ارم رحمن۔۔۔لاہور
عورت کیا چاہتی ہے ؟ کیا سوچتی ہے ؟ صرف جسم اور جنس تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔۔۔۔ اور ایک خاص عمل کو جنسی تسکین سمجھ کر کرنا بلکل موزوں و مناسب نہیں اس کے پیچھے کیامیکنزم کارفرما ہے اسے سمجھنا ازحد ضروری ہے کہ عورت کس مقام پہ اپنا آپ مرد کو سونپتی ہے صرف جسم کا حصول توعورت کو تسکین نہیں دے سکتا لیکن مرد کا،المیہ یہ ہے کہ اسکی موٹی نظر عورت کے اعضائے مخصوصہ کے علاوہ کچھ دیکھ نہیں پاتی مرد کی نظریں عورت کی جسم کاایکس رے کرسکتی ہیں روح کانہیں اگر عورت کے احساسات کو پرکھا جانچا جائے تواسقدر لطیف روح ملے گی کہ مرد اس کے تصور اور خیال کی رنگینی میں ہی محو ہو جائے ۔۔۔
رعنا مقصود ۔۔بڑے ڈرامائی اور فلمی لب و لہجے میں یہ سب بیان کرنے کی ماہر تھی۔۔ ہماری ایم فل اردو ادب کی کلاس میں سے تین لڑکیاں اور پانچ لڑکے ایسے تھے جو باقاعدہ لکھتے تھے اور ہمارے افسانے کہانیاں مختلف جریدوں اور اخبار میں چھپنے شروع کو گئے تھے اور ہماری اس کاوش کو بروئے کار لانے والے ہمارے گروپ کے روح رواں جناب قمر الاسلام صاحب تھے اردو ادب میں پی ایچ ڈی سکالرز اور نابغہء روزگار ہستی مصنف اور یونیورسٹی کے میگزین کے ایڈیٹر تھے ۔روز ہمیں کلاسز کے بعد زائد وقت دیتے اور ہمیں اردو ادب کی مختلف جہتوں پہ کھل کر بولنے کا موقع فراہم کرتے
پہلے یہ کلاسز یونیورسٹی میں ہی ہوا کرتی تھیں
پرفیسر نے ان ادبی سرگرمیوں کے لیے انتظامیہ سے باقاعدہ اجازت نامہ لے رکھاتھا اور ہم سب کے نام پتے شناختی کارڈ کے ہمراہ جمع کروائے گئے تھے کہ پروفیسر صاحب کی زیرنگرانی یہ اردو ادب
میں دلچسپی رکھنے والی منڈلی یونیورسٹی کے اوقات کے بعد ایک سے دو گھنٹے تک یونیورسٹی کے وسائل استعمال کرنے کی حقدار ہے
رعنا مقصود ہم آٹھ لوگوں میں سب سے زیادہ منٹو کی مداح تھی اور پھر واجدہ تبسم کو پڑھنے کے بعد اس کا بھی ذکر خیر کثرت سے کرتی نظر آتی
ہر کلاس میں اکثر وہی بولتی اور بےباک موضوع پہ بولنا بھی اسی کا خاصا تھا ۔لڑکے بھی بولتے کبھی رعنا کے حق میں کبھی خلاف مگر میں واحد طالب علم تھا جس نے رعنا کے حق یا مخالفت میں کچھ نہیں کہا۔۔جب استاد گرامی پوچھتے کسی نے کچھ کہناہے تو میں اپنی کہانی اور اپنی سوچ بیان کر دیتا اور کبھی رعنا کے مدمقابل نہیں ہوا
مجھے معلوم تھاکہ رعنا کس نقطہ نظر سے منٹو اور واجدہ کی مداح سرائی کرتی ہے
منٹو نے تقریبا” ساڑھے چار سو افسانے لکھے 60 سے زیادہ پر تو مقدمے چلے اور کیوں چلے اس پہ بھی رعنا کو تحفظات حاصل تھے
عصمت چغتائی کا ذکر رعنا کو پسند نہیں تھا اسی طرح قرتالعین حیدر کی خشک طوالت تحاریر سے شاکی رہتی
البتہ امرتا پریتم کی آپ بیتی اسے بہت پسند آئی تھی۔امروز۔۔ساحر اور امرتا کی تثلیث کا ذکر اس کی آواز بوجھل کر دیتا
مجھے نہیں پتہ کہ باقی لوگ اس کے بارے میں کیا سوچتے؟ کیسے سوچتے؟ ۔۔لیکن مجھے رعنا مقصود کی ساری باتیں اور سوچ حفظ ہو چکی تھیں
وہ بہت بولتی تھی مگر ایسا نہیں تھا کہ باقی سب کو بولنے کا موقع نہیں ملتا تھا ۔لیکن اکثر ایسا ہوتا کہ سب کی سوچ اس کی باتوں میں ہی کور ہوجاتی یا وہ ہی سب کی سوچ کا احاطہ کر جاتی۔۔
سب بولتے اورجو کہنا چاہتے کہہ سکتے تھے، پروفیسر صاحب سبکو موقع دیتے دونوں لڑکیاں نجمہ اور ریحانہ تو جیسے اس کی چمچیاں تھیں لیکن ہم لڑکے بھی رعنا کے خلاف نہیں جاتے تھے ہمیں بھی رعنا کی سوچ کی رعنائی پسند تھی
میری رعنا سے بلکل بات نہیں ہوتی تھی ہم ساتھ بیٹھتے ایک دوسرے کی کہانی اور افسانے کو سراہتے مگر کبھی بلواسطہ یا یا بلاواسطہ بھی بات نہیں ہوتی
مجھے رعنا میں ایسی کوئی نسائی کشش محسوس نہیں ہوتی تھی کہ جیسے باقی مرد عورتوں کے جسموں کو نظروں ہی نظروں میں ٹٹولتے ہیں اور سوچ اور ذہن کے علاوہ بھی عورت کودیگر حوالے سے دیکھتے ہیں
میری سوچ بس اتنی ہی ہوا کرتی تھی کوئی اچھا ہے یا کوئی اچھی ہے اس سے آگے کے جھنجھٹ میرے ذہن میں نہیں ابھرتے
لیکن ایک بات جو ایک عمومی سوچ ہے کہ کچھ لوگوں کی موجودگی مثبت شعائیں فراہم کرتی ہیں اور کچھ لوگوں کی موجودگی منفی احساس دلاتی ہیں جنہیں aura یا horison کہتے ہیں شاید۔۔
بس ہم سب ایک کلاس میں تھے
اچھے تھے ایک دوسرے سے مربوط ومشروط اور رعنا کی موجودگی کلاس کو واقعی کلاس بنا دیتی تھی
اور اس کی غیر موجودگی میں ہم باقی سب بہت کم ہی اکٹھے بیٹھ سکتے تھے
اگر وہ غیر حاضر ہوتی جو کہ کبھی کبھار ہی ہوتا تو ہم لوگ بھی جلدی سے نشست برخاست کر دیتے یا کوئی دوسری قسم کی گفتگو کرتے۔۔ضخیم اور ثقیل گفتگو اور موضوع رعنا کی موجودگی میں زیر بحث لانے کے لیے سنبھال رکھتے
ایم فل ہو گیا لیکن ہمارا یہ ۔۔نولکھا۔۔۔ نہ ٹوٹا
قمر الاسلام صاحب ادب کے دلدادہ اور نوجوانوں میں ادبی سوچ کو تشکیل کرنے کے خواہاں تھے انھوں نے ہر کلاس میں سب طلباء کو جوش دلایا کہ اردو ادب کی ترویج وترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اس خوبصورت زبان کو زندہ وجاوداں رکھیں۔۔۔ اور ہم اس فوج کے آٹھ سپاہی ہر وقت تن من دھن کے ساتھ حاضر خدمت رہتے
حصہ دوئم
حسن اتفاق کہہ لیں یا خوش. قسمتی کہ ہم سب طلباء اچھے گھروں سے تھے مالی طور پہ مستحکم ۔اور ایسی سرگرمیوں میں خود کو مصروف رکھ سکتے تھے اور کسی بھی لحاظ سے اردو ادب کے فروغ کے لیے سرگرداں تھے۔۔ اور شاید ہم جیسے اور بھی بہت سے یوں گے جنھیں حالات اور قسمت نے موقع نہیں دیا ہوگا
خیر
ہماری محفل ایسی نہیں تھی جو ایم فل کے بعد ختم ہو جانی چاہیے تھیں کیونکہ ہم تو اردو ادب کے مستقل ستارے تھے ہم خوب سے خوب تر لکھنا چاہتے تھے اردو ادب کے روموز واوقاف کو جاننے کے شدید خواہشمند
اور یہ ایسا جنون تھا جو وقت کے ساتھ کم نہیں بلکہ بڑھ رہا تھا
ہماری کیفیت اور صلاحیت دیکھ کر
قمر الاسلام صاحب نے یہ افلاطونی محفل اپنے گھر کی بیٹھک میں لگانی شروع کر دی
ہم سب کسی نہ کسی ادارے سے منسلک ہو چکے تھے لکھتے پڑھتے ۔۔لکھاتے پڑھاتے اور پھر شام 4 بجے تک یا کچھ بعد سب پروفیسر صاحب کے گھر جمع ہو جاتے
اپنی تحاریر سناتے ۔۔تبصرے ہوتے تجزیے ہوتے۔۔ ان کی باریکیوں اور جزیات کو باریکی سے جانچا پرکھا جاتا
ہم عجیب لوگ تھے دنیا مافیا سے بے خبر ایک دو گھنٹے کے لیے بلکل کٹ کر سب سے جدا اپنے خیالوں اور تصورات کو الفاظ کی شکل دے کر خوش ہوتے
کبھی بھی کوئی ناگوار واقعی پیش نہیں آیا ادب آداب قدرو منزلت جیسے utopia کامنظر ہم واقعی اس محفل کے بنا ادھورے اور نامکمل ہواکرتے
کچھ بھی کیسے بھی حالات ہوں ہم لازما اکٹھے ہوا کرتے اور کبھی بھی ارکان محفل یکجا ہونے سے قاصر نہ ہوتے
بلفرض محال ایسی نوبت آ بھی جاتی تو ایک دوسرے کو فون کر دیتے کہ آج ایک نہیں تو باقی بھی نہیں اور شاید اتنے عرصے میں ایک دو بار ایسا ہوا تھا ایک بار نجمہ ریحانہ کا کوئی فنکشن تھااور ایک بار پروفیسر صاحب علیل تھے اور ایک دو بار کچھ اور وجہ رہی ہو شاید۔۔غرضیکہ تین سال سے روز جمنے والی منڈلی مستقل پیمانے پہ ساتھ چل رہی تھی
برسات کا موسم شروع ہوا تو پیشین گوئی ہوئی کہ اب کی بار معمول سے زیادہ بارشیں ہوں گی
روز بارش ہو رہی تھی کبھی تیز کبھی ہلکی لیکن شومئی قسمت ہماری کلاس کے دوران کبھی نہیں ہوئی اور ہماری نشست کبھی بارش کی وجہ سے برخواست نہیں ہوئی
آج بھی بادل گھنگھور گھٹا بن کے آسمان پہ چھائے ہوئے تھے کبھی بادل چھٹتے کبھی چمٹتے غرضیکہ محفل جمی اور وقت مقررہ پہ ہی ختم ہوئی وہ الگ بات ہے کہ اس وقت گھنگھور گھٹا شدید کالی ہو چکی تھی اور بجلی کی تاریں چمک رہی تھیں
نجانے رعنا کو کیا سوجھی اچانک بولی
۔۔” حزیفہ ہم پیدل چلیں ”
اور میں بوکھلا گیا لیکن ہمیشہ کی طرح اب بھی اس سے اختلاف نہیں کیا کیونکہ رعنا کا گھر تو صرف پندرہ منٹ کی چہل قدمی پہ تھا اور مجھے کیا فرق پڑتا کسی سے بھی لفٹ لیتا یا رکشہ پکڑ لیتا
اس لیے مجھے انکار کا کوئی جواز نہیں ملا۔۔
یہ سن کر نجمہ اورریحانہ کو راشد نے اپنے گاڑی میں لفٹ کی پیشکش کر دی امجد بھی ساتھ سوار ہوگیا اور وہ چاروں یہ جا وہ جا۔۔احمد اور عبدلقادر بائیک پہ آتے تھے۔۔وہ بھی گئے بس احمد نے مجھے مسکراکر دیکھاجیسے کہہ رہا ہو” میں تو تیار تھا تمھیں لے جانے کو”
اس وقت شاید میری اور رعنا کی ایک ہی سوچ تھی کہ آج بارش کی نرم گرم بوندوں سے سیراب ہوا جائے ۔۔۔ہم نے ایک دوسرے سے تو
کچھ بھی نہیں کہا لیکن لگ ایسے ہی رہا تھا۔۔
ابھی ہم باہر نکلے ہی تھے کہ تابڑ توڑ بارش شروع ہو گئ اور بارش کی بوندیں تیز ہوا کے ساتھ مل کر ہمیں تھپڑوں کی طرح محسوس ہورہی تھیں شدید تھپیڑے ہمیں باقاعدہ پیچھے کی طرف دھکیل رہے تھے
میں تو مرد تھا جینز ٹی شرٹ میں ملبوس مجھے کیا فرق پڑتا لیکن رعنا ضرور دل ہی دل میں اپنے فیصلے پہ خائف ہو رہی ہوگی کہ کس لمحے بارش میں بھیگنے کا فیصلہ کر بیٹھی اچھی خاصی نجمہ اور ریحانہ کے ساتھ گاڑی میں چلی جاتی ۔شکر ہے وہ تیز نیلے کرتے پاجامے کے ساتھ بڑا دوپٹہ اوڑھے ہوئے تھی اس کا لباس اس کے جسم سے بلکل چمٹ چکا تھا لیکن چمک نہیں رہا تھا لیکن عجیب سی خفت رعنا کے چہرے پہ نمایاں ہو چکی تھی وہ اس صورتحال کے لیے ذہنی اور جسمانی طور پربلکل تیارنہیں تھی اچانک میں نے اسکی طرف دیکھا وہ پہلی بار بلکل خاموش تھی
اسکے چہرے پہ ہوائیاں اڑ رہی تھیں
اور میں نجانے کیوں اس کی یہ حالت اور کیفیت دیکھ کر بہت محظوظ ہو رہا تھا
مجھے ایسے اس کے ساتھ چلنا بہت طمانیت دے رہا تھابارش کی موٹی موٹی بوندیں مجھ پہ پھولوں کی طرح برس رہی تھیں میرا دل چاہا کہ پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر زور زور سیٹی پہ کوئی رومانوی دھن گنگناؤں لیکن ایک دوشیزہ ساتھ ڈری سہمی سی۔۔یہ خیال مناسب نہیں لگا مجھے
اس کے گھر کے پندرہ منٹ کا راستہ اس کے چہرے کے رنگ کے مطابق طے ہو کے نہیں دے رہا تھااور ایک طرف میں تھا جسےکوئی جلدی نہیں تھی ۔رعنا کی بولتی بند ہوگئی تھی وہ بےباک پرجوش لڑکی بلکل بھیگی بلی کی طرح میرے ساتھ چپک کے چل رہی تھی کہ کئ بار غیرارادی طور پہ میں اس سے ٹکر ا بھی گیا جب کوئی موٹر کار فراٹے بھرتے چھینٹے اڑاتے ہوئے پاس سے گزرتی تو لاشعوری طور پر ہم جڑ جاتے
خیر میں ٹکرانے کے بعد ہر بار اس کے چہرے کی طرف دیکھتاجیسے کہنا چاہتا ہوں کہ
” میں جان بوجھ کر نہیں ٹکرایا ،محض غلطی ہوگئ محترمہ بس اتفاق ہے”
اور وہ ایک بار بھی مجھے پلٹ کر نہیں دیکھتی بلکہ یوں لگتااسے میرا ساتھ غنیمت لگ رہا تھا اگر وہ اس دھواں دھار خونخوار بارش میں اس طرح بلکل تنہا اور اکیلی ہوتی تو شاید رو پڑتی۔۔۔
تب اچانک میں سوچنے لگا کہ عورت کتنی بھی بےباک ہو۔کھلے دل و دماغ کی لیکن اسے ہمیشہ ایک مرد کا سہارا درکار ہوتا ہے ایک مضبوط اور اچھے مرد کا ساتھ اس کی زندگی کی پہلی ترجیح ہوتاہے جو اس کا ہر مشکل وقت اور مصیبت میں ساتھ دے سکے ،وہ گرنے لگے تو اس تھام لے، وہ ڈرے تو اس کی دلجوئی کرے اندھیراہو تو مشعل راہ بنے۔ ایسا مرد جو اس کے دکھ سکھ کا ساتھی بن سکے ۔۔تنہا ہو تو ایسا مرد جو اس کے لیے خطرے کا باعث نہ بنے بلکہ اس کا وجود عدم تحفظ کی بجائے تحفظ کا احساس دلا سکے
ایسا مرد جو عورت کی مجبوری کے وقت اپنے اندر کے حیوان پہ قابو رکھ سکے۔۔
ابھی میں یہ سب سوچ رہا تھا کہ سامنے بس سٹینڈ آگیا اور اس کے ٹین کی چھت کے نیچے کھڑا ہونے میں عافیت سمجھی ۔۔حالانکہ اس کی چھت پہ تیز برستی بارش اور زیادہ زور سے گرتی محسوس ہورہی تھی جیسے پتھر برس رہے ہوں لیکن رکنا ہی بہتر تھا کیونکہ ہمارے جوتے اب سڑک کے پانی میں ڈوبنے لگے تھے اور لگ رہا تھا کہ ہم نجانے کتنی دیر سے چل رہے ہیں
ہم نے ایک دوسرے سے کہا کچھ نہیں لیکن دونوں چاہتے یہ ہی تھے۔
ہم دونوں قریب قریب کھڑے تھے لیکن جیسے دو اجنبی اور ایک دوسرے سے غافل ۔۔
بارش رکناتو دور کی بات کچھ ہلکاہونے کا نام نہیں لے رہی تھی اور نہ ہی کوئی رکشہ ٹیکسی گزرا کہ چلو اس پہ سوار ہو کر رعناکو اس کے گھر چھوڑ کر اپنے گھر چلا جاتا ۔۔
ان سب نکات پہ غور ر ہی رہا تھا کہ زوردار دھماکہ ہوا اور سارا علاقہ لرز اٹھا۔اور کچھ لمحوں تک کوئی ہوش وحواس نہیں رہا کچھ دیر بعد جب ہوا میں ارتعاش ختم ہوا تو محسوس ہوا کہ میرے جسم سے کوئی نرم گرم وجود لپٹا ہوا ہے جسے میرے بازوؤں نے جکڑاہواہے یا کسی کے نرم گرم وجود نے مجھے جکڑا ہواہے
کس نے کسی کو پکڑا یا جکڑا ہواہے سمجھ نہیں آیا پھر جب جائزہ لیا تو رعنا مجھے بری طرح سے لپٹی ہوئی تھی اور میں نے بھی پوری قوت سے اسے پکڑا ہوا تھا حواس بحال۔ہوئے تو پتہ لگا کہیں قریب ہی بجلی گری ہے اور اس کے شدید شور سے ہم دونوں غیرارادی طور پر ایک دوسرے سے لپٹ گئے تھے رعنا بری طرح ڈر چکی تھی اور مجھ میں سمٹ گئ اور اس غیر یقینی کیفیت کا جائزہ لیتے ہوئے اچانک میرا دایاں ہاتھ اٹھااور میں رعنا کے گیلے بالوں پہ پھیرنے لگا.
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page