1934کے نیوریمبرگ میں ایک جوان ہوتی ہوئی لڑکی
ـ’’تمہیں کیسے پتا؟‘‘
’’کیا؟‘‘
’’کہ وہ مر گئے ہیں؟‘‘
ابھی سردیاں شروع ہوئی تھیں لیکن ٹھنڈ بہت تھی۔بوڑھی ہڈیوں والے،جلدی پڑنے والی اس سال کی سردیوں کو، کوس رہے تھے۔شام سے ہی گیلا کہرا نیچے اترنے لگتا تھا جو صبح تک بنا رہتا۔جب تک رہتا،بے حد ٹھنڈا اور گھنا ہوتا۔اس میں پہلے پیڑوں کی شاخیں سفید ہوتیں،پھر مکانوں کی چھتیں،پھر سڑکیں،ندی،گھاٹ اور پھر ناویں۔اکثر یہ اتنا گھنا ہوتا کہ سڑک کنارے لگے لیمپ پوسٹ کی پیلی روشنی،بے جان ہوتے ہوئے کینچووں کی طرح اس کے اندر پلٹتی رہتی۔شہر سے دور پرانا بنگلہ،اور اس کے پیچھے بنا اس سے بھی پرانا دو منزلہ ڈھانچہ،اُس صبح اِسی سفیدی میں ڈھکا تھا۔اس ڈھانچے کی نیچے کی منزل پر پہلے کبھی پرانا اصطبل تھا،جس سے ایک چوڑی سرنگ دور جنگلوں میں نکلتی تھی۔اب وہاں سول ڈیفنس کا گودام تھا۔اس میں سیڑھیاں،رسی،بالٹیاں،پلنگ،لاٹھیاں،پنکھے پڑے تھے ۔آگ بجھانے والے لمبے پائپ تھے۔اس کی اوپر کی منزل پر آنے کے لیے بنی پتھر کی سیڑھیاں سالہا سال سے ٹوٹی تھیں۔لکڑی کی ایک سیڑھی لگا کر اوپر آیا جا سکتا تھا۔اس منزل پر بہت سے کاموں کے علاوہ موت کے بعد جسم عطیہ کرنے والوں کی اطلاع کا دفتر بھی تھا۔ان کی موت کی اطلاع وہاں دی جاتی تھی۔اس دفتر کے لوگ لاش کی قانونی کاروائی کے بعد اسے میڈیکل کالج پہنچاتے تھے۔اس کے لیے گاڑی،آدمی کا بندوبست یہ دفتر کرتا تھا۔اسی منزل کے بڑے کمرے میں وہ بیٹھے تھے۔
وہ دو تھے۔ان میں ایک ادھیڑ سے زیادہ اور دوسرا اس سے کچھ کم عمر کا تھا۔ادھیڑ بنا روئیں والا سکڑن بھرا کمبل لپیٹے تھا۔سر کو اس نے تیتر کے پروں سے بنی پُرکھوں کی خاندانی ٹوپی سے ڈھک رکھا تھا۔اس کی چھوٹی سفیدداڑھی ٹوپی سے باہر دِکھ رہی تھی۔اس کا ابھر اا ور موٹا جبڑا ٹوپی میں چھپ گیا تھا۔کم عمر کا آدمی موٹے کانچ کا چشمہ لگائے تھا۔اس نے بڑے کالر والا لمبا کوٹ پہن رکھا تھا جو سردیوں کی شروعات میں شہر کے ٹھیلوں پر بکنے لگتا تھا۔اس کے کالر کے اندر ایک موٹا مفلر ٹھنسا ہوا تھا۔پیروں پر چپکی پتلون اور موٹے دانے والا چمڑے کا جوتا تھا۔چشمے کے کانچ کے پیچھے اس کی آنکھوں کے پپوٹے سوجے ہوئے تھے۔آنکھوں میں ایک ٹھہری ہوئی ویرانی تھی۔
کمرے کا سناٹا اتنا گہرا تھا کہ کھڑکیاں بند ہونے کے باوجود پل سے گزرتی ریل کے انجن کی سیٹی سنائی دیتی تھی۔کمرہ بڑا تھا۔کمرے کے بیچ میں ایک بڑی میز تھی۔میز پر کچھ رجسٹر،ایک پین اسٹینڈ،تین پیپر ویٹ،گوند کی شیشی،پین رکھے تھے۔میز کے اوپر تار سے لٹکتا ہوا پیلا بلب جل رہا تھا۔دوسرا بلب کمرے کے کونے کی دیوار پر لگا تھا۔اسی کونے میں ایک چھوٹی میز پرچائے بنانے کا سامان رکھا تھا۔کمرے کے ایک طرف کونے میں بجلی کا ہیٹر جل رہا تھا۔اس کے پاس تخت پڑا تھا۔کمبل والا آدمی رات کو وہیں سوتا تھا۔وہاں سونا اس کی ڈیوٹی میں شامل نہیں تھا،لیکن اس کے پاس جگہ نہیں تھی،اس لیے سو جاتا تھا۔چشمے والا لڑکا اس ٹھنڈی اندھیری صبح موت کی اطلاع دینے آیا تھا۔مشکل سے نظر آنے والی لکڑی کی سیڑھیاں چڑھ کر وہ اوپر آیا تھا۔دیر تک کھٹکھٹانے کے بعد کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔کمبل والا دروازہ کھولنے کے بعد کیچڑ بھری آنکھوں سے اسے دیر تک گھورتا رہا تھا۔اب وہ دونوں میز کے آمنے سامنے بیٹھے تھے۔
’’تم نے جواب نہیں دیا؟‘‘کمبل والا بولا،’’تم نے جب دیکھا نہیں ،تو تمہیں کیسے پتا کہ وہ مر گئے ہیں؟‘‘
’’مجھے پتا نہیں بلکہ یقین ہے ۔‘‘چشمے والا بولا۔
’’مرنے کا؟‘‘کمبل والا بولا۔
’’نہیں۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’انہیں مرے ہوئے دو دن ہو چکے ہیں،اس کا۔‘‘
’’لیکن ہم صرف تمہارے یقین پر کچھ نہیں کر سکتے۔یقین اور سچ دو الگ الگ چیزیں ہوتی ہیں۔‘‘
نہیں دونوں الگ نہیں ہوتیں۔ایک کے اندر دوسرا ہوتا ہے۔ایک ہوتا ہے تو دوسرا اپنے آپ ہوتا ہے۔‘‘چشمے والے نے کہا۔اس کی آواز بھاری اور ٹھہری ہوئی تھی۔
’’تم نے ابھی ابھی خود’دوسرا‘کہا۔‘‘کمبل والا آگے جھک گیا،’’یعنی دونوں کے الگ الگ ہونے کو قبول کیا۔‘‘
’’نہیں۔۔۔کچھ قبول نہیں کیا۔یہ اسی طرح ایک کے ہونے میں دوسرے کا ہونا ہوتا ہے، جیسے لفظ میں معنی،پیدائش میں موت یا جسم میں روح ہوتی ہے۔‘‘
’’تمہارا مطلب ہے جیسے چاند میں بڑھیا ہوتی ہے؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’جیسے بیج میں پیڑ ہوتا ہے؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’جیسے خون میں لال رنگ ہوتا ہے؟‘‘
اس بار چشمے والے نے ’ہاں ‘نہیں کہا۔وہ چپ ہو گیا۔
’’اب تمہاری باری ہے۔‘‘کمبل والا پرجوش ہو کر خوشی سے پھولی آواز میں بولا۔تھوڑا جھک کر اس نے میز پر کہنیاں ٹکا دیں۔اس کی گردن کندھوں سے باہر نکل آئی تھی۔
’’باری؟کیسی باری؟‘‘چشمے والے نے اسے گھورا۔
اب تم تین مثالیں دو،پھر میں دوں گا۔۔۔پھر تم،پھر میں،پھر کوئی ایک جیتے گا۔‘‘
’’کیا بکواس کر رہے ہو؟‘‘چشمے والا غرایا،’’ہم یہاں کوئی کھیل نہیں کھیل رہے ہیں۔‘‘
اس کی آواز بدلنے اور تیز ہونے سے کمبل والا سٹپٹا گیا۔اس کے چہرے کی چمک اور خوشی دونوں ماند پڑ گئیں۔اس نے نکلی ہوئی گردن واپس کندھوں میں گھسا دی۔
’’تمہیں شرم نہیں آتی؟میں کسی کی موت کی خبر لایا ہوں۔۔۔اس کی دو دن پرانی لاش اٹھانے کے لیے کہہ رہا ہوں اور تم یہاں کھیل شروع کر رہے ہو؟‘‘
’’باہر ابھی بہت اندھیرا اور ٹھنڈ ہے۔‘‘کمبل والا دھیرے سے بدبدایا۔اس نے گہری سانس لے کر منہ سے بھاپ نکالی ’’دیکھو۔۔۔ابھی منہ سے بھاپ بھی نکل رہی ہے۔گاڑی والا۔۔۔لاش اٹھانے والے۔۔۔پہنچانے والے۔۔گواہ۔۔۔میڈیکل کالج کے لوگ۔۔۔اور ضرورت ہوئی تو پولیس۔۔۔ابھی کوئی نہیں ملے گا۔ملے گا بھی تو آئے گا نہیں۔تھوڑا دن نکلنے دو،تھوڑی ٹھنڈ کم ہونے دو،تب سب ملیں گے۔تب تک ہمیں انتظار کرنا ہوگا۔۔۔شاید لمبا انتظار۔میں نے سوچا تھا اس طرح ہم تھوڑا وقت کاٹ سکتے ہیں۔‘‘ اس نے سر جھکا لیا۔اس کے چہرے پر پچھتاوا تھا۔کچھ دیر اسے دیکھنے کے بعد چشمے والا بھی میز پر کہنیاں رکھ کر جھک گیا۔
’’تمہاری وہ بات غلط ہے۔‘‘
’’کون سی؟‘‘
’’خون میں سرخ لال رنگ ہونے کی بات!‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’لال رنگ صرف گرم تازہ خون کا ہوتا ہے۔ایسے خون کا،جو ہتھیلی میں بھر لو تو چوزے کی طرح پھڑپھڑاتا ہے۔خون جب سوکھ جائے یا ٹھندا ہو جائے تب لال نہیں رہتا ،کتھئی ہو جاتا ہے۔‘‘
کمبل والا کچھ دیر دیکھتا رہا۔
’’تم تو خون کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہو۔کیا تم نے خون دیکھا ہے؟‘‘
’’کیسا؟‘‘
’’کتھئی۔‘‘
’’سب دیکھتے ہیں لیکن دھیان نہیں دیتے۔تم نے بھی دیکھا ہوگا۔‘‘
’’مگر تم نے اس بات پر اتنا دھیان کیوں دیا؟‘‘
’’میں نے بھی نہیں دیا تھا۔۔۔انہوں نے ہی بتایا تھا۔‘‘
ـ’’کنہوں نے؟‘‘
’’وہی۔۔۔جن کی موت کی خبر دینے آیا ہوں۔مرنے کے ٹھیک ایک دن پہلے بتایا تھا۔‘‘
’’اگر تمہارے یقین کے مطابق انہیں مرے ہوئے دو دن مان لیں تو آج سے تین دن پہلے؟‘‘
’’ہاں!‘
کمبل والا کمر ٹیڑھی کرکے میز پر تھوڑا اور جھک گیا،اتنا کہ ذرا سی کوشش سے اب وہ میز پر چڑھ سکتا تھا۔اس نے اپنی ٹھوڑی میز کی ہری ریکسین پر ٹکا دی۔اس کا سر پلیٹ میں رکھے اس سر کی طرح لگ رہا تھا،جسے جادو گر پلیٹ میں رکھ کر دکھاتے ہیں۔اس کی آنکھیں پھیلی ہوئی تھیں۔ان میں اشتیاق اور بے چینی تھی۔چشمے والا میز پر اتنا نہیں جھکا تھا ،اس لیے اس کا سر تھوڑا اونچائی پر تھا۔اسے دیکھنے کے لیے کمبل والے کو اپنی بھویں اور پتلیاں اونچی کرنی پڑ رہی تھیں۔لیکن اس طرح وہ زیادہ دیر نہیں دیکھ سکتا تھا۔شایداسے امید تھی کہ بات جلدی ختم ہو جائے گی، اس لیے اس وقت وہ اُسی طرح دیکھ رہا تھا۔
’’مجھے خون کا سب کچھ اچھا لگتا ہے۔۔۔‘‘کمبل والا پھسپھسایا۔’’اس کی چال۔۔۔رنگ۔۔۔بو۔۔۔لمس۔۔باتیں سب۔لیکن انہوں نے تمہیں یہ کیوں بتایا تھا؟خون کی بات کہاں سے شروع ہوئی تھی؟کیا تم اکثر خون کی باتیں کرتے تھے؟مجھے سب بتاؤ۔۔۔شروع سے آخر تک۔‘‘کمبل والا پھسپھسانا چھوڑ کر گڑگڑانے لگا۔اس کی کھنچی ہوئی رگوںمیں تناؤ بڑھ گیا تھا،اس لیے وہ پر اسرار آواز میں بہت دھیرے بول رہا تھا۔چشمے والے نے اسے بے یقینی سے دیکھا۔
’’تم سچ مچ یہ سب جاننا چاہتے ہو؟یا پھر کسی نئے کھیل کی شروعات کر رہے ہو؟‘‘
’’کیا تمہیں میری آنکھوں میں مقدس بے چینی اور معصوم اضطرار نہیں نظر آرہا ؟‘‘کمبل والا اچانک مشکل زبان بول گیا۔چشمے والے نے اس کی زبان کی پیچیدگی پر دھیان نہیں دیا۔
’’نظر آ رہا ہے۔‘‘چشمے والا کچھ لمحے اسے چپ چاپ دیکھتا رہا۔شاید اس کے جملے کے مفہوم کو سمجھنے یا اس کی سچائی پرکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔کچھ دیر بعد بولا۔
’’اس دن وہ پریشان تھے۔‘‘
’’یعنی موت سے ایک دن پہلے؟‘‘
’’ہاں۔۔۔یوں کہو کئی دن سے پریشان چل رہے تھے۔میں آخری بار ان سے تبھی ملا تھا۔اس دن ان کی باتوں میں تال میل نہیں تھا۔وہ ایک دوسرے سے سیدھی جڑی ہوئی نہیں تھیں۔وہ ہمیشہ دلیل کے ساتھ ،بات کے اوپر بات جما کر بولتے تھے۔مگر اس دن ایسا نہیں تھا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’وہ کئی دنوں سے ایک کویتا لکھ رہے تھے لیکن صرف دو سطریں ہی لکھ پائے تھے۔وہ ادھوری کویتا پوری کرنے کے لیے جوجھ رہے تھے۔پھر جیسے ہارنے لگے تھے۔وہ نا امید و مایوس ہو گئے تھے۔کسی اجنبی سے ڈرے ڈرے رہنے لگے تھے۔ان کی بے چینی بڑھ رہی تھی۔بھوک بھی ختم ہو گئی تھی۔اپنے بولے ہوئے ہر جملے کو کویتاکی لائن سمجھتے تھے یا کویتا کی لائن کی طرح بولتے تھے،اس لیے کوئی جملہ دیر تک آگے کے جملوں سے جڑا نہیں رہتا تھا۔‘‘
’’کون سی کویتاتھی؟‘‘
’’پوری کہاں ہوئی۔‘‘
’’جتنی بھی لکھی تھی۔۔۔تمہیں یاد ہے؟‘‘
’’اس میں یاد کیا رکھنا۔۔۔دو ہی تو سطریں تھیں۔لیکن تم کیوں پو چھ رہے ہو؟کیا سننا چاہتے ہو؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’اسی طرح؟‘‘چشمے والے نے میز پر رکھے تنی رگوں والے اس کے سر کی طرف اشارہ کیا۔
’’کیوں؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘چشمے والاابھی تک اسے تھوڑی اونچائی سے ہی دیکھ رہا تھا۔اب اس نے اپنا سر تھوڑا نیچے جھکایا۔اس کے برابر سر لا کر کویتا پھسپھسانے لگا۔
تانا شاہ جب ہاتھ ہلاتا ہے
خوشی سے روتی ہے جوان ہوتی ہوئی لڑکی
’’بس؟‘‘کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد کمبل والے نے حیرانی سے پوچھا۔
’’ہاں!‘‘
’’کیا یہی وہ ادھوری کویتا ہے جسے پوری کرنے کے لیے وہ پریشان تھے؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’اور ان کی کون سی وہ باتیں تھیں جن میں تال میل نہیں تھا؟‘‘
’’تم اتنی پوچھ تاچھ کیوں کر رہے ہو؟اس لیے تو یقین نہیں کہ تمہیں خون کی باتیں اچھی لگتی ہیں۔خون تو اس میں ابھی آیا نہیں۔‘‘
’’بس دلچسپی ہے۔‘‘
’’کیا ہر لاش کے بارے میں اتنی دلچسپی رکھتے ہو؟‘‘
’’نہیں۔۔۔لاش میں میری کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔پوچھ تاچھ بھی نہیں کرتا۔لیکن تم ہر بار بھول جاتے ہو۔ہمیں وقت بھی تو کاٹنا ہے۔تو تم بتا رہے تھے،ان دنوں ان کی باتوں کے سرے آپس میں جڑتے نہیں تھے۔‘‘
’’ہاں ۔۔۔اور ایسا اکثر ہونے لگا تھا۔‘‘
’’جیسے؟‘‘
’’جیسے اسی دن انہوں نے مجھ سے پوچھا،’کیا تاریخ واقعی خود کو دوہراتی ہے؟‘مجھے بولنے کی ضرورت نہیں تھی۔میں جانتا تھا وہ مجھ سے نہیں،خود سے پوچھ رہے ہیں۔خود ہی جواب بھی دیں گے۔وہی ہوا۔کچھ دیر کھڑکی پر کھڑے ہو کر گھروں کو لوٹتے پرندوں کے جھنڈ دیکھتے رہے،پھر بولے،’اگر ایسا ہوتا ہے،تو جو وقت دو تاریخوں کے بیچ بہہ گیا،اس کا کیا ہوا؟وہ کہاں گیا؟اور اس وقت میں جو لوگ تھے وہ کہاں گئے؟ان کی یادیں،ان کے خواب،ان کے حسد،ان کے غرور،قربت و دوری کہاں گئی ۔وقت ان سے ہی بنتا ہے اوریہ اپنے کو نہیں دوہراتے،اس لیے کسی بھی وقت کی تاریخ اپنے کو کیسے دوہرا سکتی ہے؟نہیں۔۔۔تاریخ اپنے کو نہیں دوہراتی۔دھیان سے دیکھنے پر یہ سچ دکھائی بھی دیتا ہے۔ہمیں جس چیز کا دوہراؤ نظر آتا ہے ،وہاں بھی حقیقت میں بہت کچھ بدل چکا ہوتا ہے۔بیشک سطح پر نہیں،سطح کے نیچے۔جیسے قتل وہی ہوتا ہے لیکن قتل کرنے کے اوزار بدل جاتے ہیں۔کٹے ہوئے انسانی سر وہی ہوتے ہیں مگر اسے کاٹنے کی دلیلیں بدل جاتی ہیں۔نفرت وہی ہوتی ہے مگر اس کی پوشاکیں،زبان،جھنڈے بدل جاتے ہیں۔تانا شاہ وہی ہوتا ہے مگر اس کے ہاتھ ہلانے پر رونے والی جوان ہوتی لڑکیاں بدل جاتی ہیں۔‘‘چشمے والا چپ ہو گیا۔اس نے ایک گہری سانس لی۔شاید اس سانس سے اس کے پھیپھڑوں میں پوری ہوا نہیں پہنچی۔اس نے کچھ گہری سانسیں اور لیں۔
’’لیکن سب جملے تو بالکل سلسلے سے ہیں؟ایک طے شدہ طریقے سے واضح اور متعین معنی دے رہے ہیں۔‘‘
’’ہاں۔۔لیکن یہیں تک۔اس کے بعد وہ کھڑکی سے ہٹ کر پلنگ پر بیٹھ گئے۔کچھ دیر بعد تھکی اور ٹوٹی آواز میں بولے،’دنیا اب آخری انقلاب کی طرف بڑھ رہی ہے۔اس کے بعد دھرتی پر انسانوں کے لیے کچھ بھی نہیں بدلے گا۔اس لیے کہ انسان خود غلامی سے پیار کرنے لگے گا۔اس تانا شاہ کو مسیحا کی طرح دیکھے گا جو انہیںاذیت پہنچائے بغیر قید میں رکھے گا۔اس لیے بھی کچھ نہیں بدلے گا،کہ اس انقلاب کے بعد انسانوں کے خون کا رنگ لال نہیں کتھئی ہو چکا ہوگا۔‘‘
کمبل والا اچھل پڑا۔
’’تبھی تم نے خون کے رنگ کی بات سنی تھی؟‘‘
’’ہاں !‘‘
’’اوہ۔۔‘‘ کچھ دیر تک کمبل والا سنجیدگی سے کچھ سوچتا رہا،اتنی سنجیدگی سے کہ اس کے ماتھے پر تین موٹی سلوٹیں بن گئیں۔ان سلوٹوں کو کچھ دیر انگلیوں سے مسلنے کے بعد اس نے پوچھا،’’کیا وہ ہمیشہ اسی طرح کی باتیں کرتے تھے؟‘‘
’’نہیں۔۔۔مرنے کے کچھ دن پہلے کرنے لگے تھے۔‘‘
’’اور تمہارا خیا ل ہے اس لیے کرنے لگے تھے کہ ان کی کویتا پوری نہیں ہو رہی تھی۔‘‘
’’ہاں !‘‘
کمبل والا کمر سیدھی کرکے پیچھے کھسک گیا۔اس نے اپنی گردن کو دائیں بائیں تین بار گھمایا۔ پھر کرسی کی پشت سے پیٹھ ٹکا کر آنکھیں بند کر لیں۔چشمے والا کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھرکرسی سے اٹھ گیا۔کمرے کے دروازے پر آ کر اس نے ذرا دروازہ کھول کر باہر دیکھا۔باہر ابھی تک سب کچھ اندھیرے اور کہرے میں ڈوبا تھا۔دروازہ بند کرکے وہ وہیں دیوار سے پیٹھ ٹکا کر کھڑا ہو گیا۔اس نے کمرے میں نظر دوڑائی۔کمرے کی اونچی اور بیچ سے دونوں طرف ڈھلان والی پرانی ،لکڑی کے پٹروں کی چھت تھی۔کمرے کی سپاٹ دیواروں میں اونچی پتلی کھڑکیاں بنی تھیں۔لکڑیوں کی تین الماریوں میں پرانے کاغذ رکھے تھے۔ان میں پرانے گزٹ تھے،نقشے تھے،اخباروں کی کٹنگ تھیں،تصویریں تھیں،بینر تھے،ٹرافی تھی۔کچھ دیر ان سب پر اداس نگاہیں دوڑانے کے بعد چشمے والے نے کوٹ کے اندر دبے مفلر کو گلے پر ٹھیک سے کسا۔
کمبل والا اچانک آنکھ کھول کر سیدھا ہو گیا۔
’’تم کاغذ تو لائے ہو نا؟‘‘اس نے اسی جگہ سے چلا کر پوچھا۔
’’کون سے کاغذ؟‘‘چشمے والا چلا کر نہیں بولنا چاہتا تھا۔اس لیے وہ چلتا ہوا پھر میز تک آ گیا۔اس نے کرسی کھینچی اور بیٹھ گیا۔
’’ہمارا بھرا ہوا فارم،ان کا حلف نامہ کہ وہ اپنی مرضی سے موت کے بعد جسم عطیہ کر رہے ہیںاور وہ چاہتے ہیں کہ ہم ان کے جسم کو میڈیکل کالج کو سونپ دیں۔‘‘
’’چشمے والے نے کوٹ کے اندر والی جیب میں ہاتھ ڈال کر پلاسٹک کے لفافے سے کاغذ نکال کر اسے دیے۔کمبل والے نے فارم دیکھا،حلف نامہ دیکھا،نوٹری کی مہر،دستخظ،تاریخ دیکھی۔کاغذ پلٹا۔پیچھے اسٹامپ پیپر خریدنے کی تاریخ دیکھی۔
’’گواہی میں تمہارا ہی نام اور دستخط ہیں نا؟‘‘اس نے سر اٹھا کر پوچھا۔
’’ہاں!‘‘
’’کیا رشتہ ہے؟‘‘
’’کوئی نہیں۔‘‘
’’گواہی میں کوئی رشتہ دار تو ہونا چاہیے،کل کو کوئی قانونی اَڑنگا ڈال دے تو؟‘‘
’’ان کا کوئی نہیں تھا۔‘‘
’’تم کہہ رہے ہو تم نے لاش نہیں دیکھی؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’اور یہ صرف تمہارا یقین ہے کہ وہ مر چکے ہیں؟‘‘
’’ہاں۔۔۔دو دن پہلے۔‘‘
’’تمہارے اندر مرنے کے بعد ان کو دیکھنے کی خواہش یا تجسس پیدا نہیں ہوا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’میری خواہشیں یا تجسس لاشوں کے ساتھ جڑا ہوا نہیں ہے۔‘‘
’’تم جسم عطیہ کے گواہ ہو،موت کے بارے میں اطلاع دے رہے ہو۔تصدیق تو کرنی چاہیے تھی؟‘‘
’’ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’کیوں ؟‘‘
’’کتنی بار کہوں مجھے یقین ہے کہ وہ مر چکے ہیں۔‘‘چشمے والا جھنجھلا گیا۔
’’اور اس کا بھی کہ دو دن پہلے مر چکے ہیں۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’اگر تمہاری بات سچ ہے تو ہو سکتا ہے لاش اب ہمارے کام کی نہ رہ گئی ہو۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’ہو سکتا ہے اس میں بدبو آنے لگی ہو۔۔۔کیڑے پڑ گئے ہوں یا چوہوں نے کان یا پیر کا انگوٹھا کتر لیا ہو۔ان کے اعضا سڑ کر اب طالب علموں کے کام کے نہ رہ گئے ہوں۔اس حالت میں میڈیکل کالج والے اسے نہ لیں۔‘‘
’’ایسا نہیں ہوگا۔۔۔بہت ٹھنڈ ہے۔وہ کمرے کی کھڑکیاں بھی ہمیشہ کھلی رکھتے تھے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’شاید اس لیے ،کہ چاند راستے میں تھک جائے یا اوس کو پیاس لگے یا پریوں کو نہانا ہو تو کمرے میں آسکیں۔‘‘
’’یا جگنو کو چمک گروی رکھنی ہو۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’یا فرشتے رحمت کی پوٹلی رکھنے آئیں۔‘‘
’’ہاں!‘‘
’’یا چڑیاں گھر بنائیں۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’اب تمہاری باری۔‘‘کمبل ولاااچھل کر بولا۔
’’تم سچ مچ کمینے ہو۔‘‘چشمے والے نے دانت پیسے۔
’’پتہ نہیں کیوں ہو رہا ہے۔مجھے سچ مچ کھیلنا نہیں چاہیے۔‘‘کمبل والے کی آواز میں مایوسی اور دکھ تھا۔ـخیر ۔۔۔تم دو دن کیاکرتے رہے؟‘‘
’’انتظار۔‘‘
’’کس کا؟‘‘
’’ان کے فون کا۔ہر صبح فون آتا تھا۔میں اٹھاتا تھا،ادھر سے بس ایک گہری سانس سنائی پڑتی تھی اور فون کٹ جاتا تھا۔انہوں نے کہا تھاکہ اگر دو دن میرا فون نہ آئے تو سمجھ لینا میں مر چکا ہوں۔مجھے دیکھنے مت آنا۔یہاں خبر کر دینا۔اس لیے نہیں گیا۔‘‘
’’فون نہیں آیا تو تم نے مان لیا کہ وہ مر چکے ہیں؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’فون ا کثر خراب ہو جاتے ہیں۔‘‘
’’ہو جاتے ہیں۔۔۔مگر وہ کہیں سے بھی فون کرتے،وہ جانتے تھے انہوں نے مجھ سے کیاکہا ہے۔‘‘
’’فون صرف یہ بتانے آتا تھا کہ وہ زندہ ہیں۔‘‘
’’نہیں۔۔۔یہ بتانے کہ کویتا پوری نہیں ہو پا رہی ہے۔‘‘
’’مگر تم نے کہا وہ صرف گہری سانس لیتے تھے۔‘‘
’’ہاں۔۔۔وہ سانس تین کنووں کے برابر گہری ہوتی تھی۔اس میں مایوسی،دکھ،خوف اور تھکان بھری ہوتی تھی۔یہ بات وہ سانس بتاتی تھی۔‘‘
’’کیا وہ ان کی پہلی کویتا تھی؟‘‘
’’نہیں۔۔۔انہوں نے بہت کویتائیںلکھی تھیں۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’پھر کیا؟‘‘
’’کیوں پوری نہیں ہو رہی تھی؟‘‘
’’پتہ نہیں۔‘‘
’’پوچھا نہیں؟‘‘
’’یہ پوچھنے والی بات نہیں تھی۔کویتاپوری ہونا ضروری نہیں ہوتا۔‘‘
’’تمہارا مطلب ہے کویتاؤں کا ادھورا رہنا معمولی بات ہے۔بہت سی کویتائیںادھوری رہ جاتی ہیں۔‘‘
’’ہاں!‘‘
’’انہیں کبھی کوئی پورا نہیں کرتا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’پھر کیا ہوتا ہے ان کا؟‘‘
’’وہ ادھر ادھر پڑی رہتی ہیں،جیسے پت جھڑ میں سوکھی پتیاں،جیسے بالی سے گرے دانے،جیسے چڑیوں کے پنکھ۔‘‘چشمے والا بدبدایا۔
’’یعنی جیسے ادھوری یادیں؟‘‘اب کمبل والا پھر میز پر کہنی ٹکا کر جھک گیا۔
’’ہاں!‘‘
’’جیسے ادھوری دعائیں؟‘‘
’’ہاں !‘‘
’’جیسے ادھورے بوسے؟‘‘
’’ہاں !‘‘
’’اب تمہاری باری ہے۔‘‘کمبل والا بولا۔چشمے والے نے گھورا اسے۔’’تم پھر کھیلنے لگے۔تمہارے ہاتھ میں ایک آدمی کی لاش کا کاغذ ہے اور تم کھیل شروع کر رہے ہو۔انہیں اٹھانے کا انتظام کیوں نہیں کرتے؟‘‘چشمے والا اب چیخ رہا تھا۔
’’میں کہہ چکا ہوں انتظام وہ لوگ کریں گے۔میں صرف کاغذ بناؤں گا۔‘‘
’’پھر انہیں بلاتے کیوں نہیں؟‘‘
’’وہ اپنے آپ آتے ہیں۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’گاڑی والا دودھ لینے ادھر سے ہی جاتا ہے۔جب جاتا ہے تو نیچے سے آواز دے کر لاش کے بارے میں پوچھ لیتا ہے۔باقی لوگ اس کے گھر کے پاس رہتے ہیں۔لاش ہوتی ہے تو وہ انہیں بتا دیتا ہے۔‘‘
’’دودھ لینے کب جاتا ہے؟‘‘
’’جب بھینس کے تھنوں میں دودھ آ جاتا ہے۔‘‘
’’چشمے والے نے اسے پھر گھورا۔
’’گھورو مت۔اسے اس کا وقت پتا رہتا ہے۔پہلی چڑیا کی چہچہاہٹ،پہلی اذان اور نل کی ٹونٹی میں پانی کی پہلی بوند سے بھینس کے دودھ کا کوئی تعلق اسے معلوم ہے۔وہ ہمیشہ صحیح وقت پر نکلتا اور پہنچتا ہے۔فکر مت کرو۔ٹھنڈ بہت ہے۔ہم نے ابھی تک نہ چڑیا کی آواز سنی ہے،نہ اذان کی ۔وہ آ جائے گا۔مگر ہمیں چائے کی سخت ضرورت ہے۔میں چائے بناتا ہوں۔‘‘وہ اٹھ گیا۔اس نے کمبل دیوار کے ساتھ لگے تخت پر رکھ دیا۔دھیرے دھیرے بایاں پیر لچکاتاہو ا دروازے پر آیا۔دروازہ کھولا اس نے۔دروازہ کھولتے ہی ٹھندا کہرا اندر گھس گیا۔کانپتے ہوئے باہر دیکھا اس نے۔ہلکی روشنی ہونے لگی تھی۔اس کی نگاہ نیچے پڑی۔اوپر آنے والی لکڑی کی سیڑھی گری ہوئی تھی۔
’’تم نے سیڑھی گرا دی؟‘‘ وہ چشمے والے کی طرف گھوما۔چشمے والا بھی دروازے پر آیا۔اس نے بھی زمین پر گری سیڑھی دیکھی۔
’’میں تو اسی سے اوپر آیا تھا۔میں کیسے گرا سکتا ہوں؟‘‘
’’پھر؟‘‘
’’ہو سکتا ہے تیز ہوا نے گرائی ہو یا چڑیا نے۔‘‘
’’چڑیا نے؟‘‘
’’یا پھر کسی نے اوپر آنے کی کوشش کی ہو۔اس کوشش میں سیڑھی گر پڑی ہو اور وہ لوٹ گیا ہو۔‘‘
’’اب؟‘‘
’’اب کیا؟‘‘
’’اب ہم باہر نہیں جا سکتے جب تک کوئی سیڑھی نہ لگائے۔‘‘
’’تم کسی کو آواز دو۔‘‘
’’یہاں کوئی نہیں ہے۔‘‘
’’اُس بنگلے میں؟‘‘
’’برسوں سے وہاں بجھے فائر پلیس،ٹوٹی مورتیاں،سوکھا کنواں،فرش اور دراروں میں اگے سبزے ہیں بس۔اب گاڑی والا ہی آئے گا،تبھی کچھ ہوگا۔‘‘
’’اگر نہیں آیا تو؟‘‘
کمبل والا کچھ نہیں بولا۔اس نے دروازہ بند کر دیا۔اتنی دیر میں وہ کانپنے لگا تھا۔کمرہ ٹھنڈا ہو گیا تھا۔پیر لچکاتا ہوا وہ کونے کی میز تک گیا۔میز پر بجلی کی انگیٹھی،پانی کی بوتل،چائے کا برتن،پتی،ڈبے میں دودھ،کپ،پلیٹ،چھوٹا تولیا رکھا تھا۔اس نے برتن میں پانی ڈال کر برتن انگیٹھی پر رکھ دیا۔انگیٹھی کا سوئچ کھول دیا۔پانی گرم ہونے لگا۔دو کپوں میں اس نے ڈبے میں رکھا پاؤڈر والا دودھ ڈالا۔شکر ڈالی۔میز کی دراز سے چمچ نکالے۔ بسکٹ کا پیکٹ نکال کر چار بسکٹ پلیٹ میں رکھے۔چشمے والا بھی پاس آ گیا۔
تمہیں کیا لگتا ہے؟‘‘کمبل والے نے اسے دیکھا۔’’کویتا پوری کر لیتے تو بچ جاتے؟‘‘وہ سیڑھی کی بات بھول گیا تھا،شاید اس لیے کہ اسے کہیں جانا نہیں تھا یا یہ امید تھی کہ گاڑی والا آتا ہی ہوگا۔
’’ہاں !‘‘
’’تم نے پوری کرنے میں مدد نہیں کی؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’کویتا لکھنالاش اٹھانے جیسا کام نہیں ہوتاجو دوسروں کی مدد سے کیا جا سکتا ہو۔‘‘
’’یعنی کویتا لکھنے والا وہ لاش خود اٹھاتا ہے؟‘‘ کمبل والا چڑھ گیا۔
’’کویتا لکھنا لاش اٹھانا نہیں ہوتا۔‘‘
’’کیا لوگ کبھی مل کر کویتا نہیں لکھتے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’کیا مل کر ادھوری کویتا کو بھی پورا نہیں کرتے؟‘‘
’’نہیں۔۔۔مگر شاید یہ کیا جا سکتا ہے۔‘‘
’’تمہیں کویتا لکھناآتا ہے؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’تم نے ان کی کویتا پوری کیوں نہیں کی؟‘‘
’’کوئی دوسرے کی کویتا پوری نہیں کرتا۔‘‘
’’مگر ہم تو دوسروں کی لاش اٹھاتے ہیں۔‘‘
’’تم پاگل ہو۔‘‘چشمے والا پھر چیخنے لگا،’’مجھے نہیں پتہ تم کیا بول رہے ہو۔اب تم کویتا میں لاش لے آئے۔تم یہ کاغذ سنبھالو اور مجھے جانے دو۔مجھے گاڑی والے سے کیا لینا دینا؟ وہ تمہارا کام ہے۔میرا کام ختم ہوا۔‘‘
’’تم نہیں جا سکتے۔سیڑھی گری ہوئی ہے۔تمہیں گاڑی والے کے آنے تک رکنا ہی پڑے گا۔‘‘
’’اور وہ تب آئے گا جب بھینس کے تھنوں میں دودھ آ جائے گا؟‘‘
’’ہاں!‘‘
انگیٹھی کاپانی کھولنے لگا۔کمبل والے نے اس میں پتی ڈالی۔تھوڑی دیر پانی پتی کے ساتھ کھولتا رہا۔اس نے برتن کا ہینڈل پکڑ کر انگیٹھی سے اتار لیا۔چھنی لگا کر دونوں کپوں میں پانی ڈالا۔چمچ سے اسے چلایا۔ایک کپ اس نے چشمے والے کو دیا۔اپنے ایک ہاتھ میں کپ اور دوسرے میں بسکٹ کی پلیٹ لے کروہ میز پر آ گیا۔میز پر کپ اور بسکٹ کی پلیٹ رکھ کر وہ کرسی پر بیٹھ گیا۔چشمے والا سامنے کی کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’اچھا۔۔۔کویتا لکھنے کی کوشش میں انہوں نے بہت سی سطریں لکھی ہوں گی؟‘‘کمبل والے نے چائے کا گھونٹ لیا۔
’’ہاں۔۔‘‘چشمے والے نے بھی۔
’’تم نے سنی تھیں؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’یاد ہیں؟‘‘
’’کچھ یاد ہیں۔‘‘
’’مجھے سناؤگے؟‘‘کمبل والے کی آواز میں وہی پہلے والی گڑگڑاہٹ لوٹ آئی تھی،جیسے خون کے بارے میں پوچھتے وقت تھی۔اس نے ایک بسکٹ اٹھا کر پلیٹ اس کی طرف سرکا دی۔چشمے والے نے پلیٹ سے ایک بسکٹ اٹھا لیا۔
’’صحیح معنوں میں وہ سطریں نہیں تھیں۔کچھ فارمولے تھے جنہیں وہ کویتا میں بدلنا چاہتے تھے اور یہی نہیں ہو پا رہا تھا۔وہ یہیں پر غلطی کر رہے تھے۔کویتا ان کے اندر خود جنم نہیں لے رہی تھی۔وہ اسے بنا رہے تھے،جیسے کیمیکل ملا کر دوا بنائی جاتی ہے یا بڑھئی لکڑیاں جوڑ کر کرسی بناتا ہے۔‘‘
’’وہ ایسا کیوں کر رہے تھے؟‘‘
’’پتا نہیں۔شاید دھیرے دھیرے ان کے اندر ایک اندھا کنواں بن گیا تھا۔اسی میں رہنے لگے تھے۔وہیں سے ان کی آواز آتی تھی۔وہاں کوئی روشنی نہیں تھی،وہاں کچھ بھی جنم نہیں لے سکتا تھا۔وہ ’اِس کے ‘اپنے اندر بن جانے اور اس میں خود کے پڑے رہنے کی سچائی پر یقین نہیں کرنا چاہتے تھے۔اپنی تخلیقی موت کو تسلیم نہیں کر پا رہے تھے۔‘‘
’’مگر کنواں کیوں بن گیا تھا؟‘‘
’’یہ ایک راز ہے۔گہرا راز،کیونکہ کویتائیںتو وہ اس طرح لکھ لیتے تھے جس طرح ہم سانس لیتے ہیں۔‘‘
’’مگر ہوا کیا تھا؟ تم نے جاننے کی کوشش نہیں کی؟‘‘
’’مجھے کچھ اندازہ ہو گیا تھا۔ان دنوں ان کے سرہانے کچھ خاص طرح کی کتابیں رہنے لگی تھیں۔‘‘
’’کس طرح کی؟‘‘
’’تاناشاہوں کی،ان کے اسٹیٹ کی،تاناشاہی کے حامی فلاسفروں کی،ان کے ظلم،پالیسیوں،افکار کی۔اِن کے طریقوں،ادارہ،اِن کے اثر،کنٹرول اور اِن کی کامیابیوں کی۔بہت سی کتابیں تھیں۔میکیا ولی،نطشے،اِن میں ایک شِرر کی ’برلن ڈائری‘بھی تھی۔اس کے ایک حصے کو انہوں نے لال پنسل سے رنگ رکھا تھا۔مجھے پڑھوایا تھا۔4 ستمبر 1934کا نیوریمبرگ تھااس میں۔‘‘
’’تمہیں یا د ہیں وہ لائنیں؟‘‘
’’ہاں !‘‘
’’سناؤ۔‘‘چشمے والے نے کچھ لمحے اسے دیکھا پھر دھیمی آواز میں بولنے لگا۔
’’رات دس بجے کے آس پاس، میں دس ہزار ہسٹیریا کے دوروں کی طرح جنونی بھیڑ کی بیچ تھا۔انہوں نے ہٹلر کے ہوٹل کے باہر سب کچھ جام کر دیا تھا۔وہ چلا رہے تھے،’ہم اپنا فیوہرر چاہتے ہیں۔‘آخر کارجب ہٹلر کچھ لمحوں کے لیے بالکنی پر آیا ،ان چہروں کو دیکھ کر مجھے دھچکا لگا،خاص طور پر عورتوں کے۔وہ سب اس کی طرف ایسے دیکھ رہے تھے جیسے وہ مسیحا ہو۔ان کے چہرے یقینی طور پر ایک طرح کی غیر انسانی (شکل) میں بدل گئے تھے۔اگر وہ ان کی نظروں کے آگے اور کچھ پل رکا رہتا،مجھے لگتا ہے بہت سی عورتیں جذبات سے مغلوب ہو کر بیہوش ہو جاتیں۔‘‘چشمے والے نے ایک سانس لی۔’’اسی میں ایک تصویر رکھی تھی۔ہٹلر ہاتھ ہلا رہا تھااور بھیڑ میں ایک خوبصورت جوان ہوتی لڑکی رو رہی تھی۔اپنی دونوں ہتھیلیاں چپکائے ہوئے،انگلیوں کو ہونٹوں سے لگاتے کچھ بدبدا رہی تھی۔اس کی چمک دار،بڑی آنکھوں سے آنسو گال پر گر رہے تھے۔’بھیانک ہے مگر یہ سچ ہے۔‘وہ بدبدائے تھے۔’اس تعلق کو دیکھو۔تانا شاہ اور خوشی سے روتی اس جوان لڑکی میں کیا تعلق ہو سکتا ہے؟لیکن ہے۔اسی لیے تاناشاہ کبھی نہیں مرتا۔کچھ لوگوں کی تمناؤں میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔انہیں انسپائر کرتا ہے،اکساتا ہے۔ایک صبح ان میں سے ہی کوئی پھر وہی تانا شاہ بن جاتا ہے جسے پہلے لوگ ٹکڑوں میں کاٹ چکے ہیں یا جلا چکے ہیں۔اسی کے روپ میں پھر ایک نیا تانا شاہ جنم لیتا ہے۔اس طرح وہ ہمیشہ جوان اور زندہ رہتا ہے۔ایشور اور شیطان کی طرح۔اس لڑکی کو دیکھو تم۔جب اس کے محبت کرنے کے دن ہیں،یہ نفرت کرنا سیکھ رہی ہے۔کیوں؟تاناشاہ اس کی تمناؤں میں ہے،جو ممکن ہے اس کی کوکھ سے جنمے۔‘بس تبھی ان کے دماغ میں یہ دو سطریں کوندی تھیں۔’تاناشاہ جب ہاتھ ہلاتا ہے۔۔۔خوشی سے روتی ہے جوان ہوتی ہوئی لڑکی۔‘تبھی سے ان کی باتوں کا سلسلہ ٹوٹنے لگا تھا۔انہوں نے تاریخ کے دوہرائے جانے کی بات کہی تھی۔معاشروں کے خوشی سے غلامی قبول کرنے،اپنی مرضی سے اذیت گاہوں میں رہنے کی بات کی تھی۔خون کے گرم نہیں،ٹھنڈے،سوکھ کر کتھئی ہو جانے کی بات کی تھی۔اسی کو وہ کویتا میں لکھنا چاہتے تھے یا یوں کہواس تعلق کے را زکو کھولنا چاہتے تھے یایوں کہو دنیا کو کسی خطرے سے آگاہ کرنا چاہتے تھے۔اسی کوشش میں انہوں نے کچھ فارمولے لکھے تھے۔یہ فارمولے ہی کویتا کی سطریںنہیں بن پا رہے تھے۔ان کی تڑپ،بے چینی بڑھ رہی تھی۔وہ وقت کو تیزی سے گزرتا ہوا دیکھ رہے تھے۔کسی بہت نزدیک کے خطرے سے ڈرنے لگے تھے۔غیر مربوط باتیں بولنے لگے تھے۔بات کرتے کرتے اچانک چپ ہو جاتے،جیسے کسی پریت کو دیکھ لیا ہو۔کھانا بھول جاتے۔اکثر رات کا بچا کھاناتیسرے دن کھاتے۔وہ کسی بہت بڑی انہونی کے اندیشے سے ڈر رہے تھے۔شاید انسان کے ختم ہونے کی،انسانیت کے ختم ہونے کی۔آزادی اور زندگی کی وسعت ختم ہونے کی۔ضرور انہوں نے ہاتھ ہلانے والے تانا شاہ اور نیوریمبرگ کی اس روتی لڑکی میں تاریخ کا کوئی سچ ڈھونڈا تھا،جو انہوں نے سمجھ تو لیا تھا،لیکن بتا نہیں پا رہے تھے۔‘‘چشمے والا گہری سانس لے کر چپ ہو گیا۔دیر ہو گئی تھی۔چائے ٹھنڈی ہو چکی تھی۔بے خیالی میں وہ ٹھنڈی چائے کے ہی گھونٹ لیتا رہا۔
’’وہ فارمولے سناؤ۔‘‘کچھ دیر بعد کمبل والا بولا۔اس نے اپنی چائے پہلے ہی ختم کر دی تھی،’’شاید ہم مل کر وہ راز ڈھونڈ لیں۔‘‘
’’تم نے پہلی بار سمجھ داری کی بات کی ہے۔یہ ٹھیک رہے گا۔‘‘چشمے والاکپ ایک طرف کھسکا کر آگے جھک گیا۔
’’رکو،میں لکھ لوں۔‘‘کمبل والے نے میز پر ایک طرف رکھا کاغذ کا پیڈ اٹھایا۔پین اٹھایا۔
’’ہاں۔۔۔اب بولو۔‘‘
’’لکھو،کٹا ہوا سر کبھی کوئی کہانی نہیں کہتا۔‘‘
کمبل والے نے لکھا۔
’’شیر اور میمنے کی کہانی سے قتل کو اخلاقی بنانا سیکھو۔‘‘
’’لوگوں کو ان کے ضمیر سے مارو،ہتھیاروں سے نہیں۔‘‘
’’ابلتے انسانی خون سے ہاتھ دھونے پر ہاتھ کی لکیریں بدلی جا سکتی ہیں۔‘‘
’’بس،بس۔‘‘کمبل والے کا چہرہ سفید ہو گیا۔وہ ہلکا ہلکا کانپ رہا تھا۔اس نے پیڈ ایک طرف رکھ دیا۔کچھ دیر گہری سانس لینے کے بعد اس نے ایک بچا ہوا بسکٹ چبایا۔
’’ان جملوں میں کیا کوئی ربط ہے؟‘‘
’’ضرور ہوگا۔شاید معاشروں کے سیکڑوں سال کا کوئی تعلق یا تاریخ کے دوہرانے یا انقلابوں کی ہمیشہ ہمیش کی موت یا اندر اگتے اندھے کنووں یا عقوبت خانوں کے مفروضہ سکھوں یا مسیحا کے امکانات کا،کچھ بھی۔‘‘
’’یا ظالم خواہشوں اور پاگل پن کا؟‘‘
’’ہاں !‘‘
’’یا پرتشدد عظمتوں اور جوان لڑکیوں کا؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’یا نفرت کے جواز اور اس کے قبول عام کا۔‘‘
’’ہاں !‘‘
’’اب تمہاری باری ہے۔‘‘کمبل والا جھٹکے میں بول گیاپھر ہکلانے لگا۔اس بار چشمے والا کچھ نہیں بولا۔
’’کیا تم اِسے پورا نہیں کر سکتے؟‘‘ہکلاتے ہوئے کمبل والے نے پوچھا۔چشمے والا چپ رہا۔
’’تم نے کویتائیں لکھی ہیں نا؟‘‘
’’ہاں !‘‘
’’پھر شاید ڈر رہے ہو کہ پورا نہیں کر پائے تو وہ بے چینی ،گھٹن،اندھا کنواں تمہارے اندر نہ رہنے لگے۔‘‘
چشمے والے کا چہرہ سفید ہو گیا۔اس ٹھنڈ میں بھی اس کی کنپٹی پر دو بوندیں چمکنے لگیں۔
’’تم مجھے ڈرا کیوں رہے ہو؟؟‘‘وہ چلایا۔کرسی سے اٹھا اور میز کے سامنے تیزی سے آگے پیچھے گھومنے لگا۔
’’ایک کام کرتے ہیں۔‘‘ کمبل والا بھی اٹھ گیا۔’’مل کر ان کی کویتا پوری کرتے ہیں۔جیسے مل کر ان کی لاش لے جائیں گے۔‘‘
’’تم سے میں نے پہلے بھی کہا ہے ،مل کر لاش لے جائی جا سکتی ہے،کویتا نہیں لکھی جا سکتی۔دونوں دو الگ باتیں ہیں۔‘‘
’’نہیں۔۔۔دونوں ایک ہیں،ایک جب ہوتا ہے تو دوسرا اپنے آپ ہوتا ہے۔جب تم کویتالکھتے ہو تو کسی لاش کی بات بھی کر رہے ہوتے ہو۔‘‘
’’تم پاگل ہو،لاشوں کے ساتھ رہتے ہوئے تمہیں سب کچھ لاش سے جڑا نظر آتا ہے۔‘‘
’’ایسا ہی ہے۔‘‘کمبل والے نے پہلی بار اپنی آواز اونچی کی۔’’ایسا نہ ہوتا تو اتنی دیر سے ہم صرف کویتا اور لاش کی باتیں نہیں کر رہے ہوتے۔‘‘
’’تم مجھے بھی پاگل کر دوگے۔‘‘چشمے والا رک گیا۔کمبل والے کے سامنے آیا۔اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔
’’ٹھیک ہے،میں تمہیں کویتاسناتا ہوں،بتاؤ اس کا لاش سے کیا ربط ہے؟‘‘
’’ہاں،یہ ٹھیک ہے۔‘‘کمبل والا بڑبڑایا۔’’مثال سے بات کرنا ٹھیک ہے۔‘‘
’’سنو!‘‘
سوموکھی تمہارے نین لجیلے اَدھروں پر انکِت مِردوہاس
چھن بھر کو پھر جی اٹھتے ہیں ،ایشور اور پوجن وِشواس
’’میں جیت گیا۔‘‘کمبل والاہاتھ اٹھا کر چلایا اور کودنے لگا۔بہت دیر سے وہ کھیل کھیلنے اور اس میں جیتنے کی کوشش کر رہا تھا۔اس کی خوشی اور جوش باہر پھٹا پڑا رہا تھا۔
’’کیسے؟‘‘چشمے والا بھونچکا ہو کر اسے دیکھ رہا تھا۔
’’تم نے کہا ایشور اور پوجن وِشواس سے جی اٹھتے ہیں یعنی اس کے پہلے مرے ہوئے تھے۔یعنی لاش تھے۔پھر یہ بھی کہا کہ پل بھر کوجی اٹھتے ہیں یعنی ایک پل بعد پھر مر جائیں گے یعنی لاش ہو جائیں گے۔کویتا۔۔۔لاش۔۔۔لاش۔۔۔اہا۔۔ہا۔۔‘‘وہ کودتا ہوا گھوم رہا تھا۔
’’میں تھک گیا ہوں۔‘‘چشمے والا کرسی پربیٹھ گیا۔مجھے بھوک لگ رہی ہے۔تمہارے پاس کچھ کھانے کے لیے ہے؟‘‘
کودتے ہوئے ہی کمبل والے نے میز کی دراز کھولی ۔کودتے ہوئے اس میں رکھا کیک کا پیکٹ نکالا،کودتے ہوئے ہی اسے پکڑا دیا۔
’’کودو مت۔‘‘چشمے والے نے پیکٹ لے لیا۔اس نے کودنا بند کر دیا۔
’’ہمیں لگتا ہے ہم ایک چائے اور پی سکتے ہیں۔‘‘
چشمے والا کچھ نہیں بولا۔اس نے پیکٹ کھول کر دو کیک ایک ساتھ منہ میں ڈال لیے۔آنکھیں بند کرکے وہ تیزی سے منہ چلانے لگا۔تیز منہ چلانے سے اس کے گال کی کھال ہل رہی تھی۔کچلے ہوئے کیک کے ساتھ تھوڑی سی رال ہونٹوں کے کونے سے باہر آ گئی تھی۔اس نے آنکھیں کھول لیں۔ہاتھ سے رال کو پونچھا۔رال والی ہتھیلی کوٹ پر رگڑی۔پھر دو اور کیک منہ میں ڈال لیے۔اسی طرح کچھ دیر چبانے اور سب کچھ نگلنے کے بعد اس نے سر ہلایا۔
’’ہاں۔۔۔شاید تب تک گاڑی والا بھی آ جائے۔‘‘
کمبل والے نے میز پر رکھے کپ اٹھائے۔کونے میں رکھی چائے کی میز تک آیا۔میز کے ساتھ لگے سنک میں سارے برتن ڈال کر انہیں دھویا۔پھر پہلے کی طرح چائے کا پانی چڑھا دیا۔
’’اگر میڈیکل کالج لاش نہیں لے گا تو ہم کیا کریں گے؟‘‘اس نے وہیں سے پوچھا۔
چشمے والے نے اس پہلو پر سوچا ہی نہیں تھا۔وہ فوراً کوئی جواب نہیں دے پایا۔
’’پھر ہمیں ہی ان کا انتم سنسکار کرنا ہوگا۔کیا کریں گے؟جلائیں گے یا دفنائیں گے؟‘‘
’’پتا نہیں ۔‘‘
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟شاید تم بتانا نہیں چاہتے۔‘‘
’’نہیں،ہم نے اس بارے میں کبھی بات ہی نہیں کی۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’یونہی۔۔۔ہم نے بہت سی باتوں کے بارے میں کبھی بات نہیں کی۔‘‘
’’جیسے؟‘‘
’’جیسے ہم نے کبھی عورت،دیس،دھرم،پیسہ،کھیل،بھگوان،پاکیزگی پربات نہیں کی۔‘‘
’’اور کس پر بات کرتے تھے؟‘‘
’’انسان،آزادی،نجات،جبر،تشدد،مزاحمت،نفرت،انقلاب،نظم،تاریخ۔‘‘
’’ان سے تو دھرم کا پتا نہیں چلتا۔‘‘
’’شاید اسی لیے کرتے تھے۔‘‘
’’تمہیں جاننے کا تجسس نہیں ہوا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’آدمی کی زبان،کھان پان،پہناوا،تیوہار،ان سے بھی تو دھرم کا پتا چلتا ہے۔‘‘
’’’’میں نے کبھی ان سب پر دھیان نہیں دیا،یا یوں کہو دھیان دینے کی ضرورت نہیں سمجھی۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’کیونکہ سوچنے کے لیے دوسری زیادہ ضروری باتیں تھیں۔‘‘
’’کیا دھرم سے زیادہ ضروری بھی کچھ ہوتا ہے؟‘‘
’’ہاں،زندگی ہوتی ہے،آزادی ہوتی ہے،حقوق ہوتے ہیں۔‘‘
’’نہیں،انسان کی زندگی میں سب کچھ صرف اس کا دھرم ہوتا ہے۔‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’تم پھر غلط ہو۔‘‘کمبل والا پاس آ گیا۔’’دھیان سے دیکھو ذرا۔جنم لیتے ہی سانس کے ساتھ تمہارا دھرم طے کر دیا جاتا ہے۔تم سے کوئی نہیں پوچھتا کہ تم اس دھرم میں ہونا چاہتے ہو یا نہیں۔اس کے بعد زندگی بھر تم اندھوں کی طرح اسی دھرم کی انگلی پکڑ کر چلتے ہو یا اس کے چابک کے اشاروں پر ناچتے ہو۔ایشور تمہارا سب سے بڑا خوف ہوتا ہے۔دھرم کی وجہ سے ہی تم مقدس عظمتوں کے مفروضوں میں جیتے ہوئے جنگ کرتے ہو،خون کرتے ہو،نفرت کرتے ہو،دوسروں کو غلام بناتے ہو۔تم کیسے جیو گے،یہ دھرم طے کرتا ہے،اور کیسے مرو گے یہ بھی۔کس سے کتنی محبت کرو گے،کس طرح کے کپڑے پہنوگے،کون سے خواب دیکھو گے،کیا کھاؤ گے،کس بات پر جان دو گے،کس بات پر جان لوگے،یہ بھی دھرم طے کرتا ہے۔انسان کی ہر سانس کا آنا جانا تک دھرم ہی طے کرتا ہے۔‘‘
چشمے والا کچھ نہیں بولا۔اس نے کیک کا پیکٹ لپیٹ کر میز پر رکھ دیا۔اس کے چہرے پر تکان اور اداسی تھی۔اکتاہٹ اور بیزاری بھی۔نفرت کی پرچھائیں بھی تھی۔نفرت کس کے لیے تھی،واضح نہیںتھا۔
’’میرا کام ختم ہو چکا ہے۔میں جانا چاہتا ہوں۔‘‘وہ شکستہ آواز میں بولا،اس حد تک شکستہ کہ لگا شاید وہ رو دے گا۔کمبل والے نے اس کی بیزاری دیکھی۔شاید نفرت بھی۔وہ دھیرے سے بولا،’’میں مذہبی نہیں ہوں۔‘‘
’’مجھے پتا ہے۔مذہبی ہوتے تو لاش اٹھانے اور پہنچانے کا نیک کام نہیں کرتے۔میں بھی نہیں ہوں۔ہوتا تو اس سخت سردی میں صبح ان کے مرنے کی خبر دینے نہ آتا۔وہ بھی نہیں تھے۔ہوتے تو کویتا پوری نہ ہونے کی وجہ سے نہیں مرتے۔اس لیے میں نے کہا تھا،پھر کہہ رہا ہوں۔تم انہیں جلاؤ،دفناؤ،میڈیکل کالج کو دو،چیل کووں کو کھلاؤ،کوئی فرق نہیں پڑتا۔بس مجھے جانے دو۔‘‘
’’صبر رکھو۔‘‘وہ بولا۔اب اس نے دھیان دیا،دیر سے چائے کا پانی کھول رہا تھا۔وہ واپس چائے کی میز پر لوٹا۔پہلے کی طرح چائے بنائی اور لے آیا،’’تم چائے پیوتب تک گاڑی والاضرور آ جائے گا۔‘‘اسے سچ مچ چشمے والے سے ہمدردی ہو رہی تھی۔اگرسیڑھی گری نہ ہوتی تو وہ اسے جانے دیتا۔
’’مگر اب تک تو بھینسوں کے تھنوں میں دودھ آ کر نکل بھی چکا ہوگا۔‘‘چشمے والے نے چائے کا پیالہ پاس کھینچ لیا۔
’’ارے۔۔۔میں تو بھول ہی گیا۔آج اسے دودھ لینے نہیں جانا تھا۔‘‘کمبل والا سامنے کی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
’’کیوں؟‘‘
’’کل پورے چاند کی رات تھی نا؟ایسی رات وہ ایک عورت کے گھر میں رکتا ہے۔جب وہ اسے چھوڑے گی تب وہاں سے سیدھا یہیں آئے گا۔‘‘
’’اب تم نے بیچ میں پورا چاند اور عورت گھسیڑ دی۔‘‘
’’میں کچھ نہیں گھسیڑ رہا۔اس کی زندگی میں پہلے سے گھسا ہے۔ چڑیا۔ ۔۔ اذان ۔۔۔ بھینسوں کے تھن۔۔۔پورا چاند۔۔۔عورت۔۔۔نل کی ٹونٹی،میں کیا کروں؟‘‘
’’وہ نہیں آیا تو گاڑی چلانے والا کوئی دوسرا نہیں ہے؟‘‘
’’وہ آئے گا۔۔۔بس دیر ہو سکتی ہے۔‘‘
’’کتنی دیر؟کب تک انتظار کرو گے؟‘‘
’’جتنا بھی کرنا پڑے۔ہم اور کر بھی کیا سکتے ہیں؟‘‘
’’کسی کو آواز دو باہر۔سیڑھی تو لگائے۔‘‘
’’کوئی نہیں ہے۔میں دروازہ کھول کر چلاؤں بھی تو کسے بلاؤں؟میرے گلے میں ٹھنڈی ہوا اور کہرا گھس جائے گا وہ الگ۔میں بہت جلدی سردی پکڑ لیتا ہوں۔کئی دن تک سوجی ہوئی لال ناک بہتی رہتی ہے۔بیوی پاس نہیں آنے دیتی۔‘‘
’’کیا ایسا ہو سکتا ہے عورت اسے دن میں بھی روک لے؟‘‘
کمبل والا ہنسا،’’اب عورت کے دل کے بارے میں میں کیاکہوں؟‘‘
’’تم جانتے ہو اسے؟‘‘
’’کسے؟‘‘
’’عورت کو۔‘‘
’’تھوڑا بہت۔سود پر روپیے دیتی ہے۔پورے چاند والی رات مہینے کا سود وصول کرنے نکلتی ہے۔تب وہ اس کے ساتھ رہتا ہے۔اسے رکشے پر بٹھا کر پتلی،اندھیری گلیوں میں رکشا چلاتا گھومتا ہے۔بھرجی،پھیری والے،سستی طوائفوں،کمہار،چھوٹے قصائی،ٹھٹھیروں،نٹوں کی بستی میں وہ پیسہ وصولتی ہے۔پیسہ نہ ملنے پر چیختی ہے۔۔۔گالیاں دیتی ہے۔گھر لوٹنے تک تھک کر چور ہو جاتی ہے۔تب یہ اس کے پورے بدن کی مالش کرتا ہے۔اس کے بعد وہ نہاتی ہے۔جب تک نہاتی ہے،یہ انگریزی شراب کا انتظام کرتا ہے۔کباب اور لہسن کی چٹنی بنا کر رکھتا ہے۔پھر دونوں پوری رات ساتھ رہتے ہیں۔صبح جب اس کا جی چاہتا ہے،اس کے گلے سے پٹا نکال کر چھوڑ دیتی ہے۔‘‘
’’تم کبھی ملے؟‘‘
’’’’عورت سے؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’نکڑ کے قصائی نے ایک دن ان دونوں کو کھانے پر بلایا تھا۔دکان کو اور بڑا کرنے کے لیے اسے عورت سے قرض چاہیے تھا۔گاڑی والے نے مجھے بھی بلا لیا تھا۔میں نہیں جاتا،مگراس نے پھسلایاکہ قصائی دنیا میں سب سے اچھا گوشت بنانے والے ہوتے ہیں۔بوٹی کے بارے میں ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔کہاں کی بوٹی نرم،کہاں پر چوسنے لائق اور کہاں چاٹنے لائق ہوتی ہے،وہ سب جانتا ہے۔دن بھر گوشت کاٹتے اور بیچتے وہ پکتے ہوئے گوشت کی بھی ساری باریکی،کاریگری،سمجھنے لگتا ہے۔کتنی آنچ۔۔۔کتنی دیر،کتنا گلانا ہے سب۔میں چلا گیا۔گوشت میری کمزوری ہے۔وہ غلط نہیں تھا۔اس نے ہم لوگوں کو بکرے کی گولیوں کی دعوت دی تھی۔تم نے کھائی ہیں کبھی؟‘‘
’’کیا؟‘‘چشمے والا چونک گیا۔اس کا دھیان کہیں اور چلا گیا تھا۔
’’بکرے کی گولیاں؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’اوہ۔‘‘کمبل والے نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا،’’تمہیں نہیں پتا تم زندگی میں کیا کھا رہے ہو۔خیر۔۔۔اسی دن میں اس عورت سے ملا تھا۔دیکھنے میں بری نہیں تھی۔عمر بھی زیادہ نہیں تھی۔اس دن پینے کے بعد وہ اپنا بچپن یاد کرکے بہت روئی تھی۔’ہم وہاں نگاڑے بجاتے ہوئے بانسوں کے جھرمٹوں میں گھومتے تھے۔‘وہ کہہ رہی تھی۔’ندیوں کا نیلا پن ہمارا تھا۔۔۔جنگلوں کی ہریالی ہماری تھی۔ہمارے بھگوان گونگے بہرے نہیں تھے۔چاندنی راتوں میں شراب پی کر ہمارے ساتھ ناچتے تھے۔جھرنوں میں ہماری ہنسی تھی۔ہمارے پاس کہانیاں تھیں جن میں کئی پرت والی نیندیں اور ان نیندوں میں کئی پرت والے سپنے تھے۔‘وہ بول رہی تھی۔ہم چپ چاپ سن رہے تھے۔اس دن مجھے سمجھ میں آیا،وہ پڑھی لکھی بھی ہے۔اس نے بتایا تھا کہ شہر آنے سے پہلے وہ اپنے جنگلوں میں ایک انگریز عورت کے ساتھ رہی تھی۔اسی نے اسے پڑھایا لکھایا۔اپنے ساتھ سلاتی تھی۔اس کی چھاتیاں چومتی تھی۔اپنے ساتھ لندن بھی لے جاتی لیکن اس کا باپ نہیں تھا۔چاچا تھا۔دھوکے سے نوکری کے بہانے شہر لایا اور بیچ گیا۔میں اس سے پھر کبھی نہیں ملا۔‘‘کمبل والے نے چائے ختم کر دی۔
’’اب کچھ کام کی باتیں کر لیں۔‘‘اس نے میز پر رکھے کاغذ اٹھائے۔کچھ دیر انہیں الٹ پلٹ کر دیکھا۔
’’اس میں ڈیتھ سر ٹیفکیٹ تو نہیں ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’پھر کیا؟‘‘
’’وہ ضروری ہے۔اس کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوگا۔‘‘
’’مگر وہ اکیلے تھے۔اچانک مر گئے،کون ڈیتھ سر ٹیفکیٹ دے گا؟سچ تو یہ ہے کہ وہ مر گئے ہیں یہ بھی صرف مجھے معلوم ہے۔‘‘
’’وہ بھی تمہیں معلوم نہیں ہے، تمہارا یقین ہے۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’تب تو پولیس بلانا ضروری ہو گیا ہے۔جب تک پولیس لاش کا پنچ نامہ نہیں کرے گی،کچھ نہیں ہو سکتا۔پولیس پوچھ تاچھ بھی کرے گی۔تمہارا رہنا ضروری ہے۔‘‘
’’میں کیا بتاؤں گا؟‘‘
’’جو مجھے بتایا۔۔۔جو سچ ہے۔‘‘
’’یہی کہ کویتا پوری نہ کرپانے کی وجہ سے مر گئے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’پولیس اسے نہیں مانے گی۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’کوئی اس طرح کبھی نہیں مرا۔پولیس ایسے کسی کیس کے بارے میں نہیں جانتی۔قانون کی کتابوں میں بھی ایسی کسی موت کا ذکر نہیں ہے۔‘‘
مگر وہ مرے۔۔۔کیا تھیں وہ دو سطریں؟‘‘
’’تانا شاہ جب ہاتھ ہلاتا ہے۔۔۔خوشی سے روتی ہے جوان ہوتی ہوئی لڑکی۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ہاں۔۔۔یہ ادھوری کویتا تو وہاں رکھی ہوگی؟ان کے سرہانے ہوگی۔‘‘
’’تب ہم ثبوت دکھا دیں گے کہ اس ادھوری کویتا نے ان کا قتل کیا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘
’’کیا اس کا یہ مطلب بھی نکلتا ہے کہ اگر اس کویتا کو پورا نہیں کیا گیا ،تو ہو سکتا ہے یہ اور قتل بھی کرے؟‘‘ کچھ دیر چپ رہ کر کمبل والے نے پوچھا۔
’’شاید۔۔۔‘‘
’’شاید اگلی بار تمہارا قتل؟‘‘
’’مجھے لگ رہا ہے۔‘‘
’’مجھے بھی۔تمہارے لیے اسے پوری کرنا بہت ضروری ہے۔۔۔تم سمجھ رہے ہو نا؟‘‘
’’میں سمجھ رہا ہوں۔‘‘چشمے والا چلایا،’’مجھے ڈراؤ مت۔میں جانتا ہوں مجھے کیا کرنا ہے۔‘‘
’’تم نہیں جانتے۔۔۔تم صبح سے یہاں بیٹھے ہو۔۔۔تم نے ایک بار بھی کویتا پوری کرنے کی خواہش ظاہر کی؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’’’کوئی کوشش کی؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’اس لیے کہہ رہا ہوں تم نہیں سمجھ رہے۔تمہیں اپنی موت نہیں نظر آ رہی۔‘‘چشمے والاچپ رہا۔
’’تم نہیں جانتے۔۔۔ادھوری کویتاالٹے منہ کا پھوڑا ہوتی ہے جو اندر ہی اندر پھیلتا جاتا ہے۔‘‘
’’اور پوری کویتا؟‘‘
’’پین کلر۔‘‘چشمے والے کے ہونٹ سوکھ گئے۔اس نے ہونٹوں پر زبان پھیری۔کمبل والا کچھ دیر اسے اپنے سوکھے اور پھٹے ہونٹوں کی پپڑی پرزبان پھیرتے دیکھتا رہا۔
’’میں مددکروں؟‘‘
’’کس بات میں؟‘‘اس نے سر اٹھایا۔
’’کویتا پوری کرنے میں۔‘‘
چشمے والا کچھ نہیں بولا۔
’’سنو۔۔۔اس بار ہم سچ مچ کھیل کھیلتے ہیں۔مل کر ایک ادھوری کویتا پوری کرنے کا کھیل۔‘‘
’’میں تیار ہوں۔‘‘چشمے والا کچھ دیر بعد بدبدایا۔
’’تمہیں فارمولے یاد ہیں نا؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’تم انہیں بولو۔میں ایک اور کاغذ پر انہیں لکھ لیتا ہوں۔ایک کاغذ تم رکھو،ایک میں۔پھر ہم انہیں باری باری سے کویتا میں ڈالیں گے۔‘‘کمبل والے نے میز کے کونے پر رکھا پیڈ اور پین کھینچ لیا۔چشمے والا میز پر کہنیاں رکھ کر جھک گیا۔
’’لکھو۔۔۔کٹا ہوا سر کبھی کوئی کہانی نہیں کہتا۔‘‘
’’سانپ ہونے کی سرسراہٹ دہشت پیدا کرتی ہے سانپ نہیں۔سانپ دِکھ جائے تو مار دیا جاتا ہے۔‘‘
’’شیر اور میمنے کی کہانی سے قتل کو اخلاقی بنانا سیکھو۔‘‘
’’لوگوں کو ان کے ضمیر سے مارو،ہتھیاروں سے نہیں۔‘‘
’’ابلتے انسانی خون سے ہاتھ دھونے پر ہاتھ کی لکیریں بدل جاتی ہیں۔‘‘
’’کمبل والے نے لکھنے کے بعد یہ کاغذ چشمے والے کی جانب بڑھا دیا۔پہلے والا کاٖغذ اپنے پاس رکھ لیا۔اس نے ادھوری کویتا کی پہلی دو لائینیں پڑھیں پھر اس کے ساتھ یہ سطریں پڑھیں۔
’’زیادہ کٹھن کام نہیں ہے۔ہم مل کر اسے پورا کر سکتے ہیں۔‘‘وہ کرسی سے اٹھ گیا۔اس بار اس نے اونچی آواز میں ساری سطریں پڑھیں۔چشمے والے نے بھی انہیں اسی طرح،اونچی آواز میں دوہرایا۔کچھ لائینیں اوپر نیچے کرکے انہوں نے پھر پڑھا۔پھر پڑھا۔اب وہ کمرے میں ان سطروں کو پڑھتے ہوئے گھوم رہے تھے۔گھومتے رہے۔دیواروں کے ساتھ،فرش سے چپک کر،کونوں میں دھنس کر سطروں کو پڑھتے رہے۔دھیرے دھیرے یہ سطریں ایک متعین لے میں،ایک متعین معنی دینے لگیں۔پہلے ادھورے،مبہم معنی،پھر دھیرے دھیرے ایک اَن گڑھ کویتا کے روپ میں۔
تانا شاہ جب ہاتھ ہلاتا ہے
1934کے نیوریمبرگ میں
خوشی سے روتی ہے ایک جوان ہوتی ہوئی لڑکی۔
تانا شاہ کی ہلتی ہتھیلی کی آڑی ترچھی لکیروں میں لکھا ہے
شیر اور میمنے کی کہانی کا سچ
اور یہ سچ بھی
کہ سانپ ہونے کی سرسراہٹ دہشت پیدا کرتی ہے
سانپ نہیں،
سانپ تو مار ہی دیا جاتا ہے اگر دِکھ جائے تو۔
اس کی ہتھیلی کی لکیروں میں لکھا ہے
لوگوں کو ہتھیاروں سے نہیں ان کے ضمیر سے مارو اور بے خوف،مطمئن رہو
اس طرح کاٹا گیا سر کبھی کوئی کہانی نہیں کہتا،
اس کی کوئی تاریخ بھی نہیں ہوتی
سپنوں اور قصوں میں اس کے ہونے کا امکان تو دور کی بات ہے۔
کٹے سروں کا سچ سیکھا ہے اس نے پرانے فاتح عالمو ں سے
جو بناتے تھے کلـہ میناریں
اور پوجے جاتے رہے تاریخ میں متفق طور سے
ہاتھ ہلا کر بتاتا ہے وہ
ایسا بنانے کے لیے کسی اور نے نہیں
اس نے خود ہی اپنی ہتھیلی کی ریکھاؤں کو بدل دیا ہے
بدلی جا سکتی ہیں ہاتھ کی ریکھائیں بھی
اگر انہیں دھویا جائے انسانوں کے ابلتے خون سے
آٹھ دن میں ایک بار
جیسے دھوتا رہا وہ۔
بتاتا ہے یہ بھی ،کہ
وہ بدل سکتا ہے دنیا کی ساری ہتھیلیوں کی لکیریں بھی
اگر مل جائے اتنا ابلتا ہوا انسانی خون
کہ دھوئی جا سکیں ساری ہتھیلیاں آٹھ دن میں ایک بار۔
1934کے نیوریمبرگ کی گلی میں خوشی سے روتی ہوئی لڑکی سے
2017کے نریندر پور کی گلی میں دکھوں سے روتی ہوئی لڑکی تک
کبھی نہیں بدلیں ہتھیلی کی لکیریں
باوجود ابلتے انسانی خون سے دھونے کے
ایک دن میں آٹھ بار بھی۔
نیوریمبرگ کی اس روتی ہوئی لڑکی کے بارے میں آج کوئی نہیں جانتا
پر سب جانتے ہیں تاناشاہ کو،اس کی ہلتی ہتھیلی کو
کلہ میناروںکو
سانپ کی سرسراہٹ کی دہشت کو
شیر اور میمنے کی کہانی کو
قاتل ضمیروں کو
جنہیں جنم دیا تھا اس لڑکی نے بنا جانے سمجھے،
کوکھ سے نہیں خوشی کے آنسوؤں سے جو بہائے تھے اس نے گلی میں۔
جب تک دھرتی کی گلیوں میں رہیں گی خوشی سے روتی
یہ نا سمجھ اور جوان ہوتی لڑکیاں
تاناشاہوں کے ہلتے ہوئے ہاتھ بھی رہیں گے،
میمنے،کٹے سر،سانپ کی سرسراہٹ اور فاتح عالم بھی رہیں گے
اور رہیں گی ان کی مخالفت میں لکھی ہوئی بہت ساری ادھوری کویتائیں بھی
جنہیں مل کر کبھی پورا کریں گے
سردیوں کی صبح دو اجنبی غیر متعارف بے لوث
انسان کی آزادی،محبت اور چوزے کی طرح پھڑپھڑاتے سرخ خون کی حمایت میں۔
بیشک اَن گڑھ طریقے سے ہی
اس دھرتی پر جنم لے گی ایک اور نئی کویتا
اور اڑ جائے گی چپ چاپ
بند کھڑکیوں کی دراروں اور گلوں کی گھونٹی جاتی رگوں سے جادو کی طرح
دنیا کی بے شمار تاناشاہ مخالف کویتاؤں میں شامل ہونے کے لیے۔
کہرا ختم ہو گیا تھا۔گاڑی والا آیا۔اس نے زمین پر گری سیڑھی دیکھی۔حیرانی سے چاروں طرف دیکھا۔کوئی نہیں تھا۔اس نے سیڑھی اٹھا کر کھڑی کی۔اسے کمرے کے باہر پٹروں والی کھلی جگہ پر ٹکایا۔سیڑھی چڑھ کر اوپر آیا۔کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔میز تک آیا۔چاروں طرف دیکھا۔کمرے میں کوئی نہیں تھا۔تخت تک آ کر اس نے آوازیں دیں۔کوئی نہیں بولا۔میز پر جسم عطیہ کا بھرا فارم اور حلف نامہ رکھا تھا۔
٭٭٭
پرییمود ہندی کے معروف فکشن رائٹر ہیں،جو اپنے مخصوص اسلوب کی وجہ سے خاص شناخت رکھتے ہیں۔ایک لیکھک کی اینیٹمی،اس رات کی ورشا میں،مٹی کی گاڑی،دھرم استھل،ناچ گھر،چھٹی کے دن کا کورس،وغیرہ ان کی مشہور تخلیقات ہیں۔پرییمود۲۲ دسمبر ۱۹۵۲ کو کانپورمیں پیدا ہوئے۔ معروف ہندی رسالہ’اکار‘پرییمود کی ادارت میں شائع ہوتا ہے۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page