سائل دہلوی کا اصل نام سراج الدین احمد خان اور سائل تخلص تھا۔سائل کی پیدائش نواب شہاب الدین احمد خان کے ۱۸۶۴ میں ہوئی۔ابتدائی تعلیم مولوی قاسم علی سے حاصل کی جو عربی و فارسی زبان و ادب پر مہارت رکھتے تھے۔سائل نے اردو زبان و ادب کی تعلیم مرزا ارشد علی گورگانی سے حاصل کی۔یہ دونوں ہی حضرات اپنے زمانے کے بڑے عالم اور عربی ،فارسی کے ساتھ اردو زبان و ادب کے بہترین استاد تسلیم کیے جاتے تھے۔
سراج الدین احمد خان کا شمار داغ کے اہم تلامذہ میں ہوتا ہے۔اس کی دو وجہیں ہیں اور یہ کہ سائل نے باضابطہ طور پر داغ کی شاگردی اختیار کی،اپنے کلام پر داغ سے اصلاح لیا،اور داغ کی طرز فکر کو اپنی شاعری میں پیش کیا۔دوسری وجہ یہ تھی کہ سائل دہلوی کا نکاح داغ کی متنبی بیٹی یعنی ان کی سالی کی نواسی ’لاڈلی بیگم‘ کے ساتھ ہوا تھا۔اس طرح سائل داغ کے داماد ہوئے۔داغ جب حیدرآباد میں مقیم تھے تو سائل بھی ان کے ساتھ حیدرآباد میں سکونت اختیار کرلی تھی۔۱۹۰۸ میں سائل دہلوی واپس دہلی آگئے اور یہی نگینہ فراش خانہ میں سکونت اختیار کرلی۔سائل دہلوی کو شاعری کے علاوہ شہسواری اور پولو کا بڑا شوق تھا۔
سائل دہلوی نے داغ کی شاگردی ۱۹۰۰ میں اختیار کی۔سائل کے اس فیصلے سے ان کے گھر والے کافی ناراض ہوئے۔ان کی ناراضگی کی وجہ غالب اور داغ کی معصرانہ چشمک تھی۔سائل دہلوی کے دادا نواب ضیا الدین خان نیّرو غالب کے خاص شاگرد تھے۔نواب ضیائ الدین احمد خان کی شاعری کے اثرات قبول کیے،یہی وجہ ہے کہ نواب ضیائ الدین خان کی شاعری میں بھی معنی آفرینی،تخیل کی بلند پروازی اور تراکیب کی جدت و ندرت جو غالب کا وصف خاص تھا بدرجہ اتم موجود ہے۔غالب کی اس خوبی کو سائل کے چچا نواب احمد سعید خان طالب اور سائل دہلوی کے بڑے بھائی شجاع الدین احمد خان نے بطور خاص اپنایا تھا۔اس طرح سائل کاپورا گھرانہ غالب کی شاگردی اور طرز شاعری میں ڈوبا ہوا تھا۔لہذا جب سائل دہلوی نے اپنے خاندانی روایت کے برخلاف داغ کی شاگردی اختیار کرلی۔ سائل دہلوی کے اس فیصلے سے ان کے خاندان کے لوگوں کا ناراض ہونا واجب تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ سائل نے اپنی خاندانی روایت کے انحراف کرتے ہوئے غالب کو نظر انداز کیا ہو،سائل نے جہاں داغ کی شاگردی اختیار کی اور طرز فکر کو اپنایا وہیں اپنے آبا و اجدا کے غالب کے نسبت پرہمیشہ فخر رہا۔ (یہ بھی پڑھیں شاکر کریمی کی غزلیہ شاعری – ڈاکٹر نوشاد منظر )
منگتا ہوں یا ہوں بھکیاں بول نہ ہوگا کیوں بالا
غالب میرے دادا تھے، غالب کا میں پوتا ہوں
نسبتِ داغ سے دلی کی زباں سے سائل
شاعری کا تری دنیا میں بھرم ہے تو سہی
سائل دہلوی نے داغ کے اثرات کوقبول کیا،اسعد بدایونی نے اپنی کتاب’’داغ کے اہم تلامذہ‘‘میں سائل اور داغ کے متعلق لکھتے ہیں:
’’جب سائل نے حضرت داغ سے شرف تلمذ حاصل کیا تو فطری طور پر ان کے رنگ میں تبدیلی آئی اور تراکیب کے بجائے محاورات اور معنی آفرینی کے بجائے زور گوئی کی طرف طبیعت مائل ہوئی۔سائل نے اپنی فکر ِ رسا کو استعمال میں لا کر اپنے خاندانی رنگ اور داغ کے رنگ کی آمیزش سے ایک ایسا رنگ تغزل تیار کیا جو مومن سے قریب تھا۔سائل کے کلام میں تصوف،معنوی بلند پروازی،شوکت الفاظ،محاورہ اور زبان غرض کہ تمام خوبیاں موجود ہیں۔لیکن نہایت اعتدال کے ساتھ۔‘‘
(داغ کے اہم تلامذہ،اسعد بدایونی)
اسعد بدایونی کے مطابق سائل دہلوی نے محض داغ کے رنگ کو نہیں اپنایا بلکہ کلام غالب کے اثرات بھی انہوں نے قبول کیے۔یا یوں کہیں کہ سائل نے غالب اور داغ دونوں کے اسلوب سے ایک نیا رنگ پیدا کرنے کی کوشش کی۔اسعد بدایونی نے سائل دہلوی کے کلام پر داغ کے اثرات کی جو بات کہی ہے وہ بڑی حد تک صحیح ہے کیوں کہ استاد کا رنگ شاگرد کے کلام پر ہوتا ہی ہے مگر یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ اسعد بدایونی نے سائل دہلوی کے ان اشعار کی نشاندہی نہیں کی جن پر داغ کے اثرات ہیں۔یہ سچ ہے کہ داغ کے رنگ کو سائل دہلوی نے قبول کیا یہی وجہ ہے کہ حیدر آباد میں سائل کے حریفوں نے یہ افواہ پھیلا دی کہ داغ غزل کہہ کر سائل کو دیتے ہیں اور سائل انہیں مشاعرے میں پڑھتے ہیں۔ظاہر ہے اس بیان میں حقیقت کم معاصرانہ چشمک زیادہ معلوم ہوتی ہے۔
سائل دہلوی کے کلام کو پڑھتے ہوئے ان کی شخصیت کے پہلو نمایاں ہوجاتے ہیں۔سائل دہلوی کی خوبی یہ ہے کہ وہ سیدھے سادے پیرائے میں اپنے مشاہدات کو پیش کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔اپنی اس سادگی پر خود سائل کو بھی بڑا ناز تھا:
یہ تیری سادگی آرائشِ زیور سے بڑھ کر
خدا کے فضل سے تو تو رقم یوں بھی ہے اور یوں بھی
کلام سائل کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں ایسے بہت سے اشعار مل جائیں گے جو بیان کی سطح پر سادگی و پرکاری کا بہترین نمونہ ہے:
اتنا کسے دماغ ہے کرتے پھریں حساب
کیا جانے مئے فروش نے کتنا دیا ،لیا
سائل دہلوی نے غزل گوئی کی عام روایت کی پاسداری کرتے ہوئے کلاسیکی مضامین کو اپنے اشعار میں پیش کیا ہے۔سائل دہلوی کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے آفتاب قزلباش لکھتے ہیں:
’’ان کی شاعری میں ان کی شخصیت اور ان کا کیریکٹر کا عکس جھلکتا ہے۔ان کی شاعری واقعیت پر مبنی ہے۔وہ اپنے مشاہدات کو سیدھے سادے پیرائے میں ذکر کرتے ہیں۔اظہار ِبیان میں نرمی،لوچ،تازگی،شگفتگی اور مترنم الفاظ کی روانی پائی جاتی ہے۔سیدھے سادے اور ہلکے پھلکے شعر بہت بے تکان نظم ہوجاتے ہیں۔حالانکہ قدرتِ بیان کا یہ عالم ہے کہ لفظوں کی نشست سے فن کاری اور صناعی کا مظاہرہ ہوتا ہے۔‘‘
(مضمون:سائل دہلوی، آفتاب قزلباش، رسالہ ’ادیب‘ دسمبر ۴۵،جنوری ۱۹۴۶)
آفتاب قزلباش نے سائل کے کلام میں جس لوچ،نرمی،شگفتگی اور مترنم الفاظ کے استعمال کی بات کی ہے وہ حقیقت میں سائل کے کلام میں موجود ہے۔چند اشعار دیکھئے:
تیرے آجانے سے ممکن نہیں تخفیف نہ ہو
دیکھ جا آکے ذرا گر تجھے تکلیف نہ ہو
آپ جس جرم کا چاہیں مجھے مجرم ٹھہرائیں
شرط یہ ہے کہ وہ تصنیف ہو تالیف نہ ہو
سائل دہلوی نے غزل کی عام روایت کی پاسداری کرتے ہوئے کلاسیکی مضامین کو اپنے اشعار میں پیش کیا ہے۔اردو شاعری میں رند،زاہد،میخانہ،شراب وغیرہ کو ایک خاص اہمیت حاصل رہا ہے۔شعرا نے اسے الگ الگ معنوں میں پیش کیا ہے۔سائل کے یہاں بھی رند، میخانہ اور زاہد وغیرہ جیسے استعارے موجود ہیں:
شیخ میخانے میں ہشیار ذرا چلئے گا
منہ کے بل گرتے ہیں جب پیر رپٹ جاتے ہیں
امانت محتسب کے گھر شراب ارغواں رکھ دی
تو یہ سمجھ کہ بنیادِ خراباتِ مغاں رکھ دی
سلوک پیرِ میخانہ کی اے ساقی تلافی کیا
بجز اس کے دعائیں دو اسے پھیلا کے دامن کو
اردو شاعری میں میر،غالب ،ریاض خیر آبادی اور جوش ملیح آبادی وغیرہ نے خمریات کے موضوع کو مقبولیت بخشی ہے۔سائل کے وہ اشعار جن میں رند و سرمستی کا ذکر ملتا ہے ان کو پڑھتے ہوئے غالب کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔واردات میخانہ خواہ حقیقی ہوں کہ مجازی اس قدر دلکش معلوم ہوتے ہیں کہ ان کی عظمت کا صدق دل سے معترف ہونا پڑتا ہے۔اردو شاعری کے رندانہ اشعار ایسے ہیں جن سے زہد و پرہیزگاری کے حقیقی خدو خال اس قدر صاف نظر آتے ہیں کہ زاہد کے معصوم ہونے کے باوجود انہیں گنہگار کہے بغیر کوئی چارہ نہیں۔سائل دہلوی کے یہاں بھی ایسے بہت سے اشعار موجود ہیں جن میں ہنر مندانہ منظر نگاری کی ایسی مثال ملتی ہے جو زاہد کے لیے دشنہائے تیر بن گیا ہے۔
پیر مغان کی طرزِ سخن لاجواب ہے
زاہد کی جب سنوگے وہی روکھی پھیکی بات
یہ پس خوردہ ہے پیرِ میکدہ کا شیخ کہ وہ ہے
تبرک ایک کو سمجھو، دوسرے کو محترم جانو
زاہد کی رہ و رسم سے ہے توبہ کا خطرہ
میخوار سے بہتر نہیں یارانہ کسی کا
جناب شیخ مئے خانہ میں بیٹھے ہیں برہنہ سر
اب ان سے کوئی پوچھے آپ نے پگڑی کہاں رکھ دی
سائل دہلوی کے آخری شعر کو دیکھئے انہوں نے کس طرح میر کی زمین میں شعر کہا ہے۔میر نے کہا تھا:
شیخ جو ہے مسجد میں ننگا رات کو تھا مئے خانے میں
جبہ، خرقہ، ٹوپی کرتا، مستی میں انعام کیا
سائل دہلوی نے میر کی پیروی کرتے ہوئے ایسے مذہبی لوگو ں پر تنقید کی ہے جو مسجد اور مندر میں تو اللہ اور بھگوان کی باتیں اور ان سے ڈر دلاتے ہیں، مگر خود رات کے اندھیرے میں ہر طرح کی برائیوں میں ملوث رہتے ہیں۔اب اسے سماج کا المیہ کہیے یا مذہبی رواداری کا مگر سچ یہی ہے کہ اللہ کا خوف دلانے والے لوگ دراصل مذہب کو اپنی جاگیر سمجھنے لگے ہیں ۔آج جب ہم اپنے گرد و نواح کی حالات کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ جس بات کی طرف اشارہ پہلے میر نے اور بعد میں سائل نے کیا ہے وہ کتنا حقیقت پر مبنی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ سائل دہلوی نے محض زاہد کو اپنے طنز کا حدف بنایا ہو۔سائل کے یہاں ایسے بہت سے اشعار ہیں جن میں رند و سرمستی کی پرکیف فضا کا ذکر ملتا ہے۔سائل نے یہاں اپنے کلاسیکی روایت سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے لیے ایک الگ راہ نکالنے کی بھی کوشش کی ہے۔ (یہ بھی پڑھیں حکیم آغا جان عیش کی غزل گوئی۔ ڈاکٹر نوشاد منظر )
میں اگر شوق سے پیتا تو یہ بے شک تھا گناہ
میرا کیا بس ہے اگر منہ سے لگا دے کوئی
ہوس مستی کی سائل کو نہیں کافی ہے تھوڑی سی
پیالے میں اگر پس خوردۂ پیر مغاں رکھ دی
ہمیشہ پی کے مئے جام و صراحی توڑ دیتا ہوں
نہ میرا دل ترستا ہے، نہ فرق آتا ہے ایماں میں
پینے کی شراب اور، جوانی کی شراب اور
ہشیار کے خواب اور ہیں، مدہوش کے خواب اور
شراب کو موضوع ہماری شاعری میں نیا نہیں ہے ۔سائل دہلوی کا کمال یہ ہے کہ اس نے شراب کی درجہ بندی کرکے اس مضمون کو ایک نئی تازگی بخشی ہے۔یہاں ایک سوال قائم ہوسکتا ہے کہ سائل دہلوی کے نزدیک پینے کی شراب اور جوانی کی شراب سے کیا مراد ہے؟اس شعر میں گرچہ عشق مجازی کا پہلو نمایاں ہے باوجود اس کے اس شعر کے دوسرے مصرعے کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کی تفہیم عشق حقیقی کے معنوں میں کی جاسکتی ہے۔عشق خواہ مجازی ہو یا حقیقی اگر اس میں ڈوبنے اور مدہوشی والی کیفیت موجود نہ ہوں تو وہ عشق کے اس درجہ پر نہیں پہنچ سکتا جہاں معراج ہوتا ہے۔اقبال نے بھی اپنے من میں ڈوب کر کامیابی حاصل کرنے پر زور دیا تھا۔سائل دہلوی کے یہاں بھی وہی کیفیت موجود ہے۔
سائل دہلوی کا تعلق ایک رئیس گھرانے سے تھا مگر ان کے مزاج میں ایک قسم کی انکساری تھی لہذا جہاں جہاں مقطع میں انہوں نے اپنا تخلص ’سائل‘ استعمال کیا ہے وہاں ان کے ذاتی تجربے نے لطف پیدا کردیا ہے۔چند اشعار دیکھئے:
سائل سوال کر کے ، نہ کھونا تم آبرو
دنیا میں ایک چیز ہے بس آدمی کی بات
سائل مجھ کو کہتے ہیں شاد میں اس سے ہوتا ہوں
دنیا مجھ پر ہنستی ہے، دنیا پر میں ہنستا ہوں
در پہ بتوں کے دی صدا سائل بے نوا نے
فضل خدا رہے مدام حالِ گدا نواز پر
بن گئے سائل تو کیا شانِ امارت مٹ گئی
دیکھنے والے نہیں کھاتے ہیں دھوکہ نام سے
ہوس مستی کی سائل کو نہیں کافی ہے تھوڑی سی
پیالے میں اگر پس خوردۂ پیرمغاں رکھ دی
نام سائل ہے مگر چشم طمع سے اس نے
کبھی دیکھی ہی نہیں صاحب زر کی صورت
سائل سمجھ کے تم نہ حقارت سے دیکھنا
نواب پانچ پشت سے اس کا خطاب ہے
ان تمام اشعارکا مطالعہ کرتے ہوئے مومن کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔مومن نے بھی اپنے تخلص کو جس خوبصورتی سے اپنے کلام میں پیش کیا تھا اس سے معنی کی نئی پرتیں کھلیں تھیں سائل کے کلام میں بھی وہ پرتیں کئی سطح پر کھلتی ہیں ،سائل نے اپنے اشعار میں سائل کا ٹکڑا استعمال کرکے شعر ک ایک نئی جہت سے روشناس کرایا ہے۔۔سائل کو لفظی ترجمہ سوال کرنے والا ہوتا ہے۔مگر سائل نے اس لفظ کا استعمال کرکے شعر کو خوبصورت بنادیا ہے۔
سا ئل دہلوی کا تعلق دلی اسکول سے تھا اس وجہ سے ان کی زبان میں دلی کی شیرینی اور مٹھاس موجود ہے ۔سائل دہلوی کو اپنی زبان پر بڑا ناز تھا خود ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’میں اپنے معاصرین میں درجۂ امتیاز نہیں رکھتا۔میرے ذوق ادب نے میرے اس شغل کو جاری رکھا جس سے جلب منفعت یا ہوائے شہرت کا کچھ تعلق نہیں۔ میرا کلام ایسے محاسن سے معرا ہے جو شاعری میں ہونے چاہیں۔اپنے شوق کو میں نے اپنے اہل وطن اور مادری زبان تک محدود رکھا ہے۔میرے کلام میں وہ خوبیاں نہیں جو میرے ہم عصروں کو خدا نے عطا فرمائی ہیں۔نہ میں نے ان کی تحصیل میں جدوجہد کی نہ فصیح و بلیغ ہونے کا مجھے دعویٰ! دلی کی بولتا ہوں اور بس!۔‘‘
(بحوالہ: مضمون سائل دہلوی از آفتاب قزلباش،ادیب،دسمبر۴۵ جنوری ۴۶)
سائل دہلوی نے اپنے اشعار کے ذریعے بھی اپنی زبان دانی پر فخر جتایا ہے۔
نسبتِ داغ سے دلّی کی زباں سے سائل
شاعری کا تری دنیا میں بھرم ہے تو سہی
سائل دہلوی کے لیے سب سے افضل ان کی زبان دانی ہی تھی۔مالک رام نقوش نمبر میں سائل دہلوی کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے سائل کی زبان کے متعلق لکھتے ہیں:
ان کی زبان کی تعریف کرنا تحصیل حاصل ہے ان کے خاندان کی زبان ہمیشہ مستند اور ٹکسالی سمجھی گئی ہے اگر اردوئے معلی کا لطف لینا ہو تو سائل کا کلام دیکھئے باوجود داغ کا شاگرد ہونے کے انہوں نے داغ کی حیدرآبادی شاعری کا تتبع نہیں کیا۔‘‘
(مالک رام،نقوش شخصیات نمبر)
ایک اور اقتباس دیکھئے جس سے سائل دہلوی اور دلی کی روز مرہ زبان کے گہرے تعلق کا پتا چلتا ہے۔ رسالہ آجکل میں میں نہال سیو ہاروی کا ایک مضمون شائع ہوا تھا جس کا عنوان ’’ سائل اور ان کی شاعری‘‘ تھا۔نہال سیو ہاروی سائل دہلوی کی زبان کے متعلق لکھتے ہیں
’’صحت زبان کا حضرتِ سائل کو اتنا ہی خیال تھا جس قدر کہ ایک استاز کامل کو ہونا چاہیے۔مگر وہ روز مرّہ کو صرف اس لیے کہ اس کی اشعار میں زیادہ سے زیادہ کھپت ہو،کبھی استعمال نہ کرتے تھے جہاں استاد کے یہاں کچھ ایسے بھی اشعار ملتے ہیں جو چغلی کھاتے ہیں کہ ہم محاورات کو محفوظ کرنے کے لیے کہے گئے۔‘‘
(سائل اور ان کی شاعری۔نہال سیو ہاروی، رسالہ آجکل،۱۵ دسمبر ۱۹۴۵)
اردو شاعری میں تصوف کی عام روایت کا ذکر تقریبا ہر شاعر کی یہاں نظر آتا ہے کسی کے یہاں کم ، کسی کے یہاں زیادہ۔مجموعی طور پر میر درد کو تصوف کا سب سے بڑا شاعر تسلیم کیا جاتا ہے حالانکہ غالب کے یہاں بھی بہت سے اشعار ہیں جن میں تصوف کو نئے پیرائے میں پیش کرنے کو کوشش کی گئی ہے۔غالب کا یہ شعر دیکھئے
آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیش نظر ہے آئینہ دائم نقاب کا
سائل کے کلام میں بھی تصوف کا رنگ نظرآتا ہے۔سائل نے غالب سے ملتے جلتے انداز میں کیا خوب کہا ہے کہ
وہ آشوب تجلی ہنس رہا ہے گو پسِ پردہ
مگر عکسِ تبسم آپڑا ہے سارا چلمن پر
سائل دہلوی کے کلام میںکیفیات کے اشعار بہت ملتے ہیں۔ اور اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ سائل دہلوی نے مشاعروں کے ذریعے اپنے احساسات و جذبات کو پیش کیا۔سائل دہلوی کے یہاں ایسے بہت سے اشعار موجود ہیں جن میں قاری کو اپنے احساسات کی ترجمانی کو احساس ملتا ہے۔
ستا کر مجھ کو اتنا، تو خجل ہے کس قدر دیکھا
پریشانی مری، تیری پشیمانی نہیں جاتی
ہمیشہ خونِ دل رویا ہوں لیکن سلیقے سے
نہ قطرہ آستین پر ہے نہ دھبہ جیب و دامن پر
وہ تم سے کم نہ تم فلکِ فتنہ ساز سے
نکلے ہوئے ہو دونوں حد امتیاز سے
ادھر پر نوچ کر ڈالا قفس میں اُف رے بیدردی
ادھر اک جلتی چنگاری میانِ آشیاں رکھ دی
سائل دہلوی کی ایک خوبی یہ ہے کہ انہوں نے مشاعروں میں غزل کو مترنم آواز میں پڑھنے کی طرح ڈالی۔سائل دہلوی نے مشاعروں میں ہی اپنا کلام سنایا۔نہال سیوہاروی لکھتے ہیں:
’’ان(سائل دہلوی)کے زمانۂ شاعری سے پیشتر نظم و غزل کو ترنم سے مشاعروں اور دیگر ادی مجلسوں میں پڑھنے کا دستور نہ تھا مگر ان کی خوش الحانی یہاں تک ہندوستان گیر ہوئی کہ ترنم اس مللک کے ایک گوشہ سے دوسرے گوشے تک مقبول و مرغوب ہوا۔‘‘
(سائل اور ان کی شاعری۔نہال سیو ہاروی، رسالہ آجکل،۱۵ دسمبر ۱۹۴۵)
سائل دہلوی کا اصل موضوع حسن و عشق ہی ہے جسے وہ اپنے فنکارانہ صلاحیتوں سے ایک نئے رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔نہال سیوہاروی کے اس اقتباس کی روشنی میں ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ سائل دہلو ی نے مشاعروں میں ایک خوبصورت اضافہ کیا ہے۔آج مشاعروں میں پڑھے جانے والے بیشتر کلام کو سامعین کا بڑا طبقہ اس لیے بھی پسند کرتا ہے کہ اس میں شاعر کی خوبصورت آواز شامل ہوجاتی ہے۔سائل دہلوی نے اپنی غزل میں حسن و عشق اور محبوب کے ناز وادا کو ہی اپنی غزل کا موضوع بنایا۔
سائل دہلوی نے ہر موضوع پر ہزاروں اشعار کہے مگر افسوس کہ ان کے کلام کوئی بھی مجموعہ ابھی تک منظر عام پر نہیں آیا ہے۔سائل دہلوی کے اشعار کی تعداد کے متعلق لکھتے ہیں۔
’’انہوں (سائل ) نے ریاستی وظیفوں کے لیے ایجنٹ اور گورنر جنرل تک محضر پہنچائے،مگر کبھی کسی رئیس کے آگے سر نہ جھکایا عشق کیا،شطرنج کھیلی،شکار کھیلا،بلیرڈ کے چمپئن رہے۔دو لاکھ شعر کہے اور کسی کو برا نہیں کہا،کسی کے لیے برا نہ سنا اور وضع کے پابند رہے۔‘‘
(رسالہ آجکل، اکتوبر ۱۹۸۳)
۔۔۔۔۔۔کے اس اقتباس سے سائل کی شخصیت کے پہلو واضح ہوتے ہیں۔اب ذرا غور کیجئے ایک شخص جس نے کم و بیش دو لاکھ کے قریب اشعار کہے ہوں آج وہ ہمارے ذہنوں سے مخفی کیوں ہیں؟یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ سائل کو قارئین کیوں نہیں ملے،حالانکہ سائل کو اپنے زمانے میں بڑی مقبولیت حاصل تھی۔اصل وجہ تو تب ہی معلوم ہوگی جب سائل کا پورا یا بیشتر کلام مل جائے کیونکہ چند غزلوں کو بنیاد بنا کر کچھ رائے قائم کرنا غیر دیانت داری ہوگی۔مگر اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ناقدین کے بڑے حلقے نے سائل کو نظر انداز کیا ہے۔سائل دہلوی کے شعری سرمایے کا جائزہ لیتے ہوئے اسعد بدایونی لکھتے ہیں:
’’سائل کی شاعری کو ان کے دور کی آواز کہنا بجا ہوگا کہ اس زمانے میں جس قسم کی شاعری کا مذاق تھا انہوں نے بھی اسی طرح لکھا اور وقتی واہ واہ سے دامن بھرا۔وہ ایسے شاعروں میں نہ تھے جو زمانے کی آواز ملانے کے بجائے خود اپنی آواز میں اظہار کرتے ہیں۔البتہ ان کے اشعار کو صفائی زبان اور محاوروں کے برجستہ استعمال کی مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔‘‘
(اسعد بدایونی، داغ کے اہم تلامذہ، علی گڑھ ۱۹۸۶)
سائل کے جو کلام آسانی سے ہمیں مل جاتے ہیں ان کی روشنی میں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ سائل دہلوی نے غزل کے روایت کو استحکام بخشنے کی کوشش کی ہے۔وہ اس میں کتنا کامیاب ہوئے یہ بتانا اس وقت تک جلد بازی ہوگی جب تک کہ ان کا پورا شعری سرمایہ سامنے نہ آجائے۔
٭٭٭
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |