ہمارے تعلیمی اداروں میں سوال کرنے سے زیادہ جواب دینے کی صلاحیت کو اہم سمجھا جاتا ہے۔ اساتذہ سوال کرنے والے طالب علم کے مقابلے میں جواب دینے والے طالب علم کو زیادہ ذہین اور قابل تصور کرتے ہیں۔ یہ رویہ صرف نرسری اور پرائمری اسکولوں کے اساتذہ تک محدود نہیں بلکہ یہ ہمیں اعلی تعلیمی اداروں کے مدرسین کے یہاں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔
اسکول میں پڑھانے والے اساتذہ عام طور پر زیادہ سوال کرنے والے بچے کو بے ادب تصور کرتے ہیں۔ کبھی کبھی سوال کیے جانے پر اساتذہ اپنی بے عزتی محسوس کرتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سوال کرنے کے "جرم” میں بچوں کو سزا بھی دیدی جاتی ہے۔ وہیں دوسری طرف اگر کوئی بچہ استاد کے پوچھے گئے کسی سوال کا جواب دیدے تو وہ بچہ نہ صرف ذہین تصور کیا جاتا ہے بلکہ وہ استاد کا محبوب اور منظور نظر طالب علم ہو جاتا ہے۔
یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ اسکول میں، خاص طور پر سرکاری اسکولوں میں، اساتذہ وسیع الذہن نہیں ہوتے ہیں۔ ان کا مطالعہ محدود ہوتا ہے۔ انہیں بچوں کی نفسیات سے واقفیت نہیں ہوتی ہے۔ انہیں اس بات سے کوئی سروکار بھی نہیں ہوتا کہ بچے کیا سوچتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ کلاس میں سوال کرنا بے ادبی ہے۔ وہ ایسا اس لیے سوچتے ہیں کہ وہ خود بھی ایک ایسے سماج کے پروردہ ہوتے ہیں جہاں سوال کرنا ایک گناہ سمجھا جاتا ہے۔ اگر اسکولوں تک یہ بات محدود ہوتی تو زیادہ حیرت کی بات نہ تھی۔ حالانکہ ایک طرح سے یہ زیادہ حیرت اور افسوس کی بات ہے۔ کیونکہ اس مرحلے میں سوال کرنے کی پابندی سے بچے کی شخصیت کی تشکیل پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ میں نے محض اعلی تعلیمی اداروں کے مقابلے میں رکھ کر یہ بات کہی ہے جہاں باصلاحیت اساتذہ ہوتے ہیں۔ ورنہ میں اس رویے کی ہر صورت اور ہر سطح پر تردید کرتا ہوں اور اسے طلبا کے حق میں کسی بھی طور پر بہتر نہیں سمجھتا۔ اسکولوں میں سوال کرنے پر اساتذہ کے بپھرنے کو ایک دانستہ رویہ کہنے کے بجائے ہم اس کو ان کی کم علمی پر موقوف کر سکتے ہیں۔ اسکول میں بہت باصلاحیت اور کوالیفائڈ اساتذہ نہیں ہوتے ہیں۔ انہیں درس و تدریس کے طریقۂ کار کا بھی خاص علم نہیں ہوتا ہے۔ وہ کورس مکمل کرنا ہی ضروری سمجھتے ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں تو خیر اس کی بھی توفیق نہیں ہوتی۔ وہاں تو اساتذہ بس حاضری کو ضروری سمجھتے ہیں تاکہ ہر ماہ تنخواہ آتی رہے۔ پڑھنے والوں کے شکوک و شبہات کو دور کرنا ان کے کورس کا حصہ نہیں ہوتا ہے۔ یہی مسئلہ اگر اعلی تعلیمی ادارے میں در پیش ہو تو پھر ہمیں فکرمند ہونا پڑے گا۔ کیونکہ یہاں ہم اساتذہ کی کم علمی کا عذر پیش نہیں کر سکتے۔ یہاں سبھی اعلی تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ ان کے پاس ایم فل اور پی ایچ ڈی کی بڑی بڑی ڈگریاں ہوتی ہیں۔ یہ تعلیم کے طویل پروسیس سے گزر کر لیکچرر کے طور پر بحال ہوتے ہیں۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ بڑی بڑی علمی دانش گاہوں اور جامعات میں تدریس سے جڑے لیکچرر اور پروفیسر بھی سوال کرنے کے کلچر کو فروغ نہیں دیتے ہیں۔ اس معاملے میں ان کی ذہنیت بھی اسکول کے ٹیچر کی طرح ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب طلبا سوال کرتے ہیں تو اساتذہ فورا اس کی قابلیت پر سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں۔ اسے کم ذہن خیال کرنے لگتے ہیں یا بعض دفعہ بدمعاش کا ٹیگ لگا دیتے ہیں۔ یہ بات میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ یہ واقعہ خود میرے ساتھ پیش آچکا ہے۔
2009 کا واقعہ ہے ۔ دہلی کی ایک مشہور و معروف یونیورسیٹی میں میرا داخلہ ہوا، میں بے حد خوش تھا۔ پہلے دن کی پہلی کلاس انگریزی کی تھی۔ یہ میرا اختیاری مضمون تھا۔ اس وقت تک میں نے انگریزی کے ایک دو ناول اور کچھ ہی افسانے پڑھے تھے۔ انگریزی ادب سے میری واقفیت بس اتنی تھی کہ میں دو چار ناولوں کے نام جانتا تھا۔ (اب بھی میری واقفیت میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا ہے)بہر کیف! جو استاد انگریزی پڑھانے آئے میں ان کی طرف رشک بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ ان کے پڑھانے کا انداز مجھے بے حد پسند آیا۔ وہ بغیر کتاب کھولے تقریباً 45 منٹ تک لیکچر دیتے رہے جو کتاب میں شامل کہانی سے متعلق تھا۔ لیکن میں اس وقت حق دق رہ گیا جب وہ میرے ایک سوال پر بپھر گئے۔ میرا سوال کہانی اور ناول کی تکنیک پر تھا۔ آخر ناول لکھنے کے لیے مختلف تکنیک کی کیوں ضرورت پڑتی ہے؟ سوال کرتے ہی وہ مجھے کہنے لگے آپ اپنا سبجیکٹ چینج کر لیں، یہ آپ کے لیے بہتر رہے گا۔ اس طرح کا سوال آپشنل پیپر رکھ کر نہیں کیا جاتا ہے۔ میں نے نہایت ہی ادب کے ساتھ ان سے یہ بات کہی تھی کہ سر پہلی بات تو یہ کہ آپ نے جو کچھ کہا وہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ مجھے معلوم ہے میرے لیے کیا بہتر ہے اور کیا نہیں۔ میں نے مذکورہ باتیں اگرچہ ادب کے دائرے میں رہ کر کہی تھیں تاہم اس انداز میں مجھے اب تھوڑی بے ادبی نظر آرہی ہے۔ میری ان باتوں پر انگریزی کے استاد کو غصہ تو ضرور آیا ہوگا لیکن انہوں نے بنا کسی تادیبی کاروائی کے کلاس ختم کر دی۔ دوسرے دن جب وہ کلاس روم میں آئے تو باضابطہ میرا نام لیکر اگلی صف میں بیٹھنے کو کہا۔ اس دن کا لیکچر خاص طور پر ناول اور کہانی کی تکنیک پر مرکوز رہا۔ میں بعد میں ان سے بہت قریب ہو گیا اور ان کے ساتھ اکثر چائے اور کافی پہ ملاقات ہوتی رہی۔ لیکن ان سے انسیت پیدا ہو جانے کے باوجود مجھے یہ سوال بار بار پریشان کرتا رہا کہ آخر وہ پہلے دن کیوں بپھر گئے تھے۔ میں نے ان سے یہ کبھی پوچھا بھی نہیں کہ انہیں کیوں غصہ آیا تھا۔ ممکن ہے انہیں یہ محسوس ہوا ہو کہ میں نے اپنی علمیت بگھارنے کے لیے مذکورہ سوال کیا ہو۔ اگر ایسا تھا، تو بھی انہیں میرے سوال کا جواب دینا چاہیے تھا نہ کہ غیر ضروری رائے اور مشورہ۔
ایسا ہی ایک واقعہ اردو ادب کی ایک کلاس میں پیش آیا۔ غالبا یہ بی اے سال دوم کی بات ہے۔ ایک استاد جدید شاعری کی کلاس لینے آئے۔ اخترالایمان کی نظم “ایک لڑکا” کی تشریح کرتے ہوئے نظم کی تعریف بیان کی۔ انہوں نے یہ کہا کہ نظم میں کسی ایک ہی خیال کو منظم اور مربوط طریقے سے شروع سے آخر تک پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن میں نظم کی تشریح سے مطمئن نہ ہو سکا۔ میں ان سے یہ سوال کر بیٹھا کہ مذکورہ نظم میں تو کئی خیالات ہیں۔ مثلا گاؤں کا ذکر ہے، اللہ کی نعمتوں کا بیان ہے، ہجرت کا احساس ہے، مجبوری کی کیفیت ہے وغیرہ وغیرہ۔ ان سب کو آپس میں کس بنیاد پر ایک خیال سے جوڑا جائے؟ میرا یہ سوال کرنا تھا کہ موصوف ایک دم سے مجھ پر برس پڑے۔ کہنے لگے تم اتنی معمولی سی نظم نہیں سمجھ سکتے۔ میں نے کہا کہ سر اگر میں نہیں سمجھ سکا ہوں تو ایک بار پھر سے اس کی تشفی بخش تشریح کر دیں اور بتائیں کہ ہر بند میں کیا مشترک ہے یا ان سب کو کون سی کڑی آپس میں جوڑ رہی ہے۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس دن جس طرح کی تشریح انہوں نے پیش کی تھی اس سے کوئی متفق نہیں ہو سکا تھا لیکن میرے سوا کسی نے سوال کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس طرح کے تجربے سے ممکن ہے آپ بھی کبھی نہ کبھی گزرے ہوں گے۔ ہم سوال کرنا چاہتے ہیں لیکن کسی نہ کسی خوف سے اپنے ذہن میں اٹھنے والے سوال کو دبا دیتے ہیں۔ یہ خوف در اصل کلاس روم میں موجود استاد کا ہی پیدا کیا ہوا ہوتا ہے۔
یہ صرف ہندوستان میں تدریس سے جڑے اساتذہ کی بات نہیں ہے۔ یہ ہندوستانی رویہ میں نے باہر کے ملکوں میں پڑھا رہے ہندوستانی ٹیچر کے یہاں بھی دیکھا ہے۔ پیرس کے ایک ادارے میں مجھے ایک سال پڑھانے کا اتفاق ہوا۔ میرے پڑھانے کا انداز یہ تھا کہ طلبا زیادہ سے زیادہ کلاس میں حصہ لیں۔ سوال کرنے کی کوئی پابندی نہیں تھی۔ وہ سبق سے متعلق جو سوال کرنا چاہتے، ان کو اجازت تھی۔ میں نے دیکھا کہ طلبا خوب سوال کرتے اور بلا خوف کرتے۔ ایسا اس لیے ممکن تھا کہ میں نے استادی نہیں دکھائی، میں نے انہیں ڈرایا نہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ جتنا سوال کریں گے میں اتنا ہی زیادہ سکھا پاؤں گا اور اتنا ہی زیادہ آپ سیکھیں گے۔ میرے اور طلبا کے درمیان جو ڈر اور خوف کی دیوار تھی میں نے اسے اول دن ہی گرا دی تھی۔ میرے ساتھ کام کرنے والے ایک صاحب نے شکایت کی کہ فلاں لڑکی کلاس میں بہت سوال کرتی ہے۔ وہ سوال کرکے کلاس کو ڈسٹرب کرتی ہے۔ اب اس کا نتیجہ کیا ہوا کہ ایک دن اس کی کوئی کمی پکڑ لی گئی اور بیچاری کو کلاس میں آنے سے روک دیا گیا۔ وہ صاحب ایسا کرکے بڑے خوش تھے گویا انہوں نے کوئی بڑی فتح حاصل کر لی۔ مجھے یہ سن کر بڑا دکھ ہوا کہ ایک استاد ایک طالبہ کے محض زیادہ سوال کرنے یا کلاس میں بولنے پر پر پریشان ہے اور اسے کلاس میں آنے سے منع کرکے خوش ہے۔ وہ میرے اوپر بھی غیر ضروری پریشر بنا رہے تھے کہ میں اس کو کلاس میں آنے سے منع کردوں۔ میں قطعی ایسا نہیں کر سکتا تھا۔ وہ لڑکی میری کلاس میں آتی رہی۔ میں نے دیکھا کہ اس کے اندر سیکھنے کی للک ہے۔ میں نے اس کو اپنی کلاس میں آنے سے کبھی نہیں روکا۔
استاد اگر کھلے ذہن کا نہ ہو تو ہمارے بچے کلاس میں سہمے ہوئے رہتے ہیں۔ بچے کلاس روم سے کچھ سیکھنے کے بجائے شکوک و شبہات اپنے ساتھ گھر لے جاتے ہیں۔ آپ کسی ادارے میں کوئی علمی پروگرام پیش کریں اور اخیر میں سوال و جواب کا بھی سیشن رکھیں۔ اس پروگرام میں بچے ضرور شریک ہوں گے۔ آپ کی بات ہمہ تن گوش ہوکر سماعت بھی کریں گے۔ لیکن آپ کے سوال و جواب کا سیشن بغیر کسی سوال و جواب کے ختم ہو جائےگا۔ ہم سوال نہیں کرنے والے طالب علم کے بارے میں یہ سوچتے ہیں کہ وہ سب کچھ سمجھ رہا ہے۔ ہم یہ سوچتے ہیں کہ سمجھ میں آنے والی بات پر بچہ سوال کیوں کریگا؟ یہ سوچنا ہماری بہت بڑی غلطی ہے۔ ہم کسی چیز کے بارے میں جینون سوال اس وقت تک نہیں کرتے جب تک ہم مکمل طور پر اس چیز کو سمجھ نہیں لیتے۔ ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ ہمارے یہاں سوال کرنے کا کلچر کیوں نہیں ہے؟ ہمارے یہاں تہذیب اور ادب کا اتنا پاٹھ پڑھایا جاتا ہے کہ وہ اساتذہ کی غلطی پکڑ لینے پر بھی خاموش ہی رہتے ہیں۔ کیونکہ انہیں خطائے بزرگاں گرفتن خطا است کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اساتذہ اور بڑوں کا احترام ضروری ہے۔ لیکن سوال کرنا اور بڑے بزرگوں کی خامیوں کی نشاندہی کرنا بے ادبی نہیں۔ ادب اور اخلاق کے دائرے میں بچے سوال کرتے ہیں تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
استاد کی عزت اور ان کا ادب و احترام ہماری تہذیب کا حصہ ہے۔ لیکن ہم نے اس تہذیب کا بہت غلط استعمال کیا ہے۔ اس تہذیب کے اطلاق میں ہم سے بڑی بھول ہوئی ہے۔ تہذیب کی آڑ میں ہم نے بچوں سے ان کے فطری پن کو چھین لیا ہے۔ اسی تہذیب نے ہمارے اساتذہ کے اندر یہ غلط فہمی بھی پیدا کر دی ہے کہ سوال کرنا ایک قسم کی بے ادبی ہے۔ اس لیے ہمارے اکثر اساتذہ سوال کرنے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے بھی اسے پسند نہیں کرتے ہیں، اکثر تو اس کی اہمیت سے ہی نا واقف ہوتے ہیں۔
نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ زیادہ سوال کرنے والے بچوں کے سوچنے اور سمجھنے کا معیار زیادہ بلند ہوتا ہے۔ وہ زیادہ تخلیقی اور تنقیدی صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں۔ سوال کرنے کا عمل یہ بتاتا ہے کہ انسان کا ذہن ساکت و جامد نہیں ہے۔ ویسے بھی سوال کرنا علم میں مزید اضافے کا باعث ہوتا ہے۔ سوال کرتے وقت ادب اور تہذیب کا لحاظ ضروری ہے۔ سوالات شکوک و شبہات دور کرنے کے لیے ہونے چاہیے، نہ کہ کسی کی لیاقت کا پتہ لگانے کے لیے۔ جس سوال کا جواب معلوم ہو وہ سوال کرنا بے ادبی میں شمار ہوتا ہے۔ جو سوال سب کے علم میں اضافے کا سبب ہو، وہ سوال پوچھنا سب کے لیے ضروری ہے۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ سوال کرنے کے کلچر کو اہمیت دیں۔ کیونکہ جب تک بچہ سوال نہیں کریگا ہم اس کی نفسیات اور اس کے ذہنی رویے سے واقف نہیں ہو سکتے ہیں۔
ایک استاد کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے طالب علم کی نفسیات سے واقف ہو۔ طالب علم کیا سوچ رہا ہے اور کس سمت میں سوچ رہا ہے، یہ اسی وقت واضح ہوگا جب وہ سوال کرے گا۔ اس کے ذہنی رویے سے واقف ہوئے بنا ہم نہ تو اس کی مناسب تربیت کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس کا کوئی علمی فائدہ کر سکتے ہیں۔ کرنے کا کام صرف یہ ہے کہ اساتذہ سوال کرنے کے رویے کو فروغ دیں۔ اسے اپنی بے ادبی نہ سمجھ کر طلبہ کی ذہنی وسعت کی پیمائش کا ذریعہ بنائیں۔
سوال کرنا معلوم علم میں اضافے اور پختگی کا دوسرا نام ہے۔ ہم سوچتے ہیں اس لیے سوال کرتے ہیں۔ سوال کرنے سے علم کے نئے دروازے کھلتے ہیں۔ سوال کرنے کا رجحان یہ بتاتا ہے کہ جو کچھ معلوم ہے وہ کافی نہیں۔ یعنی سوال کرنا مسلسل علم میں اضافہ کرنا ہے۔ سوال کرنا زندہ رہنے کی علامت ہے۔ ہمارے سوال میں ہماری فکری وسعت، علمیت، شعور، ذہنی رویہ اور کردار سبھی کچھ پوشیدہ ہوتے ہیں۔ ہمارے سوالات ہماری شخصیت کی کہانی بیان کرتے ہیں۔ شاید سوال کرنے کی اسی اہمیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے فرانسیسی سیاستدان پیئر مارک گاستوں نے یہ بلیغ بات کہی تھی:
Il est encore plus facile de juger de l’esprit d’un homme par ses questions que par ses réponses.
یعنی کسی انسان کی ذہنی سطح کا اندازہ اس کے جواب کے مقابلے میں اس کے ذریعہ کیے گئے سوال سے کرنا نسبتا زیادہ آسان ہے۔ سوال کرنے کی آزادی نہ صرف کلاس روم میں ہونی چاہیے بلکہ گھر کے اندر بھی والدین بچوں کو سوالات کرنے کی آزادی دیں۔ کچھ سوالات الجھن پیدا کرتے ہیں، کبھی کبھی جھلاہٹ بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسے میں بڑے ہونے کے ناطے ہماری ذمہ داری یہ ہونی چاہیے کہ ہم بچوں کی رہنمائی کریں نہ کہ اس کو ڈانٹ پلائیں۔ یہ یاد رکھیے کہ سوالات کرنے کے رویے کا گلا دبانا متحرک ذہنوں کو مارنا ہے۔٭٭
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |