انگریزی لفظ Novel، اطالوی لفظ Novella سے مشتق ہے جس کے معنی نثر میں لکھے ہوئے مختصر قصے کے تھے۔ یہ جب اسم کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو اس کے معنی ہوتے ہیں ’’نثر میں لکھی ہوئی کہانی‘‘ جس کی ضخامت کے بارے میں کوئی حتمی رائے قایم نہیں کی جاسکتی۔ اِسم صفت کے طور پر Novel کے معنی ہیں نیا، انوکھا، جدید۔ آکسفورڈ ڈکشنری میں ناول کو A fictitious prose narrative یعنی من گڑھت نثری بیانیہ، کہا گیا ہے جس کا ایک مناسب حجم ہوتا ہے، کچھ کردا رہوتے ہیں جو کم یا زیادہ پیچیدگی کے ساتھ کسی پلاٹ کے تنظیم میں حقیقی زندگی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مغرب میں تقریباً 1700 کے بعد کے بعض ناولوں پر یہ تعریف صادق آتی ہے۔ ہمارے یہاں انیسویں صدی کے ربعِ آخر سے اس کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے۔
ناول بہ حیثیت ایک صنف کے نسبتاً ایک نئی صنف ہے لیکن اس کے آثار ماضیِ قدیم کی ان تمام اصناف میں ملتے ہیں جو بیانیہ طرز پر مبنی ہیں جیسے الف لیلوی داستانیں قدیم یونانی رزمیے، داستانِ امیر حمزہ، بوکیشو کے وہ قصے جو Decameron میں شامل ہیں وغیرہ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ناول کے بعض اجزا، داستان/داستانوں میں بھی ملتے ہیں۔ لیکن داستان یا مغرب کے رومانی قصے Romances مہماتی نوعیت کے تھے۔ قصہ، پس منظر اور کرداروں پر مثالیت Idealism کا رنگ گہرا تھا۔ داستان کے مختلف اجزا کے درمیان فنّی تناسب کی کمی پائی جاتی تھی۔ داستان نگاروں کو اپنے تخیل کی آزاد اڑانوں پر قدغن لگانے کا ہنر نہیں آتا تھا یا یہ کہ کہیے کہ وہ اسے فن کی خوبی سمجھتے تھے۔ اسی لیے صفات کے استعمال میں بھی یہ بہت فیاض تھے۔ زندگی کے عام حقائق کو قصے یا قصوں کی بنیاد بنانے میں بھی ان کی دلچسپی کم ہی تھی۔ سامع کو تحیر میں ڈالنے اور لطف کا سامان مہیا کرنے کی طرف ان کا میلان زیادہ تھا۔ کوئی بھی چیز کہیں پر بھی رونما ہوسکتی ہے۔ اس کا کوئی معقول سبب نہیں ہوتا۔ ہمیں یہ پتہ نہیں چلتا کہ کوئی واقعہ کیوں رونما ہوا تھا۔ وہ کون سے اسباب تھے جو واقعے کے پیچھے کارفرما تھے۔ داستان گو صرف خارجی زندگی کو پیش کرتا ہے اس کے باطن میں جھانکنے کی کوشش نہیں کرتا۔ ناول میں داخلی تجزیے Interior analysis کا عمل شروع سے آخر تک جاری رہتا ہے۔ ناول نگار ایک ہمہ بین اور ہمہ دان کا کردار بھی ادا کرتا ہے۔ وہ یہ باور کراتا ہے جیسے اسے سارا علم ہے اور اس کے مشاہدے میں ساری چیزیں ہیں۔
این واٹ (Ian Watt) اپنی تنقیدی تصنیف Rise Novel کا آغاز ناول کی تعریف کے تعین کرنے کے دوران پیش آنے والی دقتوں سے کرتے ہوئے یہ بتاتا ہے کہ اٹھارویں صدی میں جب ناول کی بنیادیں پڑرہی تھیں، اس وقت بھی ناول کے قارئین کے ذہنوں میں کچھ شکوک اور کچھ سوال تھے۔ آج بھی موجود ہیں۔ یہ سوال سب سے اہم ہے کہ کیا ناول ادب کی ایک نئی صنف ہے؟ اور عام طور پر اسے ایک نئی صنف کا نام ہی دیا جاتا ہے۔ این واٹ بھی یہ مان کر چلتا ہے کہ ڈِفو (Defoe) رچرڈسن (Richardson) اور فیلڈنگ (Fielding) سے ناول کا آغازہوتا ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ فکشن کی تو قدیم ترین مثالیں بھی موجود ہیں جیسے یونانی اور عہدوسطیٰ کا افسانوی ادب اور سترھویں صدی کا فرانسیسی افسانوی ادب (غالباً اس کا اشارہ لافونتین کی جانوروں کے زبانی منظوم بیان کردہ قصو ںکی طرف ہے جو فرانسیسی عصری معاشرے کی حقیقت افروز نمائندگی کرتے ہیں)۔ واٹ کا یہ کہنا ہے کہ ہم انھیں کس طرح نئے طرز کے ناول کے آرٹ سے مختلف قرار دیں گے؟ ان امتیازات کے کیا اسباب ہیں؟ واٹ کے لیے یہ سوالات بے حد تفصیل طلب ہیں اور مشکل بھی۔ وہ یہ کہتا ہے کہ ڈفو، رچرڈسن اور فیلڈنگ کے سیاق و سباق میں تو ان کے جواب مہیا کرنا اور بھی مشکل ہے کیونکہ یہ کسی ادبی دبستان کی اساس گر تھے نہ کسی دبستان کی نمائندگی کرتے تھے۔ ان کا فن بھی ایک دوسرے سے بڑی حد تک مختلف ہے۔
یہاں ہم ان رزمیوں کو اپنا مسئلہ نہیں بتا رہے ہیں جو یونان و روم میں لکھے گئے اور جو منظوم تھے یا وہ نثری بیانیہ رومان پارے Romances جنھیں یونانی مصنّفین نے دوسری اور تیسری صدی عیسوی میں لکھا تھا۔ لیکن بڑی حد تک الجھن میں ڈالنے والے وہ تخلیقی کارنامے ضرور ہیں جن کا تعلق قدیم رومی ادب سے ہے۔ جن میں عصری سماجی عیوب اور اخلاقی پراگندگی کو ایک ایسے فارم میں طنز و تنقید کا ہدف بنایا جاتا تھا جو پچ میلے اور مختلف النوع اجزا کا مرکب تھے اور اپنے پلاٹ اور کہانی کی بنیاد پر انھیں ناول کا نام بھی دیا گیا تھا۔ ان میں زمان و مکان، کردار اور ان کے اعمال بھی حقیقت بیز ہیں۔ ان کی فریب کاریوں ان کی عہد شکنی، منافقت، ان کی ہوس زر، مقابلہ آرائی، حسد، طبقاتی تفریق وغیرہ کی بھی پردہ دری کی گئی ہے جہاں بالخصوص عورتوں کی بے وفائی، اور جسم فروشی کے لیے آمادہ ہونے والی فطرت وغیرہ کو انسانی خصائل کے طور پر معنی دیے گئے ہیں۔ وہیں بھُک مری سے تنگ ہوئی عورتوں کا بہ حالت مجبوری اپنی عصمت تک کو داؤ پر لگا دینا جیسے مسائل کی پیش کش سے بھی پہلوتہی نہیں کی گئی ہے۔ پیٹرونیس Petronus کی تصنیف Medley جو محض ناول کے آثار ہی اپنے بطن میں نہیں رکھتی، ہم جسے مختصر افسانہ کہتے ہیں،اس کے نقوش بھی اس میں محفوظ ہیں۔ حقیقت پسندانہ مضامین Themesکے ساتھ بھوت پریت کی کہانیاں بھی اس کے پلاٹ کے دھاگوں میں پروئی ہوئی ہیں۔ کہیں کہیں اسطور سازی بھی کی گئی ہے اور یونانی اساطیر کی کہانیوں کو بھی دہرایا گیا ہے۔ انسان کا ریچھ یا لوسیس اپولیس Lucius Apuleius کے ناول ’خرطِلائی‘ Golden Ass میں بلیک میجک، توہم اور چڑیلوں سے استعجاب و خوف کی فضا کی تشکیل، یا فوٹِس Fotis کا گدھے کی ہیئت میں تبدیل ہوجانا وغیرہ فوق الفطری ثانیے بھی درمیان میں واقع ہوتے ہیں۔ اس طرح کی صورتیں کافکا اور انتظار حسین ہی کے یہاں دستیاب نہیں ہیں، مابعدِ جدید افسانوی ادب میں جادوئی حقیقت نگاری کے نام سے ان کا پھر احیا ہوا ہے۔ اس معنی میں جدید ناول کی جڑوں پر غور و فکر کرتے ہوئے مصری، یونانی، رومی، ہندوستانی، عربی اور فارسی زبانوں کے قدیم تحریری اور زبانی افسانوی ادب کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔
ظاہر ہے واٹ کے سوالوں کے جواب کے لیے ان اسباب پر غور کرناہوگا، جو کسی بھی نئی ادبی صنف کے ورود کے پیچھے کارفرما ہوتے ہیں۔ بعض اصناف کے پیچھے محض تاریخی محرکات کام کرتے ہیں، بعض کی جڑیں لوک مخزن کی روایت میں جمی ہوتی ہیں۔ بعض کسی نئے خلاق ذہن کے نئے جذبوں اور تجربوں کے وفور کے اظہار پر منتج ہوتے ہیں اور یہ پتہ چلتا ہے کہ ایک نئی صنف وجود میںآگئی۔ ہر صنف دوسری بہت سی روایتی اصناف کے آثار کا مجموعہ ہوتی ہے اور ناول بھی ایک ایسی ہی نئی صنف، نئی ساخت، نئی ہیئت ہے جس کی نہ تو کوئی معین ساخت ہے نہ معین ہیئت اور نہ کوئی معین خاکہ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ناول کا خاکہ دوسرے ناول سے مختلف ہوتا ہے۔ ڈی ایچ لارنس ناول کو کتابِ زندگی کہنے کے بعد بائبل کو بھی ایک بہت بڑا اور گڈمڈ قسم کا ناول کہتا ہے۔ ’آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ خدا کے بارے میں ہے مگر درحقیقت یہ زندہ بشر کے بارے میں ہے۔ آدم، حوا، سارہ، ابراہیم، اسحٰق، یعقوب، سیموئل، داؤد، بلقیس، رُوت، اِستار، سلیمان، ایوب، علیسیاہ، یسوع، مرقس، یہودا، یولس اور پطرس۔ یہ سب کیا ہے اگر زندہ بشر نہیں تو اوّل سے آخر تک، زندہ بشر نہ کہ محض اس کے اجزا حتی کہ خالقِ اکبر بھی ایک زندہ بشر کے مماثل ہے، دہکتی ہوئی جھاڑی کے اندر، موسیٰ کے سر پر سنگین لَو میں برساتے ہوئے۔( فکشن فن اور فلسفہ، مترجم: مظفر علی سید)
لارنس بالکل اسی طرح ناول کی فضا کو اناجیل میں دیکھتا ہے اور ناول کو جستہ جستہ صورت میں صدیوں پر پھیلا دیتا ہے۔ کتھاسرت ساگر یا ایسپ کی حکایات تک اس سلسلے کو محیط کیا جاسکتا ہے۔ ناول جیسی عجیب و غریب مگر مالامال صنف کے اندر قارون کا خزانہ بھی محفوظ ہے اور علی بابا کا خزانہ بھی۔ وہ گُڑمبا ہے، ملغوبہ ہے، قیمتی دھاتوں سے بھری ہوئی کان، کہیں کا پتھر اور کہیں کا روڑا، بھان متی نے رشتہ جوڑا۔ ہم اسے سب سے قریبی گم شدہ سی بڑی عظمتوں والی صنف داستان سے جوڑ کر فارغ ہونا مناسب سمجھتے ہیں۔
ناول ہو یا داستان دونوں کا شمار بیانیہ میں ہوتا ہے۔ بیانیہ میں قصے یا کہانی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن عہدِ جدید میں قصے کو زیادہ دلچسپ اور معنی خیز بنانے کے لیے واقعے سے زیادہ کردار سے مدد لی جاتی ہے۔ موجودہ زندگی کی پیچیدگیوں نے انسان کو بھی بہت پیچیدہ بنا دیا ہے۔ وہ جتنا باہر نظر آتا ہے اس سے زیادہ اپنے باطن میں چھپا ہوا ہے۔ اسی لیے جدید دور کے ناولوں میں کرداروں کا نفسیاتی مطالعہ کیا جاتا ہے۔ ان کے باطن کی سراغ رسانی کی جاتی ہے۔ ان چیزوں کو نمایاں کیا جاتا ہے جو انکشاف کا درجہ رکھتی ہیں۔ جن سے ہم تقریباً لاعلم ہوتے ہیں۔
رزمیہ قصوں یا داستانوی کہانیوں کے مقابلے میں ان ناولوں کی تین خصوصوصیات نمایاں ہیں:
.1 ناول کی کہانی طویل ہوتی ہے
.2 ناول حقیقی زندگی اور حقیقی منظر و پس منظر کی نمائندگی کرتا ہے
.3 ناول کی ساخت Structure زیادہ پیچیدہ ہوتی ہے۔
ہمارے یہاں ناول کی تاریخ کو ڈیڑھ سو برس ہونے جارہے ہیں اور مغرب میں کم و بیش تین سو برسوں پر یہ تاریخ محیط ہے۔ باوجود اس کے ناول کی صنف کو آج بھی جدید ان معنوں میں کہا جائے گا کہ قدیم نظام بلاغت و شعریات میں اس کا کوئی حوالہ نہیں ملتا اور مل بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ ناول کیا کسی بھی نثری صنف کے فنّی مضمرات کی خاکہ آرائی، روایتی شعریات کے منصب میں شامل نہیں تھی۔ ناول نثر کی پختگی اور نئے معقولیت کے دور ہی میں پیدا ہوسکتی تھی۔ ناول کو ایک صنف کا درجہ دینے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کی ساخت و ہیئت کے ایسے قاعدے تشکیل دیے جائیں جیسے مسلمہ اصناف Canonic genres کے ساتھ مختص ہیں۔ اسی لیے ناول کا فن بہت سی آزادیاں فراہم کرتا ہے۔ جن سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اپنے اوپر بہت سی پابندیاں عاید کرنی پڑتی ہیں۔ بے اصولے پن میں بھی کسی نہ کسی اصول کی تلاش کو اپنا منصب بنانا پڑتا ہے۔ یہ ایک ایسا وسیع کھیل کا میدان ہے جہاں کھلنڈرے پن، تفریح، دل بہلاوے، دماغ سوزی، سنجیدگی، ٹہوکہ لگانے اور چھیڑچھاڑ کرنے کی کافی گنجائش ہے۔ ناول نگار کو ایک وسیع تر دنیا آباد کرنی پڑتی ہے۔ باختن مسلمہ روایتی اصناف کے مقررہ اسالیب اور ہیئتی اصولوں میں Unification یعنی متحد کرنے کے عمل کو زبان کی ہم کلامی Dialogic کے پہلو کو پیچھے دھکیل دینے کا باعث قرار دیتا ہے۔ ناول ایک پیچیدہ مگر سیال تنظیم کا نام ہے اسی معنی میں ہر ناول ایک نیا فنی تجربہ ہوتا ہے۔ جس میں بقول باختن ہم بہ یک وقت زبان و تکلم کے کئی اسالیب سے دوچار ہوتے ہیں۔ زبان کے اُس متشدد کردار کا بھی سامنا ہوتا ہے جو مقتدرہ اور ہر قسم کی آئیڈیولوجی کو رد کرنے کی طاقت رکھتا اور مرکز جویانہ کوششوں کا تمسخر اڑاتا ہے۔ زبان کا یہ تصور مقتدرہ کے مستند ادبی زبان کے تصور کے منافی ہے۔ ناول کی زبان متضاد زبانوں سے ترکیب پاتی ہے اور جس میں نشو و نمو اور ارتقا کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ باختن ناول کو Hetro-glossia یعنی مختلف زبانوں اور بولیوں کا حامل بھی بتاتا ہے یہ مختلف زبانیں ایک آرکسٹرا کا سماں پیدا کرتی، کثیرالاصواتی اور کثیرالمعنیاتی نسبتیں قایم کرتی، دنیا کے بارے میں تصور پیش کرتی ہیں۔ اس کے نزدیک تضاد زندگی کا قانون ہے جو حیات و کائنات کے تمام مظاہر میں پایا جاتا ہے۔ تضاد کا یہ تصور ہی مرکزیت کو رد کرتا ہے۔ ناول کی بافت میں پیوندزنی (Pastiche) اور پیروڈی کے عمل ہی کی گنجائش نہیں ہے بلکہ باختن کے لفظوں میں ناول کا فن دوسری ہیئتوں اور اصناف کو بھی اخذ و کسب کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ ناول کی یہی وہ صنف مخالف قوت ہے جس کے باعث وہ کبھی ایک مکمل صنف کا درجہ نہیں پاسکتی۔ ناول کی اس کثیرالاصنافی خصوصیت، فنی تجربوں کے اژدہام اور زندگی کے وسیع تر تنوعاتی بکھراؤ کو جس طور پر قبول کرتی یا اپنے نفس میں جذب کرتی ہے کوئی دوسری صنف اس کی اہل نہیں ہوسکتی۔ باختن نے ایک اور مسئلے پر طویل بحث کی ہے اور اس مسئلے پر ہم بھی گزشتہ کئی برسوں سے بحث کرتے آرہے ہیں کہ فکشن کے کیا کچھ ایسے اصول ممکن ہیں جن کا اطلاق صرف اور صرف اسی پر کیا جاسکے۔ ظاہر ہے اس مسئلے کو جب بھی سلجھانے کی کوشش کی گئی ہے یہ اور الجھ کر رہ گیا ہے۔ باختن شعری صنائع کو محض شاعری کے ساتھ مختص کرکے دیکھتا ہے جب کہ ناول کثیر آوازوں کا جمگھٹا ہے۔ ناول کی قرأت شاعری کے طور پر کرنے کے معنی ناول کی ثروت مندی کے ساتھ ناانصافی کرنے کے ہیں۔ میرے کہنے کا مقصود بس یہ ہے کہ ناول کو ایک صنف کی حیثیت سے اس طرح بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ یہاں میرا مقصود درجہ بندی یا تقابل قطعی نہیں ہے صرف اتنا کہنا چاہوں گا اور اسے میری ایک محفوظ ترین رائے ہی سمجھیے کہ ناول کے فن کے بارے میں یا کسی ناول کے فنی تشخص کے بارے میں جس قدر غور و خوض اور نئے نئے نکتے نکالنے کی گنجائش ہے اتنی مجھے نظم کے علاوہ کسی دوسری صنف میں کم ہی نظر آتی ہے۔ ایک بات اور کہ دوسری قدیم اصناف سے کشید ہوکر یہ ہم تک پہنچی ہیں اور ہماری مقتدر اصناف کے مقابلے میں ان کی عمر بھی کوتاہ ہے۔ پھر بھی کم سے کم عرصے میں نہ صرف یہ پوری طرح قایم ہوگئیں بلکہ انھوں نے دوسری مقبول عام اصناف کو بھی پیچھے دھکیل دیا۔
ناول لفظوں کا فن ہے اور زندگیوں کو دوزخ میں پھنسانے، اس سے نکالنے اور پھر اس میں پھنسانے کا فن بھی بلکہ چوری سے باطن کے دوزخ میں جھانکنے، اسے منکشف کرنے اور اس سے اذیت ناک لطف لینے اور لطف دینے کا فن بھی۔ ناول لکھنے والا زندگیوں کو کچھ اس طور پر رقم کرتا ہے کہ وہ بڑی حد تک مانوس اور دیکھی بھالی محسوس ہوتی ہیں جیسے ہم انھیں افراد اور انھیں زندگیوں کے بیچ زیست بسر کررہے ہیں۔ فرق بس اتنا ہے کہ ناول نگار ایک خاص فنی اصول اور تکنیک کے تحت انھیں ایک ایسی وضع بخشتا ہے جو مرحلہ بہ مرحلہ ہمیں اپنی طرف مائل رکھنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوتی ہے۔ ناول نگار، ڈرامہ نگار نہیں ہوتا لیکن وہ ڈرامے کی طرح عمل کرکے بھی دکھاتا ہے۔ ہم ان کرداروں کو بے حس یا مجہول نہیں بلکہ عمل آور دیکھتے ہیں۔ بیانیہ تکنیک کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ناول صرف پڑھنے کی چیز ہے اور بیان ہی میں اس کا سارا وصف مضمر ہوتا ہے۔ ایک چیز ہوتی ہے تصور میں دیکھنا یا Visualise کرنا۔ناول نگار میں محاکات کاری کی صلاحیت ہے تو اس کی تصویرکشی، تحرک سے عاری نہ ہوگی۔ وہ چیزوں کو زیادہ سے زیادہ حرکت و عمل کے ساتھ پیش کرے گا۔ ایسی صورت میں وہ ایک ڈرامہ نگار کا رول بھی ادا کرے گا۔ ہم اسے پڑھنے کے ساتھ ساتھ تصور میں بھی ان تمام مناظر، صورتِ حالات اور کرداروں کے تفاعل کو دیکھتے ہیں۔
یہاں ایک مثال سے یہ بات اور واضح ہوجائے گی۔ ہم جب کوئی فلم دیکھتے ہیں تو یہ نہیں سوچتے کہ وہ سب جھوٹ ہے محض انسانی اعمال و افعال کی نقل ہے یا غیرواقعی واقعات سے اُسے بُنا گیا ہے۔ ہم یہی سمجھتے ہیں اور باور کرتے ہیں کہ جو کچھ اسکرین یا پردۂ سیمیں پر دکھایا جارہا ہے، وہ حقیقت ہے۔ سماجی زندگی میں کسی کے ساتھ بھی وہ واردات واقع ہوسکتی ہے۔ یہ تو ہوا زندگی کا منظرنامہ۔ مگر فلم میں ان واقعات اور وارداتوں کو ایک خاص طریقے سے پیش کرنے کا کام ہدایت کار کا ہوتا ہے۔ ہدایت کار خود کہانی کا خالق نہیں ہوتا لیکن اس کہانی کو وہ ایک ایسا نظم و ضبط عطا کرتا ہے کہ کہانی اپنی اصل سے زیادہ جاذبِ توجہ بن جاتی ہے۔ ہدایت کار کے مطمحِ نظر فلم دیکھنے والے کا زاویۂ نظر ہوتا ہے کہ وہ حقیقت کو کس طور پر دیکھنا چاہے گا۔ وہ خود کیمرہ مین نہیں ہوتا لیکن کیمرہ مین کی نظر ضرور رکھتا ہے۔ اسی کی ہدایت کے مطابق منظر کو مختلف طریقوں سے فوکس کیا جاتا ہے۔ کیمرے کو منظر سے کتنی دور اور کتنی پاس رکھا جائے۔ دائیں سے فوکس کیا جائے کہ بائیں سے۔ اوپر سے فوکس کیا جائے کہ نیچے سے۔ کہاں روشنی اور کہاں شیڈز کی ضرورت ہے۔ کس موقعے پر Cut لازمی ہے۔ اگر کوئی کردار گھر سے نکل کر سڑک پر آگیا ہے۔ یا اس کا قصد کسی اور طرف کا ہے تو کیمرے کو کہاں تک اس کا پیچھا کرنا چاہیے۔ ہدایت کار یہ بھی دیکھتا ہے کہ کون سا منظر یا مناظر اس کہانی میں مؤثر ہوں گے کیوں کہ ان کی فن کارانہ پیش کش ہی فلم کی کامیابی کی ضامن ہوسکتی ہے۔ فلم کے ناظرین کے تاثر کی اس کے نزدیک خاص اہمیت ہوتی ہے۔ محض دو کرداروں کی آپسی گفتگو کسی ناظر پر کوئی خاص اثر نہیں ڈال سکتی۔ اثر بلکہ گہرا اثر اس وقت پڑتا ہے جب مختلف زاویوں سے کیمرہ اُس Moment کو اخذ کرلیتا ہے۔ اس طرح کہانی کار، ہدایت کار، کیمرہ مین، لائٹ مین، اسکرین پلے رائٹر اور موسیقار جیسے ماہرین کسی فلم کو اس کی تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔
ناول نگار کی شخصیت بھی کئی کرداروں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اُسے بیانیہ Narration کے زیادہ سے زیادہ امکانات کو کھنگالنا پڑتا ہے۔ اسے وقتاً فوقتاً بیان اور Statements سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔ ماحول سازی اور نقشہ کشی کے لمحوں میں بیان کی قوت ہی کام آتی ہے۔ بیان کی غیرمعمولی قوت وہاں بھی کام آتی ہے جب مصنف ہمہ بینی اور ہمہ دانی کا مظاہرہ کرتا یا کسی کردار کی تہوں کو اجاگر کرتا یا کہیں داخلی تجزیے Interior analysis کی اُسے ضرورت پڑتی ہے۔ بیان کے لمحے بیانیہ کی اثر انگیزی کی قوت کو دوبالا کردیتے ہیں۔ ناول نگار فلم کی تکنیکوں کو عملاً بروئے کار نہیں لاسکتا لیکن لفظ اور ناول کی ساخت کی اپنی قوت ہوتی ہے جو فلمی تکنیکوں کی کمی کو پورا کردیتی ہے۔ ناول نگار میں اگر یہ صلاحیت ہے تو وہ روایتی فریم میں بھی کوئی بڑا ناول خلق کرسکتا ہے جیسے شمس الرحمن فاروقی کا ناول ’کئی چاند تھے سرِآسماں‘۔ نیز Frame breaking کے ذریعے بھی کسی چھوٹی بساط میں کوئی بڑا تجربہ انجام دے سکتا ہے جیسے خالد جاوید کا ناول ’موت کی کتاب‘ ہے۔
ناول میں ایک قصہ گویا بیان کنندہ ہوتا ہے جو رابطے کا کام انجام دیتا ہے۔ اس رابطہ کار کو مشخص راوی Personified narratorکا نام دے سکتے ہیں۔ ناول کے قاری کے لیے مشخص راوی جیسا فرضی کردار بھونچکا کرنے والا یا نامانوس نہیں ہوتا۔ مشخص راوی میں کچھ ایسی خصوصیات ضرور ہوتی ہیں جن سے اس کا ایک علیحدہ اور منفرد کردار تشکیل پاتا ہے۔ ہر راوی کا کوئی نقطۂ نظر، چیزوں کو دیکھنے اور ان پر رائے قائم کرنے کا کوئی نظریہ ضرور ہوتا ہے۔ بعض راوی معروضیت Objectivity سے کام لیتے ہیں۔ بعض راوی بے حد دروں بینی یا داخلی Introvert ہوتے ہیں۔ بعض کردار کی ذہنی آزادی پر قدغن لگاتے ہیں بعض انھیں اپنی زندگی جینے دیتے ہیں۔ ان ناولو ںمیں جن کا راوی آئی یا میں یعنی خود مصنف ہوتا ہے تو اکثر قلم کی باگ چھوٹ جاتی ہے۔ ناول نگار کی جذباتیت جگہ جگہ اپنا رنگ دکھانے لگتی ہے۔ سارے کردار اسی کی بولی بولنے لگتے ہیں۔ کرداروں کی اپنی علیحدہ علیحدہ شناخت مدھم پڑجاتی ہے۔ قرۃ العین حیدر کے ابتدائی دونوں ناولوں میں اسی قسم کی جذباتیت کا رنگ زیادہ حاوی ہے۔ قرۃ العین کی اپنی کچھ نفسیاتی الجھنیں اور ذاتی تحفظات ہیں جو بار بار ناول میں حائل ہوجاتے ہیں۔ عموماً وہ اپنے ناولوں میں خود ایک راوی کا کردار ادا کرتی ہیں۔ مرزاہادی رسوا بھی امراؤ جان ادا کے خود راوی ہیں لیکن انھوں نے ہر جگہ معروضیت کی ایک حد ضرور قایم رکھی ہے۔ وہ ہر جگہ موجود بھی ہیں اور غایب بھی۔ ان کی موجودگی محض ایک راوی کی حیثیت نہیں رکھتی بلکہ وہ اکثر مقامات پر پوری طرح شریک بھی ہیں۔ کہانی کو آگے پیچھے لے جانے یا ماضی کو حال سے جوڑنے میں ان کی شرکت خاص کردار ادا کرتی ہے۔ اس طرح کہانی غیرضروری اور غیرمتعلق تفصیلات سے محفوظ رہتی ہے۔ یہاں اس ناول کا ایک طویل اقتباس بطور حوالہ مفید مطلب ہوگا۔ یہ اس ناول کا ابتدائی حصہ ہے۔ گویا کہانی حال سے شروع ہوکر آہستہ آہستہ ماضی میں بہت دور تک نکل جاتی ہے:
’’ہم کو بھی کیا کیا مزے کی داستانیں یاد تھیں
لیکن اب تمہیدِ ذکر دردِ ماتم ہوگئیں
ناظرین! شانِ نزول اس قصے کی یہ ہے کہ دس بارہ برس کا ذکر ہے کہ میرے ایک دوست منشی احمد حسین صاحب اطرافِ دہلی کے رہنے والے بطریقِ سیر و سیاحت لکھنؤ تشریف لائے تھے۔ انھوں نے چوک میں سید حسین کے پھاٹک کے پاس ایک کمرہ کرائے پر لیا تھا۔ یہاں اکثر احباب سرِ شام آبیٹھتے تھے۔ بہت ہی لطف کی صحبت ہوتی تھی۔ منشی صاحب کا مذاقِ شعری اعلیٰ درجے کا تھا۔ خود بھی کبھی کبھی کچھ کہہ لیتے تھے اور اچھا کہتے تھے لیکن زیادہ تر اُن کو سننے کا شوق تھا۔ اس لیے اکثر شعر و سخن کا چرچا رہتا تھا اسی کمرے کے برابر ایک اور کمرہ تھا، اس میں ایک طوائف رہتی تھی۔ بود وباش کا طریقہ عام رنڈیوں سے بالکل علیحدہ تھا۔ نہ کبھی کسی نے کمرے پر سرِ راہ بیٹھتے دیکھا۔ نہ وہاں کسی کی آمد و رفت تھی۔ دروازوں میں دن رات پردے پڑے رہتے تھے۔ چوک کی طرف نکاس کا راستہ بالکل بند رہتا تھا۔ گلی کی جانب ایک اور دروازہ تھا اسی سے نوکر چاکر آتے جاتے تھے۔ اگر کبھی کبھی رات کو گانے کی آواز نہ آیا کرتی تو یہ بھی نا معلوم ہوتا کہ اس کمرے میں کوئی رہتا بھی ہے یا نہیں۔ جس کمرے میں ہم لوگوں کی نشست تھی۔ اس میں ایک چھوٹی سی کھڑکی لگی تھی مگر اس میں کڑا پڑا ہوا تھا۔
ایک دن حسب معمول احباب کا جلسہ تھا کوئی غزل پڑھ رہا تھا۔ احباب داد دے رہے تھے۔ اتنے میں میں نے ایک شعر پڑھا۔ اُس کھڑکی کی طرف سے واہ واہ کی آواز آئی۔ میں چپ ہوگیا اور احباب بھی اس طرف متوجہ ہوگئے۔ منشی احمد حسین نے پکار کر کہا ’’غائبانہ تعارف ٹھیک نہیں۔ اگر شوقِ شعر و سخن ہے تو جلسے میں تشریف لائیے‘‘ اس کا کوئی جواب نہ ملا۔ میں پھر غزل پڑھنے لگا۔ بات رفت گزشت ہوئی۔ تھوڑی دیر بعد ایک ’’مہری‘‘ آئی۔ اُس نے پہلے سب کو سلام کیا پھر یہ کہا ’’مرزا رسوا کون صاحب ہیں؟ احباب نے مجھے بتا دیا۔‘‘ (امراؤ جان ادا، اردو اکیڈمی سندھ کراچی، 1961، ص: 49-50)
ناول امراؤ جان ادا کی یہ ابتدائی پیراگراف ہیں۔ پہلے پیراگراف سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ راوی غایب ہے حالاں کہ وہ ہوتا مصنف ہی ہے لیکن وہ یہ باور کراتا ہے کہ قصہ گو یا متکلم کوئی اور ہستی ہے۔ دوسرے پیراگراف میں ’میں پھر غزل پڑھنے لگا‘ جیسا جملہ جو داخلی کلامی کا تاثر دے رہا ہے سے، یہ انکشاف ہوتا ہے کہ ناول کا راوی کوئی اور نہیں خود مصنف ہے۔ آگے چل کر اس بات کی پوری تصدیق اس ٹکڑے سے ہوجاتی ہے کہ ’’تھوڑی دیر بعد ایک‘‘ مہری آئی۔ اُس نے پہلے سب کو سلام کیا۔ پھر یہ کہا ’’مرزا رسواؔ کون صاحب ہیں؟‘‘ احباب نے مجھے بتا دیا ’راوی نہ صرف یہ کہ ’میں‘ ہے بلکہ اس ’میں‘ کا نام رسوا ہے جو ناول کا مصنف ہے۔ گویا مصنف ان تمام واقعات اور صورتِ حالات کا بذات خود ناظر و شاہد بھی ہے جنھیں ناول میں پیش کیا گیا ہے۔
عالمی سطح پر اُن ناولوں کی تعداد زیادہ ہے جن کا راوی غایب کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ ہمہ دان بھی ہوتا ہے اور ہمہ بین بھی۔ وہ کرداروں کے خیالات، عادات، محسوسات اور ردِّہائے عمل کے بارے میں تجزیہ کرتا جاتا ہے تاکہ ہم انھیں پوری طرح اپنی فہم کا حصہ بناسکیں۔ کرداروں کی حرکات و اعمال اور اُن کی جزئیاتی تفصیلات محض توضیحی بیان یا محض منظرنگاری یا محض کسی ایک خاص اسلوب کے مظاہرے کو مختص نہیں ہوتیں۔ ناول کے وسیع تر معنی، نقطۂ نظر یا تصور کی تشکیل میں ان کا بھی اہم کردار ہوتا ہے۔ عزیز احمد کے ناول ’شمیم‘ کا راوی بھی غایب ہے۔ اب ذرا اس کے آغاز یہ دو پیراگراف پر غور کریں:
’’سگریٹوں کا ڈبّہ قریب قریب خالی ہوچکا تھا اور پورے کمرے میں انہی سگریٹوں کا دھواں پھیل چکا تھا۔ وہ دھواں جو اُس کی زبان کو جلاتا ہوا حلق تک اور کبھی پھیپھڑوں تک پہنچتا اور بے خیالی سے کبھی منہ اور کبھی نتھنوں سے باہر آتا اور سگریٹوں کی ایک زنجیر تھی کہ بندھی ہوئی تھی۔ جب انگلیاں جلنے لگتیں تو وہ سیدھے ہاتھ سے فاؤنٹین پین اُن بے شمار کاغذات پر کہیں رکھ دیتا جو اُس کے بڑے سے شیشہ پوش میز پر پھیلے ہوئے تھے اور ایک اور سگریٹ سلگا لیتا۔ پہلے سگریٹ کو ایش ٹرے کی نذر کرتا او رپھر اُسی اداریے میں محو ہوجاتا۔ وہ کبھی اداریہ لکھنے کے بعد فوراً نظر ثانی نہ کرتا، لکھتا جاتا۔ میز پر ڈالتا جاتا۔ ٹاپئسٹ منتشر کاغذوںکو سمیٹ کر ٹائپ کرتا جاتا اور جب لکھ چکتا اور گھومنے والی کرسی کی پشت پر سر ڈال کر کے آخری سگریٹ کو ختم کرچکتا تو ٹائپسٹ ٹائپ کردہ اداریہ اُسے لادیتا اور وہ تصحیح شروع کرتا اور اس کے سب ایڈیٹروں کو ہدایت دیتا اور ایک بجے کے قریب گھر چل دیتا۔ فرخندہ نگر سے اچھے معیار کا انگریزی اخبار نکالنا کوئی آسان کام نہ تھا۔
دوپہر کو عموماً وہ دفتر میں بہت کم ٹھہرتا تھا۔ اس چھوٹے سے کمرے سے جس کے دروازے پر باہر کی طرف ایڈیٹر کی تختی لگی ہوئی تھی اور جو اندر سے بڑا خوبصورت سا پالش کیا ہوا معلوم ہوتا تھا اُسے قلبی نفرت تھی۔ معلوم ہوتا تھا چوبی وارنش کی بدبو جو دو تین سال سے برابر آرہی تھی کبھی کم نہ ہوگی۔ کبھی کبھی اُسے یہ احساس ہوتا کہ وہ ایک تابوت میں بیٹھا کام کررہا ہے۔ ایک مسلسل عالمِ برزخ ہے لیکن اُس سے نجات کی کوئی صورت نہیں۔‘‘
راوی نے یہاں جس ضمیر غایب کا ایک خاص مہلتِ زماں میں احوال بیان کیا ہے۔ اس کے نام سے ابھی ہم واقف نہیں ہیں۔ ان آغازیہ پیراگرافوں کے دو چار صفحات کے بعد یہ پتہ چلتا ہے کہ اُس ضمیر غایب کا نام ارشد علی خاں ہے جو دکن آبزرور کا مدیر ہے۔ ہمیں اس بات کا بھی علم ہوتا ہے کہ ناول کا نام جس مرکزی کردار کے نام پر رکھا گیا ہے اس کا پورا نام شبنم سلطان علی ہے۔ جو خود لکھنے لکھانے سے رغبت رکھتی ہے۔ محولہ بالا اقتباس سے ارشد علی خاں کی ذہنی پراگندگی، روزمرہ کے معمولات سے اس کی بے زاری، اپنے پیشے سے بے گانگی یا اُس مقام سے اکتاہٹ سے آگہی ہوتی ہے جو اس کے نزدیک ایک مسلسل عالم برزخ سے کم نہیں۔ وہ اس چھوٹے سے کمرے میں ایسا محسوس کرتاہے جیسے وہ کسی تابوت میں بیٹھے سارے کام انجام دے رہا ہے۔ دراصل ان آغازیہ پیراگرافوں کو ارشد علی خاں کے پارہ صفت کردار کا اشاریہ کہا جاسکتا ہے۔ ناول میں آگے چل کر جس کی پرتیں کھلتی جاتی ہیں وہ شبنم سے عشق بھی کرتا ہے اور وصل کو عشق کی موت بھی قرار دیتا ہے۔ عشق میں کامیابی کی منزل وصل سے نہیں ہجر سے ہوکر جاتی ہے۔ اسی قسم کی فلسفیانہ الجھنوں میں اُس کا ذہن ہچکولے کھاتا رہتا ہے اور بالآخر ہجر کی ایک منزل پر شبنم اس سے وداع لے لیتی ہے۔ بیانیہ کی تکنیک میں داخلی تجزیے Interior analysis کی خاص اہمیت ہے۔ عزیز احمد اپنے طور پر اور قرۃ العین اپنے طور پر اسے بروئے کار لاتی ہیں۔
یہ ضروری نہیں کہ حاضر راوی جو قصہ بیان کررہا ہے یا اس نے جو واقعات مرتب کیے ہیں وہ قطعاً واقعی اور حقیقی ہوں۔ بعض چیزیں واقعی بھی ہوسکتی ہیں لیکن ناول کی اپنی ایک فنّی ساخت یا پلاٹ کی تنظیم ہوتی ہے، اُس میں حقائق اکثر ایک نئی صورت میں نمو پاتے ہیں۔ واقعہ کچھ اور صورت اختیار کرلیتا ہے۔ اسباب و علل کی منطق کی اپنی ایک رو ہوتی ہے جو کبھی توقع اور کبھی توقع کے برخلاف اپنے رُخ کا تعین کرتی ہے۔ اکثر سوانحی یا سوانحی قسم کے ناولوں سے یہ دھوکا ہوتا ہے۔ بعض مصنف خود فریب دیتے ہیں جیسے امراؤ جان ادا کو بھی ایک کرداری یا سوانح عمری کی تکنیک میں لکھا ہوا ناول قرار دیا جاسکتا ہے جس سے بہتوں کو یہ گمان ہوتا رہا ہے کہ امراؤ جان اداؔ نام کی کوئی طوائف تھی۔ رسوا اس کے کوٹھے کا پتہ بھی بتاتے ہیں۔ آصف الدولہ کے عہد کی تاریخی اور تہذیبی صورتِ حال کا تجزیہ بھی کرتے جاتے ہیں جس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک ایسا حقیقی واقعہ ہے جو ایک خاص جائے وقوع رکھتا ہے اور جس کا ایک خاص تاریخی اور تہذیبی تناظر بھی ہے۔ قرۃ العین حیدر کے تقریباً تمام ناولوں میں یہی کیفیت برسرِکار ہے۔ ’کارِ جہاں دراز ہے‘ کو خود مصنفہ نے سوانحی ناول نہیں مانا ہے جب کے اس کے بیش تر افراد، واقعات، جلسے، مذاکرے اور مقامات وغیرہ واقعی اور اصلی ہیں۔ مصنفہ نے ان کی پیش کش میں کچھ اپنی طرف سے رنگ آمیزی ضرور کی ہے۔ اسی لیے ’کارِ جہاں دراز‘ ایک ایسا ناول ہے جو ناول کم ایک طویل رپورتاژ کا تاثر زیادہ فراہم کرتا ہے جس میں ایک طویل عرصۂ حیات پر پھیلے ہوئے دورانیے کی اُن یادوں کو ابھارا گیا ہے جو نظم و ضبط سے عاری ہیں۔ مصنفہ بار بار فلیش بیک اور فلیش فارورڈ کی تکنیک کو کام میں لے کر انھیں اسی صورت میں جماتی جاتی ہیں جس صورت میں ان کے ذہنی کے اسکرین پر وہ رونما ہوتی ہیں۔ نتیجتاً پورا ناول ایک وسیع تر کینوس پر تیار کردہ اسمبلاژ کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ مصنفہ خود حاضر راوی کا کردار ادا کرتی ہیں اس لیے اُن کی مداخلت اور ان کی موجودگی سے ناول کا کوئی حصہ خالی نہیں ہے۔
ناول میں زندگی کو ایک خاص فن کارانہ طریقے سے پیش کیا جاتا ہے اس لیے وہ کئی اعتبار سے اپنے قاری کو پڑھنے کے لیے اُکساتا ہے۔ مغرب میں 1770 کے بعد جس صنف نے قاری کو سب سے زیادہ اپنا گرویدہ بنایا وہ ناول ہی ہے۔ ناول پڑھنا ایک شوق کی چیز ہی نہیں رہا، ایک فیشن بن گیا اور انیسویں صدی تک پہنچتے پہنچتے طبقہ اولیٰ کی خواتین میں اس فیشن نے دیوانگی Mania کی صورت اختیار کرلی۔ بیسویں صدی میں جاسوسی، سائنسی، جرائمی، سستی رومانی، فحش اور ہیری پوٹر جیسے نئے داستانوی قسم کے ناولوں نے اس صنف کو مقبول ترین عوامی صنف بنا دیا۔ ہمارے یہاں بیسویں صدی میں سنجیدہ اور ادبی ناولوں کے پہلو بہ پہلو مقبول عام ناولوں نے بھی غیرمعمولی شہرت پائی۔ ناول کو خوش گوار خوابوں کی دنیا میں داخل ہونے کا ایک دروازہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ انسان جیسی اور جن حالات میں زندگی گزارتا ہے وہ تجربات اس کے اپنے ہوتے ہیں۔ ان کی حدود بھی ہوتی ہیں۔ ناول میں ہم ایسے بہت سے انسانوں کے گوناگوں تجربات سے دوچار ہوتے ہیں جو ہمارے لیے اجنبی ہونے کے باوجود احساسات کا ایک مشترک جہان رکھتے ہیں۔ وہ بعض ایسی وارداتوں سے گزرتے ہیں جو ہمیں حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔ بعض کے نفس میں ہم اپنا نفس اور بعض کے مزاج اور طبیعتوں میں ہم اپنی طبیعت کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوا کہ صرف عدم مماثلتیں ہی حیران کن نہیں ہوتیں مماثلتیں بھی حیران کن ہوتی ہیں۔ ناول ہمیں یہی تاثر فراہم کرتا ہے کہ اپنے غموں اپنی خوشیوں،اپنے اتفاقات اور اپنے جذبوں میں ہم تنہا نہیں ہیں۔ اس معنی میں ناول ایک دوسرے طریقے سے ہمیں اپنے وجود کا اثبات کراتا اور دوسرے انسانوں کے احساسات میں شمولیت کی راہ فراہم کرتا ہے۔
آل احمد سرور نے ریکس وارنر Rex Warnerکے حوالے سے یہ بات لکھی ہے کہ ’ناول ایک فلسفیانہ مشغلہ ہے‘۔ ظاہر ہے ناول میں فنی تقاضوں کی خاص اہمیت ہے۔ فلسفے کے تقاضے مختلف ہیں۔ ریکس وارنر یہ نہیں کہتا کہ ناول نگاری فلسفہ طرازی ہے یا ناول وہی کچھ کرتا ہے جو ایک فلسفی کرتا ہے بلکہ ناول نگاری اس کے نزدیک ایک فلسفیانہ مشغلہ ہے۔ جس میں انسانی زندگیوں کو فوٹوگرافیکل منجمد تصاویر کی شکل میں نہیں پیش کیا جاتا بلکہ جن زندگیوں کو پیش کیا جاتا ہے ان کے بارے میں ہم Make believe یعنی یہ یقین کرکے چلتے ہیں جیسے وہ حقیقی زندگیوں کی پیش کش ہے۔ ناول کا فن ہوبہو کسی کی حقیقی زندگی کو ازسرِ نو خلق نہیں کرتا بلکہ کسی کی زندگی کا کوئی عکس اس میں اتفاقاًنمو پاسکتاہے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ زندگی کے بعض تجربے ایسے ہوتے ہیں جو عمومی حیثیت رکھتے ہیں جیسے ہمارے جذبوں کا نظام، بعض تجربے ایسے ہوتے ہیں جو خصوصی حیثیت رکھتے ہیں یعنی بے حد نامانوس ہوتے ہیں اور جو یک لخت ہمیں بھونچکّا کردیتے ہیں کیوں کہ ان کی حیثیت روزمرہ کی نہیں ہوتی۔ وہ عام زندگیوں کے معمولات کا حصہ نہیں ہوتے۔ ان تجربات پر غور کرنا اور نتائج اخذ کرنے کا کام ناول نگار کا ہوتا ہے جو ناول کا تصنیف کار ہوتا ہے۔ ناول نگار ایک خاص طریقے سے واقعات پر اپنی رائے قایم کرتا ہے۔ صورتِ حال اور کرداروں کا تجزیہ کرتا ہے۔ اس طرح وہ ایک فلسفی کا رول ہی ادا کرتا ہے۔ آل احمد سرور نے ناول نگار کے فلسفیانہ مشغلے کی وضاحت ان لفظوں میں کی ہے کہ فلسفیانہ مشغلے سے ریکس وارنر کی غالباً یہ مراد ہے کہ:
’’ناول لکھنے کے لیے ایک سنجیدہ و مہذّب شعور اور خیال کی ایک خاص گہرائی اور گیرائی ضروری ہے، واقعہ یہ ہے کہ ناول اس وقت وجود میں آیا جب ادبیات میں ایک نمایاں پختگی اور گہرائی آچکی تھی اور سوسائٹی تہذیب کا ایک اچھا خاصا معیار حاصل کرچکی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ناول کا مطالعہ بہ یک تفریحی چیز ہی نہیں، تہذیبی اور ذہنی مطالعہ بھی ہے۔‘‘
ناول کے فن میں جو پیچیدگی پیدا ہوئی ہے وہ بیسویں صدی کی تہذیبی اور نفسیاتی زندگی کی پیچیدگیوں کی مظہر ہے۔ سترہویں صدی سے انیسویں صدی تک کے ناولوں میں زیادہ نظم و ضبط اور ظاہری شیرازہ بندی نظر آتی ہے۔ پہلے کے ادوار میں انسانی شخصیت بھی اتنی الجھی ہوئی، اتنی تہہ دار، اتنی گرہ دار نہیں تھی اور نہ اسے اتنے بہت سے ظاہرہ مسائل کا سامنا تھا اور نہ باطنی مسائل کا۔ انسان اس قدر ہوس پرست، حریص، تعقل پسند، اور خودپرست نہیں تھا جتنا موجودہ زمانوں میں اس نے ان قدروں کو اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔ آج کے دور میں انسان کی فہم یا انسان کے باطن کو سمجھنا ایک دشوار گزار عمل ہے۔
٭٭٭
ادب کی تاریخ میں پلاٹ کے تصور پر سب سے پہلی بحث ارسطو کی ’فنِ شاعری‘ میں ملتی ہے۔ ارسطو نے ڈرامے کے فن اور بالخصوص ٹریجڈی کے ذیل میں پلاٹ کو اپنی بحث کا موضوع بنایا ہے۔ ارسطو کے وقتوں تک رزمیہ اور ڈرامے کا فن کئی مراحل سے گزر چکا تھا۔ خطابت کے فن کے تحت نثر اور اسلوب نثر کو مسئلہ ضرور بنایا گیا لیکن ارسطو کا خاص زور ڈرامے کے فن پر تھا اور بالخصوص اس ڈرامے پر جس کے لیے اسٹیج کے تقاضوں کی بھی خاص اہمیت تھی۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ارسطو کے تصورِ پلاٹ کا اطلاق ناول پر کیا جاسکتا ہے۔ ظاہر ہے اسٹیج ڈرامے اور ناول کے تقاضے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اوّل الذکر صنف کا تعلق ’کرکے دکھانے‘ سے ہے اور مؤخر الذکر ایک بیانیہ صنف ہے جسے پڑھا جاتاہے۔ ڈرامے میں ’وقت کی قید‘ کی خاص اہمیت ہے۔ اس لیے اسے کئی ادوار تک نہیں پھیلایا جاسکتا اور نہ ہی فلیش بیک اور نہ فلیش فاورڈ کی اس میں گنجائش ہوتی ہے۔ ارسطو کے سامنے ہومر کا منظوم رزمیہ ’اوڈیسی‘ Odyssey تھا۔ رزمیے میں ڈرامے کے مقابل میں آزادی سے کھل کھیلنے کے مواقع زیادہ ہیں۔ چوں کہ رزمیہ کی صنف بیانیہ ہے، اس لیے رزمیہ میں ازخود بہت سی آسانیوں کی گنجائش نکل آتی ہے۔ یہ گنجائشیں وہی ہیں جن سے ناول کے چھوٹے سے رقبے میں زمان کو کئی زمانوں تک پھیلایا جاسکتا ہے۔ ارسطو نے رزمیے کے لچکدار کردار کے باعث جو شرائط ٹریجڈی سے وابستہ کی ہیں وہ شرائط ہی نہیں حدود بھی ہیں جن سے اسٹیج ڈراما تجاوز نہیں کرسکتا۔ لیکن رزمیہ ان شرائط اور ان حدود سے مستثنیٰ ہے۔ بالکل اسی طرح ناول کے پلاٹ کی تنظیم پر بھی ان شرائط اور ان حدود کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ’ناول کو عہد جدید کا رزمیہ‘ اس لیے نہیں کہا جاتا کہ اس کی ترکیب و تشکیل میں کام آنے والے اجزا رزمیے کے اجزا سے مماثل ہیں۔ بلکہ اس لیے کہ ناول ہمیشہ اپنے عصر کی زندگی اور پیچیدگی پر اپنے پلاٹ کی اساس رکھتا ہے۔
پلاٹ، ناول میں ایک نظم و ضبط یا Disciplineکا مظہر ہوتا ہے۔ وہ ہمارے سامنے ایک جہانِ حقائق کے باب کھول دیتا ہے۔ واقعات کی ایک دنیا خلق ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ان واقعات میں کہیں بہ ظاہر بکھراؤ نظر آتا ہے۔ کہیں ان واقعات کے پیچھے کارفرما اسباب بالکل واضح ہوتے ہیں۔ کہیں واقعات باطنی سطح پر ایک وحدت پر میں پروئے نظر آتے ہیں۔ ہماری زندگی میں بھی بڑی حد تک انتشار پایا جاتا ہے۔ ہم بارہا کئی طرح کے اتفاقات سے بھی گزرتے رہتے ہیں۔ ہم اپنے کچھ ارادے رکھتے ہیں، ہمارا کوئی مشن ہوتا ہے۔ کسی ایک بڑے مقصد یا مقاصد کی ایک لمبی فہرست ہوتی ہے۔ جنھیں حاصل کرنے کے لیے ہم اپنی تمام طرح کی ذہنی اور عملی قوتیں صرف کردیتے ہیں۔ پھر بھی بعض حالات میں ہمیں ناکامیوں اور کبھی کبھی پے بہ پے شکستوں کا سامنا ہوتا ہے بعض حالات اتنے سازگار ہوتے ہیں کہ کامیابی ہمارے قدم چومتی ہے۔ ناول کے پلاٹ میں بھی زندگی کے یہ حقائق پلاٹ کے ایک خاص ضابطے کے تحت نمایاں کیے جاتے ہیں۔ جب پورے ایک خاندان کے کئی کرداروں کی زندگی اور کئی نسلوں کی زندگیوں کو موضوع بنایا جاتا ہے تو پلاٹ میں بہ ظاہر ربط کو قایم رکھنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ اس قسم کے پلاٹ کو نبھانا ایک چیلنج سے کم نہیں ہوتا۔ ایک ماہر فن کار جو بیانیہ پر پوری دستگاہی رکھتا ہے۔ چیزوں کو پہلو بہ پہلو بڑی مہارت کے ساتھ جسے جمانا آتا ہے۔ وہی اس راز سے بخوبی واقف ہوتا ہے کہ پلاٹ میں فنی تناسب کو کس طرح اور کس ہنرمندی سے قایم رکھا جاسکتا ہے۔ پلاٹ کے بارے میں یہ عام خیال ہے کہ وہ اسباب پر سے پردہ اٹھاتے ہوئے چلتا ہے۔ لیکن یہ ہر بار نہیں ہوتا بہت سی چیزیں پھر بھی چھوٹ جاتی ہیں۔ بلکہ انھیں چھوٹ جانا چاہیے کیوں کہ ناول اگر ہر بات واضح کرنے کا بیڑہ اٹھانے لگے تو قاری کے فہم و ادراک کے لیے بچے گا ہی کیا؟ پلاٹ میں تجسس کر برقرار رکھنے کے لیے بعض اسرار کو اسرار ہی کے طور پر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ ہر قاری اپنے علم، اپنے وجدان اور اپنے تجربے کی روشنی میںان گتھیوں کو سلجھاتے ہوئے لطف اندوز ہوتا ہے۔ لطف اندوزی کا یہ وہ حق ہے جو اسے تقریباً ہر ناول نگار فراہم کرتا ہے۔ یہاں پہنچ کر ایم۔ ایم فارسٹر کا وہ اقتباس یاد آرہا ہے جس میں وہ ایک مثال دے کر پلاٹ کے معنی کا تعین کرتا ہے۔ وہ لکھتا ہے:
’’پلاٹ کا خالق ہم سے واقعات کو یاد رکھنے کی امید رکھتا ہے اور ہم اس سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ کوئی سِرا ڈھیلا نہ چھوڑے گا۔ پلاٹ کے اندر کا ہر فعل اور ہر لفظ شمار کیا جانا چاہیے، اسے مختصر اور فاضل ہونا چاہیے۔ اگر پلاٹ پیچیدہ ہو تب بھی اسے بے جان مواد سے پاک اور نامیاتی ہونا چاہیے— پلاٹ مشکل یا آسان ہوسکتا ہے، اس کے اندر پراسراریت ہوسکتی ہے یا ہونی چاہیے، لیکن اسے گمراہ کن نہیں ہونا چاہیے۔ جس طرح اس کی گرہیں کھلتی جاتی ہیں اسی طرح اس کے گرد قاری کی یادداشت منڈلاتی رہتی ہے۔ (ذہن کی وہ دھندلی سے رمق جس کا ایک چمکدار اور نوکیلا سِرا ’ذہانت‘ ہے) اور وہ نئے نشانات اور سبب و علت کے نئے سلسلوں کی تلاش میں واقعات کوازسرِ نو ترتیب دیتی ہے اور ان پر دوبارہ غور کرتی ہے اس طرح آخریاحساس (اگر پلاٹ عمدہ ہے) نشانات یا سلسلوں کا نہیں رہے گا بلکہ یہ احساس، جمالیاتی طور پر مربوط کسی اور چیز کا ہوگا۔ ایسی چیزجس کامظاہرہ براہِ راست ناول نگار کی طرف سے ہونا چاہیے۔ اگر اس کا براہِ راست مظاہرہ صرف ناول نگار کی طرف سے نہ ہوا ہوتا تو وہ ہرگز خوبصوورت نہ ہوپاتی۔‘‘
(ناول کا فن: ای۔ ایم۔ فارسٹر، ترجمہ: ابوالکلام قاسمی، ص 64-65)
ہم ای۔ ایم۔ فارسٹر کا ایک اور اقتباس پیش کرتے ہیں جس میں کہانی اور پلاٹ کے فرق کے بارے میں بعض اہم نکتوں کی طرف اشارہ کیے گئے ہیں۔ وہ لکھتا ہے:
’’یہ (پلاٹ) ز مانی تسلسل کے مطابق ترتیب دیے ہوئے واقعات کا بیان ہے۔ پلاٹ بھی واقعات ہی کا بیان ہے مگر اس میں اسباب و علل پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے— ’’بادشاہ مرا اور پھر ملکہ مرگئی۔‘‘ یہ ایک کہانی ہے ’’بادشاہ مرا اور پھر اس کے غم میں ملکہ مرگئی۔‘‘ یہ ایک پلاٹ ہے۔ اس میں زمانی تسلسل کو ملحوظ رکھا گیا ہے لیکن علت اور سبب کا شعور اس پر غالب ہے یا دوسری مثال کہ ملکہ مرگئی یہ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کیوں کر مری ہے، حتّیٰ کہ یہ راز کھلا کہ اس کی موت بادشاہ کی موت کے غم کی وجہ سے واقع ہوئی، یہ ایک ایسا پلاٹ ہے جس میں ایک پُراسراریت ہے۔ ایسی پُراسراریت جس کو اعلیٰ پیمانے پر بڑھایا جاسکتا ہے۔ یہ پلاٹ زمانی تسلسل کو پرے ہٹا دیتا ہے اور جہاں تک اس کی حدبندیاں اجازت دیتی ہیں۔ کہانی سے دور ہوجاتا ہے۔ ملکہ کی موت پر غور کیجیے اگر یہ کہانی میں ہو تو ہم کہتے ہیں، اور پھر کیا ہوا؟ اور اگر یہی بات کسی پلاٹ میں ہو تو ہم سوال کرتے ہیں کہ ’ایسا کیوں ہوا؟ ناول کے ان دونوں پہلوؤں کے درمیان یہی (’کیا‘ اور ’کیوں‘ کا ) بنیادی فرق ہے۔‘‘
(ناول کا فن ص63، (ای۔ ایم۔ فارسٹر) ترجمہ: ابوالکلام قاسمی)
اس کا مطلب یہ ہوا کہ کہانی میں واقعات سلسلے وار ہوتے ہیں اور پلاٹ میں یہ ترتیب الٹ پلٹ جاتی ہے۔ کہانی، کہانی کی طرف محض اشارہ کرتی ہے۔ پلاٹ اسے تفصیل میں بدل دیتا ہے۔ کہانی میں بہت کچھ ’اَن کہا‘ رہ جاتا ہے۔ پلاٹ منھ میں زبان رکھتا ہے۔ ای۔ ایم۔ فارسٹر نے اس نکتے پر خاص تاکید کی ہے کہ ’ملکہ کی موت پر غور کیجیے اگر یہ کہانی میں ہو تو ہم کہتے ہیں، پھر کیا ہوا؟ اور اگر یہی بات کسی پلاٹ میں ہو تو ہم کہتے ہیں ’کہ ایسا کیوں ہوا؟‘ گویا اسرار کی کیفیت دونوں میں پنہاں ہے۔ لیکن اسرار اور اسرار میں فرق ہوتا ہے۔ کہانی کے اسرار کی مدت بہت تھوڑی ہوتی ہے اور اسرارکی گرہ جوں کی توں قایم رہتی ہے۔ جیسے ’بادشاہ مرگیا اور پھر ملکہ مرگئی۔‘ میں بادشاہ کی موت کے فوراً یا تھوڑی سی مدت کے بعد ملکہ کا مرجانا ایک دم حیرت میں ڈال دیتا ہے کہ ایک کی موت کے فوراً بعد دوسرے کی موت ایک سوال چھوڑ جاتی ہے کہ ضرور کچھ غلط ہوا ہے۔ ممکن ہے تخت و تاج کا کوئی مسئلہ ہو۔ ملکہ دو بیٹوں میں سے کسی ایک بیٹے کو تاجِ شاہی کی ذمہ داری سونپنا چاہتی ہو جس کی بنا پر اسے زہر دے دیا گیا ہو یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بادشاہ کی موت کا غم برداشت نہیں ہوا اور آخرکار اس کی موت واقع ہوگئی۔ یہ سارے مسئلے پلاٹ سے تعلق رکھتے ہیں۔ پلاٹ نے ملکہ کی موت کے سبب کی طرف اشارہ کیا ہے جو کہ کہانی میں مفقود تھا۔ گویا پلاٹ ہم سے گہری بصیرت اور غیرمعمولی ذہانت کا مطالبہ کرتا ہے۔ پلاٹ میں بار بار گرہیں سلجھتی ہیں اور بار بار الجھتی بھی ہیں۔ بعض ’اسباب‘ پر سے پردہ اٹھ بھی جاتا ہے اور بعض ’اسباب‘ پر آخر تک پردہ پڑا رہتا ہے۔ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ فکشن نگار نے جن اسباب و علل کی طرف اشارہ کیا ہے، وہ منطقی ہونے کے باوجود تمام قاریوں کے لیے قابل قبول ہوں۔ہر قاری اپنے تجربے اور قیاس کی بنا پر ایک الگ مفروضہ قایم کرتا ہے بالکل اسی طرح فکشن نگار بھی زندگی کا قاری ہے یعنی وہ زندگی کو پڑھتا ہے زندگی میں اُلٹ پھیر کے اسباب کے بارے میں اس کی اپنی سوچ ہوتی ہے۔ اسی سوچ کی بنیاد پر وہ اپنے افسانوی فن میں بھی اسباب و علل کے تانے بانے بنتا ہے۔ ای۔ ایم۔ فارسٹر کا سارا زور اس بات پر ہے کہ ’’پلاٹ کو حیرت و استعجاب کی فضا پیدا کرنی چاہیے۔‘‘
امراؤ جان ادا میں ایک شریف گھرانے کی لڑکی کو اغوا کرنے کا معاملہ اس عہد کے سماجی اور تہذیبی انتشار کا پتہ دیتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ واردات پدرانہ نظام کی بالا دستی کی بھی مظہر ہے۔ ایک کم عمر امیرن، بڑی ہوکر امیرن سے امراؤ بن جاتی ہے۔ امیرن کے بھائی کو اغوا نہیں کیا جاتا کیوں کہ اس سے نہ تو مالی فائدہ پہنچ سکتا تھا اور نہ امیرن کے والد کو اتنا بڑا جاں کاہ اور جذباتی صدمہ پہنچتا جتنا اس کی بیٹی کے اغوا کے بعد اسے یا کسی بھی عزتِ نفس والے انسان کو پہنچ سکتا تھا۔ کہانی تو بس اتنی تھی کہ ایک ڈاکو نے انتقاماً ایک شریف گھرانے کی کم سن لڑکی کو اغوا کیا اور اسے کسی طوائف کو بیچ دیا۔ امیرن سے امراؤ بننے تک وہ کن کن مراحل سے گزری، کن کن مردوں سے اس کا واسطہ پڑا۔ پھر بڑی ہوکر اس کا سامنا کبھی اپنے اہلِ خاندان سے ہوا یا نہیں۔ ہوا تو اس کا ردِّعمل کیا تھا یا کیا ہوسکتا ہے۔ یہ سارے سوالات بھی ہیں اور اسرار کی گتھیاں بھی۔ ناول نگار محض ایک کے بعد ایک واقعات پیش نہیں کرتا بلکہ اکثر ان واقعات کے پیچھے محرکات کی نشاندہی بھی کرتا ہے اور واقعات کے رونما ہونے کے بعد کرداروں کی زندگیوں پر وہ کس طور پر اثرانداز ہوئے ہیں انھیں اشارتاً یا تفصیلاً بیان بھی کرتا ہے۔
پلاٹ کے بارے میں یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ وہ کبھی سیدھ میں نہیں چلتا۔ وہ آہستہ آہستہ اور کبھی بے حد تیز تیز کہانی کو آگے بڑھاتا ہے۔ ایک ذہین اور حساس فکشن نگار فن کے تقاضوں کی فہم رکھتا ہے۔ اسے کسی کی زندگی یا بہت سی زندگیوں کے بارے میں کوئی اخبار نما خبر نہیں سنانا ہے بلکہ وہ یہ بخوبی سمجھتا ہے کہ زندگی ایک پیچیدہ وجود ہے۔ جس کا پورا ایک سیاق ایک ماضی اور ایک حال ہوتا ہے۔ وہ ایک زندہ اور نامیاتی وجود ہونے کی وجہ سے دوسری چیزوں یا واقعات پراثرانداز بھی ہوتا ہے اور خود بھی متاثر ہوتا ہے۔ وہ کبھی فطرت کے مطابق اور کبھی بالجبر بدلتا بھی ہے۔ اس طرح پلاٹ کی تنظیم میں کئی نشیب و فراز اور کئی مراحل درمیان میں آتے ہیں جو زمانی تسلسل پر قدغن بھی لگا دیتے ہیں۔ اکثر پلاٹ وہاں اپنی خطِ مستقیم سے ہٹ جاتا ہے جب فکشن نگار کسی کردار کی ذہنی رَو کو پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہماری سوچ کی رَو کبھی ایک سمت میں تادیر نہیں چلتی، اس میں کئی بار شکنیں پڑتی رہتی ہیں۔ کبھی ہم وقت سے بہت پیچھے کی طرف چلے جاتے ہیں کبھی بہت آگے کی طرف اور کبھی حال کی چیزیں اور تجربے ذہن میں امڈ آتے ہیں۔ ذہن کا یہ ایک فطری عمل ہے جو تصنع کی نفی کرتا ہے ۔ اس قسم کی آزاد ذہنی رَو کے عملیے کا فن کارانہ تجربہ قرۃ العین، مستنصر حسین تارڑ، جمیلہ ہاشمی، جوگندرپال، زاہدہ حنا، وغیرہ نے نہایت خوبی سے کیا ہے۔ اس طرح ہمیشہ پلاٹ میں زمان کی منطقی رو بیچ بیچ سے ٹوٹتی، بنتی اور بکھرتی رہتی ہے۔
یہ چیز ان قاریوں کے لیے کسی خاص حیرت کا سبب نہیں ہوتی جو ناول کے مستقل قاری ہیں۔ جنھیں ناول کے فن اور کرافٹ کا بخوبی علم ہے۔ لیکن اس قسم کے ناولوں کے لیے بڑا سلیقہ اور بڑی مہارت درکار ہے۔
بعض پلاٹ، کردار کو ذہن میں رکھ کر بنائے جاتے ہیں۔ ناول کے واقعات کسی ایک کردار کے اردگرد گھومتے ہیں جیسے امراؤ جان ادا کا کردار یا علی پور کا ایلی میں ایلی کا کردار، عزیز احمد کے ناول شبنم میں شیخ کا کردار ایسے ناولوں میں کردار کے لیے واقعات گھڑے جاتے ہیں۔ بعض پلاٹ میں واقعہ مرکز میں ہوتاہے۔ کردار کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے۔ اس قسم کے ناولوں میں کردار واقعے کو آگے بڑھاتے ہیں۔ گویا واقعے کے لیے کردار گھڑے جاتے ہیں۔ کسی کسی ناول میں واقعہ اور کردار دونوں اہم ہوتے ہیں۔ واقعے کو کردار سے اور کردار سے واقعے کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔ واقعہ اور کردار دونوں کو اس خوبی کے ساتھ ایک واحدیت میں ڈھال کر پیش کرنا کہ واقعہ اور کردار دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم کا تاثر دے سکیں غیرمعمولی فنی اہلیت اور فنی ذکاوت کا متقاضی ہوتا ہے۔ عزیز احمد کا ’آگ اور گریز‘ عبداللہ حسین کا ’اداس نسلیں‘ اور قرۃ العین کا ’آگ کا دریا‘ جیسے ناول اسی غیرمعمولی فنی ذکاوت کے مظہر ہیں۔
پلاٹ دو قسم کے ہوتے ہیں:
1 مربوط پلاٹ
2 غیرمربوط پلاٹ
پلاٹ ایک ایسی فنی تعمیر یا فنی تشکیل سے تعبیر کیا جاتا ہے جس کے ہر زاویے میں ایک ربط ہوتا ہے حتیٰ کہ نقطۂ نظر Point of Viewکا ربط بھی پلاٹ ہی کی تشکیل ہے۔ ربط دینے کے معنی یہ نہیں ہیں پلاٹ کاٹھ کا فریم بن کر رہ جائے۔ پلاٹ کی سمت اور وقت کی رفتار میں خودروی اور خودافزائی اگر مفقود ہے تو زندگی کے آثار بھی اس میں محو ہوکر رہ جائیں گے۔ ظاہر ہے مربوط پلاٹ میں واقعات و اعمال کی ایک ایسی سلسلے وار تنظیم ہوتی ہے۔ جو تشکیل و تعمیر کا تاثر تو مہیا کرتی ہے لیکن اُس فطری رَو کا شائبہ اس میں کم ہی ہوتا ہے جو اپنی سمت آپ بناتی ہے۔ وقت کی رو میں شکن بھی کم ہی پڑتی ہے۔ ناول نگار کی فنی ذکاوت پلاٹ کی تراش خراش میں زیادہ صرف ہوتی ہے۔ ہر چیز اپنے مقام پر ہونے کی وجہ سے ناول ایک فنی شہ پارے کی شکل تو اختیار کرلیتا ہے لیکن زندگی ایسی وسعت، زندگی ایسے بے تحاشہ پن اور زندگی ایسی بے اختیاری کے کم ہونے یا نہ ہونے کے باعث وہ ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ بن کر رہ جاتا ہے۔ ہماری زندگی میں بالعموم تنظیم و ترتیب نام کی چیز کم ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح ڈھیلا ڈھالا پلاٹ بھی اپنی بہ ظاہر تنظیم کے اندر ایک قسم کی بدنظمی کا حامل ہوتا ہے۔ ناول نگار قاری کے لیے بہت سی چیزیں ادھوری چھوڑ کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ کہیں علت واضح ہوتی ہے کہیں اس پر ایک مہین سا پردہ پڑا ہوتا ہے۔ کبھی اس کا مقصد طمانیت بخشنا ہوتا ہے کبھی صدمہ پہنچانا۔ کہیں کوئی چیز ہماری توقع کے مطابق ہوتی ہے کہیں توقع کے برخلاف۔ اس طرح امکان اور اندیشہ ہی نہیں اتفاق کا بھی پلاٹ میں ایک خاص مقام ہے جس کا شمار حیرت اور تجسس کو قایم و برقرار رکھنے والی خاص کلیدوں میں ہوتا ہے۔
قرۃ العین نے اردو ناول کی تاریخ میں پہلی بار Frame breaking کا کام کیا تھا۔ ان کا ناول ’آگ کا دریا‘ غیرمربوط پلاٹ کی ایک عمدہ مثال ہے۔ پہلی بار کسی اردو ناول میں ڈیڑھ ہزار برسوں پر پھیلے ہوئے ز مانے کی ذہنی، تہذیبی اور تاریخی آویزشوں اور آمیزشوں کو زبان دی گئی تھی۔ اس طور پر کہ تاریخ نے ایک تخلیقی تجربے کی شکل اختیار کرلی۔ ’آگ کا دریا‘ تاریخ نہیں ہے لیکن تاریخ کے متن کو ایک ایسا نیا متن بنانے کی فنی کوشش ہے جو تاریخ کے بہ ظاہر میدانِ عمل سے زیادہ بہ باطن میدانِ عمل کے ساتھ خصوصیت رکھتی ہے۔ ’آگ کا دریا‘ کو ایک ایسا رزمیہ قرار دیا جاسکتا جس کے سارے رُخ اندر کی طرف ہیں، جس کی اساس کسی ایک انسان یا فرد پر نہیں رکھی گئی ہے بلکہ وہ مسلسل اور مجموعی انسان ہے جو صدیوں سے ایک ہی نوعیت کے صدموں، چیلنجز، خطروں، مسابقتوں، مبارزتوں اور آزمائشوں سے جوجھتا چلا آرہا ہے۔ ’آگ کا دریا‘ کسی ایک مقام یا کسی ایک زمانے یا کسی ایک کردار کے محور کے پرگرد ش نہیں کرتا بلکہ زندگی کرتے ہوئے کرداروں کے ایک ہجوم، ان کی تقدیروں کے رُخ پلٹنے والے کئی زمانوں کے اجبار، تواتر کے ساتھ ایک کے بعد ایک مقام کی تبدیلی واقع ہونے کے باعث یہ ناول پلاٹ کا ایک نیا تصور مہیا کرتا ہے۔ جو روایت شکن بھی ہے اور ایک نئی روایت کا اساس گر بھی۔
ناول کے مطالعے میں کردار کی خاص اہمیت ہے۔ ارسطو نے ڈرامے اور رزمیے جیسی اصناف میں پلاٹ کو اوّلیت کا درجہ دیا تھا۔ وہ ادبی تخلیق میں ہر سطح پر ایک ایسے نظم و ضبط Decorum کو ضروری خیال کرتا تھا جو اسے شروع سے آخر تک ایک وحدت میں باندھ سکے۔ اسی لیے اس کا اصرار پلاٹ کی تعمیری تنظیم پر زیادہ تھا۔ کردار کووہ دوسرے درجے پر رکھتا ہے۔ جدید فکشن میں پلاٹ سے زیادہ کردار کی اہمیت ہے۔ کیوں کہ انسان جتنا باہر دکھائی دیتا ہے اس سے زیادہ وہ اپنے باطن میں ہوتا ہے۔ اس کی داخلی الجھنوں اور نفسیاتی گرہوں کو سمجھنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ پہلے کا انسان اتنا پیچیدہ اور اتنے بہت سے مسائل سے الجھا ہوا نہیں تھا۔ وہ سماجی ضابطوں اور روایتی اخلاقی قوانین کا پابند تھا اور ان کے مطابق اپنی زندگی یا اپنے معمولات کا خاکہ بناتا تھا۔ جب کہ موجودہ ادوار میں انسان کو ذہن و ضمیر کی آزادی میسر ہے۔ وہ اپنے طور پر اپنی زندگی کا لائحۂ عمل تیار کرسکتاہے۔ وہ احتجاج بھی کرتا ہے، بغاوت بھی کرتا ہے اور بعض چیزوں اور مسلمات سے انکار کرنے کی جرأت بھی رکھتا ہے۔ باوجود اس کے بعض ایسے طبقاتی، اقتصادی، سماجی اور اخلاقی اجبار Cumpulsions بھی ہیں جن سے اُسے آج بھی چھٹکارا نہیں ہے۔ جن کے باعث پہلے کے انسان کے مقابلے میں آج کا انسان کئی طرح کی ذہنی اور جذباتی کشاکشوں میں گرفتار ہے۔ جدید ناولوں یعنی مغرب میں سترہویں صدی کے بعد کی ناولوں اور ہمارے یہاں بیسویں صدی کی ناولوں میں کردار کا مطالعہ خاص دلچسپی کا موضوع ہے۔
عام سماجی زندگی میں ہمارا واسطہ جن انسانوں سے ہوتا ہے وہ فرداً فرداً کسی نہ کسی کردار اور شخصیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کا بھی کوئی نقطۂ آغاز ہوتا ہے بچپن کی بے شعوری کی زندگی سے لے کر شعورمند زندگی کے ادوار تک وہ کئی مختلف قسم کے مرحلوں سے گزرتے ہیں۔ اس طرح ہر شخص کو ٹیڑھے میڑھے راستوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ کسی کی زندگی میں خطرات اور آزمائشیں کم حائل ہوتی ہیں اور کسی کی تمام تر زندگی ان سے جوجھتے ہوئے گزرتی ہے۔ کسی کو اس کی ناکامیاں اور شکستیں اگلی کامیابیوں کے لیے اکساتی ہیں اور کسی کے حوصلے پست ہوجاتے ہیں اور وہ انھیں مقدر کا نام دے کر قبول کرلیتا ہے۔ زندگی اور اس کے تجربات کی رنگارنگی نے ہماری دنیا کو ایک عظیم تماشہ گاہ بنا دیا ہے۔ جیسے ہر شخص کو کوئی خاص رول یا کردار ادا کرنا ہے۔ کسی نے اسے مقدر کا نام دے رکھا ہے اور کسی کے لیے وہ رول مقدر سے وابستہ نہیں ہے بلکہ اپنی جستجو اور حکمت عملی سے اس کا رخ بدلا بھی جاسکتا ہے۔
ناول جن کرداروں کو ان کی مختلف خصوصیات کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ ہمیں اکثر اپنی روزمرہ کی زندگی اس قسم کے کرداروں سے واسطہ پڑتا ہے۔ وہ ہوبہو تو ویسے نہیں ہوتے لیکن کچھ چیزوں کی جھلک کسی کردار میں ملتی ہے۔ کچھ کی کسی دوسرے کردار میں۔ کلیم، ظاہردار بیگ، (توبۃ النصوح)، آزاد، خوجی، (فسانۂ آزاد)، امراؤ جان (امراؤ جان ادا)، پریم شنکر (میدانِ عمل)، ہوری، گوبر (گودان)، رضا بھائی (سفینۂ غم دل)، شمن (ٹیڑھی لکیر)، نعیم (گریز)، رخشندہ (میرے بھی صنم خانے)، جمّی (شب گزیدہ)، ایلی (ممتازمفتی) راجہ، نوشا، نیاز (خدا کی بستی)، منگل، رانو (ایک چادر میلی سی) جیسے کرداروں سے ہم ناولوں میں متعارف ہوتے ہیں۔ ہر کردار دوسرے کردار سے کئی اعتبار سے مختلف ہے۔ ان کی عادات، ان کے مزاج، ان کے خیالات مجموعی طور پر ان کے طرزِ زندگی میں ان کی شناخت چھپی ہوئی ہے۔ ہماری روزمرہ کی زندگی میں یہ دوسرے ناموں سے ہمارا تجربہ بنتے ہیں۔ فنی اعتبار سے کردار سازی کی وہ معراج ہے جب وہ ’زندہ ہستی‘ کا تاثر مہیا کرے۔ ایسا معلوم نہ ہو کہ وہ کسی دوسری دنیا کی مخلوق ہے۔
بعض کردارنسبتاً پیچیدہ ہوتے ہیں۔ ان کے اندر زندگی کی قوت کا احساس ہوتا ہے جو انھیں ہمہ وقت سرگرم رکھتی ہے۔ اس قسم کا کردار ایک خاص ماحول کی کوکھ سے پیدا ہوتا ہے اور اپنے موافق ایک ماحول پیدا بھی کرتا ہے۔ وہ اپنے انسان ہونے یعنی ایک ایسی زندہ ہستی کا تاثر فراہم کرتا ہے جو متاثر بھی ہوتی ہے اور دوسروں پر اثراندا زبھی ہوتی ہے۔ ناول نگار اس کے اندرون میں جھانک کر اُن نکتوں کو برآمد کرتاہے جو دوسروں کے لیے انوکھے اور نامانوس کا تاثر فراہم کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔ ناول کا قاری جانی ہوئی چیزوں کے بجائے انجانی چیزوں کے انکشاف کا زیادہ مشتاق ہوتا ہے۔ وہ کردار ہی زیادہ معنی خیز، یادگار اور اپنی زندگی کا ازخود ثبوت فراہم کرتا ہے جو آہستہ آہستہ اپنی اصل شخصیت کو منکشف کرتا ہے۔ ناول نگار بھی بڑے صبر کے ساتھ اس قسم کے کردار خلق کرتاہے۔ اس طور پر اسے موقعہ بہ موقعہ ہم پر ظاہر ہونا چاہیے کہ فطری معلوم ہو جیسے اُسے کسی نے بنایا یا خلق نہیں کیا ہے۔ وہ ازخود پیدا ہوا ہے اور اپنی اگلی راہ اسے خود تلاش کرنی ہے۔ یہ ایک طرح سے اس کی اپنی دریافت کا عمل ہے۔ کردار جتنا اپنے باطن سے پردہ اٹھاتا ہے اس سے زیادہ اس پر کچھ اور پردے پڑے ہوتے ہیں۔ بہت کچھ کھلنے کے باوجود وہ بہت کچھ بندہی ہوتا ہے۔ ایک سربستہ راز، ایک پیچیدہ وجود، ایک زندہ عضویت۔
پیچیدہ کردار خاصی مہارت کا تقاضہ کرتے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ امراؤ جان یا کئی چاند تھے سرآسماں کا کردار وزیرخانم، قرۃ العین حیدر کا چمپا یا گوتم نیلمبر، خدا کی بستی کے راجہ، شامی اور نوشا کے کردار، آنگن میں صفدر کا کردار، شکست میں شیام کا کردار ایسے کردار ہیں جن میں تدریجی ارتقا پایا جاتا ہے۔ یہ زندگی سے معمور ہیں۔ وقت ان پر اپنی پوری قوت کے ساتھ اثرانداز ہوتا ہے اور وقت کو اپنے بس میں کرنے کی خواہش بھی یہ اپنے اندر رکھتے ہیں۔ ان کے برعکس سپاٹ کردار ناول میں شروع سے آخر تک اپنی ایک دھج اپنے ایک رنگ پر قایم رہتے ہیں۔ یہ وقت اور حالات کے ساتھ بدلتے ہیں نہ بدلنا چاہتے ہیں۔ اپنی ایک ہی حالت میں قانع رہنے کی وجہ سے ان سے کسی چھوٹی یا بڑی تبدیلی کی توقع بھی نہیں کی جاتی۔ اس طرح کے کردار کی تشکیل کے پس پشت گروہ یا طبقے کی نمائندگی کا مقصد کارفرما ہوتا ہے اور اسی مقصد کے تحت ان کی محض ان عمومی علامات و مظاہر کو ابھارا جاتا ہے جو ان کے گروہ کی خصوصیات ہیں۔ انھیں گروہی کردار Stock characters بھی کہا جاتا ہے۔ ظاہر دار بیگ، حجۃ الاسلام، اصغری، اکبری، خوجی، حاجی بغلول، وغیرہ جیسے کردار ٹائپ کہلاتے ہیں۔ لیکن ٹائپ کردار بھی بہت زیادہ مہارتِ فن کا تقاضہ کرتے ہیں۔ وہ بھی ہمارے سماج ہی کے نمائندہ ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی وہ مرکزی کرداروں سے زیادہ اپنی طرف متوجہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ خوجی یا ظاہردار بیگ کی کردار سازی میں مہارتِ فن کی جو صورت نظر آتی ہے وہ آزاد یا کلیم میں نظر نہیں آتی۔ ان کرداروں کو ان کے متضاد کردار کے طور پر خلق کیا گیا تھا۔ یہ دونوں کردار بھی ایسی کٹھ پتلیوں کی طرح ہیں جن کی نکیل ناول نگار کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جیسا انھیں بنانا چاہتے ہیں۔ وہ ویسے بن جاتے ہیں۔ خوجی ایک خواب کی دنیا میں رہتا ہے اور اتنی سکت بھی نہیں رکھتا کہ صورتِ حال کو بدل سکے لیکن وہ اپنے آپ کو ہمیشہ طاقتور اور ناقابلِ شکست سمجھتا ہے۔ وہ ہر جگہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتا ہے مگر ہر وقت منھ کی کھانی پڑتی ہے۔ آزاد کو دلیر اور جنگ جو بتایا گیا ہے۔ عشق اس کا مذہب ہے۔ ایک کے بعد ایک کئی معاشقے کرتا ہے۔ ایک جاں باز سپاہی کی حیثیت سے ترکی جاتا ہے وہاں بھی حسن پرستی کے مواقع نہیں چھوڑتا۔ خوجی ایک ٹائپ کردار ہونے کے باوجود قاری کے لیے بہت دلچسپی کے سامان اپنی ذات میں رکھتا ہے جب کہ آزاد ہیرو ہونے کے باوجود ایک داستانی کردار کا رول ادا کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ درحقیقت خوجی اور آزاد دونوں خود ہی اپنی اور اپنے عہد کی شکست کی آواز ہیں۔
کردارنگاری میں ایک شق تاریخی کرداروں سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ کردار وہ ہیں جو تاریخ سے اخذ کیے جاتے ہیں۔ جو وقت کے کسی دورانیے میں واقع ہوئے تھے اور ایک خاص کردار ادا کرکے وقت کے پہنائیوں میں گم ہوگئے۔ چوں کہ سماجی اور تاریخی سطح پر یہ غیرمعمولی انسان تھے۔ ایک خاص دور پر انھوں نے حکمرانی کی تھی۔ اپنی طاقت، اپنے عمل اپنے خاص تصورِ زندگی کی وجہ سے ان کا نقش ذہنوں میں ایک مختلف طریقے سے قایم ہوتا ہے۔ ان میں سے بعض افراد نیک نام بھی ثابت ہوئے۔ بعض نے مصلحت اندیشی سے کام لیا۔ بعض اپنے رویوں میں سخت گیر تھے۔ بعض نے زمینوں ہی پر فتح حاصل نہیں کی دلوں کو بھی جیتا، بعض کا مقصد صرف اور صرف لوٹ مار اور خون خرابہ تھا۔ تاریخی ناول نگارو ںکا بھی اپنا کوئی نہ کوئی نظریہ ہوتا ہے جس کا عکس ان کے کرداروں کے انتخاب میں نظر آتا ہے۔ تاریخی ناول میں معروضیت قایم رکھنا ایک مشکل کام ہے اس لیے اکثرتاریخی ناولوں میں یہ خامی بہت نمایاں اور واضح دکھائی دیتی ہے۔
جس ناول میں ذاتی مشاہدات، تاریخی واقعات سے ہم آہنگ نہ ہوں اسے کامیاب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ظاہر ہے یہ حقیقت کا محض ایک پہلو ہے۔ ہر تاریخی واقعے کے لیے ذاتی مشاہدہ ضروری نہیں ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ذاتی عقائد اور تعصبات کا رنگ جتنا گہرا ہوگا تاریخ اتنی ہی مسخ ہوگی۔ تاریخ نگار تاریخ سے واقعات اخذ کرتا اور سنی سنائی روایتوں کے ساتھ ان واقعات کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ پیش کرتا ہے جو استناد کا درجہ رکھتے ہیں۔ ناول نگار کا بھی ایک نقطۂ نظر ہوتا ہے اس لیے تاریخ کو جس نقطۂ نظر سے دیکھتا ہے وہ اسے ویسا ہی بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک ماہر فن کار سنی سنائی روایتوں کو اس طور پرگہری ذہانت، بصیرت اور خلاقی کے ساتھ مستند واقعات کے ساتھ مرتب کرتا ہے کہ وہ پیوند نہ معلوم ہوں۔ اسی طرح نقطۂ نظر کو ناول کی مجموعیت میں سے ازخود نمو پانا چاہیے جہاں عقائد میں شدت ہوگی، مبالغہ اور غلو اپنی انتہا پر ہوگا۔ جہاں اندھی جذباتیت ایک حاوی میلان کے طور پر حاوی ہوگی وہاں تاریخ بھی مسخ ہوگی اور تاریخ کے کردار بھی کٹھ پتلیاں بن کر رہ جائیں گے۔ شرر اور صادق سردھنوی کی نمونوں میں اس قسم کی بہت سی کمزوریاں پائی جاتی ہیں۔
تاریخی ناول میں کردار خلق نہیں کیے جاتے بلکہ معلوم و موجود کردارو ںکو ازسرِ نو خلق کیا جاتا ہے۔ ایک لحاظ سے وہ ٹائپ کردار ہوتے ہیں جو خود اپنی ایک شخصیت اور ایک تاریخ رکھتے ہیں۔ تاریخ ان کے سوانحی واقعات سے ہمیں پہلے ہی بہت سی معلومات فراہم کردیتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تاریخ جتنا مواد فراہم کرتی ہے، اس سے کچھ زیادہ وقت کی دھند میں گم بھی ہوجاتا ہے۔ پھر یہ کہ برسوں اور صدیوں سے گزرنے کے بعد کسی بھی متن کا اپنی اصل حالت میں قایم رہنا اور ہم تک پہنچنا تقریباً ناممکن ہے۔ مختلف انسانوں کے دماغ اور نظریات اسے توڑتے مروڑتے رہتے ہیں۔ ایسی کسی بھی تاریخ کا محض تصور ہی کیا جاسکتا ہے جو معصوم اوربے میل ہو یا جو پوری طرح تعصب و جانب داری کے عنصر سے پاک ہو۔ غالباً اسی نکتے کو سامنے رکھ کر تاریخی ناول نگار ایسی بہت سی روایتوں کو اپنی ناول کا حصہ بنا دیتا ہے جو بڑی حد تخئیلی اور وضعی ہوتی ہیں۔ جو چیزیں تخیلی اور وضعی ہوتی ہیں تاریخی ناول میں وہی دلچسپی کا موضوع بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ کرداروں کی تشکیل میں جمیلہ ہاشمی نے بڑی گہری بصیرت اور خلاقی سے کام لیا ہے۔ قرۃ العین طاہرہ، یا منصور حلّاج کے کرداروں کو ازسر نو خلق کرنے کے باوجود ان میں غلو کا کوئی شائبہ نظر نہیں آتا۔ جمیلہ ہاشمی نے تاریخی کے ساتھ تہذیبی تناظرات اور ان کے سارے پیچ و خم کو اخذ کرنے کی کوشش کی ہے۔ جیسے وہ خود اس عہد اور اس عہد کے مذہبی تنازعات، مقتدرہ Establishment کے عاجلانہ اور سنگدلانہ رویوں کی شاہد ہیں جیسے انھوں نے خود ان تاریخی دورانیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنی بے بسی پر خون کے آنسو روئی ہیں۔ قرۃ العین طاہرہ اور منصور حلاج کی زندگیوں پر خود بہت سی رومانی چادریں چڑھی ہوئی ہیں۔ ان کے سوانح مختلف روایتوں سے تاریخ کا حصہ بنے ہیں۔ یہ ایسے کردار تھے جو اپنے عہد کے مقتدرہ کے عتاب کے شکار ہوئے۔ موت سے پہلے ان کی موت یقینی تھی جس کا انھیں پوری طرح احساس تھا موت ان کا مسئلہ ہی نہ تھا کیوں کہ زندگی کو بھی انھوں نے کبھی اپنے لیے مسئلہ نہیںبنایا تھا۔ ایسی صورت میں تھوڑی سی خیرات میں ملنے والی زندگی ان پر تہمت تھی۔ جمیلہ ہاشمی کے ان کرداروں میں نامیاتی ارتقا پایا جاتا ہے جو ہر سطح پر قاری کے یقین کو قایم رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں کیوں کہ وہ متحرک ہیں اپنے وجدان کی روشنی میں اپنی راہ پر مضبوطی سے گامزن ہونے کی وجہ سے ہر مقام پر اپنی خودی اور اپنی زندگی کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ کم و بیش یہی چیز قاضی عبدالستار کے ناولوں کا بھی خاصہ ہے۔ صلاح الدین ایوبی، داراشکوہ، خالد بن ولید اور غالب جیسے کردار انھوں نے تاریخ سے اخذ کیے ہیں۔ صلاح الدین ایوبی اور خالد بن ولید دونوں ہی اسلام کے سچے سپاہی تھے۔ ان کرداروں کی تشکیل میں بڑے صبر اور فنی بصیرت سے کام لیا گیا ہے۔ کہیں کہیں جذباتیت بھی در آئی ہے لیکن تضاد کی صورت کہیں پیدا نہیں ہوپائی اور نہ ہی پلاٹ کی تنظیم پر جذباتیت اثرانداز ہوئی۔ داراشکوہ کا کردار قاضی عبدالستار کا سب سے زندہ اور فعال کردار ہے جسے جنگ و جدال سے زیادہ اپنا وہ نظریہ عزیز ہے جو وسیع المشربی، وحدتِ ادیان اور صلح کل کی بنیاد پر قایم ہے۔ قاضی صاحب نے غالب کی کردار سازی میں بھی بہت محنت کی ہے۔ غالب کو ایک انسان کے طور پر ہی انھوں نے خلق کیا ہے۔ جو کئی تضادات کا مجموعہ بھی ہے۔
ناول ایک بیانیہ صنف ہے جو کسی ایک مرکزی عمل یا واقعے پر مبنی ہوتا ہے یا بہت سے واقعات مل کر اس کا تانا بانا بنتے ہیں۔ واقعے یا واقعات کسی خاص صورت حال میں واقع ہوتے ہیں۔ ان کے رونما ہونے کے پیچھے کوئی نہ کوئی سبب ضرور کارفرما ہوتا ہے۔ صورتِ حال اس Setting یا پس منظر سے الگ کوئی چیز نہیں ہوتی جس میں کوئی عمل واقع ہوتا ہے۔ اس طرح ایک طرف پس منظر کرداروں اور عمل کے تعلق کی طرف اشارہ کرتا ہے تو دوسری طرف اس سیاق Context کی طرف جس میں عمل اور کردار واقع ہوئے ہیں۔ پس منظر میں جغرافیائی گرد و پیش، شہری یا دیہی اطراف کا ماحول ہی شامل نہیں ہے۔ سماجی اور تاریخی حقائق کی بھی کم اہمیت نہیں ہوتی۔ پس منظر کی تشکیل یا اسے ابھارنے کے پیچھے کوئی منطقی جواز ضرور ہونا چاہیے۔ داستانوں میں اور بعض ناولوںمیں زورِ بیان کے بل پر جو منظرکشی کی جاتی ہے یا جزئیات کی تفصیل بیان کی جاتی ہے۔ اس کا سیدھا تعلق کردار یا عمل سے نہیں ہوتا اس لیے پلاٹ میں چستی باقی رہتی ہے اور نہ قاری کی توجہ برقرار رہتی ہے۔
پرانے قصے کہانیوں میں ’واقعے کا بیان ہی خاص اہمیت رکھتا تھا۔ واقعے کے پیچھے کارفرما محرکات کے بارے میں یہ قصے خاموش رہا کرتے تھے۔ قصہ گو کے لیے کردار کی بھی کوئی خاص وقعت نہیں تھی۔ وقعت تھی صرف اس واقعے کی جو زندگی کو الٹ پلٹ دینے کی قوت رکھتا ہے اور واقعہ نام تھا مقدر کے جبر کا جس کے تحت انسان محض کٹھ پتلی کی طرح ایک غیبی طاقت کے رحم و کرم پر ہے۔ ناول کے فن نے کردار کو بھی ایک خاص درجہ دیا۔ کردار کی اپنی ذہنی قوتوں، ارادوں اور منصوبوں سے بھی حالات کا رخ بدلا جاسکتا ہے۔ ماحول یا صورتِ حال یا پس منظر جو رول ادا کرتا ہے ناول نگار اسے بھی ایک کردار کے طور پر پیش کرتا ہے جو صرف ماحول نہیں ہوتا بلکہ وہ زندگیوں کو ایک خاص معنی مہیا کرنے کا ذریعہ بھی ہوتا ہے۔ وہ چیلنج کا کام بھی کرتا ہے۔ مہمیز کا کام بھی انجام دیتا ہے۔ حوصلوں اور ارادوں کے لیے سازگار بھی ہوتا ہے اور کبھی انتہائی برخلاف بھی۔ ناول نگار اسے ایک قوت کے طور پر نمایاں کرتا ہے۔ کبھی کردار اپنی ذہنی قوت سے اسے زیرِ دام کردیتا ہے اور کبھی زیرِ دام آبھی جاتا ہے۔ زندگی انھیں بلندیوں اور پستیوں، کامیابیوں اور ناکامیوں سے عبارت ہے۔
ماحول ہمارے ذہنوں اورجذبوں پر کس طور سے اثرانداز ہوتا ہے اور ہمارے رویوں میں کس طرح کی منفی یا مثبت تبدیلیاں واقع ہوتی یا ہوسکتی ہیں۔ اس ضمن میں ممتاز شیریں نے اپنے مضمون ’تکنیک کا تنوع‘ میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’ماحول اور کرداروں کے احساسات کی ہم آہنگی سے افسانے کی فضا مکمل تر ہوجاتی ہے۔ کیتھرائن، میسفیلڈ کے مشہور افسانے Bliss اور علی عباس حسینی کے افسانے ’برف کی سل‘ میں بر تھا اور جمیلہ کے فرطِ انبساط کو اتنی اچھی طرح برتا گیا ہے کہ ہم اسے محسوس کرسکتے ہیں۔ بہار کی شگفتگی اور حسرت برتھا کے انگ انگ میں سرایت کرگئی ہے۔ شادی کی حسرت بھری فضا جمیلہ کی نس نس کو پھڑکا رہی ہے۔ احمد عباس نے چڑھاؤ اتار میں خارجی ماحول اور فضا کی تبدیلی کو احساسات کی تبدیلی کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ اس افسانے میں خارجی فضا اور احساسات پراثر کا موازنہ کیا گیا ہے۔ راستے کا چڑھاؤ اور اتار جذبات کا چڑھاؤ اور اتار۔ چڑھائی خوش گوار تھی اور نرمل اور شیریں کے احساسات بھی بدل گئے۔ گو راستہ وہی تھا اور شیریں اور نرمل کمار بھی وہی تھے لیکن واپسی پریہ راستہ اتار بن گیا تھا اور نرمل اور شیریں کے دماغ سے محبت کا پہلا نشہ اتر چکا تھا اور دماغ یہ سوچنے کے قابل ہوچکا تھا کہ ان دونوں کے رہن سہن میں کتنا فرق ہے۔ اس کا نباہ کیسے ممکن ہوگا؟‘‘ (معیار: ممتاز شیریں)
ناول کا ماحول، ناول کے پلاٹ سے الگ نہیں ہوتا وہ قصے کے لیے آرائش و زیبائش کا کام بھی نہیں کرتا بلکہ اسے پلاٹ کا ایک لازمی جزو ہونا چاہیے۔ ہمیں اس ذریعے کے پتہ چلتاہے کہ ناول کے افراد کی زندگیاں کس خاص عہدِ تاریخ سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس کے سیاسی، سماجی اور تہذیبی تناظر کی نوعیت کیا تھی۔ کن خاص اقدار و عقائد، روایتوں اور رسموں سے وہ زمانہ وابستہ تھا۔ ناول نگار کا مقصد ان معلومات کو ہم تک پہنچانا نہیںہوتا بلکہ اُن افراد پرپڑنے والے اُن اثرات کو نمایاں کرنا اس کا مقصود ہوتا ہے جو کبھی براہِ راست اور کبھی بے حد غیرمحسوس طور پر زندگیوں کا نقشہ ہی بدل دیتے ہیں۔ پریم چند کے ناول میں سیاسی اور تاریخی قوتیں ایک جبر کاحکم بھی رکھتی ہیں۔ اخلاقی و مذہبی اخلاقیات کی پاس داری بھی ان کرداروں کو اپنے حدود سے تجاوز کرنے سے باز رکھتی ہے۔ پریم چند کے ناولوں میں سماج ایک بڑی قوت کے طور پر مختلف زندگیوں پراثرانداز ہوتا ہے، ان کے اکثر کردار حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔ اپنی اپنی صورتِ حالات Situations سے باہر نکلنا بھی چاہتے ہیں۔ انتہائی ناموافق حالات کے باوجود جدوجہد بھی کرتے ہیں۔ بالآخر انھیں شکست ہی سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ کیوں کہ نوآبادیاتی نظام کی جڑیں بے حد مضبوط تھیں۔ زمیں داروں، جاگیرداروں اور مذہب کے ٹھیکے داروں کے مفادات اس نظام کے ساتھ وابستہ تھے سو ان کی وفاداریاں بھی نوآبادیاتی نظام کے ساتھ ہی تھیں۔ پریم چند کی مفلوک الحال مخلوق کی روزبروز بگڑتی ہوئی صورتِ حال کے اور بہت سے اسباب میں سے یہ بھی ایک بہت بڑا سبب تھا۔ پریم چند اپنے عہد کی اس صورتِ حال سے پوری طرح آگاہ تھے انھوں نے اپنے عہد کی سیاسی سماجی اور مذہبی سطح پر استحصال کرنے والی قوتوں کی پردہ دری بھی کی، ان پر تنقید بھی کی۔ ’میدانِ عمل‘ میں امرکانت، سکھدا، ڈاکٹر شانتی کمار، سلیم اور خود سکینہ جیسے کردار کئی سطحوں پر اس سیاسی اور سماجی صورتِ حال سے آمادۂ جنگ نظر آتے ہیں۔ لیکن پورے نظام کو بدلنا اور محکومی سے نجات دلانا ایک خوبصورت خواب ضرور تھا۔ اس خواب کی تعبیر ابھی مشکل ہی تھی۔
ان تاریخی قوتوں کے عمل کی داستان بہت پرانی ہے۔ قرۃ العین نے ڈھائی ہزار برسوں پر پھیلے ہوئے عرصۂ تاریخ کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور ہر مقام پر پس منظر کو بھی ایک خاص معنی میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ قرۃ العین نے جغرافیائی پس منظر اور تاریخی پس منظر کو بڑی فنکاری کے ساتھ ایک وحدت میں سمو دیا ہے۔ مستنصر حسین تارڑ پانچ ہزار برس پہلے کی تاریخی اور تہذیبی زندگی کو ’راکھ‘ میں کسب کرتے ہیں۔ عبداللہ حسین، شوکت صدیقی، جمیلہ ہاشمی اور حیات اللہ انصاری کے ناولوں میں بیسویں صدی اپنے تمام تر تضادات و نفاقات کے ساتھ اپنا تعارف کراتا ہے۔ ان میں جن زندگیوں کو پیش کیا گیا ہے ان کے مقاصد ان کے مشن، ان کے خواب اور ان کی بے چینیاں پریم چند کے کرداروں سے قطعاً مختلف ہیں کیوں کہ ناول کا فن اب سیدھا سادا فن نہیں رہا تھا۔ان زمانوں کا سارا پس منظر، سارا ماحول ہی کافی حد تک تبدیل ہوچکا تھا۔
ناول نگار کا مشاہدہ اگر تیز ہے، مختلف ملکوں، علاقوں اور جغرافیائی خطوں کی اس نے سیاحت کی ہے اور ان تجربات کو اس نے اپنی یادداشت میں محفوظ رکھا ہے تو اس کی ماحول کشی میں بھی زندگی آمیزی کا جوہر شامل ہوسکتا ہے۔ دیہات اور دیہاتی زندگی اور اس کا سارا جغرافیائی پس منظر پریم چند کا ذاتی تجربہ تھا۔ پریم چند نے جہاں جہاں ماحول کی تصویر کشی کی ہے اس میں جذباتیت رنگ بھی شامل ہے جیسے انھوں نے اس ماحول کی ازسرِ نو تخلیق کی ہو۔ اسی طرح عزیز احمد نے جدید زندگی کے پیچ و حم ابھارنے اور انھیں زیادہ سے زیادہ حقیقت آفریں بنانے میں اپنے نجی تجربات ہی کو بنیاد بنایا ہے۔ عزیز احمد کے ناول ’گریز‘ کی یہ مثال دیکھیں جس میں عزیزاحمد نے جغرافیائی ماحول، نئی زندگی کے آداب و اسالیب، فیشن اور تکلفات کو ایک ہی پیراگراف میں بڑی چابک دستی سے یکجا کردیا ہے:
’’اب نعیم نے اِدھر اُدھر دوسرے مسافروں کی طرف دیکھا۔ ان میں ایک عورت تھی۔ نہایت اعلیٰ درجے کا سفید لباس پہنے۔ گلے میں سفید موتیوں کی ایک لڑی اور اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا اُون جیسے بالوں والا سفید کتا تھا۔ میونک سیر وزن ہائم تک ہٹلر کی بنوائی ہوئی خوبصورت اور چوڑی سڑک پر نعیم اس خاتون کی طرف دیکھتا رہا۔ پہلے تو سمجھ میں نہیں آیا کہ کس طرح اس سے بات کرے۔ بات کرنے کی کوشش کی۔ مگر وہ نہ فرانسیسی جانتی تھی نہ انگریزی۔ نعیم کی شکستہ جرمنی پر وہ مسکرائی اور شائستگی اور تکلف سے اس کی باتوں کا جواب دے کے پھر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگتی۔ بس سے جو مناظر نظر آرہے تھے، وہ تھے بھی دلکش۔ میونک سے نکلنے کے بعد کچھ دور تک تو چوڑا میدان، پھر جنگل کے ٹکڑے، صنوبر، پہاڑ، بویریا کے اونچے پہاڑوں کے درمیان ایک چھوٹی سی خوبصورت جھیل تھی جس میں پہاڑ کی چوٹیوں کا عکس بڑا دلفریب معلوم ہوتا تھا۔ قریب ہی ٹیگرن زی کا گاؤں تھا جس کے مکانوں کا رنگ قرونِ وسطی کی رنگ سازی اور جس کے مکانوں کی وضع قرونِ وسطیٰ کے دیہی فنِ تعمیر کی یادگار تھے۔ قریب ہی جدید ترین نمونے کا کافی گھر کافی آم زی تھا جس کی ایک پوری دیوار گویا شیشے کی تھی۔ اس سے جھیل اور پہاڑوں کا منظر بڑا ہی خوشنما معلوم ہوتا تھا۔ ایک میز پر تین لڑکیاں ہنس بول رہی تھیں اور ان کے سنہرے بال سر کی جنبشوں سے اِدھراُدھر گرکے بنتے اور سنورتے ۔ نعیم بار بار ان کی طرف بھی دیکھتا رہا— گھنٹے بھر بعد وہ کافی گھر سے باہر نکلا اور چہل قدمی کرنے چلا۔ شام کے وقت آفتاب کااثر بڑا ہلکاسا تھا اور جھیل میں آس پاس کے پہاڑوں کی تصویروں کی بہار دیکھنے کے لائق تھی۔ جھیل کے کنارے وہی سفید پوش عورت اپنے سفید کتے کے ساتھ اکیلی ٹہلتی ہوئی ملی اور مسکرا کے اس نے پھر اپنی راہ لی۔ اس منظر کا اثر جادو کا سا تھا۔ کچھ دیہاتی اس اجنبی ہندوستانی کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ شام کو وہی بس اسے میونک واپس لائی۔ وہ اسٹیشن کے قریب اُترا۔ وہیں کھانا کھانے ایک بڑی سی میز پر جابیٹھا۔‘‘
اس اقتباس میں جس عورت کے بارے میں مصنف نے اظہار خیال کیا ہے وہ جرمنی ہے۔ اس کے لباس ہی میں شائستگی نہیں ہے بلکہ اس کے طرزِ گفتگو میں بھی تکلف کا شائبہ ہے۔ چوں کہ وہ عورت انگریزی اور فرانسیسی زبان سے واقف نہ تھی اس لیے نعیم اپنی شکستہ جرمنی زبان میں اس سے بات کرنے کی کوشش کرتا مگر لاحاصل۔ ناول نگار صرف یہ نہیں بتا رہا ہے کہ وہ جس بس میں سوار تھا وہ میونخ میں واقع تھی۔ اور جسے ہٹلر نے بنوایا تھا، بس سے باہر کے جغرافیائی مناظر کے ساتھ قرونِ وسطیٰ کی یاد دلانے والے مکانوں کو بھی وہ دیکھتا اور دکھاتا ہے۔ یہ ٹیگرزی نام کا ایک دیہات ہے۔ ایک طرف قدیم طرز کی عمارتیں ہیں اور دوسری طرف جدید ترین نمونے کا کافی گھر۔ یہاں بھی نعیم کو تین خوبصورت اور خوش مزاج لڑکیوں سے سابقہ پڑتا ہے۔ وہ ان کی طرف حسرت بھری نظروں سے دیکھتا ہے۔ گویا نعیم ایک لااُبالی اور حسن پرست واقع ہوا ہے۔ فطرت کے خوبصورت مناظر ہی کا وہ شیدا نہیں ہے بلکہ نسوانی حسن جہاں بھی ملتا ہے وہ اسے بھی زندگی کا ایک لطیف تجربہ خیال کرتا ہے۔ یہ ساری صورتِ حال نعیم کے کردار کو سمجھنے میں مدد کرتی ہے۔
عصمت چغتائی نے متوسط اور ادنیٰ مسلم گھرانوں کی زندگیوں اور ان کے گرد و پیش کو ایک تصویر کے دو رخ کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس گرد و پیش سے ان کے طرزِ زندگی، ان کے بود و باش اور ان کی اقتصادی حالتوں کا بھی بخوبی پتہ چلتا ہے مثلاً ’ٹیڑھی لکیر‘ کا یہ اقتباس دیکھیں:
’’سوائے مرغیوں کی کڑکڑکے بالکل سناٹا چھایا ہوا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ اپنا کیا کرے۔ اتنے میں ایک بلی دیوار پر سے کودی، ڈربے میں مرغیاں چوکنی ہوکر کڑکڑائیں، وہ اٹھ کر برآمدے میں واپس بھاگی راستے میں اس کی نظر کیا ریوں پر پڑی جہاں دھنیا اور ساگ بویا ہوا تھا۔ ندھیرے میں بالکل ایسا معلوم ہوتا تھا کالا کالا اون الجھا ہوا پڑا ہے، بڑی آپا کی کیاریاں— آناً فاناً میں وہ بھوکی شیرنی کی طرح ہری بھری کیاریوں پر پل پڑی۔ دونوں ہاتھوں سے اس نے کھسوٹنا شروع کیا، جیسے وہ اپنی کسی ’دشمن کی آنتیں نکال رہی ہو اور مٹھیوں میں لے کر اس نے زمین پر رگڑ ڈالا۔ مرچوں کے پیڑ، لو کی کی بیل، چمیلی اور موگرے کے پودے جس میں سے روزپھول توڑ کر آپاجوڑے میں لگایا کرتی تھیں، توڑ موڑ کر پیروں سے مسل ڈالے۔ اب اسے ہنسی آنے لگی جیسے کسی نے پچکاریوں سے تازہ تازہ خون اس کے جسم میں بھردیا۔‘‘ (عصمت چغتائی: جگدیش چندرودھاون، ص 406)
مرغیوں کا کڑکڑانا، بلی کا دیوار سے کودنا، آنگن کی کیاریوں میں ساگ اور دھنیا کے پودے، مرچوں کے پیڑ، لو کی کی بیل، چمیلی اور موگرے کے پودے وغیرہ سے ان گھرانوں کی معاشرت اور ان کے رجحانات کو سمجھا جاسکتا ہے۔ عصمت نے صرف منظرکشی نہیں کی ہے بلکہ اس پورے اقتباس میں زندگی کوٹ کوٹ کر بھردی ہے۔ عصمت جو ماحول پیش کرتی ہیں اس کا تعلق صرف اپنے اسلوب کی انفرادیت کو نمایاں کرنا نہیں ہوتا بلکہ وہ ان جزئیات کو اپنی زبان کی طاقت سے ڈرامے میں بدلنا چاہتی ہیں۔ یہ ماحول کردار اور ایک خاص طبقے کی نفسیات اور اس کی جذباتی حالتوں کی کئی باریک گرہوں کا مظہر اور نمائندہ بن جاتا ہے۔
ناول میں اسلوب سے زیادہ تکنیک کی خاص اہمیت ہے۔ تکنیک فن کار کی فنی لیاقت کی مظہر ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کے حوالے سے ہم ناول نگار کے رد و قبولیت کے ان رجحانات اور رویوں تک بہ آسانی پہنچ سکتے ہیں کہ کن چیزوں سے اس نے صرف نظر کرنا ضروری سمجھا اور کیوں؟ اور کہاں اسے اپنے خود عاید کردہ Barriers توڑنے پڑے۔ مارک شورر نے لکھا ہے:
’’جب ہم تکنیک کے بارے میں بات کرتے ہیں تو گویا ہم ہر چیز کے بارے میں بات کرتے ہیں کیوں کہ تکنیک کے ذریعے ہی مصنف تجربہ کرتا ہے جو اس کا موضوعی مواد ہوتا ہے اور جو اسے ادا کرنے کے لیے مجبور کرتا ہے۔ تکنیک ہی کے ذریعے وہ اپنے اس موضوع کو دریافت کرتا،اجاگر کرتا اور اسے ترقی بخشتا ہے جس سے اس کے معنی کی ترسیل کا عمل وابستہ ہے اور بالآخر وہی اس کی قدر بھی آنکتا ہے۔‘‘
شورر آگے چل کر یہ بھی کہتا ہے کہ بعض تکنیکیں دوسروں سے زیادہ تیز دھار والے اوزار کی طرح ہوتی ہیں جو زیادہ انکشاف اور دریافت کے تجربوں سے گزارتی ہیں۔
پریم چند کے ناولوں کی تکنیک میں پیچیدگی کم ہے کیوں کہ کہانی کو سیدھے سادے طریقے سے بیان کرنے میں ان کی دلچسپی زیادہ تھی۔ وہ ہر جگہ ایک راوی کے طور پر کہانی کی دنیا سے خود کو پرے رکھتے ہیں۔ قرۃ العین کو ناول میں اپنی شمولیت عزیز ہے۔ جیسے وہ سب کچھ دیکھ رہی ہیں۔ سب کچھ جانتی ہیں۔ انھوں نے عموماً ضمیر متکلم کا صیغہ ہی استعمال کیاہے۔ قرۃ العین زمانۂ حال کو بھی ماضی کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ یہی صورت عزیز احمد اور عبداللہ حسین کے ناول میں بھی نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ وہ ناول زیادہ پیچیدگی کے حامل ہوتے ہیں جن میں پلاٹ بار بار ٹوٹتا بکھرتا ہے اور پھر اپنے مرکزی نقطے پر سمٹ آتا ہے۔ جیسا کہ قرۃ العین کے فن کا یہ ایک طرزِ خاص ہے۔
کہنے کا مقصود یہ کہ ناول خواہ براہِ راست زبان میں لکھا جائے جیسے پریم چند لکھا کرتے تھے یا ’شعور کی رَو‘ کی تکنیک میں لکھے جائیں جیسے ’لندن کی ایک رات‘ یا ’آگ کی دریا‘ میں اس کا تجربہ کیا گیا تھا۔ ناول کو داخلی سطح پر مختلف اجزا کے مابین خوش آہنگی کو قایم رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ شعور کی رَو کی تکنیک میں ناول کے مختلف اجزا کے درمیان تناسب کو برقرار رکھنا اس لیے مشکل ہوجاتا ہے کہ اس کے تحت زبان کے عمل کی اپنی ایک فطری رَو کام کرتی ہے جسے قابو میں رکھنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ ایک مشاق فن کار ہی اس بے محابا رَو پر بندباندھ کر ناول کی فنی ساخت میں خوش آہنگی اور تناسب کو قایم رکھ سکتا ہے۔ جیسا کہ انگریزی میں جیمس جوائس اور ورجینا وولف کے ناولوں میں یہ ہنرمندی ملتی ہے یا اردو میں قرۃ العین حیدر نے اس فن کاری کا خوبی کے ساتھ استعمال کیا ہے۔
ڈیوڈ ڈائچیز نے ’شعور کی رو‘ کی تکنیک کو ناول کے فن کے تئیں زیادہ سے زیادہ وسعت بخشنے کا وسیلہ بتایا ہے۔ یعنی ناول نگار کم سے کم میں زیادہ سے زیادہ مواد، خیالات اور جذبات کو سمو سکتاہے۔ ناول نگار کا ذہن پھر ایک ہی سمت میں نہیں بہتا اور نہ کسی رکاوٹ کو درمیان میں آنے دیتا ہے۔ ماضی، حال اور مستقبل ایک تسلسل میں واقع ہوتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے متعلق بھی ہوتے ہیں، ایک دوسرے کو کاٹتے بھی ہیں اور ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی سعی بھی کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈیوڈ ڈائچیز لکھتا ہے:
’’شعور کی رَو سے ناول نگار وقت کے پنجے سے آزاد ہوجاتا ہے، اس میں ماضی کی یادوں کو حال میں پیش کیا جاتا ہے۔ حال کے کسی واقعے کے ردِّ عمل کو پیش کرتے ہوئے ناول نگار کی حالتوں کی عکاسی کرتا ہے، جس میں بہت سے حال کے واقعات سے وابستہ گزرے ہوئے واقعات شامل ہوتے ہیں۔ اس طرح ذہنی حالت کی پیش کشی سلیقے سے کی جائے تو ناول نگار ایک تیر سے دو پرندے کاشکار کرسکتا ہے۔ ایک تو ہ حال کے واقعے کی حقیقی نوعیت پیش کرسکتا ہے تو دوسرے حال کے واقعے سے وابستہ ماضی کے واقعات کو پیش کرتے ہوئے وہ کردار کے پورے ماضی کو سامنے لاسکتا ہے۔‘‘
(ڈیوڈ ڈائچیز ’دی ناول اینڈ دی ماڈرن ورلڈ‘ ص 16,17 )
ہمیں تکنیک کے بارے میں غور کرتے ہوئے اس بات کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ تکنیک افسانے یا ناول کا کوئی ایسا پہلو نہیں ہے جسے ناول کے دوسرے فنی پہلوؤں سے الگ کرکے دیکھا جائے۔ پلاٹ، کردار، پس منظر یا ماحول، نقطہ نظر یا اسلوب کا مطالعہ الگ الگ کیا جاسکتا ہے اور کیا جانا چاہیے لیکن تکنیک ان سب کی روح میں شامل ہے۔ پلاٹ کو تشکیل دینے کے بہت سے طریقے یا کہیے کہ قصے کو بیان کرنے کے ایک سے زیادہ طریقے ہیں۔ کسی میں راوی کا کردار خود مصنف ادا کرتاہے جس کے باعث جذباتی کا رنگ جگہ جگہ اپنا اثر دکھاتا ہے۔ مصنف کے ذاتی تجربات کسی نہ کسی شکل میں شامل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ کسی میں مصنف غائب راوی کو ترجیح دیتا ہے۔ اس قسم کے ناولوں میں غیرجانب داری اور معروضیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے تجزیوں میں جذباتیت کا وہ رنگ نہیں پیدا ہوتا جو صیغہ متکلم کے یہاں بار بار نمایاں ہوتا ہے۔ یہی چیز کردار سازی میں بھی واقع ہوتی ہے۔ قرۃ العین کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ ہر ناول میں کسی نہ کسی طور پر شامل ہوں۔ اس لیے ان کی ماحول کشی اور کردار سازی کو جذبے کی آمیزش سے عاری نہیں قرار دیا جاسکتا۔ پریم چند ایک غایب راوی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اس لیے ان کے کرداری تجزیوں اور پس منظر کی صورتوں کو ابھارنے میں غیرشخصی پن جھلکتا ہے۔
تکنیک دراصل ایک طریقِ کار کا نام ہے۔ ناول کے موضوع کو ادا کرنے کا عمل، کہانی کو پلاٹ بنانے کا عمل، کردار کو ایک خاص شکل دینے کا عمل، ماحول کو مواد اور کردار کے ساتھ نامیاتی ربط دینے کا عمل گویا ناول کا ہر جزو دوسرے جزو کے ساتھ تناسب اور تنظیم کا ایک خاص تصور مہیا کرتا ہے۔ تمام اجزا کے درمیان ایک ایسا منطقی ربط بھی ہوتا ہے جسے نامیاتی کا نام دینا زیادہ درست ہوگا۔ جیسے ہر چیز اور ہر جزو نے فطری طور پر نمو پائی ہے۔ اس کی تعمیر نہیں ہوئی ہے بلکہ وہ خلق ہواہے۔ تکنیک کا بہترین عمل وہیں نمایاں ہوتا ہے جہاں وہ ناول کے تمام اجزا کو ایک تخلیقی مرکب میں اس طورپر ڈھالنے کاکام انجام دیتی ہے کہ ہر چیز اپنے مقام پر ہوتی اور ایک دوسرے سے مربوط بھی ہوتی اور ایک دوسرے کے معنی کے ساتھ مل کر ناول کے ایک خاص نقطۂ نظر کی تشکیل بھی کرتی ہے۔
ناول ایک نثری بیانیہ ہے۔ نثری بیانیہ ہونے کے باعث اس کے اسلوبی تقاضے شعری اسلوب کے تقاضوں سے مختلف کہلاتے ہیں۔ شعر میں لفظوں کے استعمال اور روایتی قواعد کو توڑنے کی آزادی ہوتی ہے۔ نثری ادب میں اس طرح کی آزادی کا گزر نہیں۔ افسانوی ادب کی زبان میں تخلیقی جوہر اسے علمی زبان کی خشکی اور یکسانیت سے ایک علیحدہ معیار عطا کرتا ہے۔ ہم جب افسانوی زبان کا نام لیتے ہیں تو اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ عمومی طور پر ایک ایسی زبان بھی ہے جو افسانوی کہلاتی ہے۔ خصوصی طور پر ہر اہم اور قابل ذکر فکشن نگار کی افسانوی زبان اپنے چند انفرادی خصائص کی بنا پر ایک علیحدہ شناخت رکھتی ہے۔ نذیر احمد کی زبان بھی داستانوں کی زبان اور تمثیلی قصوں کی زبان سے مختلف ہے۔ انھوں نے اپنے عہد کی معاشرت، مسلم گھرانوں کے طرزِ زندگی، اخلاقی اقدار کی شکست و ریخت، عورتوں کی عمومی صورتِ حال، مکاری، جھوٹ اور مذہبی معاشرے سے بڑھتی ہوئی بے اعتنائی کو مسائل کے طور پر موضوع بنایا ہے۔ دہلی کی زبان، دہلی کے محاورے اور بالخصوص مسلم خواتین کی بامحاورہ زبان کا ان کے اسلوب کی انفرادیت کو قایم کرنے میں خاص کردار ہے۔ ان کی زبان وہاں بوجھل، خشک اور بے مزہ بن جاتی ہے جہاں وہ نصیحت کرتے کرتے وعظ کرنے لگتے ہیں۔ افسانوی زبان یک لخت علمی اور کتابی زبان میں بدل جاتی ہے۔
سرشار کی زبان ابتدا تا آخر افسانوی ہے۔ ان کی زبان پر لکھنوی محاورے کا رنگ گہرا ہے۔ انھوں نے اپنے اسلوب میں داستانی رنگ شامل کرکے ڈرامائیت بھی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جیسے ہم ’فسانۂ آزاد‘ ایک ناول کے طور پر پڑھ نہیں رہے ہیں سن رہے ہیں۔ سن ہی نہیں رہے ہیں بلکہ دیکھ بھی رہے ہیں۔ ’فسانۂ آزاد‘ میں جگہ جگہ ہم ایسے مقامات سے گزرتے ہیں جہاں جاندار چیزیں ہی نہیں بے جان چیزیں بھی حرکت کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ تمام چیزیں ایک دوسرے کے ساتھ ربط بھی رکھتی ہیں اور پورے منظرنامے کو زندگی سے معمور کردیتی ہیں۔ سرشار کو چھوٹے چھوٹے سے فقروں اور جملوں میں زیادہ سے زیادہ توانائی بھرنے کا ہنر آتا ہے۔ کہیں اطناب اور بے جا طوالت کا احساس بھی ہوتا ہے لیکن دوسرے لمحے ہی وہ احساس محو ہوجاتا ہے کیوں کہ حرکت و عمل کا ایک سلسلہ ہوتا ہے جس میں سے کسی بھی چیز کو حذف کرنے کے معنی اس مجموعی تاثر کو نقصان پہنچانے کے ہیں جو ان کی زبان و بیان کی غیرمعمولی قوت کا زائدہ ہے۔ ذرا یہ اقتباس ملاحظہ کریں اور زبان کی برجستگی، بے ساختگی اور ایک ایک جز کی تفصیل پر غور کریں جس نے بیانیہ کو ڈرامے میں بدل دیا ہے:
’’بھئی قسم ہے خدا کی، جیسے ہی جنگل میں پہنچا ہوں، عجب تماشا دیکھا۔ واللہ باللہ ثم باللہ۔ دیکھتا کیا ہوں کہ ایک شیر ببردم پھیلاتا درخت کے سائے میں کھڑا ڈکار رہا ہے اور ابا جان کی قسم یہ دیکھیے واللہ کہ مجھ سے اور اس سے کوئی چار پانچ قدم کا فاصلہ ہوگا۔ حضرت میری اٹھتی جوانی اور گینڈا بنا ہوا، اور بھئی اللہ گواہ ہے۔ میں اپنی طاقت آزمائی بھی کرچکا تھا۔ ایک دفعہ کمنا ہاتھی کو بڑھ کر طمانچہ مارا۔ تودُم دبا کر یہ بھاگا وہ بھاگا۔ پھر میرا زعم بے جا تو نہیں۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ بس شیر کو ایک دفعہ ڈپٹ دیا۔ بھالا لے آگے قدم بڑھایا اور میں نے بھرپور ہاتھ جمایا۔ تب تو شیر اور بھی غرایا۔بس اسی پر مجھے بھی غصہ آیا۔ پھر تو حضرت قسم ہے جناب باری کی۔ بندۂ درگاہ بھی جم گئے اور زناٹے سے بدن تول کر ولایتی کا ہاتھ جو چھوڑا تو شیر نے تیورا کر منہ موڑا۔ میں نے کہا، او گیدی نامعقول، تو شیر ہے یا بھیڑ ہے۔ یہ کہہ کر میں جھپٹ پڑا اور جھپٹتے ہی میاں کی دم جو دبائی تو ہاتھ میں تھی۔ پھر بھاگا۔ میں نے غل مچایا کہ ابے اولنڈورے (پھر سوچنے لگے) واللہ۔ بڑھ کر ایک ہاتھ ولایتی کا دیا۔ کاسۂ کاٹتی ہوئی پیر تک پہنچ گئی۔ اتنے میں مجھے یہ خیال آیا کہ ایں بارِ خدا۔ میں مسلح وہ نہتا، یہ تمنائے شجاعت نہیں۔ معاً خدا گواہ ہے، تلوار پھینک کر چمٹ گیا (پھر سوچنے لگے) ہاتھوں ہاتھ دستی کھینچی اور کولے پر لاکر دھم سے زمین پر دے ٹپکا۔ چاروں شانے چت۔ وہ پچھاڑا۔ تین دفعہ تال ٹھونک کر یا علی کہہ اٹھا مگر اپنی جان کی قسم اِس وقت داد دینے والا کوئی نہ تھا۔ اِدھر اُدھر سناٹا، اتنے میں جنگل کے بھورے ریچھ نے آکر ڈنڈ مل دئیے۔‘‘
(فسانۂ آزاد (ایک تنقیدی جائزہ): تبسم کاشمیری، ص 33-34)
نذیر احمد اور سرشار کے برعکس امراؤ جان ادا کی زبان، ناول کے لیے مناسب ترین زبان ہے۔ ناول ایک جدید صنفِ ادب ہے۔ جدید عہد اور اس عہد کے انسان خارجی اور داخلی مسائل ہی کو ناول میں موضوع و مواد کے طور اخذ کیا جاتا ہے۔ قرۃ العین اور مستنصرحسین تارڑ (بہاؤ) نے صدیوں ادھر کی تاریخ کے پیچ و خم اور انسانی کرب واضطراب، بے بسی و لاچاری، افکار و عقائد کو بھی اپنے پلاٹ کا ایک اٹوٹ حصہ ضرور بنایا ہے لیکن ان حصوں کو موجودہ زندگی کے معنی سے جوڑنے اور مماثلتوں اور تضادات پر سے پردہ اٹھانے کی کوشش بھی کی ہے۔ رسوا نے تاریخ کے ایک خاص دورانیے ہی کو اپنے مشاہدے اور تجربے کا حصہ بنایا۔ رسوا کی زبان شعریت و نفاست کا تاثر بھی دیتی ہے لیکن پلاٹ کی بنّت اور موضوع کے ساتھ وہ مربوط بھی ہے اور موضوع کے دوسرے سلسلوں کو زیادہ سے زیادہ معنی خیز بنانے کا کام بھی کرتی ہے۔ ناول چوں کہ کئی صفحات پر مبنی ہوتا ہے۔ ابتدا سے انتہا تک وہ کئی نشیب و فراز سے گزرتا ہے اور انجام کی صورت چوں کہ آخر تک پردۂ غیاب میں ہوتی ہے۔ اس لیے اس کی زبان اور اس کا اسلوب ایسا ہونا چاہیے جو قاری کی دلچسپی کو برقرار رکھے۔ امراؤ جان ادا اگر مرغوبِ خاص و عام ہے تو اس کے بہت سے اسباب میں ایک بڑا سبب اس کا طرزِ اظہار بھی ہے۔ یہ اسلوب ناول کے لیے ایک مثالی اسلوب ہے۔ امراؤ جان کا یہ اقتباس دیکھیں جس میں طوائفوں کے آدابِ زندگی اور ان کے روزمرہ کا نقشہ کم سے کم لفظوں میں بیان کردیا گیا ہے۔ جیسے یہ ساری صورتِ حال ہمارے سامنے ہی واقع ہورہی ہے:
’’ساون کا مہینہ ہے۔ سہ پہر کا وقت ہے۔ پانی برس کے کھل گیا ہے۔ چوک کے کوٹھوں اور بلند دیواروں پر جابجا دھوپ ہے۔ ابرکے ٹکڑے آسمان پر آتے جاتے نظر آتے ہیں۔ پچھم کی طرف رنگ رنگ کی شفق پھیلی ہوئی ہے۔ چوک میں سفید پوشوں کا مجمع زیادہ ہوتا ہے جاتا ہے۔ خورشید، امیر جان بسم اللہ میلے میں جانے کے لیے بن ٹھن رہی ہیں۔ دھانی دوپٹے جو ابھی رنگ ریز رنگ کے دے گیا ہے، چنے جاتے ہیں۔ بالوں میں کنگھی ہورہی ہے۔ چوٹیاں گوندھی جاتی ہیں۔ بھاری زیور نکالے جاتے ہیں۔ خانم صاحب چوکے پر گاؤ تکیے سے لگی بیٹھی ہیں۔ بوا حسینی ابھی پیچوان لگا کے پیچھے ہٹی ہیں۔ خانم صاحب کے سامنے میر صاحب بیٹھے ہیں میلے جانے پر اصرار کررہے ہیں۔ وہ کہتی ہیں آج میری طبیعت سست ہے۔ میں نہیں جانے کی۔ ہم لوگ دعائیں مانگ رہے ہیں۔ خدا کرے نہ جائیں تو میلے کی بہار ہے۔‘‘ (امراؤ جان ادا)
پریم چند ایک حقیقت پسند واقع ہوئے تھے۔ ان کی حقیقت پسندی، ناول کے کسی ایک جزو تک محدود نہیں تھی بلکہ ناول کے ہر جزو پر وہ محیط ہے۔ پریم چند کے موضوعات کے کینوس بھی بے حد وسیع ہے۔ ابھی تک ناول کا فن چند مخصوص موضوعات کے محور پر گردش کررہا تھا۔ پریم چند نے ہندوستان گیر سیاسی و سماجی مسائل کی طرف موڑ دیا۔ زندگی کا یہ بڑا بھیانک اور اندوہ ناک رُخ تھا۔ پریم چند نے اپنے کردار عوام الناس سے اخذ کیے۔ ناول کی زبان کو زیادہ عصری اور موثر بنانے کی سعی کی۔ یہ زبان نہ تو دہلی کے محاورے کا دم بھرتی ہے نہ لکھنوی زبان کے آب و رنگ سے خود کو چمکانے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ جتنی ادبی ہے اتنی ہی عوامی بھی ہے۔ اردو ناول نے پہلی بار زبان کا یہ ذائقہ چکھا تھا۔ ایسا نہیں ہے پریم چند کے بیانیہ میں تخلیقی جوہر کی کمی ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ جہاں جہاں تخلیقیت امڈ کر آئی ہے تاثیر میں غیرمعمولی قوت پیدا ہوگئی ہے۔ تخلیقی جوہر کے ساتھ واقعیت کو قایم رکھنا اور واقعیت کے ساتھ تخلیقی جوہر کو قایم رکھنا سب سے مشکل فن ہے اور پریم چند کو اس فن میں کمال حاصل ہے۔ درج ذیل اقتباسات میں پریم چند کے طرزِ اظہار کی اس انفرادیت کے گہرے نقوش دیکھے جاسکتے ہیں:
’’وہی اُچکّا جسے امرکانت نے ایک دن سیہ کاروں کی کیچڑ میں لوٹتے دیکھا تھا، آج تقدس کے رتبے پر پہنچ گیا تھا۔ اس کی روح سے گویا ایک تجلی نکل کر امر کے باطن کو روشن کرنے لگی۔ طلوعِ سحر کے وقت جب کالے خاں کی شمعِ حیات بجھی تو ایسا کوئی قیدی نہ تھا جس کی آنکھوں سے آنسو نہ نکل رہے ہوں۔ لیکن اور لوگ غم سے رورہے تھے، امرکانت روحانی مسرت سے رورہا تھا۔ اوروں کو ایک عزیز دوست کی جدائی کا صدمہ تھا، امرکانت کو ایسا معلوم ہورہا تھا، وہ اس سے قریب ہوگیا ہے۔ اپنی زندگی میں اسے یہی ایک پاک نفس انسان ملا تھا، جس کے سامنے اس کا غرور عقیدت سے جھک جاتا تھا۔ اس روشنی کے مینار نے آج اس کی کشتی کا رخ پلٹ دیا۔ جہاں شک کی جگہ یقین اور باطل کی جگہ حق کی آواز سنائی دیتی تھی۔‘‘ (میدانِ عمل)
’’وہ آج جیل کی سختیاں جھیل رہی ہے۔ امر کے دل کا سارا خون سکھدا کے قدموں پر گر کر بہہ جانے کے لیے مچل اٹھا۔ سکھدا، سکھدا جدھر دیکھیے اسی کا جلوہ تھا۔ شام کی شفق میں گنگا کی زرنگار لہروں پر بیٹھی ہوئی وہ کون چلی جارہی ہے؟ سکھدا، اوپر ناپیداکنار آسمان میں کیسر یا ساڑی پہنے کون چلی جارہی ہے؟ سکھدا۔ امر پاگلوں کی طرح کئی قدم آگے دوڑا، قدموں کی خاک پیشانی پر لگا لینا چاہتا ہو۔‘‘(’میدانِ عمل)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page