بھارت کی مٹی بہت زرخیز ہے اس نے بے شمار جیالوں کو جنم دیا اور پروان چڑھایا۔ لہذا ہم تمام ہندوستانی اپنے وطن عزیز ہندوستان پر ناز کرتے ہیں مگر بھارت ماتا اپنی جن اولادوں پر فخر کرتی ہے۔ ان میں ایک ناقابل فراموش نام مولانا ابولکلام آزاد کا ہے۔آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم تھے مجاہدِ آزادی ئ وطن مولانا ابوالکلام آزاد۔ ان کی قومی خدمات کی یاد میں خراج تحسین کے طور پر مولانا کے یوم پیدائش 11 نومبر کو ہندوستان میں قومی یومِ تعلیم منایا جاتا ہے۔ بعد از مرگ سال 1992 مین بھارت کے اس ویژنری جیالے کو دیش کے سب سے بڑے سمّان بھارت رتن سے بھی نوازا گیا۔ دنیا جانتی ہے کہ عظیم قومیں اپنے اسلاف اور انکے کارناموں و خدمات کو یاد رکھا کرتی ہیں۔ جو قومیں اپنے اسلاف کی عظمتوں کو فراموش کردیا کرتی ہیں ان کی آنے والی نسلیں بھی انہیں بھلا دیا کرتی ہیں۔ یہی عملی زندگی کی ریت بھی ہے۔ بقول معروف و مقبول شاعر مخمور دہلوی
جنہیں اب گردش افلاک پیدا کر نہیں سکتی
کچھ ایسی ہستیاں بھی دفن ہیں گور غریباں میں
مولانا آزاد کے تخلیقی ذہن کی حساسیت نے تعلیمی موضوع کے دائرہ ئ کار کو اور بھی زیادہ وسیع تر بنا دیا۔ نتیجتاً مولانا کی تنظیمی اور تخلیقی صلاحیتوں نے ہمارے وطن عزیز ہندوستان میں ماڈرن ایجوکیشن کے فیلڈ میں ٹھوس بنیادی تعمیری کاز کیے ہیں کہ آج بھی AICTE، UGC اور NBA اس کی مرہون منت ہیں۔ جدید بھارت میں اعلیٰ تعلیم، انجینئرنگ کی تعلیم اور ماڈرن ٹیکنالوجی پر مبنی ایجوکیشن ان کی ہی دین ہے۔ یہ منہ بولتے کارنامے مولانا آزاد کے ویژن اور ماڈرن تعلیمی مشن کے بین ثبوت ہیں۔ آج یوں ہی کتابوں اور نسبوں میں انھیں نہیں پڑھایا جارہا ہے۔مولانا آزاد جہاں ایک جانب کثیر الجہات علم داں تھے وہیں دوسری جانب دوراندیش ما ہر تعلیم بھی۔ اس ضمن میں سرحد پار کے معروف و مقبول شاعر ممتاز گورمانی کا زیر نظر شعر قرطاس پر آنا چاہ رہا:
ہم نے اک عمر کتابوں کے حوالے کی ہے
تب کہیں جا کے کتابوں کے حوالے ہوئے ہیں
مولانا مرحوم کو آزاد بھارت کے پہلے وزیر ِ تعلیم ہونے کی سعادت ملنے پروہ15/اگست 1947ء سے 22/فروری 1958ء تک وہ بر سر ِ عہدہ رہے۔ ان کی پیدائش 11/نومبر 1888ء کو مکہ ہوئی تھی جب ان کے والد بزرگوار کو 1857 کی جنگ آزادی کی وجہ سے وطن عزیر بھارت سے ہجرت کرکے مکہ میں سکونت اختیار کرنا پڑی۔ واضح ہو کہ مولانا محض ایک عام مذہبی مولانا نہیں تھے بلکہ ہندوستان کی جنگ آزادی کے ایک عظیم قائد و رہنما، متحرک جید عالم ِ دین، بے مثال دانشور، بہترین اسکالر اور سچا محب وطن بھی تھے۔ مولاناکی تعلیم کے میدان میں ناقابل ِ فراموش اور گراں قدر خدمات کے مدنظرماہ ستمبر 2008 میں وزارتِ ترقی انسانی وسائل کی جانب سے یہ فیصلہ لیا گیا کہ تعلیم کے میدان میں ملک کے اس عظیم سپوت کی گراں قدر خدمات کی یاد گار کو باقی رکھنے اور نئی نسل کو ان سے واقف کرانے کے لیے ہر سال 11/نومبر کو قومی یوم تعلیم کے طور پر منایا جائے گا۔ تب سے ہر سال اس دن کو پورے ملک میں قومی یومِ تعلیم (نیشنل ایجوکیشن ڈے)کے طور پر منایا جاتا ہے۔
علم کی ابتدا ہے ہنگامہ
علم کی انتہا ہے خاموشی
معتبر شاعر فردوس گیاوی کے مذکورہ شعر کے مصداق مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے علم کی انتہا میں خاموشی سے ماڈرن ایجوکیشن پر ہنگامائی پیرائے میں عدیم النظیر وبے لوث خدمات انجام دیئے۔ قابل غور بات ہے کہ مولانا کی تعلیمی دوراندیشی اور تنظیمی صلاحیت کا نتیجہ ہی تھا کہ آزادی سے قبل بھی جب عبوری حکومت قائم ہوئی تھی تب بھی مولانا آزاد کو وزارتِ تعلیم کا قلمدان ہی سونپا گیا تھا۔ جنگ آزادی میں جو لوگ سرگرم اور قائدانہ کردار ادا کر رہے تھے ان میں فراست علمی، مطالعہ کی وسعت و تنوع اور مختلف مشرقی و مغربی علوم پر گرفت کے اعتبار سے مولانا کی حیثیت امتیازی تھی۔ مولانا وزارت تعلیم جیسے اہم اور سنجیدہ قلمدان کے یقیناً اہل تھے مگر ان کا مقام اس سے بالا تر تھا۔ مولانا آزاد کا شمار گرچہ ماہر تعلیم کرنے میں اغیار کو قباحت ہو مگر یہ بات اظہر المنشمس ہے کہ تعلیم پر ان کا نظریہ مستقل اور مستحکم تھا۔ وہ مشرقی علوم کے پروردہ ہونے کے باوجود جدید اور وقت کی متقاضی تعلیم کے حامی تھے جس کی تحریک سرسید پہلے ہی چلا چکے تھے۔ مولانا خود بھی جن شخصیات سے متاثر تھے ان میں سرسید کی شخصیت بھی شامل ہے۔ واضح ہو کہ 18/ فروری 1947 کو ایک پریس کانفرنس میں تعلیم پر اظہار کرتے ہوئے مولانا آذاد نے کہا تھا:
”صحیح طور پر آزادانہ اور انسانی قدروں سے بھرپور تعلیم ہی لوگوں میں زبردست تبدیلی کا باعث ہوسکتی ہے اور انہیں ترقی کی طرف لے جاسکتی ہے۔“
یومِ تعلیم کے منانے کا مقصد تعلیمی اداروں کو مضبوط و مستحکم بنانا ہے۔ اور ملک میں معیاری تعلیم کو فروغ دینے کا عزم مصمم کرنے کے ساتھ ساتھ آزاد ہندوستان میں تعلیم کی بنیاد کو مضبوط کرنے میں مولانا آزاد کی خدمات کو ناقابل فراموش بنانا بھی ہے۔ مزید موجودہ تعلیمی کار کردگی کا جائزہ لینا اور جدید ہندوستان کی تعمیر میں تعلیم کے شعبے میں مولانا کی عظیم خدمات کو خراج تحسین پیش کرنا بھی ہے۔ تاریخی پس منظر میں مولانا ابوالکلام آزاد کا نام محی الدین احمد تھا اور والد نے فارسی کے مصرعے ”جواں بخت و جواں طالع، جواں باد“ سے ہجری سن کا استخراج کرتے ہوئے تاریخی نام ”فیروز بخت“ رکھا تھا۔ مولانا آزاد نے اپنی کتاب ’’تذکرہ“ میں محی الدین کی جگہ اپنا نام صرف احمد لکھا ہے۔ ابو الکلام آزاد ان کی کنیت تھی۔ ان کی پیدائش مقدس شہر مکہ (سعودی عرب) کے ایک معزز گھرانے میں میں ہوئی تھی۔جہاں ایک طرف شادمانی کی بات ہے کہ ہمارے اسلاف، آزادی کے متوالے اور محب وطن کی یاد میں کچھ مخصوص ”یوم/ڈے” منائے جاتے ہیں وہیں دوسری جانب یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ قومی یوم تعلیم حکومت کی ایک رسمی کارروائی ہے جو ہوتی ہے اور ہوا کرے۔ ہم اس کے لیے حکومت کے ممنون ہیں کہ اس نے مولانا آزاد کی یاد کو باقی رکھا۔ لیکن ہم مسلمان اگر اپنے طور پر یہ کوشش کریں کہ 6/ اگست سے 9/ستمبر کو ‘ماہِ تعلیم’ قرار دیکر تعلیمی بیداری کی ایک مہم چلائیں تاکہ ہمارے معاشرے میں مزید تعلیمی بیداری آئے اور وہ بچے جو اب بھی مفلوک الحالی، معاشی تنگی یا غفلت کے سبب تعلیم سے دور ہیں انہیں تعلیم سے جوڑ دیں۔ تب ہی مولانا کی یادگار و حقیقی خراج عقیدت کہلائے گی۔ اور مولانا کے لیے یہ کار خیر ایک صدقہ جاریہ کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ حکومت نے مختلف اسکیموں کے ذریعہ ایک نونہالوں کو تعلیم سے جوڑنے کی مہم چلا رکھی ہے اور شاید کاغذی سطح پر اب ہر بچہ کسی نہ کسی اسکول کا طالب علم بھی ہے لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ زمینی حقائق یہ نہیں ہیں۔ ہر شہر کے کچھ محلوں میں اب بھی بچے سڑکوں پر کچڑے چُنتے نظر آئیں گے اور ان کا تعلق اکثر و بیشتر اسلام و مسلمان سے ہوتا ہے۔ لہذا ہمارے مہذب سماج و معاشرے کے لیے یہ ایک لمحہئ فکریہ ہے۔ بہرحال ہندوستان کے اس عظیم جیالے نے 25/فروری 1958 کو 69 برس کی عمر میں اپنی آخری سانس لی۔ اور ہندوستان میں ایک نا بھرنے والا بڑا خلا پیدا کرکے ہمیشہ کے لیے سب کو خیر باد کہہ دیا۔
تاہم قلم کو روکنے سے قبل مولانا آذاد کے چند گرانقدر اور ناقابل فراموش کارنامے جو انھوں نے تعلیمی میدان انجام دیے ہیں۔ اس کی یاد دہانی کے لیے زیر نظر نکات پیش خدمے ہیں۔
(1)آئی ائی ٹی کھڑگپور کا قیام (بھارت کا پہلا آئی آئی ٹی)،
(2)وہ 1920ء میں اترپردیش کے علیگڑھ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام کی بنیادی کمیٹی کے ممبر بغیر برطانوی حکومت کے سپورٹ کے بنے۔
(3) سال 1934ء میں یونیورسٹی(جامعہ) کی آگرہ سے دہلی میں منتقلی میں اپنا اہم تعاون دیا۔ اپنے اخبار الہلال کے ذریعہ ہندو مسلم اتحاد پر کام کیا۔
(4) ان کی قیادت میں وزارت تعلیم کے تحت اولین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سال1951ء میں عمل میں آیا۔
(5) مزید 1953ء میں ہائیر ایجوکیشن کی انتظامی خدمات کے لیے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی بنیاد ڈالی۔
ان کی لکھی گئی کتابوں میں اہم نام غبار خاطر، الہلال، البلاغ، سورہ فاتحہ کا ترجمہ، قرآن مجید کا مکمل ترجمہ دو سیٹ، اور انڈیا وِنس فریڈم و غیرہ ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
تحریر:علی شاہد دلکش،
شعبہ:کمپیوٹر سائنس اینڈ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ،
کوچ بہار گورنمنٹ انجینئرنگ کالج،
رابطہ:8820239345