ہارون رشید غافل کی مقناطیسی شخصیت نے مجھے کس قدراپنااسیربنالیا تھا اس کااندازہ مجھے ان کے انتقال کے بعد ہوا۔ ان کے سانحہ ارتحال سے زندگی میں کچھ کم ہوجانے کااحساس ہوا۔ ہارون بھائی کے چاہنے والوں کاکچھ ایساہی تجربہ ہوا ہوگا۔ وطن جاکر جن لوگوں سے ملاقات کی خواہش ہوتی ان میں سے ایک ہارون رشیدغافل بھی تھے۔ ان کاپرتپاک انداز، والہانہ لگاؤ اوراپنائیت بھرا طرز گفتگو گھرمیں گزارے ہوے اوقات کو یادگار بنادیتے۔ ہارون رشیدغافل صاحب کانام اس وقت کانوں میں پڑاجب کہ ستاسی کے سیلاب کی بربادی کامنظوم نوحہ اپنی اس بولی میں سنا جس میں لوریاں سنی تھیں۔ اسی بولی میں بلاے ناگہانی کی منظوم رودادسن کرمسرت اورتعجب کی ملی جلی کیفیت سے سرشارہوگیا تھا۔ اب یہ احساس ہوتا ہے کہ اس مقامی بولی میں کتنی غنائیت اور تخلیقیت مضمرہے۔ اس بولی کو منظوم پیکر میں ڈھالنے والے شخص سے متاثر ہوجانا فطری ہے۔ اس شخص کو دیکھنے اوران سے ملنے کی تمنا بڑھ گئی جس نے ایک مقامی بولی کی موسیقیت اور اس میں مضمرتخلیقیت کوبروے کارلایا۔ یہ مجھے یاد نہیں کہ ہارون صاحب سے کب ملاقات ہوئی۔ البتہ کسی مشاعرے میں شعرپڑھتے ہوے یااس کی نظامت کرتے ہوئے انھیں دیکھا۔ کورٹ پینٹ میں ملبوس، سرسے لے کرپاؤں تک سنجیدگی کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ،مترنم آواز، سامعین کوانھیں مسحور کرتے ہوئے دیکھا۔خیرپہلے ایک طالب علم رفتہ رفتہ ایک سینیر دوست کی طرح سلسلہ ملاقات دراز ہوتا گیا۔ گھرجاتا تو کبھی الکتاب کے سامنے کبھی کچہری میں کبھی کسی چاے خانہ میں ملاقات ہوتی ،گفتگو میں ادبی پہلو حاوی ہوتا۔ اس دوران وہ اپنے تازہ کلام سے محظوظ کرتے۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا کہ وہ موزوں طبع ہیں۔ زبان پرقدرت ہے۔ انھوںنے افسانے لکھے ، شاعری کی اورکلہیابولی میں علاقائی ،سماجی اورتعلیمی مسائل پر منظوم بیان سے انھیں خوب مقبولیت ملی۔ امرواقعہ یہ ہے کہ اس شہرت نے انھیں بہت نقصان پہنچایا۔ ان کے اندرکے مخفی امکانات کی نشوونما میں سدراہ بنی۔ میراماننا یہ ہے کہ ان میں ایسی تخلیقی صلاحیتیں موجودتھیں جن کی اگر مشاطگی ہوتی توادبی نقطۂ نظرسے ترقی کے امکانات روشن تھے۔ مقامی بولی میں منظوم کلام پر گفتگو کے متعدد زاویے ممکن ہیں۔ ایک تویہ کہ مقامی کلہیا بولی میں منظوم پیرایہ بیان پرتوجہ دینا کارفضول ہے۔ یہ ایک مقامی بولی ہے جس کاعلاقہ محدود ہے۔ اس بولی میں منظوم کلام کے متعلق دوسرانقطۂ نظر یہ ہوسکتا ہے کہ اس میں ایک مخصوص علاقے میں رہنے والے افرادکے جذبات وفکری احساسات کااظہار بحسن وخوبی ممکن ہے۔ کاشتکاری اور مویشی پالنے کوذریعہ معاش بنانے والے افراد کے ان اضطرابات کو انہی کی بولی میں،انہی رجسٹرڈ لفظیات میں ترجمانی کی کوشش زیادہ بہتر ہے فصلیں بونے ، فصلیں کاٹنے اورانھیں تیارکرنے اور اس موقع پر ان کے داخلی انبساط کوان کے روزمرہ میں اداکرنے سے ایک دبی کچلی تہذیب کولفظوں کاپیراہن دیاجاسکتا ہے۔ شادی بیاہ کے موقع پر دلہن کو سجانے، اسے رخصت کرنے ،بچے کی پیدائش کے موقع پر خوشیوں کے اظہارکی ترجمانی انہی ثقافتی کوڈز کے واسطے سے ہوسکتی ہے۔ اس پس منظرمیں یہ منظوم کلام ایک مخصوص علاقائی ثقافت اورحاشیاتی ثقافت کامظہربن جاتا ہے۔ ثقافتوں کی تاریخ میں لوک گیت بہت اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے۔ اس میں وہ احساسات اورارتعاشات محفوظ ہوتے ہیں جوکسی علاقے اور ثقافتی جغرافیے کے دستاویزی موادکاکام انجام دیتے ہیں۔ یہ ثقافتی روایتیں ماوراے تحریر ایسے نقوش ہوتی ہیں جن میں حاشیائی قوموں کی تاریخ درج ہوتی ہیں۔ ادھرکچھ دہائیوں سے مقامی ثقافتوں کو محفوظ کرنے اوراس کے احیاکے اقدامات پردنیا کے ہرخطے میں تیزی آئی ہے۔ اس کے جملہ محرکات میں سے ایک اہم محرک گلوبلائزیشن ہے۔ جومقامی ثقافتوں کونگل جانے کے لیے کمربستہ ہے۔ ہارون رشیدغافل مقامی کلہیابولی میں منظوم کلام پیش کرکے لاشعوری طورپر ایک حاشیائی خطے کی ثقافت کومحفوظ کرنے کی کوشش کررہے تھے۔
ہماری تہذیب کاایک بڑاالمیہ یہ بنتاجارہا ہے کہ ہمارے یہاں افرادکے تمام محاسن اورکارناموں کاانکشاف اور ان کی اہمیت کااحساس پس مرگ ہوتا ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ فکری کجی نے ہمیں اذکروامحاسن موتاکم کے تنبیہی جملے کی تفہیم میں رکاوٹ پیدا کی۔ یہ جملہ توکسی مرنے والے کے عیوب کے تذکرے سے منع کرنے کے متعلق تھا۔ لیکن امرواقعہ یہ ہے کہ ہم نے کسی کے محاسن اورکارناموں کے ذکرکو اس کی موت کے ساتھ مشروط قراردے دیاہے۔ خیر۔ہارون صاحب کے انتقال کے بعد فیس بک کے توسط سے ان کے افسانوی مجموعہ بعنوان آخری خط اورشعری مجموعہ آہنگ نوکے زیرترتیب ہونے کی اطلاع ملی ۔ان کے افسانوں کے پڑھنے کااتفاق تونہیں ہو البتہ ان کی شاعری خود ان سے سننے اور ان کا شائع شدہ کلام باربار پڑھنے کاموقع ملا۔ چنداشعارملاحظہ کیجیے:
بھٹک رہا ہوں میں کب سے حیات نوکے لیے
میری خودی کوکبھی مجھ سے آشناکردے
کیابتاوں میں کہ کیاہے زندگی
اک مسلسل تجربہ ہے زندگی
غریب ماوں کی عزت بھی اب نہیں محفوظ
زمیں قلب میں برپاتو زلزلہ کردے
وہ عصری حسیت کاگہراشعوررکھتے تھے وہ عوامی زبان میں عوام کے احساس کو شعری لباس عطاکرنے کاگرجانتے تھے۔ اسی لیے تعلیمی بیداری کے موقع پر جب انھوں نے یہ نعرہ دیا تووہ مقبول عام بن گیا۔ پڑھے گی رضیہ پڑھے گا ہریا شاکچھر بنے گا ضلع ارریہ۔
ان کی شاعری پوری قوت کے ساتھ یہ غوروفکرکرنے کی دعوت دیتی ہے کہ بعض فن کار کو عصری مسائل سماجی زبوں حالی اور پرآشوب حالات شعرگوئی کے لیے مجبورکرتے ہیں۔ عصری ناہمواریوں کے نتیجے میں ان کے اندرجوکرب وبے اطمینانی پیدا ہوتی ہے۔ انھیں وہ پیرایہ اظہار دینے کے لیے بے چین ہوجاتے ہیں۔ عصری مسائل اظہارکے لیے بہت بڑامحرک ہوتاہے۔ عام فن کاران صورت حال کوبالواسطہ طرزاظہارمیں ڈھالنے اوران موضوعات کومختلف تلازمات کے ذریعے بیان کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ ہارون رشید غافل سماجی واصلاحی مسائل کے سلسلے میں فوری اظہار کے قائل تھے۔ وہ اپنے خیالات کی ترسیل کے لیے سپاٹ بیانیہ کوزیادہ موثرخیال کرتے تھے۔ وہ اپنی شاعری اورفن کے ذریعہ سماجی تبدیلی اورعوامی بیداری کے خواہاں تھے۔ ان مسائل کے پیش نظرفن کارفنی نزاکتوں کو زیادہ اہمیت دینے کاقائل نہیں ہوتا ہے۔ فوری اظہار اورعوام تک ترسیل کے پس منظرمیں لسانی ہنرمندی ثانوی درجہ کی کارگزاری قرارپاتی ہے۔
فن کارکے متعلق عرصے سے یہ مقولہ مشہورہے کہ وہ سماج کاعضو معطل ہوتا ہے۔ وہ قلم وقرطاس پرکارزارحیات کے تمام معرکے سرکرنے کاخواب دیکھتا ہے۔ ہارون رشید کی فعالیت اوران کاتحرک اس مفروضہ کی تردیدکرتا ہے وہ سماجی اور معاشرتی ذمہ داریوں کے حوالے سے ایک فعال اورذمہ دارشہری کارول اداکرتے تھے ۔تعلیمی بیداری کارواں میں ان کی شمولیت ،کلہیاٹائمس اخبارکی اشاعت میں ان کی شرکت اوراس نوع کی دیگرسماجی ومعاشرتی سرگرمیوں میں ان کی موجودگی مسائل حیات سے نبرد آزما ایک ادیب کے طورپر انھیں یادرکھے گی۔
یہ تحریر ہارون رشیدغافل کی شکل میں ایک ایسے شخص کوخراج تحسین پیش کررہی ہے جن کی زندگی جہدمسلسل سے عبارت تھی، جنھوں نے زندگی کے کسی موڑکو آخری منزل نہیں سمجھابلکہ وہ ہردم رواں ہردم جواں کے اصول پر گامزن رہے۔ انھوں نے الشمس ملیہ کالج میں لائبریرین کی حیثیت سے کام کیا، کلہیا ٹائمس اخبارکی اشاعت میں شریک رہے، قومی آواز پٹنہ ایڈیشن کے ارریہ سے مقامی نامہ نگار کے فرائض انجام دیتے رہے۔ پورنیہ آل انڈیاریڈیو اردو پروگرام کے اسٹرنگررہے۔ وکالت کے پیشہ سے وابستہ رہے۔ ان تمام چیزوں کے ساتھ ساتھ وہ اعلیٰ اقدارحیات سے مزین تھے۔
جانے والے کبھی نہیں آتے
جانے والوں کی یادآتی ہے
٭٭٭
ڈاکٹرمعیدالرحمن
اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،علی گڑھ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |