یہ شاعری ذرا الگ سی لگی ——!
صبیحہ سنبل کا تعلق طبقۂ نسواں سے ہے۔ مگر ان کی شاعری میں نہ تانیثی فکر ہے نہ منشور بلکہ وہ انسانی شعور ہے جس میں مرد وزن کی کوئی تفریق نہیں۔ تجربات ، مشاہدات، وقوعات، واردات سب میں ایک طرح کا اشتراک ہے۔ اس شاعری میں نہ ’بشیرے کی گھر والی‘ کی حکایت و شکایت ہے، نہ ’ہم گنہگار عورتیں‘ جیسی بغاوت،نہ اقلیما جیسی مزاحمت، نہ یہ نسائی حصار میں ہے، نہ مردانہ مدار میں اور نہ کسی بھی حلقۂ در و دیوار میں۔ اس میں ان احساسات، کیفیات کا بیان ہے جن سے شب و روز حساس اور باشعور انسان گزرتا ہے۔
صبیحہ کی شاعری میں آج کی دنیا کے مسائل اور معاملات ہیں۔ اس میں حیات و کائنات کے اسرار و رموز ہیں۔ شعری اصناف کی زبان میں کہا جائے تو یہ ریختی نہیں، ریختہ کی شاعری ہے اور یوں بھی اب عورتوں کے آرکی ٹائپل تشخص اور اس سے جڑے نسائی اظہار پر اصرار بے معنی ہے کہ جن جذبات، احساسات اور کیفیات کو عورتوں سے مشخص کیا جاتا ہے۔ اب انہیں جذبات کی عکاسی مردانہ اظہار میں بھی ملتی ہے۔ صنف ریختی جس میں نسائی جذبوں کو زبان دی جاتی ہے اس کے پس پردہ بھی مرد حضرات ہیں۔بارہ ماسہ جسے عورتوں کی زبان اور جذبے میں پیش کیا جاتا ہے وہ بھی مردوں ہی کی اختراع ہے۔ ریختی اور بارہ ماسہ دونوں مردانہ اظہار کی نسائی شکلیں ہیں۔ اس میں بھی برہ کی وہی آگ اور جدائی کی اگن ہے جو خواتین کی شاعری میں نظر آتی ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو جنسی اعتبار سے ثنویت اور تفریق کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ایک مرد زنانی زبان میں جب عورت کے جذبے کا یوں اظہار کرتا ہے تو وہ نسائی حسیت کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔بارہ ماسہ کی کچھ مثالیں دیکھئے:
میں ہر شب پی بنا رہتی ہوں بے تاب
جلے جوں شمع مری آنکھ میں خواب
(بارہ ماسہ عزلت)
نہیں گرمی میں جینے کی مجھے آس
سجن کے وصل بن بجھتی نہیں پیاس
(بارہ ماسہ وحشت)
پیا بن ایکلی کیسے رہوں ری
قسم اوپر ستم کیسے سہوں ری
(افضل)
یہ اشعار پڑھ کر کیا کوئی یہ اندازہ کر سکتا ہے کہ یہ کس جنس یا صنف کی شاعری ہے۔ یہی معاملہ ریختی کا بھی ہے۔ ایک مشہور شعر ہے :
طلاق دے تو رہے ہو عتاب و قہر کے ساتھ
مرا شباب بھی لوٹا دو مرے مہر کے ساتھ
شاعری کے مضمون کو دیکھ کر کوئی بھی اسے شاعرہ سے منسوب کر سکتا ہے۔ مگر حقیقت میں یہ شعر مولانا بیخود موہانی کے شاگرد ساجد سجنی لکھنوی کا ہے۔ ریختی میں جن کے دو مجموعے ’رقیبن‘ اور ’نگوڑیات‘ بہت مقبول ہیں۔ اس لئے اب صنفیت اور جنسیت کی تحدید و تخصیص کوئی معنی نہیں رکھتی۔ جذبات و احساسات دونوں جنسوں کے مشترک ہیں۔ مشاہدات اور محسوسات بھی۔ صبیحہ سنبل کی شاعری کو مردانہ یا زنانہ خانہ میں رکھ کر نہیں پرکھا جا سکتا۔ Androcentric lensیا Feminist Outlook یہاں سب بے معنی ہیں۔ خاتون کی شاعری ہوتے ہوئے بھی اس پر نسائیت یا تانیثیت کی مہر نہیں لگائی جا سکتی اور یہی اس شاعری کی خوبی ہے۔
صبیحہ سنبل نے معاشرتی واردات و کیفیات کو اپنی شاعری میں پیش کیا ہے اور عصر حاضر کے جو مسائل ہیں انہی کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے۔ وہی انتشار، بے چینی، قدروں کی شکست و ریخت،بے چہرگی، بحران اور میکانکی مشینی تہذیب سے پیدا شدہ وہی مسائل ہیں جن کا ذکر اکثر شعراء کرتے رہتے ہیں۔ آج کی اس دنیا میں خوف و دہشت کا جو منظرنامہ ہے اور عالمی سطح پر جس طرح وباؤں نے انسانی ذہن کو متاثر کیا ہے اس کو کتنے خوبصورت پیرائے میں صبیحہ سنبل نے اپنی شاعری میں سمویا ہے:
کیسی وبا نے جال بچھایا ہے ان دنوں
جی تو رہے ہیں جینے کا ارمان گم ہوا
چہار سو ہے گھٹن وحشتوں کا عالم بھی
ہر ایک پل نے کیا آج دل فگار مجھے
==
خوف کا منظر ہر اک سو
درد کے سب دفتر آباد
دور پرآشوب نے جینا بہت دوبھر کیا
زندگی کی ہر خوشی اب پانی پانی ہوگئی
عمل جو ہم نے بہت ہی خراب رکھے ہیں
وبا کی شکل میں اس نے عذاب رکھے ہیں
زمیں بھی کانپ اٹھی آسماں بھی تھرایا
ہوا نے خون کے چھینٹے اڑائے ہیں کیا کیا
==
ہر طرف خون کی بارش ہے بھڑکتے شعلے
ذہن پر بس یہی منظر تھے جو طاری نکلے
یہ آج کے وقوعات و واردات کا بیانیہ ہے۔ ان اشعار سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صبیحہ سنبل عالمی حادثات اور واقعات سے بے خبر نہیں ہیں۔ وہ صرف وہ رقم نہیں کرتیں جو ان کے دل پہ گزرتی ہے بلکہ ہر وہ حادثہ ان کے دل کو فگار کرتا ہے جن سے آج کے عالمی معاشرہ کا ہر فرد گزر رہا ہے۔ مذکورہ بالا اشعار میں انہوں نے اپنے عہد کے آشوب کو بیان کیا ہے۔
صبیحہ سنبل کی شاعری میں ہوا پانی اور مٹی جیسے استعارے اور علامتیں ہیں۔ یہ تینوں زندگی کی علامتیں ہیں۔ صبیحہ سنبل نے ان علامتوں کا استعمال بانداز دیگر کیا ہے۔ مٹی، ہوا، پانی کے حوالے سے ان کے یہ اشعار ان علامتوں کی نئی معنوی جہات کو روشن کرتے ہیں۔
شہر تھرا گیا ہے لمحوں میں
ایسی کروٹ بدل گئی مٹی
ہے عجب شور دل کی بستی میں
کیا محبت کچل گئی مٹی
==
زعم اپنا دکھا رہی ہے یوں
قہر بن کر اتر رہی ہے ہوا
==
بام و در میں اتر گیا پانی
کتنے شہروں میں بھر گیا پانی
اب مروت کہاں رہی سنبل
آنکھ کا جیسے مر گیا پانی
صبیحہ سنبل نے اپنے مشاہدات،تجربات اور محسوسات کو نہایت سلیقے سے پیش کیا ہے۔ ان محسوسات کا رشتہ انسانی ذات اور کائنات سے ہے۔ آج کی دنیا بہت تیزی کے ساتھ بدل رہی ہے۔ قدریں اور روایات بھی تبدیل ہوتی جا رہی ہیں۔ صبیحہ سنبل کو تمام تر تغیرات اور تبدیلیوں کا شدت سے احساس ہے اور انہی بدلتی ذہنی کیفیات اور ترجیحات کو انہوں نے اپنی شاعری میں شامل رکھا ہے۔ اس لئے ان کی شاعری میں عصری حسیت کا عکس موجود ہے۔
صبیحہ سنبل کو اپنی قدریں بہت عزیز ہیں۔ وہ ہر اس تہذیب سے بیزار ہیں جو ہماری پرانی قدروں سے متصادم ہو۔ اس لئے انہیں نئی تہذیب سے زیادہ اس پرانی تہذیب سے نسبت ہے جس میں محبت تھی، اپنائیت تھی اور خلوص تھا، اپنا پن تھا۔ ان اشعار سے ان کا تہذیبی تصور سامنے آتا ہے۔
اقدار ہمیں جو بھی وراثت میں ملی ہیں
رکھا ہے انہیں آج بھی سینے سے لگا کر
عہد حاضر نے مٹا دی ہیں پرانی قدریں
کون کس کے لئے شوریدہ سر ہوتا ہے
اڑائی جا رہی ہیں دھجیاں تاریخ کہنہ کی
نہیں تہذیبِ نو کا ارتقا ایسے نہیں ہوتا
نئی تہذیب خیرہ کر رہی ہے اب نگاہوں کو
اب اس سے بھی بڑا اس زیست کا کہرام کیا ہوگا
صبیحہ سنبل کی شاعری میں رشتوں کی تہذیب ہے اور اس تہذیب کی مرکزی علامت ماں کی ذات ہے۔ اس میں ماں کی محبت بھی ہے، ممتا بھی اور ماں کے وجود سے جڑی ہوئی ساری کیفیات بھی۔ ماں کے حوالے سے ان کا ایک خوبصورت شعر ہے:
سر کو رکھئے ماں کے قدموں میں ہمیشہ دوستو
آپ کے سر کی بلا ماں کی دعا لے جائے گی
صبیحہ سنبل کی شاعری میں نیند اور خواب کا خوبصورت تلازمہ بھی ہے۔ نیند اور خواب کے ذریعے وہ جس داخلی کیفیت کو بیان کرتی ہیں اس کا دائرہ صرف ان کی ذات تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں ہر وہ فرد شامل ہے جس کی نیند سے خواب کا رشتہ ٹوٹ چکا ہے۔دیکھئے کیسے خوبصورت شعر وجود میں آگئے ہیں:
بڑے دنوں سے مری نیند تھی جدا مجھ سے
نہ جانے کیسے ہوا آج سرمگیں منظر
==
اس زندگی کے موڑ بھی کتنے عجیب تھے
آنکھوں میں نیند تھی نہ کوئی ان میں خواب تھا
صبیحہ سنبل کے بہت سے شعروں میں اظہاری سطح پر ندرت و جدت بھی ہے۔ یہ شعر دیکھئے:
چھپائے رکھتی ہے شب روشنی میں اپنا وجود
وہ اوڑھے شام میں کالی ردا نکلتی ہے
==
جوش جنوں میں عشق کا سامان گم ہوا
سب عشق میں تمہارے مری جان گم ہوگا
صبیحہ سنبل کی شاعری میں عصری واردات و وقوعات کے ساتھ ساتھ قلبی کیفیات کی عمدہ ترجمانی بھی ہے۔ ان میں ان کے داخلی جذبات و احساسات کی خوبصورت عکاسی نظر آتی ہے۔ یہ اس طرح کا ہجر و وصال نہیں ہے جو آج کی عشقیہ شاعری میں عام ہو چکا ہے۔ بلکہ اس میں ذرا داخلی کیفیت کی حدت و شدت ہے:
تمہیں چاہا تمہیں پوجا تمہیں کو دل میں رکھا ہے
کہاں جی پائیں گے ہم بھی تمہیں کھو کر جدا ہوکر
جس طرح ابر برس جائے کسی صحرا پر
شہر دل کی یہ زمیں آج تو جل تھل سی ہے
اشکوں کی زنجیر بنا کر سونپتے ہیں ہم دامن کو
جب بھی تیری یاد سے اپنی آنکھیں جلنے لگتی ہیں
میں بھٹکتی ہی رہی درد کے اک صحرا میں
زندگی تونے مجھے کیسی اذیت دی ہے
کر رہے تھے اشک خوں کاغذ پہ کچھ ایسے طواف
جیسے سب یادیں ہماری حرف مژگاں ہوگئیں
دل کے آنگن کا دروازہ کھول کے رکھنا ٹھیک نہیں
آنے والے وقت کا سورج پچھلا پہر بن سکتا ہے
اس نوع کے جذبات کا اظہار بہت سے شاعروں کے یہاں ملتا ہے۔ مگر صبیحہ سنبل نے انہی جذبات و احساسات کو اظہار کا جو پیکر عطا کیا ہے وہ دوسرے شاعروں سے ذرا مختلف ہیں۔ باتیں وہی ہیں مگر انداز بیاں نے ان شعروں میں ایک الگ سی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ ان کے یہاں ہجر و وصال کا تصور بھی الگ ہے۔ ان کا یہ شعر دیکھئے:
محبتوں کی کبھی میں جو داستان لکھوں
وصال تیر کو اور ہجر کو کمان لکھوں
صبیحہ سنبل کی شاعری فنی اعتبار سے بھی مکمل ہے۔ انہوں نے جو الفاظ اور تراکیب استعمال کئے ہیں وہ خوش رنگ و آہنگ ہیں۔ دراصل انہیں لفظوں کو برتنے کا سلیقہ آتا ہے۔ اس لئے انہوں نے وہی لفظ استعمال کئے ہیں جو شاعری کی قبا کے لئے موزوں ہوںاور یہ ہنر بہت مشق، ممارست اور ریاضت کے بعد آتا ہے۔ صبیحہ نے برسوں فنی ریاضت کی ہے تب یہ ہنر انہیں آیا ہے۔جدت اظہار اور ندرت افکار کے یہ شعری نمونے ملاحظہ فرمائیں:
چوٹیں ہوں اگر دل پر احساس رفو کرنا
آنکھوں کے اجالوں کے الماس رفو کرنا
امید کی کرنوں سے روشن ہے جہاں سارا
ہرگز نہ کبھی سنبل تم یاس رفو کرنا
انہوں نے ردیف اور قوافی میں بھی خوبصورت تجربے کئے ہیں۔ میز پوش اور خاص دان کو ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے:
زندگی کی تلخیوں کو جذب کرتا تھا کبھی
اور کبھی آنکھوں کی بوندوں کا سہارا میز پوش
گاؤں کی پگڈنڈیاں وہ سوندھی مٹی کے گھڑے
روشنی کے شہر نے دل سے اتارا میز پوش
درونِ خانہ کی داستانیں سمیٹ رکھی تھیں اس نے دل میں
کہ تخت شاہی پہ تاج جیسا رکھا ہوا ایک خاصدان
صبیحہ سنبل نے اور دیگر اصناف میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ انہوں نے قطعات، دوہے وغیرہ بھی لکھے ہیں۔ دوہے کا ایک خوبصورت شعر ہے:
گیتا، وید، قرآں ہمیں یہی سکھائیں گیت
سانچے من اپنائیو پریم بھاؤ کی ریت
ان کا ایک قطعہ یوں ہے:
نفرتوں کے زہر سے نسلیں فنا ہو جائیں گی
ٹڈیوں کی قہر سے فصلیں فنا ہو جائیں گی
کوئی صورت گر نہیں نکلی تو سنبل ایک دن
ساری دنیا سے سبھی شکلیں فنا ہو جائیں گی
’فن اگر مکمل ہو‘ میں صبیحہ سنبل کی سندر سوچ کا عکس نامہ ہے۔ اس میں صبیحہ سنبل کی فکری صباحت، اظہاری لطافت و سلاست نے لطف و سرشاری کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ ان کا ذہنی سلسلہ دعاؤں سے جڑا ہوا ہے:
میرے خدا عطا ہو مجھے علم جنون
محروم ہو نہ پاؤں کسی آگہی سے میں
==
علم کی شمع سے ہر دل ہو منور سنبل
بس یہی بات تو اب دل کی مسیحائی ہے
شاید یہی دعائیں ہیں کہ اُن کی منزلیں سہل ہوتی گئیں اور راہوں میں چراغ جلتے گئے:
راہ دشوار تھی پر منزلیں پائیں ہم نے
لے کے جب ساتھ دعاؤں کی سواری نکلے
صبیحہ کا ایک خوبصورت شعر ہے:
کہہ رہا ہے صدیوں سے تاج کا حسیں چہرہ
فن اگر مکمل ہو بولتی ہیں تصویریں
اس شاعری میں بھی حیات و کائنات کی جو تصویریں ہیں وہ بولتی سی لگتی ہیں۔
یہ پوری شاعری حرف دعا سے روشن ہے۔ اس لئے تاج کی طرح اس کی چمک بھی کبھی ماند نہیں پڑ سکتی۔
haqqanialqasmi@gmail.com
Cell:9891726444
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page