ڈاکٹر مجاہد الاسلام
اسسٹنٹ پروفیسر,شعبہ اردو
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، لکھنو کیمپس،لکھنو
عربی میں شاعر کو تلمیذ الرحمان کہا جاتا ہے ۔اس لیے ان کے خیالات جو شعر ی پیکر میں ڈھل کر آتے ہیں ، انھیں الہام کے درجے میں رکھا جاتا ہے اور انھیں علم لدنی کی معرفت کا حامل سمجھاجاتا ہے۔ شاعر کے خیالات میں پوشیدہ علوم کی وضاحت اور ان سلجھے مسائل کے حل کی جھلک تک نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر زمانے میں اور ہر زبان میں اس حیثیت سے شاعر کی پذیرائی ہوئی ہے۔ مشہور ناقد مجنو ں گورکھپوری نے شاعر کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے:
”دنیا کی کئی مقتدر زبانوں میں ”شاعر”کے مترادف جو الفاظ ملتے ہیں ان کے اصلی معنی ایسے ہی شخص کے ہیں جو توفیق خدا وندی یا امر رب کا حامل ہوجو دانائے اسرار کائنات ہو ،جو ایسی چشم بینا رکھتا ہوکہ ان حالات و عوامل اور ان کے عواقب کو دیکھ اور پہچان سکے جو ابھی عوام الناس سے پوشیدہ ہیں۔عارف،حکیم،دانشور،پیش بین،یہ ہیں ان زبانوں میں ان الفاظ کے معنی جو شاعر کی جگہ رائج رہے ہیں.. ….دنیا میں بہت سے شعر اء ایسے ہوئے ہیں جنہوں نے بلند آواز میں یا زیر لب شاعری کو ہاتف یا غیب کی آواز بتایا ہے……خانقاہ رشیدیہ(جونپورو غازی پور)کے مشہور سجادہ نشین عبد العلیم آسی بڑے برگزیدہ شخص اور باکمال شاعر گزرے ہیں،وہ شاعری کے بارے میں صاف صاف کہتے ہیں:
شعر گوئی نہ سمجھنا کہ مرا کام ہے یہ
قالب شعر میں آسی فقط الہام ہے یہ
(غالب شخص اور شاعر : مجنوں گورکھپوری ۔ایجو کیشنل بک ہائوس علی گڑھ۔سن1976۔ص32)
مجنوں گورکھپوری نے عبدالعلیم آسی کے شعر کے حوالے سے شاعری کی الہامی کیفیت کے تعلق سے جو کچھ کہنے کی کوشش کی ہے، ایسا نہیں ہے کہ یہ الہامی کیفیت کسی خاص زبان کے شعراء کے لیے مخصوص ہے، بلکہ یہ کیفیت ہر اس شاعر کے اشعار میں پائی جا سکتی ہے جو مطالعۂ کائنات اور آفاق و انفس میں جھانکتے رہنے کا ملکہ پیدا کر چکا ہو، خواہ وہ شاعر کسی بھی زبان کا ہو۔ شاعرانہ اظہار میں چونکہ کم سے کم لفظوں میں اپنے مطلب کی ادائیگی ہوتی ہے، اس لیے صنعتوں کا استعمال اس کے لیے لازمی ٹھہرتاہے،جس کا مولانامحمد حسین آزاد کے اس اقتباس سے بخوبی اندازہ لگا یا جا سکتا ہے :
”جب صبح کا نور و ظہور دیکھتا ہے تو کبھی کہتا ہے کہ دیگ ِمشرق سے دود ابلنے لگا،کبھی کہتا ہے دریائے سیماب موج مارنے لگا،کوئی مشرق سے کافور اڑاتا آتا ہے۔صبح تباشیر بکھیرتی آتی ہے۔یا مثلا ً سورج نکلا اور کرن اس میں نہیں پیدا ہوئے۔وہ کہتا ہے سنہری گیند ہوا میں اچھالی ہے۔صبح طلائی تھا ل سر پر رکھ کردھرے آتی ہے۔کبھی مرغان سحر کا غل اور عالم نور کا جلوہ ۔آفتاب کی چمک دمک اور شعاعوں کا خیال کرکے صبح کی دھوم دھام دکھاتا ہے۔اور کہتا ہے بادشاہ مشرق سبز خنک فلک پر سوارتاج مرصع سر پر رکھے کرن کا نیزہ لئے مشرق سے نمودارہوا۔شام کو شفق کی بہار دیکھتا تو کہتا ہے مغرب کے چھپر کھٹ میں آفتاب نے آرام کیا اور شنگرفی چادر تان کر سورہا۔کبھی کہتا ہے جام فلک خون سے چھلک رہا ہے،نہیں مغرب کے دیوان میں آگ لگ گئی۔تاروں بھری رات میں چاند کو دیکھتا ہے تو کہتا ہے لاجوردی چادر میں ستارے ٹنکے ہوئے ہیں۔دریائے نیل میں نور کا جہاز چلا جاتا ہے اور روپے کی مچھلیاں تیرتی پھرتی ہیں…… صنعت گاہ عالم میں نظم ایک عجیب صنعت صنائع الٰہی سے ہے اسے دیکھ کر عقل حیران ہوتی ہے کہ اول ایک مضمون ایک سطر میں لکھتے ہیں۔اور نثر میں پڑھتے ہیں اور اسی مضمون کو فقط لفظوں کے پس و پیش کے ساتھ دیکھتے ہیں تو کچھ اور ہی عالم ہو جاتا ہے بلکہ اس میں چند کیفیتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔” (آب حیات : محمد حسین آزاد۔اتر پردیش اردو اکاڈمی لکھنؤ۔سن ۔1982ص64)
مذکورہ اقتباس اپنے آپ میں غنائی کیفیت کا حامل ہے اور کیف و سرور میں مبتلا کیے رکھنے کی طاقت رکھتا ہے۔ مولانا محمد حسین آزاد کی تحریروں کی خصوصیات میں یہ خوبی سرِ فہرست ہے۔ ان کی کوئی تحریر پڑھ جائیے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ نثر میں شاعری کر رہے ہیں۔ لیکن وہ اس اقتباس میں جس طرح شاعری کی کیفیتوں کو اور اس کے بین السطور میں مطلب کے چھپے ہونے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ ان کیفیتوں کے بغیر شاعری سپاٹ ہوگی اور بے کیف لگے گی۔اس بات کو مشہور ناقد و ادیب پروفیسر نورالحسن نقوی کے زیر نظر اقتباس سے اور بھی بہتر طور سے سمجھا جا سکتا ہے :
”الفاظ کے استعمال کی کئی صورتیں ممکن ہیں،پہلی صورت تو یہ ہے کہ جو لفظ جس معنی کے لیے وضع کیا جاتا ہے ٹھیک اسی معنی میں استعمال کیا جائے مثلا ہم چاند کہیں اور وہ چاند مراد لیں جو رات کو آسمان پر طلوع ہوتا ہے۔موتی کہیں اور اس موتی کی طرف اشارہ ہو جو صدف کے پیٹ سے برآمد ہوتا ہے۔دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ چاند کہا جائے اور اصلی چاند مراد نہ ہو جیسے ماں اپنے بیٹے کو چاند کہہ کر پکارے ۔موتی کہا جائے اور مطلب وہ موتی نہ ہو جو سیپ سے نکلتا ہے ۔مثلا کہا جائے کہ اس کی آنکھوں سے موتی ٹپکنے لگے۔ ظاہر ہے یہاں موتی سے مراد ہے آنسو…… کوئی عزیز دوست مدتوں بعد نظر آیا تو شکایت کے طور پر ہماری زبان سے یہ جملہ نکلا۔’تم تو عید کا چاند ہو گئے’اس مختصر سے جملے میں کتنی بہت سی باتیں سما گئیں ۔عید خوشی کا دن ہے عید کا چاند خوشیوں کا پیام لاتا ہے یہ دن سال میں ایک بار آتا ہے اور بے شمار آنکھیں عید کا چاند دیکھنے کو آسمان پر لگی رہتی ہیں۔اور جب وہ دکھائی دے جائے تو دل میں خوشی کی لہر دوڑجاتی ہے ۔آج تمہیں دیکھ کر دل پر یہی کیفیت گزرنے لگی ۔….مطلب یہ کہ لفظ کبھی اصلی یا حقیقی معنی میں بولا جاتا ہے کبھی دوسرے یعنی مرادی یا مجازی معنی میں ۔ (فن تنقید اور اردو تنقید نگاری: نور الحسن نقوی۔ایجو کیشنل بک ہائوس ،علیگڑھ۔سن 1990۔ص66ْ۔67)
ادب و شاعری میں جب زبان کے استعمال کی یہ کیفیت ہوگی تو قاری خود بخود مجبور ہوگا کہ وہ فن پارے سے کئی مطالب نکالے۔ اوراس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ہر طبائع ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔ یہ کوئی ضروری نہیں کہ جو مطلب ایک فن پارے سے زید نکال رہاہے وہی بکر بھی نکالے۔ اس طرح سے لازم ہوا کہ ایک فن پارے سے کئی کئی معنی و مطالب نکالے جائیں۔
مشہور فرانسیسی تنقید نگار رولاں بارتھ (1915-1980)نے1967 میں پہلی بار مصنّف کی موت (Death of Author) کانظریہ پیش کیا تھا۔ جس کا سیدھا سا مطلب یہی ہے کہ مصنف نہ بھی مرا ہو توقاری کو یہ فرض کر لینا چاہیے کہ وہ مرچکا ہے۔ اور اب قاری کو اس بات کا پورا اختیار ہے کہ وہ آزادانہ طور پر متن سے جو بھی مطلب نکالنا چاہے نکال سکتا ہے ۔بارتھ کے اس قول کا اردو تنقید میں بھی بڑا غلغلہ رہا۔
مشہور ناقد شمس الرحمان فاروقی نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے،وہ اپنی تصنیف ‘تفہیم غالب ‘کے مقدمے میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
”بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شعر کے وہی معنی بیان کرنا چاہیے جو شاعر کے عندیے میں ہو ۔یہ فلسفۂ شرح یعنی Hermoneuticsکا بہت بڑا مسئلہ ہے۔آج کل مغرب میں اس پر بہت بحث ہو رہی ہے اور اس پر حرف آخر شاید کبھی نہ کہا جا سکے۔میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ مشرقی شعریات میں شاعر کے عندیہ کو کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں ہے اور مغربی مفکروں کا بھی ایک بڑا گروہ اس بات کا قائل ہے کہ ہر وہ معنی جو شعر کے الفاظ سے بر آمد ہو سکیں ،وہ صحیح ہیں ،میں خود اس کا قائل ہوں کہ شعر کا ہم پر یہ حق ہے کہ ہم اس کے باریک ترین معنی تلاش کریں اور جتنے کثیر معنی شعر میں ممکن ہوں ان کو دریافت کریں،بڑے شعر کی خوبی ہی یہ کہ وہ مختلف زمانوں اور مختلف تناظر میں بھی با معنی رہتا ہے۔ایسا اس وقت ہو سکتا ہے جب اس میں معنی کے امکانات کی کثرت ہو ۔” (تفہیم غالب: شمس الرحمن فاروقی ۔غالب انسٹی ٹیوٹ ،نئی دہلی،سن 1989، ص16)۔
فاروقی نے تفہیم غالب کے اپنے مقدمے میں فلسفۂ شرح پر گفتگو کرتے ہوئے، مصنّف کی موت (Death of Author) کے نظریے کو قبول ضرور کیا ہے لیکن یہ صرف نظریاتی حد تک ہے۔ تفہیم غالب کے مطالعے سے یہ بات قاری پر واضح ہو جاتی ہے کہ وہ غالب کی شرح کرتے ہوئے غالب کے اپنے اشعار کی تشریحات سے آگے نہ بڑھ سکے یا پھر وہ اس کے قریب سے ہوکر گزر گئے۔ وہاں پر خامہ فرسائی کی تاب لانے میں انھوں نے کوتاہ دستی کاہی مظاہرہ کیا ہے۔ لیکن نظریاتی طور سے اگر مان لیا جائے کہ فاروقی مصنّف کی موت (Death of Author ) کے نظریے کے حامل تھے تو مذکورہ اقتباس سے ان کے پیش نظر دلائل کو سمجھا جا سکتا ہے۔ ضمیر علی بدایونی نے بھی اپنے مضمون ‘میر تقی میر اور رولاں بارت عالم کثرت میں’ میں اس مسئلے پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے:
”رولاں بارت سخت کافر تھا جس نے زندگی بھر عالم کثرت سے قدم باہر نہیں نکالا۔ وہ ادبی تخلیق کو کثرت کا مظہر سمجھتا تھا۔ یہاں تک کہ اس نے متن سے بہنے والی معنویت کو رنگوں کی بارش قرار دیا اور ادب کو وہ شور آفرینی کا فن قرار دیتا ہے۔ لیکن شور آفرینی (Art of Noise) کیا ہے ، رولاں بارت پھر ہمیں عالم کثرت کی طرف لے جاتاہے۔ جس طرح ایک چینل میں بیک وقت کئی آوازیں پیدا ہو جائیں تو ایک شور کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ رولاں بارت اس سے ایک نتیجہ اخذ کرتا ہے:
Literatures are infact arts of Noise
یعنی سارا ادب فن شور انگیزی ہے۔ ۔۔۔۔۔ رولاں بارت ادبی و فنی تخلیق میں اصول وحدت کارفرما نہیں دیکھتا۔ اس کے نزدیک ایک معشوق ہزار شیوہ اور گل ہزار رنگ ہے۔ میر انیس نے دعوی کیا تھا کہ ایک رنگ کا مضمون ہو تو سو رنگ سے باندھوں لیکن رولآں بارت کے نزدیک ایسے کسی دعوے کی ضرورت ہی نہیں۔ کیونکہ اس کے خیال میں متن میں پہلے ہی ہزاروں معنویتیں پوشیدہ ہیں ۔ نئے قاری آتے رہیں گے اور نئی معنویت سے بہرہ ور ہوتے رہیں گے۔ متن اپنے وجود کا تارو پود خود ہی بنتا ہے۔ مصنف تو ایک قصۂ پارینہ ہے اور شہر متن میں اس کی حیثیت ایک اجنبی اور ایک واہمے سے زیادہ نہیں۔” ( ماہنامہ کتاب نما، نئی دہلی، مدیر: خالد محمود، سن اشاعت:، مئی 2011، ص: 12)۔
متن و معنی کی اس بحث کے جس رخ کو ضمیر علی بدایونی واضح کر رہے ہیں، قاری کو محسوس ہو رہا ہوگا کہ یہ بحث اتنی صاف بھی نہیں ہے مصنّف کی موت (Death of Author ) کا نظریہ ہوکہ Art of Noiseکا مطالعہ۔ اس بحث میں فاروقی اور ضمیر علی بدایونی سمیت کئی ناقدین مصنّف کی موت (Death of Author )کے نظریے کے حامل نظر آتے ہیں جب کہ مشہور ناقد ومحقق کمال احمد صدیقی اس طرح کے تمام ہی مفروضے سے سرے سے انکار کرتے ہیں ۔وہ لکھتے ہیں:
”یہ بات قابل غور ہے کہ پچھلی چند دہائی قبل مغرب کے زیر اثر یہ تصور عام ہوا کہ تخلیق منظر عام پر آتے ہی اپنے خالق سے آزاد ہوجاتی ہے۔ یہ نظریہ کسی طرح درست نہیں۔ جس کی دلیل یہ ہے کہ تخلیق کار نے جن خیالات ،تصورات اور تناظرات میں متن کو تخلیق کیا ہے وہ ہمیشہ اس میں پیوست اور باقی رہیں گے۔مصنف جب بھی اپنے خیالات کی پیش کش میں الفاظ کا انتخاب کرتا ہے ، تو اس کا ایک حقیقی مفہوم ہوتا ہے ، بلکہ یو ں کہا جا سکتا ہے کہ مفہوم ہی کی بنیاد پر الفاظ کا تعین ہوتا ہے۔پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ متن مصنف سے آزاد ہے؟ اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ متن اپنے مصنف سے آزاد ہے ،تو اس سے بڑا مسئلہ یہ پیدا ہو گا کہ ناقد کی تصرفانہ کاوشیں یکسر مہمل اور لغو ہوں گی، کیونکہ جب تخم ہی ناقص/خیالی ہے تو اس کی نشو ونما اور برگ و بار سبھی کچھ ناقص / خیالی ہوں گے۔ ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب ہم کسی فن پارے کا مطالعہ کرتے ہیں تو مصنف کے خیالات کی ان جہتوں کو بھی دریافت کرلیتے ہیں، جہاں تک مصنف کے ذہن کی بھی رسائی نہیں تھی،لیکن اس کے باوجود ہمارا یہ سفر ہمیشہ تخلیق کارکی ذہنی کار کردگی سے علاحدہ اور آزاد نہیں ہوسکتا ہے۔اس لیے بلا خوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ متن کبھی بھی مصنف سے آزاد نہیں ہو سکتا ہے۔”(بجنوری اور نقد غالب(مضمون) از کمال احمد صدیقی۔انتخاب مقالات غالب نامہ۔(تنقیدات) ، مرتبہ: پروفیسر نذیر احمد۔غالب انسٹی ٹیوٹ،نئی دہلی۔سن 1997، ص316)
پچھلے سطور میں ذکر کیا گیا تھا کہ فاروقی اور ضمیر علی بدایونی جیسے اردو کے دانشوران بھی مصنّف کی موت (Death of Author ) کے نظریے کو قبول کر چکے ہیں۔ بھلے سے نظریاتی طور سے ہی سہی۔ اور اس کے پیچھے ان کے اپنے اپنے دلائل بھی ہیں ۔ لیکن کمال احمد صدیقی نے جن بنیادوں پر مصنّف کی موت ) Death of Author (کے نظریے کو خارج کیا ہے ، ان کی بنیادوں کو متزلزل کرنے کا مادہ شاید ہی کسی دانشور کے پاس ہو۔ تو کیا کمال احمد صدیقی کے نظریے کی بنیاد کو درست مان لیا جائے۔ اسے سمجھنے کے لیے غالب کے اشعار کی تشریحات پر ایک نظر ڈال لینا مناسب ہوگا۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اردو کے عظیم شاعر اسد اللہ خاں غالب نے بھی اپنی شاعری کو غیب کی آواز کہا ہے۔ان کا مشہور شعر ہے :
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے
اسی طرح غالب نے ایک جگہ اپنے بارے میں مبدأ فیاض سے فیضیاب ہونے کا ذکر کیا ہے۔ان کے فارسی کے استاد ملّا عبد الصمدکے تعلق سے مولانا الطاف حسین حالی نے یادگارِ غالب میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ان کی زبان سے اکثر و بیشتر یہ بھی سنا گیا :
” مجھ کو مبدأ فیاض کے سواکسی سے تلمذ نہیں ہے۔ اور عبد الصمد ایک فرضی نام ہے ،چونکہ لوگ مجھ کو بے استادا کہتے تھے، ان کا منہ بند کرنے لیے میں نے ایک فرضی استاد گھڑ لیا ہے۔”(یاد گار غالب :خواجہ الطاف حسین حالی ۔غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی ۔سن 1986ص۔14)
اس ذیل میں غالب کاایک فارسی شعر بھی ہے:
آنچہ در مبدأ فیاض بود آن من است
گل جدا نہ شد ہ از شاخ بدامان من است
اسی طرح سے غالب کی مشکل پسندی کا جو شہرہ رہا وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔غالب کے ایک معترض حکیم آغا جان عیش کا یہ شعرضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے :
اگر اپنا کہا تم آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے
مزہ کہنے کا جب ہے اک کہے اور دوسرا سمجھے
کلام میر سمجھے اور زبان میرزا سمجھے
مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے
غالب کو خود بھی اپنی اس مشکل پسندی کا احساس تھاچنانچہ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے اب تک کے کلام کو لے کر ترتیب نو کی طرف توجہ کی ۔ اس ذیل میں مجنو ں گورکھپوری لکھتے ہیں:
”خود غالب کو احساس تھا کہ ان کا کلام مشکل ہے اور گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل،کی کشمکش میں مبتلا تھے۔اس لئے مولوی فضل حق خیرآبادی جیسے مخلصوں کے مشورہ اور تعاون سے وہ انتخاب مرتب ہوا جس کو ،نسخہ حمیدیہ،کی اشاعت سے پہلے ،دیوان غالب،سمجھا جاتا رہا ۔ یہ اپنے عہد کے بہت معزز اور ممتاز لوگ تھے اور غالب کی صلاحیتوں کے معترف تھے۔اور صدق دل سے چاہتے تھے کہ غالب کے فکری اجتہادات اور اسلوبی اختراعات کم سے کم ارباب علم و فن میں کثیر سے کثیر تعداد کے لئے قابل فہم ہوں اور وہ ان سے فیض حاصل کر سکیں۔”(غالب شخص اور شاعر : مجنوں گورکھپوری ۔ایجو کیشنل بک ہائوس علی گڑھ۔سن 1976۔ص92 )
اس کے باوجود انہوں نے جب اپنی عمر کے آخری پڑائو پر اردو میں خطوط نویسی شروع کی تو اپنے بعض دوستوں اور خیر خواہوں کے اصرار پر اپنے کچھ مشکل اشعار کے مطالب بھی لکھے، ایسے کل اشعار کی تعداد 13 ہے۔ غالب کے کلام کی اب تک سو سے زیادہ شرحیں لکھی جا چکی ہیں۔ ان میں سے بعض شروحات سے مستفید ہونے کا مجھے بھی موقع ملا ہے ۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ویسے تو زیادہ تر شارحین نے غالب کے اشعار کی شرح کرتے وقت کافی گل افشانیاں کی ہیں، مگر افسوس اس وقت ہوا یہ دیکھ کر کہ اپنے جن اشعار کی شرح غالب نے خود کی ہے وہاں پر وہ خاموش رہے ۔یا پھر غالب کو ہی کو نقل (Quote)کرکے آگے بڑھ گئے ۔ یہاں پران میں سے کچھ اشعار کے تعلق سے معتبر شارحین کی شرحیں نقل کی جا رہی ہیں، تاکہ بات واضح ہو سکے:
مولوی عبدالرزاق شاکرکے استفسار پر غالب نے اپنے جن اشعار مطالب بتائے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے:
زخم نے داد نہ دی تنگی دل کی یارب
تیر بھی سینہ بسمل سے پر افشاں نکلا
اس کی شرح کرتے ہوئے غالب لکھتے ہیں:
‘زخم نے داد ‘ الخ یہ ایک بات میں نے اپنی طبیعت سے نکالی ہے جیسا کہ اس شعر میں :
نہیں ذریعہ راحت ، جراحت پیکاں
وہ زخم تیغ ہے ،جس کو کہ دلکشا کہیے
یعنی زخم کی توہین بہ سبب ایک رخنہ ہونے کے اور تلوار کے زخم کی تحسین بہ سبب ایک تاک سا کھل جانے کے ۔’زخم نے داد نہ دی تنگیٔ دل کی ‘۔ یعنی زائل نہ کیا تنگی کو ‘پرافشاں ‘ بہ معنی بیتاب’اور یہ لفظ تیر کے مناسب ۔حاصل یہ کہ تیر تنگیٔ دل کی داد کیا دیتا وہ خود ضیق مقام سے گھبرا کر پُر افشاں و سراسیمہ نکل گیا۔” (غالب کے خطوط (جلد دوم)، مرتب :خلیق انجم۔غالب انسٹی ٹیوٹ،نئی دہلی۔سن2026 ص 838)
اب ہم یہ دیکھیں گے کہ اس شعر کی تشریح میں شارحین کیا کچھ لکھتے ہیں ۔ ہم یہاں پر سب سے پہلے حسرت موہانی کی شرح نقل کر رہے ہیں:
”زخم نے داد نہ دی تنگیٔ دل کی:یعنی تنگیٔ دل کو زائل نہیں کیا ۔مطلب یہ کہ تیر خود ضیق مقام سے گھبرا کر پر افشاں اور سراسیمہ نکل گیاوہ تنگی دل کی داد کیا دیتا۔پھر آگے وہ غالب کی شرح کو ہی مقتبس کر دیتے ہیں:
”اس شعر میں زخم تیر کی توہین بسبب یک رخنہ ہونے کے ہے۔مثلاً ایک دوسرے شعر میں بھی زخم تیغ کی جراحت پیکاں پر فوقیت دی ہے:
نہیں ذریعہ راحت جراحت پیکاں
وہ زخم تیغ ہے جس کو دل کشا کہیے۔”(شرح دیوان غالب : سید فضل الحسن حسرت موہانی۔الناظر پریس لکھنؤ۔سن 1916۔ص23)
قاری کو حسرت کی اس تشریح میں اور غالب کی خود کی تشریح میں یکسانیت تلاش کرنے میں دقت نہیں ہوگی۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ حسرت نے غالب کی تشریح میں ایک لفظ کا بھی اضافہ نہیں کیا ہے تو غلط نہیں ہوگا اور حسرت ہی کیوں ؟ اس شعر کی تشریح میں یوسف سلیم چشتی بھی آگے نہ نکل سکے ۔ اس شعر کے مطالب کے ذیل میں یوسف سلیم چشتی جو کچھ لکھتے ہیں، اسے ملاحظہ کر لیا جائے:
”غالب نے اس شعر کا مطلب خود بیان کیا ہے:
‘یہ ایک بات میں نے اپنی طبیعت سے نکالی ہے،جیسا کہ اس شعر میں ہے ،یعنی زخم تیر کی توہین بسبب ایک رخنہ ہونے کے اور تلوار کے زخم کی تحسین بسبب ایک طاق ساکھل جانے کے۔ زخم نے داد نہ دی تنگئی دل کی یعنی زائل نہ کیا تنگی کو ۔پرافشاں یعنی بیتاب اور یہ لفظ تیر کے مناسب حال ہے مطلب شعر کا یہ ہے کہ ،تیر، تنگیٔ دل کی داد کیا دیتا (زخم کو کشادہ کرکے تنگی کو زائل کیا کرتا)وہ خود ضیق مقام (تنگی دل)سے گھبرا کر پر افشاں(سراسیمہ)ہو کر نکل گیا:
شرح اسباب گرفتاریٔ خاطر مت پوچھ
اس قدر تنگ ہوا دل کہ میں زنداں سمجھا
یوسف سلیم چشتی کو اپنی بے بضاعتی کا شاید کچھ زیادہ ہی احساس تھا،اس لیے آخر میں تو انہوں نے یہاں تک لکھ دیا:
”میں تو غالب کی تشریح پر کوئی اضافہ تو نہیں کر سکتا صرف اتنا اشارہ کافی ہے کہ انہوں نے حسب معمول اس شعر کی ساری عمارت صرف ایک لفظ یعنی’ تنگیٔ دل ‘پر قائم کی ہے ۔”
(شرح دیوان غالب: پروفیسر یوسف سلیم چشتی، اعتقاد پبلشنگ ہائوس۔ نئی دہلی۔ سن1983۔ ص260)
اب ہم ایک دوسرے شعر کی تشریح کی طرف آرہے ہیں ، اور وہ شعر یہ ہے :
دیتا نہ اگر دل تمہیں،لیتا کوئی دم چین
کرتا،جو نہ مرتا ،کوئی دن آہ و فغاں اور
قاضی عبد الجلیل بریلوی کے استفسار پر غالب اس شعر کی تشریح کرتے ہوئے ان ہی کے نام اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں:
”یہ بہت لطیف تقریر ہے’ لیتا ‘ کو ربط ہے’ چین سے’اور’کرتا’مربوط ہے’آہ وفغاں’سے۔عربی میں تعقید لفظی و معنوی دونوں معیوب ہے۔فارسی میں تعقید معنوی عیب ہے مگر تعقید لفظی جائز ہے بلکہ فصیح و بلیغ ہے۔ریختہ تعقید ہے فارسی کی۔حاصل معنیٔ مصرعین(دونوں مصرع)یہ ہے کہ اگر دل تمہیں نہ دیتا تو کوئی دن چین لیتا ۔اگر نہ مرتا تو کوئی دن اور آہ فغاں کرتا۔”(غالب کے خطوط (جلد دوم): مرتب۔خلیق انجم انجمن ترقی اردو پاکستان۔سن1995 ص۔ 1514)
اس شعر کی تشریح کرتے ہوئے بے خود دہلوی لکھتے ہیں:
”…… میرزا صاحب سے معشوق نے یہ سوال کیا ہے۔تو کوئی دم چین سے نہیں رہتا اور ایسا بھی نہیں ہوتا کہ تو ہمیشہ فریاد ہی کرتارہے۔اس کے جواب میں مرزا کہتے ہیں کہ اگر دل تمہیں نہ دیتا تو کوئی دم چین لیتا ،اگر نہ مر جاتا توکوئی دن آہ و فغاں اور کرتارہتا باوجود تعقید لفظی کے (جس کو فارسی والوں نے جائز قرار دیا ہے)دونوں مصرعے عجب پر لطف اور معنی خیز واقع ہوئے ہیں۔” ( مرآة الغالب :بے خود دہلوی۔آزاد بک ڈپو کوچہ چیلان۔ سن1924۔ص98)
اسی طرح اس شعر کی تشریح کرتے ہوئے جوش ملسیانی نے لکھا ہے:
”کرتا جو نہ مرتا ۔یہاں تعقید لفظی ہے۔مطلب یہ کہ تمہیں دل دے کر چین کہا ں۔عمر بھر آہ و فغاں کرتا رہا اور مرجانے پر یہ سلسلہ بند ہوا۔اگر ابھی نہیں مرتا تو اس طرح اور کوئی دن یہ سلسلہ جاری رہتا ۔یہ تمام بے چینی جو مرتے دم تک جاری رہی دل دینے کی وجہ سے ہے۔”(دیوان غالب مع شرح : جوش ملسیانی۔آتما رام اینڈ سنز کشمیری گیٹ دہلی۔سن 1951ص155)
حسرت موہانی نے اس شعر کی شرح یوں لکھی ہے :
اس شعر کی نثر یوں ہے۔اگر تمھیں دل نہ دیتا(تو) کوئی دم (اور)چین لیتا اور جو (اگر)نہ مرتا (تو)کوئی دن اور آہ و فغاں کرتا(شرح دیوان غالب : سید فضل الحسن حسرت موہانی۔الناظر پریس لکھنؤ۔سن 1916۔ص65)
اس سلسلے کا تیسرا اور آخری شعر یہ ہے:
تجھ سے تو کلام نہیں لیکن اے ندیم
میرا سلام کہیو ،اگر نامہ بر ملے
اس شعر کا مطلب بھی غالب نے قاضی عبد الجلیل بریلوی کے استفسار پر ہی اپنے ایک مراسلے میں ان کو لکھ کر بھیجا تھا۔ اس شعر کا مطلب غالب نے یہ بیان کیا ہے:
”یہ مضمون کچھ آغاز چاہتا ہے یعنی عاشق کو ایک قاصد کی ضرورت ہوگئی۔مگر کھٹکا یہ ہے کہ قاصد کہیں معشوق پر عاشق نہ ہوجائے۔بہرحال اس عاشق کا ایک دوست ایک شخص کو لایا اور عاشق سے کہا کہ یہ شخص وضعدار اور معتمد علیہ ہے۔میں ضامن ہوں کہ ایسی حرکت نہیں کرے گا ۔خیر اس کے ہاتھ خط بھیجا گیا۔قضارا عاشق کا گمان سچ نکلا ۔قاصد معشوق کو دیکھ کر والہ و شیفتہ ہو گیا ۔کیسا خط؟اور کیسا جواب ؟دیوانہ بن کر کپڑے پھاڑ کر جنگل کو چل دیا ۔اب عاشق اس واقعے کے وقوعے کے بعد ندیم سے کہتا ہے کہ غیب داں تو خدا ہے۔ کسی کے باطن کی کسی کو کیا خبر ۔ اے ندیم !تجھ سے تو کچھ شکایت نہیں لیکن اگر کہیں نامہ برمل جائے تو اس کو میرا سلام کہیو کہ کیوں صاحب !تم کیا دعوے عاشق نہ ہونے کے کر گئے تھے ۔اور انجام کار کیا ہوا؟” (غالب کے خطوط (جلد دوم): مرتب۔خلیق انجم۔ انجمن ترقی اردو پاکستان۔ سن1995 ص 1514)
بے خود دہلوی اس شعر کی شرح یوں فرماتے ہیں:
” اے ندیم تجھ سے تو ہم کو کچھ زیادہ شکایت نہیں ہے البتہ نامہ بر جو بڑی ڈینگیں ہانکتا تھا اور دعویٰ کرکے گیا تھا کہ میں ضرور جواب نامہ لے کر آئوں گا اور اب تک اس نے شکل ہی نہیں دکھائی اور شرمندگی سے چھپ کر بیٹھ گیا اگر وہ مل جائے تو میرا سلام کہہ دینامطلب یہ کہ ذرا اس سے شکایت کرنا اور شرمندہ کرنا۔” ( مرآة الغالب :بے خود دہلوی۔آزاد بک ڈپو کوچہ چیلان۔ سن1924۔ص207)
اسی طرح جوش ملسیانی نے اس شعر کی شرح یوں کی ہے:
….. اے ہم نشیں ! تجھ سے تو مجھے کوئی شکایت نہیں ہے ہاں یہ کام کرو کہ اگر نامہ بر مل جائے تو اس سے میرا سلام کہنا ۔یہ سلام خط کا جواب لانے کی یاد دہانی کے معنی بھی رکھتا ہے اور غفلت شکایت بھی اس میں موجود ہے۔مقصود زیادہ تر شکایت ہے۔”(دیوان غالب مع شرح : جوش ملسیانی۔آتما رام اینڈ سنز کشمیری گیٹ دہلی۔سن 1951ص277)
یوسف سلیم چشتی نے اس شعر کی تشریح میں مکمل طور سے غالب کی تشریح کو ہی نقل کردیا ہے اورشعر کے بنیادی تصورکے تحت فقط یہ لکھا ہے: ‘صحتِ گمان عاشق’ ۔ (شرح دیوان غالب: پروفیسر یوسف سلیم چشتی۔اعتقاد پبلشنگ ہاؤس،نئی دہلی۔سن1983۔ص688 )
متذکرہ تشریحات کو دیکھ کر اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ ان اشعار کی شرح پر ان کے شارحین نے کچھ بھی اضافہ نہیں کیا ہے ….. بلکہ مجھے یہ دیکھ کر اور بھی زیادہ افسوس ہوا کہ شمس الرحمن فاروقی نے ‘تفہیم غالب’ کے نام سے غالب کے150 کے قریب اشعار کی”بال کی کھال نکالی” تو انہوں نے بھی ان متذکرہ شعروں میں سے ایک ( نقش فریادی ۔۔۔ ) کے علاوہ کسی کوبھی لائق اعتنا نہیں سمجھا۔مجھے امید تھی کہ فاروقی ان اشعار کی شرح ہی نہیں لکھیں گے بلکہ مصنّف کی موت کے نظریے کے تحت غالب کی شرح پر بھی اضافہ کریں گے، لیکن افسوس ایسا نہیں ہوا۔
غالب کے شارحین کے ان رویوں سے کمال صدیقی نے جو نتیجہ نکالا ہے،یہاں پر وہ بھی ملاحظہ کیے جانے کے لائق ہے،وہ لکھتے ہیں:
”ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ اپنی شاعری کے سب سے بڑے مفسر خود غالب تھے اور اپنی تنقید کے سلسلے میں ایسی غیر مرئی ہدایتیں چھوڑ گئے ہیں کہ آج تک اس پر عمل آوری ہو رہی ہے جو شاعرانہ شبیہ وہ اپنی بنا گئے ہیں وہ اتنی پر کشش ہے کہ ہم اس سے ہٹ کر کوئی روپ دیکھنا ہی نہیں چاہتے ہیں….جتنے نقاد غالب کو ملے،اتنے کسی اور کو نصیب نہ ہوئے،اور گنتی کے چند کو چھوڑ کر غالب کے نقادوں نے ، نقد پر کم اور تفسیر پر زیادہ توجہ دی،غالب کے بیانات پر جو عام طور پر ان کے خطوں میں ہیں اپنے انتقاد کی بنیاد رکھی ۔اس کاایک منطقی نتیجہ یہ ہوا کہ آزادانہ اور حقیقت پسندانہ لیکھا جوکھا کم ہی ہوا ہے اور اردو تنقید عام طور سے ان پٹریوں پر اور اسی سمت میں چلتی رہی ہے جو غالب نے اس ذہانت سے بنائی تھیں کہ ہم کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ جسے ہم اپنی آگاہی کی اپج سمجھتے ہیں،دراصل اسکا تعین خود غالب نے کیا تھا۔تحقیق کے سلسلے میں بھی یہی کچھ ہوا ہے کہ ہم نے وہی کچھ دریافت کیا ہے کہ جو غالب چاہتے تھے کہ ان کے بارے میں دریافت کیا جائے۔”(بجنوری اور نقد غالب (مضمون)۔ کمال احمد صدیقی۔انتخابات مقالات غالب نامہ۔ (تنقیدات)۔ مرتبہ: پروفیسر نذیر احمد۔ غالب انسٹی ٹیوٹ،نئی دہلی۔سن 1997، ص316)۔
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نہ مصنّف کی موت (Death of Author ) کا نظریہ ہی کلی طور سے درست ہے اور نہ ہی یہ نظریہ درست ہے کہ مصنف / تخلیق کار کے ذہن میں جو کچھ ہے ، اس کو کل سمجھ کر فن پارے کی تشریح و تعبیر کی جائے۔ ان دو باتوں میں سے کسی بھی ایک بات کے قبول کر لینے پر اصرار کرنا دو انتہاؤں میں سے کسی ایک انتہا کو چن لینے کے مترادف سمجھا جانا چاہیے۔
Dr.Mujahid Ul Islam
Assiastant Professor(Urdu)
Maulana Azad National Urdu Universty
Lucknow Campus,Lucknow
Mobile:9628845713
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page
1 comment
تسلیمات
ڈاکٹر مجاہد الاسلام صاحب ! آپ کے موضوع کا ایک تو موضوع بہت عمدہ ہے اس پر آپ نے اپنا موقف بھی بالوضات پیش کردیا ہے ۔ تہنیت و تبریک ۔