ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی
آراضی باغ ، اعظم گڑھ
برسوں سے اسرائیلی جارحیت کے شکار گزشتہ 75 سالوں سے برسرپیکار پاسبان قبلہ اول اور نہتے فلسطینی اپنے غم کی روداد سنا سنا کر جب تھک گئے اور اقوام عالم اور بالخصوص مسلم امہ کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگی تو مظلوم فلسطینیوں نے اپنی ہمت و طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے خود مزاحمتی کارروائیاں شروع کیں اور اقوام عالم کے سامنے اپنے ایمان و یقین کی مثالیں پیش کیں۔
70 سالوں سے محصور فلسطینی جو متواتر اسرائیلی حملے کا شکار ہیں، عہد نبوت میں محاصرہ شعب ابی طالب کی یاد دلاتے ہیں اور ساتھ ہی امت مسلمہ کو یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ محاصرہ شعب ابی طالب تین سالوں بعد قریش کے چند رہبران کی کوششوں سے بالآخر اپنے اختتام کو پہنچا مگر یہ محاصرہ جو 70 سالوں پر محیط ہے وہ مسلم امت کے جسد واحد کا فرمان کانوں میں پہنچنے کے بعد بھی آج تک جمود کا شکار کیوں ہے؟
حالیہ 17 دنوں سے جاری اسرائیلی بربریت کا حال کسی دیدہ ور سے مخفی نہیں۔ تقریبا تین ہزار سے زائد فلسطینی جام شہادت نوش کر چکے ہیں جن میں بیشتر بچے اور مظلوم عورتیں ہیں۔ سامان رسد ختم ہوچکے ہیں، مریضوں کے علاج کے لئے اسپتالوں میں دوائیاں تک نہیں ہیں۔ بھوک و پیاس کی شدت سے نبرد آزما فلسطینی موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ ان کی یہ ناگفتہ بہ حالت کو جب ان آنکھوں نے دیکھا اور دل نے ایک کرب محسوس کیا تو ان کی ترجمانی کے لئے قلم بے اختیار صفحہ قرطاس پر یوں اپنے جذبات بکھیرنے پر مجبور ہوا:
کنج زنداں میں یہ محصور فلسطینی ہیں
حریت ان کی اسرائیل نے یوں چھینی ہیں
منہدم ہوتے گھروں کا کوئی پرسان نہیں
زندہ قوموں کو جو سمجھے، کوئی انسان نہیں
ڈھیر ہوتے ہوئے یہ ملبے فغاں کرتے ہیں
بم کے طوفان حوادث کو بیاں کرتے ہیں
خون میں لتھڑے ہوئے بچوں کی فریاد تو سن
عصمتیں لٹتی ہوئی بہنوں کی روداد تو سن
اور آج حقوق انسانی کا پر فریب نعرہ لگانے والی اقوام خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں مگر ہم بحیثیت مسلم امت کیا نبی کریم صلی اللہ کے جسد واحد کے فرمان پر عمل پیرا نظر آرہے ہیں؟
یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔۔۔۔۔
قرآن کریم نے ایمان والوں کو بھائی سے تعبیر فرمایا ہے، ارشادِ ربانی ہے:
’’إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ۔‘‘ (الحجرات:۱۰ )
ترجمہ:’’مسلمان آپس میں ایک دُوسرے کے بھائی ہیں۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان والوں کے باہمی تعلقات اور اُخوت و محبت کو ایک جسم کے مختلف اعضاء سے تشبیہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’مثل المؤمنین فی توادھم و تراحمہم و تعاطفہم کمثل الجسد إذا اشتکی عضوا تداعی لہٗ سائر جسدہٖ بالسہر والحمٰی۔‘‘ (صحیح البخاری،ج:۲،ص: ۸۸۸، حدیث: ۶۰۳۶،باب رحمۃ الناس والبہائم )
ترجمہ: ’’ایمان والوں کی آپس کی محبت، رحم دلی اور شفقت کی مثال ایک انسانی جسم جیسی ہے کہ اگر جسم کا کوئی حصہ تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے تو (وہ تکلیف صرف اُسی حصہ میں منحصر نہیں رہتی، بلکہ اُس سے) پورا جسم متأثر ہوتا ہے، پورا جسم جاگتا ہے اور بخار و بے خوابی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔‘‘
یعنی مسلمان دُنیا کے کسی خطۂ زمین میں آباد ہوں‘ وہ اُمتِ اسلامیہ کا ایک جزو ہیں۔ اگر وہ آرام و سکون کی زندگی بسر کررہے ہیں تو پوری اُمت پُرسکون ہوگی اور اگر وہ کسی مصیبت یا ظلم کا شکار ہیں تو اُن کی تکلیف سے پوری اُمت بے چین اور تکلیف میں ہوگی اور اس ظلم کے ازالہ کی ہر ممکنہ کوشش کرے گی ۔
اُمت کا اتحاد اور اُخوت کا یہ رشتہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت عزیز ہے، اسی لیے قرآن کریم اور احادیثِ نبویہ میں جا بجا اُس پر بہت زور دیا گیا ہے اور اختلافات اور تفریق سے روکاگیا ہے۔
یہاں تک کہ اگر دو مسلمان بھائیوں یا دو مسلمان جماعتوں میں اختلاف اور جھگڑے کی صورت پیدا ہوجائے تو مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ ان دونوں میں صلح کرانے کی کوشش کریں۔ ارشادِ خداوندی ہے:
