پنجاب کی سخن پرور زمین پر بے شمار اُردو ادباو شعراء حضرات نے تربیت پائی اور اپنے فکر و احساس، فہم و فراست سے شرا بور قلم سے اُردو زبان و ادب کی خوب خدمت کی ۔اُنیسویں صدی کے آخری اور بیسویں صدی کے پہلے دس سالوں میں ہی یہاں پر دو بہترین شاعر جوان ہو چکے تھے اور اُنہوں نے اُردو ادب میں اپنا لوہا منوانا شروع کر دیا تھا ۔اِن میں سے ایک شُہرہ آفاق شاعر اور فلسفی علّامہ اقبالؔ اور دوسرے جالندھر ضلع میں ایک چھوٹے سے قصبے میں رہنے والے شاعر اور زبان داں پنڈت لبھّو رام جوشؔ ملسیانی ۔ اتفاق سے دونوں ہی مرزا داغ دیہلوی کے شاگرد تھے ۔
قبلہ جوشؔ ملسیانی میں نہ صرف شاعرانہ سلاحیت تھی ، بلکہ وہ اُردو زبان و شاعری ، خاص طور پر علمِ عروض کے بہت بڑے اُستاد تھے ۔ وہ شاعری اور زبان دونوں کی باریکیاں، الفاظ کا صحیح استعمال ، متروکاتِ زبان اور متروکاتِ شعری کے ہی صرف اُستاد نہیں تھے ، بلکہ مشرقی پنجاب میں داغ اسکول کے بہت بڑے علم بردار بھی تھے ۔ اُن کی ادبی تخلیقات میں ’’ اقبال کی خامیاں ‘‘ کا بہت ذکر ہوا ۔ اُن کے شاگردوں کا دائرہ بہت وسیع تھا جن میں ساحرؔ ہوشیار پوری ، کالی داس گپتا رضاؔ ، رتنؔ پنڈوروی ، قیسؔ جالندھری ، پورن سنگھ ہُنرؔ اور نریش کمار شادؔ جیسے سوَ سے زائد شاگرد تھے ۔ اُن کے شاگردوں کے بارے میں بھی یہ کہا جاتا تھا کہ ’’ حضرت ِ جوشؔ کے شاگرد بھی اُستاد ہوتے ہیں ‘‘۔
جوش صاحب کے چند شاگردان نے اپنے زمانے میں اُردو ادب کی بلندیوں کو چھوا بھی اور وہاں ایک عرصہ تک ٹِکے بھی رہے ، لیکن اُن چند میں سے کچھ ایک مے نوشی ، یا یوں کہئے بلا نوشی کی نذر ہوئے ۔ اُن میں سے نوہریہ رام دردؔ نکودری ، اُن کے بیٹے نریش کمار شادؔ اور ہُماؔ ہرنالوی کا ذکر کرنا چاہوں گا ۔ جناب دردؔ نکودری ، جو جالندھر میں روز نامہ ’’ہند سماچار‘‘ کے مدیر تھے ، 1969میں ایک دِن شام کو دفتر سے گھر کے لئے روانہ ہوئے، پھِر اُس کے بعد اُن کا کوئی پتہ نہ چل سکا ۔ کچھ دِنوں بعد اُن کے صاحب زادے نریش کمار شادؔ ، جو دِلّی میں مقیم تھے اور اپنے والد کی طرح ہی مے نوشی میں غرق رہتے تھے ، اُن کی لاش دریا ئے جمنا میں تیرتی ہوئی مِلی ۔ ایک اور اُردو کے معتبر شاعر ہُماؔ ہرنالوی ، جو جالندھر میں روز نامہ ’’پرتاپ‘‘ میں ملازمت کرتے تھے ، اور بلا کے مے نوش تھے 1984 میں ایک مشاعرے کے بعد ایسے غائب ہوئے کہ کبھی گھر واپس ہی نہیں لوٹے ۔ ایک اور ذہین اور حسّاس شاعرپریم ؔبار برٹنی ممبئی میں کئی فلموں کے گیت لکھنے کے بعد چنڈی گڑھ میں آ کر رہنے لگے اور جوانی میں ہی اِس شوق کی نذر ہو گئے ۔
پٹیالہ کے ایک شاعر جگرؔ جالندھری جنہوں نے زندگی بھر شراب کو کبھی چھوا تک نہیں ، 2003 میں اپنی اہلیہ کی فوت کا صدمہ برداشت نہیں کر سکے اور کچھ روز بعد ہری دوار گئے اور ’’ہر کی پوڑی‘‘ پر پنڈے کو یہ کہہ کرکہ’ میَں ڈُبکی لگا کر آتا ہوں ‘ ایسے لاپتہ ہوئے کہ آج تک اُن کا کوئی پتہ نہیں چلا ۔
ایسی ہی درد ناک سوانحِ حیات ہمارے آج کے شاعر جناب ستیہ پال اختر ؔ رضوانی کی ہے ۔ ہاں اِس سوانحِ حیات میں شراب کا ذکر بالکل نہیں ہے ۔ نوہرئیہ رام دردؔ نکودری ، نریش کمار شادؔ، ہُماؔ ہرنالوی یا پریمؔ باربرٹنی ہو ، مشہور شاعر مجازؔ لکھنوی ہو ، یا پنجابی زبان کا شُہرہ آفاق شاعر شِوؔ بٹالوی ہو یا پنجابی لوک گیتوں کا بادشاہ نندؔ لال نُورپوری ہو ( جن کی لاش اُن کے گھر کے پاس ہی کسی کُنویں میں سے ملی تھی )، اِن سب نے عام آدمی سے اپنی علیٰحدگی ظاہر کرنے کے لئے، یا درونِ دل کی بے چینی یا کسی خاص قسم کا مطالبہ یا درد کو شانت کرنے کے لئے اپنی جواں عمری اور اپنے پر ہی منحصر اپنے پریوارکی سب خواہشات، ایک بے وفا اور ادنیٰ سی شے پر قربان کر دیں ۔ ہاں جگر ؔ جالندھری یا اختر ؔرضوانی کا درد ہمیں سمجھ آتا ہے ۔
ستیہ پال اخترؔ رضوانی ، جو اپنے زمانے میں رُباعیات کا بادشاہ کہلاتا تھا ، اپنی زندگی کے آخری دس پندرہ برس شہر در شہر مضترب و منتشر حالات میں دیوانہ وار بھٹکتا رہا ۔ اُن کی وفات کا بھی علم یا ثبوت کسی کے پاس نہیں ہے ۔ میرا اُن سے رابطہ صرف اتنا ہے کہ میرے کچھ نزدیکی دوستوں نے یا تو اُن کے ساتھ مشاعرے پڑھے ہیں یا اُنہیں وہ اُس زمانے میں اتفاق سے ملے جب وہ شہر در شہر صوبہ در صوبہ بھٹک رہے تھے۔ کرشن کمار طورؔ ، قیسؔ جالندھری مرحوم، راجندر ناتھ رہبرؔ مرحوم، پورن سنگھ ہُنر مرحومؔ اور کئی دیگر حضرات سے میَں نے اُن کے بارے میں باتیں سنی ہیں ۔
1971 میں مجھے اُستاد شاعر آنجہانی جناب امر چند قیسؔ جالندھری نے بتایا تھا کہ کچھ سال قبل وُہ اُنہیں منتشر حالات میں کہیں ملے تھے اور وُہ اُنہیں اپنے گائوں بسّی کلاں (ہوشیار پور) لے گئے تھے۔ کھانا کھلانے کے بعد سونے کے لئے کمبل دیا، لیکن صبح اُٹھ کر دیکھا کہ اخترؔ بھائی نہ جانے کب اُس کمبل کو اوڑھ کر اپنے انجانے سفر پر نکل چکے تھے ۔ 1967 کے آس پاس ہی ایک بار جناب راجندر ناتھ رہبرؔ(مرہوم) کو وُہ پٹھان کوٹ کے ریلوے اسٹیشن پر ملے تھے اور اِس سے پہلے کہ وہ اُن کا حال چال پوچھتے ، جنابِ اخترؔ بھیڑ میں کہیں گُم ہو گئے تھے ۔
ایک دفعہ کالکا کے پرنسپل برِجؔ موہن بالی نے اُنہیں کالکا میں دیکھا تھا ۔ بالیؔ صاحب نے اُنہیں اپنے اِسکول لے جا کر اُن کی خاطر داری بھی کی تھی۔ یہ بھی ایک عجب اتفاق تھا ۔ کالکا بس اسٹینڈ پر جب بالی صاحب نے ایک فقیر سے دِکھنے والے شخص کو شائستگی سے لبریز اُردو زبان میں بولتے سُنا ، تو پوچھ لیا : ’’ آپ کون ہیں ؟‘‘ ۔ جواب مِلا ،’’ اختر‘‘ ۔ اُنہوں نے پھِر پوچھا ، ’’ آپ شاعر ہیں ؟‘‘ ۔ جواب ـ’ہاں‘ میں ملنے پر پھر پوچھا : ’’ اُردو شاعری میں تو بہت سے اختر ہیں ، آپ کون ہیں ؟‘‘ ۔ جواب ملا ’’ اختر رضوانی‘‘ ۔ پھر کیا تھا ! بالی صاحب کو جیسے نشہ چڑھ گیا تھا ، کیوں کہ اختر رضوانی کی رُباعیات اُنہوں نے بہت رسالوں میں پڑھی ہوئی تھیں ۔ اسکول میں چائے پینے کے بعدوہ ’’ میَں ابھی آتا ہوں ‘‘ کہہ کر کہیں نکل گئے اور دوبارہ اُنہیں نہیں ملے ۔
ایک اور ایسا ہی واقعہ : میرے پڑوسی پرکاش چند محرمؔ ، جن کی عمر 90 برس کے قریب ہے ، بتاتے ہیں کہ 1976 میں جب وہ سرکاری اسکول ہمیر پور ( ہماچل) میں پرنسپل تھے تو اُن کے اسکول میں ایک بار اُردو کا ایک ماسٹر جو خود بھی ایک ادیب تھا ، ایک شخص کو لایا تھا جس کا تعارف مشہور رُباعی گو کہہ کر کروایا تھا ۔ اسکول میں سارے اسٹاف نے مِل کر اُنہیں اسویٹر، کمبل وغیرہ دے کر خوب خاطرداری کی اور اگلے دن ایک مشاعرہ کرنے کی بات بھی پکّی کر دی ، لیکن اگلے دن جب اُس مندر میں جہاں وہ رہ رہے تھے ، لینے کے لئے گئے ، تو وہ کسی نا معلوم منزل کے لئے روانہ ہو چکے تھے ۔
یہ تو رہی اُن کی زندگی کے آخری سالوں کی داستاں ۔ اُن کی گزشتہ زندگی کے بارے میں بھی اگر کچھ ملتا ہے تو وہ اُن کے مجموعوں میں لکھے دیباچوں میں یا ایک رُباعیات کے مجموعے ’’ خد و خال ‘‘ میں اُنہیں کے لکھے پیش لفظ سے ۔ اُن کا سنِ وفات تو کسی کو معلوم ہو نہیں سکتا ، اُن کا سنِ ولادت بھی کہیں درج نہیں ہے ۔ بس اِتناسا ذکر ملتا ہے کہ 1924 میں وہ ادیب فاضل کا امتحان پاس کرنے کے بعدروز نامہ ’’ملاپ‘‘ لاہور میں ملازمت کرتے تھے اور جلد ہی وُہ نوکری چھوڑ کر ہندوستان کی آزادی کی جنگ میں کود پڑے تھے۔( اِسی بات کو مستند مان لیا جائے تو اُن کی پیدائش بیسویں صدی کے پہلے دہاکے میں ہی ہوئی لگتی ہے )وہیں پر لکھا ہے کہ 1932 میں انگریزوں کے خلاف پُر جوش اور حب الوطنی سے بھرپور کلام کہنے کے جرم میں گرفتار کر لئے گئے لیکن قید سے رِہا ہو کر بھی اُن کے سُر نہیں بدلے بلکہ اور تیز و تند ہو گئے ۔اُن کے جو مجموعے آزادی کے پہلے شائع ہوئے ، دستیاب نہیں ہیں ،
بعد والوں میں یہ رُباعیات اُسی زمانے کی لگتی ہیں :
باندھے ہوئے وہ سر پہ کفن ہنستے ہیں
آتی نہیں ماتھے پہ شکن ہنستے ہیں
رندوں کی زباں میں اُنہیں کہتے ہیں ولی
جو لوگ سرِ دار و رسن ہنستے ہیں
صیاّد کی کیا خوب ہُنر مندی ہے
ہر بات پہ اعلانِ خدا وندی ہے
پہلے تھا زباں بند قفس میں بُلبل
اب صحنِ چمن میں بھی زباں بندی ہے
یہ رنگِ قدامت ہے سنبھل کر رکھ دو
تاریخ کے اوراق بدل کر رکھ دو
بے داد پرستوں کی نہ بُو آنے پائے
اِن سانپ کے بچّوں کو کچل کر رکھ دو
مالی حالت روز بہ روز بگڑتی گئی کیونکہ اُنہوں نے شاعری کو ہی ذریعۂ معاش بنا رکھا تھا ۔ دیر تک یہ سلسلہ جاری رہا ، پھر جب اُنہوں نے اپنی بیوی اور اپنے اِکلوتے بیٹے کو کھو دیا تو اُن کی زندگی کا ڈھانچہ ہی پوری طرح ڈھہ گیا اور وہ ایک دم تنہا ہو گئے ۔ اپنے مجموعۂ رباعیات ’’ خد و خال ‘‘ (1959 ) کے پیش لفظ میں وہ لکھتے ہیں :
’’ میری زندگی مجموعہ ٔ آلام ہے ۔ بد قسمتی سے میرا ذریعہ ٔ معاش شعر و شاعری ہے اور اِس اعتبار سے مجھے جتنی دلچسپی شعر و ادب سے ہے ، اُتنی کسی دوسرے مشغلہ سے نہیں ۔ نو جوانی اور جوانی کے تیز گام دنوں میں مجھے دو جگرخراش حادثات کا سامنا ہوُا۔ پہلا حادثہ بیوی کا انتقال، اور دوسرا اِکلوتے بیٹے کا ۔ ایک مدّت سے تنہا ہوں ۔ زندگی نہایت رُوکھی پھیکی سی ہے۔ اگر میرے عزیز دوستوں ، مدّاحوں اور قدر دانوں کا حلقہ وسیع نہ ہوتا تب یہ اور بھی زیادہ تلخ بن جاتی ۔ ‘‘
آگے جا کر وُہ لکھتے ہیں : ’’ اگر یہ کہہ دیا جائے کہ میَں نسیان کا مریض ہوں ،تو اِس میں تعجب نہیں ہوگا ۔زندگی کا شیرازہ ایک عرصہ سے منتشر ہے ۔ منتشر اجزا کو بارہا فراہم کِیا گیا مگر یہ سلسلہ زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا ۔ اکثر ایسی محویت کا عالم رہتا ہے کہ جہاں کوئی چیز رکھ دی ، وہیں پر پڑی رہی ۔ بسا اوقات جیب میں تھوڑی بہت حقیر رقم سے ہاتھ دھونے پڑے۔ میرے ایسا شخص جو کسی جائیداد کا مالک نہیں ، اگر حقیر سی رقم سے بھی محروم ہو جائے تو یہ کتنا رنج دہ ہے ۔ دو ماہ پہلے کاغذ خرید کرنے کا ارادہ کر چکا تھا ، اور اُس ارادے سے بازار جانے کی سوچی ، کہ ایک دِن پہلے ناگہانی طور پر دو سوَ روپئے کی رقم جو میرے لئے گنجِ قاروں کی حیثیت رکھتی ہے، دستِ غیب کی نذر ہو گئی ، اور میَں کلیجہ مسوس کر رہ گیا ۔‘‘
اِس دوَر میں اپنے دُکھ درد کے علاوہ اُنہوں نے عوام کے دُکھ درد کے بارے میں بھی خوب لکھا اور اِس ملک کو لوُٹنے والے سیاست دانوں پر بھی خوب طنز کسے :
آنکھوں میں کہاں اشک ہیں پینے کے لئے
ہاں ہاں دلِ صد چاک کے سینے کے لئے
یاروں نے اِسے کھیل سمجھ رکھا ہے
پتھّر کا جگر چاہیے جینے کے لئے
فاقوں پہ گزارا ہے، ہمارا کیا ہے
کیا خوب سہارا ہے، ہمارا کیا ہے
تُم وقت کے حاکم ہو، تہی دست ہیں ہم
جو کچھ ہے تمہارا ہے، ہمارا کیا ہے
منزل میں جو میَں آبلہ پا بیٹھ گیا
سایے میں مِرا راہ نما بیٹھ گیا
افسانۂ غم کہتے تو کیونکر کہتے
آنسو جو ہوئے خشک گلا بیٹھ گیا
دل آج بھی پا مال ہے، کیا پوچھتے ہو
گردوں کی وہی چال ہے ، کیا پوچھتے ہو
اربابِ سیاست ! مری تقصیر معاف
پہلے سے بُرا حال ہے، کیا پوچھتے ہو
جور آپ کے سہتے ہوئے شرم آتی ہے
یہ ماجرا کہتے ہوئے شرم آتی ہے
تفریق و تعصّب ہوں جہاں نقدِ حیات
اُس دیس میں رہتے ہوئے شرم آتی ہے
داناؤں کا گھر ہے کہ یہ نادانوں کا
یا خطّہ ہے یہ قوم کے پروانوں کا
جِس ملک میں ہوں دیوتا پینتیس کروڑ
اُس ملک میں کیا کام ہے انسانوں کا
جو سانس ہے سینے میں گراں ہوتا ہے
ہر لمحہ وبالِ دل و جاں ہوتا ہے
جمہور کے اِس دوَر میں انسانوں پر
چلتی ہوئی لاشوں کا گماں ہوتا ہے
بے کار بلائوں کا ادب کون کرے
دھکّے کے خدائوں کا ادب کون کرے
جو قوم کو دیمک کی طرح چاٹ گئے
اُن راہنمائوں کا ادب کون کرے
لیکن وہ اپنی مفلسی کے با وجود کہیں کہیں پُر امید اور ثابت قدم نظر آتے ہیں :
تاریکیوں میں آج بھی تابندہ ہوں
ماحول کی ظلمت میں درخشندہ ہوں
صدمے دلِ تنہا پہ ہیں لاکھوں لیکن
تکمیلِ عزائم کے لئے زندہ ہوں
آزادی کی صبح پر بھی وہ نیک امیدوں سے لبریز تھے :
بدلا ہے مہ و مہر نے انداز نیا
ماحول نے تولا پرِ پرواز نیا
وہ دیکھئے اِک تازہ کرن اُبھری ہے
مطرب ہیں نئے ، دھُن ہے نئی ، ساز نیا
(یہ اور بات ہے کہ اُن کا اور کروڑوں لوگوں کا یہ بھرم جلد ہی ٹوُٹ گیا )
زندگی کا یہ سلسلہ سال در سال ایسا ہی رہا ہوگا اور آہستہ آہستہ وُہ اپنے ہواس کھو کر منتشر ذہنی حالات کو سمیٹنے کی کوشش کرتے ہوئے شہر در شہر بھٹکتے رہے ہوں گے۔زندگی کے تلخ تجربات و حقائق کی تصویر کشی کرتی ہوئیں خوبصورت رُباعیات کا سچّا تخلیق کار اپنی زندگی، اپنی جان کی بازی لگا کر بھی اِس گلے سڑے نظام کو بدل نہیں پایا۔ یہ کیسا نظام ہے ، جو اُسے اور زیادہ غلیظ اور بد خلق بنانے والوں کو تو انعام بخشتا ہے اور اُسے نفیس، ایمان دار، سچّا اور انصاف پسند بنانے کی کوشش کرنے والوں کو موت کے کنوئیں میں دھکیلنے میں کبھی دیر نہیں کرتا ۔ملک کی آزادی کے بعد سیاست دانوں اور اُن کے آس پاس منڈلاتے ہوئے موقع پرستوں کا کھیل دیکھ کر اخترؔ رضوانی جو اپنے آگ اُگلتے قلم کی وجہ سے قید کی سزا کاٹ چکے تھے ، بہت مایوس اور پریشان ہو گئے۔ وُہ لکھتے ہیں :
’’ مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ میرا عزیز وطن غیروں کی غلامی سے مکمل آزاد ہو چُکا ہے اور اُس کا آئین بھی جمہوریت کی بنیادوں پر تیار کِیا گیا ہے ۔ مگر یہاں کے جاہ پرست طبقے اور خود غرض سیاست دان بھی اپنی پُرانی اور بگڑی ہوئی عادات سے نجات نہیں پا سکے ۔ ایسے سیاست دانوں اور جاہ پرست طبقہ کے اِرد گرد گھومنے والوں نے اُن کا دماغ خراب کر دیا ہے ۔ وُہ ہر شخص سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وُہ اُن کی طرح اناپ شناپ اور بہکی بہکی باتیں کرتے ہوئے اُن کی خوشامد کرتا رہے ۔ میرے وطن میں حاشیہ برداروں کی تعداداچھی خاصی ہے ۔ اور اُن کا ایمان گدّی سے چمٹے ہوئے اَن پڑھ سیاست دانوں اور اقتدار پسند لوگوں کو طرح طرح کے سبز باغ دکھا کر اُن کی جیب پر ہاتھ صاف کرنا ہے ۔ اور پھِر ستم تو یہ ہے کہ سیاست دان بھی تو اپنی’’ نیک کمائی‘‘ کی پوری پوری قیمت وصول کر لیتے ہیں ۔ یہاں آپ کو کالے بازار کے سوداگروں کی بھی ایک چہل پہل دکھائی دے گی ۔ اور اونچے طبقے کے سمگلروں کی بھی ۔ اِن سمگلروں کے سر پر ستوں کی بھی ایک جماعت ہوگی ۔ اِن حالات میں رِشوت کا چکّر چلنا لازمی ہے ۔ ایک شاعر ، مفکّر، ادیب یا فنکار اِس گاڑی کا بیل نہیں ہو سکتا ۔ وُہ فطرتاً اِن باتوں سے نفرت کرتا ہے ۔ وُہ ایک بے تابی کی سی کیفیت محسوس کرتا ہے۔ اُس کی یہ زبردست خواہش ہوتی ہے کہ مُلک کو کالے بازار کے اِن سوداگروں ، حاشیہ برداروں اور خشامد پیشہ لوگوں سے جلد از جلد نجات مِلے ۔ دوسری طرف ضمیر فروش لوگ کیسے برداشت کریں گے کہ ایک فنکار اُن کی کرتوتوں کو بے نقاب کرے ۔ ایسے میں ایک شاعر اور فنکار لازمی طور پر بھوکوں مرے گا ۔ ‘‘ اسی موضوع پرچند اور رُباعیات پیش ہیں :
تم جانتے ہو کون پراگندہ ہے
کشکولِ گدائی میں جو کچھ چندہ ہے
پوچھو تو ڈھٹھائی سے یہ ملتا ہے جواب
رِشوت تو کوئی عیب نہیں دھندہ ہے
بے کس کا گلا کاٹ کے ہنس دیتے ہیں
چندے کی ندی پاٹ کے ہنس دیتے ہیں
جمہور پرستوں کی حقیقت مت پوچھ
مفلس کا لہو چاٹ کے ہنس دیتے ہیں
وہی چال ، وہی ڈھال نئے جامے میں
فرسودہ سے اعمال نئے جامے میں
ہُشیار ! کہ آئے ہیں سرِ منظرِ عام
گُرگانِ کہن سال نئے جامے میں
ہم جھوٹ کہیں ، ہم سے یہ امید کریں
ہم آپ کی ہر بات کی تائیدکریں
گردن پہ لہو آپ کی ہے لاکھوں کا
جراّت ہے اگر آپ میں تردید کریں
جب اِس پر بھی عوام خاموش رہ کر سب سہتی ہے ، تو وہ کہتے ہیں :
افسوس ! کہ اندازِ بیاں بھول گئے
ہاں ، گرمی ٔ احساس و زباں بھول گئے
کچھ ایسے نہ تصویرِ گلستاں ہوتی
اربابِ چمن طرزِ فغاں بھول گئے
اخترؔ رِضوانی نے جس دور میں شاعری کی اُس میں ترقّی پسند تحریک زوروں پر تھی لیکن اخترؔ کو اِس میں پروپیگنڈا، نعرہ بازی اور لفّاظی زیادہ نظر آتی تھی، شاعری کم :
اِک وہم سا تھا حُسنِ نظر کچھ بھی نہ تھا
تقریر میں بندش تھی ، اثر کچھ بھی نہ تھا
اسٹیج پہ جب آئے اسٹالنؔ کے غلام
ویسے تو بہت کچھ تھا مگر کچھ بھی نہ تھا
کیا اُنس ہو بے وقت کے سازوں سے مجھے
کچھ ربط نہیں دست درازوں سے مجھے
گو مجھ کو گوارا نہیں تنظیم ِ کہن
نفرت ہے مگر روُس نوازوں سے مجھے
حالانکہ اُنہوں نے خود غریبوں اور مزدوروں پر خوب لِکھا ہے ۔ یہ رُباعیات دیکھیے ؎
افلاک کا ٹوٹا ہُوا تارا ہوں میَں
دریأ محبت کا کنارا ہوں میَں
شعلوں کا تبسّم ہے جوانی میری
مزدور کی آہوں کا سہارا ہوں میَں
اِس عہد میں آہوں کا اثر بِکتا ہے
پانی کی جگہ خونِ جگر بِکتا ہے
میَں کہتا ہوں ، ہاں کہتا ہوں ، پھِر کہتا ہو ں
دو ٹکڑوں میں مزدور کا سر بِکتا ہے
پنجاب میں اُس وقت شاعروں کے دو ڈھڑے تھے ۔ اختر اُن میں سے کسی کے ساتھ نہیں چلے اور اپنا ایک الگ راستہ اختیار کِیا ۔وہ راستہ جو عام آدمی کے دل میں سے ہو کر گزرتا تھا ۔ قبلہ جوشؔ ملسیانی اور اُن کے شاگردان بھی اُنہیں پسند نہیں تھے ۔ اُن پر بھی ایک رُباعی کہی گئی ہے :
تلمیذِ فلاں ، اِبنِ فلاں کے اُستاد
یہ داغؔ کے شاگرد ، جہاں کے اُستاد
ہر شخص سے لیتے ہیں بڑھاپے کی ذکات
محفل میں جب آتے ہیں یہ بانکے اُستاد
جدید شاعروں پر بھی طنز کسنے سے باز نہیں آئے :
بیچا ہے ہنر ، رنگِ سخن بیچا ہے
تہذیب کو روَندا ہے چلن بیچا ہے
صد حیف ہے دو لمحے کی شہرت کے لئے
یاروں نے بزرگوں کا کفن بیچا ہے
اپنی شاعری کے سفر کے بارے میں وہ خود لکھتے ہیں :
’’ میَں آج سے پندرہ سولہ سال پہلے ایک غزل گو کی حیثیت سے ادبی محفلوں میں شامل ہوتا رہا لیکن اِن دنوں ایک حقیر اور بے مایہ رُباعی گو ہوں ۔ اپنی طرف سے میَں نے رُباعی کی ہر ترتیب، ہر مصرع مختلف انداز کے ذریعے دھڑکتے ہوئے دلوں کی عکاسی کرنے کی کوشش کی ہے ۔ عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اپنے افکار کو شعریت کا لباس پہنایا ہے ۔ مشاہدہ میری زندگی کا اہم ترین حصّہ ہے اور اُس کا تعلق محسوسات سے بہت گہرا ہے ۔ یہی محسوسات اور اسی مشاہدے کی گہری چھاپ میری رُباعیات پر صاف صاف دکھائی دے گی ۔ ‘‘
اُن کی اِس 1959 میں لکھی تحریر سے صاف ظاہر ہے کہ آزادی سے پہلے وہ غزلیں زیادہ کہا کرتے تھے اور رُباعی کم ، پھر بعدمیں وہ مکمل طور پر رُباعی کی طرف متوجہ ہو گئے ۔ رُباعی ایک مشکل صنف ہے جو اُردو میں فارسی سے آئی ہے۔ ویسے چارمصرعوںکی چوپائی تو ہندی زبان میں بہت پہلے بھکتی کال سے کہی جا رہی ہے۔ فارسی میں بھی رُباعی حکیمانہ اور صوفیانہ مضامین پر لِکھی جاتی تھی،لیکن اُردو میں غزل ،نظم کی طرح وقت کے ساتھ ساتھ اِس میں بھی حُسن و عشق ، سیاست ،اور طنزیہ لہجے کے مضامین شامل ہو گئے۔ اُردو کے تقریباً سبھی اُستاد شاعروں نے ذائقہ بدلنے کے لئے رُباعیات کہی ہیں ۔ اخترؔ کے دور میں بھی بہت سے شاعر رُباعی پر طبع آزمائی کرتے تھے جن میں فراقؔ اور جوشؔ ملیح آبادی کے نام اہم ہیں ۔ اخترؔ رضوانی اپنی رُباعی میں بہت ہی سلیس اور آسان لفظ استعمال کرتے ہیں ۔سرل سہج طریقے سے پُر معنی اور پُر اثر بات کہنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ اِن کے مجموعے ’’ فکر و جذبہ‘‘ کے مرتب جناب بلجیت سنگھ مطیرؔ لکھتے ہیں :
’’ اِن سب رُباعیات میں ایک چیز آپ کو مشترکہ نظر آئے گی ، وہ یہ کہ ہر ایک رُباعی سہلِ ممتنع ہے ۔ قاری ہر رُباعی کو پڑھ کر یہ محسوس کرتا ہے کہ یہ تو وہ بھی کہہ سکتا تھا ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ سہلِ ممتنع کہنا سب سے مشکل بات ہے ۔‘‘ یہ بات سوَ فی صد سچ ہے کہ سرل سہج طریقے سے پُر معنی اورپُر اثر بات کہنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے ۔
مطیرؔ صاحب نے آگے اپنے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ علامہ نیازؔ فتح پوری جیسے بے لاگ اور مستند نقاد نے بھی اُن کی رُباعیات کے بارے میں یوں فرمایا ہے :
’’ اختر ؔرضوانی کی رُباعیات جہاں واردات اور احساسات کی عکاسی کرتی ہیں ، وہاں فنی طور پر بھی اُن پر کسی جگہ اُنگلی نہیں رکھی جا سکتی ۔‘‘
چند رُباعیات پر غور فرمائیں :
انسان ہیں لاشوں کا کوئی ڈھیر نہیں
کچھ بات ہے تقدیر کا یہ پھیر نہیں
اے بانی ٔ بے داد خدا کے گھر میں
یہ مان لِیا دیر ہے اندھیر نہیں
جب جان پہ بن آئی ہے تب پوچھا ہے
کیا کچھ ہے مِرا ذوقِ طلب پوچھا ہے
صد شکر کہ اِک عمر گزر جانے کے بعد
یاروں نے مِرے غم کا سبب پوچھا ہے
وُہ سامنے آتے ہوئے گھبراتے ہیں
تسکین دلاتے ہوئے گھبراتے ہیں
اِک عمر رہے ساتھ جو سایے کی طرح
اب ہاتھ ملاتے ہوئے گھبراتے ہیں
مُدّت سے ہوں میَں تشنہ جگر ، اور برس
کھُل کھُل کے یونہی شام و سحر اور برس
بس اتنا کہ دھُل جائے غبارِ ہستی
ہاں اور برس دیدہ ٔ تر اور برس
اُکتایا ہُوا گردشِ ایّام سے ہوں
وابستہ تِری یاد سے ہوں ، نام سے ہوں
کیا اِس کے سِوا اور کہوں لوگوں سے
سوَ رنج ہیں لیکن بڑے آرام سے ہوں
مذہبی پاکھنڈ، مذہبی جنون اور فسادات پر بھی اُن کا قلم خوب چلا ہے ۔ مُلک کو فرقوں میں بٹتا دیکھ کر اُن کا شاعرانہ مزاج چیخ اُٹھتا ہے اور قومی یک جہتی کی بات کرتا ہے :
پنڈت نے جو سامانِ حیا بیچ دیا
مفتی نے اِدھر لفظِ دُعا بیچ دیا
کچھ ہرج نہیں حسب ِ ضرورت اخترؔ
مُلّا نے اگر نام ِ خدا بیچ دیا
جتنا بھی ہوا کام سرِ عام ہوا
ہاں قتل بہر گام سرِ عام ہوا
یاروں نے تعصب کو ہوا دی ایسی
تہذیب کا نیلام سرِ عام ہوا
دل میں جو کدورت کی سیاہی ہوگی
مذہب کی سیاست میں گواہی ہوگی
جس ملک میں تقسیم کے جھگڑے ہوں گے
اُس ملک کی لاریب تباہی ہوگی
کم فہموں کا دستور نہیں تو کیا ہے
مخلوق سے یہ دوُر نہیں تو کیا ہے
یہ فرقہ پرستی یہ تعصب ، یہ جنوں
اِدراک میں ناسورنہیں تو کیا ہے
لازم ہیں کہ مردانِ وطن ایک رہیں
ہاں اہلِ چمن ! اہلِ چمن ایک رہیں
سر کرنی ہے جو منزلِ دشوار ہمیں
کشمیر سے تا ارضِ دکن ایک رہیں
معلوم یہ سب رازِ دروں ہے مجھ کو
سچ جانیئے ازبر یہ فسوں ہے مجھ کو
لڑنا ہے مجھے قوم کے غدّاروں سے
یہ خبط ، یہ سودا ، یہ جنوں ہے مجھ کو
ایسا نہیں کہ اُن کا لہجہ ہمیشہ ہی تلخ اور سخت رہا۔ اختر ؔ رِضوانی نے حُسن و عشق اور جام و سبو پر بھی نہایت خوبصورت رُباعیات کہیں ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں :
پہلو سے گزر جاتے ہیں آہستہ سے
اِک گیت سا فرماتے ہیں آہستہ سے
شبنم کی طرح ذہن میں بھرتے ہیں مِٹھاس
وُہ دل میں اُتر آتے ہیں آہستہ سے
اتنا تو نہیں نُورِ سحر میں جادُو
ہر بول میں امرت ہے اثر میں جادُو
چتون میں دھنُش بان کی پرچھائیں ہے
انگ انگ میں ہے لوچ، نظر میں جادُو
بخشے ہوئے جتنے بھی ہیں غم آپ کے ہیں
احساں یہ مِری ذات پہ کم آپ کے ہیں
ہم خاک نشینوں سے ہے کیوں لاگ حضور !
دِل آپ کا ، جاں آپ کی ، ہم آپ کے ہیں
چلتے ہیں تو ہیرے کی کنی رُلتی ہے
پلکوں کے ترازُو میں حیا تُلتی ہے
وُہ جب کبھی ہوتے ہیں تبسّم فرما
غنچے کی طرح دل کی گِرہ کھُلتی ہے
چہرے ہیں درخشندہ فروغِ میَ سے
میخانے میں ذی ہوش ہیں کیسے کیسے
ساغر سے کھنک اُٹھی تو اُٹھی دھُن میں
ساقی نے پُکارا تو پُکارا لیَ سے
1962 میں چین کے ہندوستان پر ہملے پر بھی اُنہوں نے خوب لِکھا اور خاص طور پر U.N.O. پر :
جینے کا ارادہ ہے کوئی ڈھنگ سہی
شیشے کا تقاضا نہ سہی سنگ سہی
ہم امن کے خواہاں ہیں مگر بااِیں ہمہ
تُم جنگ پہ آمادہ ہو تو جنگ سہی
منزل کی طرف جھوم کے بڑھ جائیں گے
ہر چار طرف گھوم کے بڑھ جائیں گے
بھارت کے جواں مرد ، دلاور ، یودھا
تلوار کا منُہ چوم کے بڑھ جائیں گے
حامی کہاں بنتی ہے یہ کمزوروں کی
مِٹّی بھی چُرا لیتی ہے یہ گوروں کی
یہ مجلسِ اقوام جسے کہتے ہیں
ہاں ایک جماعت ہے کفن چوروں کی
اختر رِضوانی نے اُردو زبان کے حق میں بھی اپنی آواز بلند کی :
اُردو کے تحفظکا بیاں بند کرو
یہ نالہ و فریاد و فغاں بند کرو
دیتا ہوں میَں جب خدمتِ اُردو کی دلیل
وُہ کہتے ہیں گُستاخ زباں بند کرو
اُردو اور ہندی زبانوں کے بارے میں اُن کا نظریہ شیشے کی طرح صاف ہے ، وہ لکھتے ہیں :
’’ خد و خال ‘‘ میں آپ کو چند ایسی رُباعیات بھی نظر آئیں گی جو ہندی الفاظ میں ہیں ، اور اُس کی اہم وجہ یہ ہے کہ میَں اُردو دشمن طبقوں پر یہ روشن کر دینا چاہتا ہوں کہ اُردو کے کسی بھی حامی کو ہندی سے کوئی کدورت نہیں بلکہ وہ اِسے قومی زبان سمجھ کر اِس کے فروغ کی خواہش رکھتا ہے ۔ اگر ایسا ہے تو بے چاری اُردو کا کیا قصور ہے کہ اُس کا گلا گھونٹ دیا جائے ۔ ‘‘
جن رُباعیات کا وہ ذکر کر رہے ہیں ، اُن میں سے کچھ حاضر ہیں :
بیاکُل ہوں، نہیں چین ، مدھُر گیت سُنا
سر پر ہے کٹھن رین ، مدھُر گیت سُنا
سو جاؤں گا میَں بول رسیلے سُن کر
پیاسے ہیں مِرے نین ، مدھُر گیت سُنا
ندیا کے کبھی تٹ پہ کبھی آنگن میں
نینوں کے جھروکھوں میں کبھی تن من میں
سوَ طرح سے ـ’پی ‘ روُپ دکھا جاتے ہیں
مُکھڑے کو جو دیکھا ہے کبھی درپن میں
کِرنوں میں ہے جے مال ، تو مدھ نینوں میں
اٹھلاتی ہوئی چال ، تو مدھ نینوں میں
ساجن ہے مِرا روُپ نگر کا جوگی
کاندھے پہ ہے مرگ چھال ، تو مدھ نینوں میں
اخترؔ رِضوانی نے اپنے مجموعے ’’ خد و خال ‘‘ کے پیش لفظ میں اپنے شائع کردہ مجموعوں کے بارے میں لِکھا ہے :
’’ اِس سے پہلے کے مجموعے ’’نئے عُنوان ،سنگ و آئینہ ، حدیثِ غم ، عکسِ جمیل ، نقدِ حیات ، آرزوئے ناتمام اور نقشِ مستقل معمولی ضخامت کے حامل ہیں۔ میرے مجموعوں کی ضخامت کم ہونے کی وجہ میرے حالات ہی نہیں بلکہ یہ بھی کہ میَں شعروں میں بھرتی کے سخت خلاف ہوں۔ جو بھی رُباعی پھیکی اور بے رنگ نظر آئی اُسے نظر انداز کر دِیا گیا ۔ ‘‘
اِس میں ’’ رنگ و سرور‘‘ کا ذکر نہیں کیا ، جس میں اُن کا پوُرا نام ستیہ پال اختر رضوانی لکھا ہے اور جس میں اُنہوں نے 15 اگست 1948 کو کچھ لوگوں کے نام انتساب لکھا ہے اور جس کا مقدمہ جناب دینا ؔناتھ ورما ، چیف ایڈیٹر ’’ روزانہ جے ہند‘‘ نے لکھا ہے ۔ خود اُنہوں نے جن سات کتابوں کا ذکر کیا ہے ،اُن میں سے کوئی بھی کتاب اب دستیاب نہیں ہے ۔ ہو سکتا ہے یہ سب کتابیں آزادی سے پہلے شائع ہوئی ہوں ۔ خدو خال اور رنگ و سرور کے علاوہ ایک مجموعہ ’’ فکر و جذبہ‘‘ بھی دستیاب ہے جو نومبر 1963 میں شائع ہوا تھا ۔
یہ بات کتنی رنج دہ اور شرم ناک ہے کہ عمر بھر عوام کی روح کی گہرائیوں میں چھُپے دُکھ درد کو منظرِ عام پرلانے والے کی عوام نے کبھی بات بھی نہیں پوچھی۔میری اِس بات میں کچھ بھی غلط نہیں ہے کہ اُن کے ساتھ ہوئی نا انصافی کے ہم بھی اُتنے ہی مجرم ہیں جتنا کہ حکومت ۔ اُن کا کلام پڑھنے کے بعد میَں اِس نتیجے پہ پہنچا تھا یا یوں کہیئے مجھے ایسا محسوس ہوا تھا کہ دُنیا اُس جیسے انسان کو deserve ہی نہیں کرتی تھی ، تبھی تو وہ تارک الدنیا ہو کر ایسی دُنیا میں چلا گیا تھا جہاں اُسے اُس کا اپنا یا اُس کے معاشرے کا درد کبھی پریشان نہیں کرتا تھا ۔ آخر میں شعریت سے لبریز اُ ن کی کچھ اور رُباعیات ملاحظہ فرمائیں :
آؤ کہ علاجِ غمِ پنہاں کر لیں
جینے کے لئے دہر میں ساماں کر لیں
تُم اشک بہاؤ ، میَں لہو روتا ہوں
یوں اُجڑے ہوئے گھر میں چراغاں کر لیں
بن جاتے ہیں اکثر مِرے محرم آنسو
پہلے کی طرح اب نہیں کم کم آنسو
چھیڑا ہے یہ ماضی کا فسانہ کس نے
آنکھوں سے رواں ہو گئے چھم چھم آنسو
ایسے میں بھلا کس کو ہو احساسِ ثبات
بے رنگ ہے ماحول تو بے کیف حیات
ایسے مِری آنکھوں نے لگائی ہے جھڑی
جس طرح سر ِ عرش ستاروں کی برات
اپنا نہیں غیروں کا بھی ہے پاس مجھے
بخشا یہ غم ِ عشق نے احساس مجھے
مرہم مِرے چھالوں پہ لگا مت جراح !
کانٹوں کی بجھانا ہے ابھی پیاس مجھے
غم اپنوں کے ہیں رنج ہیں بیگانے کے
کچھ خاص یہ انداز ہیں دیوانے کے
ہر وقت ہے دُنیا کا الم، دِل کی خلش
یہ چند ورق ہیں مِرے افسانے کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |