ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی
آراضی باغ، اعظم گڑھ
عید قرباں ان دو بابرکت تہواروں میں سے ایک ہے جو امت مسلمہ کو بطور انعام عطا کیا گیا راہ خدا میں پیش کردہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایک علامتی عمل ہے۔ یہ محبوب عمل صبر و ایثار، اخلاص نیت و شکر خداوندی کا وہ مجموعہ ہے جو عبادت کا اعلی معیار طے کرتا ہے جہاں بندہ اس سنت ابراہیم کو تحریک دینے کی کوشش میں ہوتا ہے جو اپنی عزیز ترین متاع کو قربان کرنے کے نتیجے میں منصہ شہود پر آئی جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں اپنے پیا رے بیٹے حضرت اسماعیل ؑکو اللہ کی راہ میں ذبح کرتےدیکھا اور اسے حکم خدا سمجھتے ہوئے مکمل خوشی کے ساتھ بیٹے کو قربان کرنے کے لئے تیار ہوگئے۔چنانچہ اللہ نے ان دونوں کے اخلاص نیت کو پسند فرمایا اور اسے اپنی بارگاہ میں نہ صرف قبول فرمایا بلکہ ان کے اس طرز عمل کو قیامت تک کے لئے اہل ایمان پر حسب شرائط لازم کردیا یہی نہیں بلکہ انہیں اپنے فضل و کرم سے نوازتے ہوئے بیٹے کے بدلے جانور کی قربانی کا پابند بنا کر شکر خداوندی کا حسین موقع عطا فرمایا جب انہوں نے عشرہ ذی الحج کی فضیلت سے مستفید ہوتے ہوئے صبر و شکر کا وہ مظاہرہ کیا جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔
مذکورہ بالا قرائن کے پس منظر میں اگر قربانی کی روح کا جائزہ لیا جائے تو اس کا جواب ہمیں خود قرآن کریم کی اس آیت میں ملتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :” لن ينال الله لحومها و لا دماؤها ولكن يناله التقوى منكم ” ۔ ( سورہ الحج : 37 )( اللہ تک ان کا گوشت اور خون ہرگز نہیں پہنچتا بلکہ اس کو صرف تمہارا تقوی پہنچتا ہے ).
یہ آیت اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ اللہ کی راہ میں جانور کی قربانی محض ایک علامتی عمل ہے کیونکہ قربانی کا اصل مقصد زندگی کو اللہ کے احکام کے مطابق بسر کرنا اور اس کے نبی ﷺکی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہے ۔
قربانی کے اس عمل کو اگر دور حاضر کے تناظر میں تولا جائے تو یہ منکشف ہوتا ہے کہ یہ علامتی عمل جو اپنی عزیز ترین متاع کی قربانی کے ذریعے اخلاص لوجہ اللہ کا مظہر ہے وہ محض ریاکاری اور نمود و نمائش کا مظہر بن کر رہ گیا ہے ۔ قربانی کے علامتی عمل کا تقاضا ہے کہ ہم بھی جائزہ لیں کہ ہماری ایسی عزیز ترین چیزیں کون سی ہیں جو اللہ کی مرضیات پر چلنے میں ہمارے راستے میں مانع ہیں ان میں ہماری انا، ہماری خواہشات، ہمارا اسٹیٹس، ہمارے ذرائع آمدنی، ہماری معیشت سب کچھ شامل ہے۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ خود پسندی کا شکار ہو کر لاکھوں کے جانور قربان کرنے میں مصروف ہے جسے سماج کے پسماندہ افراد اور ان کی ضروریات نظر نہیں آتیں۔ سماج کا ہر فرد اپنا اسٹیٹس برقرار رکھنے کے لیے نمود و نمائش کی اس اعلی چوٹی پر پہنچ چکا ہے جو قوم کے درماندہ طبقوں کی احتیاجات یومیہ دیکھنے سے قاصر ہے۔ خواہشات نفس کے پیروکار ترقی کے منازل طے کرنے کے لئے حرام ذرائع آمدنی اختیار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اور لاکھوں کے جانور قربان کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے اس علامتی عمل کے ذریعے کامیابی کی اس راہ پر پہنچ گئے ہیں جس کے بعد ناکامی کا کوئی خطرہ نہیں۔ ہمارے سماج کا ہر فرد بالخصوص امراء اپنی حرام ذرائع سے کمائی ہوئی دولت ، اس کے بل پر بنائی ہوئی جائیدادیں اور قومی دولت لوٹ کر بیرون ملک بنائے ہوئے اثاثے برقرار رکھنے اور ہمارے سرکاری افسر رشوتوں کا کاروبار جاری رکھنے پر مصر ہیں اور یہ بھول بیٹھےہیں کہ اللہ کی راہ میں پیش کیاجانے والا مال پاکیزگی کا مطالبہ کرتا ہے ، اللہ کے نزدیک یقینا ان قربانیوں کی کوئی قدر وقیمت نہ ہوگی بلکہ یہ سب ریاکاری اوردکھاوے میں شمار کیا جائے گا اور کسی ثواب کے بجائے الٹا عذاب کا سبب بنے گا۔
اسی طرح عید قرباں مسلمانوں کے اتحاد کی عظیم الشان علامت ہے۔ حج کے موقع پر مسلمانوں کا عالمی اجتماع جس وحدت اسلامی کا مظہر ہے، دنیا کی کوئی بھی قوم اس کی ادنی سی بھی جھلک پیش کرنے سے قاصر ہے۔ مگر اس تناظر میں دور جدید کا جائزہ لیا جائے تو آج ملت اسلامیہ جن مسلکی، سیاسی،علاقائی، نسلی اور لسانی اختلافات کا شکار ہے، وہ عید قرباں کے اس خالص جذبے کے بالکل منافی ہیں۔ مشرق وسطی سمیت تمام خلیجی ممالک وحدت و یگانگت کا ثبوت دینے کے بجائے باہم خوں ریزی میں مبتلا ہیں۔ سیاسی اختلافات سے بڑھ کر بات مسلکی و مذہبی اختلافات تک پہنچ چکی ہے۔ اور ان کے سد باب کی کوئی کامیاب کوشش عالم اسلام کے کسی حصے اور کسی مکتب فکر کی جانب سے نہیں کی جارہی ہے۔
اتحاد و اتفاق کے حوالے سے بر صغیر پاک و ہند نہایت تشویش ناک صورت حال کا شکار ہیں۔ ہمارے سیاسی رہنماؤں کی انا اور ہٹ دھرمی نے ملک میں تفریق اور انتشار کا عجب ماحول پیدا کر رکھا ہے ۔ اور نام نہاد مسلمانوں کا سہارا لے کر ملک ہندوستان کے سیاسی رہنماؤں نے فرقہ واریت کو خوب ہوا دی ہے۔
عید قرباں کے موقع پر گائے اور گئو کشی کے نام پر آئے دن قتل وغارت گری کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جس کی تجارت چمکانے والا کوئی اور نہیں بلکہ وہ انتہا پسند ہندو تنظیمیں ہیں جو” گائے ہماری ماتا ہے ” کا راگ الاپتی رہتی ہیں۔
عشرہ ذی الحج جس کی فضیلت قرانی آیت اور متعدد احادیث سے ثابت ہوتی ہے کہ فضیلت کے یہ دن حکم خداوندی کے مطابق زندگی گزارنے اور نیک عمل کے لئے عطا کئے گئے ہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَالْفَجْرِ وَ لَیَالٍ عَشْرٍ یعنی مجھے فجر اور دس راتوں کی قسم ہے۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ بحوالہ بخاری فرماتے ہیں: ’’اس سے مراد ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں‘‘۔
اسی طرح سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’ان دس دنوں میں اللہ تعالیٰ کو عمل صالح بہت پسند ہے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ کیا جہاد فی سبیل اﷲ سے بھی زیادہ یہ دن پسند ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’ہاں! یہ دن جہاد فی سبیل ﷲ سے بھی بہتر ہیں سوائے اس شخص کے جو اپنے مال اور جان کو لے کر نکلے اور کسی چیز کو واپس لے کر نہ آئے‘‘ (بحوالہ بخاری)۔
قرآن و سنت کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یوم النحر یعنی عید قرباں کے دن قربانی سے زیادہ افضل اور اللہ کے نزدیک محبوب عمل کوئی نہیں ہے چنانچہ حضرتِ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا، ”یا رسول اللہ!یہ قربانیاں کیا ہیں؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،”تمہارے باپ ابراہیم علیہِ السَّلام کی سُنَّت ہیں “۔ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ،”یارسول اللہ !ان میں ہمارے لیے کیا ثواب ہے؟“ فرمایا، ”ہربال کے بدلے ایک نیکی ہے “۔عرض کیا ، ”اور اُون میں“؟ فرمایا، ”اس کے ہرہربال کے بدلے بھی ایک نیکی ہے“۔(ابن ماجہ ،کتاب الاضاحی)
اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کرنے کا کتنا عظیم ثواب بیان فرمایا ہے کے جانوروں کے بالوں کے بقدر جو کہ گنناناممکن ہے بندے کو اللہ تبارک و تعالیٰ نیکیاں عطافرماتے ہیں،دوسری حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ،ایام قربانی (یعنی ۱۰/ تا ۱۲/ذی الحج) انسان کا کوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قربانی کے جانور کا خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے، اور قیامت کے روز قُربانی کا یہ جانور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے سینگوں، بالوں اور کُھروں سمیت حاضر ہوگا، اور بلاشُبہ قربانی کے جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت کا درجہ پالیتا ہے ،تو اے مومنو!خُوش دِلی سے قُربان کیا کرو۔ (تِرمِذی)
مگر آج ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ امت مسلمہ اس پاک فرمان کے تئیں پیغام عید قرباں کو فراموش کرکے محض مہنگے جانور خریدنے اور اسراف و تبذیر میں مبتلا ہے اور ان دس دنوں میں نیک اعمال بجا لانے کے بجائے ایک دوسرے کی تحقیر میں مصروف ہے جس سے رہائی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ عید اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ خود کو اللہ کی مرضی کے تابع کرنے کے لئے تمام تدابیر اختیار کریں۔ ہم اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں۔ ہر بات یا ہر موقع پر دلبرداشتہ ہوکر تعلقات کو خراب کرنے یا رشتہ توڑنے کا سبب نہ بنیں بلکہ ایثار و ہمدردی کا پیکر بن کر معاشرے میں اسلام کے پیغام امن و آشتی کو عام کریں۔ مگر صورتحال اس کے بالکل بر عکس ہے ۔ علاوہ ازیں یہ عید اس بات کی بھی متقاضی ہے کہ ہم ہمہ وقت اپنے آپ کو اس بات کے لئے تیار رکھیں کہ زندگی میں جب بھی کسی کو ہماری ضرورت ہو تو ہم بلا کسی تأمل کے اپنا وقت اس کی خدمت میں صرف کریں۔ خاص طور پر موجودہ دور میں جب ہر انسان تمام رشتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی دنیا میں مشغول ہے اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال میں اس قدر مصروف ہے کہ اس کے پاس اپنے والدین یا عزیز واقارب کے لئے بھی وقت نہیں ۔
بنا بریں یہ عید یہ پیغام بھی دیتی ہے کہ جس طرح سے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنے والد محترم خلیل اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے صبر کا مظاہرہ کیا اسی طرح سے ہم بھی رضائے الٰہی کی خاطر والدین یا دیگر متعلقین کے سامنے صبر کا دامن تھامے رہیں خواہ حالات کتنے ہی ناخوشگوار کیوں نہ ہوں۔ اور جانور کی قربانی کو اولاد کا قائم مقام بنانے پر رب کائنات کے شکر گزار بنیں۔
عید قرباں کے حوالے سے میں نے اپنے جذبات کو الفاظ کے پیکر میں ڈھالنے کی کوشش یوں کی ہے:
ہے صبر ذبیح اللہ ، ایثار خلیل اللہ
لائی ہے یہ عید ایک صبح معطر سی
ہے رنگ عبادت کا اخلاص لوجہ اللہ
خوشبو ہے جوعنبرکی اور فکر کا جوہربھی
اللہ تعالیٰ اس عید قرباں کو ہمارے لئے باعث رحمت بنائے اور اخلاص کے ساتھ اس کے قیمتی اوقات سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔
اللھم بلغنا ایاھا فی خیر و عافیہ۔آمین یارب العالمین.
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page