بکرانعام یافتہ ناول ’ریت سمادھی‘کی مصنفہ گیتانجلی شری کا یہ اعتراف کہ وہ قرۃالعین حیدر اور انتظار حسین کے آرٹ و فن سے خود کو قریب پاتی ہیں،اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ ملک بھلے ہی بٹ ہوگیا ہو، اردو، ہندی کے فنکار اور قارئین تقسیم نہیں ہوسکتے۔کملیشور کے معروف ناول ’کتنے پاکستان‘کا ترجمہ خورشید عالم نے کیا ہے،ناول کی عظمت کو اجاگر کرنے میں جہاں صلاح الدین پرویز کی نظم ’کنفیشن‘کے چند ٹکڑوں نے نمایاں کردار ادا کیا ہے، وہیں گوپی چند نارنگ اور شمیم حنفی کی تحریروں نے بھی ناول کے بعض فکری گوشوں اور فنکارانہ انفرادیت کو منور کیاہے۔اردو،ہندی فکشن ابتدا سے ہی دونوں زبان کے قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ر ہے ہیں۔ مذکورہ خیال کا جوازہندی کی معروف فکشن نگار چترا مدگل کا ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ ناول ’پوسٹ بکس نمبر 203 نالا سوپارا‘ (مترجمہ:احسن ایوبی)ہے۔آدمی میں عورتوں والی ایک فطرت مشترک ہوتی ہے،دوسرے کی ہانڈی میں کیا پکا ہے،اس ٹوہ میں آدمی بھی رہتا ہے۔اردو کے ناول تو ہمارا روز مرہ ہیں،پہلے سال دو سال میں ایک، دو ناول موضوع بحث ہوا کرتے،اب ہر ہفتے تین،چار ناولوں کی تشہیر کی جاتی ہے،بعض نومولود ناول نگار تو تشہیری پوسٹرس میں تخلیق کار کے بجائے جوکر نظر آتے ہیں، خیر! اردو کے زیادہ تر ناول سپاٹ بیانی کا شکار ہیں، ہندی ناول سپاٹ بیانی کے الزام سے بری ہوا یا نہیں،اس ٹوہ میں ناول کا مطالعہ کیا۔موضوع تو چونکانے میں کامیاب نہیں ہوسکا لیکن سپاٹ بیانی والا مسئلہ حل ہوگیا،جو بیانیہ خود کو پڑھوا بھی لے اور گفتگو بھی کروالے،وہ سپاٹ ہو ہی نہیں سکتا۔
چترا مدگل کی زبان اور تخلیقی نثر تادیر اپنی گرفت میں رکھتی ہے،ظاہر ہے اس دلکشی اور دلفریبی میں مترجم کی شراکت داری کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ احسن ایوبی ترجمہ نہیں،ناول کو ازسر تخلیق کررہے ہوں۔انہوںنے ہندی اور دیگر زبانوںکے افسانوں کا بھی اثرانگیز ترجمہ کیا ہے،منجھے ہوئے قلم کی اہم خوبی یہ ہے کہ ترجمہ تخلیق سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے۔چترامدگل ہندی کی معروف فکشن نگار ہیں۔انہوں نے راست بیانیہ میں ارضی حقائق یعنی مرد،عورت کے رشتوں میں آنے والی کھٹاس،ان کی نفسیاتی کمزوریوں، غربت سے جوجھتے محروم آدمیوں کی کہانیاں پرسوز انداز میں لکھی ہیں۔ حیات و کائنات سے متعلق ان کے اپنے تصورات و خیالات ہیں جن کا اظہار وہ مختصر افسانوں اور ناولوں میں کرتی رہی ہیں۔ناولوں میں ’گلی گڈو‘ (تامل زبان میں پرندے)،’آواں‘ اور’پوسٹ بکس نمبر 203 نالاسوپارا‘ان کی تخلیقی انفرادیت کی اہم مثالیں ہیں۔ناول ’پوسٹ بکس نمبر 203 نالا سوپارا‘ ناول کا موضوع تیسری جنس ہے،فکشن میں یہ موضوع نیا نہیں۔خوشونت سنگھ کا مشہور ناول ’ٹرین ٹو پاکستان‘ہے لیکن ’دی دہلی‘ عمدہ ناول ہے۔تاریخی ناول نہ ہوتے ہوئے بھی تاریخی سانحات پر مبنی ہے۔مغلوں کی دہلی،نادر شاہ کی تباہی،انگریزوں کی دہلی،گاندھی جی کاقتل،آرایس ایس کے ذریعے ایک خاص نظریہ کی تبلیغ اور 1984کی دہلی، اندراگاندھی کے قتل کے بعد انتقامی جذبے کے تحت سکھوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جانا،سب تاریخی سانحات ہیں۔اس ناول کی مرکزی کردار بھاگ متی ہے جو ایک ٹرانس جینڈر ہے جو بنتی،بگڑتی دہلی کا استعارہ ہے۔
اروندھتی رائے کے ناول The Ministry of Utmost Happiness میں بھی انجم ایک ٹرانس جینڈر ہے۔ ایک ناول ’اس نے کہا تھا‘(اشعر نجمی)ایل جی بی ٹی کو بنیاد بنا کر ہی لکھا گیا۔اس ناول میں تو درجنوں کردار ہیں جن میں زیادہ تر کردار تیسری جنس سے تعلق رکھتے ہیں۔موضوع کی حدیں سکڑی ہوئی ہیں مگر بیانیہ اثرانگیز ہے۔
چترا مدگل کا زیر مطالعہ ناول ونود نامی ایک ٹرانس جینڈر کی دکھ بھری داستان پر مبنی ہے۔موضوع کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن ناول کا طرز اظہار اسے اہم یا غیر اہم بناتا ہے۔زیرمطالعہ ناول کا پلاٹ مختصر ہے لیکن فکری جہتیں وسیع ہیں، طرزاظہار کی دلچسپی قاری کو گرفت میں رکھتی ہے۔ مصنفہ نے دروازے کے بجائے کھڑکی سے آدمی کے ہیبت ناک چہروں کو دکھانے کی فنکارانہ سعی کی ہے۔ عموماً ایک خاص عضو سے محروم فرد معاشرے میں قبول نہیں کیا جا تا،سماج اسے زنخا کہہ کر قابل تنفر شئے سمجھ لیتا ہے۔حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ والدین بھی supportive نہیں ہوتے ہیں۔اس ناول میں اسی کرب کو مؤثر طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ ناول میں ونود ایسا ہی ایک کردار ہے جس کا دکھ یہ ہے کہ زمانے نے اگر اسے دھتکارا تو اتنا غم نہیں کہ صدیوں سے دستور زمانہ یہی کرتا آرہا ہے،ایک باپ اگر زمانے سے زیادہ ظالمانہ سلوک کرے تو غالب کا شعر دہرایا جاسکتا ہے۔
جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
ونود اپنے باپ سے کوئی گلہ نہیں کرتا لیکن اس کے دل میں نفرتوں کا لاوا پھوٹتا رہتا ہے جس کی نکاسی کے لیے خطوط کا سہارا لیتا ہے۔یہ سچ ہے کہ خط غموں کو ہلکا کرنے کا اثر انگیزذریعہ ہے۔غالب کے خطوط صرف اس کے یاروں کے بچھڑ جانے پر غمگسار ثابت نہیں ہوتے،بلکہ یہ خطوط 1857 کی خونچکاں داستان کے نوحہ گر بھی ہیں۔کافکا کے خطوط اس کے ذاتی المناکیوں کی آماجگاہ ہیں،اقبال کے بعض خطوط جہاں ان کی روحانیت کو ظاہر کرتے ہیں وہیں دل میں پوشیدہ نرم گوشوں کا اظہاریہ بھی ہیں۔
زیر نظر ناول میں ونود اپنے دل کے دریا میں اٹھے جوار بھاٹا پر قابو پانے کے لیے خطوط کا سہارا لیتا ہے۔ اپنی با(ماں) کے نام لکھے درجنوں خطوط میں اس نے معاشرے کی ناانصافیوں اور ذاتی درد و الم کوقیدکرلیا ہے۔جب ونود کے والد نے اس کی موت کا اعلان کردیا تو وہ اپنے آبائی وطن (گجرات) چھوڑ کر ممبئی کے نالاسوپارا میں چمپا بائی کی ٹولی میں پناہ لیتا ہے جہاں اسے پونم جوشی کا پیار نصیب ہوتا ہے،وہیں اسے شہر کے ایم ایل اے (ودھایک جی)کا آسرا ملتا ہے۔ ونود کنر ہونے کے باوجود ونود شناخت کا ماتم دار نہیں، تشخص کے لیے زمانے سے ٹکرانے کا حوصلہ رکھتا ہے۔
ناول کا تانابانا ماں کے نام ونود کے جذباتی خطوط،ودھایک کی سیاسی سرگرمیوں اور پونم جوشی کی زندگی میں آئی اتار چڑھاؤ سے بنا گیا ہے۔ خطوط پر مشتمل افسانوں اور ناولوں کی تعداد زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں،بنگلہ کے معروف ناول نگار سنتوش کمار گھوش کا ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ ناول ’میراسلام‘(مترجمہ: ذکیہ مشہدی)تقریباً پانچ سو صفحات کے ایک خط پر مشتمل ہے۔ ناول میں ایک ستر سالہ بیٹے نے اپنی ماں کے دامن پاکیزہ پر نمایاں،تل سمان ایک داغ کے حوالے سے اپنے جذبات،عصری حسیت اور آدمی کے باطنی تضادات و تصادمات کے علاوہ مظاہرات کائنات کی قلمونیوں کو دلکش پیرایہ بیان میں پیش کیا ہے۔زیر مطالعہ ناول میں بھی خطوط کے ذریعے ایک بیٹا (ونود)اپنی ماں کو پل پل کی اپنی روداد زیست سے آگاہ کرتا ہے۔
موجودہ سیاسی صور ت حال میں ایم ایل اے کی حقیقت سے سب واقف ہیں،مصنفہ کی تکنیکی ہنرمندی قابل تحسین ہے کہ ناول کے پہلے حصے میں ودھایک کا کردار مثبت انداز میں اجاگر کیا گیا ہے،آخری چند صفحات میں قاری پر یہ تلخ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ ’پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا‘۔ونود کے لیے دامادی آؤ بھگت سب ڈھکوسلا تھا۔ونود کے ایک خط کی چند سطریں ملاحظہ کریں جن میں ودھایک کا مثبت رخ ظاہر کیا گیا ہے۔
’’تیواری جی! ہم جنتا کے سیوک ہیں اور بس! جنتا اونچی نیچی نہیں ہوتی،نہ اندھی نہ لولی لنگڑی،نہ چھوت اچھوت نہ کنر۔ جنتا صرف جنتا ہے،سب برابر ہیں ہماری نظر میں،سمجھے؟‘‘ (صفحہ-43)
ودھایک جی کا یہ ظاہری روپ ہے۔ ودھایک جی کے خیال کی سادگی پر ونود کیا،ہم،آپ بھی مر مٹنے کو تیار ہو سکتے ہیں۔غالب نے کبھی ستم گر معشوق کے لیے کہا تھا کہ ’اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا‘ونود ودھایک کے پوشیدہ منصوبے کو سمجھے بغیر ان کے حکم کا غلام بن جاتا ہے۔ودھایک جی کا وہ روپ بھی دیکھیں جس کی بنیاد اقتدار کی ہوس پر قائم ہے۔تیواری،جس کی زبان سے ودھایک جی کی حسب منشا لفظ ادا ہوتے ہیں،ونود سے کہتا ہے،
’’دھیان سے سنو! میں چوبیس برس کی چاکری میں کچھ نہیں بن پایا۔وفادار کتے کو بدلے میں صرف بوٹیاں ہی حاصل ہو سکتی ہیں۔بیوقوف اسی میں خوش رہنا سیکھ لیتا ہے۔‘‘ (صفحہ-162)
ودھایک جی اقتدار حاصل کرنے کے لیے ہجڑوں کی جماعت کو متحد کرکے ان کو ’ووٹ بینک‘کے طور پر استعمال کرنا چاہتے تھے۔ایک جلسے کو خطاب کرتے ہوئے ونود نے اپنی کمیونٹی کو بیدار کرنا چاہا تو ودھایک جی کے ترجمان تیواری کا تیور دیکھیں۔
’’کیوں ونود! سینہ پر سماج سدھارک کا تمغہ لگانے کا شوق چرّا رہا ہے؟
راجا رام موہن رائے بننا چاہتے ہو؟
اسی لیے ہم نے بھیجا تھا تمہیں چنڈی گڑھ؟
من مانی کرنے؟
واہ! تم تو چھٹے ہوئے پالیسی باز نکلے۔
پانسہ پلٹنے میں ماہر۔
غلط کہہ رہا ہوں؟
کانفرنس میں تمہیں ریزرویشن کا مسئلہ اٹھانا تھا اور تم کنروں کو پاٹھ پڑھانے لگے خودداری کا۔‘‘(صفحہ -197-198)
ودھایک جی کا معکوس رویہ کس جرم کے پاداش میں رونما ہوا ذرا اس کی بھی ایک جھلک دیکھیں۔
’’ریزرویشن انہیں تیسرے خانہ میں ریزرو کرے گا۔
تیسرے خانہ میں کیوں؟
تیسرے خانہ کی ضرورت ہی کیا ہے؟
اس کھیل کو جنسی عضو کی کمی والے لوگ سمجھ نہیں پارہے ہیں،سمجھ بھی نہیں پائیں گے۔سرکار کو ریزرویشن دینا ہی ہے تو انھیں دو خانوں کے اندر دے جن دو خانوں کے اندر سبھی جنم لینے والے انسانوں کو ملتا ہے۔
انھیں چننے کی سہولت دے،جس خانہ کو وہ خود کے لیے چننا چاہیں یا جو ہونا چاہیں۔
عورت یا مرد۔۔۔خاموشی سے۔۔۔‘‘(صفحہ -186)
قانونی طور پر تیسری جنس کے افراد Others کے زمرے میں شامل ہیں،انہیں ووٹ دینے کا بھی حق حاصل ہے لیکن ونود فی الحال یوٹوپیائی تقاضے کو پورا کرنے کا خواہشمند ہے،ممکن ہے مستقبل میں ایسا ہو جائے لیکن اس کی بیداری سیاسی حلقوں کے لیے پریشان کن ضرور ہے۔ودھایک کا برگشتہ ہونا یقینی تھا لیکن ونود ناول کا مرکزی کردار ہے جو ایک تحریک کے سانچے میں ڈھل چکا ہے۔ناول کا بیانیہ اس دریا کی مانند ہے جس کی فکری و معنوی لہریں سہ طرفہ ہیں،ایک طرف ودھایک کے توسط سے ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کی تصویر کشی کی گئی ہے تو دوسری طرف ایک بے بس ماں ہے جو چاہ کر بھی اپنے کنبہ کے فرد کے طور پر اپنے ہی جگر کے ٹکڑے کو اپنی آغوش میں نہیں لے سکتی اور تیسری طرف ونود کی بصیرت افروز تحریریں ہیں جو خطوط کی شکل میں قاری کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔
بعض مقامات پر مصنفہ کے سیاسی شعور اور بالغ نظری کا بھی احساس ہوتا ہے۔گذشتہ کئی برسوں سے ملک میں سیاست کی بساط پرسیاست داں دھرم اور مذہب کے نام پر شطرنجی گھوڑوں جیسی چال چلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں جن کا رخ کدھر ہوگا،کسی کو سمجھ میں نہیں آتا۔اس تناظر میں چند سطریں ملاحظہ کریں۔
’’لنگ پوجا والا مسئلہ ضرور اٹھائیے گا،آگ میں گھی کا کام کرے گا،پروفیسر ورما نے اس بات کی مخالفت کی۔اس مدعے کو نہ چھوا جائے،انتہائی حساس مدعا ہے،لنگ پوجنے والے اپوزیشن کے ہی ووٹ بینک نہیں ہیں شرما جی،ہمارے بھی ووٹ بینک ہیں۔جذباتیت اور جلد بازی حکمت عملی کے لیے خطرناک ثابت ہوگی۔‘‘(صفحہ -182)
مصنفہ صرف صورت حال کی تصویر کشی ہی نہیں کرتیں،بصیرت افروز نکات بھی بیان کرجاتی ہیں۔مکمل بیانیہ ونود کے بکھرے ہوئے خیالات پر مشتمل ہے جنہیں خطوط کی ذریعہ پیش کیا گیا ہے۔ان خطوط کو مربوط کرنا مشکل نہیں لیکن فنی سطح پر مجسم کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں، باتوں ہی باتوں میں ونود اپنی ماں سے ایسے مناظر بھی تحریروں میں لکھ جاتا ہے جو اخلاقیات کے منافی ہیں۔ایک رات وہ ٹی وی پر اڈلٹ فلم دیکھتا ہے،اسکرین پر نمایاں تصویری جھلکیاں دیکھ کر انہیں بھی لکھ بیٹھتا ہے۔
’’آرام کرسی پر ایک عورت جسم کو ڈھیلا چھوڑے بیٹھی ہے۔بھری پری وہ مطمئن و مسرور عورت گاؤن پہنے ہوئے ہے۔گاؤن میں سے عورت کا خاص ابھرا ہوا تقریباً غبارہ جیسا تنا ہوا پیٹ خصوصی توجہ کا سبب بن رہا ہے۔تبھی اس کے کمرے میں ایک مرد داخل ہوتاہے۔‘‘(صفحہ-153)
’’پھر وہ مرد عورت پر نہال ہوتا ہوا سا آرام کرسی کے ہتھے سے اٹھ کر گھٹنوں کے بل عورت کے قدموں میں بیٹھ جاتا ہے،غبارے جیسے تنے ہوئے اس کے پیٹ پر آہستہ آہستہ ہاتھ پھیرتا ہے۔بے تابی کے عالم میں پیٹ کو مختلف زاویوں سے چومتا ہے۔۔پھر۔۔۔پھر پیٹ سے کان کو آہستہ سے مس کرکے کچھ سننے کی کوشش کرتا ہے۔‘‘(صفحہ-153)
ہوسکتا ہے کمرے میں داخل ہونے والا مرد کسی حاملہ عورت کا پتی ہو،وہ غبارہ کی طرح پھولے ہوئے پیٹ میں پلتے کسی بچے کی چلبلاہٹ کو محسوس کرنا چاہتا ہو،لیکن ناول کے موضوع کے معنوی ارتقا میں کوئی واقعہ،کوئی منظر معاون نہیں اور وہ وقوعہ،یا منظر جنسی ہو تو لذت کوشی کا گمان ہوتا ہے۔حالانکہ مصنفہ نے اس سلسلے میں محتاط رویہ اختیار کیا ہے،اور یہ بھی کہ فکشن میں جنسی مناظر کے تئیں ناک پر رومال نہیں رکھا جاسکتا۔کوئی بھی خیال بس یوں ہی بیان نہیں کیا جا سکتا،خیالات کے ارتقائی مراحل اگر متقاضی ہوں تو جنسی اعضاکا بیان بھی بار خاطر نہیں،درج بالا مناظر اگر راوی اپنی ہمدرد پونم جوشی سے شئیر کرتا تو بیانیہ پر لطف ہوجاتا، معاملہ بیان کا نہیں،مقام کا ہے۔مصنفہ نے بعض مقامات پر منطقی باتیں بھی کہی ہیں جو افکار و خیالات کو توسیع دینے میں معاون ہیں۔مثلاً،
’’میرا جواب تھا،وہیں جہاں سرکار نے درج فہرست قبائل (ST) کو رکھا ہے۔
پسماندہ طبقہ (OBC)کو رکھا ہے۔
معذوروں(PWD)کو رکھا ہے۔
اور بہتوں کو رکھا ہے۔
یہ سب سماج کے بے حد محروم طبقے ہیں،جنسی نقص نہیں ہے ان میں،باقاعدہ مرد، عورت ہیں۔
جنسی نقص والے سبھی جنس کی بنیاد پر مرد،عورت نہیں ہیں تو کیا انسان نہیں ہیں؟
پیشاب بھی کرتے ہیں،پاخانے بھی جاتے ہیں۔
ہاں ان سب کی طرح منی نہیں اگل سکتے،سیکس نہیں کرسکتے،اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان نہیں ہیں۔‘‘ (صفحہ153)
مصنفہ نے اس طرح کے بے شمار انسانیت دوست مکالموں کے پتھروں سے سماجی اخلاقیات کا سینہ چھلنی کیا ہے۔چترا مدگل کی اہم خوبی زبان و بیان کا تخلیقی استعمال ہے۔کسمساتی ہوئی تکنیک کو بھی مصنفہ کی زبان و بیان پر قدرت سنبھال لیتی ہے۔ایک اور مقام پر مصنفہ کا قلم ڈگمگایا ہے جب ودھایک کا بھتیجا بلو امریکہ سے واپس آتا ہے،جس کا خیر مقدم ودھایک جی پونم جوشی کے ڈانس آیٹم سے کرنا چاہتے ہیں،پونم ڈانس کے بعد اپنے میک اپ روم میں آتی ہے،تبھی بھتیجا اور اس کے چند دوست پونم کے ساتھ ’نربھیا سانحہ‘کو دہراتے ہیں،پونم زندگی اور موت کے درمیان آکھڑی ہوتی ہے۔امیروں کی عیاشیاں مشہور زمانہ ہیں لیکن ایک کنر کے ساتھ کی گئی بربریت کا انجام منطقی معلوم نہیں ہوتا۔اس تناظر میں یہ منظر دیکھیں۔
’’دو (2)نے ٹانگوں کو چیرنے والے انداز میں پھیلا دیا۔
دھت ت ت سا ااااااالااااااا
اس کے تو صرف ایک چھید ہے،
ودھایک کا لاڈلا بلو بھتیجا چیخا۔
پھر چیخا
موبائل دو اپنا کوئی
تصویریں کھینچوں گا۔
ٹانگیں کسے رکھو۔
سوراخ کا فوکس کرتے ہوئے بلو کے سر پر ایک تماشائی نے چپت لگائی۔
گھونچو! چھید دکھائی دے رہا ہے،چوزے جیسی چھاتیاں نظر نہیں آرہی ہیں؟
امریکی بالاؤں کی بھی نہیں ہوں گی ایسی چھاتیاں۔
اسی نے پینٹ کھولنی شروع کر دی۔ دوسرے نے ٹوکا۔
رک بے۔۔۔چھید چوڑا کرتے ہیں۔
چلم کے پھکڑ۔۔۔کیسے کریں گے؟
گردن گھما،
دیکھ! ڈریسنگ ٹیبل پر کسی کی جھوٹی پلیٹ پڑی ہوئی ہے۔
اٹھا لا چھری کانٹا۔
ودھایک جی کے بلو بھتیجے نے چھید کا آپریشن شروع کردیا۔‘‘(صفحہ213-214)
یہ پورا منظر نامہ میلو ڈرامے کی سرحد میں داخل ہوگیا ہے۔پونم جیسے کوئی ربڑ کی گڑیا ہو،اتنی ظالمانہ سلوک کے بعد بھی اس میں حرکت ہے نہ جسم کے ایک مخصوص حصہ کی چیڑ پھاڑ پر چیخ پکار ہے۔اس طرح یہ منظر ڈرامائی کیفیت کا حامل نظر آتا ہے۔چترا مدگل کوئی معمولی تخلیق کار نہیں،کسمساتی ہوئی تکنیک کو زبان و بیان کی تخلیقی استعمال سے سنبھال لیتی ہیں۔معنی کے وسیع سیاق و سباق کو چند لفظوں کے پیکر میں ڈھالنے کی قوت بھی رکھتی ہیں۔مثلاً،
’’بچانے ڈبونے میں جب کوئی فرق نہ رہ جائے تو گاہے بگاہے اپنے پن کا دکھاوا شک کو جنم دیتا ہے۔‘‘(صفحہ-118)
’’پسیجنا ضروری ہے لیکن اتنا نہیں کہ خود اپنی آنکھوں میں آپ کنویں کھود لیں۔‘‘ (129)
’’جسم کو تھوڑا آرام دینے کا ارادہ کرو تو بے ایمانی پر اتر آتا ہے اور کئی دن کی تکان کا معاوضہ طلب کرتا ہے۔‘‘ (صفحہ-172)
’’میں محسوس کررہا ہوں کہ آگ ہے ان میں،جسم نے جھریوں کا لباس بھلے پہن لیا ہو لیکن سینہ میں جھریاں نہیں پڑیں۔‘‘ (صفحہ-177)
بیان میں ’کہیں پہ نگاہیں،کہیں پہ نشانہ‘والی کیفیت تخلیقی فنکار کو اہم بناتی ہے،فکشن نگار جہاں فن پارے کے توسط سے قاری کو جمالیاتی آسودگی فراہم کرتا ہے وہیں سماجی و سیاسی صورت حال کو بھی منور کرتا ہے۔
عملی فن (Performing Art) ناول نگاری کا اہم حصہ ہے۔یہی وہ فنی جز ہے جس کی موجودگی کی بناء پر کسی ناول کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ گذرا ہوا زمانہ آنکھوں کے سامنے جلوہ افروز ہوگیا۔مثال کے طور پر شمس الرحمن فاروقی کا ناول’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘کو پیش کیا جاسکتا ہے۔زیرنظر ناول میں پونم جوشی اور کہیں کہیں ودھایک عملی طور بیانیہ کے ارتقا میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔پونم جوشی کا گاہ بہ گاہ یہ کہنا،’ہائے میرے شاہ رخ خان‘ یا یہ منظر دیکھیں۔
’’یہ طے کرلیا تھا میں (ونود)نے کہ مسوری چلا جاؤں گا۔دلی سے قریب ہے۔ٹھکانے پر لوٹ کر میں نے پونم سے کہا تھا۔کچھ پیسے چاہئیں مجھے جو شاید تجھے واپس نہیں ملیں گے۔ہائے میرے سلمان!اس نے اپنی کرتی کے بٹن کھول دئیے۔میرا سب کچھ لے لے نا مراد،پیسہ کیا چیز ہے؟(صفحہ-35)
پونم کنرہے تو ثابت بھی کرتی ہے کہ وہ کنر ہے۔ ونود کا یہ کہنا کہ عورتوں کا حلیہ بناکر یہ عورتوں کی ماں بہن کیوں کرتی ہیں با۔(صفحہ-18)تصوراتی خیال ہے۔ونود ہجڑوں جیسی ویش بھوسا پر بھی یقین نہیں رکھتا،ناول میں وہ سادھو سنتوں کے روپ میں نظر آتا ہے۔خطوط میں وہ فلسفیانہ خیالات پیش کرتا رہتا ہے۔بے شک راوی مصنف کا ہمزاد ہوتا ہے لیکن ہر راوی (جو کرداری صورت میں بیانیہ میں قاری سے ہم کلام ہوتاہے)کا ایک تشخص ہوتا ہے جس کا اظہار ہونا چاہیے۔چترا مدگل نے بعض کرداروں کو اجاگر کرکے فنکارانہ مہارت کا
ثبوت فراہم کیا ہے لیکن ونود کو خلیل جبران صفت بنا کر اس کے حصے کی کچھ سچائیوں میں کٹوتی بھی کی ہے۔مجموعی طور پر ناول کی پیشکش عمدہ ہے اور ہندی کے ساتھ اردو کے قارئین کے درمیان تادیر موضوع گفتگو رہے گا۔
(بشکریہ:امروز۲۵،علی گڑھ)
٭٭٭٭
Maqsood Danish
13/H/46, Mayurbhanj Road, Khidderpur, Kolkata 700023
7439612247
maqsooddanish63@gmail.c
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page