سبحان اللہِ و بحمدہِ، سبحان اللہ العظیم؛ ہجری تقویم (کیلنڈر) کا نواں مہینہ، یعنی رمضان المبارک جس میں دین اسلام کے آخری نبی اور رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید کی صورت میں نبوت کے سلسلے کی آخری کتابِ ہدایت اتاری گئی، اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں، برکتوں، رحمتوں اور ہمہ جہتی عنایات کے نزول کا ایک پاکیزہ اور منفرد مہینہ ہے۔ صرف کتابوں میں تصنیف کئے گئے خوب صورت مضامین اور تخلیق کی گئی بہترین شاعری کے پس منظر میں ہی ماہ رمضان المبارک خیر و سلامتی کا مہینہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک حقیقتِ واقعہ کا بیان ہے کہ "رمضان کا مہینہ بڑی برکتوں کا ہے”۔ خلوص دل کی کیفیت کے ساتھ، ہر خاص و عام مومن ہی نہیں، بلکہ عام انسان بھی رمضان کے مقدس اور بابرکت مہینے میں، اللہ تعالی کی ہمہ جہتی رحمتوں اور برکتوں کے ہمہ وقتی نزول کا مشاہدہ کرسکتا ہے۔
جس طرح اللہ تعالی اپنے روزہ دار بندوں کو روزوں کی شکل میں اپنی اطاعت کا اجر اپنی شان کے مطابق عطا کرتا ہے، بلکل اسی طرز پر اس نے ایک ماہ کے روزوں کے لیے مخصوص رمضان المبارک کو بھی اپنی لامحدود عنایات اور گوناگوں مہربانیوں سے بھر دیا ہے، جس کی وسعتوں کا احاطہ، اگرچہ ہر کس و ناکس کے لیے ممکن نہیں، مگر انسانوں کے رحمٰن و رحیم پروردگار کی مختلف زاویوں سے حاصل ہونے والی بے پایاں رحمتوں کی نسیم و شمیم کے روح افزا لمس(tactile sense) سے کوئی بھی شخص محروم نہیں رہتا ہے۔
اللہ تعالی نے اپنے منصوبہِ تخلیق (The Creation Plan) میں ایک سال کی مدت کو بارہ مہینوں میں تقسیم کیا ہے، یعنی محرم الحرام کے مہینے سے شروع ہوکر ماہِ ذی الحجہ تک۔ ان سبھی بارہ مہینوں کے نام اس طرح ہیں – محرم، صفر، ربیع الاول، ربیع الثانی، جمادی الاول، جمادی الثانی، رجب، شعبان، رمضان، شوال، ذوالقعدہ اور ذی الحجہ۔ ان میں سے چار مہینے "حرمت” (sanctity) والے قرار دیے گئے ہیں، جن میں رجب المرجب کا مہینہ بھی شامل ہے۔ باقی تین مہینے – ذوالقعدہ، ذی الحجہ اور محرم الحرام ہیں۔
اسی پس منظر میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے یہ بیان نقل کیا جاتا ہے کہ "رجب اللہ کا مہینہ، شعبان میرا مہینہ اور رمضان المبارک میری امت کا مہینہ ہے”۔ اسی کے ساتھ، یہ بات بھی شائع و ذائع ہے کہ رجب کا چاند دیکھنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی سے اس طرح دعا مانگتے تھے: "اے اللہ، ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکتیں عطا فرما اور ہمیں رمضان کا مہینہ نصیب فرما”۔ شعبان کے مہینے میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے روزوں کا اہتمام بھی کیا کرتے تھے (سنن ابو داؤد: حدیث نمبر-2431)۔
ماہِ رمضان کی آمد سے ایک مہینہ قبل، یعنی شعبان المعظم میں ہی مسلمانوں کے اندر رمضان المبارک کے متعلق بڑھتی ہوئی دلکشی اور سنجیدہ و مخلصانہ سرگرمیوں کی فضا پیدا ہوتی ہوئی محسوس ہونے لگتی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عقیدت اور ان کے اسوہ حسنہ کی تقلید میں، شعبان کی مختلف تاریخوں میں روزوں کا اہتمام کرتی ہوئی مسلمانوں کی بڑی تعداد گویا رمضان کے روزوں کی مشق (rehearsal) شروع کر دیتی ہے۔ جیسے جیسے رمضان المبارک قریب آتا جاتا ہے، آفاق و انفس کی رعنائیاں بڑھتی ہوئی محسوس ہونے لگتی ہیں۔ چشم بصیرت سے دیکھنے والے زمین سے آسمان تک پھیلی ہوئی اپنے رب کی تجلیات کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ ماہِ رمضان المبارک کے طلوع ہوتے ہی گویا انوار کی بارش شروع ہوجاتی ہے۔ یہ نورانی سلسلہ شعبان کے مہینے کی 29 ویں تاریخ سے وقوع پذیر ہوجاتا ہے، جب رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کے لیے چھتوں پر لوگوں کا ہجوم امنڈ پڑتا ہے۔
رمضان المبارک اور عید الفطر کے چاند کے دیدار کے لیے جس نوعیت کا جوش و خروش مسلمانوں میں دیکھنے کو ملتا ہے اس کا کوئی ثانی نہیں۔ مسلمانوں کو رمضان المبارک سے پہلے جس طرح رجب اور شعبان کی خوشیاں حاصل ہوتی ہیں، اُسی طرح، بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑے پیمانے پر رمضان المبارک کے بعد عید الفطر جیسی بڑی خوشی ان کو ان کے رب کی طرف سے عطا کی جاتی ہے۔ عید الفطر کی منادی کرنے والی "چاند رات” کا دوسرا بامعنی نام "لیلتہ الجائزہ” ہے۔ اس کا مطلب ہوتا ہے- "انعام” کی رات، جس میں اللہ تعالی اپنے روزہ دار بندوں کو اپنی شان کبریائی کے مطابق انعام و اکرام سے نوازتا ہے۔
یہاں اپنے مسلم نوجوانوں، خاص طور پر اسلامی تہذیب سے ناآشنا اور دینی مدارس کی روایتی تعلیم سے محروم، انگلش میڈیم میں دی جانے والی جدید طرز کی تعلیم حاصل کرنے والی نو خیز نسل کو یہ باور کرانا نہایت ضروری ہے کہ مسلمانوں میں چاند دیکھنے کی جو روایت چلی آرہی ہے، وہ چاند کے کسی "تقدس” (Holiness) کی وجہ سے نہیں ہے، جیسا کہ دنیا میں کئی دوسری تہذیبوں کے زیر اثر سورج اور چاند کو مذہبی طور پر مقدس ہستیاں تصور کیے جانے کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
حقیقتاً، چاند بھی کائنات میں موجود بے شمار ستاروں (Stars) اور سیاروں (Planets) کی طرح، خالق کائنات، یعنی اللہ رب العالمین کا ہی ایک تخلیقی شاہکار ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ "اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں یہ رات اور دن اور سورج اور چاند، سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو بلکہ اس خدا کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا ہے اگر فی الواقع تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو” ( حٰم السجدہ-41: 37)۔ اس اقتباس کے ذیل میں، اللہ تعالی نے چاند کو متعدد انسانی فائدوں کے علاوہ سال کا حساب (کیلنڈر) رکھنے کا ذریعہ بھی بنا دیا ہے۔ زمین کے گرد گھومنے والے چاند کے ایک چکر کی مدت "مہینہ” کہلاتی ہے۔
چاند کی ایک دلچسپ خوبی یہ بھی ہے کہ اس کا مہینہ 29 دن کا بھی ہوسکتا ہے اور 30 دن کا بھی۔ 29 اور 30 دن کے پیش نظر ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو تاکید کی ہے کہ وہ ہر مہینے کی 29 تاریخ کو چاند دیکھ لیا کریں۔ چاند نظر آجانے پر نیا مہینہ شروع ہوجائے گا، ورنہ موجودہ مہینے کے 30 دن پورے کرلیے جائیں گے۔ اسی لیے 30 تاریخ کو چاند دیکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی ہے۔
چاند کی گردش کے حساب میں دوسری جنتریوں(تقویم) کے برعکس، کسی دوسرے انسانی حساب کی آمیزش نہ کیے جانے کی وجہ سے، قمری کیلنڈر(Lunar Calendar) کو قدرتی تقویم (Natural Calendar) کی حیثیت حاصل ہے۔ مکہ سے مدینہ ہونے والی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت (مطابق: 16 جولائی، 622 عیسوی) کی مناسبت میں مسلمانوں نے چاند کی گردش کے حساب کو باقاعدہ "اسلامی ہجری کیلنڈر” (Anno Hegirae, or Year of the Hijrah) کے طور پر اپنا لیا ہے، جس کو مختصر طور پر "A.H” بھی لکھا جاسکتا ہے۔ اپنی قدرتی نوعیت کے پیش نظر اس کیلنڈر کا ہر ایک مہینہ (محرم، صفر، ۔۔۔،ذی الحجہ) کرہ ارض (Planet Earth) پر موجود سبھی موسموں (weathers)، یعنی سردی، گرمی اور برسات میں داخل ہو سکتا ہے۔
اس ظاہرہ کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ زمین پر موسموں کا بدلنا سورج کے گرد اس کی گردش کی وجہ سے ہوتا ہے، جب کہ دن اور رات کے وقوع پذیر ہونے کا سبب زمین کا اپنے محور (axis) پر گھومنا ہے۔ سورج کی نسبت سے زمین کی گردش کا دورانیہ (period) زمین کی نسبت سے چاند کی گردش کے دورانیے سے تقریباً 11 دن زیادہ ہوتا ہے۔ اس طرح، اس گیارہ دن کے فرق کی وجہ سے، جہاں شمسی کیلنڈر (Gregorian Calendar) موسموں کے دورانیہ کو مخصوص مہینوں(جنوری، فروری۔۔۔ ،دسمبر) کا پابند بنا دیتا ہے، وہیں قمری کیلنڈر کے مہینے سبھی موسموں کے درمیان اپنا راستہ بنا لیتے ہیں۔ اس فلکیاتی حساب کے پس منظر میں، ایک تخمینے کے مطابق 70 سال کی عمر کا کوئی بھی شخص رمضان المبارک کو ہر ایک موسم میں دو مرتبہ دیکھنے کے تجربے کا حامل ہوسکتا ہے۔
قرآن پاک کے مختلف بیانات کی روشنی میں، اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کے بندے کائنات کی معنویت، حکمت اور انسانوں کے لیے اس کی افادیت کے ادراک کی غرض سے کائنات میں پھیلی ہوئی نشانیوں پر غور و فکر کریں اور اپنے پروردگار کی معرفت (عظمت اور بڑائی کا ادراک) حاصل کریں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ "یہ ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر تدبر، یعنی سنجیدہ غور و فکر کریں اور عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں( سورہ ص-38: 29)۔
اسی ضمن میں، اللہ تعالی نے انسان کو اپنی عبادت یعنی بندگی، یا دوسرے الفاظ میں اپنی معرفت (Realisation of God) کے لیے پیدا کیا ہے (الذاریات-51: 56)، جب کہ کائنات کی بقیہ چیزوں کو انسان کے استعمال کے لیے مسخر کردیا گیا ہے تاکہ وہ ان سے فیض حاصل کرے، ان کی تخلیق میں غور و فکر کر کے اپنے شعور کو بلند کرے اور اپنے محسن اور منعم پروردگار کا شکر بجا لانے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "اور اس نے آسمانوں اور زمین کی تمام چیزوں کو تمہارے لیے مسخر کردیا، سب کو اپنی طرف سے۔ بے شک اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غورکرتے ہیں” (تذکیرالقرآن: سورۃ الجاسیہ-45: 13)۔
صالح اعمال کی بجا آوری پر اللہ تعالی کا عام قانون یہ ہے کہ وہ دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک اجر و ثواب عنایت کرتا ہے، مگر متعدد احادیث کی روشنی میں روزہ کی نوعیت اور کیفیت کے پیش نظر اللہ تعالی کا حکم ہے کہ "روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر عطا کرنے والا ہوں”، گویا اللہ تعالی نے اپنے روزہ دار بندوں کو "مالامال” کردینے کا وعدہ کر لیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اجر و ثواب ہی نہیں، اللہ تعالیٰ نے روزہ داروں کی عزت افزائی میں رمضان المبارک کے پورے مہینے کو ہی معظم و مکرم بنا دیا ہے۔ رمضان المبارک کی اسی عظمت کا کرشمہ ہے کہ اس میہنے کا فیضان عام طور پر ہر خاص و عام کو حاصل رہتا ہے، اگرچہ یہ بات بھی درست ہے کہ مہینہ بھر، رات و دن برستی ربانی نعمتوں سے خصوصی طور پر لطف اندوز ہونا جتنا ایک روزہ دار کو نصیب ہوسکتا ہے، کسی غیر روزہ دار کے لیے ممکن نہیں۔
دن بھر بھوکے پیاسے رہنے کے باوجود، ایک روزہ دار کے صبح وشام دلفریب ہونے کے ساتھ ساتھ، فرحت افزا اور زندگی سے لبریز ہوتے ہیں۔ وجہ دریافت کرنا بھی کچھ مشکل نہیں؛ جہاں ایک روزہ دار کے لیے، اپنا کھانا پینا چھوڑنے کا حکم اللہ تعالی کی طرف سے ہی صادر کیا جاتا ہے، تو وہیں اسی وقت یہ بندوبست بھی اسی رازق پروردگار کی طرف سے کردیا جاتا ہے کہ "روزہ کی نیت” کرنے کے ساتھ ہی گویا روزہ دار پر اللہ کی سکینت (Repose) نازل ہونے لگتی ہے، اور ایسا محسوس ہوتا ہے, گویا وہ دن بھر کے لیے شِکم سیر (satiated) ہوجاتا ہے۔ بے شک، اللہ تعالی اپنے مومن بندوں کو بھوکا پیاسا رہنے کا حکم تو دے سکتا ہے، مگر ان کو بے سہارا نہیں چھوڑ سکتا۔
ملازمت کے سلسلے میں، گھر سے باہر رہ کر کسی خاص اہتمام کے بغیر، روزہ رکھنے کی حالت میں بھی مجھے ہمیشہ ایسا محسوس ہوتا رہا ہے، گویا اللہ کے فرشتے روزہ دار کے چاروں طرف ماحول کو روح افزا بنانے میں لگے رہتے ہیں۔ میرے پاس رمضان المبارک میں اللہ کی رحمتوں کے لمس محسوس کرنے والے اور بھی متعدد تجربات ہیں۔ اسی کے ساتھ، میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ میری طرح دوسرے روزے دار بھی ضرور اللہ تعالی کے فضل و کرم کی باران رحمت کی پھواروں سے خود کو محظوظ ہوتا ہوا محسوس کرتے ہوں گے۔
شیطانی آلائشوں سے پاک رمضان المبارک کے پاکیزہ ماحول میں، اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمتوں کی مسلسل بارش فطری طور پر، عام مسلمانوں کو ہی نہیں، بلکہ ایمان کی حقیقت سے محروم انسانوں کو بھی احساس دلا دیتی ہے کہ یہ سب صرف اس کے "واحدہ لا شريك له” خالق و مالک پروردگار کی عنایت ہے۔ اور پھر ان کی یہی دریافت انسانی زندگی میں "شکر” کے دریا رواں کردیتی ہے۔ صبح سے شام اور شام سے صبح تک حاصل ہونے والے مختلف قسم کے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں، جب شکر کے جذبات و احساسات پورے ایک ماہ تک کسی انسان کی شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں، تب وہ مبارک ساعت بھی اس کو نصیب ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے حقیقی مشفق اور منعم کی نہ صرف عنایات، بلکہ اس کی عظمت و بڑائی کا ادراک بھی حاصل کرنے لگتا ہے۔
ایسے مسلمان کا کوئی ثانی نہیں جس کے صبح و شام اور رات و دن اپنے پروردگار کی بڑائی، اس کی حمد و ثناء اور اطاعت میں گزرنے لگیں۔ ایک شخص کو مسلمان گھر میں پیدا ہونے کی وجہ سے حاصل ایمان، جب اس کی اپنی دریافت کی سطح پر پہنچتا ہے، تب وہ صاحبِ ایمان، گویا کائنات کی حقیقتوں کا خود مشاہدہ کرنے لائق ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالی کے ایسے ہی مومن بندوں کے دل میں امنڈ رہے تشکر کے احساسات ان کی زبان پر بھی شکر کے فوارے جاری کردیتے ہیں۔
یقیناً، کسی کی زبان پر شکر و اعتراف کے فوارے جاری ہونا، انسانی دنیا میں کوئی معمولی واقعہ نہیں، کیوں کہ عام حالات میں، اکثر اوقات شیطانی وسوسوں اور خود سری کی رنگین رغبتوں کے زیر اثر انسان کے لبوں پر کسی کے لیے کلماتِ تشکر کا جاری ہوجانا کم ہی نظر آتا ہے۔ جب کوئی انسان اپنے باطن میں شکران نعمت کے خالص جذبات و احساسات کی نشونما کے ساتھ ساتھ اپنی زبان سے بھی "اللہ کا شکر” اور "الحمدللہ” جیسے پاکیزہ کلمات کا ورد کرنے لگتا ہے، تو اس کے اندر اور باہر نازل ہونے والی ناقابل بیان رحمتوں اور کثیرالجہات نعمتوں میں مزید خیر و برکت شامل کردی جاتی ہے۔ آخر، اللہ تعالی اپنے شکرگزار بندوں کو "اور زیادہ” جو عنایت کرتا ہے (سورہ ابراہیم-14: 7)۔
رمضان المبارک کے پورے مہینے کو روزوں کی عبادت کے لیے وقف کر دیا جانا بھی اس ماہ مکرم کا خاص امتیاز ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۔
یعنی؛ اے ایمان والو، تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم پرہیز گار بنو(سورۃ البقرہ-2: 183).
اللہ تعالیٰ ہمارا خالق و مالک اور سچا معبود و پروردگار ہے۔ اس کے ساتھ ہمارے تعلق کا اظہار عام طور پر تین صورتوں میں ہوتا ہے _ پرستش، اطاعت اور حمیت و حمایت۔ روزہ دراصل، "اطاعت” کا علامتی اظہار ہے، جو اللہ تعالیٰ کے مومن بندے اپنے رب کے حکم کی اتباع میں ماہِ مبارک کے دوران صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور میاں بیوی کے درمیان مباشرت جیسے معاملات سے متعلق ان ساری سرگرمیوں کو صدق دل سے اور مکمل طور پر ترک کرتے ہوئے روزے کا فریضہ انجام دیتے ہیں، عام دنوں میں جن کا استعمال ان کے لیے پوری طرح حلال و مستحسن ہوتا ہے۔
مسلمانوں پر حرام چیزوں کے ارتکاب سے اجتناب تو ہمیشہ ہی لازم رہتا ہے، مگر روزے کی صورت میں ایک مسلمان اپنے پروردگار کے حکم کی اطاعت و فرمانبرداری کے تحت حلال چیزوں کے استعمال سے بھی سبکدوش ہو جاتا ہے۔ غالباً، یہی وہ جذبہ اطاعت ہے جو ایک مومن کے اندر تقوے کے اوصاف پیدا کردیتا ہے۔ اسی حقیقت کو سورۃ البقرہ کی اوپر مذکور آیت میں روزوں کی فرضیت کے پس منظر میں بیان کیا گیا ہے۔ یعنی، "لعلکم تتقون” (تاکہ تم متقی بنو)۔
محقق علمائے دین کی مذکورہ آیت کی روشنی میں، یہ رائے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ماضی میں نازل کردہ شریعتوں میں بھی روزہ "تربیت نفس” کی خاص عبادت رہا ہے۔ دراصل، نفس کی مثبت تربیت کا ہی دوسرا نام "تقویٰ” ہے، یعنی خدا کا خوف۔ ویسے بھی، انسانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی وضع کردہ حدود کی پابندی کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنے اندر امنڈتے جذبات اور بے لگام خواہشات پر قابو پانے کی صلاحیت پیدا کرے۔ اگر غور و فکر سے کام لیا جائے، تو معلوم ہوگا کہ یہ صلاحیت فی الواقع اللہ کے ڈر سے ہی پیدا ہو سکتی ہے۔
سورۃالبقرہ کی آیت نمبر 185میں روزوں سے متعلق صورت حال کو مزید واضح کیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: "رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اتارا گیا، ہدایت ہے لوگوں کے ليے اور کھلی نشانیاں راستہ کی اور حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کرنے والا۔ پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پائے، وہ اس کے روزے رکھے۔ اور جو بیمار ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرلے۔ اللہ تمہارے ليے آسانی چاہتا ہے، وہ تمہارے ساتھ سختی کرنا نہیں چاہتا۔ اور اس ليے کہ تم گنتی پوری کرلو اور اللہ کی بڑائی کرو اس پر کہ اس نے تم کو راہ بتائی اور تاکہ تم اس کے شکر گزار بنو” (تذکیرالقرآن)۔
"تذکیرالقرآن” میں معروف مفکر اور عالم دین مولانا وحید الدین خاں(2021-1925) نے روزے سے متعلق سورۃ البقرہ کی آیات 183 تا 185 کی تذکیر و نصیحت کے پہلو سے مختصر طور پر ایک عمدہ تفسیر پیش کی ہے۔ قارئین کے علمی استفادے اور رہ نمائی کےلیے، مذکورہ تفسیر کو یہاں من وعن نقل کیا جاتا ہے:
"روزہ بیک وقت دو چیزوں کی تربیت ہے۔ ایک شکر، دوسرے تقویٰ۔ کھانا اور پانی اللہ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں۔ مگر عام حالات میں آدمی کو اس کا اندازہ نہیں ہوتا۔ روزہ میں جب وہ دن بھر ان چیزوں سے رکا رہتا ہے اور سورج ڈوبنے کے بعد شدید بھوک پیاس کی حالت میں کھانا کھاتا ہے اور پانی پیتا ہے تو اس وقت اس کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کھانا اور پانی اللہ کی کتنی بڑی نعمتیں ہیں۔ اس تجربہ سے اس کے اندر اپنے رب کے شکر کا بے پناہ جذبہ پیدا ہوتاہے۔
دوسری طرف یہی روزہ آدمی کے لیے تقویٰ کی تربیت بھی ہے۔ تقویٰ یہ ہے کہ آدمی دنیا کی زندگی میں خدا کی منع کی ہوئی چیزوں سے بچے۔ وہ ان چیزوں سے رُکا رہے جن سے خدا نے روکا ہے اور وہی کرے جس کے کرنے کی خدا نے اجازت دی ہے۔ روزہ میں صرف رات کو کھانا اور دن کو کھانا پینا چھوڑ دینا، گویا خدا کو اپنے اوپر نگراں بنانے کی مشق ہے۔
مومن کی پوری زندگی ایک قسم کی روزہ دار زندگی ہے۔ رمضان کے مہینے میں وقتی طور پر چند چیزوں کو چھڑا کر آدمی کو تربیت دی جاتی ہے کہ وہ ساری عمر ان چیزوں کو چھوڑ دے جو اس کے رب کو ناپسند ہیں — قرآن بندے کے اوپر اللہ کا انعام ہے اور روزہ بندے کی طرف سے اس انعام کا عملی اعتراف۔
روزہ کے ذریعہ بندہ اپنے آپ کو اللہ کی شکر گزاری کے قابل بناتا ہے اور یہ صلاحیت پیدا کرتا ہے کہ وہ قرآن کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق دنیا میں متقیانہ زندگی گزار سکے۔
روزہ سے دلوں کے اندر نرمی اور تواضع (modesty)آتی ہے۔ اس طرح روزہ آدمی کے اندر یہ صلاحیت پیدا کرتا ہے کہ وہ ان کیفیتوں کو محسوس کرسکے جو اللہ کو اپنے بندوں سے مطلوب ہیں۔ روزے کی پُرمشقت تربیت آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ اللہ کی شکر گزاری میں اس کا سینہ تڑپے اور اللہ کے خوف سے اس کے اندر کپکپی پیدا ہو۔ جب آدمی اس نفسیاتی حالت کو پہنچتا ہے، اسی وقت وہ اس قابل بنتا ہے کہ وہ اللہ کی نعمتوں پر ایسا شکر اداکرے جس میں اس کے دل کی دھڑکنیں شامل ہوں۔ وہ ایسے تقویٰ کا تجربہ کرے جو اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے کر دے۔ وہ اللہ کو ایسے بڑے کی حیثیت سے پائے جس میں اس کا اپنا وجود بالکل چھوٹا ہوگیا ہو”.
جیسا کہ ابھی تک واضح ہو چکا ہے روزوں کو اپنے مومن بندوں پر فرض کرنے میں اللہ تعالیٰ کی یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ اس کے بندوں کی شخصیت تقویٰ اور پرہیزگاری کے نور سے درخشاں ہوجائے۔ بلا شبہ، متاع ایمان سے مزین متقی اور پرہیزگار افراد ہی بہترین انسان ہوتے ہیں۔ متقی لوگوں کی پہچان یہ ہے کہ "اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکا”(سورۃ النازعات-79: 40). دراصل، اپنے خالق و مالک کی عظمت اور بڑائی میں جینا ہی یہ حوصلہ عطا کرتا ہے کہ ایک روزہ دار کھانے پینے جیسی بنیادی جبلت کو بھی کنٹرول کرلیتا ہے۔ حرام اور ناجائز چیزوں کے استعمال سے رک جانا ایک مومن کی شان ہے، مگر اپنے رازق کے حکم پر حلال، جائز، بلکہ کھانے پینے جیسی بنیادی چیزوں کو بھی مکمل صبر کے ساتھ ترک کردینا تقویٰ کے بغیر ممکن نہیں۔
سورۃ المومنون(23) کی آیات 57 تا 61 میں اللہ تعالیٰ کے مومن اور متقی بندوں کی صفات و کیفیات اس طرح بیان کی گئی ہیں : "بے شک جو لوگ اپنے رب کی ہیبت سے ڈرتے ہیں۔ اور جو لوگ اپنے رب کی آیتوں پر یقین رکھتے ہیں۔ اور جو لوگ اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے۔ اور جو لوگ دیتے ہیں جو کچھ وہ دیتے ہیں اور ان کے دل کانپتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہ لوگ بھلائیوں کی ر اہ میں سبقت کر رہے ہیں اور وہ ان پر پہنچنے والے ہیں سب سے آگے”.
__ یعنی، جو شخص اللہ کو اس طرح پائے کہ اس پر اللہ کی ہیبت طاری ہوجائے، وہ عام انسانوں سے بالکل مختلف انسان ہوتا ہے۔ خوف کی نفسیات اس کو انتہائی حد تک سنجیدہ بنادیتی ہے۔ اس کی سنجیدگی اس بات کی ضامن بن جاتی ہے کہ وہ دلائل خداوندی کے وزن کو پوری طرح سمجھے اور اس کے آگے فوراً جھک جائے۔ خدا کے سوا ہر چیز اس کی نظر میں اپنا وزن کھو دے۔ وہ سب کچھ کرکے بھی یہ سمجھے کہ اس نے کچھ نہیں کیا(تذکیر القرآن).
روزه عام عبادات سے الگ ایک عبادت ہے۔ روزے میں آدمی اپنی جائز خواہشات اور اپنے حلال کھانے پینے کو بھی اللہ کی خاطر چھوڑ دیتا ہے، گویا روزه دار روزه رکھ کر اپنے اس عزم کا اظہار کرتا ہے کہ اللہ کی خاطر اگر اس کو اپنی انتہائی ضروری اور جائز چیزوں سے بھی اجتناب کرنا پڑے تو اس میں بھی وہ دریغ گوئی سے کام نہیں لے گا۔ روزے کی اسی امتیازی صفت کے پیش نظر اس کو کرنے کا ثواب بھی امتیازی رکھا گیا ہے۔ روزہ ایک ایسی عبادت بھی ہے جس کو ریا کاری سے پاک سمجھا جاسکتا ہے – روزے کا علم صرف روزہ دار کو ہوتا ہے یا اس کے پروردگار کو۔ بجا طور پر اللہ کا ڈر تمام بھلائیوں کا سر چشمہ ہے _ اللہ کا خوف، یعنی اس کی عظمت اور بڑائی کا ادراک۔
جب کوئی مومن اس کی حقیقی عظمت اور بڑائی کے ساتھ اپنے پروردگار کی معرفت حاصل کرتا ہے تو اس دریافت میں یہ اعتراف خود بہ خود شامل ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے قادرِ مطلق رب کا ایک عاجزِ مطلق بندہ ہے۔ اس کی اپنی کوئی شان نہیں۔ اس کو حاصل ہرعزت اور نعمت اس کے پروردگار کی عنایت اور احسان ہے۔ کسی کو عزت سے ہمکنار فرمانا اور کسی کو ذلت و رسوائی سے دوچار کر دینا صرف اللہ رب العزت کے دائرہ اختیار کی چیزیں ہیں (سورہ آل عمران-3: 26)۔
زندگی میں پرہیزگاری، نیکی، پارسائی، خدا ترسی، خدمت خلق اور رحم دلی کے مجموعی جذبات و احساسات کو لغوی مفہوم میں "تقویٰ” سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں متقی ہونے کا مطلب ہوتا ہے خود اپنی حفاظت کرنا، مکمل احتیاط برتنا، ہر زاویے سے بچنے اور پرہیز کرنے کی کوشش کرنا ان تمام باتوں سے، چیزوں سے اور کاموں سے جو نہ صرف ہمارے لیے، بلکہ دوسرے افراد کے لیے بھی کسی بھی صورت میں تکلیف، مشقت، پریشانی اور شرمندگی یا ذلت و رسوائی کا باعث ہوسکتے ہیں۔ اسی کے ساتھ، نیک اور صالح کام کرنے کی نیت سے قوت، ہمت اور حوصلے کے ساتھ ساتھ اپنے مختلف اوصاف اور علم و ہنر کو بڑھانے کی مسلسل جدوجہد بھی تقوے کے مشمولات میں ہی شمار کی جائے گی؛ جب کہ اصطلاحی طور پر تقوے کا مطلب ہوتا ہے "خدا کا خوف”. دراصل، دل میں اپنے معبود و منعم پروردگار کا ڈر ہی سارے برے امور سے بچنے اور سارے اچھے کام کرنے کا محرک فراہم کرتا ہے۔
بلا شبہ، متقی شخص صحیح معنی میں ایک باشعور انسان ہوتا ہے، اور باشعور شخص کی جو پہچان سورہ آل عمران(آیت نمبر 18) میں بیان کی گئی ہے وہ اس کی جیتی جاگتی تصویر بن جاتا ہے۔ مذکورہ آیت کا مفہوم کچھ اس طرح سے ہے: "اللہ کی گواہی ہے اور فرشتوں کی اور اہل علم کی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ قائم رکھنے والا ہے انصاف کا۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ زبردست ہے، حکمت والا ہے _ مزید وضاحت کے طور پر: کائنات کا خدا ایک ہی خدا ہے اور وہ عدل وقسط کو پسند کرتا ہے۔ تمام آسمانی کتابیں اپنی صحیح صورت میں اسی کا اعلان کررہی ہیں۔ پھیلی ہوئی کائنات جس كو اس کا مالک اپنے غیر مرئی کارندوں (فرشتوں) کے ذریعہ چلا رہا ہے وہ کامل طور پر ویسی ہی ہے جیسا کہ اس کو ہونا چاہیے۔ ثابت شدہ علم انسانی کے مطابق کائنات ایک حد درجہ وحدانی نظام ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ کائنات کا مدبر صرف ایک ہے۔ اسی طرح کائنات کی ہر چیز کا اپنے محل مناسب میں ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا خدا عد ل کو پسند کرنے والا خدا ہے، نہ کہ بے انصافی کو پسند کرنے والا۔ پھر جو خدا وسیع تر کائنات میں مسلسل عدل کو قائم کيے ہوئے ہو وہ انسان کے معاملے میں خلافِ عدل باتوں پرکیسے راضی ہوجائے گا(تذکیرالقرآن)۔
ہم سب مسلمانوں کو چاہیے کہ روزوں کے ایک مہینہ طویل تربیتی (training) عرصے کو پورے اخلاص اور سنجیدگی کے ساتھ زندگی میں تقویٰ اختیار کرنے کے لیے استعمال کریں۔ قرآن مجید کے مطالعہ کے ساتھ، اپنے صبر و شکر کے استحکام کو بڑھانے کی کوشش بھی کرنی چاہیے، کیوں کہ متقی ہونے میں ان عوامل کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ جھوٹ اور مکر و فریب، خیانت اور وعدہ خلافی جیسی برائیاں انسان کو منافق بنا دیتی ہیں، اس لیے ہر حال میں ان سے محفوظ رہنے کی مشق بھی ضروری ہے۔ یقیناً، منافق ہونا متقی ہونے کی ضد ہے، اور منافقت کے رجحان کو پامال کرنے کے لیے تقوے کی روش درکار ہے۔ اور غالباً، مومن کی اسی بنیادی ضرورت کی تکمیل کے لیے، اللہ تعالی نے رمضان المبارک میں پورے ماہ کے روزے فرض کئے تاکہ اس کے مومن بندے تقویٰ حاصل کریں۔
تقویٰ کی بات کو اللہ تعالی نے اپنے قول تک ہی محدود نہیں رکھا، بلکہ اس ضمن میں اپنے روزہ دار بندوں کی مدد کا بھی جامع بندوبست کیا ہے۔ رمضان المبارک کی پوری مدت کے لیے سرکش شیاطین کو قید کردیا جاتا ہے، اگرچہ ارادہ اور اختیار کی طاقت ابھی بھی روزہ داروں کے پاس رہتی ہے۔ قید ہو جانے کی وجہ سے بڑے شیطانوں کی بے اختیاری خصوصی طور پر، عام اور کمزور مسلمانوں کے لیے بڑی راحت کا سامان ہوتی ہے۔ اللہ تعالی کے صالح مومن بندے تو ہمیشہ ہی اس حیثیت میں ہوتے ہیں کہ وہ خود کو شیطان کے مکر و فریب سے محفوظ رکھ سکیں۔ نیک صالح بزرگ ہستیوں سے تو شیطان خود بھی ڈرنے لگتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ "جب شیطان تمہیں کسی راستے پر چلتے ہوئے دیکھتا ہے تو تمہارے راستے کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے (متفق علیہ حدیث)۔
اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری میں رکھے گئے روزوں کے درمیان بہترین مشغلہ یہ ہونا چاہیے کہ اپنی سوچ (فکر) کو درست کرنے کی تربیت کی جائے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان جیسا سوچتا ہے، ویسا ہی بن جاتا ہے۔ جلد ترقی کرنے کی شیطانی رغبتوں کے زیر اثر انسان اکثر منفی سوچ (Negative Thinking) کی وجہ سے پست ذہنیت کا شکار ہو جاتا ہے۔ انسانوں کو برائیوں کے راستے کچھ زیادہ ہی دلفریب نظر آتے ہیں، مگر دنیاوی دلکشی کی بےثباتی کا شعور رکھنے والے افراد سمجھ سکتے ہیں کہ منفی خیالات، غیر صالح رجحانات اور بری نیت (bad intention) رکھنے والے لوگ اپنی اخلاقی اقدار سے دور ہوتے ہوتے، بہت جلد بے وقعت اور بے آبرو ہوکر رہ جاتے ہیں۔
چوں کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں عمل کے صالح یا غیر صالح ہونے کا دارومدار انسان کی نیت پر ہوتا ہے، اس لیے مسلمانوں کو اپنے ہر معاملے میں مثبت فکر کا حامل ہونا چاہیے۔ دنیا میں مثبت فکر و عمل کے افراد ہی اپنی بالقوہ صلاحیتوں (Potential) کے بہ موجب ترقی کرسکتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ نہ صرف مطمئن زندگی بسر کرتے ہیں، بلکہ کائناتی حقائق دریافت کرنے میں بھی وہی آگے رہتے ہیں۔ سچے راستے پر مثبت فکر کے ساتھ آگے بڑھنے پر انسان کی خود اعتمادی (Self Confidence) میں بھی غیر متوقع اضافہ ہوتا ہے، اور بلند سطحی کام کرنے کے لیے بلند خود اعتمادی ایک ناگزیر شے ہے۔ اصولی طور پر، ایک مومن و متقی مسلمان کبھی منفی سوچ، گھٹیا نفسیات اور پست اخلاقیات کا حامل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے، رمضان المبارک کی مقدس ساعتوں کے حصول کو خوش نصیبی تصور کرتے ہوئے ہمیں خود کو صحیح معنی میں، ایک پازیٹو انسان (A Positive Person) بنانے اور بنائے رکھنے کی مشق کرنی چاہیے۔
حقوق اللہ اور حقوق العباد، ایسے معاملات ہیں جن میں موجودہ دور کے مسلمان کچھ زیادہ ہی بڑے پیمانے پر غلطیاں کررہے ہیں۔ حقوق العباد، یعنی بندوں کے بندوں پر عائد حقوق کی”سنگین نوعیت” کے باوجود، وہ ان کے متعلق ایک دم بے نیاز نظر آتے ہیں۔ رمضان المبارک کے روزے، مختلف عبادات، ذکر و اذکار اور تلاوتِ قرآن مجید کی کثرت جیسے اعمال سے مسلمان اس طرح مطمئن رہتے ہیں گویا ان کے سارے گناہ معاف ہوگئے ہیں۔ حج و عمرہ کی ادائیگی کے بعد تو وہ اپنی بے گناہی کے متعلق خود کو یہاں تک معصوم سمجھنے لگتے ہیں، گویا آج ہی پیدا ہوئے ہیں۔ بلا شبہ، صالح اعمال سے متعلق سارا اجر و ثواب اور مذکورہ واعدے اور خوش خبریاں درست ہیں، مگر صرف انہیں معاملات میں جو حقوق اللہ سے متعلق ہیں۔
مسلمانوں کو رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں اپنی اُن ساری غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو ایک لمبی مدت سے مسلم معاشرے میں شائع و ذائع ہیں۔ جہاں تک حقوق العباد سے متعلق گناہوں کا تعلق ہے، وہ صرف متعلقہ افراد سے معافی و تلافی کے عمل سے ہی دور ہو سکتے ہیں۔ خدا کے بندوں کے ساتھ کی گئیں زیادتیاں اور ناانصافیاں صرف انہیں سے معاف کروائی جا سکتی ہیں۔ انسانوں سے معافی مانگنے کا حوصلہ کیے بغیر آخرت کا حساب مشکل ہوسکتا ہے، اور دنیاوی سطح پر یہی مبارک حوصلہ مسلم معاشرے کو پاکیزہ بھی بنا سکتا ہے۔
اسی طرح اللہ کا شکر اور بندوں کے شکر کا معاملہ بھی ہے۔ انسانوں سے حاصل خدمات و عنایات کو نظر انداز کر کے، صرف "الحمدللہ اور اللہ کا شکر” جیسے قیمتی الفاظ کا ورد بھی فائدہ مند ثابت نہیں ہوگا۔ ہمیں حقیقتاً اپنے رب کا شکر ادا کرنے کا حق ادا کرنا ہوگا۔ واضح رہے کہ نعمتوں کے حصول کے پس منظر میں ہمیشہ انسانی خدمات کار فرما رہتی ہیں؛ یعنی دنیا کے معاملات کو حالات، اسباب اور اشخاص سے وابستہ کرنے کی وجہ سے, اللہ تعالیٰ انسانوں کو اپنی عنایات اکثر انسانوں کے توسط سے ہی فراہم کرتا ہے۔ اس نظام کو بہ حسن وخوبی بروئے کار لانے کے لیے، اللہ رب العالمین نے تمام انسانوں کو رزق کمانے کے معاملے میں یکساں صلاحیتیں دینے کے بجائے "بعض کو بعض پر فوقیت” دی ہے(سورۃ النحل۔16: 71)۔
یہ صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ اللہ کے مخلص بندے اپنے دل کی پوری آمادگی کے ساتھ ان انسانوں کا بھی شکریہ ادا کریں جن کے توسط سے انہیں اپنے پروردگار کی نعمتیں حاصل ہورہی ہیں۔ انسانوں کا شکر ادا کیے بغیر اللہ تعالیٰ کا شکر بھی ادا نہیں کیا جاسکتا ہے۔ خوش قسمتی سے حاصل رمضان المبارک کے دوران شکر کی کیفیت کو درست زاویے سے بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ جو لوگوں کا شکر یہ ادا نہ کرے وہ اللہ کا شکر ادا نہیں کرے گا( جامع ترمزی: حدیث نمبر 1954)۔
صرف اللہ کے لیے صالح نیت اور یکسوئی کے ساتھ کیا گیا تھوڑا عمل بھی زیادہ اچھے نتائج برآمد کرسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ استطاعت ہونے کے باوجود زیادہ عمل نہ کیا جائے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف عمل کی مقدار (quantity) کو ہی پیمانہ نہ بنایا جائے، اس کے بلند سطحی معیار (high quality) کو بنائے رکھنے کے عمل کو ضرور ترجیح ملنی چاہیے۔ زیادہ ہونا اُتنی اچھی بات نہیں، جتنا اچھا ہونا اچھی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نظر میں بھی بلند مرتبہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو تقوہ کے معاملے میں بلند ہوتے ہیں۔
کسی بھی مومن شخص کےلیے رمضان المبارک کے مقدس مہینے کا حصول بھی بلا شبہ، خوش قسمت ہونے کی علامت ہے۔ صالح اعمال کرنے کےلیے اگر مبارک مواقع (auspicious occasions) بھی دستیاب ہوجائیں تو گویا منزل کی جانب آدھا سفر طے ہو جاتا ہے۔ رمضان المبارک مسلمانوں کو ایسا ہی منفرد موقعہ فراہم کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند کے اچھے کام انجام دے کر دنیا و اخرت دونوں جگہ مالامال ہوجائیں۔ قرآن مجید میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو "رحمت اللعالمین” کے خطاب سے نوازا گیا ہے (سورۃ الانبیاء-21: 107)، آپ کو "خُلق عظیم”، یعنی اخلاق کا اعلا درجہ عنایت کیا گیا(سورۃ القلم-68: 4)، آپ کو نرم دلی اور شفقت کا مزاج عطا کیا گیا (سورہ آل عمران-3: 159) اور لوگوں کے لیے آپ کی زندگی اسوہ حسنہ، یعنی بہترین نمونہ ہے (سورۃ الاحزاب-33: 21)۔
ان سارے مبارک اوصاف سے اپنی زندگی کو معمور و معطر کرنے کی سچی تمنا جملہ مومنین کے دل میں ہونی ہی چاہیے اور اِن کا حصول اُن کی دنیاوی زندگی کا ہدف(target) بھی۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کی جدوجہد کے لیے رمضان المبارک سے اچھا اور کون سا مہینہ ہوسکتا، جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو معمولی بھلائی پر بھی "بےحساب” پیمانے سے نوازتا ہے۔ ہمیں اپنے کردار، نیت، ارادہ، نظریات، معاملات، عہد و پیمان، اطوارِ زندگی، اخلاقیات، ظاہر و باطن، قول و فعل اور علم و عمل کا ازسرنو جائزہ لیتے ہوئے سرزد ہوئی غلطیوں کی نشاندہی اور ان کو درست کرنے کا عزم و حوصلہ کرنا چاہیے۔ سچی نیت کے ساتھ کوشش کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے۔ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ تم میں سب سے بہتر وہ آدمی ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں (صحیح البخاری: حدیث نمبر 6029)۔
"تقوے کی روش” ہی وہ چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے ایمان کے بعد سب سے زیادہ محبوب و مطلوب ہے۔ تقویٰ، یعنی خدا کے خوف میں جینا گویا دنیا میں انسان کے عقل و شعور کے درست ہونے کی نشانی ہے۔ دنیاوی اعتبار سے جہاں معاشی اور سماجی حیثیت، عہدہ و مناصب اور حسب و نسب کی فوقیت انسان کو معزز و محترم بناتی ہے، وہیں اللہ تعالیٰ کے حضور ان سب چیزوں کی کوئی وقعت نہیں۔ خدا کے نذدیک سب سے زیادہ معزز وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "اے لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا۔ اور تم کو قوموں اور خاندانوں میں تقسیم کردیا، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔بے شک اللہ جاننے والا، خبر رکھنے والا ہے(سورۃ الحجرات-49: 13)۔
بات کو گہرائی سے سمجھا جائے تو خدا کے خوف میں خدا کی محبت خود بہ خود شامل ہو جاتی ہے, بلکہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہی اس کے مومن بندوں میں اس کا خوف پیدا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ؕ یعنی اور جو ایمان والے ہیں، وہ سب سے زیادہ اللہ سے محبت رکھنے والے ہیں(سورۃ البقرہ-2: 165). اپنے پروردگار سے کی جانے والی سب زیادہ محبت ہی مومن بندوں کے دل میں یہ کھٹک یا بالفاظ دیگر خوفِ خدا بھی پیدا کر دیتی ہے کہ ان کا خالق و مالک ان کی کسی کوتاہی پر ان سے ناراض نہ ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت میں پیدا ہونے والے یہی پاکیزہ جذبات و احساسات صالح مسلمانوں کے اندر اپنی پسند اور ناپسند کو بلا شرط و تردد اپنے پروردگار کی پسند و ناپسند میں ضم کر دیتے ہیں۔ اسی منفرد کیفیت کا دوسرا نام تقویٰ یا پرہیزگاری ہے؛ گویا اللہ کا خوف اور اللہ کی محبت ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔
یقیناً، ایسا شخص نہایت قیمتی انسان ہوجاتا ہے جو اپنے خالق و مالک کی رضا میں جینے والا ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ کا روزوں کی فرضیت کو تقوے کے حصول سے وابستہ کر دینا اس ربانی حکمت کی طرف اشارہ ہے جو روزوں کی عبادت کے اندر رکھ دی گئی ہے۔ اللہ کی محبت اور اللہ کے ڈر کے درمیان زندگی گزارنا انسان کو اس کی حیثیتِ اصلی (cut to size) سے متعارف کروا دیتا ہے۔ روزہ کی حالت میں اس کی فخر و انانیت کافور ہوجاتی ہے۔ وہ اپنی ہی نہیں، دوسرے لوگوں کی بھوک اور پیاس و دیگر تکالیف کو بھی محسوس کرنے لگتا ہے۔ نتیجتاً، وہ اپنے خالق و معبود کے سامنے خود کو ایک عاجز بندے کی حیثیت میں دریافت کر لیتا ہے اور اس کو یہ ادراک بھی حاصل ہو جاتا ہے کہ زندگی کے ہر معاملے میں وہ اپنے رب کا محتاج ہے۔ بندگی کی یہی نوعیت "عبادت” کی اصل ہے (سورۃ الذاریات-51 : 56)۔
عاجز بندہ بن کر رہنے والے انسانوں کے ساتھ اللہ رب العالمین اپنا "قرب” بڑھا دیتا ہے۔ حدیث شریف کا مفہوم کچھ اس طرح سے ہے: نبی کریم ﷺ نے اپنے رب سے روایت کیا کہ اللہ پاک فرماتا ہے کہ جب بندہ مجھ سے ایک بالشت قریب ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس سے قریب ہوتا ہوں اور جب بندہ مجھ سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے تو میں اس سے دو ہاتھ قریب ہوتا ہوں اور جب وہ میرے پاس پیدل چل کر آتا ہے تو میں دوڑ کر آجاتا ہوں(صحیح البخاری: حدیث شریف نمبر 7536)۔
ظاہر و باطن کی پاکیزگی یا بالفاظ دیگر "تذکیہ نفس” اور صالح اخلاقی اقدار کی پاسداری ایک متقی شخص کا خاصا ہوتا ہے۔ وہ اس ضمن میں معمولی قسم کی آلودگی کا بھی تحمل نہیں کرسکتا۔ وہ اپنی خیر و سلامتی کے بارے میں ہی سنجیدہ نہیں ہوتا ہے، دوسرے افراد کی خیر خواہی بھی اس کی زندگی کا ہدف بن جاتی ہے۔ کسی شخص کا متقی ہونا گویا اس کو باور کراتا ہے کہ زندگی کے ہر ایک معاملے میں وہ اپنے پروردگار کی مرضی دریافت کرے، اور یہ جاننے کے لیے کہ انسانی زندگی کے کن طور طریقوں کو اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے اور وہ کون سے امور ہیں جن کا کیا جانا اس کو ناپسند ہے، قرآن مجید کا مطالعہ ناگزیر ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے منصوبہِ تخلیق کی نزاکتیں، دنیا اور آخرت کی حقیقتیں، معرفتِ خداوندی حاصل کرنے کے ضمن میں انسانی دنیا میں ہونے والے امتحان کی نوعیت و مصلحت اور موت کے بعد ہمیشہ رہنے والی ابدی زندگی(Eternal Life) کا ادراک حاصل کرنے کے لیے بھی قرآن مجید کے مطالعے کے بغیر کام نہیں چل سکتا ہے۔ انسان عارضی طور پر بسائی گئی موجودہ دنیا میں انسانوں کے توسط سے وقوع پذیر ہونے والی زرق برق ترقی کے جن سائنسی کمالات کی چکاچوند سے دو چار ہے، وہ سب دراصل مادہ (The Matter) میں پوشیدہ قوانین قدرت کو سمجھنے اور انسانی تہذیب و تمدن کے لیے انہیں استعمال کرنے کا ظاہرہ ہے۔
صحیح علم والے سمجھتے ہیں کہ انسانی دنیا کی یہ رونق اور آب و تاب خالق کائنات کا ہی عجائب خانہ ہے۔ اپنے بہترین تخلیقی شاہکار(احسن تقویم)، یعنی انسان کے لیے ہی اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات کو مسخر کردیا ہے تاکہ وہ اپنے خالق و مالک کی بے شمار نشانیوں یا بالفاظ دیگر اس کی صفاتی تجلیات کا نہ صرف مشاہدہ کرتے ہوئے، بلکہ ان کا استعمال کرتے ہوئے بھی کائنات کو تخلیق کرنے والے اپنے "قادر مطلق” اور مہربان رب کی معرفت (پہچان) حاصل کرے اور اپنی بامعنی تخلیق کے متعلق بھی غور و خوض کرتے ہوئے خود کو ایک "عاجز مطلق” مخلوق کے طور پر دریافت کرے۔
انسان اکثر اوقات، اپنی مادی ترقیات کے پس منظر میں فخر و انانیت کی نفسیات میں یہاں تک بولنے کی جسارت کر بیٹھتا ہے کہ اب انسان کو نعوذ باللہ، اللہ رب العالمین کی ضرورت نہیں، انسانوں کے لیے سائنس کافی ہے۔ یہ صرف ایک انسانی وہم ہے جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں۔ انسان کا پورا فطری وجود اس حقیقت کا اعلان کر رہا ہے کہ وہ خود ایک "مخلوق” (The Creation) ہے، اور یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ کسی کا مخلوق ہونا خود اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا ایک "خالق” (The Creator) ہونا ہی چاہیے، اور کائنات میں ہر طرف پھیلے ہوئے عجائبات اُس خالق کے ہونے کی تصدیق بھی کر رہے ہیں، مگر اس کی اصلیت اور مرنے کے بعد انسان کے ساتھ پیش آنے والے معاملات کی صحیح نوعیت کا علم امتحانی مصلحت کی وجہ سے انسان کی شخصیت میں اس طرح ودیعت نہیں کیا گیا ہے، جس طرح مادے کا علم اسے اپنی دنیا کی تہذیب و تزئین کے لیے فطری طور پر حاصل ہے۔
حقیقتاً، انسان کو علم کی قلیل مقدار سے نوازا گیا ہے(سورۃ الاسراء-17: 85)۔ اس لیے، اللہ تعالیٰ نے "غیب کے حقائق” واضح کرنے کے لیے، انسانی دنیا میں پیغمبروں یا دوسرے الفاظ میں نبیوں اور رسولوں، اور ان کے ساتھ آسمانی صحائف اور کتابوں کے نزول کا سلسلہ شروع کیا تھا، جس کو دین مکمل ہوجانے(سورۃ المائدہ-5: 3) کے بعد خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کی وفات (8 جون، سنہ632 عیسوی) کے ساتھ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا گیا ہے۔ بلا شبہ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہوگئی ہے۔ "کار نبوت” یعنی پیغمبر کے بعد انسانی دنیا میں اللہ کے پیغام کے ابلاغ کا کام، قیامت تک کے لیے جس کی انجام دہی مسلمانوں پر لازم کردی گئی ہے، بدستور جاری رہے گا۔
اس ضمن میں مسلمانوں کو واضح ہدایت اور بے آمیز رہ نمائی فراہم کرنے کے لیے، خود اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام، یعنی قرآن مجید کو ہر قسم کے انسانی اندیشوں اور اشکالات سے ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا ہے۔ اس مختصر علمی بحث کا نچوڑ یہ ہے کہ انسان؛ خصوصی طور پر مسلمان قرآن مجید کا مطالعہ اس طرح کرے کہ اس کا حق ادا ہوجائے، اور وہ اپنے لیے تذکیہ نفس، متقیانہ زندگی کے اوصاف اور معرفت خداوندی کے ساتھ ساتھ، اپنے ایمانی درجات کی بلندی کے علاوہ دعوت الی اللہ کا بنیادی فریضہ بھی بہ حسن و خوبی انجام دے سکے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کو پڑھتے ہیں جیسا کہ حق ہے پڑھنے کا۔ یہی لوگ ایمان لاتے ہیں اس پر۔ اور جو اس کا انکار کرے تو وہی گھاٹے میں رہنے والے ہیں” (سورۃ البقرہ-2: 121)۔
یہاں یہ بات خصوصی طور پر قابل غور ہے کہ قرآن پاک کو اس طرح پڑھنا چاہیے جیسا کہ اس کا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ آیات میں تدبر اور قرآن مجید کے پیغامات میں سنجیدہ غور فکر کے عمل سے ہی یہ حقیقت واضح ہوسکتی ہے کہ قرآن پاک ہر دور کے لیے کتابِ ہدایت ہے۔ زمانے کا دور چاہیے روایتی(Traditional Era) ہو، سائنسی(Scientific Era) ہو یا پھر سُپر سائنسی (Super Scientific Era)؛ انسان کو قرآن مجید کی رہ نمائی حاصل رہے گی۔ آخرش، قرآن پاک بھی تو اسی عظیم ہستی کا کلام ہے جس کے اختیار میں خود زمانہ اور اس کی گردش ہے۔ غالباً، استدلال کے اس مقام پر مسلمانوں، خاص طور پر برصغیر ہندوپاک کے مسلمانوں پر یہ حقیقت واضح ہو سکتی ہے کہ معنی و مطالب سمجھے بغیر، محض عربی عبارت کی تلاوت کرنے سے قرآن پاک کو پڑھنے (مطالعہ) کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔
معلوم نہیں کن حالات میں علمائے کرام نے صرف "تلاوت” کرنے کا حکم صادر کرکے، مسلمانوں کو قرآن مجید کے ربانی پیغام سے ہزاروں میل دور کردیا ہے۔ نتیجتاً، علم و آگہی کے میدان میں مسلمان اپنے ارد گرد موجود انسانوں کی بہت بڑی تعداد کے مقابلے پسماندہ ہوکر رہ گئے ہیں۔ جب آنکھ کھل جائے، تب سویرا؛ مسلمانوں کے تمام مکاتبِ فکر کو مزید تاخیر کیے بغیر قرآنی تلاوت (recitation) سے منسوب کیے گئے اجر و ثواب کو قرآنی مطالعہ(study) سے وابستہ کرتے ہوئے ماضی میں کی گئی اپنی غلطی کی اصلاح کرنی ہوگی، ورنہ مسلمانوں کی مستقبل میں آنے والی نسلوں کو تباہ ہونے سے بچانا ناممکنات میں شامل ہو جائے گا۔ چوں کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد ابھی بھی اپنے مسالک کے علما کی طرف ہی دیکھتی ہے، اس لیے کسی تعصب کے بغیر پوری قوت کے ساتھ، علمائے کرام کو مسلمانوں کے ہر ایک پلیٹ فارم سے یہ اعلان کرنا چاہیے کہ قرآن مجید کو سمجھے بغیر پڑھنا، پڑھنے میں شمار نہیں ہوتا ہے۔
ایک متقی مسلمان خود کو ہر لمحہ اللہ پاک کے "سی سی ٹی وی” (CCTV) کی زد میں گھرا ہوا محسوس کرتا ہے، یعنی وہ جانتا ہے کہ اس کی چھوٹی سے چھوٹی حرکات و سکنات بھی اس کے پروردگار کے علم میں رہتی ہیں۔ وہ مسجد میں ہو یا بازار میں، گھر میں ہو یا دوکان میں اور دفتر میں ہو یا تفریح گاہ میں، اللہ کا متقی بندہ ہمیشہ اس احساس میں جیتا ہے کہ اس کا خالق و مالک اس کو دیکھ رہا ہے۔ اس نوعیت کے روحانی احساسات سے ماہ رمضان المبارک کے دوران، ہمیں اپنی شخصیت کو مزید دوبالا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
قرآن مجید(سورۃ القدر-97: 3) کے بیان کی روشنی میں رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں (Odd numbered nights) میں سے کسی رات میں لیلۃ القدر(شبِ قدر) کا نزول ہوتا ہے جس کی خصوصی حیثیت ایک ہزار مہینوں سے بھی افضل ہے۔ اس لیے، ہم سب کو رمضان المبارک کی 21، 23، 25، 27 اور 29ویں راتوں میں خصوصی طور پر اپنے ایمان کی تجدید، کردار کی پاکیزگی، عبادت میں خشوع وخضوع اور صالح اخلاقی اقدار کو نشونما دینے کی سنجیدہ اور مخلصانہ کوشش کرنی چاہیے، جس میں ہمارے قول و فعل اور ظاہر و باطن میں موجود تضادات کو زائل کرنے کی جدوجہد کو ترجیحی حیثیت حاصل ہو۔
مذکورہ تمام اوصاف کو حاصل کرنا اتنا بھی مشکل نہیں ہے اگر ہم اپنے مہربان پروردگار کی کتابِ ہدایت، قرآن مجید کا یکسوئی اور تدبر و تفکر کے ساتھ سنجیدہ مطالعہ کریں۔ قرآن پاک کے متعلق خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "اور ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان کردیا ہے، تو کیا کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا” (سورۃ القمر-54: 17)۔
__ عبدالرحمٰن (سابق چیف مینیجر، الہ آباد بینک)
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page