Adbi Miras
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      ستمبر 9, 2023

      کتاب کی بات

      اگست 30, 2023

      کتاب کی بات

      اگست 21, 2023

      کتاب کی بات

      جولائی 25, 2023

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2023

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      شخصیت شکن ناقد و محقق : سید شاہ…

      ستمبر 18, 2023

      تحقیق و تنقید

      عہد غالب میں شہر آرہ کا ادبی و…

      ستمبر 3, 2023

      تحقیق و تنقید

      غالب کی اردو نثر – پروفیسر شمیم حنفی

      جولائی 8, 2023

      تحقیق و تنقید

      میر اور غالب – پروفیسر شمیم حنفی

      جولائی 8, 2023

      تحقیق و تنقید

      مقدمہ شعر و شاعری پر چند باتیں –…

      جون 10, 2023

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      حجاب: ایک امر شرعی : فرحان بارہ بنکوی

      جون 27, 2023

      اسلامیات

      پیغام عید قرباں : عصر حاضر کے تناظر…

      جون 27, 2023

      اسلامیات

      روزے کی طبی وسماجی جہتیں – مفتی محمد…

      اپریل 15, 2023

      اسلامیات

      تقسیم زکوٰۃ :چند گذارشات – مفتی محمد ثناء الہدیٰ…

      اپریل 11, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل All
      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادب کا مستقبل

      نئی صبح – شیبا کوثر 

      جنوری 1, 2023

      ادب کا مستقبل

      غزل – دلشاد دل سکندر پوری

      دسمبر 26, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث اور نوشاد منظر- ڈاکٹر عمیر منظر

      ستمبر 10, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      1934کے نیوریمبرگ میں ایک جوان ہوتی ہوئی لڑکی…

      مارچ 28, 2023

      تراجم

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      تراجم

       یو م آزادی/ راجندر یادو – مترجم: سید کاشف 

      اگست 15, 2022

      تراجم

      مسئلہ،تُم ہو !/( چارلس بکؤسکی ) – نُودان…

      جولائی 25, 2022

      تعلیم

      ڈیجیٹل تعلیم کا تعارف اور طلباء کے لیے…

      جون 6, 2023

      تعلیم

      چیٹ جی پی ٹی (Chat GPT) اور تعلیم…

      اپریل 5, 2023

      تعلیم

      قومی یوم تعلیم اورمولانا ابوالکلام آزاد (جدید تعلیم…

      نومبر 11, 2022

      تعلیم

      فن لینڈ کا تعلیمی نظام (تعلیمی لحاظ سے…

      اگست 29, 2022

      خبر نامہ

      بزمِ صدف کی جانب سے انھیں مبارک باد…

      ستمبر 17, 2023

      خبر نامہ

      خواتین فنکاروں کی پیشکش کے ساتھ ایم پی…

      ستمبر 13, 2023

      خبر نامہ

      معروف افسانہ نگار فخرالدین عارفی کے اعزاز میں…

      ستمبر 10, 2023

      خبر نامہ

      جی ۔۲۰؍سربراہی اجلاس کی کامیاب انعقاد سے ملک…

      ستمبر 10, 2023

      خصوصی مضامین

      استاد کی سماجی ذمہ داری  اور اس کی…

      ستمبر 7, 2023

      خصوصی مضامین

      میری آپ بیتی کا ایک باب۔ریڈیو کی دنیا…

      ستمبر 5, 2023

      خصوصی مضامین

      یوم اساتذہ: یوم احتساب- کامران غنی صبا

      ستمبر 5, 2023

      خصوصی مضامین

      آج کے دور میں اردو زبان کی اہمیت…

      اگست 29, 2023

      سماجی اور سیاسی مضامین

      سوال اچھا ہے، جواب نہیں – محمد ریحان

      اگست 7, 2023

      سماجی اور سیاسی مضامین

      آپ ہر انسان کو خوش نہیں کر سکتے…

      جولائی 19, 2023

      سماجی اور سیاسی مضامین

      شہر اور گاؤں میں سیلاب: انسان کی اپنی…

      جولائی 16, 2023

      سماجی اور سیاسی مضامین

      آپ مطلق آزاد نہیں ہیں – محمد ریحان

      جولائی 16, 2023

      فکر و عمل

      اور سایہ دار درخت کٹ گیا – منہاج الدین…

      فروری 22, 2022

      فکر و عمل

      ابّو جان (شیخ الحدیث مولانا محمد الیاس بارہ…

      فروری 22, 2022

      فکر و عمل

       مولانا عتیق الرحمن سنبھلی – مفتی محمد ثناء الہدیٰ…

      فروری 15, 2022

      فکر و عمل

      ابوذر غفاری ؓ- الطاف جمیل آفاقی

      جنوری 19, 2022

      متفرقات

      بزمِ صدف کی جانب سے انھیں مبارک باد…

      ستمبر 17, 2023

      متفرقات

      خواتین فنکاروں کی پیشکش کے ساتھ ایم پی…

      ستمبر 13, 2023

      متفرقات

      معروف افسانہ نگار فخرالدین عارفی کے اعزاز میں…

      ستمبر 10, 2023

      متفرقات

      جی ۔۲۰؍سربراہی اجلاس کی کامیاب انعقاد سے ملک…

      ستمبر 10, 2023

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
مقبول ترین
ترجمہ کا فن :اہمیت اور مسائل – سیدہ...
تحقیق: معنی و مفہوم ۔ شاذیہ بتول
سر سید کی  ادبی خدمات – ڈاکٹر احمد...
حالیؔ کی حالات زندگی اور ان کی خدمات...
آخر شب کے ہم سفر میں منعکس مشترکہ...
تحقیق کیا ہے؟ – صائمہ پروین
منیرؔنیازی کی شاعری کے بنیادی فکری وفنی مباحث...
اردو ادب میں نعت گوئی – ڈاکٹر داؤد...
آغا حشر کاشمیری کی ڈراما نگاری (سلور کنگ...
تحقیقی خاکہ نگاری – نثار علی بھٹی
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      ستمبر 9, 2023

      کتاب کی بات

      اگست 30, 2023

      کتاب کی بات

      اگست 21, 2023

      کتاب کی بات

      جولائی 25, 2023

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2023

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      شخصیت شکن ناقد و محقق : سید شاہ…

      ستمبر 18, 2023

      تحقیق و تنقید

      عہد غالب میں شہر آرہ کا ادبی و…

      ستمبر 3, 2023

      تحقیق و تنقید

      غالب کی اردو نثر – پروفیسر شمیم حنفی

      جولائی 8, 2023

      تحقیق و تنقید

      میر اور غالب – پروفیسر شمیم حنفی

      جولائی 8, 2023

      تحقیق و تنقید

      مقدمہ شعر و شاعری پر چند باتیں –…

      جون 10, 2023

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      حجاب: ایک امر شرعی : فرحان بارہ بنکوی

      جون 27, 2023

      اسلامیات

      پیغام عید قرباں : عصر حاضر کے تناظر…

      جون 27, 2023

      اسلامیات

      روزے کی طبی وسماجی جہتیں – مفتی محمد…

      اپریل 15, 2023

      اسلامیات

      تقسیم زکوٰۃ :چند گذارشات – مفتی محمد ثناء الہدیٰ…

      اپریل 11, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل All
      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادب کا مستقبل

      نئی صبح – شیبا کوثر 

      جنوری 1, 2023

      ادب کا مستقبل

      غزل – دلشاد دل سکندر پوری

      دسمبر 26, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث اور نوشاد منظر- ڈاکٹر عمیر منظر

      ستمبر 10, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      1934کے نیوریمبرگ میں ایک جوان ہوتی ہوئی لڑکی…

      مارچ 28, 2023

      تراجم

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      تراجم

       یو م آزادی/ راجندر یادو – مترجم: سید کاشف 

      اگست 15, 2022

      تراجم

      مسئلہ،تُم ہو !/( چارلس بکؤسکی ) – نُودان…

      جولائی 25, 2022

      تعلیم

      ڈیجیٹل تعلیم کا تعارف اور طلباء کے لیے…

      جون 6, 2023

      تعلیم

      چیٹ جی پی ٹی (Chat GPT) اور تعلیم…

      اپریل 5, 2023

      تعلیم

      قومی یوم تعلیم اورمولانا ابوالکلام آزاد (جدید تعلیم…

      نومبر 11, 2022

      تعلیم

      فن لینڈ کا تعلیمی نظام (تعلیمی لحاظ سے…

      اگست 29, 2022

      خبر نامہ

      بزمِ صدف کی جانب سے انھیں مبارک باد…

      ستمبر 17, 2023

      خبر نامہ

      خواتین فنکاروں کی پیشکش کے ساتھ ایم پی…

      ستمبر 13, 2023

      خبر نامہ

      معروف افسانہ نگار فخرالدین عارفی کے اعزاز میں…

      ستمبر 10, 2023

      خبر نامہ

      جی ۔۲۰؍سربراہی اجلاس کی کامیاب انعقاد سے ملک…

      ستمبر 10, 2023

      خصوصی مضامین

      استاد کی سماجی ذمہ داری  اور اس کی…

      ستمبر 7, 2023

      خصوصی مضامین

      میری آپ بیتی کا ایک باب۔ریڈیو کی دنیا…

      ستمبر 5, 2023

      خصوصی مضامین

      یوم اساتذہ: یوم احتساب- کامران غنی صبا

      ستمبر 5, 2023

      خصوصی مضامین

      آج کے دور میں اردو زبان کی اہمیت…

      اگست 29, 2023

      سماجی اور سیاسی مضامین

      سوال اچھا ہے، جواب نہیں – محمد ریحان

      اگست 7, 2023

      سماجی اور سیاسی مضامین

      آپ ہر انسان کو خوش نہیں کر سکتے…

      جولائی 19, 2023

      سماجی اور سیاسی مضامین

      شہر اور گاؤں میں سیلاب: انسان کی اپنی…

      جولائی 16, 2023

      سماجی اور سیاسی مضامین

      آپ مطلق آزاد نہیں ہیں – محمد ریحان

      جولائی 16, 2023

      فکر و عمل

      اور سایہ دار درخت کٹ گیا – منہاج الدین…

      فروری 22, 2022

      فکر و عمل

      ابّو جان (شیخ الحدیث مولانا محمد الیاس بارہ…

      فروری 22, 2022

      فکر و عمل

       مولانا عتیق الرحمن سنبھلی – مفتی محمد ثناء الہدیٰ…

      فروری 15, 2022

      فکر و عمل

      ابوذر غفاری ؓ- الطاف جمیل آفاقی

      جنوری 19, 2022

      متفرقات

      بزمِ صدف کی جانب سے انھیں مبارک باد…

      ستمبر 17, 2023

      متفرقات

      خواتین فنکاروں کی پیشکش کے ساتھ ایم پی…

      ستمبر 13, 2023

      متفرقات

      معروف افسانہ نگار فخرالدین عارفی کے اعزاز میں…

      ستمبر 10, 2023

      متفرقات

      جی ۔۲۰؍سربراہی اجلاس کی کامیاب انعقاد سے ملک…

      ستمبر 10, 2023

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
Adbi Miras
سماجی اور سیاسی مضامین

سوال اچھا ہے، جواب نہیں – محمد ریحان

by adbimiras اگست 7, 2023
by adbimiras اگست 7, 2023 0 comment

ہمارے تعلیمی اداروں میں سوال کرنے سے زیادہ جواب دینے کی صلاحیت کو اہم سمجھا جاتا ہے۔ اساتذہ سوال کرنے والے طالب علم کے مقابلے میں جواب دینے والے طالب علم کو زیادہ ذہین اور قابل تصور کرتے ہیں۔ یہ رویہ صرف نرسری اور پرائمری اسکولوں کے اساتذہ تک محدود نہیں بلکہ یہ ہمیں اعلی تعلیمی اداروں کے مدرسین کے یہاں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔

اسکول میں پڑھانے والے اساتذہ عام طور پر زیادہ سوال کرنے والے بچے کو بے ادب تصور کرتے ہیں۔ کبھی کبھی سوال کیے جانے پر اساتذہ اپنی بے عزتی محسوس کرتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سوال کرنے کے "جرم” میں بچوں کو سزا بھی دیدی جاتی ہے۔ وہیں دوسری طرف اگر کوئی بچہ استاد کے پوچھے گئے کسی سوال کا جواب دیدے تو وہ بچہ نہ صرف ذہین تصور کیا جاتا ہے بلکہ وہ استاد کا محبوب اور منظور نظر طالب علم  ہو جاتا ہے۔

یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ اسکول میں، خاص طور پر سرکاری اسکولوں میں، اساتذہ وسیع الذہن نہیں ہوتے ہیں۔ ان کا مطالعہ محدود ہوتا ہے۔ انہیں بچوں کی نفسیات سے واقفیت نہیں ہوتی ہے۔ انہیں اس بات سے کوئی سروکار بھی نہیں ہوتا کہ بچے کیا سوچتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ کلاس میں سوال کرنا بے ادبی ہے۔ وہ ایسا اس لیے سوچتے ہیں کہ وہ خود بھی ایک ایسے سماج کے پروردہ ہوتے ہیں جہاں سوال کرنا ایک گناہ سمجھا جاتا ہے۔ اگر اسکولوں تک یہ بات محدود ہوتی تو زیادہ حیرت کی بات نہ تھی۔ حالانکہ ایک طرح سے یہ زیادہ حیرت اور افسوس کی بات ہے۔ کیونکہ اس مرحلے میں سوال کرنے کی پابندی سے بچے کی شخصیت کی تشکیل پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ میں نے محض اعلی تعلیمی اداروں کے مقابلے میں رکھ کر یہ بات کہی ہے جہاں باصلاحیت اساتذہ ہوتے ہیں۔ ورنہ میں اس رویے کی ہر صورت اور ہر سطح پر تردید کرتا ہوں اور اسے طلبا کے حق میں کسی بھی طور پر بہتر نہیں سمجھتا۔ اسکولوں میں سوال کرنے پر اساتذہ کے بپھرنے کو ایک دانستہ رویہ کہنے کے بجائے ہم اس کو ان کی کم علمی پر موقوف کر سکتے ہیں۔ اسکول میں بہت باصلاحیت اور کوالیفائڈ اساتذہ نہیں ہوتے ہیں۔ انہیں درس و تدریس کے طریقۂ کار کا بھی خاص علم نہیں ہوتا ہے۔ وہ کورس مکمل کرنا ہی ضروری سمجھتے ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں تو خیر اس کی بھی توفیق نہیں ہوتی۔ وہاں تو اساتذہ بس حاضری کو ضروری سمجھتے ہیں تاکہ ہر ماہ تنخواہ آتی رہے۔ پڑھنے والوں کے شکوک و شبہات کو دور کرنا ان کے کورس کا حصہ نہیں ہوتا ہے۔ یہی مسئلہ اگر اعلی تعلیمی ادارے میں در پیش ہو تو پھر ہمیں فکرمند ہونا پڑے گا۔ کیونکہ یہاں ہم اساتذہ کی کم علمی کا عذر پیش نہیں کر سکتے۔ یہاں سبھی اعلی تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ ان کے پاس ایم فل اور پی ایچ ڈی کی بڑی بڑی ڈگریاں ہوتی ہیں۔ یہ تعلیم کے طویل پروسیس سے گزر کر لیکچرر کے طور پر بحال ہوتے ہیں۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ بڑی بڑی علمی دانش گاہوں اور جامعات میں تدریس سے جڑے لیکچرر اور پروفیسر بھی سوال کرنے کے کلچر کو فروغ نہیں دیتے ہیں۔ اس معاملے میں ان کی ذہنیت بھی اسکول کے ٹیچر کی طرح ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب طلبا سوال کرتے ہیں تو اساتذہ فورا اس کی قابلیت پر سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں۔ اسے کم ذہن خیال کرنے لگتے ہیں یا بعض دفعہ بدمعاش کا ٹیگ لگا دیتے ہیں۔ یہ بات میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ یہ واقعہ خود میرے ساتھ پیش آچکا ہے۔

2009 کا واقعہ ہے ۔ دہلی کی ایک مشہور و معروف یونیورسیٹی میں میرا داخلہ ہوا، میں بے حد خوش تھا۔ پہلے دن کی پہلی کلاس انگریزی کی تھی۔ یہ میرا اختیاری مضمون تھا۔ اس وقت تک میں نے انگریزی کے ایک دو ناول اور کچھ ہی افسانے پڑھے تھے۔ انگریزی ادب سے میری واقفیت بس اتنی تھی کہ میں دو چار ناولوں کے نام جانتا تھا۔ (اب بھی میری واقفیت میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا ہے)بہر کیف! جو استاد انگریزی پڑھانے آئے میں ان کی طرف رشک بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ ان کے پڑھانے کا انداز مجھے بے حد پسند آیا۔ وہ بغیر کتاب کھولے تقریباً 45 منٹ تک لیکچر دیتے رہے جو کتاب میں شامل کہانی سے متعلق تھا۔ لیکن میں اس وقت حق دق رہ گیا جب وہ میرے ایک سوال پر بپھر گئے۔ میرا سوال کہانی اور ناول کی تکنیک پر تھا۔ آخر ناول لکھنے کے لیے مختلف تکنیک کی کیوں ضرورت پڑتی ہے؟ سوال کرتے ہی وہ مجھے کہنے لگے آپ اپنا سبجیکٹ چینج کر لیں، یہ آپ کے لیے بہتر رہے گا۔ اس طرح کا سوال آپشنل پیپر رکھ کر نہیں کیا جاتا ہے۔ میں نے نہایت ہی ادب کے ساتھ ان سے یہ بات کہی تھی کہ سر پہلی بات تو یہ کہ آپ نے جو کچھ کہا وہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ مجھے معلوم ہے میرے لیے کیا بہتر ہے اور کیا نہیں۔ میں نے مذکورہ باتیں اگرچہ ادب کے دائرے میں رہ کر کہی تھیں تاہم اس انداز میں مجھے اب تھوڑی بے ادبی نظر آرہی ہے۔ میری ان باتوں پر انگریزی کے استاد کو غصہ تو ضرور آیا ہوگا لیکن انہوں نے بنا کسی تادیبی کاروائی کے کلاس ختم کر دی۔ دوسرے دن جب وہ کلاس روم میں آئے تو باضابطہ میرا نام لیکر اگلی صف میں بیٹھنے کو کہا۔ اس دن کا لیکچر خاص طور پر ناول اور کہانی کی تکنیک پر مرکوز رہا۔ میں بعد میں ان سے بہت قریب ہو گیا اور ان کے ساتھ اکثر چائے اور کافی پہ ملاقات ہوتی رہی۔ لیکن ان سے انسیت پیدا ہو جانے کے باوجود مجھے یہ سوال بار بار پریشان کرتا رہا کہ آخر وہ پہلے دن کیوں بپھر گئے تھے۔ میں نے ان سے یہ کبھی پوچھا بھی نہیں کہ انہیں کیوں غصہ آیا تھا۔ ممکن ہے انہیں یہ محسوس ہوا ہو کہ میں نے اپنی علمیت بگھارنے کے لیے مذکورہ سوال کیا ہو۔ اگر ایسا تھا، تو بھی انہیں میرے سوال کا جواب دینا چاہیے تھا نہ کہ غیر ضروری رائے اور مشورہ۔

ایسا ہی ایک واقعہ اردو ادب کی ایک کلاس میں پیش آیا۔ غالبا یہ بی اے سال دوم کی بات ہے۔ ایک استاد جدید شاعری کی کلاس لینے آئے۔ اخترالایمان کی نظم “ایک لڑکا” کی تشریح کرتے ہوئے نظم کی تعریف بیان کی۔ انہوں نے یہ کہا کہ نظم میں کسی ایک ہی خیال کو منظم اور مربوط طریقے سے شروع سے آخر تک پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن میں نظم کی تشریح سے مطمئن نہ ہو سکا۔ میں ان سے یہ سوال کر بیٹھا کہ مذکورہ نظم میں تو کئی خیالات ہیں۔ مثلا گاؤں کا ذکر ہے، اللہ کی نعمتوں کا بیان ہے، ہجرت کا احساس ہے، مجبوری کی کیفیت ہے وغیرہ وغیرہ۔ ان سب کو آپس میں کس بنیاد پر ایک خیال سے جوڑا جائے؟ میرا یہ سوال کرنا تھا کہ موصوف ایک دم سے مجھ پر برس پڑے۔ کہنے لگے تم اتنی معمولی سی نظم نہیں سمجھ سکتے۔ میں نے کہا کہ سر اگر میں نہیں سمجھ سکا ہوں تو ایک بار پھر سے اس کی تشفی بخش تشریح کر دیں اور بتائیں کہ ہر بند میں کیا مشترک ہے یا ان سب کو کون سی کڑی آپس میں جوڑ رہی ہے۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس دن جس طرح کی تشریح انہوں نے پیش کی تھی اس سے کوئی متفق نہیں ہو سکا تھا لیکن میرے سوا کسی نے سوال کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس طرح کے تجربے سے ممکن ہے آپ بھی کبھی نہ کبھی گزرے ہوں گے۔ ہم سوال کرنا چاہتے ہیں لیکن کسی نہ کسی خوف سے اپنے ذہن میں اٹھنے والے سوال کو دبا دیتے ہیں۔ یہ خوف در اصل کلاس روم میں موجود استاد کا ہی پیدا کیا ہوا ہوتا ہے۔

یہ صرف ہندوستان میں تدریس سے جڑے اساتذہ کی بات نہیں ہے۔ یہ ہندوستانی رویہ میں نے باہر کے ملکوں میں پڑھا رہے ہندوستانی ٹیچر کے یہاں بھی دیکھا ہے۔ پیرس کے ایک ادارے میں مجھے ایک سال پڑھانے کا اتفاق ہوا۔ میرے پڑھانے کا انداز یہ تھا کہ طلبا زیادہ سے زیادہ کلاس میں حصہ لیں۔ سوال کرنے کی کوئی پابندی نہیں تھی۔ وہ سبق سے متعلق جو سوال کرنا چاہتے، ان کو اجازت تھی۔ میں نے دیکھا کہ طلبا خوب سوال کرتے اور بلا خوف کرتے۔ ایسا اس لیے ممکن تھا کہ میں نے استادی نہیں دکھائی، میں نے انہیں ڈرایا نہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ جتنا سوال کریں گے میں اتنا ہی زیادہ سکھا پاؤں گا اور اتنا ہی زیادہ آپ سیکھیں گے۔ میرے اور طلبا کے درمیان جو ڈر اور خوف کی دیوار تھی میں نے اسے اول دن ہی گرا دی تھی۔ میرے ساتھ کام کرنے والے ایک صاحب نے شکایت کی کہ فلاں لڑکی کلاس میں بہت سوال کرتی ہے۔ وہ سوال کرکے کلاس کو ڈسٹرب کرتی ہے۔ اب اس کا نتیجہ کیا ہوا کہ ایک دن اس کی کوئی کمی پکڑ لی گئی اور بیچاری کو کلاس میں آنے سے روک دیا گیا۔ وہ صاحب ایسا کرکے بڑے خوش تھے گویا انہوں نے کوئی بڑی فتح حاصل کر لی۔ مجھے یہ سن کر بڑا دکھ ہوا کہ ایک استاد ایک طالبہ کے محض زیادہ سوال کرنے یا کلاس میں بولنے پر پر پریشان ہے اور اسے کلاس میں آنے سے منع کرکے خوش ہے۔ وہ میرے اوپر بھی غیر ضروری پریشر بنا رہے تھے کہ میں اس کو کلاس میں آنے سے منع کردوں۔ میں قطعی ایسا نہیں کر سکتا تھا۔ وہ لڑکی میری کلاس میں آتی رہی۔ میں نے دیکھا کہ اس کے اندر سیکھنے کی للک ہے۔ میں نے اس کو اپنی کلاس میں آنے سے کبھی نہیں روکا۔

 

استاد اگر کھلے ذہن کا نہ ہو تو ہمارے بچے کلاس میں سہمے ہوئے رہتے ہیں۔ بچے کلاس روم سے کچھ سیکھنے کے بجائے شکوک و شبہات اپنے ساتھ گھر لے جاتے ہیں۔ آپ کسی ادارے میں کوئی علمی پروگرام پیش کریں اور اخیر میں سوال و جواب کا بھی سیشن رکھیں۔ اس پروگرام میں بچے ضرور شریک ہوں گے۔ آپ کی بات ہمہ تن گوش ہوکر سماعت بھی کریں گے۔ لیکن آپ کے سوال و جواب کا سیشن بغیر کسی سوال و جواب کے ختم ہو جائےگا۔ ہم سوال نہیں کرنے والے طالب علم کے بارے میں یہ سوچتے ہیں کہ وہ سب کچھ سمجھ رہا ہے۔ ہم یہ سوچتے ہیں کہ سمجھ میں آنے والی بات پر بچہ سوال کیوں کریگا؟ یہ سوچنا ہماری بہت بڑی غلطی ہے۔ ہم کسی چیز کے بارے میں جینون سوال اس وقت تک نہیں کرتے جب تک ہم مکمل طور پر اس چیز کو سمجھ نہیں لیتے۔ ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ ہمارے یہاں سوال کرنے کا کلچر کیوں نہیں ہے؟ ہمارے یہاں تہذیب اور ادب کا اتنا پاٹھ پڑھایا جاتا ہے کہ وہ اساتذہ کی غلطی پکڑ لینے پر بھی خاموش ہی رہتے ہیں۔ کیونکہ انہیں خطائے بزرگاں گرفتن خطا است کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اساتذہ اور بڑوں کا احترام ضروری ہے۔ لیکن سوال کرنا اور بڑے بزرگوں کی خامیوں کی نشاندہی کرنا بے ادبی نہیں۔ ادب اور اخلاق کے دائرے میں بچے سوال کرتے ہیں تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

استاد کی عزت اور ان کا ادب و احترام ہماری تہذیب کا حصہ ہے۔ لیکن ہم نے اس تہذیب کا بہت غلط استعمال کیا ہے۔ اس تہذیب کے اطلاق میں ہم سے بڑی بھول ہوئی ہے۔ تہذیب کی آڑ میں ہم نے بچوں سے ان کے فطری پن کو چھین لیا ہے۔ اسی تہذیب نے ہمارے اساتذہ کے اندر یہ غلط فہمی بھی پیدا کر دی ہے کہ سوال کرنا ایک قسم کی بے ادبی ہے۔ اس لیے ہمارے اکثر اساتذہ سوال کرنے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے بھی اسے پسند نہیں کرتے ہیں، اکثر تو اس کی اہمیت سے ہی نا واقف ہوتے ہیں۔

نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ زیادہ سوال کرنے والے بچوں کے سوچنے اور سمجھنے کا معیار زیادہ بلند ہوتا ہے۔ وہ زیادہ تخلیقی اور تنقیدی صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں۔ سوال کرنے کا عمل یہ بتاتا ہے کہ انسان کا ذہن ساکت و جامد نہیں ہے۔ ویسے بھی سوال کرنا علم میں مزید اضافے کا باعث ہوتا ہے۔ سوال کرتے وقت ادب اور تہذیب کا لحاظ ضروری ہے۔ سوالات شکوک و شبہات دور کرنے کے لیے ہونے چاہیے، نہ کہ کسی کی لیاقت کا پتہ لگانے کے لیے۔ جس سوال کا جواب معلوم ہو وہ سوال کرنا بے ادبی میں شمار ہوتا ہے۔ جو سوال سب کے علم میں اضافے کا سبب ہو، وہ سوال پوچھنا سب کے لیے ضروری ہے۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ سوال کرنے کے کلچر کو اہمیت دیں۔ کیونکہ جب تک بچہ سوال نہیں کریگا ہم اس کی نفسیات اور اس کے ذہنی رویے سے واقف نہیں ہو سکتے ہیں۔

ایک استاد کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے طالب علم کی نفسیات سے واقف ہو۔ طالب علم کیا سوچ رہا ہے اور کس سمت میں سوچ رہا ہے، یہ اسی وقت واضح ہوگا جب وہ سوال کرے گا۔ اس کے ذہنی رویے سے واقف ہوئے بنا ہم نہ تو اس کی مناسب تربیت کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس کا کوئی علمی فائدہ کر سکتے ہیں۔ کرنے کا کام صرف یہ ہے کہ اساتذہ سوال کرنے کے رویے کو فروغ دیں۔ اسے اپنی بے ادبی نہ سمجھ کر طلبہ کی ذہنی وسعت کی پیمائش کا ذریعہ بنائیں۔

سوال کرنا معلوم علم میں اضافے اور پختگی کا دوسرا نام ہے۔ ہم سوچتے ہیں اس لیے سوال کرتے ہیں۔ سوال کرنے سے علم کے نئے دروازے کھلتے ہیں۔ سوال کرنے کا رجحان یہ بتاتا ہے کہ جو کچھ معلوم ہے وہ کافی نہیں۔ یعنی سوال کرنا مسلسل علم میں اضافہ کرنا ہے۔ سوال کرنا زندہ رہنے کی علامت ہے۔ ہمارے سوال میں ہماری فکری وسعت، علمیت، شعور، ذہنی رویہ اور کردار سبھی کچھ پوشیدہ ہوتے ہیں۔ ہمارے سوالات ہماری شخصیت کی کہانی بیان کرتے ہیں۔ شاید سوال کرنے کی اسی اہمیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے فرانسیسی سیاستدان پیئر مارک گاستوں نے یہ بلیغ بات کہی تھی:

Il est encore plus facile de juger de l’esprit d’un homme par ses questions que par ses réponses.

یعنی کسی انسان کی  ذہنی سطح کا اندازہ اس کے جواب کے مقابلے میں اس کے ذریعہ کیے گئے سوال سے کرنا نسبتا زیادہ آسان ہے۔ سوال کرنے کی آزادی نہ صرف کلاس روم میں ہونی چاہیے بلکہ گھر کے اندر بھی والدین بچوں کو سوالات کرنے کی آزادی دیں۔ کچھ سوالات الجھن پیدا کرتے ہیں، کبھی کبھی جھلاہٹ بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسے میں بڑے ہونے کے ناطے ہماری ذمہ داری یہ ہونی چاہیے کہ ہم بچوں کی رہنمائی کریں نہ کہ اس کو ڈانٹ پلائیں۔ یہ یاد رکھیے کہ سوالات کرنے کے رویے کا گلا دبانا متحرک ذہنوں کو مارنا ہے۔٭٭

 

 

(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں    https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos

 

 

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

 

 

ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com  پر بھیجنے کی زحمت کریں۔

 

Home Page

adabi meerasadabi miraasadabi mirasادبی میراثجامعہ ملیہ اسلامیہمحمد ریحان
0 comment
0
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail
adbimiras

پچھلی پوسٹ
ڈاکٹر احسان عالم کی کتاب”آﺅ بچو! تمہیں بتائیں“ پر ایک گفتگو کا انعقاد
اگلی پوسٹ
علامہ اسرار جاؔمعی : ون مین آرمی – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم ؔ

یہ بھی پڑھیں

آپ ہر انسان کو خوش نہیں کر سکتے...

جولائی 19, 2023

شہر اور گاؤں میں سیلاب: انسان کی اپنی...

جولائی 16, 2023

آپ مطلق آزاد نہیں ہیں – محمد ریحان

جولائی 16, 2023

ایک ملک ایک قانون – پروفیسر مظہر آصف

جولائی 15, 2023

تنقید کا استقبال کریں – محمد ریحان

جولائی 13, 2023

ریاست مغربی بنگال کی طرف سے اعلامیہ، بنگلہ...

جولائی 12, 2023

سننے کی عادت ڈالیں – محمد ریحان

جولائی 9, 2023

تہواروں کا جشن اور تنازعات دَر تنازعات کا...

جولائی 2, 2023

بعد از قربانی:اہل ایمان سے قربانی کے مطالبے...

جولائی 1, 2023

قربانی کیجئے،لیکن آداب کے ساتھ! – ڈاکٹر محمد...

جون 28, 2023

تبصرہ کریں Cancel Reply

اپنا نام، ای میل اور ویبسائٹ اگلے تبصرہ کے لئے اس براؤزر میں محفوظ کریں

زمرہ جات

  • آج کا شعر (59)
  • اداریہ (6)
  • اسلامیات (178)
    • قرآن مجید (آڈیو) (3)
  • اشتہار (2)
  • پسندیدہ شعر (1)
  • تاریخِ تہذیب و ثقافت (12)
  • تحقیق و تنقید (105)
  • تخلیقی ادب (555)
    • افسانچہ (28)
    • افسانہ (181)
    • انشائیہ (16)
    • خاکہ (34)
    • رباعی (1)
    • غزل (135)
    • قصیدہ (3)
    • گلہائے عقیدت (25)
    • مرثیہ (6)
    • نظم (122)
  • تربیت (32)
  • تنقیدات (954)
    • ڈرامہ (14)
    • شاعری (488)
      • تجزیے (12)
      • شاعری کے مختلف رنگ (208)
      • غزل شناسی (179)
      • مثنوی کی تفہیم (7)
      • مرثیہ تنقید (8)
      • نظم فہمی (78)
    • صحافت (43)
    • طب (13)
    • فکشن (370)
      • افسانچے (3)
      • افسانہ کی تفہیم (194)
      • فکشن تنقید (12)
      • فکشن کے رنگ (23)
      • ناول شناسی (138)
    • قصیدہ کی تفہیم (14)
  • جامعاتی نصاب (12)
    • پی ڈی ایف (PDF) (6)
      • کتابیں (3)
    • ویڈیو (5)
  • روبرو (انٹرویو) (38)
  • کتاب کی بات (421)
  • گوشہ خواتین و اطفال (93)
    • پکوان (2)
  • متفرقات (1,832)
    • ادب کا مستقبل (110)
    • ادبی میراث کے بارے میں (8)
    • ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف (21)
    • تحفظ مادری زبان (24)
    • تراجم (27)
    • تعلیم (28)
    • خبر نامہ (729)
    • خصوصی مضامین (97)
    • سماجی اور سیاسی مضامین (215)
    • فکر و عمل (112)
  • مقابلہ جاتی امتحان (1)
  • نصابی مواد (258)
    • ویڈیو تدریس (7)

ہمیں فالو کریں

Facebook

ہمیں فالو کریں

Facebook

Follow Me

Facebook
Speed up your social site in 15 minutes, Free website transfer and script installation
  • Facebook
  • Twitter
  • Instagram
  • Youtube
  • Email
  • سر ورق
  • ہمارے بارے میں
  • ہم سے رابطہ

All Right Reserved. Designed and Developed by The Web Haat


اوپر جائیں