انسانی جذبات ایک مخصوص مدت تک ہی ایک جیسے رہتے ہیں۔وقت کےساتھ چلنا یا یوں کہا جائے بدلنا کبھی انسان کی مجبوری بھی ہوتی ہے اور کبھی نیا جذبہ،نیا نظریہ،اس کے بدلنے کے اسباب پیدا کردیتے ہیں۔پروین شاکر کو میں احساسات کی شاعرہ مانتا ہوں۔ان کے ہاں جذبات نگاری کا جو فن ملتا ہے وہ دوسروں کے ہاں بھی ملتا ہے مگر اس کی تاثیر ایسی نہیں ہوتی کہ بغیر آگاہ کئے انسانی شعور کو اپنی گرفت میں لے لے اور وہ وہی سوچے جیسا کے جذبات نگار سوچنے دے۔یہ فن کی معراج ہے۔پروین شاکر کی غزلیں تو اپنا لطف رکھتی ہی ہیں ان کی نظمیں بھی تیز اثر ہوتی ہیں۔نظموں کے تعلق غیر منطق اور مغلط بحث سے ادب کو کیا فائدہ ہوا یا ہونے والا ہے ،اس سے قطع نظر شاعری کا حسن شعر کے حسن بیان،پرواز تخیل اور موزونیت میں ہوتا ہے۔نثری نظم کی قبولیت یا تردید کی بحث اپنی جگہ میری کم علمی کہ میں نثری نظم کو نظم ہی کہتا ہوں۔
پروین شاکر کی خوبصورت نظموں میں ایک نظم بعنوان "سمجھداری کی ایک نظم”بھی ہے۔یہ نظم زندگی کی اس کڑوی سچائی کی طرف توجہ مبذول کراتی ہے جس سے ہم اکثر فرار چاہتے ہیں یا جس کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں۔پیار میں دعوے کرنا کوئی نئی بات نہیں،سنگ جینے مرنے کی قسمیں کھانا تقریباً جماعت عاشقاں میں عام ہے مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے زندگی سکوت نہیں حرکت ہے ,یہاں کچھ ہونے نہ ہونے کا غم وقتی ہوتا ہے جب زندگی مستقل نہیں تو قسمیں،وعدے کیوں کر دائمی ہونے لگیں۔
باسو نظم کا ہیرو ایک علامت کے طور پر استعمال ہوا ہے ایسا کوئی ایک باسو نہیں۔اپنی زوجہ کے ساتھ مدفن ہونے کی خواہش کے اظہار پر لوگوں نے اسے دماغ کا خلل بتایا کسی نے بدعت اور وہ اپنی خواہش جو ابھی دل میں امنگیں مار رہی تھی لےکر گھر آتا ہے پر اس کا دل اب بھی بے چین رہتا ہے وہ اپنی زوجہ کی یاد کو سینے میں چھپائے دفتر سے سیدھا میوہ شاہ کے ہاں چلا جاتا ہے جہاں اسے تسلی ملتی ہے ،سکون ملتا ہے گرچہ یہ سکون بھی لمحاتی ہے پھر بھی اس کی طلب میں پابند رہتا ہے پھولوں اور اگربتی کے دھوئیں اسے قلبی و ذہنی سکون عطا کرتے ہیں دنیا کے نظام کے ساتھ انسانی نظام بھی بدلتا ہے وہ ہفتے میں جمعرات کو جانا شروع کرتا ہے پھر وقفہ بڑھاتے ہوئے نو چندی کو جانے لگتا ہے پھر مخصوص دنوں میں،تہواروں میں اور آخر میں سالانہ حاضری دیتا ہے۔یہاں انسان کا خمیر آڑے آتا ہے وہ ذیادہ دنوں تک ایک فیصلے یا نظرئے یا طرز زندگی پر قائم نہیں رہ سکتا اگر وہ ایسا کرنا چاہے بھی تو نہیں کرسکتا کیونکہ زندگی ایک ڈگر پر آکر نہیں رک سکتی۔وقت ہر زخم کو بھرنے کا مادہ رکھتا ہے۔یہاں شاعرہ نے بتدریج گھٹتی ہوئی محبت اور سرد پڑتا جنون کو بہت خوش اسلوبی سے پیش کیا ہے۔یادوں کے جگنوؤں کی روشنی جب ماند پڑنے لگی تب ایک دن چنچلاتی دھوپ میں بس سے اترتے ہوئے اس کی نظر ایک پیڑ پر پڑی یہاں چنچلاتی دھوپ اور پیڑ اپنے حقیقی معنوں میں استعمال نہیں ہوئے ہیں بلکہ چنچلاتی دھوپ زندگی میں مچی اتھل پتھل،بے ربطگی،تنہائی کا کرب کو پیش کرتی ہے اور پیڑ اس بے ربطگی،تنہائی کے کرب کا مداوا کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ پیڑ کو دیکھتے ہی اچانک باسو کو آفس کی نئی ٹائپیسٹ کا خیال تنہائی کی دھوپ میں پیڑ کی طرح دکھتا ہے اور اسے محسوس ہوتا ہے بہار کی آمد کسی ایک پرندے کی موجودگی یا غیر موجودگی پر منحصر نہیں کرتی۔اسے اس بات کا بخوبی احساس ہوگیا "کہ دنیا ایک آدمی پر مستعمل نہیں ہے”باسو کے اندر باس کرنے والا باسی کا ہنسنا بہت مفہوم پیدا کر رہا ہے اور شاعرہ کی ان کہی بات کی تشہیر کر دیتا ہے۔
پروین شاکر کی اس نظم میں افسانوی ذائقہ ملتا ہے۔اس نظم میں ایک شخص کی زندگی میں پیش آنے والے کسی سنگ دل واقعے کے بعد کی زندگی کو کئ اسٹیج میں پیش کیا گیا ہے پہلے اسٹیج میں اس کا کسی عزیز کے کھونا اور جذبات کی امڑتی موجوں کو پیش کیا گیا ہے پھر دوسرے اسٹیج میں سکون دل کی تلاش میں میوہ شاہ کے در کی حاضری ،تیسرے اسٹیج میں سمٹتے جذبات کو پیش کیا ہے اور چوتھے میں پہلے اسٹیج میں ملے درد کی دوا کو پیش کیا گیا ہے۔شاعرہ کا نقطہ نظر نظم کے آخری سطور میں واضح ہوجاتا ہے۔
ایک دن چنچلاتی دھوپ میں
بس نمبر ٦٠سے اترتے ہوئے
اس کی نظر ایک پیڑ پر پڑی
تو اسے دفتر میں رکھی گئی
نئی ٹائپسٹ کا خیال آگیا
اس دن اسے احساس ہوا
کہ دنیا ایک آدمی پر مستعمل نہیں ہے
باسو بہت ہنسا۔
نظم میں لفظوں کے استعمال میں اختصار سے کام لیا گیا ہے اور لفظ سے جملوں کا اور جملوں سے مضمون کا کام لیا گیا ہے۔یہ واقعی فنکاری ہے اور ایک فنکار کے لئے باعث افتخار ہے۔نظم کا عنوان نظم سے مطابقت رکھتا ہے قاری کو نظم کے آخر میں سمجھداری کی بات ملتی ہے اور وہ شاعرہ کی فکر و ذہانت کی داد پیش کرتا ہے۔
یہ نظم اصول زندگی کی کڑوی سچائی کو پیش کرتی ہے جہاں سب کچھ لمحاتی ہے۔خوشی ،غم ، کامیابی ،ناکامی ،بلندی،پستی وغیرہ ایسے میں لمحاتی انسان کے لمحاتی جذبات کا بدلنا کوئی نئی چیز کا ہونا نہیں ہے اور یہ عین قانون فطرت ہے۔
نسیم اشک
ہولڈنگ نمبر10/9گلی نمبر3
جگتدل 24 پرگنہ مغربی بنگال
فون۔9339966398
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کا ان سے اتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |