تنقیدی تصورات ،خواہ مشرق کے ہوں یامغرب کے ،میری دلچسپی کامحوررہے ہیں۔ ان تصورات کوتقریباً سوسال کے عرصے میں اُردو کے نمائندہ نقادوںنے جس طرح تنقیدی معیاراور پیمانہ بنانے کاعمل جاری رکھاہے، ان کومختلف جہات سے دیکھنا، پرکھنا اورکھرے کھوٹے کی تفریق کرنا میرامحبوب مشغلہ رہاہے۔ تاہم کوئی تنقیدی رویّہ میرے لیے اس وقت تک قابلِ قبول نہیں بن پایا، جب تک شعری متن کے براہِ راست مطالعہ نے اس کی توثیق نہ کردی ہو، چنانچہ میرے لیے تنقیدنگارکامنصب بنیادی طورپر ایک ایسے باذوق قاری کامنصب ہے ،جو شاعرانہ تدبیرکاری سے باخبرہونے کے باوجود شاعری کی بھرپور تفہیم، تحسین اورجمالیاتی قدرکے تعین کے عمل سے سب سے پہلے گزرنا چاہتاہے، اس موقع پر مجھے اس تنقیدی طریق کارسے بے اطمینانی ظاہرکرنے میں کوئی تکلف نہیں ،جس کا تعلق محض تنقیدی نظریات کے انطباق سے ہوتاہے، یا جس میں شعری متن سے حاصل ہونے والی توثیق سے ماوراہوکر صرف تنقیدی پیمانوں کی کھتونی سے سروکار رکھاجاتاہے۔
شعری متن کے تعین قدرمیں جوتنقیدی نظریات میرے لیے معاون ثابت ہوئے ہیں، میں نے ان کااعتراف بھی کیاہے اور مناسب مقامات پر ان کے حوالے بھی دیے ہیں۔ لیکن اکثر ایساہوا ہے کہ میرایہ ذہنی سفرتنقیدی اصطلاحات سے شروع نہ ہوکر تفہیم شعرسے شروع ہونے والاتھا۔ میری بیش ترتنقیدی رائیں متن کی متنوع قرأت کے بعد مناسب اورموزوں تنقیدی تصورات سے اس کی ہم آہنگی کی صورت میں بنی اور بگڑی ہیں۔ اس لیے مجھے یہ کہنے میں ذرابھی باک نہیں کہ زیرِنظر مضامین گہرے مطالعہ اور غورو خوض کانتیجہ ہیں۔ شایدیہی سبب ہے کہ میں ادب پارے کے مطالعے کے عمل میں بعض ایسے تنقیدی پیمانوں کی تلاش وجستجو کی طرف بھی متوجہ ہواہوں جن کااستعمال یااحساس رائج تنقیدی منظرنامے میں دیکھنے کونہیں ملتا۔ امیرخسروؔ اور غالبؔ کی غزل سے متعلق مضامین میں موجودزاویۂ نظرسے اس مفروضے کی تصدیق زیادہ مناسب ہوگی۔ (یہ بھی پڑھیں اردو شاعری کی کلاسیکی شعریات – پروفیسر ابو الکلام قاسمی )
مجھے اس بات کااحساس شدّت سے ہوتاہے کہ گذشتہ نصف صدی کی اُردو تنقید میں کسی نہ کسی مخصوص اسلوبِ شعر کوشاعرانہ بڑائی اورعظمت کاماڈل قراردیناعام تنقیدی طریق کاررہاہے۔ میں اس طریق کارکوادبی اورشعری اظہار کی ہمہ گیری کے منافی، تنقیدی کوتاہ اندیشی اوردوسرے شعری اسالیب کی تحقیر کانام دیناچاہتاہوں۔ اس لیے کہ ایک وقت اورایک زمانے میں شاعری کے ایک سے زیادہ اسالیب بڑی شاعری کے امکانات کے ضامن ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری شعری روایت میں تہہ دار اور بالواسطہ اسلوب کے متوازی ،بیانیہ اوربظاہر اکہرے اسلوب کی نمائندگی کرنے والی، اعلیٰ درجے کی شاعری کے نمونے بھی ملتے ہیں۔ اُردوتنقید کاعلاقہ چونکہ شروع سے ہی غزل کی صنف کے استحکام اور غزل سے مخصوص ایجازاوراستعاراتی اورعلامتی اظہار کے تعیّن قدر سے رہا، اس لیے اسی تنقیدی ماڈل کو مختلف اصناف شعر پریکساں اندازمیں برتنے کی کوشش جاری رہی ۔ شاعرانہ عظمت کی پرکھ کے اس نشے میں ہم نے یہ سوچنے کی تکلیف بھی گوارہ نہ کی کہ مرثیہ، مثنوی، شہرآشوب یااس نوع کے دوسرے شعری بیانیہ کے لیے شعریات یاتنقیدی اصولوں کو ازسرنومرتّب کرنے کی کیا، اورکتنی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں رہی سہی کسرنئی امریکی، اورہیئتی اصول نقدکی دبازت ،ابہام کے تصوراور’بالواسطہ اظہار‘ کی غیرمعمولی اہمیت نے پوری کردی اور ان پیمانوں کوبھی بلاامتیاز ہرصنف شاعری پر آزمانے کاسلسلہ جاری رہا۔ یہ اندازسوائے تن آسانی اورعصبیت کے اور کچھ نہیں کہ اپنی سہولت کی خاطر ہم خود کو تنقیدکے محض اپنے پسندیدہ ماڈل تک محدودرکھیں اوربڑی شاعری کے دوسرے امکانات کی تفہیم اورنظریہ سازی سے دامن بچاکر اپنی تنقیدی عصبیت کومزیدمستحکم کرنے کاثبوت پیش کرتے رہیں۔
یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر
اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |