Adbi Miras
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      ستمبر 29, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –…

      جولائی 10, 2025

      تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      ڈاکٹر محمد ریحان: ترجمہ کا ستارہ – سیّد…

      اکتوبر 13, 2025

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      قطر میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی الومنائی ایسوسی ایشن…

      اکتوبر 27, 2025

      خبر نامہ

      بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام سالانہ مجلہ…

      اکتوبر 26, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خصوصی مضامین

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      متفرقات

      قطر میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی الومنائی ایسوسی ایشن…

      اکتوبر 27, 2025

      متفرقات

      بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام سالانہ مجلہ…

      اکتوبر 26, 2025

      متفرقات

      ڈاکٹر محمد ریحان: ترجمہ کا ستارہ – سیّد…

      اکتوبر 13, 2025

      متفرقات

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
مقبول ترین
تدوین متن کا معروضی جائزہ – نثار علی...
تحقیق: معنی و مفہوم ۔ شاذیہ بتول
ترجمہ کا فن :اہمیت اور مسائل – سیدہ...
سر سید کی  ادبی خدمات – ڈاکٹر احمد...
حالیؔ کی حالات زندگی اور ان کی خدمات...
ثقافت اور اس کے تشکیلی عناصر – نثار...
تحقیق کیا ہے؟ – صائمہ پروین
آغا حشر کاشمیری کی ڈراما نگاری (سلور کنگ...
منٹو کی افسانہ نگاری- ڈاکٹر نوشاد عالم
منیرؔنیازی کی شاعری کے بنیادی فکری وفنی مباحث...
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      ستمبر 29, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –…

      جولائی 10, 2025

      تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      ڈاکٹر محمد ریحان: ترجمہ کا ستارہ – سیّد…

      اکتوبر 13, 2025

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      قطر میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی الومنائی ایسوسی ایشن…

      اکتوبر 27, 2025

      خبر نامہ

      بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام سالانہ مجلہ…

      اکتوبر 26, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خصوصی مضامین

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      متفرقات

      قطر میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی الومنائی ایسوسی ایشن…

      اکتوبر 27, 2025

      متفرقات

      بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام سالانہ مجلہ…

      اکتوبر 26, 2025

      متفرقات

      ڈاکٹر محمد ریحان: ترجمہ کا ستارہ – سیّد…

      اکتوبر 13, 2025

      متفرقات

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
Adbi Miras
قصیدہ کی تفہیم

قصیدے کی تدریس اور ظفر احمد صدیقی – ڈاکٹر مشیر احمد

by adbimiras ستمبر 13, 2022
by adbimiras ستمبر 13, 2022 0 comment

ظفر احمد صدیقی (۱۹۵۵۔۲۰۲۰)کا نام زبان پر آتے ہی کلاسیکی شاعری کے رموزو نکات اور مشرقی شعرو ادب کی روایت کا ایک صحت مندخاکہ ہمارے ذہن میں آجاتا ہے۔ ان کی علمی و ادبی فتوحات کی جہتیں مختلف ہیں۔وہ بہ یک وقت عالم دین، محقق،مدون، ناقد ،انشاپردازاور بہترین معلم کے طور پراردو دنیا میں معروف ہیں۔آپ کی علمی لیاقت اورصلاحیت کا دائرہ اردو زبان و ادب تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ عربی وفارسی زبان و ادب کے رموز و نکات اور اسلامی علوم و فنون پر بھی آپ کو یکساں دسترس حاصل تھی۔ اس حوالے سے ان کی علمی و ادبی تخلیقات کے عمدہ نمونے ان کے متعدد ؍مضامین؍لکچرس ؍خطبات وغیرہ کی شکل میں ہمارے درمیان موجود ہیں۔چنانچہ جب ہم ان کی جملہ تحریروں پرنظرڈالتے تو ان تخلیقات کے ضمن میں مختلف غیر مطبوعہ مضامین؍لکچرس کے علاوہ مطبوعہ تحریروںکی بھی ایک طویل فہرست نظر آتی ہے۔

فارسی شعروادب کے حوالے سے ان کے چنداہم مضامین میں غالب کی فارسی شاعری اور ہمارے سو سال،مکاتیب سنائی مرتبہ پروفیسر نذیر احمد،اردو پر فارسی اثرات،غالب کی ایک فارسی غزل کا تجزیہ،شبلی کا فارسی تغزل،فردوسی اورشاہنامے پر محمود شیرانی کی تحقیقات،عہد عباسی کی عربی اور فارسی شاعری،فارسی قصیدہ نگاری پرعربی اثرات،چراغ دیر کی روشنی میں ایک گفتگو اورابن سینا کاتصور شعروغیرہ مضامین دنیا ئے ادب میںخصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔عربی زبان وادب کے حوالے سے ان کے پسندیدہ و منتخب مضامین میںعبد العزیز میمنی:حیات اور خدمات،المرتضٰی ایک جائزہ،ایک کامیاب عربی تفسیر کاتعارف،ایک غیر مطبوعہ عربی تفسیر،ترجمان القرآن :ایک تجزیاتی مطالعہ،رد تشکیل ایک ادبی رجحان،شبلی اور عربی زبان وادب،عربی زبان میںہندوستانی الفاظ،عربی غزل:ہیئت اور حدود،عربی کی عشقیہ شاعری کے امتیازات،مولانا احمد تھانیسری اور ان کا نعتیہ قصیدہ اور مولانا علی میاں ندوی کا شعری ذوق وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

اسلامی علوم و فنون کے مطالعے کی اگر بات کی جائے تو ظفر احمد صدیقی نے وہاں بھی اپنا گہرا نقش قائم کیا ہے۔اس ذیل میں ان کے اہم مضامین کی فہرست ملاحظہ ہوـ:اردو زبان پراسلام کااثر،امام غزالی عالم اسلام کی مایہ ناز شخصیت،حجتہ اللہ اور علامہ شبلی،حجتہ اللہ البالغۃ:ایک تجزیاتی مطالعہ،عرفان محمدی کا رنگ وآہنگ،علوم دینیہ اور نول کشور،ملک و ملت کی تعمیراور دینی مدارس،مولانا علی میاںندوی کی سیرت نگاری،مولاناآزاد:فاضل علوم اسلامیہ،نبیٔ رحمت۔ایک متوازن کتاب سیر ت اورحضرت تھانوی کے مواعظ کاادبی مطالعہ وغیرہ اہم مضامین کا نام لیاجاسکتاہے۔

یہ تمام مضامین؍مقالات مختلف قومی ؍بین الاقوامی سمیناروںمیں سامعین کی داد و تحسین سے نوازے جا چکے ہیں۔

ظفر احمد صدیقی اردو زبان و ادب کی تدریس سے وابستہ رہے،ان کا زمانۂ تدریس شعبۂ اردو ،بنارس ہندو یونیورسٹی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میںکم و بیش بیالیس سال (۱۹۷۹۔۲۰۲۰)کے عرصے کو محیط ہے۔اس درمیان انھوں نے جامعہ اسلامیہ بنارس میںبھی درس وتدریس کے فرائض انجام دیے۔اردو زبان و ادب سے متعلق ظفر احمد صدیقی نے اپنی تخلیقات اور مضامین کے ذریعہ اہل اردو کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ،ان کی اہم کتابوں میںقصیدہ :اصل ہیئت اور حدود(۲۰۲۰)نظم طباطبائی(مونو گراف ۲۰۲۰)،شبلی کی علمی و ادبی خدمات(۲۰۱۲)،افکارو شخصیات(سر سید سے عہد حاضر تک،مجمو عۂ مضامین۲۰۰۶)، تحقیقی مقالات(مجموعۂ مضامین۲۰۰۳)،مولاناشبلی بہ حیثیت سیرت نگار(۲۰۰۱)، نقش معنی (مجموعۂ مضامین۱۹۹۹)،شبلی(مونوگراف۱۹۸۸)، تنقیدی معروضات(مجموعۂ مضامین ۱۹۸۳) وغیرہ کتابیں اہمیت کی حامل ہیں۔

ظفر احمد صدیقی کی مرتبہ و مدونہ کتابوںمیں شبلی شناسی کے اولین نقوش(۲۰۱۶)مثنوی موعظۂ آرائش معشوق (شاہ مبارک آبرو۲۰۱۳)، شرح دیوان اردوے غالب(نظم طباطبائی ۲۰۱۲)، مقالات نذیر(۲۰۱۲)، دیوان ناظم (نواب یوسف علی خاں ناظم،رام پوری۲۰۱۱)، شبلی معاصرین کی نظر میں(۲۰۰۵)، انتخاب کلام آبرو(۱۹۹۷)، انتخاب کلام مومن(۱۹۸۳)وغیرہ کا نام لیاجاسکتاہے۔

جہاں تک ان کے اردو مضامین کا تعلق ہے تو ان کی تعداد تقریباََـــــــ سینکڑوں میں ہے۔مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاںبھی بطور نمونہ بعض اہم مضامین کی فہرست درج کر دی جائے تاکہ بحیثیت مضمون نگاران کی اہمیت و افادیت کاصحیح  اندازہ لگایا جا سکے ۔ان کے اہم مضامین کی فہرست اس طرح ہے ۔اٹھارہویں صدی میں دکن کی نثری تصانیف، اردوزبان اور مشترکہ تہذیب،اردو زبان کے امتیازات،اردو میں لغت نویسی،اردو میںفن سوانح نگاری کاارتقا،اردو زبان کی ابتدائی تاریخ،اقبال سہیل کا ایک نعتیہ قصیدہ،اکبر کی معنویت عہد حاضر میں،امالہ کب اور کیوں،آبرو کا ایہام،آغاحشربہ حیثیت شاعر،باغ وبہار کی تدوین جدید،بحرالفصاحت از حکیم نجم الغنی خاں رامپوری،بلاغت کی بعض اصطلاحیں،پروفیسر آل احمد سروراور اقبال تنقید،پروفیسر حنیف نقوی بہ حیثیت غالب شناس،تعقید ایک ادبی اصطلاح،خطبات احمدیہ ایک قابل قدر علمی کاوش،ذوق و شوق۔تعبیروتحسین،کربل کتھا،کلام آبرو،کلام دبیر کا فنی نظام اورہم سفر ایک منفرد خود نوشت وغیرہ۔

یہاں ضمناََ اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ ظفر احمد صدیقی کی تحقیقی ،تدوینی اور تنقیدی نگارشات ایسی ہیںجن پر مکمل بحث و تمحیص کی گنجائش موجود ہے۔ان کے ایک ایک جملے میںایسے ایسے نکات پوشیدہ ہیں جن پر مزید توضیح و تشریح کی ضرورت ہے۔زیر نظر مضمون میں ان امور کا احاطہ دشوارہے اوریہ اس کا محل بھی نہیں ہے۔

قصیدہ کے فن اور اس کی تفہیم کے حوالے سے ظفر احمد صدیقی نے کئی مضامین لکھے ہیں،مثلاََ قصیدہ:اصل،ہیئت اور حدود(اسی نام سے ان کی آخری کتاب بھی ۲۰۲۰ میں منظر عام پر آئی ہے،جس میںقصیدے کی شعریات،بعض قصیدہ نگاروں کی قصیدہ نگاری اور نصرتی،سودا،ذوق،غالب اور محسن کاکوروی وغیرہ کے قصیدوں کی تشریح اور تجزیہ شامل ہے)،فارسی قصیدہ نگاری پرعربی اثرات اور قصیدے کی تدریس وغیرہ۔قصیدے کے علاوہ جن کلاسیکی اصناف پر انھوں نے مضامین قلم بند کیے ،ان میںعربی غزل:ہیئت اورحدود،مثنوی :اصل،ہیئت اور حدود، اورمرثیے کی شعریات وغیرہ لائق ذکر اور قابل توجہ ہیں۔

ظفر احمد صدیقی نے بعض کلاسیکی شعرا کو بھی اپنے مضامین میں جگہ دی ہے ۔چنانچہ اس حوالے سے ان کے اہم مضامین میں آبرو کا ایہام،بہادر شاہ ظفر،سوانح آبرو،سودا کی غزل،ولی کا فن،غالب اور معارضۂ کلکتہ،مطا لعۂ غالب کی تازہ صورت حال ،مومن کی ایک غزل کا تجزیہ ،مصحفی کے باغ قصائد کی سیر،نظیر اکبرآبادی کی غزل گوئی اور کلام دبیر کا فنی نظام وغیرہ کو شامل کیا جا سکتا ہے۔(مذکورہ بالا کتابیں؍مضامین کی فہرست ظفر احمدصدیقی کا سوانحی خاکہ؍بایو ڈاٹاسے ماخوذ ہے،جو انھوں نے اپنی زندگی میں تیار کرایا تھا)

جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ ظفر احمد صدیقی اردو زبان و ادب کی تدریس سے وابستہ رہے اور ساتھ ہی انھیں عربی،فارسی ادبیات کے علاوہ علوم اسلامیہ پربھی عبور حاصل تھا اسی طرح وہ کلاسیکی شعر و ادب پربھی اچھی دستگاہ رکھتے تھے۔بطور خاص قصیدے کے میدان میںظفر احمد صدیقی ایک بڑا اور معتبر نام ہے۔سر دست ظفر احمد صدیقی کے دیگر کمالات و صفات سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم  قصیدے کی تدریس کے سلسلے میں ان کی انفرادیت  اور اہمیت اجاگر کرنا چاہتے ہیں۔راقم الحروف علی گڑھ میں ظفر احمد صدیقی کا باقاعدہ شاگرد رہاہے اورکلاس روم میںان سے متعدد قصیدے پڑھنے کا شرف حاصل ہے۔عام طور پراستاد محترم کی گفتگو مدلل اور سیر حاصل ہوتی تھی،ان کی بات چیت کا اندازانوکھا اور نرالاہوتا تھا۔قصیدے کی تدریس کے دوران جو بھی گفتگو وہ کرتے تھے ،ذہن پر نقش ہو جایا کرتی تھی۔

قصیدے کو ایک مشکل اور بھاری بھر کم  چیز سمجھا جاتا ہے،اساتذہ ہوں یا طلبہ دونوں اس سے گھبراتے ہیں۔ ایک تو متن پڑھنا اور دوسرے اس کی توضیح و تشریح کرنا دونوں مشکل امر ہے۔گویا قصیدے سے بیگانگی اور اجنبیت کا احساس پیدا ہو تا ہے۔استاد محترم پروفیسر ظفر احمد صدیقی نے اپنی کتاب ’’قصیدہ :اصل ،ہیئت اور حدود‘‘ میںلکھا ہے کہ قصیدہ ہمارے لیے راز سر بستہ کیوں ہے اور ہمارے اوراس صنف سخن کے درمیان اجنبیت کے اسباب کیا ہیں؟انھوں نے تین بنیادی وجوہات کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے۔انھوں نے لکھا ہے:

’’اول ہمارے اوّلین ادبی مفکروںاور رہنمائوں کا قصیدے کے متعلق منفی رویہّ ۔ دوم قصیدے کی شعریات سے ناواقفیت۔سوم ان علوم و فنون، لفظیا ت و مصطلحات کاعدم رواج جو قصائد کی تعمیر میںخشت زیریں کا حکم رکھتے ہیں۔‘‘ (ص۷۲) (قصیدہ:اصل،ہیئت اور حدود۔ظفر احمد صدیقی،شعبۂ اردوعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، علی گڑھ۔۔۔۲۰۲۰)

منفی روییّ کی جہاں تک بات ہے تو اس سلسلے میں مولانا حالی کے وہ بیانات ہیں جس میں انھوں نے کلاسیکی اصناف سخن کو قابل اصلاح یا گردن زدنی قرار دیا  ہے۔ان کے نزدیک غزل اور قصیدہ معتوب صنف سخن رہی ہیں۔جس کی مثالیں دیباچہ(مسدس)اور مقدمہ شعر و شاعری میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔بقول ظفر احمد صدیقی:

’’حالی کی ان تنقیدوں سے عام ذہن یہ بنا کہ قصائد میں نری  لفاظی ہوتی ہے ۔ ان سے خوشامدپسندانہ ذہنیت کو فروغ ملتا ہے۔ان میں سماجی افادیت کا پہلو مفقود ہے۔‘‘  (ایضاََ ص۷۳ )

یہ بات ہمارے علم میں ہے کہ حالی کی یہ تنقیدصرف اصلاحی نقطئہ نظر سے تھی۔اسی لیے وہ اپنی تحریروں؍ تنقیدوںمیں کلاسیکی شاعری کی شعریات بیان کرنے میں محتاط نظر آتے ہیں۔ظفر احمد صدیقی لکھتے ہیں:

’’یہ نہیں کہا جاسکتاکہ حالی نے کلاسیکی اصناف سخن کے بارے میںجو کچھ کہا یا لکھا اس کا منشا ان کی کم علمی یا لاعلمی تھا۔دراصل ان پر شاعری کی اصلاح اور اس کی سماجی افادیت کے تصورات کا ایسا غلبہ تھا کہ انھوں نے اپنی تنقیدوں میں کلاسیکی شاعری کے فنّی مسائل و مباحث سے بڑی حد تک صرف نظر کیا۔(ایضاََ ص ۷۴)

قصیدہ کلاسیکی صنف سخن ہے اور کلاسیکی دورمیں روایت کے تحت شاعری کی جاتی ہے،مضامین و موضوعات کی شاعری کی جاتی ہے۔اس میں خیال آرائی کاغلبہ ہوتا ہے،خیال کی دنیا سجائی جاتی ہے۔جس طرح غزل کے کردار متعین ہوتے ہیں اسی طرح قصیدے کے کردار بھی متعین ہوتے ہیں ۔ مثلاََغزل میں شاعر ایک عاشق کا کردار پیش کرتا ہے،اس کا ایک خیالی اورفرضی محبوب ہوتا ہے،اسی کا ذکر کرتا ہے۔قصیدے میں وہ جس ممدوح کو پیش کرتا ہے اس  کے کچھ اوصاف و کردار ہوتے ہیں۔ہر قصیدہ گو یہ کہے گا کہ ہمارا ممدوح بہت سخی ہے،بہت بہادر ہے،رحم دل ہے وغیرہ۔اب قصیدہ گویوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ کرداروںکے اوصاف و کمالات کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی فنکارانہ صلاحیت کا مظاہرہ کریں۔موضوع سب کا ایک رہتا ہے البتہ پیرایۂ بیان اور انداز بیان بدلتا رہتاہے۔

اہل علم واقف ہیں کہ قصیدے کے موضوعات کا دائرہ محدود ہے۔اس لیے قصیدہ گو اپنی انفرادیت قائم کرنے کے لیے قصیدے کا جو تمہیدی حصہ ہوتا ہے اس میں مختلف علوم و فنون کا استعمال کرتا ہے،وہاں قصیدہ گویوں کو پوری آزادی ہوتی ہے کہ اصل موضوع پر آنے سے قبل اپنی  فنکارانہ صلاحیت کا بھرپور مظاہرہ کر سکیں۔

استادمحترم پروفیسر ظفر احمد صدیقی نے قصیدے کے درس و تدریس کے دوران جو مشکلات پیش آتی ہیںان کا سدباب کرتے ہوئے اپنی کتاب میںبعض تجاویز پیش کی ہیں ۔مثلاََ:

۱۔قصائد سے متعلق منفی رویہّ کو ختم کیا جائے۔

۲۔قصائدکی شعریات سے طلبا کو واقف کرایا جائے۔قصائد میںمضمون آفرینی،دقت پسندی ،مبالغہ پروری اور صنائع و بدائع کے جواز، ضرورت اور اہمیت پر روشنی ڈالی جائے۔

۳۔ڈاکٹر ابو محمد سحر نے انتخاب قصائداردو میں قصائد کے مشکل الفاظ اور مختلف علوم و فنون کی اصطلاحات و تلمیحات کو حل کر دیا ہے۔اردو کے تمام اساتذہ کو عموماََ اورقصیدے کے اساتذہ کو خصوصاََ اس سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہیے۔

۴۔قصیدے کے استاذ کو چاہیے کہ وہ اپنے شہر کے پرانے اساتذہ میں کسی سے شامل نصاب قصیدے کو سبقاََ سبقاََ ضرور پڑھ لے تا کہ وہ ہر شعر کے تمام الفاظ کا صحیح تلفظ کر سکے اور مفہوم کے سلسلے میںتذبذب کا شکار نہ ہو۔اس کے بغیر طلبا تک اس کا نفع عام اور فیض تام نہ ہو سکے گا۔

۵۔ابتدا میںطلبہ کو قصیدے کے پانچ سات شعر سے زیادہ نہ پڑھائے جائیں ۔

۶۔قصیدے کے درس میں طلباسے بلند خوانی ضرور کرائی جائے۔

۷۔قصیدے کے ہر شعر کی مکمل تفہیم کے بعد طلبا کو اس کا  مفہوم اختصارکے ساتھ لکھوا بھی دیا جائے۔لیکن یہ یاد رہے کہ تفہیم کے بغیر مفہوم لکھوانا لغواور بے فائدہ ہوگا۔

۸۔قصیدے کے درس میں آموختہ سننے کا اہتمام ضرور کیا جائے۔اس طرح کہ کبھی کسی طالب علم سے پوچھا جائے اور کبھی کسی سے۔

۹۔شامل نصاب ہرقصیدے کے پانچ سات پسندیدہ شعر ہر طالب علم کو ضرور یاد کرائے جائیں اور پھر ان سے انھیں زبانی سنا  بھی جائے۔یقین ہے کہ اس طرح اجنبیت کی دیواریں ٹوٹ جائیںگی اور قصیدہ ہمارے لیے نا محرم نہ رہے گا۔(ایضاََص۷۸)

مذکورہ بالاتجاویز کے پیش نظراب ہم استادمحترم کے کلاس روم کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کا طریقۂ درس و تعلیم کیسا رہا۔سابقہ سطور میں راقم نے عرض کیاہے کہ وہ کلاس روم میں جو بھی گفتگو کرتے تھے وہ ذہن پر نقش ہو جایا کرتی تھی اور بعض اہم باتیں جو لکھوایا کرتے تھے اس کا بیشتر حصہ اب بھی محفوظ ہے۔انھی کی روشنی میں ہم قصیدے کی کلاس کا نقشہ پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔

قصیدہ،اس کے فنی مسائل و مباحث؍رموز و نکات؍شعریات اور اس کی تدریس کا جب بھی ذکر ہوتا ہے تو مادر علمی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا شعبۂ اردو استاد محترم پروفیسر ظفر احمد صدیقی کے بغیر نامکمل تصور کیا جاتا ہے۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ۲۰۰۰۔۱۹۹۹ جب میں ایم ۔اے کر رہا تھاتو ایک دن ایجوکیشنل بک ہائوس،شمشاد مارکیٹ میںڈاکٹر نادر علی خاں سے ملاقات ہوئی۔انھوں نے شعبہ کے حوالے سے بہت ساری باتیںکیں،دوران گفتگو انھوں نے دریافت کیا کہ میاں قصیدہ کون پڑھا رہا ہے؟ میں نے ظفر صاحب کا نام لیا،بہت خوش ہوئے اور کہا کہ شعبے میں پہلا شخص ہے جوصنف قصیدہ اورمتن قصیدہ کا حق ادا کر ے گا۔ورنہ اس صنف کو پڑھنے سے طلبا تو دامن بچاتے ہی ہیں، اساتذہ بھی گھبراتے ہیں۔نادر صاحب نے بالکل درست فرمایا تھا۔استاد محترم کی قصیدے کی کلاس بالکل غزل کی کلاس لگتی تھی،خوب مزے لے لے کر ایک ایک شعر پڑھتے اور پھر اس کی بھر پور توضیح و تشریح کرتے۔آخر میں اس کا مفہوم بھی لکھوا دیا کرتے تھے۔ دوسرے دن انھی اشعار کی طلبا سے بلند خوانی کراتے اور اس کا مفہوم بھی پوچھتے تھے۔اس کے بعد آئندہ شعر کا نمبر آتاتھا۔استادمحترم پروفیسر ظفر احمد صدیقی کا یہ انوکھا اور نرالا اندازہم طلبا کے لیے بہت سودمند ثابت ہوتا،قصیدے جیساخشک موضوع بھی دلچسپ ہو جاتااورہم سب کو مزہ آنے لگتاتھا۔

قصیدے کی تدریس سے پہلے استاد محترم پروفیسر ظفر احمد صدیقی نے ہمیں صنف قصیدہ کے تعلق سے بہت اہم اور بنیادی باتیں بتائیںمثلاََ جس طرح سے کوئی دریا ہے،اس کا منبع وآغاز ہوتا ہے اسی طرح سے اصناف سخن کا بھی ایک منبع ہوتا ہے۔قصیدے کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ایک دور میں یہ سب سے مقبول تھا،اب اسے کلاسیکی صنف سخن کی حیثیت سے پڑھتے ہیں۔اردو قصیدہ اصلاََ فارسی سے ماخوذ ہے اورفارسی قصیدہ نے عربی کی مدحیہ شاعری سے ہیئت اور اجزائے ترکیبی حاصل کی ہیں۔قصیدے کی مکمل تاریخ کامفصل خاکہ؍نقشہ پیش کیا جیسے کہ عربی شاعری کے کلاسیکی دور کے لحاظ سے تین ادوار ہیں اوّل دور جاہلیت ،دوم صدر اسلام یا بنو امیہ کا دور اور سوم بنو عباس یا عہد عباسی۔اس کے بعد ہر دور کی شاعری کی خصوصیات اور تفصیلات کا ذکر کرتے۔قصیدے کا دکنی دور اور شمالی ہندوستان کا دور مفصل بیان کرنے کے بعدپھر اصل متن؍سبق کی طرف رجوع کرتے۔

اگر اصولی طور پر دیکھا جائے تو اصل سبق شروع کرنے سے قبل تمہید سبق کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں،جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ استاد محترم پروفیسر ظفر احمد صدیقی نے قصیدے کے متن کی تدریس سے پہلے تمہیدی گفتگو میں قصیدے کی پوری تاریخ؍ روایت ،اس کے فنی مباحث؍شعریات اور اس کی اہمیت و افادیت پر سیر حاصل بحث کی۔تمہیدی گفتگو ہی کسی سبق کی اہم منزل ہے اور اسی پر کسی سبق کی کامیابی و ناکامی کا انحصار ہوتا ہے۔تمہیدی گفتگو سے طلبا کاذہن اصل متن ؍سبق پڑھنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔

آموختہ سننا بھی ایک ضروری اور اہم عمل ہے اس کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ طلبا کو جومعلومات حاصل ہوئی ہیں وہ ذہن پر پوری طرح نقش ہو جانے کے ساتھ ساتھ ازبر بھی ہو جائیں۔

شعبۂ اردو،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایم ۔اے (سال دوم)کی کلاس میں قصیدے کا نصاب کل پانچ قصائد پر مشتمل تھا۔جن میںمحمد نصرت نصرتی کا قصیدہ’’قصیدہ بادشاہ غازی بیجاپورکو آنے کا‘‘جس کا مطلع ہے’اے شہ توں ہم نام علی،شاہاں پو تیری سروری‘۔مرزا محمد رفیع سودا کا قصیدہ’’قصیدہ در نعت‘‘جس کا پہلا مصرع’ہوا جب کفر ثابت،ہے وہ تمغاے مسلمانی‘۔شیخ محمد ابراہیم ذوق کا قصیدہ’’قصیدہ در مدح بہادر شاہ ظفر‘‘جس کا پہلا مصرع ہے’ساون میں دیا پھر مہ شوّال دکھائی‘۔مرزا اسداللہ خاں غالب کا قصیدہ’’قصیدہ در منقبت حضرت علی‘‘جس کا پہلا مصرع ہے’دہر جز جلوئہ یکتائی معشوق نہیں‘۔اورمحسن کاکوروی کا قصیدہ ’’مدیح خیرالمرسلین ﷺ‘‘جس کا پہلا مصرع’سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل‘۔

مناسب معلوم ہوتا ہے کی ہر قصیدے کا ایک ایک شعراستا دمحترم کے پڑھائے ہوئے طریقے کے مطابق نقل کر دیا جائے تاکہ اساتذہ اور طلبا کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بنے۔نصرتی کے قصیدے کا دوسرا شعرــ   ؎

سب دھرت کے تختے پوتوں جب شش جہت کو بند کیا

دندی معطّل ہو پڑیا،یک یک ہو مہرہ ششدری

ظفر صاحب شعر کے مشکل الفاظ کے معنی بتانے کے بعد پھر اس کی تشریح کرتے،بعدازاں اس کا مفہوم لکھوانے کا سلسلہ شروع ہوتا۔مثلاََ دھرت۔ زمین،دندی۔دشمن،پڑیا۔پڑا(ماضی مطلق کا صیغہ)،ششدری۔منسوب بہ ششدر،یاے نسبتی ہے،ششدر ہونا۔شطرنج میںمہرے کی چال کا ہر طرف سے بند ہونا،مجازی معنی عاجز ہونا،حیران ہونا۔اب اس شعر کی تشریح ملاحظہ ہو:اے بادشاہ جب آپ نے زمین کے تختے پر چھے کی چھے سمتوں کو بند کر دیا تو آپ کا ایک ایک دشمن ششدر مہرے کی طرح معطل ہو کر پڑ گیا۔

سودا کے قصیدے کا مطلع ملاحظہ ہو   ـ؎

ہوا جب کفر ثابت، ہے وہ تمغاے مسلمانی

نہ  ٹوٹی  شیخ  سے  زنا ر  تسبیح   سلیمانی

تمغا۔اعزازی نشان،سند،امتیاز،زنّار۔اس کے دو معنی ہیںاو ل وہ قدرتی آڑی لکیر یا دھاری جو نگینوں میں ہوتی ہے،دوم وہ دھاگا جسے ہندو گلے سے بغل کے نیچے تک ڈالتے ہیں اور عیسائی،مجوسی اور یہودی کمر میں پہنتے ہیں،زنّار تسبیح سلیمانی۔وہ سفید لکیر جو تسبیح سلیمانی کے دانوں میںہوتی ہے،سلیمانی۔وہ سیاہ پتھر جس میں سفید لکیر ہوتی ہے،اس کے دانوں سے تسبیح بناتے ہیں۔

سودا نے یہ قصیدہ فارسی زمین میںلکھا ہے،یہ نعتیہ قصیدہ ہے۔پہلا حصہ تشبیب پر مشتمل ہے، تشبیب کی بہت سی قسمیں ہیں،یہ تشبیب حکمت و دانشور ی کی تشبیب ہے،یعنی فلسفہ و حکمت کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔تشبیب کے ہر شعر میںکوئی نہ کوئی حکیمانہ یا فلسفیانہ نکتہ پیش کیا گیا ہے۔اس شعر میں یہ دعوی پیش کیا ہے کہ استقامت اور ثابت قدمی بہت بڑا وصف ہے،بہت بڑی قابل قدر صفت ہے۔اتنی بڑی کہ کفر کو ایمان کا درجہ نصیب ہو سکتا ہے یعنی کفر جیسی ادنی چیز میں بھی اگر استقامت اور ثابت قدمی پائی جاتی ہے تووہ تمغۂ اسلام بن سکتا ہے۔اسلام جیسی اعلی چیز کے لیے باعث امتیاز و افتخار بن سکتا ہے۔کفر میں اگر دوام کی صفت پیدا ہو جائے تو یہ اسلام کے لیے باعث امتیاز ہے۔دوسرے مصرعے میں دلیل پیش کرتے ہوئے کہتے ہیںکہ سنگ سلیمانی سے بنی ہوئی تسبیح کے دانوں میں جو دھاریاں ہوتی ہیں انھیں زنّار کہتے ہیں،یہ دانوں میں اس طرح پیوست ہوتی ہیں کہ شیخ اگر چاہے توبھی انھیں توڑ نہیں سکتا لہذا معلوم ہوا کہ زنّار یعنی علامت کفر تسبیح سلیمانی میں ثابت و مستحکم ہے اور دوسری جانب یہی دھاریاں تسبیح سلیمانی کا حسن بھی ہیں۔لہذا معلوم ہوا کہ کفر جب ثابت ہو جائے تو وہ اسلام کے لیے باعث افتخار بن جاتا ہے۔

ظفر صاحب جب قصیدے کے اشعار کی تشریح کرتے تو زیر بحث اشعار کی تشریح کرتے وقت اس موضوع ؍مضامین سے متعلق دیگر شعرا کے اشعا ر بھی پیش کرتے،جس کا فائدہ یہ ہوتاکہ ایک موضوع سے متعلق کئی اشعار جمع ہو جاتے۔مثلاََ مذکورہ اشعار کے ذیل میں انھوں نے میر،غالب، ذوق وغیرہ کے اشعار بھی طلبا کے سامنے پیش کیے۔مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میر کا شعر نقل کر دیا جائے   ؎

کفر کچھ چاہیے اسلام کی رونق کے لیے

حسن،  زنّار  ہے  تسبیح  سلیمانی  کا

اب ذوق کے قصیدہ کا دوسرا شعر پیش خدمت ہے   ؎

کرتا ہے ہلال ابروے پرخم سے اشارہ

ساقی کو کہ بھر بادہ سے کشتیٔ طلائی

ذوق نے یہ قصیدہ عید کی تہنیت پر لکھا ہے۔یہاں حسن تعلیل کا پیرایہ اپنایا ہے۔آسمان پر نکلاہوا شروع مہینے کا چاندجو ابرو کی مانند ہے،گو یا اپنے ابرؤں سے ساقی کو اشارہ کر رہا ہے کہ تم سنہری کشتی کے اندر سجا کر شراب لے آؤ اور پینے والوں کو پیش کر دو۔گویا اس بات کی علامت ہے کہ رمضان بھرلوگوں کے پینے پلانے کا سلسلہ بندتھا،اسے پھر شروع کر دو۔

چونکہ ہلال کی شکل ابرو کے مشابہ ہوتی ہے اور ابرو کا استعمال اشارے کے لیے کیا جاتا ہے۔اس لیے شاعر حسن تعلیل کے طور پر کہتا ہے کہ عید کا چاند اشارہ کر رہا ہے۔

ابرو،پرخم،اور اشارے کے درمیان مناسبت ہے۔اسی طرح ساقی ،بادہ اور کشتی بھی باہم ایک دوسرے سے مناسبت رکھتے ہیں۔

غالب کے قصیدے کا مطلع ملاحظہ ہو   ؎

دہر  جز  جلوئہ  یکتائی  معشوق  نہیں

ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خودبیں

دہر۔زمانہ،یکتائی۔منفرد ہونا ،اکیلا ہونا،خود بیں۔اپنے آپ کو دیکھنے والا۔

غالب نے وحدت الوجود کے فلسفے پر اپنے اس قصیدے کی بنیاد رکھی ہے۔یہ غالب کی جدت اور انفرادیت ہے۔غالب سے پہلے کسی اور شاعر نے اس فلسفے پراپنے قصیدے کی بنیاد نہیں رکھی۔یہ مضمون صرف غزلوں میں ہوتا تھا۔وحدت الوجود کی تفصیلات کے ذیل میںاستاد محترم نے بتایا کہ یہ تصوف کی ایک اصطلاح ہے۔صوفی وحدت الوجود کا قائل ہے۔سورج کے طلوع ہو جانے کے بعد آسمان پر ستاروں کا وجود نہیں ہوتا یہ غلط ہے۔بلکہ اس کی روشنی ماند پڑ جاتی ہے ایسے ہی صوفی کہتا ہے کہ ہر چیز فانی ہے حقیقی وجود صرف اللہ کا ہے۔صوفی کو اللہ کے علاوہ کوئی نہیں دکھائی دیتا۔ اللہ کی ذات کے طلوع ہو جانے کے بعد دنیا میں کسی جلوے کا وجود نظر نہیں آتا۔

شاعر نے قصیدے کے مطلع میں وحدت الوجود کا مضمون نظم کیا ہے۔وہ کہتا ہے کہ زمانہ یعنی کائنات میںجو کچھ نظر آتا ہے وہ معشو ق حقیقی کی یکتائی کے جلوے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔یعنی کائنات کی ہر چیز در حقیقت معشوق حقیقی کے مختلف جلوے ہیں۔شاعر دوسرے مصرعے میں کہتا ہے کہ حسن حقیقی یعنی اللہ کا حسن،اللہ نے چاہا کہ وہ اپنے جلوئو کو دیکھے،اس لیے ہم کو یعنی انسانوں کو اور کائنات کی دوسری مخلوقات کو وجود بخشا تاکہ اس آئینے میں وہ اپنے جلوئو ں کا مشاہدہ کرے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ یہ کائنات اور اس کی رنگا رنگ مخلوقات در حقیقت اپنا کوئی وجود نہیں رکھتیں۔یہ سب محض معشوق حقیقی کے جلوئوںکے ظہور کی مختلف شکلیں ہیں۔

محسن کاکوروی کے قصیدہ کا پہلا شعر   ؎

سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل

برق کے کاندھے پہ لاتی ہے صبا گنگا جل

مذکورہ قصیدے کے تعلق سے استاد محترم کی بتائی ہوئی اہم باتوں میں ایک تو یہ کہ اس پر اعتراض کیا گیا کہ جب نعتیہ قصیدہ لکھنا ہے تو ہندو دیو مالا کااستعمال کیو ں کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس بات پر اعتراض ہے دراصل وہی اس قصیدے کا حسن ہے۔یہ سب سے طویل قصیدہ ہے،اس میںمستانہ کیفیت پائی جاتی ہے۔یہاں شاعر کاذہن بہکتا ہوا کاشی اور متھرا کی جانب چلا گیا ہے،پھر دھیرے دھیرے اصل موضوع کی طرف مائل ہوا ہے۔یہ قصیدہ تمام نعتیہ قصیدوں میں سب سے اہم ہے۔

محسن کاکوروی کے کلیات میں پانچ قصیدے ہیں اور ان سب کا تعلق نعت سے ہے۔ان کے نام ترتیب وار اس طرح ہیں:گلدستۂ کلام رحمت،ابیات نعت،مدیح خیر المرسلینﷺ،نظم دل افروز اور انیس آخرت۔ان تمام قصیدوں میں زیر بحث قصیدہ ہی سب سے زیادہ مقبول اور منفرد ہے۔ظفر احمد صدیقی نے اپنی کتاب قصیدہ:اصل،ہیئت اور حدود میں اس قصیدے کے ذیل میں لکھا ہے:

’’اس قصیدے کے تمام اشعار لام پر ختم ہو تے ہیں۔اس لیے اسے قصیدئہ لامیہ کہتے ہیں۔یہ غیر مردف ہے۔اصلاََ یہ زمین عرفی کی ہے اور محسن نے عرفی کی زمین میں یہ قصیدہ لکھا ہے۔سودا نے بھی اس زمین میں لامیہ قصیدہ حضرت علی کی منقبت میں لکھا ہے۔مدیح خیرالمرسلینﷺ اس قصیدے کا تاریخی نام ہے ۔اس سے۱۲۹۳ھ(۱۸۷۶)برآمد ہوتا ہے۔‘‘(ایضاََص۲۰۱)

محسن کاکوروی نے اس نعتیہ قصیدے کی تشبیب بہاریہ رکھی ہے یعنی اس میں ابر،باد،برق اور بارش وغیرہ کا ذکر ہے۔یہ بھی اہتمام کیا ہے کہ اس میں ہندو اساطیر،ہندو دیو مالااور ہندو تلمیحات کا خاص طور پر ذکر ہوتا رہے۔اس سے ان کا مقصد یہ ہے کہ ہندوستانی ذہن اپنے ماحول سے نعت کے مضمون تک پہنچ جائے۔جیسا کہ ذکر ہوا کہ یہ قصیدہ بہاریہ ہے اور بہار کی وجہ سے پانی ،بادل وغیرہ کا ذکر ہے۔یہاں جس بہار کا ذکر ہو رہا ہے اس کا تعلق ہندوستان سے ہے۔

قصیدے کی تشریح کے دوران کلاس میں جو تفصیلات سامنے آئیںوہ اس طرح ہیں: کاشی پورب میں ہے اور متھرا اس کے پچھم میں۔ کاشی کی طرف سے متھراکی جانب بادل بھاگتے ہی جا رہے ہیں ،بات یہ ہے کہ متھرا والوں کو گنگا جل کی ضرورت پیش آگئی ہے۔ اس لیے یہ انتظام کیا گیا کہ جلدی سے کاشی سے متھرا کی جانب بادل کو روانہ کر دیا گیا۔اورباد صبابجلی کے کاندھے پر گنگا جل لانے کا انتظام کر رہی ہے۔

اس قصیدے کے مطلعے میںایک طرف بادل ،برق اور صبا وغیرہ الفاظ لاکر بہار اور اس کے لوازمات کا ذکر کیا ہے تو دوسری جانب کاشی ،متھرااور گنگا جل کے ذکر کے ذریعے  ہندوئوں کے مقدس مقامات اور پاکیزہ پانی کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے۔اس طرح دیکھا جائے تو شاعر نے پہلے شعر کے ذریعے ہی قصیدے کے تشبیب کی جہت متعین کر دی ہے۔

اس تفصیلی گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ قصیدے کی تدریس کے حوالے سے ظفراحمد صدیقی کا طریقۂ کار بالکل جداگانہ اور الگ نوعیت کا تھا۔اگر اس طریقے کو عمل میں لایا جائے تو طلبا کے لیے کارآمد اور مفید ثابت ہوگا۔گذشتہ سطور سے اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ استاد محترم قصیدے کی تدریس کے دوران کس طرح طلبا کے ذہن کی آبیاری کرتے تھے اور ان کے اندر قصیدے کا شوق اور دلچسپی قائم کر دیتے تھے کہ قصیدے جیسی خشک اور مشکل صنف بھی لطف و انبساط کا ذریعہ بن جاتی تھی۔قصیدے کی کلاس کے علاوہ ان کی ہر کلاس(راقم الحروف کو صنف مرثیہ ؍متن اور اقبالیات کی کلاس پڑھنے کا شرف بھی حاصل ہے)ایسی ہی ہوتی تھی گویا ساری باتیں ذہن پر نقش ہو رہی ہیں اور سیدھے دل کے اندر اترتی چلی جا رہی ہیں۔

٭٭٭

 

 


(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

 

 

 

ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com  پر بھیجنے کی زحمت کریں۔

 

Home Page

 

0 comment
0
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail
adbimiras

پچھلی پوسٹ
شاعری میں اگر طنزو مزاح کو سلیقے سے پیش کیا جائے تو یہ اپنے قا ری کو تادیر تسکین ضرور دیتی ہے:احمد علوی
اگلی پوسٹ
خالد جاوید کا افسانہ ‘تفریح کی ایک دوپہر’ – پروفیسر کوثر مظہری

یہ بھی پڑھیں

اردو قصیدہ گوئی : فن اور تشکیلی اجزا...

دسمبر 3, 2023

اردو اور عربی قصیدہ نگاری: ایک مطالعہ –...

فروری 6, 2022

مومن کی قصیدہ نگاری – پروفیسر کوثر مظہری

اگست 5, 2021

قصیدہ اور غزل: صنفی امتیازات و افتراقات کے...

جولائی 12, 2021

ذوق شکنی کی اساس کا تجزیاتی مطالعہ –...

جون 17, 2021

غالبؔ کی قصیدہ گوئی: ایک تنقیدی مطالعہ –...

مارچ 18, 2021

ذوق کی قصیدہ نگاری – امیر حمزہ 

مارچ 4, 2021

حسّان ؓبن ثابت اور محسن کاکوروی کی نعتیہ...

جنوری 9, 2021

عربی اردو قصائد کی تنقیدی تفہیم وتعبیر –...

دسمبر 2, 2020

دورِجاہلی کا روشن خیال قصیدہ گو شاعر : زہیر...

اکتوبر 8, 2020

تبصرہ کریں Cancel Reply

اپنا نام، ای میل اور ویبسائٹ اگلے تبصرہ کے لئے اس براؤزر میں محفوظ کریں

زمرہ جات

  • آج کا شعر (59)
  • اداریہ (6)
  • اسلامیات (182)
    • قرآن مجید (آڈیو) (3)
  • اشتہار (2)
  • پسندیدہ شعر (1)
  • تاریخِ تہذیب و ثقافت (12)
  • تحقیق و تنقید (117)
  • تخلیقی ادب (593)
    • افسانچہ (29)
    • افسانہ (201)
    • انشائیہ (18)
    • خاکہ (35)
    • رباعی (1)
    • غزل (141)
    • قصیدہ (3)
    • گلہائے عقیدت (28)
    • مرثیہ (6)
    • نظم (127)
  • تربیت (32)
  • تنقیدات (1,041)
    • ڈرامہ (14)
    • شاعری (534)
      • تجزیے (13)
      • شاعری کے مختلف رنگ (217)
      • غزل شناسی (204)
      • مثنوی کی تفہیم (8)
      • مرثیہ تنقید (7)
      • نظم فہمی (88)
    • صحافت (46)
    • طب (18)
    • فکشن (402)
      • افسانچے (3)
      • افسانہ کی تفہیم (214)
      • فکشن تنقید (13)
      • فکشن کے رنگ (24)
      • ناول شناسی (148)
    • قصیدہ کی تفہیم (15)
  • جامعاتی نصاب (12)
    • پی ڈی ایف (PDF) (6)
      • کتابیں (3)
    • ویڈیو (5)
  • روبرو (انٹرویو) (46)
  • کتاب کی بات (474)
  • گوشہ خواتین و اطفال (97)
    • پکوان (2)
  • متفرقات (2,130)
    • ادب کا مستقبل (112)
    • ادبی میراث کے بارے میں (9)
    • ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف (21)
    • تحفظ مادری زبان (24)
    • تراجم (33)
    • تعلیم (33)
    • خبر نامہ (896)
    • خصوصی مضامین (126)
    • سماجی اور سیاسی مضامین (228)
    • فکر و عمل (119)
    • نوشاد منظر Naushad Manzar (68)
  • مقابلہ جاتی امتحان (1)
  • نصابی مواد (256)
    • ویڈیو تدریس (7)

ہمیں فالو کریں

Facebook

ہمیں فالو کریں

Facebook

Follow Me

Facebook
Speed up your social site in 15 minutes, Free website transfer and script installation
  • Facebook
  • Twitter
  • Instagram
  • Youtube
  • Email
  • سر ورق
  • ہمارے بارے میں
  • ہم سے رابطہ

All Right Reserved. Designed and Developed by The Web Haat


اوپر جائیں