘‘موضوعاتی سطح پر خطہ بند ہے،کلکتہ کی سماجی و سیاسی صورتحال اکہری صورت میں نظر آتی ہے، زماں و مکاں کی قیدی بن جاتی ہے۔دوسری وجہ ناول کا منظوم ہونا ہے،جس سے اردو فکشن کے قاری اب تک ہمرشتہ نہیں ہوا۔
ناول ‘’’صالحہ صالحہ‘‘عنوان سے ہی مارکس کی یاد تازہ کرتا ہے۔ایک صالحہ امیر،دوسری غریب،فکشن میں اب امیر ، غریب کا خیال آتے ہی Class less society کا خیال ذہن میں ابھرتا ہے جس سے قاری 1955کے بعد سے ہی بدکنا شروع کر دیا تھا،اب لاکھ ناول نگار کہے کہ’ نہیں،نہیں‘ بیانیہ کے کھانچے میں طرح طرح کے پھل ہیں،فکر کے سیب بھی ہیں،بصیرت کے انگور بھی،آگہی کی ناشپاتی بھی،لیکن قاری سننے کو تیار نہیں کہ اس کے کان مارکسی نعروں کو سننے کا روا دار نہیں۔
صدیق عالم کا ایک ناول’’چینی کوٹھی‘‘اہم ان معنوں میں ہے کہ موجودہ ہندوستان کی عدلیہ کی سیاہ کاریوں کو منور کرتے ہوئے وجودی تصورات کے بعض گوشوں کو منور کیا گیا ہے۔چند مکالمہ ایسے ہیں کہ قاری کے دامن دل کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔مثلاً’’ہاں چہرے………سارا معاملہ چہروں کا ہوتا ہے،یہ ہمیں زندہ رہنے نہیں دیتے، یہ کبھی نہیں مرتے،یہ ہمیشہ ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔‘‘
’’زندہ رہنا اپنا ذاتی معاملہ ہے،رہا،بچے،ایک دن وہ بڑے ہوجاتے ہی اپنی اپنی دنیا میں چلے جاتے ہیں۔‘‘
رحمٰن عباس نے متعدد ناول لکھے،ان کا تخلیقی شعور بیدار ہے،’’نخلستان کی تلاش‘‘،’’خدا کے سایے میں آنکھ مچولی‘‘ سے شناخت قائم ہوئی’’روجن‘‘پر ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ حاصل ہوا۔ تازہ ناول ‘’’زندیق‘‘ہے۔ان کےناولوں میں ‘’جنس‘ایک گوشہ ہے جس کو وہ ناگزیر سمجھتے ہیں۔غالباً وہ میلن کنڈیرا کے اس خیال سے متفق نظر آتے ہیں کہ انہوں نے ‘’محبت‘ اور’جنس‘بطور میڈیم استعمال کیا ہے۔رحمٰن عباس کے ناولوں میں اس کی گونج سنائی دیتی ہے کہیں کہیں کھلے پن کا گمان ہوتا ہے لیکن اسے فحاشی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا،جنسی نفسیات بھی شعبہ علم میں داخل ہے،’روحزن‘کے پہلے پچاس صفحات پر اسی طرح کی نفسیات کو نمایاں کیا گیا ہے۔تازہ ناول’’زندیق‘‘کا فکری کینوس کافی وسیع ہے۔(اس ناول پر تفصیلی مطالعہ زیر نظر تصنیف میں موجود ہے)
مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اکیسویں صدی میں صنف ناول نے تفریحی اور روایتی مزاج سے ہٹ کر فکری و معنوی پگڈنڈیوں پر سفر کرنا شروع کر دیا ہے۔
lll
Maqsood Danish,
Mobile : 7439612247
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |