قصیدے کی شعریات / پروفیسر شہپر رسول، پروفیسر وہاج الدین علوی – امتیاز احمد
” نامِ کتاب : قصیدے کی شعریات
نامِ مرتبین : پروفیسر شہپر رسول، پروفیسر وہاج الدین علوی
طبعِ اول : مارچ 2007
ناشر : شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
مبصر : امتیاز احمد
ایم۔اے اردو ، سالِ دوم ، شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ
زیرِ تبصرہ کتاب ’قصیدے کی شعریات‘ شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ ڈی۔آر۔ ایس۔ مرحلہ تین کے زیرِ اہتمام منعقد سہ روزہ سیمینار میں پیش کردہ مقالات پر مشتمل ہے ۔ کتاب سیمینار مقالات کے علاوہ دیگر مضامین کے تحت نو مضامین، اشاریۂ قصائد اردو اور انتخابِ قصائد کو بھی محیط ہے ۔
کتاب کے تمہیدی کلمات پروفیسر شہپر رسول کے گنجینۂ قلم سے صادر ہوئے ہیں جس میں انہوں نے کلاسیکی اصنافِ شاعری بالخصوص قصیدہ کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرتے ہوئے اس کے از سر نو احیا کی ضرورتوں پر زور دیا ہے ۔ پروفیسر وہاج الدین علوی صاحب نے پیش لفظ کے زمرے میں عالمی ادبی رجحانات کا جائزہ لیتے ہوئے اردو کے کلاسیکی سرمائے کو طاقِ نسیاں اور قصۂ پارینہ بننے سے قبل اس کی تحفظ و بقا کی طرف توجہ دلائی ہے اور کلاسیکی اصناف کے مباحثے و مناظرے پر مشتمل سیمینار و جلسوں کی وقعت و ناگزیریت کو طشت از بام کیا ہے ۔
جدید تنقید کے سرخیل اور کلاسیکی اصنافِ ادب کے پارکھ پروفیسر شمس الرحمٰن فاروقی مرحوم نے اپنے افتتاحی خطبہ میں قصیدے کے مختلف معروضات و مفروضات کا ذکر کرتے ہوئے ان کا استدلالی اور تشفی بخش جواب دیا ہے اور ساتھ ہی شعر فہمی، سخن شناسی اور شعری کمالات و صفات نیز قصیدے کے عناصر و اجزا پر مختصر مگر جامع گفتگو کی ہیں ۔ قصیدے کی تعریف میں لکھتے ہیں :
’’قصیدہ وہ نظم ہوتی ہے جو عام سے زیادہ طویل ہو یعنی خاص حجم رکھتی ہو اور اس میں کسی اہم ذاتی یا کائناتی مسئلے پر اظہارِ خیال کیا گیا ہو ۔‘‘ (ص۔14)
ظفر احمد صدیقی مرحوم صاحب کا کلیدی خطبہ ’صنفِ قصیدہ : شعریات، تہذیب، تاریخ‘ ہمیں عربی و فارسی اور اردو نقادوں کے مختلف نظریات و تصورات اور آرا سے روبرو کراتا ہے اور ہمارے سامنے صنفِ قصیدہ کے ماخذ و مخرج اور خال و خد کو واضح کرتا ہے ۔ ظفر صاحب قصیدہ کے آغاز کے حوالے سے لکھتے ہیں :
’’قصیدہ جس کا آغاز عربی میں قبل اسلام ایک ہیئت سے ہوا تھا اور جس نے عہدِ عباسی میں مدحیہ قصائد کی صورت میں صنف کی اولین نقوش قائم کر لیے تھے، فارسی میں پہنچ کر اس نے باقاعدہ صنف کا درجہ حاصل کر لیا ۔ وہیں اس کی شعریات مرتب ہوئی اور وہیں یہ صنف اوجِ کمال کو پہنچی ۔‘‘ (ص۔26)
جب ہم قصیدہ کے تاریخی ارتقا کا بغائر نظر مطالعہ کرتے ہیں اور اس کے مختلف مدارج و مراحل کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ظفر صاحب کی بات درست معلوم ہوتی ہے ۔ عربی شاعری میں قصیدہ باضابطہ کوئی صنفِ سخن نہیں تھا بلکہ وہاں تشبیت یا نسیب کی شکل میں شعرا اپنے قبائل یا اقربا کی تعریف و توصیف بیان کرتے تھے ۔ نیز وہاں اس کے نہ تو کوئی اجزا متعین تھے اور نہ اس کی کوئی واضح اور منفرد شعریات تھیں ۔ فارسی کے مختلف شعرا مثلاً رودکی، فرّخی، انوری، خاقانی، عرفی اور قاآنی وغیرہ نے قصیدہ کو اوجِ کمال بخشا ۔
ظفر صاحب کے خطبہ سے ہمیں صنفِ قصیدہ کے مطالعے اور مباحثے کے انعقاد کی اہمیت و افادیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں :
’’اردو قصائد کا باضابطہ مطالعہ اور ان کی باضابطہ تدریس کلاسیکی علوم و فنون سے ہماری فی الجملہ واقفیت اور تہذیبی شناخت کا ذریعہ بن سکتی ہے ‘‘ (ص۔30)
قاضی افضال حسین صاحب نے اپنے مضمون ’قصیدہ‘ میں عربی شاعری کے قصیدہ سے متعلق مختلف تصورات و نظریات کو موضوعِ گفتگو بنایا ہے اور قطعہ و قصیدہ کے مابین مغائرات و امتیازات کو واضح کرتے ہوئے اردو قصیدہ کی جرح و تعدیل کرنے والوں سے کئی سوالات پوچھے ہیں ۔ نیز قصیدے کی صنفی شناخت اور امتیازات کو سادگی، اصلیت اور جوش کے معیار پر پرکھنے کو محل نظر قرار دیا ہے ۔
انیس اشفاق صاحب کا مضمون ’قصیدے کی شعریات‘ ہمیں کسی صنفِ ادب کی شعریات اور لوازمات کی تشکیل اور تعین کے جواز اور اصول سے متعارف کراتا ہے ۔ انیس صاحب نے غزل، مثنوی اور مرثیہ کی صنفی امتیازات اور صفات کے بالمقابل قصیدے کی شعریات کے جواز کو مسترد کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ قصیدے کی ہیئتی و موضوعی تنگ دامانی ہمیں اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ ہم اس صنف کا مطالعہ اور قرأت دیگر اصنافِ شاعری کی مروج شعریات اور اصطلاحات کی روشنی میں ہی کریں اور انہیں کی روشنی میں اس کی محاسن و معائب کی نشاندہی کریں ۔
کتاب کا اگلا مضمون ’فارسی قصائد کا پس منظر اور اردو قصیدہ نگار‘ آصف نعیم کا ہے جو بنیادی طور پر دو حصوں میں منقسم ہے ۔ پہلا حصہ علامہ شبلی نعمانی کی کتاب ’شعر العجم، جلد پنجم‘ کے مباحث کے تجزیاتی مطالعہ پر مشتمل ہے جبکہ دوسرا حصہ اردو قصیدہ گو شعرا کی قصیدہ گوئی کو محیط ہے ۔ آصف نعیم نے اپنے مضمون میں اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ اردو قصیدہ گو شعرا نے فارسی کے دورِ وسطیٰ کے شعرا سے خوشہ چینی کی ہیں اور ان کے کلام سے اخذ و استفادہ کیا ہے ۔آصف نعیم کا یہ دعویٰ بظاہر درست معلوم ہوتا ہے لیکن اس میں کوئی نئی بات یا کوئی نیا زاویہ نظر نہیں آتا ہے ۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ قصیدہ گوئی فارسی سے اردو میں آئی لہٰذا یہ بات فطری ہے کہ جو چیز جہاں سے آتی ہے ہم ابتداً اسی جگہ کی روایات اور انفاس سے اخذ و استفادہ کرتے ہیں اور بعدہ ہم اپنی منفرد شناخت بناتے ہیں ۔ یہی انفرادی تصرف اور تصنع کسی کو سر آمدِ شعرائے ہندی کے مسند پر بٹھا دیتی ہے تو کسی کو خاقانیِ ہند کے لقب سے ملقب کرتی ہے ۔
ارمان نجمی کا مضمون اٹھارویں صدی کے ہندوستان کے حالات و مسائل کا نقشہ ہمارے سامنے پیش کرتا ہے اور اردو قصیدہ گوئی کے بتدریج ارتقا سے ہمیں روبرو کراتا ہے ۔ انہوں نے شمالی ہند کے قصیدہ گو شعرا مثلاً سودا، میر تقی میر، میر حسن، جعفر علی حسرت، انشاء و مصحفی، رنگین اور دکنی شعرا میں نصرتی اور ولی کا ذکر کیا ہے ۔
عراق رضا زیدی نے اپنے مضمون ’مذہبی ہستیوں کی مدح اور قصیدہ: نعت و منقبت وغیرہ‘ میں مذہبی شخصیات پر لکھے گئے قصیدوں پر تفصیلی گفتگو کی ہے ۔ انہوں نے مذہبی قصائد کے آغاز کو بعثتِ رسول ﷺ سے جوڑا ہے اور حضرت ابو طالب رضی اللہ کو عربی کا پہلا مذہبی قصیدہ گو قرار دیا ہے ۔ اس کے بعد انہوں نے عربی کے دیگر قصیدہ گو شعرا مثلاًحسان بن ثابت، اعشیٰ، کعب بن زہیراور فرذدق کا مختصر جائزہ پیش کیا ہے ۔عربی شعرا کے ذکر کے بعد انہوں نے فارسی قصیدہ گو شعرا میں سنائی، خاقانی، عرفی اور قاآنی کے منقبتی قصائد کا جائزہ لیا ہے ۔ اردو میں مذہبی قصیدہ گوئی کے ضمن میں ولی کو سرخیل قرار دیا ہے اور اس کے بعد سودا، میر جعفر علی حسرت، انشاء و مصحفی، ناسخ، ذوق، غالب و مومن اور محسن کاکوروی کا بالترتیب ذکر کیا ہے ۔
معین الدین جینابڑے کے مضمون سے ہمیں ادب کی کسی صنف کے انحطاط و زوال کے اسباب و عوامل معلوم ہوتا ہے ۔ جینابڑے صاحب نے ان اسباب و علل میں اقتصادی، طبقاتی، سیاسی اور معاشرتی نظام کے تفاعل و تعامل کو بڑے تفصیل سے ذکر کیا ہے اور اس ضمن میں مختلف اصطلاحات مثلاً بورژوا، پرولٹریٹ، آئیڈیالوجی، ڈیکورم، صنف کی پاکبازی اور جدید و کلاسیکی تصورِ صنف کا سیرِ حاصل جائزہ لیا ہے اور جدید و کلاسیک ادبی روایت اور ثقافتی تاریخ کے تفہیمی و تعبیری التباس اور تشکیک کو بھی اجاگر کیا ہے ۔
کتاب کا اگلا مضمون ’ذوق کی اسلوبیات: قصائد کی روشنی میں‘ طارق سعید کا تحریر کردہ ہے جس میں انہوں نے اسلوب کی تعریف کرتے ہوئے ذوق کی اسلوبیات کو اجاگر کیا ہے ۔اس مضمون سے جہاں ہم پر ذوق کے مختلف اسلوب اور طرزِ ادا آشکار ہوتا ہے وہیں بیانیہ کے خال و خد بھی واضح ہوتا ہے ۔
سراج اجملی صاحب کا مضمون ’قصیدے میں علومِ بلاغت کی کارفرمائی‘ ہمیں قصیدے میں مستعمل مختلف صنعتوں مثلاً مبالغہ، غلو، اغراق، تشبیہ، استبتاع، تاکید المدح بما یشبہہ الذم، رجوع، لف و نشر، مقابلہ، ایداع، تلمیع، مجازِ مرسل اور سیاقۃ الاعداد سے روشناس کراتا ہے ۔ اس مضمون کی خوبی یہ ہے کہ اس میں صنعتوں کے اشعار ذکر کرنے سے پہلے اس کی تعریف بیان کی گئی ہے ۔
پروفیسر احمد محفوظ صاحب کامضمون سے ہمیں شعری اصطلاحات مضمون آفرینی اور خیال بندی سے روبرو ہونے کا موقع ملتا ہے ۔ اس مضمون سے جہاں ہمیں مضمون آفرینی اور خیال بندی کی تعریف و تفہیم سے واقفیت حاصل ہوتی ہے وہیں فارسی اور اردو کے قصیدہ گو شعرا کے نمونۂ کلام سے ان کی شعری کمالات اور ہنر سے روشناس ہونے کا موقع ملتا ہے ۔ نیز اس مضمون سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دیگر اصنافِ سخن کی طرح قصیدے کی بھی اپنی شعریات ہیں جس کو کہ انیس اشفاق نے اپنے مضمون میں مسترد کیا تھا ۔
پروفیسر کوثر مظہری صاحب کا مضمون ہمارے سامنے قصیدے کی صنفی شناخت اور امتیازی پہلو کی کتھی سلجھاتا نظر آتا ہے ۔ ساتھ ہی غزل کی ہیئت کے علاوہ دیگر ہیئتوں مثلاً ترجیع بند، ترکیب بند اور مخمس میں کہے گئے قصائد، اسی طرح ہجویہ قصائد جن میں تشبیب، گریز، مدح اور دعا کا اہتمام نہیں ہوتا ہے اس کی حیثیت و معنویت پر سوال کھڑے کیے ہیں ۔ پروفیسر صاحب کا یہ دعویٰ ’’مجھے یہ کہنے دیجیے کہ قصیدہ بھی صنف نہیں محض ایک ہیئت کا نام ہو کر رہ جاتا ہے‘‘ بھی ہمیں قصائد کے از سر نو مطالعہ اور محاسبہ پر مجبور کرتا ہے ۔
پروفیسر سرور الہدیٰ کا مضمون ہمیں قصیدہ سے متعلق امداد امام اثر کے تنقیدی آرا اور نظریات سے متعارف کراتا ہے ۔ اس مضمون سے جہاں ایک طرف امداد امام اثر کے تنقیدی رویے اور معاملات کے دریچے وا ہوتے ہیں وہیں دوسری طرف ہمیں سودا اور ذوق کے تقابلی جائزے کے ساتھ حالی اور اثر کے قصیدہ تنقید کے آپسی مطالعے سےبھی مستفید ہونے کا موقع ملتا ہے ۔ البتہ پروفیسر صاحب کا یہ کہنا کہ ’’حالی کا یہ تنقیدی موقف قصیدے کی اس شعریات سے گریز کا پتہ دیتا ہے جس پر قصیدے کی بنیاد ہے ‘‘ محل نظر ہے ۔
کتاب کے آئندہ دو مضامین قصیدے کی صنفی اور تہذیبی مرتبت و منزلت اور اہمیت و افادیت پر مشتمل ہے ۔علی عمران عثمانی کا مضمون جہاں ہمیں کلاسیکی شعری تہذیب میں قصیدے کے مقام و مرتبہ سے روبرو کراتا ہے وہیں ڈاکٹر محمد مقیم کا مضمون شاعرانہ کمالات اور استعداد کے اظہار میں صنفِ قصیدہ کی اہمیت کو واضح کرتا ہے ۔ علی عمران صاحب نے اپنے موضوع کا دائرہ صرف سودا تک رکھا ہے جو کہ میرے جیسے مبتدی طالب علم کے لیے ناقص و ادھورا ہے ۔ بلاشبہ صنفِ قصیدہ میں سودا کو جو شہرت و معرفت اور مقام و مرتبہ حاصل ہوا وہ کسی دیگر شعرا کی قسمت میں نہیں آ سکا مگر پھر بھی جب ہم قصیدہ کا نام لیتے ہیں تو ہمارے سامنے سودا کے علاوہ ذوق، منیر شکوہ آبادی اور محسن کاکوروی کے نام بھی آ جاتے ہیں ۔ لہٰذا اگر ان شعرا کو بھی زیرِ بحث لایا جاتا تو مضمون بہت مؤثر اور جامع ہو جاتا ۔ ڈاکٹر محمد مقیم کا مضمون اس تشنگی کو دور کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ انہوں نے سودا، ذوق، انشا اور منیر شکوہ آبادی کے قصائد کی روشنی میں شعری کمالات کے جملہ ابعاد و اصطلاحات کو اجاگر کیا ہے ۔
سلمیٰ محمد رفیق کا مضمون عربی شعری روایت میں قصیدے کے تصور اور اس کے اطلاق سے پردہ اٹھاتا ہے اور عربی ادب کے مختلف نقادوں کے حوالے سے مدحیہ شاعری کے اغراض و مقاصد سے روشناس کراتا ہے ۔
کتاب کے پہلے حصے کا آخری مضمون قصیدہ میں مستعمل مختلف علوم و فنون کی کارفرمائی کو اجاگر کرتا ہے ۔ یہ مضمون شاہ فہد کے زیورِ قلم سے صادر ہوا ہے ۔ یہ مضمون انشا، مصحفی، مومن اور ذوق کے قصائد میں ذکر کردہ علوم و فنون کے متنوع اصطلاحات اور تلمیحات کی مثالوں کے نمونوں پر مبنی ہے ۔
کتاب کا دوسرا حصہ دیگر مضامین کے تحت آٹھ مضامین اور سمینار رپورٹ پر مشتمل ہے ۔ ان مضامین میں حالی کا مضمون ’قصیدہ‘ مقدمہ شعر و شاعری سے، امداد امام اثر کا مضمون ’قصیدہ‘ کاشف الحقائق سے، ابو محمد سحر کا مضمون ’قصیدہ صنفِ سخن کی حیثیت سے‘ اردو میں قصیدہ نگاری سے، محمود الٰہی کا مضمون ’اردو میں قصیدہ نگاری کا تنقیدی جائزہ سے، محمد حسن کا مضمون ’قدیم دکنی قصائد‘ قدیم اردو ادب کی تنقیدی تاریخ سے اور پروفیسر احمد محفوظ کا مضمون ’شرح قصیدہ در نعت از مرزا رفیع سودا‘ ارمغان شمارہ نمبر 5-4 ، 2018 سے ماخوذ ہے لہٰذا ان مضامین پر تبصرہ قلم و قرطاس کو زحمت دینے کے سوا کچھ کوئی کارِ مفید نہیں ۔ اس حصہ میں شامل قاضی افضال حسین اور ساجد ذکی فہمی کے مضمون تخلیقی نوعیت کے ہیں ۔
اشاریہ قصیدے پر لکھی اور ترتیب دی گئیں کتابوں اور رسائل پر مبنی ہے جو قصیدہ سے شغف رکھنے والے طلبہ اور ریسرچ اسکالر کے لیے ایک نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں جبکہ انتخابِ ولی محمد، مرزا رفیع سودا، مصحفی، ذوق، مومن، غالب، امیر مینائی، محسن کاکوروی، الطاف حسین حالی اور اقبال سہیل کے قصائد پر مشتمل ہے ۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page