رسائل ذرائع ابلاغ کا نہ صرف ایک اہم وسیلہ ہیں بلکہ کسی عہد کی علمی، تہذیبی اورسماجی صورت حال کے آئینہ دار بھی ہوتے ہیں۔ رسالے کے مزاج کو جاننے کا سب سے اہم وسیلہ اس کا اداریہ ہوتا ہے۔اداریے سے ہی ہم اس نتیجے پر بھی پہنچتے ہیں کہ رسالے کا مقصد کیا ہے ۔بعض ایسے رسالے بھی ہیں جن کے اداریے کا تعلق مشمولات سے نہیں ہوتا۔مگر ایسے رسالوں کی تعداد زیادہ ہے جن کے اداریوں سے رسالے کے مزاج اوررفتار کا اندازہ ہوتا ہے۔ شاہراہ کے ابتدائی شمارے میں ’’ترقی پسندمصنفین کا ترجمان‘‘درج ہوتا تھا اس لحاظ سے یہ فیصلہ کرنا بہت آسان ہوجاتا ہے کہ ’’شاہراہ ‘‘ترقی پسند وں کا رسالہ ہے، مگر کسی فیصلے پر پہنچنے سے قبل یہ ضروری ہے کہ شاہراہ کے اداریے پر ایک تنقیدی نظر ڈالی جائے تاکہ اس رسالے کی نوعیت کا صحیح اندازہ کیا جاسکے ۔شاہراہ کے تقریباََ سو شمارے شائع ہوئے۔
ترقی پسند ادبی تحریک کی ابتدا ۱۹۳۶ء میں ہوئی ۔اس تحریک نے ادب کی تمام اصناف کو متاثر کیا ۔ یہ موضوع ایک طویل گفتگو کا متقاضی ہے۔اس سلسلے میں خلیل الرحمٰن اعظمی کی کتاب’’اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک‘‘ایک مستقل حوالے کی حیثیت رکھتی ہے۔تمام اہم ادیبوں اور شاعروں نے ترقی پسند تحریک کی خدمات کو کسی نہ کسی طور پر سراہا ہے،لیکن بعض نے یہ بھی شکایت کی ہے کہ اس نے ادبی تقاـضوں کو فراموش کردیاہے۔ایک قاری کے طو ر پر اگر ہمیں ترقی پسندادب میں ادبی معیارکی کمی کا احساس ہوتا ہے تو اسے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔لیکن یہ بات یا د رکھنے کی ہے کہ اس تحریک کا مقصد صرف ادب تخلیق کرنا نہیں تھا بلکہ اس کے کچھ سیاسی اور سماجی مسائل بھی تھے ۔ اور ان سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی تھی۔
ترقی پسندادبی تحریک کی حمایت میں کئی رسالے منظر عام پر آئے جن میں نیا ادب ،ادب لطیف ،نقوش ،سنگ میل ،سویرا، جاوید اور شاہراہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ان رسالوں نے وقت کے اہم تقاضوں کا خیال رکھا اور ان تمام ذمہ داریوں سے عہدہ بر آہونے کی کوشش کی جو ادب کے تقاضوں اور زندگی کی بدلتی ہوئی قدروں نے ان پر عائد کی تھیں ۔بلا شبہ یہ رسالہ ترقی پسندوں کا ترجمان تھا اور اس نے اس بات سے کبھی انکار بھی نہیں کیا بلکہ شاہراہ کے ابتدائی شمارے کے سرورق پر جلی حرفوں میں’’ ترقی پسند وں کا دوماہی ترجمان درج ہوتا تھا‘‘ ،یہ اور بات ہے کہ بعد میں شاہراہ دوماہی کی جگہ ماہنامہ بن گیا اور اس کے سرورق سے ترقی پسند وں کا ترجمان کا فقرہ ہٹا لیا گیا ۔
شاہراہ کی اشاعت جس وقت عمل میں آئی ترقی پسند تحریک کے قیام کو تقریباً تیرہ سال ہوچکے تھے اور اس تحریک نے قابل ذکر کام کرلیا تھا ۔فیض ،مجاز سلام مچھلی شہری ،علی سردار جعفری ،معین احسن جذبی ،اختر انصاری،کیف اعظمی ،جانثار اختر ، ساحر لدھیانوی ،مجروح سلطان پوری،سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی اور احمد ندیم قاسمی وغیرہ کی تخلیقات اس بات کی گواہ ہیں ۔
شاہراہ کا پہلا شمارہ جنوری ۱۹۴۹ء میں ساحر لدھیانوی کی ادارت میں مکتبہ شاہراہ ،نئی دہلی کے ذریعے منظر عام پر آیا ۔اس شمارے میں میر اجی،مجروح سلطان پوری خواجہ احمد عباس،اوپندر ناتھ اشک ،دیوندر سیتا رتھی مہندر ناتھ ،کرشن چند اور عصمت چغتائی وغیرہ کی تخلیقات شائع ہوئیں۔
ساحر لدھیانوی نے اپنے ادریے ’’راہ نما‘‘میں شاہراہ کے اغراض ومقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے اس رسالے کو ترقی پسند ادبی رجحان کو فروغ دینے والا بتایا ۔بقول ساحر :
’’ہمارے اغراض و مقاصد وہی ہیں جس کا اعادہ انجمن ترقی پسند مصنفین بار بار کرچکی ہے۔ہم اپنے تمام ساتھیوں کو سلام کرتے ہیں جنہیں ہماری تحریک کی بارہ سالہ زندگی میں ظلم اور تشدد کا شکار ہونا پڑا۔۔۔شاہراہ ان کا ترجمان ہے اور یقین دلاتا ہے کہ وہ ہر حالت میں اپنے آپ کو ان سے وابستہ رکھے گا‘‘
(اداریہ:’’راہ نما‘‘: ساحر لدھیانوی،جنوری ۱۹۴۹)
ساحر لدھیانوی نے جن مقاصد کی طرف اشارہ کیا ہے اس کی حصولیابی کے لیے شاہراہ آخر تک کوشاں رہا۔ساحر کے علاوہ شاہراہ کی ادارت کی ذمہ داری سرلا دیوی،مخمور جالندھری،پرکاش پنڈت،فکر تونسوی،وامق جونپوری،ظ۔انصاری اور محمد یوسف وغیرہ نے بھی سنبھالی ۔ساحر نے حکومت کی اس غلط پالیسی پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف حکومت یہ کہتی ہے کہ ہر طرح کی آزادی کا حق حاصل ہے دوسری جانب پابندی بھی عائد کی۔ساحر لکھتے ہیں :
’’پنڈت جواہر لال نہرو اپنی تقریر میں بار بار دہراتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ملک میں ہر نوع ہر قسم کے خیالات ونظریات کی ہر امن تبلیغ اشاعت کا حق دے رکھا ہے اگر یہ صحیح ہے تو حکومت ان متشدد اقدامات کی وضاحت کیوں نہیں کرتی جن کے بنا پر متذکرہ بالا (سردار جعفری ،کیفی اعظمی ،اور نیازحیدر وغیرہ )ادیب اور فنکار گرفتار کیے گئے ہیں اگر مہاتما گاندھی کے قاتلو ں کو یہ حق دیا جاسکتا ہے کہ وہ کھلی عدالت میں مقدمہ لڑسکیں تو شاعروں اور ادیبوں کو جو ملک وقوم کے ضمیر کا درجہ رکھتے ہیں یہ حق کیوں نہیں دیا جاتا ‘‘
(راہ نما ،اداریہ ،ساحر لدھیانوی ،مارچ اپریل ۔۱۹۴۹ء)
ساحر لدھیانوی نے اداریے میں ادیبوں اور فنکاروںپرڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف اس وقت آواز بلند کی جب حکومت کے خلاف کچھ بولنا آسان نہیں تھا ۔مگر ساحر لدھیانوی نے بہت بے باکی کے ساتھ ان طاقتوں کی گرفت کی جن سے فرقہ پرستی کو تقویت مل رہی تھی۔ان حالات میں حکومت شاعر وادیب پر کیوں اور کیسے پابندی لگا سکتی ہے ۔۔۔۔۔؟
حکومت وقت نے ان ادیبوں پر جتنی پابندی لگائی ان فنکاروں کے جوش میں اضافہ ہی ہوا ۔۲؍نومبر ۱۹۴۸ ء کو احمد آباد میں خطبہ صدارت پڑھتے ہوئے کرشن چندر ترقی پسند ادب کی حمایت کی اور ان ادیبوں کی حوصلہ افزائی کی جن کے یہاں اقدار آدم کا احترام ہے۔ ہم نے انسان اور ان کے مسائل کو سلجھانے کی کوشش کی ہے۔کرشن چندر کے صدارتی خطبے کااقتباس ملاحظہ ہو :
’’ترقی پسند ادیب کے ہر منزل ہر انسان کی نئی زندگی کا ساتھ دیا ہے اس نے سقراط بن کر زہر کا پیالہ پیا ۔بائرن بنکر دیس سے جلا وطنی قبول کی ہے اور رالف فاکس اور لورکا بن کر وت کے گھات اترا ہے ۔وہ گور کی بن کر گائوں گائوں گھوما ہے ۔ اراگاں اور پیبلو نبر ودابن کر عوام کے گوریلا دستوں میں کام کرتارہا ہے اور آج بھی ہر جگہ جہا ں جہاں جنتا اپنی نئی زندگی ،نئی روحانیت ،نئی اخلاق کے لئے لڑرہی ہے ۔وہ لہو کی روشنائی سے ادب کی لافانی کتاب لکھ رہا ہے ‘‘۔
کرشن چند رمزید کہتے ہیں کہ:
’’اور جب بھی آپ دیکھیں کہ سردار جعفری اور ساحر لدھیانوی اور کیفی اعظمی کو جال کی سلاخوں کے اندر بند کردیا گیا ہے ۔جب آپ یہ سنیں کہ راجندر سنگھ بیدی اور عصمت چغتائی کے افسانوں پر پابندی لگادی گئی ہیں ،جب آپ کو معلوم ہوکہ ساغر نظامی او رنیاز حیدر کے گیتوں کے گلے میں پھانسی کی رسی لٹکادی گئی ہے تو سمجھ لیجئے کہ ترقی پسند ادیب اپنافرض پورا کررہا ہے اور ہم آپ سے اقرار کرتے ہیں اور ہم قسم کھاتے ہیں کہ ہم اپنے فرض کو ضرور پورا کریں گے ‘‘
کرشن چندرکا مذکورہ بالا صدارتی خطبہ کئی معنوں میں اہمیت کا حامل ہے۔اس اقتباس سے ہم اس تحریک کے مقاصد کو صحیح ڈھنگ سے سمجھ سکتے ہیں کرشن چندر کے اس صدارتی خطبہ سے واضح ہے کہ ترقی پسندوں کا مقصد محض ادب لکھنا نہیں تھا بلکہ زندگی کے دیگر مسائل پر بھی غور وخوض کرنا اور اس کو بہتر بنانا تھا کرشن چندر کا یہ کہنا کہ ترقی پسند ادیب نے ہر منزل ہر انسان کی نئی زندگی کا ساتھ دیا ہے ‘‘ترقی پسندی کے بنیادی مقاصد کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔یہ ایک دلچسپ واقعہ ہے کہ کرشن چندر کے اس صدارتی خطبے کے تقریباًدو مہینے بعد ہی مشاعروں اور کانفرنسوں پر حکومت ہند نے پابندی لگادی ۔یہاں تک کہ احمد آباد میں نظم یا غزل پڑھنے سے قبل پولیس کی تحریری اجازت ضروری کردی گئی،علی سردار جعفری کو فرقہ پرستی پھیلانے کے جرم میں قید کرلیا گیا ،اس طرح کے سینکڑوں واقعات اور درجنوں الزامات ادیبوں پر لگائے گئے اور ان پر پابندی لگادی گئی ۔
ان ناساز گار حالت میں شاہراہ کا منظر عام پر آنا اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنا کوئی معمولی کام نہیں تھا۔مدیران شاہراہ نے وقتاً وقتاًاس بات کا ذکر بھی کیا ہے کہ شاہراہ اور اس سے وابستہ حضرات نے ہمیشہ انصاف کی بات کی اور ظلم کے خلاف آواز بلند کیا محمد یوسف جامعی ایک اداریے میں لکھتے ہیں :
’’شاہراہ نے اس درو میں جب حق یا انصاف کی ۔آواز اٹھانا،آندھی میں چراغ جلانے کے مترادف تھا ۔انتہائی بے باکی اور جرأت کے ساتھ رجعت پسند اور غیر صحت مند اور معیاری ادب کی ترویج واشاعت کے اہم ترین کا م کو ملک کے طول وعرض میں پھیلانے اور حق وصداقت کی آواز کو ایک گوشے سے دوسرے گوشے تک لے جانے میں اس نے کبھی کو تاہی نہیں کی ‘‘
(محمد یوسف جنوری ۱۹۵۹ء)
سوال یہ ہے کہ محمد یوسف کے نزدیک ’’ غیر صحت مند‘‘اور ’’معیاری ادب ‘‘میں کیا فرق ہے ؟دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محمد یوسف نے جس معیاری ادب کی بات کی ہے وہ کیا ہے ؟رجعت پسند اور غیر صحت مند ادب سے مراد کیا ہے ؟وہ جسے رجعت پسند اور غیر صحت مندادب کہتے ہیں اس میں بھی زندگی کا کوئی روشن پہلو ہوسکتا ہے ،اور جہاں تک معیاری ادب کا تعلق ہے تو معیاری ادب کا پیمانہ صرف عصری حسیّت کو نہیں بنایا جاسکتا۔معیاری ادب کے بارے میں ایک تصور ہر زمانے میں رہا ہے جسے ہم آفاقی کہہ سکتے ہیں ۔ترقی پسندی کے اس دور میں عام طور پر کلاسیکی سرمائے کے تعلق سے ایک بے اطمینانی تھی جس کی وجہ اس وقت کے سیاسی وسماجی حالات تھے ۔محمد یوسف کا مذکورہ اداریہ ترقی پسند نظر یے کی انتہا پسند صورت کو پیش کرتا ہے ۔
شاہراہ کے اداریے میں عموما ً ان مسائل پر گفتگو ہوتی تھی جس کا تعلق براہ راست ہماری زندگی سے ہے ۔ہمارا سماج دو مختلف نظریات میں منقسم تھا مارکسی اور غیرمارکسی۔ شاہراہ چونکہ ترقی پسندوں کا رسالہ تھا لہذا اس کا جھکائو ترقی پسندی اور مارکسی نظریے کی طرف زیادہ تھا ،محمد یوسف لکھتے ہیں :
’’آج ہمارے سماج میں دو طبقوں کے درمیان تضادات کی نوعیت پہلے سے کہیں زیادہ شدید اور تیز ہوگئی طبقاتی کشمکش کا رخ اب مبہم یا غیر واضح نہیں رہا بلکہ جوں جوں سماج سرمایہ دارانہ اقتضادات کی منزل میں داخل ہورہا ہے ہم صاف طورپر دیکھ رہے ہیں کہ ایک طبقہ کا مفاد دوسرے طبقہ سے براہ راست پورشدت اور قوت سے متصادم اور صبر آزما ہے ‘‘
(محمد یوسف ،مئی۱۹۵۹ء )
ترقی پسند وں کا سماج کے تئیں جو رویہ تھا وہ بہت واضح ہے ،سرمایہ دارانہ نظام جسے ترقی پسند ظلم وجبر اور سماج کو طبقوں میں تقسیم کرنے والا بتاتے ہیں ۔مدیران شاہراہ نے اس سرمایہ دارانہ نظام اور معاشی نظام کے خلاف اپنے اداریے میں گفتگو کی ہے ۔ شاہراہ کے شمارہ مئی ۱۹۵۹ء کو دیکھئے جس میں یوسف جامعی نے اردو کی زبوں حالی اور سرکار کی بے رخی پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔
’’گذشتہ پانچ سالوں میں حکومت نے جو کچھ اردو کے ساتھ کیا ہے وہ اس کی اردو سے بے اعتنائی اور تغافل شعاری پر دلالت نہیں کرتا بلکہ اس کا ثبوت پیش کرتا ہے کہ حکومت اردو کے ساتھ ضرورت سے زیادہ مہربان ہے ۔لیکن ہمیں کہنے دیجئے کہ صرف امدادی رقم منظور کرنے سے اردو کا مسئلہ حل نہیں ہوتا ،ہمیں بنایا گیا ہے کہ ان اداروں نے جن کو یہ امدادی رقم پیش کی گئی ہیں ،اس روپیہ کو کتابوں کی تالیف وتصنیف اور ان کی اشاعت پر صرف کیا ہے ۔قدرتاً یہ سوال اٹھ جاتا ہے کہ کتابوں کی اشاعت کے ساتھ کیا یہ ضروری بات نہیں ہے کہ کتابوں کے پڑھنے والے بھی موجود ہوں ۔ اگر پڑھنے والے نہیں ہیں تو کتابوں کی اشاعت سے کوئی فائدہ نہیں ،کتابیں عجائب گھر یا نمائش گاہوں میں سجانے کے لئے نہیں پڑھنے والوں کے لئے ہوتی ہے اور ہم یہ سوال اٹھانے میں حق بجانب ہیں کہ حکومت نے ان گذشتہ پانچ سالوں میں اردو پڑھنے والوں کا نیا طبقہ وجود میں آیا ہے ؟کیا اردو کو اس کی قانونی اور ضروری حیثیت دی جاچکی ہے ؟اگر ایسا نہیں ہے تو امدادی رقوم اور ان مہربانیوں کا کیا فائدہ ‘‘
(یوسف جامعی ،اس انجمن گل میں اداریے ،مئی ۱۹۵۹ء)
طوالت کے سبب پورااقتباس پیش نہیں کیا گیا۔مگرمندرجہ بالا جملوں سے اصل مسئلے کی جانب اشارہ مل جاتا ہے بہر کیف حکومت کی غلط پالیسی اور اردو کے ساتھ بے اعتنائی اختیار کرنے سے اردو کا بہت نقصان ہوا ،خود اردو والوں کا رویہ بھی اچھا نہیں تھا ،اول حکومت اردو کے لئے کوئی مالی امداد دینا نہیں چاہتی تھی اوراگر کسی طرح حکومت کی جانب سے کچھ امدادی رقم ملتی بھی تو اسے کتابوں کی اشاعت پر صرف کردیا جاتا تھا ،یوسف جامعی نے حکومت کی اس غلط پالیسی کی طرف جو اشارہ کیا ہے وہ قابل ستائش ہے ظاہر ہے اگر کسی زبان کے پڑھنے والے ہی نہ ہوں تو اس زبان میں کتابیں شائع کرنے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا ۔یوسف نے بالکل صحیح لکھا ہے کہ کتابوں کی اشاعت کے ساتھ ساتھ اردو پڑھنے والوں کی تعداد بڑھانے پر بھی سرکار اور اردو داں طبقے کو غور کرنا چاہئے مگر اہم بات یہ ہے کہ سرکار اردو کے لئے جو مالی امداد دیتی تھی وہ بہت کم ہوا کرتی تھی ،ان پیسوں سے اردو ادارہ قائم کرنا ممکن نہیں تھا ۔
شاہراہ بنیادی طور پر ترقی پسند وں کا ترجمان تھا۔لہذا فکری اور تنظیمی سطح پر ترقی پسند ادبی تحریک میں جو نشیب وفراز آتے اس کا اثر شاہراہ کے اداریوں پر بھی ہوا ۔ترقی پسند تحریک کے ابتدائی پندرہ سولہ برس بہت شاندار اور حوصلہ افزا تھے مگر اس کے بعد تحریک انتشار ،بدنظمی اور انحطاط کی کیفیت سے دوچار ہوکے اپنے مقاصد سے بھٹک گئی ۔تحریک کی صفوں میں انتشار کے آثار نمایا ں ہونے لگے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عام مایوسی اور ناامیدی کی فضا قائم ہوگئی اور اس مایوسی اور ناامیدی کا اثر ہی تھا کہ پچاس کی دہائی میں انجمن سے متعلق دو نظریات سامنے آئے ایک یہ کہ انجمن کی اب کوئی ضرورت نہیں اور دوسرا خیال تھا کہ انجمن کی ضرورت ۱۵ ؍برس قبل کی طرح آج بھی باقی ہے بس اسے نئے سرے سے منظم کرنے کی ضرورت ہے ۔ظاہر ہے اس سوال کے جواب پر ہی ترقی پسند تحریک کے مستقبل کا فیصلہ ہونا تھا ۔ شاہراہ نے وقت اور حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے تحریک کی شکل بدل کر نئے سرے سے اس کے فروغ پر زور دیا،ظ۔انصاری لکھتے ہیں :
’’ہمارے ملک میں اگر الگ الگ زبانوں کے تمام ادیبوں کی آل انڈیا انجمن بن جاتی ہیں اور ان کی بنیاد پر کوئی آل انڈیا وجود میں آتی ہے تو اس میں ترقی پسند بھی ہوں گے اور وہ بھی جو اپنے اوپر کسی طرح کا لیبل نہیں لگاتے اور کسی مخصوص خیال کا حامی نہیں بتاتے ۔اب یہ ہمارے ادب کے ذاتی صفات اور ہماری ادبی نظریے کی قوت اور کشش پر منحصر ہے کہ ہم ان ادیبوں کو اپنے قریب لاتے ہیں ،ان کے دلوں میں اپنی جگہ پیداکرتے ہیں یا اپنی راہ بھی چھوڑکر انہیں کے ساتھ ہولیتے ہیں ‘‘
(ظ ۔انصاری ،سالنامہ ۱۹۵۵ء)
یہ پہلا موقع تھا کہ کسی ترقی پسند ادیب نے آل انڈیا انجمن قائم کرکے اس میں ترقی پسند اور غیر ترقی پسند ادیبوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کی ۔ ظ۔انصاری کی مندرجہ بالا رائے ان کی کشادہ ذہنی کا پتہ دیتی ہے۔
’’شاہراہ ‘‘نے اپنے ابتدائی شماروں سے ہی ترقی پسند تحریک کو منظم کرنے پر زور دیا اور ان مقاصد کی ترویج اشاعت پر زور دیا جو ترقی پسند وں کا مقصد خاص تھا ۔ لہذا ساحر لدھیانوی سے محمد یوسف تک تمام مدیروں نے ان مضامین کو رسالے میں جگہ دی جن سے ترقی پسند تحریک کو ایک نئی سمت مل سکتی تھی مگر کسی ایک نظریے کی پابندی اور اس کی حمایت کرنے میں عموماً شدت آجاتی ہے ، اس کے نتیجے میں ایسا ادب تخلیق پاتاہے جس کی ادبیت ہی مشکوک ہوجاتی ہے۔ شاہراہ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ، ترقی پسند ادب کے نام پر بہت سی ایسی چیزیں شائع ہوئیں جن نے ترقی پسند ادبی نظریے کو نقصان تو پہنچایا ہی ساتھ ہی شاہراہ کے ادبی معیار پر ہی سوالیہ نشان لگاگیا ۔مگر مدیران شاہراہ کو اس کا احساس بہت جلد ہوگیا اور انہوں نے اس بات کا اظہار بھی کیا،مارچ اپریل ۱۹۵۳ء کا شمارہ جو کانفرنس نمبر بھی تھا میں محمد یوسف نے شاہراہ کے معیار کو برقرار رکھنے پر زور دیتے ہوئے لکھا تھا کہ شاہراہ نے ہمیشہ ادب میں صحت مند رجحانات کی آئینہ داری کی ہے اور ترقی پسندوں کا ساتھ دیا اور اپنے معیار کو برقرار رکھنے کی پوری کوشش کی ہے مگر اب شاہراہ کا معیار مشکوک ہوگیا ہے اور اس بارے میں مسلسل شکایتیں مل رہی ہیں ۔ محمد یوسف لکھتے ہیں :
’’شاہراہ کسی فرد یا گروہ کی میراث نہیں اور پھر یہ جس نظریے کا حامل ہے تو تنقید اور خود احتسابی اس کا سب سے بڑا حسن ہے۔ ‘‘
(بات کہنے کی نہیں ،اداریہ ،محمد یوسف ،مارچ اپریل ۔۱۹۵۳ء)
اس اقتباس سے دو سوالات ذہن میں آتے ہیں اول یہ کہ اگر شاہراہ کسی گروہ کی میراث نہیں تو پھر کسی خاص نظریے کی حمایت کرنے کا کیا مطلب ؟اور دوم محمد یوسف کا یہ کہنا کہ شاہراہ کسی فرد یا گروہ کی میراث نہیں ایسا تو نہیں کہ محمد یوسف شاہراہ پر لگے ترقی پسند رسالے کا لیبل ہٹانا چاہتے تھے؟یہ سوال اس لئے بھی اہم ہے کیونکہ شاہراہ کے ابتدائی شماروں کو دیکھا جائے تو اس کے سرورق پر ’’ترقی پسندوں کا دوماہی ترجمان ‘‘درج ہونا تھا مگر بعد میں یہ فقرہ غائب ہوگیا اور یہاں محمد یوسف کا یہ کہنا کہ شاہراہ کسی گروہ کی میراث نہیں ،بد لے ہوئے ذہن کا پتہ دیتا ہے کیونکہ یہ محض اتفاق نہیں کہ پچاس کی دہائی میں ترقی پسند تحریک کو ختم کردینے کی بات بھی زور شور سے ہورہی تھی ۔ وجہ جو بھی رہی ہو مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ شاہراہ کے معیار کو بلند کرنے کی پوری کوشش کی گئی ۔شاہراہ کے متعلق مل رہی شکایتوں پر جب سنجیدگی سے غور کیا گیا تو اس بات کا علم ہوا کہ اگر مدیر رسالے کے مواد پر غور کریں اور سنجیدہ مضامین کو رسالے میں شامل کیا جائے تورسالے کے معیار کو بلند کیا جاسکتا ہے شاہراہ کے ادارتی بورڈ کو شاہراہ کے گرتے معیار کی ذمہ داری مدیر شاہراہ کے ذمہ کرتے ہوئے محمد یوسف لکھتے ہیں:
’’شاہراہ کی ادارتی کرسی سمادھ یا مزار کے مہنت اور متولی کی گدی نہیں کہ جو اس پر بیٹھ گیا حضرت داغ کی طرح بیٹھ گیا ، یہ ٹھیک ہے کہ ترقی پسندی میں فرد کو قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن اگر کوئی یہ سمجھ لے کہ ترقی پسند ی کا وہ تنہا رہنما ہے تو اس کے شعور کی ناپختگی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے ۔شاہراہ کی ادارتی ذمہ داری کا ایک تقاضہ یہ بھی ہے کہ اس کے پڑھنے والوں اور اس میں لکھنے والوں کے مطالبے پورے کیے جائیں جو شاہراہ کو ہر اعتبار سے جاندار ، خوبصورت اور پیش رو پرچہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ ‘‘
(بات کہنے کی نہیں ۔۔۔۔اداریہ محمد یوسف مارچ اپریل ۱۹۵۳ء )
محمدیوسف نے جن باتوں کی طرف اس ا داریے میں اشارہ کیا ہے وہ قابل تعریف ہے مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ خود محمد یوسف نے ان باتوں پر کتنا عمل کیا ؟ شاہراہ میں شائع ہونے والا مواد کیا ہوگا اس پر بھی یوسف نے غوروخوض کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر قاری کے مطالبات کا خیال نہیں رکھا جاتا تو شکایتوں کا ہونا فطری ہے لہذا محمد یوسف نے بار بار مضمون نگاروں اور شاعروں سے اصرار کیا کہ وہ اپنے تخلیقی اور تنقیدی مضامین کو بہتر طریقے سے پیش کریں تاکہ شاہراہ کے معیار کو بہتر اور بلند کیا جاسکے یوسف جامعی کا اداریہ ملاحظہ ہو :
’’شکایت اگر چہ فضول ہے اور اس لئے کہ شاہراہ کے صفحات پر اس کا بار بار اظہار کرنے کے باوجود کوئی خاص نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے تاہم اس خاص کے پیش نظر کہ ممکن ہے کوئی کڑوی کسیلی بات ہمارے دوستو اور کرم فرمائوں کے احساسات کو جھنجھوڑنے میں کامیاب ہوجائیں ۔اس بات کا اظہار کرنا ہی پڑتا ہے کہ شاہراہ کا معیاربنانے اور اس کو بہتر سے بہتر طریقے پر پیش کرنے میں ہمارے اہل قلم ساتھی پوری طرح ہمارا تعاون نہیں کررہے ہیں ‘‘
(اس انجمن گل میں ۔۔۔یوسف جامعی ،اداریہ جولائی ۱۹۵۹ء)
میں نے اپنے اس مضمون میں شاہراہ کے چند اداریے پر گفتگو کی ہے کیونکہ بعض اداریے بہت سرسری ہیں جس میں مشمولات کا ذکر بھر کیا گیا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ جہاں تک ادبی رسالے کے معیار کا تعلق ہے تو محض مدیر کے کچھ کرنے سے معیار بلند نہیں ہوسکتا بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ مضمون نگار شاعر اور تنقید نگار بھی اپنی تخلیق کے معیار کو بلند کریں ۔ایک معیاری پرچے کو باقاعدگی کے ساتھ وقت پر شائع کرنا مشکل کام ہے۔شاہراہ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا مالی تنگی اور معیاری مضامین کے فقدان نے شاہراہ کی رفتار کو سست کردیا عمر بڑھنے نہ دی اور ۱۹۶۰ء کے آخر میں ذمہ داران شاہراہ نے اس کو بند کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page