’’إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ فَأَصْلِحُوْا بَیْنَ أَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوْا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ۔‘‘ (الحجرات:۱۰)
ترجمہ:’’ ایمان والے آپس میں بھائی بھائی ہیں، تم اپنے بھائیوں میں صلح کرادیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘
یعنی صلح اور جنگ کی ہر حالت میں یہ بات ذہن نشین رہے کہ دو بھائیوں کی آپس کی لڑائی ختم ہوکر مصالحت میں بدل جائے، دُشمنوں اور کافروں کی طرح برتاؤ نہ کیا جائے۔ تو جب معاملہ اس کے برعکس ہے اور ایک مسلم نہتی قوم تنہا ایک جدید آلات سے لیس اور مستحکم کافر قوم سے نبرد آزما ہے تو ایسے میں امت مسلمہ پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں وہ اس آیت کریمہ کی روشنی میں واضح ہوجاتی ہیں۔
ارشاد باری تعالٰی ہے:
﴿ وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا﴾
[ النساء: 75]
ترجمہ : اور کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کہتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اور ہمارے لیے اپنے ہاں سے کوئی حمایتی کر دے اور ہمارے لیے اپنے ہاں سے کوئی مددگار بنا دے۔
مندرجہ بالا آیت کریمہ امت مسلمہ کو یہ پیغام دیتی ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کے دفاع کیلئے آگے بڑھیں اور اس کے لئے ہر وہ ممکنہ اقدامات کریں جو اس ظلم کے خاتمے کے لئے موثر ثابت ہو سکے کیونکہ فلسطین سے ہمارا دوہرا رشتہ ہے ایک قبلہ اول مسجد اقصی کا اور دوسرا فلسطینی بھائیوں سے اسلام کا۔
57 مسلم ممالک اس وقت اتحاد کا مظاہرہ کریں اور فلسطین پر کئے گئے ان مظالم کے فوری سد باب کے لئے کمربستہ ہوجائیں۔
دیگر ممالک میں مسلم اقلیت اپنے ملکی قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے مندرجہ ذیل اعمال کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں تو ان شاء اللہ ملک فلسطین اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ نمودار ہوگا۔
- مسجد اقصی اور فلسطین کی فتحیابی کے لئے دعا اور بالخصوص تہجد کے وقت دعا کو اپنی زندگی کا لازمی جزو بنائیں جس طرح سے غذا کے بغیر ہمارے شب و روز کے مشاغل کا تصور ہی نہیں اسی طرح دعا کے بغیر ہمارے روز مرہ کے معمولات کا تصور ہی نہ ہو کیونکہ دعا ہی مومن کا سب سے بہترین ہتھیار ہے۔
- جب قرآن کریم میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ اپنی جان اور مال سے جہاد کیا جائے تو ظاہر ہے کہ ہم یا کوئی بھی اس وقت غزہ میں داخل نہیں ہوسکتا تو ایک طریقہ یہ ہے کہ ان کی مالی معاونت کی جائے، ہر ملک اور ہر خطے میں کچھ ایسی تنظیمیں ہیں جو امدادی سامان پہنچانے کے لیے ڈونیشن اکٹھا کر رہی ہیں لہٰذا اس میں اپنی بساط کے مطابق بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور اپنے صدقات و خیرات کا کچھ حصہ ان کے لئے مختص کریں اور السابقون الاولون میں شامل ہوجائیں ۔
- ایک سب سے مؤثر اور کارگر طریقہ جو ہر شخص گھر بیٹھے بغیر تگ و دو کے کرسکتا ہے وہ یہ کہ اسرائیلی/یہودی پروڈکٹس کا بائیکاٹ کیا جائے. عام طور پر لوگ اسے بہت معمولی سمجھتے ہیں لیکن اس کی کیا اہمیت ہے اس کو چند مثالوں سے سمجھتے ہیں.
ابھی کچھ وقت پہلے معروف فٹبالر کرسٹینو رونالڈو نے ایک لائیو پریس کانفرنس میں کوکا کولا کو اپنے سامنے سے ہٹا دیا تھا، رپورٹس کے مطابق کچھ گھنٹوں میں ہی ان کمپنیوں کو 4 بلین ڈالرز کا نقصان ہوا اور اس کے شئر 1.6 فیصد گرگئے.
دو سال قبل عرب ممالک میں فرانس کے بائیکاٹ کے بعد فرانس کو عقل آئی اور کمپنیاں وضاحت کرنے پر مجبور ہوئی تھیں.
- اپنے شب و روز سے کچھ گھنٹے نکال کر نیٹ پر سرچ کریں اور اسرائیلی مصنوعات کو تلاش کریں اور ان مصنوعات سے نہ صرف خود واقفیت حاصل کریں بلکہ ان کی لسٹ مسلم امت کے سامنے لائیں اور اسرائیلی پروڈکٹس کے بجائے دیسی چیزیں استعمال کریں، اور اسرائیلی مصنوعات کو خیر باد کہہ دیں۔ یقین مانیں کہ صہیونیوں کو معاشی چوٹ جسمانی چوٹ سے زیادہ محسوس ہوتی ہے.
ان ڈپلومیٹک طریقہ کار کو اگر امت مسلمہ اپنی زندگی کا حصہ بنالے تو وہ دن دور نہیں جب فلسطین میں اسلام کا مہتاب اپنی کرنیں بکھیرتا ہوا نمودار گا اور مسجد اقصی کا پرچم ہر کونے میں لہراتا نظر آئے گا۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂادبی میراثکاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |