اللہ کے وسائل کا بہترین استعمال کرنا ہی عید الضحیٰ کا اصل پیغام ہے
_________
الف عاجز اعجاز
طولی نو پورہ کولگام
رابطہ : = 9622697944 , 7006275998
ای میل :- alifaajiz07@gmail.com
ذی الحجہ کے مبارک ایام اسلامی تقویم میں خاص اہمیت رکھتے ہیں، خصوصاً حج کے فریضے کی ادائیگی کے سبب۔ یہ دن اللہ کی محبت اور عقیدت کا عملی مظاہرہ ہیں، جہاں مسلمان اللہ کے گھر کی طرف پروانوں کی طرح جمع ہوتے ہیں، اپنی جان و مال کو اللہ کی رضا کے لئے وقف کر دیتے ہیں۔ یہ ایام اعلیٰ ترین روحانی تجربات اور پاکیزہ جذبات کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ان دنوں میں حاجیوں کے قافلے اللہ کے گھر کی جانب روانہ ہوتے ہیں، جہاں وہ محبت، وفاداری، اور اطاعت کی انتہا کو پہنچ کر اپنے رب کے حضور جھکتے ہیں۔ یہ ایام خدا کے عشق، اس کی محبت، اور اس کی خاطر اپنی زندگی وقف کرنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔ ذی الحجہ کے مبارک ایام مومنانہ جذبات سے بھرپور ہوتے ہیں، اور یہ جذبات ایک مومن کے سب سے قیمتی اثاثے ہیں۔ یہ ایام ہماری زندگیوں میں اللہ کی محبت، تقویٰ، اور قربانی کے اعلیٰ اصولوں کو یاد دلاتے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ یہ پاکیزہ جذبات ہمارے دل و دماغ میں رچ بس جائیں، ہمیشہ زندہ رہیں، اور ہماری شخصیت و زندگی انہی اصولوں کی بنیاد پر تعمیر ہو ۔ عید الاضحی کے موقع پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قربانی اور ان کے حنفیت پر مبنی اصول ہمارے سامنے آتے ہیں۔ مگر اس عید کا ایک اور اہم پہلو ہے جس پر آج روشنی ڈالنا چاہتا ہوں:
عید الاضحی ہمیں اتحاد اور مساوات کا سبق بھی سکھاتی ہے۔ یہ عید ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اللہ کے نزدیک سب انسان برابر ہیں اور سب کی قربانیاں یکساں اہمیت رکھتی ہیں۔ جانور کی قربانی کے ذریعے ہم یہ سیکھتے ہیں کہ اللہ کے راستے میں اپنی سب سے قیمتی چیز کو قربان کرنا ہماری ایمان کی تصدیق کرتا ہے۔ اسی طرح، ہمیں اپنے معاشرتی تعلقات میں بھی ایثار، قربانی، اور بھلائی کو فروغ دینا چاہئے تاکہ ہم حقیقی معنوں میں عید الاضحی کی روح کو سمجھ سکیں اور اس پر عمل پیرا ہو سکیں۔
(سورۃ الحج: آیت 37) ہمیں قربانی کے حقیقی مقصد کو سمجھاتی ہے۔ اللہ کے ہاں نہ جانوروں کا گوشت پہنچتا ہے، نہ ان کا خون، بلکہ ہماری طرف سے اخلاص، تقویٰ اور پرہیزگاری اللہ تک پہنچتی ہے۔ یہ آیت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ قربانی کا مقصد صرف جانور ذبح کرنا نہیں بلکہ اس کے پیچھے موجود تقویٰ اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کا جذبہ ہے۔
اللہ نے جانور ہمارے قابو میں دیے تاکہ ہم ان کی قربانی دے کر اس کی بڑائی بیان کریں اور اس کی عطا کردہ ہدایت کا شکر ادا کریں۔ قربانی کی اس روحانی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے کہ یہ ہمیں تقویٰ، اخلاص، اور اللہ کے قرب کا درس دیتی ہے۔ اس آیت کے ذریعے ہمیں یہ بھی پیغام دیا جاتا ہے کہ نیکی کرنے والوں کو خوشخبری دی جائے، یعنی جو لوگ اخلاص اور تقویٰ کے ساتھ نیکی کرتے ہیں، اللہ ان کو اپنی رحمتوں سے نوازتا ہے۔ عید الاضحی کا یہ اہم پہلو ہمیں اپنی نیتوں کی اصلاح کی طرف متوجہ کرتا ہے اور ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہر عمل کی اصل روح اللہ کی رضا اور تقویٰ ہونا چاہئے۔ اس طرح، ہم اپنی زندگیوں کو اللہ کی رضا کے مطابق ڈھال سکتے ہیں اور اس کی حقیقی خوشنودی حاصل کر سکتے ہیں۔
قرآن مجید کے مطابق، عیدین کی اصل روح اور فلسفہ "التكبر الله على ما هداكم” ہے، یعنی اللہ کی تکبیر اور اس کی بڑائی بیان کرنا ۔ عید الفطر اور عید الاضحی دونوں میں اللہ کی ہدایت اور اس کی رحمتوں کا شکر ادا کرنا مقصود ہے۔
عید الفطر میں اللہ کی تکبیر اس لئے بیان کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ماہ رمضان میں قرآن مجید نازل کیا، جو ہدایت اور رحمت کا سرچشمہ ہے۔ رمضان کا مہینہ قرآن کے نزول کا مہینہ ہے، اور اس پر اللہ کی بڑائی اور شکر ادا کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
عید الاضحی میں اللہ کی تکبیر قربانی کے احسان پر ہے۔ اللہ نے ہمیں ہدایت دی اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے جانور ہمارے قابو میں دیے تاکہ ہم اس کی راہ میں قربانی کریں اور اس کی بڑائی بیان کریں۔ اس طرح، دونوں عیدوں کا مقصد اللہ کی ہدایت اور اس کی عظمت کو تسلیم کرنا اور اس پر شکر گزار ہونا ہے۔
یہ فلسفہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہماری ہر عبادت اور عمل کا مقصد اللہ کی رضا اور اس کی بڑائی بیان کرنا ہونا چاہئے۔ ہمیں ہر وقت اللہ کے احسانات کو یاد رکھنا چاہئے اور اس کی تکبیر اور شکر ادا کرنا چاہئے۔ اس طرح ہم اپنی زندگیوں کو اللہ کی رضا کے مطابق ڈھال سکتے ہیں اور اس کی حقیقی خوشنودی حاصل کر سکتے ہیں۔
بیشک، عید الاضحی میں اللہ کی تکبیر بیان کرنا اس کی نعمتوں اور احسانات کا شکر ادا کرنا ہے، خاص طور پر کائنات کے وسائل کو ہمارے لیے مسخر کرنے کا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں زمین و آسمان کی قوتوں اور وسائل پر اختیار عطا کیا ہے، جو اس کی عظیم نعمت ہے۔
اسلام کے یہ دو عظیم تہوار، یعنی عید الفطر اور عید الاضحی، ایک مومن کی پوری زندگی کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دو عظیم نعمتیں عطا کی ہیں: ایک کائنات کے وسائل اور دوسری ہدایت و رہنمائی کی کتاب، یعنی قرآن مجید۔
یہ دونوں نعمتیں اس بات کا تقاضہ کرتی ہیں کہ ہم اللہ کا شکر ادا کریں اور اس کی بڑائی بیان کریں۔ ہمیں چاہیے کہ:
- اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے تھامے رکھیں: یہ ہدایت و رہنمائی کا سرچشمہ ہے اور ہماری زندگی کے ہر پہلو کو صحیح سمت میں لے جانے کا ذریعہ ہے۔
- اللہ کی مسخر کی ہوئی قوتوں کا استعمال کریں: ان وسائل کو قرآن کی ہدایت کے مطابق استعمال کریں، تاکہ ہم اللہ کی رضا حاصل کر سکیں اور اپنی دنیاوی زندگی کو بھی بہتر بنا سکیں۔
یہ فلسفہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اللہ کی عطا کردہ قوتوں اور وسائل کو صحیح طریقے سے استعمال کرنا اور اس کی ہدایت کے مطابق اپنی زندگی گزارنا ایک مومن کی ذمہ داری ہے۔ اللہ کی ان نعمتوں کا شکر ادا کرنا، اس کی بڑائی بیان کرنا، اور اس کی ہدایت پر عمل پیرا ہونا ہی مومن کی اصل کامیابی ہے۔ یوں، عیدین نہ صرف جشن منانے کے مواقع ہیں بلکہ ہمیں اللہ کی نعمتوں کی قدر کرنے، ان کا صحیح استعمال کرنے اور اس کے شکر گزار بندے بننے کی ترغیب دیتے ہیں۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہمیں ہر وقت اس کی تکبیر بیان کرنی چاہیے اور اس کی عطا کردہ ہدایت پر عمل کرنا چاہیے۔
عیدین ہمیں دو اہم ذمہ داریوں کی یاد دہانی کراتے ہیں:
- اعلاء کلمة اللہ: یعنی اللہ کے کلمہ کو بلند کرنا۔ جیسے ہم دونوں عیدوں میں تکبیر کی صدائیں بلند کرتے ہیں، یہ ہمارے ایمان کا اظہار اور اللہ کی عظمت کو بیان کرنے کا طریقہ ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہماری زندگی کا مقصد اللہ کے کلمہ کو بلند کرنا ہے۔
- اللہ کی مخلوق کو فائدہ پہنچانا: اللہ کی رہنمائی کے مطابق ہمیں اللہ کی مخلوق کو فائدہ پہنچانا چاہیے۔ عید الفطر میں ہم صدقہ فطر کے ذریعے ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں، جبکہ عید الاضحی میں قربانی کا گوشت تقسیم کرکے غریبوں اور ضرورت مندوں کو خوشی پہنچاتے ہیں۔
سورہ حج کی آیات میں قربانی کے حوالے سے بیان کی گئی باتیں دراصل کائنات کے وسائل کے بارے میں بھی ہیں۔ قرآن مجید میں بار بار ذکر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی مختلف چیزوں کو انسانوں کے لئے مسخر کیا ہے۔ یہ اللہ کے انعام اور احسانات ہیں۔
مثال کے طور پر:
– ° قرآن میں مختلف وسائل کا تذکرہ:° اللہ تعالیٰ نے سورج، چاند، ستارے، ہوا، پانی، اور زمین کی تمام نعمتوں کو انسانوں کے لئے مسخر کیا ہے۔ ان نعمتوں کا ذکر قرآن مجید میں تقریباً 23 دفعہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان وسائل کو ہمارے فائدے کے لئے تخلیق کیا ہے، اور یہ اس کی عظیم نعمتیں ہیں۔
– ° انعام اور احسان: ° اللہ تعالیٰ نے ان وسائل کو اپنے انعام اور احسان کے طور پر بیان کیا ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں ان وسائل کا صحیح استعمال کرنا چاہیے اور ان پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
ان آیات اور تعلیمات کے مطابق، ہمیں چاہئے کہ ہم اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو پہچانیں، ان کا صحیح استعمال کریں، اور ان کے ذریعے اللہ کی مخلوق کو فائدہ پہنچائیں۔ یہی دونوں عیدین کا اصل فلسفہ ہے اور مومن کی پوری زندگی کا مقصد بھی یہی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے کائنات کے تمام وسائل اور نعمتوں کو انسانوں کے فائدے اور استعمال کے لیے مخصوص کر دیا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان ان وسائل کو اپنے فائدے، ترقی اور معاشرتی بھلائی کے لیے استعمال کر سکیں۔ مفسرین قرآن نے اس کے دو اہم مفہوم بیان کیے ہیں:
- نظام کی اطاعت: اللہ تعالیٰ نے سورج، چاند، رات، اور دن کو ایک باقاعدہ نظام کے تابع بنایا ہے، جو ہمیشہ اپنی مقررہ مدار میں گردش کرتے رہتے ہیں۔ اس نظام کے تحت، یہ تمام مخلوقات انسانوں کے فائدے کے لیے کام کرتی ہیں۔ جیسے:
– ° سورج اور چاند: ° یہ نہ صرف روشنی اور حرارت فراہم کرتے ہیں بلکہ موسموں کی تبدیلی، فصلوں کی نشوونما، اور وقت کی پیمائش میں بھی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
– ° رات اور دن: ° یہ انسانوں کے آرام اور کام کے نظام کو برقرار رکھتے ہیں، رات آرام اور سکون کے لیے اور دن کام اور سرگرمیوں کے لیے۔
- آسمان و زمین کے وسائل: اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی تمام چیزوں کو انسانوں کے فائدے کے لیے مسخر کیا ہے۔ یہ وسائل زمین کی زرخیزی، پانی، ہوا، معدنیات، پودے، جانور اور دیگر نعمتیں شامل ہیں جو انسانوں کی ضروریات پوری کرتی ہیں۔ جیسے:
– ° زمین کے وسائل:° کھیتی باڑی، معدنیات، جنگلات، اور پانی کے ذخائر، جو انسانوں کی خوراک، توانائی، اور دیگر ضروریات پوری کرتے ہیں۔
– ° آسمان کے وسائل:° فضاء، موسمی حالات، بارش، اور سورج کی روشنی، جو زراعت اور زندگی کے دیگر پہلوؤں کے لیے ضروری ہیں۔
یہ آیات ہمیں یہ پیغام دیتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز کو انسانوں کے فائدے کے لیے تخلیق کیا ہے، اور ہمیں ان وسائل کو صحیح طریقے سے استعمال کرنے کی ہدایت دی ہے۔ ہمیں ان نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیے اور انہیں اپنی بھلائی اور اللہ کی رضا کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔
مثال کے طور پر:
– • سورۃ ابراہیم (14:32-33): "اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا پھر اس کے ذریعہ سے تمہارے رزق کے لیے پھل پیدا کیے، اور اس نے تمہارے لیے کشتیوں کو مسخر کیا تاکہ اس کے حکم سے سمندر میں چلیں، اور اس نے دریا بھی تمہارے لیے مسخر کیے۔”
– • سورۃ النحل (16:12): "اور اس نے تمہارے لیے رات اور دن، سورج اور چاند کو مسخر کیا، اور ستارے بھی اس کے حکم کے تابع ہیں۔”
یہ سب چیزیں انسانوں کے لیے فائدے اور ترقی کا ذریعہ ہیں، اور ان کا صحیح استعمال ہی اللہ کی رضا کا سبب بنتا ہے۔
بیشک، اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تمام چیزوں کو انسانوں کے فائدے کے لئے مخصوص قوانین کا پابند بنایا ہے، تاکہ یہ چیزیں انسانوں کے لئے ایک مفید اور موافق نظام میں کام کریں۔ سورج، چاند، اور دیگر کائناتی عناصر اس طرح متعین کیے گئے ہیں کہ وہ انسانوں کی زندگی کے لئے سازگار ماحول فراہم کریں۔
قوانین فطرت اور شکرگزاری
- ° موسم اور درجہ حرارت:° سورج کبھی اتنا گرم نہیں ہوتا کہ ہم جل جائیں اور نہ ہی اتنا سرد کہ ہم ٹھٹھر جائیں۔ ایک خاص درجہ حرارت کی رینج میں گرمی اور سردی کا توازن برقرار رہتا ہے، جو کہ انسانوں اور دیگر جانداروں کے لئے ضروری ہے۔ یہ مختلف موسم مختلف طرح کے ارگنزمز کے لئے سازگار ہوتے ہیں جو کہ انسانوں کے لئے فائدہ مند ہوتے ہیں۔
2 .° مفید ارگنزمز: ° کچھ ارگنزمز شدید گرمی میں پیدا ہوتے ہیں جبکہ کچھ سردی میں، جیسے کہ مختلف پھل اور زرعی پیداوار کے لئے مختلف موسم ضروری ہوتے ہیں۔
3 ۔ ° زرعی پیداوار: ° سورج کی حرارت اور روشنی زرعی پیداوار کے لئے ضروری ہیں۔ مختلف فصلیں اور پھل مختلف موسموں میں اگتے ہیں، اور یہ سب قدرت کے قوانین کے مطابق ہوتا ہے۔
فطرت کے قوانین کو سمجھنا اور ان کا استعمال:
اللہ نے ہمیں ان نعمتوں کا شکر گزار بننے کا حکم دیا ہے، اور اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم فطرت کے قوانین کو سمجھیں اور ان وسائل کا بہترین استعمال کریں۔
– سائنس اور تحقیق: اللہ کی نعمتوں کی شکرگزاری کا تقاضہ ہے کہ ہم فطرت کے قوانین کو جاننے کی کوشش کریں۔ سائنس اور تحقیق کے ذریعے ہم ان قوانین کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اور ان وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کر سکتے ہیں۔
– بہتر استعمال: جب ہم فطرت کے قوانین کو سمجھتے ہیں، تو ہم ان وسائل کا زیادہ موثر اور مفید استعمال کر سکتے ہیں، جو کہ نہ صرف ہماری ضروریات کو پورا کرتا ہے بلکہ اللہ کی رضا کا بھی سبب بنتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے کائنات کو انسانوں کے لئے مسخر کیا ہے، اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان نعمتوں کا صحیح استعمال کریں۔ ہمیں فطرت کے قوانین کو سمجھنا چاہئے تاکہ ہم ان وسائل سے بہترین فائدہ اٹھا سکیں اور اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کریں۔ اس طرح، ہم نہ صرف اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ اللہ کی رضا بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
فطرت کے نعمتوں کا استعمال
- ° کشتیاں اور دریا: ° اللہ تعالیٰ نے کشتیاں ہمارے لئے مسخر کی ہیں تاکہ ہم ان سے دریاوں میں سفر کریں، گوشت کے لئے صید کریں، اور زیورات نکالیں جو ہم پہنتے ہیں۔ یہ ان وسائل کی استعمال کا بہترین مثال ہے جو اللہ کی نعمتوں کو شکر گزاری کا صحیح طریقہ ہے۔
– ° علم اور ٹیکنالوجی:° یہ تسخیر کا کام علم اور ٹیکنالوجی کا استعمال چاہتا ہے۔ جیسے کہ مختلف علوم، جیولوجی، زراعت، اور ماحولیاتی علوم وغیرہ کے ذریعے ہم زمینی وسائل کو بہترین طریقے سے استعمال کر سکتے ہیں۔
– ° فائدہ مند استعمال: ° ہمیں ان وسائل کو اپنے اور دوسرے انسانوں کے فائدہ کے لئے استعمال کرنا چاہیے۔ جب ہم ان نعمتوں کا صحیح استعمال کرتے ہیں، تو ہم اللہ کی رضا حاصل کرتے ہیں اور ان کے دوسرے بندوں کے لئے بھی فائدہ مند بنا سکتے ہیں۔
یہاں کچھ طریقے بیان کیے جا رہے ہیں کہ کیسے ہم وسائل کو استعمال میں لا سکتے ہیں اور انہیں اللہ کی رضا کے لیے استعمال کر سکتے ہیں:
- استعمال کی مرادشناخت: پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم وسائل کو صحیح طریقے سے شناختیں۔ یعنی ہمیں ان کے بارے میں علم حاصل کرنا چاہیے کہ یہ ہمیں کس طرح کی مدد فراہم کر سکتے ہیں اور ہم انہیں کس طرح استعمال کر سکتے ہیں۔ مثلاً، زرعی وسائل کے استعمال میں ہمیں زرعی علم کا استعمال کرنا ہوگا۔
- اللہ کی رضا کے لیے استعمال: ہمیں وسائل کے استعمال میں اللہ کی رضا کی طلب ہونی چاہیے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ سب وسائل اللہ کی نعمتیں ہیں اور ہمیں ان کا استعمال اس طرح کرنا چاہیے جو اللہ کے حکم کے مطابق ہو۔
- شکر گزاری اور تعلق برقرار کرنا: جب ہم وسائل کو استعمال کرتے ہیں، تو ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور ان سے تعلق قائم رکھنا چاہیے۔ جیسے کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے:
"وَتَقُولُوا سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ”
"اور کہو کہ پاک ہے وہ جس نے ہمارے لیے ان چیزوں کو مسخر کر دیا، اور ہم ان کو قابو میں لانے کی طاقت نہ رکھتے تھے۔”
- دوسروں کے فائدے کے لیے استعمال: ہمیں وسائل کو صرف اپنے فائدے کے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے بھی فائدے کے لیے بھی استعمال کرنا چاہیے۔ اسی طرح جیسے عیدالاضحیٰ میں جانوروں کی قربانی کے زریعے ہم ان کے گوشت کا حصہ بناتے ہیں اور اسے غریبوں تک پہنچاتے ہیں۔
- استعمال کا اختیار: وسائل کو استعمال کرتے وقت ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہم انہیں کس طرح استعمال کر رہے ہیں اور کیا ہمارا استعمال اللہ کے حکم کے مطابق ہے یا نہیں۔
- زمینی وسائل کی ترویج: ان وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے کیلئے ہمیں علم، صلاحیت، اور ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا ہوگا۔ مثلاً، زرعی وسائل کے استعمال میں ہمیں بہترین زرعی تکنیک اور ماحولیاتی علم کا استعمال کرنا ہوگا تاکہ زمین کی فراہم کردہ نعمتوں کو بہتر طریقے سے استعمال کیا جا سکے۔
ان تمام موارد کو دیکھتے ہوئے، ہمیں وسائل کو استعمال میں لانے کے لیے شکر گزار ہونا چاہیے اور ان کے استعمال میں انتہائی محنت کرنی چاہیے تاکہ ہم اللہ کی رضا حاصل کر سکیں اور دنیا کے مجبور اور غریب انسانوں کو بھی ان وسائل کے ذریعے فائدہ پہنچا سکیں۔
بیشک، عید الاضحیٰ اور قربانی کے روایات میں "تسخیر” اور "تکبیر” کے اہم پیغامات موجود ہیں جو اسلامی عقائد اور عملیات کا اہم حصہ ہیں۔ قرآن مجید میں سورہ حج کی آیات جہاں قربانی کا ذکر آیا ہے، انہیں عید الاضحیٰ کے مقصد کو بیان کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
تسخیر کا مطلب ہے وسائل اور نعمتوں کو اللہ کے دیئے ہوئے طریقے سے استعمال کرنا۔ جب ہم اپنی قربانی کرتے ہیں، ہم اللہ کے حکم کے تحت جانور کو قابو میں لاتے ہیں اور اس کا گوشت اور دیگر حصے استعمال میں لاتے ہیں۔ اس طرح ہم تسخیر کے اہم اصولوں کو عملی طور پر ظاہر کرتے ہیں۔
تکبیر کا مطلب ہے اللہ کی بڑائی کا اعلان کرنا اور اس کی ذات اور نعمتوں کو پہچاننا۔ جب ہم قربانی کے وقت اللہ کے نام سے آغاز کرتے ہیں، اور اس کے بعد قربانی کے ہنگام میں اللہ کی محبت اور بڑائی کے اظہار کے ساتھ حضور محض کرتے ہیں، تو ہم تکبیر کے اہم اصولوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ اسی طرح، اسلامی تعلیمات میں علم، صلاحیت، اور تکنولوجی کے استعمال کی بھی بہت بڑی اہمیت ہے۔ جیسے کہ قدیم مسلمان سائنسدانوں نے علم و فن کے میدان میں بہتری کے لیے پیش قدمی کی، اسی طرح آج کے دور میں ہمیں بھی اللہ کے دیئے ہوئے وسائل کو استعمال میں لا کر ان کی فلاح اور بہبود کے لیے کام کرنا ہے۔ ان وسائل میں مختلف زمینی وسائل جیسے آبزرویٹریز، جدید فنون، اور تکنولوجی شامل ہیں جن کو استعمال کرتے ہوئے ہمیں انسانیت کی خدمت کرنی ہے۔ یہ تعلیمات ہمیں یاد دیتی ہیں کہ ہمیں اللہ کے دیئے ہوئے وسائل کو صحیح طریقے سے استعمال کرنا چاہیے، ان کے استعمال کے دوران اللہ کی رضا حاصل کرنی چاہیے، اور دوسروں کے لیے بھی فائدہ مند بنانا چاہیے۔
اس بات سےہمیں حقیقت کا اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ کے دیئے ہوئے وسائل کے استعمال میں ہمیں کتنی سنجیدگی اور محبت کے ساتھ ہونا چاہیے۔ تسخیر اور تکبیر کو الگ کر دینا یعنی وسائل کو حاصل کرنے کی صلاحیت ہمیں عظیم مسئلے کے سامنے چھوڑ دیتا ہے۔ جب ہم اللہ کی بڑائی کو بھول جاتے ہیں، اور صرف اپنے علم اور استعمال کے ذریعے غرور کرنے لگتے ہیں، تو یہ واقعی ایک بڑا بحران ہوتا ہے۔
ایٹمیک اینرجی کی مثال سے ہمیں واضح یت پانے میں مدد ملتی ہے : جو آغاز میں انسانیت کے لیے ایک منفعت ہو سکتی تھی، لیکن جب یہ اینرجی بمباری کی صورت میں استعمال ہوئی، تو یہ زہریلی ہو گئی اور دنیا کو خطرے میں ڈال دیا۔
اس سے ہمیں سبق حاصل ہوتا ہے کہ ہر ایک تکنیک، ہر ایک طاقت، اور ہر ایک وسیلہ اللہ کی رضا کے ساتھ استعمال ہونا چاہیے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے، اللہ کا ہدایت دیا ہوا ہے اور ہمیں اسے صحیح مقصد کے لیے استعمال کرنا ہے۔ اسی طرح، جب ہم اللہ کی بڑائی کو یاد کرتے ہیں اور اپنے علم اور صلاحیت کو اس کی رضا کے لیے استعمال کرتے ہیں، تو ہمیں صرف انسانیت کے بہبود اور فلاح کی طرف ہیجان دینا ہوتا ہے۔ اسی روشنی میں، ہمیں ہر حالت میں سب سے بڑے خالق کی رضا حاصل کرنی چاہیے اور اسی رضا کے لیے اپنے وسائل کو استعمال کرنا چاہیے۔
"تسخیر” اور "تکبیر” کو الگ نہیں کیا جائے، ہمارے پاس جو بھی علم و صلاحیت ہے وہ ہمیشہ اللہ کی رضا کے لیے ہونی چاہیے۔ انسانیت کے بہبود اور برکت کے لیے استعمال ہونا چاہیے۔ کئی ملکوں میں دفاعی شعبے میں ہونے والی ریسرچ اور ٹیکنالوجیکل انوویشن کا بڑا حصہ صرف فوجی استعمالات کے لیے ہوتا ہے، جو کہ کبھی کبھار انسانیت کے مفادات کے لیے نہیں بلکہ صرف اپنی طاقت کے نمائندگان کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح، بڑی استعماری قوتیں بھی ان وسائل کو اپنے ذریعے بندوں پر قابو حاصل کر کے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتی ہیں، جس سے دنیا کو ماحولیاتی، اقتصادی اور سماجی بحرانات کا سامنا ہوتا ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ کے دیئے ہوئے وسائل کو استعمال میں لانے کا مقصد ہمیشہ انسانیت کی بہبود، عدلیہ، امن و امان، اور محیط کی حفاظت ہونی چاہیے۔ اگر ہم اپنے علم اور صلاحیت کو اللہ کی رضا کے ساتھ استعمال کریں، تو ہمیں ہمیشہ دنیا کے مشکلات کا حل ملے گا اور ہمارے عمل کی برکت سے دنیا کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
قربانی کا عمل ہمیں کئی اہم سبق سکھاتا ہے جو عید الضحیٰ کا اصل پیغام بنتا ہے۔ درج ذیل کچھ اہم سبقات بیان کیے جا سکتے ہیں:
- تسخیر اور تکبیر کا امتزاج : جیسے ہم قربانی کے دن جانور کو قربان کر کے اللہ کی رضا حاصل کرتے ہیں، اسی طرح ہمیں دنیا کے وسائل کو بھی اللہ کی مرضی کے مطابق استعمال کرنا چاہیے۔ ہمیں ان وسائل کو انسانیت کے بہتر مستقبل کے لیے استعمال کرنا چاہیے جہاں ہر انسان کو ان کی ضروریات فراہم ہو سکیں۔
- تعلیم اور تربیت: قربانی کا عمل ہمیں تعلیم اور تربیت میں بھی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ ہمیں اپنی ذہانت، علم، اور صلاحیتوں کو بہتر بنانے کی طرف متوجہ کرتا ہے تاکہ ہم دنیا کے مختلف مسائل کا حل تلاش کر سکیں۔
- محبت اور احسان : قربانی کا عمل ہمیں محبت اور احسان کا درس دیتا ہے۔ ہمیں دوسروں کی مدد کرنے، غریبوں اور محروموں کی مدد کرنے، اور ان کی بہتری کے لیے کام کرنے کی سبقت دیتا ہے۔
- شکر و قدردانی: قربانی کرنے سے ہمیں شکر و قدردانی کی اہمیت سمجھائی جاتی ہے۔ ہمیں یاد دیا جاتا ہے کہ اللہ کے دیئے ہوئے وسائل کا بہترین استعمال کرنا اور ان کی بڑائی بیان کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
- اخلاقیت اور تقویت : قربانی کا عمل ہماری اخلاقیت اور تقویت میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہمیں صبر، برداشت، اور خیرات کے لیے تیار کرتا ہے جو انسانیت کی بہتری کے لیے ضروری ہیں۔
اس طرح، عید الضحیٰ کا پیغام ہمیں انسانیت، عدل، احسان، اور اللہ کی رضا کے لیے وسائل کا بہترین استعمال کرنے کی سبقت دیتا ہے۔
میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page