عریانی کا تصور بڑی حد تک اضافی ہے۔ ایک بات جو کسی خاص سماج کے ایک خاص فرد کو عریاں معلوم ہوتی ہو، ممکن ہے دوسری سماج کے فرد کو عریاں نہ معلوم ہو۔ یہ چیز حالات و واقعات کے تقاضوں سے پیدا ہوتی ہے۔ اور اسے حالات و واقعات کے پس منظر ہی میں دیکھنا چاہیے۔ مثال کے طور پر یہ دیکھیے کہ مغربی عورتیں، جس طرح کا لباس پہنتی ہیں اور جس انداز سے بازاروں میں اٹکھیلیاں کرتی ہوئی چلتی ہیں، ہم اس کو ان کی بے حیائی پر محمول کرتے ہیں اور ان کی اس عریانی کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے۔ حالانکہ ان کی سماج کے افراد کے لیے یہ کوئی ایسی معیوب باتیں نہیں۔ ہم لوگ جب ان عورتوں کو اپنے جسم کی نمائش، اپنی بانہوں کا چمپئی رنگ، اپنے غازہ آلود چہرے کی چمک دمک اور سینے کے ابھار کو نمایاں کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ تو ان کو ذرا احساس بھی نہیں ہوتا۔ اور نہ اس سماج کے نوجوانوں پر وہ بے قراری کی سی کیفیت طاری ہوتی ہے، جس کا شکار ہندوستانی نوجوان، ان عورتوں کو پہلی ہی نظر میں دیکھ کر ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ ہندوستانی سماج میں ایسے مناظر دیکھنے میں نہیں آتے۔ اس لیے یہاں کے نوجوانوں میں جنسی تشنگی کا احساس، سارے جسم کی رگ رگ اور ریشے ریشے میں ایک سیمابی کیفیت پیدا کردیتا ہے۔۔۔ یہ تو خیر مشرق و مغرب کا تقابل تھا۔ آپ ہندوستان ہی کے مختلف خطوں کو دیکھیے! شمالی ہندوستان میں جس بات، جس طریقے اور جس انداز کو عریانی سمجھا جاتا ہے، اس کو گجرات، وسط ہند اور جنوبی ہند کے اکثر قبیلوں میں معیوب نہیں سمجھتے۔ گجرات میں عوریں جس طرح نیم عریاں لباس پہنتی ہیں اس کو شمالی ہند والے اچھا نہیں خیال کرتے۔۔۔ گونڈ اور بھیل قوموں کے یہاں جو عورتوں کا لباس ہے، اس کو شمالی ہند کی کوئی عورت تحسین کی نظروں سے نہیں دیکھتی۔ کیونکہ اس میں ایک طرف تو ان کا جسم عریاں ہوجاتا ہے۔ اور دوسری طرف ان کے سارے خدوخال نمایاں نظر آتے ہیں۔ ان کے علاوہ بعض قبیلے ایسے بھی ہیں جن کے یہاں نوجوان لڑکیاں اپنے پستانوں کو کسی چیز سے پوشیدہ نہیں کرتیں۔ وہ اسی طرح نمایاں رہتے ہیں۔ اور ان کے یہاں اس کو معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا۔۔۔ یہی حال بعض خاص حالات و کیفیات کے بیان کا ہے۔ کہ کسی خاص دور میں اگر بعض خاص حالات کی تصویریں کھینچنی معیوب سمجھی جاتی ہیں، تو دوسرے دور میں ان کو برا نہیں سمجھا جاتا۔ وہ لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں، جو اس زمانے کے لوگ نہیں ہوتے۔ بلکہ ’’اگلے وقتوں کے لوگ‘‘ ہوتے ہیں۔ اور جو زمانے کی بدلتی ہوئی کروٹوں اور حالات و واقعات کے تیوروں کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ لیکن وہ لوگ جو ذہنی حیثیت سے آگے بڑھ چکے ہوتے ہیں، ان چیزوں کو اس طرح پیش کرتے ہیں جیسے ان کے نزدیک ان کے بیان میں کوئی معیوب بات نہیں۔!
جنسیات اور اس سے متعلق مختلف حالات و کیفیات کے بیان ہی کے ساتھ عریانی کا تصور وابستہ ہے۔ جہاں کہیں بھی جنسی پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ یا اس کے متعلق کوئی بات کہی جاتی ہے۔ تو لوگ اس کو عریاں سمجھتے ہیں۔ حالانکہ دنیا میں ہمیشہ یہ خیالات یکساں نہیں رہے۔ یعنی جنسیات کے متعلق تصورات قریب قریب ہر دور میں بدلا کئے ہیں۔ ایک زمانے میں اگر اس کی مختلف کیفیات کے بیان کو معیوب مانا گیا ہے، تو دوسرے دور میں وہ کھلم کھلا بغیر کسی جھجک کے پیش کیے گئے ہیں۔۔۔ صدیاں گزریں، جب انسان اس دنیا میں بالکل نووارد تھا۔ تو جنسی تعلقات کو وہ ایسا گناہ خیال نہیں کرتا تھا، جیسا کہ ہم آج خیال کرتے ہیں۔ برخلاف اس کے جنسی فعل اس کے نزدیک ایک بڑی مقدس اور اہم بات تھی۔۔۔ اور سینکڑوں مثالیں تو ایسی ملتی ہیں، جب جنسی اعضاء، ان کی پرستش اور ان سے متعلق مختلف کیفیات کومذہبی رنگ دے دیا گیا تھا۔ بریفالٹ نے اپنے ایک مقالے ’’مذہب اور جنسیات‘‘ میں ان خیالات کا اظہار کیا ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب، کسی نہ کسی صورت میں جنسی مظاہرات سے وابستہ رہے ہیں۔ اگلے زمانے کے لوگ ایک لمحے کے لیے بھی اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ مذہب اور جنسی معاملات میں کوئی تعلق نہیں۔ دنیا میں مختلف مقامات پر یہ دونوں چیزیں ایک سنگم پر ملتی ہیں۔ جاپان، ہندوستان، نیوگنی، پولینیشیا، یونان اور روم وغیرہ میں اکثر جگہ یہ تصورات ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔ بریفالٹ لکھتا ہے کہ اس زمانے سے لے کر جب انسان وحشی اور جنگی جانوروں کی طرح شکار کرتا پھرتا تھا۔ اس وقت تک جب اس نے کھیتی باڑی کرکے اپنا پیٹ پالنا شروع کیا، اس کے یہاں ایسے رقص و سرود کا رواج عام تھاجو جنسی ہیجان پیدا کرتے تھے۔ اور جو جنسی فعل کی ایک تمثیل تھے۔۔۔ اور پھر دور تک وہ اس حقیقت کو پھیلاکر بیان کرتا ہے کہ عہد قدیم میں جو ممالک سب سے زیادہ تہذیب یافتہ خیال کیے جاتے تھے۔ ان سب کے یہاں ہمیں جنسیات اور مذہب ایک دوسرے سے گلے ملتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مصر، بابل، یونان، روم، ایشیائے کوچک اور بحر روم کے آس پاس کی قدیم تہذیبوں میں جنسیات کی پرستش کو دخل تھا۔۔۔ بات یہ تھی کہ وہ جنسی فعل کو ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھتے تھے۔ اس تصور نے ان کے ذہنوں میں تقدس کا رنگ دے دیا تھا۔ اس لیے جنسیات، اور جنسی فعل سے متعلق گناہ کا تصور ان کے یہاں دور تک نظر نہیں آتا۔ عہد قدیم میں ہمیں ناگ کی پرستش کا ذکر اکثر جگہ ملتا ہے۔ اور جنسیات پر بہت سے لکھنے والے اس بات پر متفق ہیں کہ وہ جنسی فعل اور جنسی عضو کی ایک تمثیل ہے۔ ہندوستان میں شیوجی اور پاربتی کے تعلقات کی کہانیاں، اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ عورت اور مرد اور ان کے جنسی فعل کو کسی طرح بھی الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اور نہ اس کے چھپانے سے کچھ حاصل ہے۔ عہدمسیح سے قبل اکثر ممالک میں ایسے دیوتاؤں کا ذکر ملتا ہے جن کا تعلق جنسیات سے ہے۔ اور عوام جن کی پرستش بھی کرتے تھے۔ روم میں جنس کا دیوتا Priapus کہلاتا تھا۔ روم میں پامپئی Pompeei کے ویران شہر کی دیواروں پر ایسی تصویریں ملتی ہیں، جن میں اس دیوتا کو قربانی دینے کا منظر پیش کیا گیا ہے۔ وسطی امریکہ میں اس بات کے متعدد ثبوت ملتے ہیں کہ وہاں کسی زمانے میں جنسی اعضاء مقدس و متبرک خیال کیے جاتے تھے۔ یہودیوں تک کے یہاں بعض ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ وہ جنسی اعضاء کو تقدس کی نظروں سے دیکھتے تھے۔۔۔ غرض یہ کہ جنس اور جنسی اعضا کی پرستش قدیم مذاہب میں عام تھی۔ شرم یا گناہ کے تصور کو اس میں دخل نہ تھا۔ اور اس سماج کے افراد اپنی ان حرکات کو اسی تقدس کی نظروں سے دیکھتے تھے جیسے آج کے مذہبی لوگ اپنی مختلف حرکات کو دیکھتے ہیں۔ قدیم مصر کے مندروں میں بھی جنسی قربانیوں کا رواج عام رہا۔۔۔ چنانچہ ایفروڈائٹ کے لیے جو سب سے بڑی قربانی عورتوں کی طرف سے پیش کی جاتی تھی وہ یہ تھی کہ وہ اس کے نام پر اپنی عصمت و عفت کو وہاں کے پجاریوں کے حوالے کردیتی تھیں اور وہاں کے پجاریوں نے اس چیز کو اپنی جنسی خواہشات کی تسکین کا ذریعہ بنالیا تھا۔ ان تمام باتوں سے۔۔۔ یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ جنس کے معاملات ایک زمانے میں مذہبیات سے وابستہ رہے۔ اور ان کو کسی طرح بھی معیوب نہیں سمجھا گیا۔ برخلاف اس کے ان کی اہمیت کے پیش نظر انسان نے ان کی پرستش کرنی شروع کردی۔
لیکن جیسا کہ دنیا میں اور بہت سی باتوں کا ردعمل ہوتا ہے، ان خیالات کا بھی ہوا۔ یہ خیالات اور یہ رسومات بھی بہت دنوں تک ایک طرح پر نہ چل سکیں۔ وجہ یہ تھی کہ پہلے اس سلسلے میں مکاری، دغابازی وار جعلسازی کا دخل نہ تھا۔ برخلاف اس کے ان کو برتنے میں ایک کی سادگی اور معصومیت کارفرما تھی۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ مسخ ہوتی چلی گئیں۔۔۔ اور بہت سے لوگوں نے ان کو اپنی وحشیانہ خواہشات کی تسکین اور عیش پرستی کا ذریعہ بنالیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ عیاشی کا خیال اس میں گھرکرتا گیا۔ جس کی زیادتی ساری سماج کے لیے مضرثابت ہونے لگی۔ پہلی صدی عیسوی تک آتے آتے یہ رسومات بہت کافی مسخ ہوچکی تھیں۔ اور اگرچہ ان کا رواج اب بھی عام تھا۔ لیکن اب بہت سے لوگوں نے ان کو بری نظروں سے دیکھنا شروع کردیا۔ چنانچہ شروع شروع میں عیسائی مذہب کے پادریوں نے ان کی روک تھام میں بڑا حصہ لیا۔ لیکن ان کا تدارک کرنے میں وہ بھی انتہا پسند ہوگئے۔ چنانچہ عیسائی مذہب کے قبل جتنے مذاہب بھی عام تھے۔ وہ سب ان کے نزدیک غیرمقدس ٹھہرے۔ جنسی افعال کو ان مذاہب میں برا نہیں خیال کیا جاتا تھا۔ اس لیے عیسائی پادریوں کی نظروں میں یہ چیز بھی غیرمقدس قرار پائی اور انہوں نے اس کو گناہ قرار دے دیا۔ ردعمل کے طور پر ان کے اطوار انتہا پسندانہ ہوگئے۔ انہوں نے اپنے علاوہ ہرمذہب کو غیرمقدس اور اسی کے ساتھ ساتھ جنسی فعل اور جنسی تعلقات کی اہمیت کو غلط اور اس کے ارتکاب کو شرم آگیں بتایا، جو ان مذاہب میں عام طور پر رائج تھے۔ چنانچہ تمام عیسائی لکھنے والوں کی تصانیف ان خیالات سے پر نظر آنے لگیں۔ کہ جنسی فعل یا جنسیات کی مختلف کیفیات کا بیان گناہ ہے۔ عورت کا جسم مرد کے لیے لعنت ہے، اور عورت مرد کو گمراہ کرتی ہے۔ ان کی اس قسم کی تحریروں کو فرائڈ کے نظریے کی روشنی میں دیکھاجائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اس کی روک تھام میں ان کی اس جنسی بھوک کو تھوڑا سا سکون مل جاتا تھا۔ جوان لوگوں میں عام تھی۔ بہرحال اس تحریک نے جنسیات کے سلسلے میں مختلف جگہ Taboos قائم کیے۔ اور جو آج تک اسی طرح موجود ہیں۔ لیکن وہ فطری نہیں بلکہ خود ہماری سماج کے بنائے ہوئے ہیں۔
جنسیات کا موضوع چونکہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس لیے ہر انسان اس میں دلچسپی لیتا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ بعض سماجی بندھنوں کے باعث، وہ اس کے متعلق زیادہ کہنے سننے پر آمادہ نہ ہو۔ لیکن ایسے سماج کے افراد بھی تنہائی میں اس قسم کی کتابیں پڑھنے میں لطف لیتے ہیں، جن میں جنسی باتوں کا تذکرہ ہوتا ہے۔ چونکہ انسانی دل و دماغ دونوں پر یہ جذبہ سب سے زیادہ حکومت کرتا ہے۔ اس لیے اس کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنی ہر انسان کے لیے ضروری ہیں۔ وہ لوگ جس اس کے متعلق کچھ کہنے یا سننے کو معیوب سمجھتے ہیں، دوسروں کو ایک فریب دینا چاہتے ہیں۔ اور خود تنہائی میں اس سے لطف لیتے ہیں۔ H۔R۔L۔Shefperd نے Som of My Relgion میں لکھا ہے کہ بعض سماجی مذمومات ایسے ہوتے ہیں جن کے متعلق بات چیت کرنی زیادہ خوشگوار نہیں معلوم ہوتی۔ لیکن ان کے فراموش کردینے کو بھی جی نہیں چاہتا۔ جس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اس موضوع پر سوچنا اور غور کرنا اور اس سے دلچسپی لینا، انسانی فطرت میں داخل ہے، خواہ سماجی احتسابات اس کو کتنا ہی مذموم قرار دے دیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر زمانے میں ہر ملک اور ہر قوم کے لوگوں نے اس سے دلچسپی لی۔۔۔ کہیں چھپ کر اور کہیں کھلم کھلا۔۔۔! جنسی تعلقات کی اہمیت کے پیش نظر بعض جگہ جنسی تعلیم کی اہمیت کو بھی محسوس کیا گیا۔ چنانچہ بعض وحشی اقوام کے یہاں آج بھی جنسی تعلیم کارواج ملتا ہے۔ اور ہم حیران رہ جاتے ہیں جب ڈاکٹر میلینوسکی اور مس مارگرٹ میڈ ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ بہت سی وحشی اقوام مذہبی رسومات کے پردے میں جنتی تعلیم دیتی تھیں اور آج بھی دیتی ہیں۔ پلوٹارک لائی کرگس کی سوانح حیات میں ظاہر کیا ہے کہ نوجوانوں کو شادی کی طرف راغب کرنے اور جنسی حیثیت سے صحت مند بنانے کے لیے رقص کو کس قدر دخل ہے۔۔۔ وہ بعض ایسی رسومات کا تذکرہ کرتا ہے جس میں عورتیں اور مرد سربازار برہنہ نکلتے تھے۔ اور ان حرکات سے ان میں شادی اور محبت کے جذبات استوار ہوجاتے تھے۔
ان تمام باتوں سے اس امر کاپتہ چلتا ہے کہ سماج کے جنسی احتسابات قابل ستائش نہیں۔۔۔ اور نہ وہ ایسے فطری ہیں کہ بس ان میں ترمیم کی ہی نہیں جاسکتی۔۔۔ تاریخ بتاتی ہے کہ وہ ہر دور میں بدلا کیے ہیں۔ ایک زمانہ میں جنسی افعال اور جنسی اعضا کی پرستش کی جاتی تھی۔ پھر ایک دور وہ آیا جب عیسائیوں کے شروع زمانے میں اس پر خوب لعن طعن ہوئی۔ اور اس فعل کو مذموم قرار دیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جنسی فعل اور عورت کاجسم انسان کے لیے لعنت قرار پایا۔ جب سینٹ پال کے منہ سے یہ جملہ نکلتا ہے کہ عورت کے جسم کو چھونا ہی انسان کے لیے اچھا ہے، تو ہماری حیرت کی انتہا نہیں رہتی۔ لیکن یہ دور بھی ہمیشہ قائم نہ رہ سکا۔ اس کے بعد ایک زمانہ وہ آیا جب عیسائی پادریوں نے عورتوں کے ساتھ افلاطونی انداز۔۔۔ میں رہنا شروع کیا۔ جس میں جنسی تعلقات پیدا کرنے کی ممانعت تھی۔ لیکن اسی زمانے میں زیادہ پادری بدچلنی کے الزام میں دھرے گئے۔ اور پھر آخر میں خانقاہوں کا رواج ہوا۔ جس میں راہب عورتیں اور مرد ایک ساتھ رہتے تھے۔ عورت اور مرد کا ایک ساتھ رہنا اور ان میں جنسی تعلقات کا پیدا نہ ہونا ناممکن ہے۔ چنانچہ یہاں بھی یہی ہواکہ ان لوگوں کی حرکتوں نے کلیسا کو بدنام کیا۔۔۔ ہاں تو جنسی احتسابات ہی انسان کی بدچلنی کا باعث ہوتے ہیں۔ اگر انسان کھلم کھلا، بالکل فطری انداز میں زندگی بسر کرے تو یہ بات پیدانہیں ہوسکتی۔ انہیں خیالات کے پیش نظر اکثر ان مروجہ احتسابات کے نظریوں کے خلاف بغاوتیں ہوتی رہیں۔۔۔ چنانچہ جنس کے معاملے میں کلیسا کے خلاف سب سے پہلا باغی انگریزی شاعر بلیک تھا۔ جس نے اٹھارہویں صدی عیسوی کے آخر میں کلیسا کے احتسابات کی دل کھول کر مخالفت کی۔ اس نے بتایا کہ جنسی فعل جو دنیا میں سب سے زیادہ حسین اور خوشگوار فعل ہے۔۔۔ اس کو خواہ مخواہ مذہب نے جرم قرار دے دیا ہے۔ اور پھر انیسویں اور بیسویں صدی تک آتے آتے۔ فلسفیوں، سائنسدانوں اور ادیبوں نے جنسی احتسابات کے خلاف ایک اچھا خاصا محاذ قائم کردیا۔ سکشول رفارم کانگریس نے اس چیز کو ہوا دی، جس میں دنیا کے بڑے بڑے دماغ شامل تھے۔
جنسیات کے متعلق ان نظریات کا مدوجزر ہمیں ادب اور آرٹ میں بھی ملتا ہے۔ دنیا کے کسی ملک کا کوئی ادب اور آرٹ ایسا نہیں جس میں جنسیات اور اس سے متعلق حالات و کیفیات کا بیان موجود نہ ہو۔ چنانچہ بعضوں کا تو یہ خیال ہے کہ اگر جنسیات کے مختلف نظریوں، اس کی تاریخ، اور اس کے دھارے کے ا تار چڑھاؤ کو جس دور میں بھی دیکھنا ہو، تو اس کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ اس وقت کے ادب اور آرٹ کا مطالعہ و تجزیہ کیا جائے۔ اور یہ صحیح بھی ہے۔ اب مختلف ممالک کے مختلف زمانوں کے ادبیات کو دیکھیے! آپ کو اس میں جنسیات کے متعلق انہیں نظریوں کی تصویریں بے نقاب نظر آئیں گی، جو ان دنوں عام تھے۔ دنیا میں شاید سب سے پہلی ادبی تخلیق وہی ہوئی ہوگی جس میں جنسی تعلقات اور اس کی مختلف کیفیتوں کا تذکرہ ہوگا۔۔۔ وحشی اور غیرمہذب انسان پر جنسی فعل اور اس کے کیف نے اس قدر اثر کیا ہوگا کہ وہ اس کے متعلق بے ساختہ بہترین انداز میں کچھ نہ کچھ کہنے کے لیے مجبور ہوگیا ہوگا۔ ایسے گیت کہے گئے ہوں گے جن میں جنسی معاملات اور کیف کا تذکرہ ہوگا۔۔۔ یہ تو خیر اس وقت کی بات ہے۔ جس کی بنیادیں صرف قیاس ہی پر قائم ہیں۔ لیکن اس کے بعد جب ہمیں ادبی تاریخ کی کڑیاں ملنے لگتی ہیں، تب بھی ہمیں قدم قدم پر ہر صنف ادب میں اسی بنیادی انسانی جذبے کااثر کار فرما نظر آتا ہے۔ ادب میں پرانی داستانوں کو دیکھیے، ان سب میں آپ کو عورت کا بیان ضرور ملے گا۔ اس کے مختلف اعضا کا تذکرہ ضرور ہوگا۔ اس کی ہستی جس کیف کا باعث بنتی ہے، اس کی مختلف تصویریں ضرور نظر آئیں گی۔ ہر ملک کی دیومالا میں جو چیز سب سے زیادہ ہماری توجہ اپنی طرف مبذول کرتی ہے، وہ اسی چیز کا بیان ہے۔ حالانکہ دیومالا میں تقدس کا عنصرسب سے زیادہ موجود رہتا ہے۔۔۔ پرانی تہذیبوں میں ہندوستان، چین، یونان، روم، مصر و بابل وغیرہ خاص طور پر قابل غور ہیں۔ ان مقامات کے رہنے والوں کی نظروں میں جو ان کے شاہکار ہیں اور جو اب کلاسکس کا مرتبہ حاصل کرچکے ہیں، وہ جنسیات کی مختلف کیفیات کے بیان سے خالی نہیں۔ ان سب میں ہم عورت کو دیکھتے ہیں۔ اور اس کی ہستی میں قدرت نے جن سرور و سرخوشی کی دنیاؤں کو سمودیا ہے ان کا بیان بھی پاتے ہیں۔ کالی داس، والمیکی، ہومر، لی پو، ٹوخو کے زمانوں سے لے کر گیٹے، شلر، شیکسپئر اور اس کے بھی صدیوں بعد تک دیکھ جائیے۔ آپ کو ان میں ہر ایک کے یہاں ایسی باتیں ملتی ہیں ہیں، جن کے باعث بڑی حدتک ان کی تخلیقوں میں جگہ جگہ عریانی پیدا ہوجاتی ہے۔
اردو شاعری بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہوسکتی۔ اس میں بھی قریب قریب ہر دور میں اس چیز کی فراوانی رہی ہے۔ غزل جو ساری اردو شاعری کا ایک بہت بڑا سرمایہ ہے، اس کے معنی ہی عورتوں کے متعلق باتیں کرنے کے ہیں۔ چنانچہ ہر دور کی غزلیات میں ایسے اشعار ملتے ہیں جو عریاں ہیں اور جن میں کھل کر شاعروں نے جنسی باتوں کا تذکرہ کیا ہے۔ عورت اور اس کے ایک ایک عضو کا تذکرہ وہ سب کے سب بغیر کسی جھجک کے کرتے ہیں۔ معاملہ بندی ان میں سے بہتوں کا خاص موضوع ہے۔ عورت اور مرد کے تعلقات میں جو کیفیات ایک دوسرے پر طاری ہوتی ہیں، وہ ان کو بھی مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں۔ جنسی فعل سے قبل جو حالت طاری ہوتی ہے وہ اس کا تذکرہ کرتے ہوئے بھی شرماتے نہیں۔۔۔ غرض جنسیات سے متعلق کون سی کیفیت ہے جس کا بیان ان کے یہاں موجود نہیں۔۔۔ آج جس کو عریانی کہا جاتا ہے۔ اس پر کسی زمانے میں مشاعرہ گاہوں کی چھتیں اڑ جاتی تھیں۔۔۔ یہ تو خیر فطری باتوں کا بیان ہے لیکن غزل گو شاعروں کے یہاں ایسی غیر فطری باتوں کا تذکرہ بھی ملتا ہے جہاں جنسی حیثیت سے وہ ابنارمل نظر آتے ہیں۔ مثلاً ہمارے قدیم شاعروں میں اکثر کے یہاں امروپرستی کا ذکر موجود ہے۔ وہ لطف لے لے کر لڑکوں کے حسن کا بیان کرتے ہیں اور ان کے فراق میں ان کے اوپر جو بے قراری کی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ اس کی تصویر بھی کھینچتے ہیں۔ اور بعض تو ایسے بے دھڑک ہیں کہ وہ ان کا نام تک لینے سے باز نہیں رہتے۔ چنانچہ غزل کی شاعری پر ایک زمانے میں یہ زبردست اعتراض تھا جو ایک حدتک آج بھی کیا جاتا ہے کہ اس میں اکثر جگہ ان حالات کا بیان موجود ہے جو انسان کے لیے قابل ستائش نہیں۔۔۔ لیکن بہرحال قدیم اردو شاعری میں یہ چیز موجود ہے۔ جو اب کسی طرح بھی مٹائی نہیں جاسکتی۔۔۔!
تصوف قدیم شاعری کا ایک اہم موضوع ہے اور فارسی شاعری کے ساتھ ساتھ اردو شاعری میں بھی اس کا پلہ اچھا خاصا بھاری ہے۔ تصوف کا خیال ہمیں خدا کی طرف لے جاتا ہے۔ دنیاوی معاملات اور خصوصاً جنسی رنگ کا اس میں شائبہ تک نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن قدیم شاعری میں تصوف کے متعلق جو کچھ بھی کہا گیا ہے۔۔۔، جہاں کہیں بھی اس کے اسرار و رموز کھولے گئے ہیں، وہاں جنسی رنگ جھلکتا ہے۔۔۔ ہمارے شاعروں نے تصوف کے تحت حقیقت اور معرفت پر جو کچھ بھی لکھا ہے، وہ سب کا سب مجازی رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ اور اگر کوئی ایسا شخص جو ان کی اشاریت سے واقف نہ ہو۔ ان کو دنیاوی اشعار کے علاوہ ایسے اشعار نہیں سمجھ سکتا جن میں دنیاوی معاملات سے الگ ہوکر کوئی بات کہی گئی ہو۔ ان میں بھی معشوق کے حسن کا تذکرہ ہوتا ہے۔ کہیں اس کے عارض کا بیان ہوتا ہے۔ کہیں اس کے چشم و ابرد کی تعریف ہوتی ہے۔ کہیں اس کے سرد ایسے قد کی تصویر بنائی جاتی ہے۔ کہیں اس کے عشوہ خانہ دادا کا ذکر ہوتا ہے۔ لیکن ان تمام باتوں سے یہ لوگ مراد اور کچھ لیتے ہیں۔۔۔ اور بڑے سے بڑا اللہ والا ان پر جھومتا ہے۔ مثال کے طور پر حافظ کی شاعری کو دیکھیے جس کو آج متصوفانہ شاعری میں ایک خاص مرتبہ حاصل ہے۔ لیکن اس کے یہاں اکثر جگہ ان کیفیات کا ذکر ملتا ہے، جن کا تمام تر تعلق جنسیات سے ہے۔ بھلا بتائیے جب وہ اس قسم کا شعر کہے،
مے دود سالہ و معشوقِ چاردہ سالہ
ہمیں بس است مراصحبت صغیر و کبیر
تو کوئی کیا سمجھے۔ آخر اس خیال کو تصوف کا رنگ کیسے دیا جاسکتا ہے۔۔۔؟ یہی نہیں بلکہ ایسے بیسویں اشعار حافظ کے دیوان میں ملتے ہیں۔۔۔ ایک حافظ ہی پر کیا منحصر ہے۔ اردو اور فارسی کے قریب قریب ہر صوفی شاعر کا یہی حال ہے۔ ان میں سے اکثر کے اشعار فحشیات کی حدتک پہنچ جاتے ہیں۔ حالانکہ ان میں تذکرہ کیا جاتا ہے تصوف کے رازہائے سربستہ کا۔! متصوفین کے یہاں اس چیز کا زور ہونے کی وجہ یہ ہے کہ گوشہ نشینی اور تجرد کی زندگی بسر کرنے کے باعث، ان میں سے اکثر جنسی بھوک کے شکار تھے۔ وہ خانقاہوں میں رہنے کے عادی تھے۔ اس لیے ان کی تجرد کی زندگی نے اس فطری جذبے کو دبادیا۔ جس کے باعث وہ حقیقت کے متعلق بھی اپنے خیالات کو ان پیرایوں میں بیان کرنے کے لیے مجبور ہوگئے۔۔۔ او ر خوب کھل کھیلے۔ اردو شاعروں میں ولی، سراج، میر، میراژ، میردرد، مظہر جانجاناں، تصوف میں بہت اچھے کہنے والے خیال کیے جاتے ہیں۔ لیکن ان سب کے متصوف اشعار میں (میردرد کوچھوڑکر) جنسی رنگ کی جھلک موجود ہے۔ لیکن یہ کوئی عجیب بات نہیں۔ جنسی دباؤ انسان سے عجیب عجیب باتیں کراتا ہے۔ ایک ذرا اردو شاعری اور تصوف کو چھوڑ کر فرانس کے اس زمانے کو دیکھیے! جب وہاں کی عورتیں حضرت عیسیٰ کے متعلق اس قسم کے گیت گاتی تھیں،
Praise to Jesus, Praise his power,
Praise his sweet allurements!
Praise to Jesus, when His goodness
Reduces me to wickedness،
Praise to Jesus when he say to me۔
‘My sister, my dove my beautiful one,
Praise to Jesus in all my stops,
Praise to his amorous cherms!
Praise to Jesus, when His mouth
Touches mine in a Loving Kiss!
Praise to Jesus when his gentle Caresses
Over whelm me with chaste joys!
Praise to Jesus when at my Leisure
He allows me to kiss him۔
اگرچہ یہ نظم حضرت عیسیٰ سے ایک عقیدت کا اظہار کرتی ہے۔ لیکن اس میں شروع سے آخرتک جنسی رنگ جھلکتا ہے۔ اور یہ نتیجہ ہے اس جنسی بھوک کا جو فرانس کے اندر ایک خاص دور میں رہبانیت نے پیدا کردی تھی۔ زندگی کی یہ ایک عام حقیقت ہے کہ جو چیز زیادہ سے زیادہ دبائی جاتی ہے، وہ اسی قدر ابھرتی ہے۔ یہی حال جنسی جذبے کا ہے کہ جس قدر بھی اس کو دبانے کی کوشش کی جائے گی وہ ابھرے گا۔ اور دوسرے راستوں سے اپنے آپ کو ظاہر کرے گا۔۔۔ متصوفانہ شاعروں میں جو جنسی رنگ موجود ہے، اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ شعراء اخلاقی بندھنوں اور ذہنی جکڑبندیوں کے باعث کھل کر اپنی جنسی کیفیات کا بیان نہ کرسکے۔۔۔ اس لیے ان کی عارفانہ باتیں بھی جنسی رنگ میں رنگ گئیں اور بعض تو فحشیات کی حدتک پہنچ گئیں۔ میں جب میر اثر کی مثنوی ’’خواب وخیال‘‘ کو دیکھتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں کہ کیسے وہ یہ سب کچھ لکھ گئے۔ حالانکہ بڑے اللہ والے، صوفی اور حضرت میر درد کے مرید اور شاگرد تھے۔۔۔ لیکن بہرحال وہ بھی انسان تھے۔ ان کی بھی فطری خواہشات تھیں جو دب کر ابھریں اور ان کا اثر ’’خواب و خیال‘‘ کی صورت میں نمایاں ہوا۔ اور جس سے ان کو ذہنی سکون بھی ملا۔
اس جذبے کا اظہار بھی سماجی ماحول کا پابند ہے۔ اور اس کی مختلف کیفیات کے بیان کو بھی ہمیں سماجی ماحول کے پس منظر ہی میں دیکھنا چاہیے جب زمانہ بدلتا ہے۔ تو یہ خیالات بھی کروٹ لیتے ہیں۔ اور وقت اور حالات کے تقاضوں سے شاعری میں بھی اس کی صورتیں بدلاکرتی ہیں۔ خود انسانی زندگی اپنے سماجی ماحول کی پابند ہوتی ہے، اور انسان اپنی حرکات و سکنات کو سماجی نظریوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے مجبور ہوجاتا ہے۔ شاعری چونکہ سماج اور ماحول کا عکس ہوتی ہے اس لیے اس میں ان مختلف نظریوں کا بے نقاب ہونا بھی ضروری ہے۔ چنانچہ ہر ملک کے مختلف زمانوں میں جنسی کیفیات کے بیان کے متعلق مختلف نظریے ملتے ہیں۔ اگر ایک زمانے کے شعر و ادب میں ان کیفیات کے بیان کو سماج معیوب نہیں سمجھتا تو دوسرے دور میں اس پر سخت احتساب کرتا ہے۔ ایسے دور میں شاعر ایسی باتوں کے بیان میں کسی قسم کی جھجک محسوس نہیں کرتے۔ وہ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں، دل کھول کر کہتے ہیں۔ اور چونکہ ان کی آواز وقت کی آواز ہوتی ہے اس لیے وہ کسی کے روکے رک بھی نہیں سکتی۔ دنیا بھرکی شاعری میں ان کی مثالیں ملتی ہیں۔ جب سماج رنگین ہوتی ہے۔ اور تعیش کی دیوی ہر خاص و عام پر حکومت کرتی ہے۔ تو اس زمانے کی شاعری میں بھی وہی رنگ جھلکتا ہے۔ عیش پرستی، کا عنصر اس میں قدم قدم پر بے نقاب نظر آتا ہے۔ ایسے دور میں شعراء عورت اور شراب کا تذکرہ کرتے ہیں۔ حسن و عشق اور اس کی مختلف کیفیات کا ذکر تو ایسے ماحول میں نہیں ہوتا لیکن ہاں عورت کے جسم کی تعریف اور اس کی ہستی جس کیف کا باعث بنتی ہے، اس کا بیان ضرور ہوتا ہے۔ جس کے باعث اس میں اکثر جگہ عریانی پیدا ہوجاتی ہے۔ لیکن اس سماج کے افراد اس کو عریاں نہیں سمجھتے۔ کیونکہ وہ شب و روز اسی دنیا میں بسیرا لیتے ہیں۔ وہ اسی ماحول میں سانس لینے کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں۔ ہر ملک کی شاعری میں ایسے دور گزر چکے ہیں اور گزرتے رہتے ہیں۔ لیکن فرانس کی شاعری میں اس کی سب سے زیادہ فراوانی نظر آتی ہے۔ وہاں کے شاعر کھلم کھلا عورت کے ان اعضا کا ذکر کرتے ہیں۔ جن سے جنسی تحریک پیدا ہوتی ہے۔ اور پھر وہ ایسی ایسی باتیں کہتے چلے جاتے ہیں جس کو ہندوستان والے تو شایدذرا بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ وہ کہیں اس کے پستانوں اور ان کے ابھار کا ذکر کرتے ہیں۔ تو کہیں اس کو عریاں ہوجانے کا درس دیتے ہیں Theophile-gautur کی ایک نظم ہے۔۔۔ The Rose Cloured Gown جس میں اس نے انہیں تمام باتوں کو پیش کیا ہے۔ وہ کہیں ایک عورت کے پستانوں کو Twin-irory Gobes سے تعبیر کرتا ہے اور کہیں یہ کہتا ہے کہ اگرچہ اس کی گاؤن اس کے جسم پر بہت اچھی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن پھر بھی نازیبا ہے کیونکہ وہ حقیقتوں کو چھپائے ہوئے ہے۔۔۔ اور میری نظروں کو دیکھنے کے لیے بے قرار ہے۔ اس لیے تو اپنے اس لباس کو اتار کرپھینک دے کیونکہ حقیقتوں کے اظہار میں بلاکی شیرینی اور مٹھاس ہوتی ہے۔۔۔ ایک گائیٹرہی پر منحصر نہیں، فرانس کے اکثر شاعروں کا یہی حال ہے۔ اور اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ انہوں نے ایسے سماج کے آغوش میں پرورش پائی، جو حددرجہ رنگین تھا۔ اورجس میں ان کو ایسی باتیں کرتے ہوئے جھجک محسوس نہیں ہوتی تھی۔۔۔ اور نہ صرف فرانس بلکہ دوسرے ممالک میں بھی اس طرح کے دور آئے اور اب بھی آتے رہتے ہیں۔
اردو شاعری میں بھی ایک ایسا دور آیا تھا۔ جب اس نے ایسی باتوں کو بڑے زور و شور کے ساتھ اپنے دامن میں جگہ دی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب لکھنؤ میں اودھ کی سلطنت اپنے شباب پر تھی۔ اور یہاں کے نوابوں کی رنگین محفلوں اور تعیش پسندیوں کے شہرے دور دور پھیل گئے تھے۔۔۔ ان دنوں یہاں کی سماج کو سوائے جنسیات اور اس کے متعلقات کے اور کوئی بات سوجھتی ہی نہ تھی۔۔۔ سوجھتی کیسے۔۔۔؟ زندگی ایک نئے موڑ پر آچکی تھی۔ اب یہاں رنگینیاں راج کرتی تھیں۔ اگرچہ صنف نازک کو آزادی اب بھی نصیب نہیں ہوئی تھی لیکن اس کا بدل اس طرح ہوگیا تھا کہ شاہد ان بازاری سے محلے کے محلے آباد تھے۔ اور ان دنوں کے سماج میں ان کو ایک خاص مرتبہ حاصل تھا۔ شریف سے شریف اور بڑے سے بڑے گھرانے ان سے ربط و ضوابط قائم کرنے میں ذرا بھی نہ جھجکتے تھے۔ خود مائیں اپنے نوجوان لڑکوں کے لیے اس کے انتظامات کرتی تھیں۔ ان تمام باتوں کا نتیجہ وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔۔۔ یعنی ان دنوں کے ادب اور شاعری میں بھی وہی رنگ جھلکنے لگا۔ چنانچہ اس زمانے کے قریب قریب ہر غزل گو شاعر کا معشوق بازاری معشوق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ اس کے اوپری رنگ و روغن کی تعریف زیادہ کرتے ہیں۔ اور اس کے ظاہری حسن اور جوبن کی قصیدہ خوانی میں زمین آسمان کے قلابے ملادیتے ہیں۔ لیکن عشق کی داخلی کیفیات، جن کا تمام تر تعلق دل سے ہے۔ ان کے یہاں نظر نہیں آتیں۔ اور بعض جگہ تو ان کی یہ جنسی ہیجان پسندی ان سے ایسی ایسی باتیں کہلاتی ہے کہ ہم سن کر حیران رہ جاتے ہیں۔ اور سوچنے لگتے ہیں کہ کیا یہی اس زمانے کی تہذیب تھی؟ کیا تہذیب کے علمبردار ایسے ہی ہوتے ہیں۔؟ اس زمانے کا برے سے بڑا شاعر حتی کہ آتشؔ تک اس سے نہیں بچ سکا۔ اس کی شاعری میں بڑی سنبھلی ہوئی کیفیت ہونے کے باوجود ایک ایسا رنگ ملتا ہے، جس کو وہ اس سماجی ماحول میں سانس لینے کے باعث پیش کرنے کے لیے مجبور تھا۔ جب آتش تک اس سے دامن نہ بچا سکا تو پھر چھوٹے شاعروں کا تو خیر کہنا ہی کیا۔؟ ان کے بیان میں عریانی لطافت کے ساتھ ہوتی تو قابل اعتراض نہ تھی لیکن وہ تو اس قدر آگے بڑھے ہوئے ہیں کہ ان میں سے اکثر کی شاعری ابتذال کی حد تک پہنچ گئی ہے۔ جب وہ اس طرح کے اشعار کہتے ہیں ؎
اے پری تو نے جو پہنی ہے سنہری انگیا
آج آتی ہے نظر سونے کی چڑیا مجھ کو
ناسخؔ
بوسہ بازی سے مری ہوتی ہے ایذا ان کو
منہ چھپاتے ہیں جو ہوتے ہیں مہاسے پیدا
آتشؔ
دوست کو لے کر بغل میں رات بھر سوتا ہوں میں
رشک ہے دشمن کو میرے طابع بیدار پر
آتشؔ
وصل کی شب دل کے خوش کرنے کا ساماں کیجیے
خود بھی عریاں ہوجئے ان کو بھی عریاں کیجیے
آتشؔ
اٹھ گئے ساقین جاناں سے جو شب کو پائنچے
اک دو شاخ نور کا محفل میں روشن ہوگیا
امانتؔ
ہاتھ میں انگیا کی چڑیا آگئی
آج ہم طائر کو لائے دام میں
ناسخؔ
کسی کے محرمِ آبِ رواں کی یاد آئی
حباب کے جو برابر کبھی حباب آیا
آتشؔ
تو ان کو پڑھ کر ہماری طبیعت متعفن ہوجاتی ہے۔ لیکن بہرحال وہ ایک خاص دور اور ایک خاص سماج کی پیداوار ہیں۔ اس لیے ان کو مطعون نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ان شاعروں میں کوئی ایسی بڑی ادبی شخصیت کا مالک نہ تھا جو اس دلدل کو پار کرجاتا لیکن اس میں صرف اس زمانے کی رنگین سماج ہی کو دخل نہ تھا بلکہ اقتصادی اور معاشی حالات بھی اس کے بہت کچھ ذمہ دار تھے۔ اس زمانے کے شاعر بھی اپنے ماحول سے متاثر ہو رہے تھے۔ انہیں اگر شعوری طور پر احساس نہ تھا۔ لیکن غیرشعوری طور پر وہ یہ ضرور جانتے تھے کہ ان کی سلطنت کی بنیادیں ریت پر قائم ہیں۔ انہیں معلوم تھا کہ مرہٹے اور انگریز اپنی طاقتیں روز بروز بڑھاتے جارہے ہیں۔ وہ تو نبردآزمائی میں مشغول ہیں، لیکن ان کے یہاں قلعوں کی جگہ راج محلوں نے لے لی ہے۔ انہیں ان تمام بندھنوں کا احساس بھی تھا جن میں وہ بری طرح جکڑے ہوئے تھے۔ ان میں اتنی سکت نہ تھی کہ وہ حالات پر قابو پالیتے۔ کیونکہ اندرونی حالات اس قدر بد سے بدتر ہوچکے تھے کہ ان کا علاج کسی طرح بھی ممکن نہ تھا۔ ذاتی بغض و عناد، مکاریاں، جعلسازیاں، یہ ساری چیزیں سلطنت کے رگ و ریشے میں سرایت کرچکی تھیں۔ ان حالات نے ان کو زندگی سے فرار اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ چنانچہ ان کی شاعری میں بھی ایک فراری کیفیت ہے۔ وہ زندگی سے دور بھاگے اور انہوں نے پناہ لی صنفِ نازک کے کیف ہم آغوشی میں! وہ کھوگئے شراب ناب کی لہروں کے سرور میں!۔۔۔ انہوں نے بسیرا لیا رنگینیوں اور عنائیوں کے جھرمٹ میں۔۔۔! جہاں پہنچ کر ان کی انتہا پسندی نے، ان کی شاعری کی حدیں ابتذال سے ملادیں۔ اسی لیے آج ان کی شاعری ہمیں بری بھدی اور خراب معلوم ہوتی ہے۔ لیکن ان دنوں لوگ انہیں شعروں کو پسند کرتے تھے جن کو آج ہم تنہائی میں بھی دہراتے ہوئے شرماتے ہیں۔ اس زمانہ میں معاملہ بندی، اور جنسی تحریک پیدا کرنے والے اعضا کا تذکرہ اگر شاعری میں نہ ہوتا تو وہ روکھی پھیکی سمجھی جاتی۔ یہ بھی زمانے کی بلہاری تھی۔۔۔!
برخلاف اس کے میرؔ و سوداؔ کے زمانے کی شاعری کو دیکھیے!۔۔۔ ان سب کے یہاں بھی جنسیات کا تذکرہ ہے لیکن ایسی عریانی نہیں جو آتشؔ اور ناسخؔ اور دوسرے لکھنوی شعراء کے یہاں موجود ہے۔ میرؔ و سوداؔ اور دلی اسکول کے دوسرے شعراء کے یہاں حسن و عشق کا ایک بلند تصور ملتا ہے۔ وہ داخلی کیفیات کا بیان زیادہ کرتے ہیں۔ ان کے یہاں ظاہری حسن اور خارجی کیفیات کابیان نہیں، جس کی وجہ سے ایسی زیادہ عریانی بھی پیدا نہیں ہوتی۔ یہ سب بھی ایک خاص سماج کی پیداوار ہے۔ میرؔ و سوداؔ نے جس زمانے میں سانس لی، اس میں صنف نازک پر پابندیاں کچھ زیادہ عائد تھیں۔ وہ مکانوں کے زندانوں میں اس وقت بھی مقید تھیں۔ شاہدان بازاری کی بھی وہ فراوانی تھی جو آگے چل کر لکھنؤ میں ہوئی۔ اسی وجہ سے ہمیں ان سب کے یہاں جنسی بھوک کاپتہ چلتا ہے۔ جس میں ایک سلگنے والی کیفیت ہے۔ آزادی اور بغاوت کا تصور بھی پیدا ہی نہیں ہوا تھا کہ وہ اپنے ماحول سے بغاوت کرکے کچھ ایسی باتیں کرتے جو اگرچہ عریاں ہوتیں۔ لیکن ذہنی حیثیت سے ان کو تھوڑا بہت سکون بخش دیتیں۔ البتہ ان حالات کا ایک نتیجہ یہ ضرور ہوا کہ امرد پرستی کا ذکر شاعری میں بھی ہونے لگا۔ اور میرا ذاتی خیال تو یہ ہے کہ یہ چیز صرف ایران کی تقلید ہی پر مبنی نہ تھی۔ بلکہ حالات و واقعات کا تقاضا تھی۔ اس سماج میں امرد پرستی کا رواج ضرور تھا۔۔۔ ہر چند آج اس کو کوئی چھپانے کی کوشش کرے، لیکن جب بھی کوئی ذرا گہری نظر سے دیکھے گا کہ ایسا تھا اور ضرور تھا۔ چنانچہ اس دور کا شاید ہی کوئی شاعر (میر دردکو چھوڑ کر جن کی میرے دل میں بڑی عزت ہے اور جن کی شاعری کو میں سوائے متصوفانہ شاعری کے اور کسی قسم کی شاعری نہیں سمجھتا۔) ایساہوا ہو جس نے امرد پرستی کا تذکرہ اپنی شاعری میں نہ کیا ہو۔۔۔ اور چونکہ ان کے دیوانوں میں کھلم کھلا ایسے اشعار ملتے ہیں اس لئے یہ بھی محسوس ہوتاہے کہ اس زمانہ میں اس پر احتساب بھی اتنا سخت نہ تھا۔ مشاعروں میں کھلم کھلا ان موضوعات پر اشعار پڑھے جاتے تھے۔ اور سننے والوں کو ان پر وجد ا آجاتاتھا۔۔۔ ان کے یہاں فراری کیفیت بھی نظر نہیں آتی۔ کیونکہ باوجود سپر ڈال دینے کے وہ ابھی میدان کارزار میں مصروف جنگ تھے۔ ان کے پیچھے شاندار روایات تھیں جو انہیں آگے کی طرف دھکیل رہی تھیں۔ وہ اگرچہ شکست کھاچکے تھے۔ اور ان کی حکومت صحیح معنی میں لال قلعے ہی تک محدود تھی۔ لیکن اس کے باوجود وہ سمجھتے تھے کہ اتنی بڑی اور شاندار حکومت کا تختہ آسانی سے نہیں اُلٹ سکتا۔ اس لیے ان کی شاعری میں ایک حدتک سینہ سپری کا سا انداز بھی نظر آتا ہے۔ جن کی تہ میں ایسی کراہوں کی آوازیں موجود ہیں جو زخموں سے چور ہوجانے کے بعد دکھے ہوئے دلوں سے نکلتی ہیں۔ یہ سب بھی وقت اور ماحول کے ادنےٰکرشمے تھے۔
یہ تو خیر اس زمانے کے ان شاعروں کا ذکر تھا جو ذرا اونچے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن اسی زمانے میں آگرے کی سرزمین پر ہمیں ایک ایسا شاعر ملتا ہے جو ان سب سے الگ ہے۔ اس کی شاعری میں ہمیں بالکل ایک نیا رنگ نظر آتا ہے۔ وہ عوام کا ترجمان ہے۔ اس کی شاعری میں زندگی ہے اس میں حقیقتوں کا بیان ہے۔ اس میں تکلف اور تصنع کو مطلق دخل نہیں۔ وہ ایک ایسا انسان تھا جو ہر خاص و عام سے ملتا تھا۔ اس لیے اس کی شاعری میں بھی انہیں حالات و کیفیات کے مرقعے موجود ہیں۔ اور اس نے ان کی زندگی کے صرف کسی ایک پہلو پر قلم نہیں اٹھایا ہے۔ بلکہ سارے مسائل کو اپنی شاعری میں سمودیا ہے۔ چنانچہ اس کے یہاں عورتوں کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ ان کے جسم کے ایک ایک عضو اور عشوۂ وناز و ادا کی تصویریں بھی موجود ہیں۔ وہ جنسی جذبے اور اس کے مختلف حالات و کیفیات کا تذکرہ بھی کرتا ہے۔۔۔ اور ان سب باتوں کو پیش کرتے وقت وہ کہیں بھی حقیقت نگاری کو ہاتھ سے نہیں دیتا۔ اس نے عشق کیا ہے۔ لیکن ایسا عشق نہیں جس میں صرف شبِ ہجر کی تلخیاں ہی سہنی پڑتی ہیں۔ اور مجنوں بن کر صحراؤں اور بیابانوں کی خاک چھاننی جس کی پہلی منزل ہے۔ اس کے عشق میں سب سے زیادہ جو چیز نمایاں نظر آتی ہے، وہ اس کا جنسی پہلو ہے۔ اس کا معشوق بازاری معشوق ہے، جس کے یہاں جاکر وہ جب بھی چاہے، اپنی پیاس بجھاسکتاہے۔ وہ اندھیری رات میں فرقت کے جانسوز لمحے نہیں کاٹتا۔ بلکہ راستے میں جاتے ہوئے اس کا معشوق مل جاتا ہے اور اس کی دلی مراد برآتی ہے۔ ان تمام چیزوں کے بیان میں بھی عریانی کو دخل ہے لیکن چونکہ حقیقتوں کا بیان ہے، اس لیے آج ہماس کی قدر کرتے ہیں۔ حالانکہ اس کے زمانے میں اس کی وہ قدر نہ ہوسکی۔ جو اس کے دوسرے ہمعصروں کی ہوئی۔ شیفتہؔ تک نے اس کو شاعر نہیں مانا۔۔۔ بات یہ تھی کہ اس نے اپنی دنیا اونچے طبقے سے علیحدہ بنائی تھی۔ اور وہ ایک عامی انسان کی طرح زندگی بسر کرتا تھا۔ اسی وجہ سے عامی انسانوں کی ذہنی کیفیات اور ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی تصویریں، اس کی شاعری میں بھی ملتی ہیں۔ وہ جنسی جذبات کا تذکرہ جس انداز سے کرتا ہے، وہ بھی ایک حد تک حامی ہے، لیکن اس میں حقیقت نگاری کا عنصر موجود ہے۔ اس کی تصویریں جیتی جاگتی اور چلتی پھرتی معلوم ہوتی ہیں۔ اور وہ پیداوار میں اس سیاسی، سماجی اور معاشی ماحول کی جس میں اس نے سانس لی۔ یہ شاعر تھانظیر اکبرآبادی۔۔۔!
پھر عذر کے زمانے کو دیکھیے! جب آزادؔ و حالیؔ ایک انقلاب کاپیغام دے رہے تھے۔ جب سارا ہندوستان اپنا چولا بدل دینے کا متمنی تھا۔ ان کی تحریکوں میں میں رفارم کی کوشش سب سے زیادہ نظر آتی ہے۔ وہ ہندوستان کے گیسوؤں کو سنوارنے کے خواہشمند تھے جوحقیقتاً ان دنوں منت پذیر شانہ تھے۔ ادب ہی پر کیا منحصر ہے، ان دنوں تو زندگی کے ہر شعبے میں رفارم کی ایک لہر سی دوڑی ہوئی تھی۔ سیاسی اعتبار سے بھی ہندوستان اب رفارم چاہتا تھا۔ کیونکہ میدان کارزار میں تو اس نے سپر ڈال دی تھی۔ اور اب اس کے پاس سوائے اس کے اور کوئی چارہ کار نہیں رہا تھا۔ کہ وہ بیرونی حاکموں کے زیرسایہ اپنی حالت کو زیادہ سے زیادہ سدھارنے کی کوشش کرے۔ چنانچہ سرسید احمد خاں کی سیاسی تحریکیں وجود میں آئیں۔۔۔ ادب میں بھی یہی ہوا کہ اس کے اندر جو خرابیاں ایک انتشاری ماحول نے پیدا کردی تھی، ان کو زیادہ سے زیادہ دور کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایسی حالت میں کوئی ایسی بات جنسیات سے متعلق پیش نہیں کی جاسکتی تھی۔ جس میں عریانی کو دخل ہو اور جو عوام میں کوئی فراری کیفیت پیدا کرے۔ اسی وجہ سے حالی کے یہاں جو اس زمانے کا نمائندہ شاعر ہے، حسن و عشق کا بیان تو ملتا ہے۔ لیکن لطیف انداز میں۔۔۔!۔۔۔ ایک سنبھلی ہوئی کیفیت کے ساتھ، جس میں سادگی کو سب سے زیادہ دخل ہے۔ چنانچہ حالی نے ان چیزوں کو سراہا نہیں، جو اکثر شعرا نے اب تک روا رکھی تھیں۔ یعنی اس نے عریاں شاعری کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھا۔ اس کے یہاں مولوی اور شاعر کی شخصیتیں ایک جگہ ملتی ہیں۔ اور وہ ہمارے ادب میں ایک بڑی قابل قدر ہستی ہیں۔ لیکن اس گروپ کو چھوڑ کر ذرا دیکھیے کہ قریب قریب اسی زمانے میں داغؔ اور امیرمینائیؔ بھی اپنی اپنی محفلیں جمائے ہوئے ہیں۔ اور وہ اپنی شاعری میں جن خیالات کو سمو رہے ہیں۔ وہ حالیؔ سے بالکل مختلف ہیں۔ داغؔ کے یہاں جنسی کیفیات کا تذکرہ بہت زیادہ ہے اور اس کی تقلید میں امیرؔمینائی بھی اسی رنگ میں رنگ گئے ہیں۔ داغؔ تو خیر اسی دنیا کا انسان تھا۔ اور اس نے ان تمام حقیقتوں کا بیان کیا جو ہر انسان کے دم کے ساتھ وابستہ ہیں۔ لیکن امیرؔمینائی نے باوجود ایک اللہ والے، صوفی ہونے کے ایسی باتیں کہیں جو بعض جگہ داغ کو بھی مات کردیتی ہیں۔۔۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک ہی دور میں ہمیں یہ دورنگی نظر آتی ہے۔۔۔؟ بات یہ ہے کہ ان دونوں حلقوں کے شاعروں نے اپنی اپنی افتاد طبع کے مطابق، اپنے سماجی ماحول سے ا ثر قبول کیا۔ ایک کا شعور چونکہ زیادہ بیدار تھا۔ اس میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت زیادہ تھیں۔ اس لیے اس نے زندگی سے فرار اختیار نہیں کیا۔ دوسرے نے دماغ کے بجائے دل سے زیادہ کام لیا۔ چنانچہ زندگی کی حقیقتوں سے بھاگ کر وہ رومان کی دنیا میں بسیرا لینے لگے۔ زمانہ جس انتشار سے ہم آغوش تھا۔ انہوں نے اس کو فراموش کردینا چاہا۔۔۔ رنگینیوں اور رعنائیوں کے بیان میں کھوکر!۔۔۔ یہ ساری کیفیت بھی سماجی اور معاشی ماحول کا تقاضا تھی۔
اس کے بعد جنگ عظیم اور اس کے آس پاس کا زمانہ شروع ہوتا ہے۔ جب ہندوستان میں مغربی تعلیم کارواج اچھی طرح ہوگیا۔ اور یہاں کے لوگوں نے زندگی کے ہر شعبے میں مغرب کا اثر قبول کرنا شروع کیا۔ ادب بھی اس سے بچ نہ سکا۔ چنانچہ جنگ عظیم کے بعد کی اردو شاعری مغربی شاعری سے بہت زیادہ متاثر نظر آتی ہے۔ لیکن اس زمانے میں اس رومان کا رنگ غالب ہے جوشیلے، کپٹیس اور بائرن کا حصہ ہے۔ اقبالؔ کو چھوڑ کر، جس کی شاعری سوائے تفکر کے اور کچھ نہیں، اس زمانے کے سارے شاعر رومان کی رنگین شاہراہوں پر چلتے نظر آتے ہیں۔ اور جوشؔ ان سب میں آگے ہے۔ چنانچہ اس زمانے میں وہ کہیں پجارن کے متلق نظم لکھتا ہے، کہیں ’’جنگل کی شہزادی‘‘ کی تصویر کھینچتا ہے۔ اور کہیں ’’مہترانی‘‘ یا ’’جامن والیوں‘‘ کا تذکرہ کرتا ہے۔ اور اگرچہ ان سب میں بھی رومانی عنصر غالب ہے۔ لیکن حقیقت کا بھی فقدان نہیں۔ وہ جامن والیوں کے حسن کی تعریف ہی نہیں کرتا۔ بلکہ آخر میں ایک حقیقت کا اظہار بھی کر دیتا ہے۔ اور وہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے باعث ان فصلوں میں اکثر اس کی رسوائی ہوچکی ہے،
جوش یہ کافر مناظر ہوش میں رکھتے نہیں
آہ ان فصلوں میں اکثر اپنی رسوائی ہوئی
(جامن والیاں)
یہ بھی زندگی کی ایک عام حقیقت ہے۔ اور جنس کا ایک پہلو جس کے بیان کو گناہ نہیں کہا جاسکتا۔ کیونکہ اس قسم کے واقعات کا ظہور پذیر ہونا کوئی ایسی بات نہیں جس پر تعجب کیا جائے۔ نوجوانوں کی دنیا میں ایسی باتیں آئے دن ہوتی رہتی ہیں۔ پھر اگر لطیف انداز میں ان کا بیان کردیا جائے توایسی کون سی بری بات ہے۔۔۔ لیکن اس قسم کی آوازیں اس دور میں دبی دبی اور گھٹی گھٹی سی آوازیں معلوم ہوتی ہیں۔ ابھی ان کے بیان میں وہ تندی اور تلخی نہیں آئی تھی جو آگے چل کر پیدا ہوگئی۔۔۔ جوش کے علاوہ جو شاعر اس راہ پر چلے، ان سب میں اگرچہ ایک ا نفرادیت ہے، لیکن وہ بے باکی کا پہلو نہیں۔ جو جوشؔ کے یہاں ہمیں جگہ جگہ ملتا ہے۔ وہ سب عورت کا تذکرہ کرتے ہیں۔ لیکن روایتی انداز میں۔۔۔ اگر ان کے انداز بیان او رطرز ادا کو چھوڑ کر دیکھا جائے تو جہاں تک حسن و عشق کی کیفیات کے بیان کاتعلق ہے، وہ غزل میں سموئے ہوئے خیالات سے آگے نظر نہیں آتے۔ ان میں سے زیادہ تر عورت کے حسن کا بیان کرتے ہیں، جس میں کہیں کہیں جنسی پہلو ضرور پیدا ہوجاتا ہے۔ لیکن کسی خاص حقیقت کو وہ پیش نہیں کرتے۔ جوش نے یقیناً اس سلسلے میں بڑی ہمت سے کام لیا۔ اور آئندہ چلنے والوں کو ایسا راستہ دکھادیا جس پر چل کر وہ دور۔۔۔ بہت دور نکل گئے۔ حتیٰ کہ آنکھوں سے اوجھل ہوگئے۔ لیکن بعض لوگوں کی آنکھوں میں کھٹکتے رہے۔
اب اردو شاعری کا بالکل ایک نیا دور شروع ہوا، جس میں وہ حقیقت نگاری سے زیادہ قریب آگئی۔ عورت کے متعلق صرف رومانی باتوں کا دور اب ختم ہوگیا۔ اب وہ ایک نئے موڑ پر آگئی۔ جہاں جنسیات، اس کی مختلف کیفیات کا بیان، عورت کے جسم سے پیدا شدہ لذت کا تذکرہ، اب نوجوان شاعروں نے کھلم کھلا شروع کردیا۔ انہوں نے جب یہ دیکھا کہ یہ موضوع انسانی زندگی میں بڑی اہمیت رکھتا ہے اور اس کے اثرات جسم اور ذہن، دونوں پر بیشمار ہیں۔ تو پھر اس کو پیش کرنے میں جھجک کیا معنی۔۔۔۔۔۔؟ اس منزل میں جو شاعری ہوئی اور ہو رہی ہے، اس کو عریاں کہا جاتا ہے۔ لیکن صرف عورت کے جسم سے متعلق کچھ باتوں کا تذکرہ ہی کیا کسی فن پارے کو عریاں بناسکتا ہے۔۔۔؟ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ ایک زمانہ میں وہ ضرور تھا جب ذہنی پابہ زنجیری انسان کے گلے کا ہار تھی۔ وہ پتھروں، درختوں، چاند، تاروں، سورج اور کوہساروں کے سامنے جھکتا تھا۔ اور ان سب کو دیوتا مانتا تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ سارے خیالات بدلتے گئے۔ اس کے اس طرح کے قائم کیے ہوئے خیالات اوہام ور صرف اوہام نکلے۔ پھر زمانہ اس کو رفتہ رفتہ زیادہ سائنٹیفک بناتا گیا۔ عورت کے جسم اور جنسیات کے تذکرے کا بھی یہی حال ہے۔ کہ بعض زمانوں میں لوگوں نے اس کے بیان کو اچھا نہیں سمجھا۔ لیکن دنیا ہمیشہ تو ایک نہج پر نہیں چل سکتی۔ زندگی کی قدریں ہمیشہ بدلا کرتی ہیں۔ اس لیے جنسیات کا تذکرہ اور اس کی فطری کیفیات کا بیان، اب وقت کا تقاضا ہے۔ کیونکہ دنیا بدل چکی ہے۔ اب ہر بات کو سائنٹیفک طریقے پر سوچنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے اور جو ایسا نہیں کرتا۔ اس کو اس دنیا میں رہنے کا حق حاصل نہیں۔
جنسیات کے متعلق غور کرنے کے لیے بیسویں صدی کا زمانہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس زمانے میں سارے یورپ میں اس مسئلے نے بڑی اہمیت اختیار کرلی۔ یورپ کے مختلف سائنسدانوں، فلسفیوں، طبیبوں اور ادیبوں نے اس پر غور کرنا شروع کیا۔ عورتیں تک اس کام میں کسی سے پیچھے نہیں رہیں۔ کلیسا تک نے اس کی اہمیت کو محسوس کیا۔ اور ان سب کے ہاتھوں جنسیات کے اسرار و رموز کھلم کھلا بے نقاب ہونے لگے۔ ان سب میں ہیولاک ایلس ایک بہت بڑے مرتبے کا مالک ہے جس کی کتاب ’’مطالعہ نفسیات جنسی‘‘ نے شائع ہوکر سارے یورپ میں تہلکہ ڈال دیا۔ اور جس کی پہلی جلدکو ہندوستان میں ممنوع قرار دیا گیا۔ لیکن امریکہ نے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ بلکہ اس کاخیر مقدم کیا۔۔۔ ہیولاک ایلسؔ نے جنسیات کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی۔ جنسی مظاہرات، جو مختلف مذاہب و اقوام میں موجود تھے۔ ان کو بے نقاب کیا۔ اور نوجوانوں کو اس مسئلے کی گتھیوں کو سلجھانے کی طرف راغب کیا۔۔۔ وہ لکھتا ہے کہ جنسی جذبہ ایک ایسی آگ کا شعلہ ہے جس کو کوئی سمجھا نہیں سکتا۔ اور پھراس کا بھی تذکرہ کرتا ہے کہ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے جب عشق و محبت کو۔۔۔ ایک فن کی حیثیت سے بیان کرتے ہوئے ہر شخص کے چہرے پر شرم و حیا کے رنگ دوڑنے لگتے تھے۔ لیکن اب ہمیں اس کو ایک مقدس فریضہ سمجھنا چاہیے۔ اب یہ چیز شاعروں ہی تک محدود نہ رہنی چاہیے بلکہ ہر شخص کے لیے ضروری ہے کہ اس پر غور کرے۔ کیونکہ اس میں زندگی کے خوشگوار یا ناخوشگوار ہونے کا راز مضمر ہے۔ ایلسؔ کے علاوہ جیمس ہنٹس، گیڈیزؔ اور ٹامسنؔ وغیرہ نے بھی ان خیالات کی اشاعت میں حصہ لیا۔ جرمنی اور فرانس میں آلؤن بلاخؔ، کرلیفٹ ایبنگ اور فوریلؔ وغیرہ پیدا ہوئے جنہوں نے جنسی مسائل پر کھل کر بحث کی۔ ان سب میں بڑا اور نامور ماہر جنسیات میگنس ہرشفیلڈ تھا۔ جس نے جرمنی میں سب سے پہلے جنسیات کے مطالعے کا ایک شعبہ قائم کیا۔ ہٹلر نے اس محکمے کو بند کردیا اور ہرشیفلڈ بیچارے کو جرمنی چھوڑنا پڑا۔ اس نے لندن کی سیکشول رفارم کانگریس میں جو خطبۂ صدارت پڑھا تھا۔ اس میں اس چیز کو بخوبی واضح کیا تھا کہ جنسیات کے معاملے میں شرم اور خاموشی اچھی باتیں نہیں۔ وہ کہتا ہے ’’اگلے زمانے میں جہالت کو معصومیت سمجھا جاتا تھا اور جنسی معاملات میں خاموشی ہی بہتر خیال کی جاتی تھی۔ لیکن اس وقت سے اب تک بہت سی تبدیلیاں ہوچکی ہیں۔ چنانچہ آج ہمیں اس کا پورا احساس ہے کہ جنسیات کے معاملے میں خاموشی معصومیت نہیں بلکہ جرم ہے۔ اور یہ ہمارا مقدس فرض ہے کہ ہم اس خاموشی کو جلد سے جلد ختم کریں۔ انہیں کے ساتھ ساتھ فرائڈ اور ایڈلر نے بھی اپنے نظریات کی نشر و اشاعت شروع کردی۔ اور جن کے ساتھ جنسیات کے معاملے میں انقلاب کا ایک ایسا سیلاب آیا جس نے ساری دنیا کا نقشہ بدل دیا۔ فلسفیوں نے بھی اس پر غور کیا اور اس سلسلے میں ونینگر اور کیسر کنگ اور آؤسینسلی وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔۔۔ ادیب بھی ان خیالات سے بچ نہ سکے۔ ان میں لارنسؔ اور جیمس جوائسؔ خاص طور پر مشہور ہیں۔ لارنسؔ ان سب میں سب سے زیادہ آگے ہے۔ اور اس کے سارے خیالات اس کے خطوط میں بے نقاب ہیں لیکن اس کے علاوہ Phant Asia of the unconscious the Rainbow اور Lady Chatterley Slower بھی اس لحاظ سے قابل غور ہیں۔۔۔ اور اس کتاب کے دیباچے میں وہ لکھتا ہے ’’میں چاہتا ہوں کہ جنسیات کے متعلق ہر مرد اور عورت پوری طرح ایمانداری اور صفائی کے ساتھ غور کرے۔ اگر ہم جنسی حیثیت سے وہ بات نہیں کرسکتے جو ہماری تسکین کا باعث ہے تو کم از کم جنسی طور پر سوچ تو سکتے ہیں۔ نوجوان لڑکیوں، اور دوشیزگی کی یہ ساری باتیں اس کاغذ کی طرح ہیں، جس پر کچھ لکھا ہوا نہ ہو۔ جو سب کی سب حماقت آمیز ہیں۔ ایک نوجوان لڑکی اور ایک نوجوان لڑکا ایک گتھی ہے۔ جنسی جذبات اور خیالات کی۔۔۔!۔۔۔ برسوں کے بعد صحیح خیال آرائی اور جنس کے معاملے میں نبردآزمائی، ہمیں وہاں لے جائے گی جہاں ہم جانا چاہتے ہیں۔۔۔ یعنی عصمت و عفت کے صحیح نظریوں تک۔ جہاں ہمارے جنسی خیالات اور جنسی افعال ہم آہنگ ہوجائیں گے۔ اور ایک دوسرے میں حارج نہ ہوگا۔۔۔‘‘ لارنس کے عاوہ، کہسلے، ایچ۔ جی ویلز، برٹرینڈیل، اور جے۔ سی پونیر، وغیرہ نے اسی طرح کے خیالات کا پرچار کیا۔ فرانس میں جولی رومینؔ کا نام اس سلسلے میں خاص طور پر مشہور ہے، مختصر یہ کہ ساری دنیا کے ادبیات میں ا ن خیالات کا سیلاب آیا جو پرانے خیالات اور جنسیات سے متعلق صدیوں کی پروردہ شرم و حیا کو خس و خاشاک کی طرح بہالے گیا۔ اب لوگوں نے کھلم کھلا، اس پر سوچنا اور غور کرنا شروع کیا۔ ادب کی ہر صنف میں اب بغیر کسی جھجک کے جنسی فعل اور اس کے مختلف حالات و کیفیات کا بیان ہونے لگا۔ ظاہر ہے کہ یہ بغاوت، قدامت پسند لوگوں سے دیکھی نہیں جاسکتی تھی۔ اس لیے اعتراضات کی بھرمار شروع ہوگئی۔ اور جنسیات پر لکھنے والے بریطرح طعون و مطعون قرار پائے۔
اردو کے جدید شعر و ادب کو بھی اسی پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔ کیونکہ وہ بھی بہرحال بیسویں صدی کی پیداوار ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ بیسویں صدی کے شروع کے اردو شاعر اس معاملے میں اتنا آگے بڑھے ہوئے نہیں تھے۔ وہ اپنی کچھ اور الجھنوں میں گرفتار تھے۔ اس لیے وہ اس طرف زیادہ توجہ نہ کرسکے۔ لیکن ۱۹۳۰ء کے بعد جو شاعر آئے، ان میں زیادہ پڑھے لکھے اور سمجھدار تھے۔ انہوں نے دنیاکے ادبیات، سیاسیات اور معاشیات وغیرہ کے تمام شعبوں میں چلتی ہوئی ساری تحریکوں کا بغور مطالعہ کیا تھا۔ اس لیے ان پر ان تمام تحریکوں نے اپنا پورا اثر کیا۔۔۔ اس میں اگر تقلید کو بھی دخل ہو تو ایسی قابل اعتراض بات نہیں۔ ادب کو چھوڑ کر زندگی کے دوسرے شعبوں کو دیکھیے! ہندوستان نے کئی چیزیں مغرب سے لی ہیں۔ پھر ادب میں اگر یہ خیالات لائے جاتے ہیں تو کون سا حرج ہے؟ اور پھر جب یہ خیالات و نظریات سماج کے ہر فرد کے لیے مفید و کارآمدہیں۔۔۔!
ایک طرف تو خیر یہ مغرب کا اثر تھا لیکن دوسری طرف خود ہندوستان کے حالات ان خیالات کو لانے میں ممدد معاون ثابت ہوئے۔ ہندوستان میں آزادی کے خیالات غدر کے بعد ہی سے شروع ہوگئے تھے۔ لیکن جنگِ عظیم کے بعد اور خصوصاً ۱۹۳۰ء میں راوی کے کنارے جب کانگریس نے مکمل آزادی کا ریزولیوشن پاس کردیا تو ان میں اور بھی تیزی آگئی۔ چنانچہ آزادی کے خیالات نہ صرف سیاسی لحاظ سے پھیلے بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں انہوں نے اپنا رنگ بھر دیا۔ ادیب اور شاعر بھی ان سے نہ بچ سکے۔ اور انہوں نے زندگی کے تمام مسائل پر آزادی کے ساتھ غور کرنا اور اپنی تخلیقوں میں سمونا شروع کیا۔۔۔ اور چونکہ انہوں نے زندگی کو بہت ہی قریب سے دیکھا اس لیے ان کی پیش کی ہوئی چیزوں میں روحانیت کی جگہ خالص حقیقت نگاری نے لے لی۔ چنانچہ انہوں نے کھلم کھلا ان تمام باتوں کاتذکرہ کیا، جس سے آج تک ادیب اور شاعر اپنا دامن بچاتے رہتے تھے۔ جنسیات کے متعلق اب جن مسائل کا تذکرہ ہوا، ان میں بھی آزادی کا رنگ تھا۔ تلخی تھی۔۔۔ ان تمام بندھنوں کو توڑدینے والی ایک جنبش کا سا انداز تھا۔ جو آج تک ہندوستانی سماج کے ہر فرد کو بری طرح جکڑے ہوئے تھے۔ ان کے نزدیک اب زندگی میں ہر بات کو حقیقت کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ان کی باتوں میں کوئی رازدارانہ کیفیت نظر نہیں آتی۔ ہمیں ان میں جھجک کی بجائے مردانگی کا احساس ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں اس بات کا بھی احساس تھا کہ ہر چیز کی پردہ پوشی اور چھپانے کا طریقہ، جاگیردارانہ اور سامنتی دور کی یادگار ہے۔ اس لیے جہاں تک بھی ہوسکے اس سے احتراز کیا جائے۔ سامنتی دور میں شاعر جس طرح چاہتے تھے۔ اپنے خیالات کو مختلف معنی پہنادیتے تھے۔ وہ کہتے کچھ تھے اور اس کا مطلب کچھ اور لیا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر متصوفانہ شاعری ہی کو دیکھئے کہ شاعر ذکر تو کرتے تھے اس میں، ان کیفیات کا، جو تمام ترجنسیات سے تعلق رکھتی تھیں، لیکن ان کو روحانیت کے معنی پہنادیے جاتے تھے۔ نئے شاعروں نے اس دورنگی کو اچھا نہیں سمجھا۔ یہ تو خود اپنے آپ کو ایک دھوکا دینے والی کیفیت، اور ایک مستقل فریب اور جھوٹ کی بین مثال!۔۔۔ نئے شاعر اللہ والے نہیں۔ انہیں احساس ہے اور یقین بھی کہ وہ اللہ والے نہیں بن سکتے۔ کیونکہ انہیں بہرحال اسی دنیا، اس کی الجھنوں اور پریشانیوں کے درمیان زندگی بسر کرنی ہے۔ اس لیے ان کو روحانی باتوں کا خیال نہیں آسکتا۔ وہ تو اسی دنیا کے انسان ہیں۔ اس لیے اسی دنیا کے انسانوں کے مسائل اور ان کی مختلف کیفیات کو صداقت و دیانت کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ نئے شاعروں کے ان پیش کیے ہوئے خیالات میں تلخی اور قدرے زیادتی ضرور ہے، لیکن یہ ردعمل ہے جاگیردارانہ اور سامنتی دور کی ان رسومات کا جن کو نئے شاعروں نے اچھا نہیں سمجھا۔ اور جن کو انہوں نے ختم کرنے کا تہیہ کرلیا۔ چنانچہ جنسیات سے متعلق مختلف کیفیات، جن کو آج تک مذموم و معیوب سمجھا جاتا تھااب بے دھڑک بیان کی جانے لگی۔
جدید اردو شاعری میں جنسیات کی مختلف کیفیات کے بیان سے جو عریانی پیدا ہوتی ہے، اس کو ہمیں ہر شاعر کے ذہنی پس منظر میں دیکھنا چاہیے ورنہ اس کا سمجھ میں آنا مشکل ہے۔ ہمارا جدید شاعر اب بہت کافی سمجھدار ہوچکا ہے۔ اس کے اوپر ادب مختلف علوم کے دروازے کھل چکے ہیں۔ اور اس چیز نے اس کی جذباتیت کو ختم کرکے اس کے محسوسات کو عقلیت سے ہم آغوش کردیا ہے۔ وہ اب ہر چیز کو حقیقت کی روشنی میں دیکھنے کا عادی ہے۔۔۔ وہ انسان ہے اور نارمل انسان۔۔۔! اس لیے وہ ایسی حرکتیں بھی کرنی نہیں چاہتا۔ جو مافوق الفطرت انسانوں ہی سے سرزد ہوسکتی ہیں۔ مثلاً ان کا عشق اب ایک انسان کا عشق ہوتا ہے۔۔۔ ایک ایسے انسان کا عشق جو انسانوں کے درمیان، زندگی کی الجھنوں اور پیچیدگیوں کے سائے میں زندگی بسر کرتا ہے۔ اور جس کے یہاں اس عشق کی تشکیل میں جنسی عنصر کا غلبہ سب سے زیادہ ضروری ہے۔ اب وہ افلاطونی عشق کے خیالی نظریے کا قائل نہیں۔ بلکہ اب اس کے عشق میں صنف نازک کے جسم سے پیدا شدہ جنسی لذت کو دخل ہے۔ اس کا خیال ہے کہ جسم و روح میں آہنگ ہے وہ دونوں ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔ اس لیے دنیا میں ایسے روحانی عشق کا وجود نہیں جس میں جسمانی لذت کو دخل نہ ہو۔ اور جو کوئی بھی اس کے خلاف سوچتا ہے، وہ ایک موہوم لذت کا شکار ہے۔ اس کی آنکھوں میں حسرتِ اظہار شباب کاہونا ضروری ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ اس کا اظہار نہیں کرسکتا۔ راشدؔ انہیں خیالات کو سامنے رکھ کر ’’حزنِ انسان‘‘ میں افلاطونی عشق پر طنز کرتا ہے،
جسم اور روح میں آہنگ نہیں
لذت اندوز دلآویزی موہوم ہے تو
خستۂ کشمکشِ فکر و عمل!
تجھ کو ہے حسرتِ اظہار شباب
اور اظہار سے معذور بھی ہے۔
جسم نیکی کے خیالات سے مفرور بھی ہے
اس قدر سادہ و معصوم ہے تو
پھر بھی نیکی ہی کیے جاتی ہے۔
کہ دل و جسم کے آہنگ سے محروم ہے تو!
اس کے خیال میں روح کے عظمت سے ہم آغوش ہونے کا ذریعہ جسم ہی ہے، جو ایک ’’منبع کیف و سرور‘‘ ہے۔ لیکن افلاطونی عشق پر ایمان رکھنے والا اس حقیقت سے واقف نہیں۔ اس کو کیا پتہ کہ زمستان کی حسین رات کے ہنگام کا طلسم کیا ہوتا ہے۔۔۔؟ اس کے لیے عشق ایک نغمۂ خام ہے۔۔۔ ایک بے معنی سی چیز ہے۔ کیونکہ وہ دل و جسم کے آہنگ سے محروم ہے،
جسم ہے روح کی عظمت کے لیے زینہ نور
منبع کیف و سرور
نارسا آج بھی ہے شوق پرستادِ جمال
آہ! انسان کہ ہے جادہ کشِ راہ طویل
(روحِ یوناں پہ سلام)
اک زمستاں کی حسیں رات کا ہنگام تپاک
اس کی لذات سے آگاہ ہے کون۔۔۔؟
عشق ہے تیرے لیے نغمہ خام
کہ دل و جسم کے آہنگ سے محروم ہے تو!
اور پھر وہ یہ کہتا ہے کہ شب ہائے زمستاں ابھی بیکار نہیں۔ اور نہ ایامِ بہار بے سود ہیں۔ لیکن مشکل تو یہ ہے کہ تو جسم و روح کے آہنگ سے محروم ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ انسان ابھی تک وہموں کا شکار ہے۔ وہ حسن کو اب تک دھوکا دے رہا ہے۔ وہ آج بھی اس کو ذوق تقدیس پر مجبور کر رہا ہے۔ لیکن یہ حالات اس کے اندر رجائی کیفیت پیدا کر رہے ہیں۔ اس کو مستقبل ایک دوسرا رنگ بدلتا نظر آرہا ہے۔ وہ منرا میر کے تار ٹوٹتے ہوئے دیکھ رہا ہے،
جسم اور روح کے آہنگ سے محروم ہے تو!
ورنہ شب ہائے زمستاں ابھی بیکار نہیں
اور نہ بے سود ہیں ایام بہار!
آہ انساں کہ ہے وہموں کا پرستارا بھی
حسن بے چارے کو دھوکا سا دیے جاتا ہے
ذوقِ تقدیس پہ مجبور کیے جاتا ہے
ٹوٹ جائیں گے کسی روز مزامیر کے تار
مسکرادے کہ ہے تابندہ ابھی تیرا شباب
ہے یہی حضرت یزداں کے تمسخر کا جواب!
ظاہر ہے کہ ان خیالات کو سامنے رکھ کر جو شاعری ہوگی اس میں قدامت سے ا نحراف ہوگا۔ ان کے خیالی نظریوں سے مخالفت ہوگی۔ ان میں پیش کیے ہوئے خیالات کو روحانیت اور تقدس سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔ اس میں جنسیباتوں کا بیان جگہ جگہ ملے گا۔ اس میں ایک انسان۔۔۔ اور نارمل انسان کے جذبات و احساسات کی تصویر نظر آئے گی۔
چنانچہ نئی شاعری ہمیں اسی دنیا م یں سانس لیتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس میں جس عشق و محبت کا تذکرہ ہے، وہ انسانوں کا عشق ہے۔۔۔ فرشتوں کا نہیں! اس میں جن خواہشات کو پیش کیا جاتا ہے، وہ بھی انسان ہیں ملکوتی نہیں۔ نیا شاعر خیالی دنیا میں رہنا نہیں جانتا۔ وہ چلتے پھرتے، ہنستے بولتے، حسین لڑکیوں کے حسن سے متاثر ہوتے اور ان سے ہم آغوشی کی خواہش رکھتے ہوئے انسانوں کے درمیان زندگی بسر کرنا ہے، اور اس ماحول کے اثرات جو اس کے دل و دماغ پر ٖپڑتے ہیں۔ وہ ان کو کھل کر پیش کردینے میں جھجکتا نہیں۔۔۔ اور پھر پچھلے چند سالوں میں ہمارے سماج نے بھی تو کروٹ لی ہے۔ وہ بھی تو اب بہت کچھ بدل چکا ہے۔ بہت سے ایسے رسوم و رواج جو آج تک اس کو بیسوں بندھنوں میں جکڑے ہوئے تھے، آج ختم ہوچکے ہیں۔ نئی زندگی نے اب صنف نازک کو بڑی حدتک مکانوں کے زندانوں سے باہر نکلنے کی ترغیب دی ہے۔ ان کے لباس میں تبدیلیاں پیدا کردی ہیں۔ وہ اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ سجابناکر سرِبازار شاہراہوں پر اٹکھیلیاں کرتی ہوئی چلتی ہیں۔ نیا شاعر ان کو دیکھ کر متاثر ہوتا ہے۔ اس کے جنسی جذبے کو تحریک ہوتی ہے۔ اور جو کچھ اس کے دل پر گزرتی ہے، وہ اس کا بیان کھل کر کردیتا ہے۔ پرانے شاعروں نے بھی ان چیزوں کو پیش کیا تھا لیکن ان کے بیان میں خارجی پہلو کو زیادہ دخل تھا۔ داخلی عنصر کی اس میں کمی تھی۔ بات یہ ہے کہ وہ نئے شاعروں کی طرح حساس نہیں تھے۔ اور چونکہ جنسیات کے معاملے میں وہ بعض سماجی بندھنوں میں جکڑے ہوئے تھے، اس لیے اس کے بیان میں وہ اپنے آپ کو زیادہ آلودہ بھی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ جنسی تعلقات، جنسی تحریک، اور اسی طرح کی دوسری باتوں سے دور بھاگتے تھے۔ کیونکہ ان میں سماجی بندھنوں کو توڑدینے کی سکت نہیں تھی جو ان پر صدیوں سے عائد تھے۔ اور پھر چونکہ خود ان کے دلوں میں چور تھا اس لیے وہ کھل کر ان باتوں کا بیان کرنا نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے جن ماحول میں سانس لی۔ وہ انہیں چھپ کر گناہ کرنے کا درس دیتا تھا۔ نئے شاعروں کو یہ دورنگی پسند نہ آئی۔۔۔ وہ اپنی تمام کیفیات کو پیش کردینے ہی میں اپنے آرٹ کی معراج خیال کرتے ہیں۔ چنانچہ آج ہمیں، ان میں سے اکثر کے یہاں جنسی جذبات اور جنسی کیفیات کی تصویریں کھلم کھلا ملتی ہیں۔۔۔!
مثال کے طور پر جدید شاعروں میں راشدؔ کو دیکھیے! کہ وہ شروع شروع میں بالکل ایک رومانی شاعر نظر آتا ہے۔ جب وہ ایک حدتک روایتی طرز میں اپنے محبوب اور اپنی محبت کا تذکرہ کرتا ہے۔ چنانچہ ’’میں ا سے واقف الفت نہ کروں‘‘۔ ’’رخصت‘‘ ’’گناہ و محبت۔۔۔‘‘ اور ’’مری محبت جواں رہے گی۔‘‘ وغیرہ اس کی اسی طرح کی نظمیں ہیں۔ ’’گناہ و محبت میں وہ اپنی محبت کو بالکل روایتی طرز میں پیش کرتا ہے۔ وہ پہلے کہتا ہے کہ جوانی نے اس سے بہت سے گناہ کرائے ہیں۔ وہ برسوں شب و روز اسی معصیت کی دنیا میں رہا ہے،
غرض جوانی میں ہر من کے طرب کا سامان بن گیا میں
گنہ کی آلائشوں میں لتھڑا ہوا اک انسان بن گیا میں
لیکن اس کے بعد محبت نے اس کو ایک خاص راستے پر لگایا۔ اور اس کی زندگی کو گناہوں کی آلائشوں سے پاک کردیا،
مجھے محبت نے معصیت کے جہنموں سے بچالیا ہے
مجھے جوانی کی تیرہ وتار پستیوں سے اٹھالیا ہے
یہ جوانی کی تیرہ و تار پستیاں، یہ گناہ کی آلائشیں، اس کو ایک خاص دور، ایک وقت اور ایک خاص ماحول کا انسان ثابت کرتی ہیں۔ لیکن جب وہ شاہراہ جنسیات پر آگے بڑھتا ہے۔ تو حالات کے تیور اس کو روش بدل دینے پر مجبور کردیتے ہیں۔ اور وہ ایک دوسری دنیا میں پہنچ جاتا ہے جہاں اب اس کی دبی ہوئی خواہشات اور تقدس سے ہم آغوش زندگی اس کے لیے عذاب بن جاتی ہے۔ اس کو رہ رہ کر اب یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ برسوں وہ تقدس کی دنیا میں رہا۔ کسی پراس کی روح نمایاں نہ ہوسکی۔ اپنی امنگوں پر وہ خود حکومت کرتا رہا،
دبائے رکھا ہے سینے میں اپنی آہوں کو
وہیں دیا ہے شب و روز پیچ و تاب انہیں
زبان شوق بنایا نہیں نگاہوں کو
کیا نہیں کبھی وحشت میں بے نقاب انہیں
خیال ہی میں کیا پرورش گناہوں کو
کبھی کیا نہ جوانی سے بہرہ یاب انہیں
لیکن یہاں پہنچ کر اس کو یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ اس کو اپنے ضبط کی یہ سزا مل رہی ہے کہ اس کا شباب ایک زہر سے لبریز شباب ہوچکا ہے۔ اب اس کے دل میں ایک عجیب سی خواہش چٹکیاں لیتی ہے۔ اور وہ حسرت کے انداز میں کہتا ہے،
اے کاش چھپ کے کہیں اک گناہ کرلیتا
حلاوتوں سے جوانی کو اپنی بھرلیتا
گناہ ایک بھی اب تک کیا نہ کیوں میں نے؟
اور پھر وہ ادب اور آرٹ میں سکون تلاش کرتا ہے۔ لیکن ان سب میں بھی اس کو اسی ایک ’’خواب سیمگوں‘‘ کی حکومت نظر آتی ہے۔ چنانچہ اس کا دل یہ کہتا ہے،
مراجی چاہتا ہے ایک دن اس خواب سیمیں کو
حجاب فن رقص و نغمہ سے آزاد کرڈالوں
ابھی تک یہ گریزاں ہے محبت کی نگاہوں سے
اسے اک پیکرِ انسان میں آباد کرڈالوں
اس منزل کے بعد وہ اپنی شاعری کے اس موڑ پر آجاتا ہے، جہاں اس کے یہاں تقدس کا پتہ نہیں چلتا۔ اب وہ اس دنیا کا ایک نارمل انسان بن جاتا ہے۔ اب وہ صنف نازک کے جسم کے قریب بے دھڑ ک پہنچ سکتا ہے، اور اس سے ’’اخذِنور و نغمہ‘‘ کرسکتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے سینے میں لرزش سی پیدا ہوجاتی ہے۔ اور وہ اس موقع پر ’’زندگی کی لذتوں‘‘ سے ’’سینہ بھر لینے اور اپنی روح کی تکمیل کرینے کا خواہش مند نظر آتا ہے،
دیکھ اس جذبات کے نشے کو دیکھ!
تیرے سینے میں بھی اک لرزش سی پیدا ہوچلی
زندگی کی لذتوں سے سینہ بھر لینے بھی دے
مجھ کو اپنی روح کی تکمیل کرلینے بھی دے!
اور پھراس کے بعد وہ آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ چنانچہ اب اس کی شاعری میں ہمیں کہیں ’’ہونٹوں کے لمس‘‘ کا تذکرہ ملتا ہے۔۔۔ کہیں زمستاں کی حسیں رات اور اس میں کسی تاک کے سائے تلے ایک کیف و سرور کی دنیا کا بیان۔۔۔! جب وہ کسی جسم کے نیستان بہار سے، اپنی روح کی تشنگی کو بجھاتا ہے۔ جب ہو ایک ’’لذت جاوید‘‘ کا آغاز کرتا ہے۔ جب وہ کسی کی نکہت و مستی سے کیف حاصل کرتا ہے۔ اور کسی کے سینے کے سمن زاروں میں لرزشیں سی اٹھ کر اس کے ’’انگاروں‘‘ کو بے تابانہ اپنی آغوش میں لے لیتی ہیں۔ اب وہ اس منزل پر آجاتا ہے جب وہ چاندنی میں شیشم کے درختوں کے نیچے اپنے بوسوں سے اپنی روح کا اظہار کرتا ہے۔ کیونکہ اس کے نزدیک روح کا اظہار ہی ایک چیز ہے۔۔۔ روح تو اظہار ہی سے زندہ و تابندہ ہے۔۔۔ اب اگر وہ محبت بھی کرتا ہے۔۔۔ اور محبت تو اس نے کئی بار کی ہے۔۔۔ تو اس میں تقدس کو دخل نہیں ہوتا۔ اب وہ محبت کی دنیا میں ایک بدلا ہوا انسان ہے،
میں جو سرمست نہنگوں کی طرح
اپنے جذبات کی شوریدہ سری سے مجبور
مضطرب رہتا ہوں مدہوشیٔ عشرت کے لیے
اور تیری سادہ پرستش کی بجائے
مرتا ہوں تیری ہم آغوشی کی لذت کے لیے
لیکن اس کے باوجود، اس کی محبت ہے محبت۔۔۔! اس کی نوعیت ضرور بدل گئی ہے، لیکن یہی بدلی ہوئی نوعیت زیادہ سائنٹفک ہے۔۔۔ زندگی سے قریب ہے۔۔۔ حقیقت ہے۔۔۔ اس میں سچائی اور وفاکیشی کو دخل ہے۔ چنانچہ وہ یہ کہہ دیتا ہے،
مرے جذبات کو تو پھر بھی حقارت سے نہ دیکھ!
اور مرے عشق سے مایوس نہ ہو!
کہ مرا عہدِ وفا ہے ابدی!
یہ ہے راشدؔ کے ذہنی ارتقا اور اس کی شاعری کی مختلف منزلوں کی مختصر سی کہانی۔۔۔! اس نے عشق و محبت کو زیادہ سے زیادہ بناسنوار کر حقیقت کی روشنی میں پیش کیا ہے۔ جس میں روحانیت میں ڈوبی ہوئی خیالی باتوں کو مطلق دخل نہیں۔ برخلاف اس کے ان کی نوعیت شروع سے آخر تک جنسی ہے۔۔۔ اور جن کا بیان شروع سے آخرتک حقیقت نگاری سے ہم آغوش ہے۔
راشدؔ کے علاوہ بھی نئے شاعروں میں، زیادہ کا یہی حال ہے کہ وہ عشق و محبتکی تشکیل میں جنسی جذبے کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ اور اپنے اس قسم کے جذبات و احساسات کو کھلم کھلا پیش کردینے میں جھجکتے نہیں۔۔۔ میراؔجی کو دیکھیے کہ اس کی شاعری میں شروع سے آخرتک جنسیات کی ایک لہر سی دوڑی ہوئی ہے۔ وہ خود لکھتا ہے کہ ’’جنسی فعل اور اس کے متعلقات کو میں قدرت کی بڑی نعمت اور زندگی کی سب سے بڑی راحت اور برکت سمجھتا ہوں۔ اور جنس کے گرد آلودگی جو تہذیب و تمدن نے جمع کر رکھی ہے۔ وہ مجھے ناگوار گزرتی ہے۔ اس لیے ردعمل کے طور پر میں دنیا کی ہر بات کو جنس کے اس تصور کے آئینے میں دیکھتا ہوں جو فطرت کے عین مطابق ہے اور۔۔۔ جو میرا آدرش ہے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ اس کے یہاں ہمیں قدم قدم پر جنسی جذبے کے مختلف حالات و کیفیات کا بیان ملتا ہے۔ جو خیالات جنسی اعتبار سے آج کل کے نوجوانوں کے دلوں میں پیدا ہوتے ہیں، وہ ان سب کو پیش کرتا ہے۔ جن باتوں کو دوسرے کہنے میں جھجکتے ہیں۔ وہ ان کو کھل کر کہہ دینے سے باز نہیں رہتا۔ لیکن بہرحال وہ چند حقیقتوں کا بیان ہوتا ہے۔ اس لیے اس کو صرف عریاں ہونے کے باعث مطعون نہیں کیا جاسکتا۔ وہ جب یہ کہتا ہے،
آج رات
میرا دل
چاہتا ہے تو بھی میرے پاس آ
اور سوئیں ساتھ ساتھ
تیرے پیراہن مجھے
یاد آتے ہیں بہت
آسماں بھی صاف ہے
اور ستارے اور چاند
بیخود و سرمست ہیں
تازگی
ہے عیاں
ذرے ذرے سے زمیں کے آہ لیکن بے بسی،
اور تنہائی مری!
آج تو آجا مری ہمراز بن
آ بھی جا!
آگھٹائیں آرہی ہیں بے نشاں رفتار سے
اور ان کالی گھٹاؤں میں سے سرمستی، خمار
اور پانی کے ہیں تار
تو بھی آ
مل کے ہم
آج رات
گاہی لیں چاہت کے گیت؟
جسم بھی تیرا مجھے مرغوب ہے
اور تیری ہر ادا
اور یہ چہرہ ترا
محبوب ہے
تیری یہ پیاری جوانی اک اچھوتی سی کلی
اور صورت سادی سادی سانولی،
اور ترے بالوں میں یہ چمپا کے پھول
اور نازک ہاتھ پر لپٹا ہوا گجرا ترا
اور گلے میں ایک ہار
آہ تیرے سب سنگار
کھینچتے ہیں دل کے تار
اور اک ہلکی سی گونج
اس فضا کی وسعتوں میں کھوگئی
آمری ننھی پری!
آمری من موہنی!
آج رات
چاہتا ہوں تو بھی میرے پاس ہو!
(سرگوشیاں)
تو نہ صرف اپنی خواہشات کی ترجمانی کرتا ہے بلکہ سارے نوجوانوں کی دلی کیفیات کو بے نقاب کردیتا ہے۔ کون ایسا نوجوان ہے جو تنہائی کے لمحوں میں ایسی باتیں نہ سوچتاہو۔ دوسرے اس کو چھپاتے ہیں۔ میراؔجی ان کو بیان کردیتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کی شاعری میں ہمیں کہیں کہیں ایک صحت مند انسان کی جنسی کیفیات کا پتہ نہیں بھی چلتا۔ برخلاف اس کے وہ کہیں کہیں جنسی حیثیت سے مریض معلوم ہوتا ہے۔ اس نے محبت کی ہے لیکن وہ عورت سے دور رہا ہے۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عورت کی اس دوری نے اس کو ایسے اقدامات کرنے کے لیے مجبور کیا ہے، جو فطری نہیں ہوتے اور جن کاارتکاب انسان کو جنسی حیثیت سے صحت مند نہیں رکھ سکتا۔ چنانچہ وہ عورت کے جادو کو چھچھلتی نظر سے دیکھ کر بھی جی بھر لیتا ہے۔ اب یہ عورت کے جادو کو چھچھلتی نظر سے دیکھنے کا کیا مطلب ہے؟۔ اس کااندازہ آپ ہی لگائیے! آخر میں پہنچ کر اس کی یہ کیفیت ہوجاتی ہے کہ وہ ’’لب جوئبارے‘‘ میں جب ایک عورت کو ندی کے کنارے پیشاب کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کی کچھ بن نہیں آتی۔ اس کو یقین ہے کہ وہ جنسی فعل کی تکمیل نہیں کرسکتا۔ اس لیے نتیجہ مشت زنی نکلتا ہے۔ اور اس طرح اس کے رہے سہے جنسی جذبے کو تسکین ہوجاتی ہے ’’سرسراہٹ‘‘ میں بھی اس نے جس جنسی کیفیت کو پیش کیا ہے، اس میں بھی یہی رنگ ہے۔ میراجی نے اس کے متعلق خود لکھا ہے۔ ’’سرسراہٹ ذہنی کیفیت کا ایک لمحہ ہے جس کی نوعیت جنسی ہے۔‘‘ لیکن یہ لمحہ ایک صحت مند انسان ی ذہنی کیفیت کا لمحہ نہیں معلوم ہوتا۔ اس میں بھی ہمیں ابنارمل ذہنی عیاشی کا احساس ہوتا ہے۔ سلوٹوں کے استعارے ہی میں یہ چیز موجود ہے۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ اس کا لکھنے والا اپنے آپ ہی ایک خاص حالت میں کیف محسوس کر رہا ہے،
یہاں ان سلوٹوں پر ہاتھ رکھ دوں
یہ لہریں ہیں، بہی جاتی، اور مجھ کو بہاتی ہیں
یہ موج بادہ ہیں، ساغر کی خوابیدہ فضاؤں میں
اچانک جاگ اٹھتی ہے۔
حقیقت کے جہاں سے کوئی اس دنیا میں درآئے
تو اس کے ہونٹ متبسم ہوں، شاید قہقہہ اٹھ کر، جکڑ لے اپنے ہاتھوں سے
(سرسراہٹ)
یہ سلوٹوں پر ہاتھ رکھنا، یہ لہروں کا بہے جانا، یہ ساغر کی خوابیدہ فضا کا اچانک دل میں جاگ اٹھنا، اس بات کی غمازی کرتا ہے جس کی طرف میں نے اوپر اشارہ کیا ہے۔ میراجی کی اسی غیرصحت مندانہ جنسی کیفیت نے اس کو بڑی حدتک قنوطی بنادیا ہے۔ اس کی شاعری میں امنگ اور جولانی کا پتہ نہیں چلتا۔ بلکہ ایک بجھی بجھی سی کیفیت ہے۔
اور پھر نوجوان شاعروں میں وشوامتر عادلؔ کو دیکھیے! اس کا بھی یہی حال ہے۔ یعنی وہ بھی اپنی شاعری میں اپنے آپ کو اسی دنیا کا ایک نارمل انسان بناکر پیش کرتا ہے۔ اس کی شاعری میں زیادہ نظمیں اس بات کا احساس دلاتی ہیں کہ اس نے محبت کی ہے، لیکن بعض سماجی پابندیوں اور تمدنی جکڑبندیوں کے باعث اس کو بارہا ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ اس کی آدرشی عورت اس کے راج محل کی رانی نہ بن سکی۔ برخلاف اس کے وہ دوسروں کے ساتھ باندھ دی گئی جس کا اثر عادل پر ہوا کہ وہ پریشان حال پھرنے لگا۔ وقت کا ایک ایک لمحہ اس کو پہاڑ معلوم ہونے لگا۔ جو کسی طرح بھی کاٹے نہیں کٹتا۔ اس کی ساری زندگی بے کیف و بے رنگ وبو ہوگئی۔ وہ ایک ناکام و نامراد نوجوان کی طرح سڑکوں کی خاک چھانتاہوا، دیوانہ وار ادھر ادھر پھرنے لگا۔ زندگی کو سکون دینے کی غرض سے قہوہ خانوں کے پیالوں میں گھلتا رہا۔ اور دفتروں کے کاغذوں میں گم بھی ہوتا رہا۔ لیکن سب سے آخر میں جب ضبط کی انتہا نہ رہی تو کسی شاہرا ہ پر گزرتے ہوئے ٹوٹے پھوٹے بھورے بھورے آشیانوں کی روشنی اس کے احساسات کو ترغیب گناہ دینے لگی۔ یعنی اس کی جنسی خواہشات میں بھی ارتعاش پیدا ہوا۔ کیونکہ وہ بہرحال فطری ہیں اور کسی طرح بھی دب نہیں سکتیں۔ اس لیے وہ کھلم کھلا ان آشیانوں کی طرف جاکر اپنی پیاس بجھانے لگا۔ لیکن اس کی آدرشی عورت کے خیال نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ اس کی محبت برقرار رہی۔ اور وہ ایک لمحے کے لیے بھی اس کے خیال سے بے خبر نہیں رہا۔ یہ عجیب بات ہے کہ عادلؔ اپنی شاعری میں ناکامی کی تلخی کو دور کرنے اور اس سے پیدا شدہ تکلیف کو فراموش کرنے کے لیے شراب کی طرف رجوع نہیں ہوتا۔ حالانکہ وہ زیادہ سکون کا باعث بن سکتی ہے لیکن جنسی جذبہ اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ یہ بات پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ جہاں تک جنسی جذبے کی تکمیل کا تعلق ہے وہ اس میں ہرنارمل انسان کی طرح بے بس ہے۔ کیونکہ فطرت کے سامنے کسی کی پیش نہیں جاسکتی۔ وہ شراب سے احتراز کرسکتا ہے۔ لیکن ایک فطری خواہش کی تکمیل کے لیے اس کو ٹوٹے پھوٹے بھورے آشیانوں کی طرف جانا ہی پڑتا ہے،
دفتروں کے کاغذوں میں گم ہوا جاتا ہوں میں
قہوہ خانوں کے پیالوں میں گھلا جاتا ہوں میں
یا اندھیری رات میں
سونے سونے راستوں کے آس پاس
سوکھے سوکھے شیشموں کے اور کھمبوں کے ہجوم
دیکھتا جاتا ہوں۔۔۔ یونہی سوچتا جاتا ہوں میں
یا بڑھا جاتا ہوں میں
ٹوٹے پھوٹے بھورے بھورے آشیانوں کی طرف
جن کی پھلکی کپکپاتی روشنی
میرے احساسات کو دیتی ہے ترغیب گناہ!
(کہ تو عورت نہیں)
عادلؔ کی ایک اور نظم ہے ’’خاکے‘‘ ! جس میں اس نے اپنی محبت کی کہانی اور اس کی بعد کی کیفیت کا نقشہ پیش کیا ہے۔ وہ سب سے پہلے اپنی آدرشی عورت سے اپنی پہلی ملاقات کا بیان کرتا ہے۔ جب وہ عورت اس کے سامنے کھڑی ہوئی تھی۔ نظریں جھکائے ہوئے گویا خاموشی سے پیمان محبت باندھ رہی ہو۔ اور ادھر عادلؔ کے دل میں سینکڑوں خواہشات انگڑائیاں لے رہی تھیں۔ اس وقت اس کو سوائے اس کے کوئی اور خیال نہیں آتا کہ اگر وفور شوق میں۔ اس گرم جواں، گرم، تنوند ہاتھ، اس کے خم کمر سے چھونے لگا تو کیا ہوگا۔ اور اس کے کمر کاخط گویا اس کے بازو کو بلاوا دے رہا تھا۔ یعنی وہی خیالات اور وہی خواہشات جو جنسی ہیں مگر جو ہیں بالکل فطری، اور جن کا پیدا ہونا ہر نوجوان کے دل میں ازبس ضروری ہے،
فسردہ شام کی تنہائی پھیلتی ہی گئی
بڑھا بڑھا کے بڑھاتی ہوئی سکون کے ہاتھ
چمکتے کانچ کا گلدان تھا کنارے پر
سفید پھول کی گردن جھکی جھکی ہی رہی
سکوت ریشمی پردوں کی نرم لہروں کو
تھپک تھپک کے سلاتا رہا، سلاتا رہا
کھڑی ہوئی وہ دریچے کے پاس دیکھتی تھی
روائے آب افق تیرتی ابابیلیں،
میں اس کے پاس کھڑا اپنے دل میں سوچتا تھا
مرے قریب، مگر پھر بھی کتنی دور ہے تو،
کمر کا خط مرے بازو کو اک بلاوا ہے
جوان گرم تنومند ہاتھ بڑھ کے اگر
خم کمر سے جو چھونے لگا توکیا ہوگا؟
کھنچے رہے مگر احساس کے ستار کے تار
اور اس کی گود میں خاموش درد کا مارا
اداس گیت محبت کا تھر تھراتا رہا!
(خاکے)
لیکن اس وقت اس کو اس کیفیت کے ساتھ مذہب و رسم و رواج کا ایک بھوت بھی نظر آرہا تھا جو اس کی طرف جھپٹتا تھا اور اس کی محبت کو ناکام بنانے کے درپے تھا،
فسردہ شام کی تنہائی پھیلتی ہی گئی
بڑھا بڑھاکے بڑھاتی ہوئی سکون کے ہاتھ
میں اس کے پاس کھڑا تھا مگر وہ تنہا تھی
افق پر ابر کے ٹکڑے تھے سرد آئینے
انہی پہ میری نظر تلخ انجماد بنی
جھلک رہا تھا بھیانک مہیب تیز و تار
جہاں کے مذہب و رسم و رواج کا اک بھوت
جو بار بار لپکتا تھا، دانت پیستا تھا
وہ ڈر گئی، وہ تو عورت تھی اس نے کچھ نہ کہا
پرے کھجور کے اوپر خموش گول سا چاند
ابھر رہا تھا، ابھرتا رہا، ابھرتا رہا
(خاکے)
جو اس کو ناکامی کا منہ دکھانے سے باز نہ رہا۔ اس کی دنیا اجڑ گئی۔ اور وقت کا ایک ایک لمحہ اس پر بار ہونے لگا۔ رینگتے لمحوں کی چیونٹیاں اس کے جسم کو چپ چاپ چوستی رہیں،
مری تڑپتی ہوئی روح پھڑپھڑاتی ہے
نحیف زیست سے عاری ہے، پھر بھی ٹوٹے ہوئے
مگر یہ رینگتے لمحوں کی چیونٹیاں چپ چاپ
لپٹ لپٹ کے اسے بار بار چوستی ہیں
(خاکے)
لیکن بہرحال وہ انسان تھا۔ یہ ناکامی اور اس عورت کا خیال مل کر اس کے جنسی جذبے کو ختم نہیں کرسکتے تھے جوبالکل فطری ہے۔ چنانچہ وہ تنہائی سے تنگ آکر اپنے جسم کو (روح کو نہیں) ایک ایسے جسم کے قریب لے جاتا جو چند لمحوں کے لیے اس کے قبضے میں ہے۔ وہ اس سے نگاہیں ملانا چاہے تو نگاہیں بھی ملاسکتا ہے۔ اگر اس کے بال بکھیرنا چاہے تو بال بھی بکھیر سکتا ہے۔ اگر لپٹنا چاہے تو بے دھڑک اور بغیر کسی روک کے لپٹ بھی سکتا ہے۔ غرض اس منزل پر اس کے لیے کوئی روک نہیں۔ اور وہ اب مجبوراً اسی دنیا میں رہنے لگتا ہے،
برہنہ جسم ہے اور اجنبی فضا بستہ
خزاں میں فرش گلستاں کا ایک آئینہ
’’ذرا نظر تو اٹھاؤ‘‘ نگاہیں ملتی ہیں
’’بکھیر بھی دو حسیں بال‘‘ لو بکھرتے ہیں
’’لپٹنے دو بھی مجھے‘‘ میں لپٹتا جاتا ہوں
کوئی بھی روک نہیں ہے کوئی بھی روک نہیں،
فسردہ رات کی تنہائی اب سمٹتی ہے،
سمٹ سمٹ کے سکڑتی ہوئی سکڑتی ہوئی
یہ مجھ سے کہتی ہوئی اب یہاں نہ آئیں گے
(خاکے)
عادلؔ اور اس کے علاوہ اکثر نوجوان شاعروں کا یہی حال ہے کہ وہ خیالی دنیا میں نہیں رہتے۔ بلکہ تمام حالات کو سائنٹفک طریقے پر حقیقت کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ وہ جنسی جذبے کی اہمیت کو فراموش نہیں کرتے۔ وہ جانتے ہیں کہ خواہ کچھ بھی ہو لیکن اس جذبے کی تسکین بہت ضروری ہے۔ چنانچہ ان کے یہاں اس بنیادی جنسی جذبے کا ذکر بار بار ملتا ہے۔ لیکن یہ حقیقت نگاری ہے۔ عریانی نہیں۔! بعض لوگوں کے نزدیک اس قسم کے بیانات عریاں ضرور کہے جاسکتے ہیں، لیکن یہ وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو اس زمانے سے بہت پیچھے ہیں۔ جو سامنتی دور میں سانس لینے اور پرورش پانے کے باعث ہر چیز کو ایک خاص زاویۂ نظر سے دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ سامنتی دور میں نہ صرف جنسی مسائل کو بلکہ ہر چیز کو چھپانے کی کوشش کی جاتی تھی۔ اور آج بھی کی جاتی ہے۔ لیکن ہمارے شاعروں کو ایک طرف تو سامنتی دور کے خیالات سے نفرت ہے، اس لیے وہ اس کی ہر چیز کو توڑپھوڑ کر رکھ دینے کے خواہش مند ہیں۔ اور دوسرے اب وہ زیادہ بالغ نظر ہوچکے ہیں۔ ان کا زاویہ نظر اور ہر بات تک پہنچنے کا طریقہ، اب زیادہ سائنٹیفک ہوگیا ہے۔ اس لیے قدامت و جدت کے درمیان ایک نمایاں فرق ہونا ہی چاہیے۔ یہ چیز شاعری میں بھی موجود ہے۔ اگر قدامت اس میں بعض پیش کی ہوئی باتوں کو عریاں سمجھتی ہے تو جدت اس کو حقیقت نگاری خیال کرتی ہے۔
نئے شاعر چونکہ زندگی کے تمام پہلوؤں پر گہری نظر ڈالتے ہیں، اس لیے وہ ان باتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بھی جھجکتے نہیں، جہاں سماج کے بعض افراد، اپنی جنسی خواہشات کو تسکین دینے کے لیے بے جا دست درازیاں کرنے لگتے ہیں۔ ایسے لوگ موقع پاکر کسی دوشیزہ کی جوانی کو چند سکوں کے عوض خریدتے ہیں۔ کہیں کسی مزدور عورت کی عصمت و عفت پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ کہیں پروہت اور پجاریوں کا روپ دھار کر تقدس کے سائے میں کسی نوجوان عورت کی زندگی کو تباہ و برباد کرتے ہیں۔ ہمارے شاعر ان مسائل کو بھی فراموش نہیں کرتے۔ چنانچہ آج کل کی شاعری میں ایسی باتوں کا بیان بھی زیادہ ملتا ہے۔ کیونکہ ان سب کے یہاں موجودہ نظام زندگی کے خلاف، تنفر کی ایک لہر سی دوڑی ہوئی ہے۔ جس نے ان کو مجبور کردیاہے کہ وہ سماج کی تمام چیزوں کو توڑپھوڑ کر رکھ دیں۔ نئے شاعر جب ان باتوں کا تذکرہ کرتے ہیں، تو وہ ان سے کوئی جنسی کیف حاصل کرنا نہیں چاہتے۔ بلکہ سماج کے افراد میں دست دراز لوگوں کے خلاف نفرت کے جذبات کو ابھارتے ہیں۔ اس لیے یہاں جو عریانی پیدا ہوتی ہے، وہ اول تو زندگی کے ایک رخ کی سچی تصویر ہے۔ اور دوسرے اپنے اندر ایک مقصد رکھتی ہے۔ جو حقیقتاً ایک بڑا مقصد ہے۔ سلام مچھلی شہری، جب ایک مزدور عورت پر ایک سرمایہ دار کی دست درازیوں کا تذکرہ کرتا ہے تو اس میں کہیں بھی اس کا شائبہ نہیں ہوتا کہ وہ اس میں خود کوئی کیف محسوس کر رہا ہے۔ بلکہ وہ تو ایک مصور کی طرح ایک خاص منظر کی تصویر کھینچتا ہے،
یہ سینری ہے، یہ تاج محل، یہ کرشن ہیں اور یہ رادھا ہیں،
یہ کوچ ہے، یہ پائپ ہے مرا، یہ ناول ہے، یہ رسالہ ہے
یہ گاندھی ہیں، ٹیگور ہیں یہ، یہ شاہنشہ، یہ ملکہ ہیں!
ہر چیز کی بابت پوچھتی ہے، جانے کتنی معصوم ہے یہ!
ہاں اس پر رات کو سونے سے میٹھی میٹھی نیند آتی ہے
ہاں اس کے دبانے سے بجلی کی روشنی گل ہوجاتی ہے
سمجھی کہ نہیں، یہ کمرہ ہے، ہاں میرا ڈرائنگ روم ہے یہ!
اتنی جلدی مزدور عورت آخر یہ گلے میں بانہیں کیوں؟
لے دیر ہوئی اب بھاگ بھی جا، بس اتنی محبت کافی ہے
اس ملک کے رہنے والوں کو پیسے ہی کی حاجت کافی ہے
اتنی ہنسی مکھ خاموشی، اتنی مانوس نگاہیں کیوں؟
میں سوچ رہا ہوں کچھ بیٹھا پائپ کے دھوئیں کے بادل میں
میں چھپ سا گیا ہوں اک نازک تخئیل کے میلے آنچل میں
(ڈرائینگ روم)
اسی طرح جب ’’بھینٹ‘‘ میں ہر ایک پجاری کی کارفرمائیوں، کو اس طرح بے نقاب کرتا ہے کہ،
تقدس کے حسین شیطان کے قدموں کی آہٹ میں
یہاں دوشیزگی کی چیخ بھی گم ہوگئی آخر
گھنے پتوں کے نیچے مورتی کی مسکراہٹ میں
ہمیشہ کے لیے بھولی پجارن کھو گئی آخر
(بھینٹ)
تو بھی کہیں اس کا پتہ نہیں چلتا کہ وہ خود اس منظر سے کوئی دلچسپی لے رہا ہے۔ برخلاف اس کے اس کی تہ میں ایک نفرت کا جذبہ ہے۔ اور یہاں تو کوئی ایسی زیادہ عریانی بھی پیدا نہیں ہوتی۔ بلکہ اس کی فنکاری اس میں وہی پوشیدگی کا عنصر پیدا کردیتی ہے، جس سے اس کا تاثر بھی بڑی حدتک بڑھ جاتا ہے۔ اس قسم کی باتیں ہماری سماج کے لیے ایسی کچھ نئی نہیں ہیں۔ ایسے واقعات آئے دن ہم اپنی آنکھوں سے دیکھا، کانوں سے سنا اور اخباروں میں پڑھا کرتے ہیں۔ شاعر ان سے تحریک لیتے ہوئے، ان کو نظم کا جامہ پہنا دیتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ بعض جگہ جدید شاعر ایسی باتیں ضرور کرنے لگتے ہیں، جس سے، ان کی ذہنی عیاشی کا پتہ چلتا ہے۔ یعنی وہ عورت کے جسم اور اس سے پیدا شدہ کیفیت کو مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں۔ لیکن عورت کے جسم اور اس سے پیداشدہ سرور و کیف کا بیان کوئی ایسی چیز نہیں جو صرف آج کی شاعری میں کیا جارہا ہو۔ بلکہ دنیا بھر کے ادب اور آرٹ میں عورت کے جسم کے بیان کو ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ شاید ہی دنیا کا کوئی شاعر، کوئی ناول نگار، کوئی افسانہ نویس، کوئی بت تراش، اور کوئی مصور ہو جس نے عورت کے جسم اور اس سے پیدا شدہ لذت کا بیان اپنی تخلیقوں میں نہ کیا ہو۔ آج سے صدیوں پہلے بعضوں نے تو ایسی باتیں کہی تھیں جن کو آج بیسویں صدی میں کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ لیکن آرٹ اور ادب کو اخلاقیات کے بندھنوں سے بلند ہونا چاہیے۔ اگر اس پر بھی اخلاق کی بندشیں عائد کردی گئیں تو فنکاروں کی آوازیں گھٹی گھٹی آوازیں معلوم ہوں گی۔ آرٹ کے لیے تو بس اتنا کافی ہے کہ وہ کسی بھی حسین چیز کی تخلیق کرے۔ اگر وہ دنیا کے کسی موضوع کو بھی اپناکر حسن سے ہم آغوش کرسکتا ہے تو وہ کامیاب ہے۔ اور یہی حسن سچائی اور حقیقت ہے۔ اس لیے آرٹ کے لیے ضروری نہیں کہ ان پر کسی قسم کی پابندیاں عائد کی جائیں۔ چنانچہ ہیولاک ایلس نے اپنی مشہور کتاب میں Dance of Life لکھا ہے کہ آرٹ میں اخلاق سے کہیں زیادہ اخلاق ہوتا ہے Art is more morel than morality ہمارے نئے شاعروں کے پیش نظر ایک چیز یہ بھی ہے۔ اس کے علاوہ چونکہ وہ ایک ایسی سماج میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ جس کا نظام صحیح بنیادوں پر قائم نہیں۔ اس لیے زندگی کی قدروں میں بھی تناسب مفقود ہے۔ چنانچہ یہی چیز ہمارے آرٹ اور ادب میں جھلکتی ہے کہ اس میں بھی شروع سے آخرتک ایک انتشاری اور نراجی کیفیت ہے۔ ایسے ماحول میں سانس لینے والاانسان زندگی سے بھاگتا ہے۔ فرار اختیار کرتا ہے۔ اور ایک کیف و سرور کی دنیا بساکر سماجی تلخیوں کو بھلا دینا چاہتا ہے۔ ایسا ہر دور اور ہر زمانے میں ہوا کیا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے لیے ایسے انسان نہیں پیدا ہوتے۔ جو ان حالات کو ختم کرنے کے لیے کوئی اقدام کریں۔ ضرور ایسا ہوتا ہے۔ جس کی ایک بین مثال اردو کی نئی شاعری ہی ہے کہ ایک طرف تو اس میں انقلاب کے پیغام دیے جارہے ہیں۔ لیکن دوسری طرف بعضوں کی شاعری میں فرارکی کیفیت بھی نظر آتی ہے۔ اور یہ دونوں چیزیں ساتھ ہی ساتھ چل رہی ہیں۔
میں تو ساری اردو شاعری کو حالات و واقعات کا تقاضا سمجھتا ہوں۔ اس میں جو چیز بھی لکھی جاتی ہے، اس کو لکھا ہی جانا چاہیے۔ سماجی ماحول اور ادیب کی شخصیت کے امتزاج سے آرٹ کی تخلیق ہوتی ہے۔ بعض ادیب اور شاعر اپنے اندر ایک آگے بڑھ جانے والی کیفیت رکھتے ہیں۔ دوسرے تھک کر بیٹھ جانے کے سوا اور کچھ نہیں جانتے۔ چنانچہ آپ صرف ایک راشدؔ کو دیکھیے۔! اس کی ذہنیت شکست خوردہ ذہنیت ہے۔ وہ زندگی سے فرار اختیار کرتا ہے۔ اور اس کی تلخیوں کو صنف نازک کی کیف ہم آغوشی اور شراب ناب کی لہروں کے سرور میں کھوکر بھلا دینا چاہتا ہے۔ لیکن ہندوستان کے مسائل بھی اس کی آنکھوں کے سامنے ہیں۔ وہ جب اس کی زبوں حالی پر نظر دوڑاتا ہے تو اس کو یہ سرزمین جبر و استبداد کی آہنی زنجیروں میں جکڑی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ اور جن لوگوں نے اس کو ان زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے، ان سے انتقام بھی لینا چاہتا ہے۔ لیکن اس انتقام کی نوعیت بالکل دوسری ہے۔ اس کے پاس اتنی طاقت نہیں کہ وہ مخالفین سے میدان جنگ میں کھلم کھلا مقابلہ کرے۔ کیونکہ اس کے پاس نہ تو آلات حرب ہیں، اور نہ اتنی ہمت کہ جو اسے میدان جنگ میں آگے بڑھادے۔ چنانچہ وہ انتقام لینے کا ایک دوسرا راستہ ڈوھنڈتا ہے۔ اور وہ راستہ یہ ہے کہ وہ ایک بت فرنگ کو کہیں پاکر اپنے ہونٹوں سے آتش انتقام کو بجھاتا ہے، جس سے اس کو ذہنی سکون مل جاتا ہے۔ ’’انتقام‘‘ اس کی اسی طرح کی نظم ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ اگر اس نظم کی تخلیق نہ ہوتی تو اردو شاعری ہندوستان کی دوتین سو برسوں کی تاریخ اور اس کے اثرات سے محروم رہ جاتی۔ اب صرف اس ایک نظم میں ہندوستانی زندگی کا سارا مدوجزر اور غلامی سے پیداشدہ یہاں کے باشندوں کی ذہنی کیفیت کے بیان کا سارا نقشہ پیش کردیا گیا ہے،
اس کا چہرہ، اس کے خدوخال یاد آتے نہیں
اک شبستاں یاد ہے
اک برہنہ جسم آتش داں کے پاس
فرش پر قالین، قالینوں پر سیج
دھات اور پتھر کے بت
گوشۂ دیوار میں ہنستے ہوئے
اور آتش داں میں انگاروں کا شور
ان بتوں کی بے حسی پر خشمگیں!
اجلی اجلی اونچی دیواروں پہ عکس
ان فرنگی حاکموں کی یادگار
جن کی تلواروں نے رکھا تھا یہاں
سنگِ بنیادِ فرنگ
یعنی سنگِ تربتِ ہندوستان!
اس کا چہرہ اس کے خدوخال یاد آتے نہیں
اک برہنہ جسم اب تک یاد ہے
اجنبی عورت کا جسم
میرے ہونٹوں نے لیا تھا رات بھر
جس سے ارباب وطن کے بے بسی کا انتقام
وہ برہنہ جسم اب تک یاد ہے!
(انتقام)
اس نظم میں راشدؔ نے اپنی ایک خاص حرکت کا بیان کیا ہے۔ جس کی نوعیت تو ضرور جنسی ہے لیکن جس سے جنسی کیف حاصل کرنا راشدؔ کا مقصد نہیں۔ وہ تو صرف انتقام لینے کاخواہاں ہے۔ اور انتقام ہی کی خواہش اس کو یہ اقدام کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ راشدؔ کی ذہنیت شکست خوردہ ذہنیت ہے۔ اور اس کی یہ حرکت، یہ اقدام، یہ عمل، اسی شکست خوردہ ذہنیت کانتیجہ ہے۔ یہ بالکل ایک نفسیاتی بات ہے کہ انسان جب حد سے زیادہ کمزور ہوجاتا ہے، اور اس میں اپنے سے طاقتور ہستی کے مقابلے کی سکت باقی نہیں رہتی۔ تو سپر تو بہرحال ڈالنی ہی پڑتی ہے۔ لیکن وہ دوسرے طریقوں سے مقابلہ کرتا رہتا ہے یا کم از کم مقابلے اور انتقام کے خیال کو دل سے نہیں نکالتا۔ چنانچہ وہ یا تو اپنے حریف کو نقصان پہنچاتا ہے یا گالی دیتا ہے۔
گالی کو خالص علمی نقطۂ نظر سے ذرا نفسیات کی روشنی میں دیکھیے۔! آخر ایک شخص گالی کیوں دیتا ہے؟ وہی انتقام کی ایک فطری خواہش اس کو ایسا کرنے کے لیے اکساتی ہے۔ ماں اور بہن کی گالیاں کہاں عام نہیں۔۔۔؟ صدیوں سے اسی طرح چلی آرہی ہیں۔ اور پھر زیادہ تر یہ دیکھا گیا ہے کہ کمزور انسان زیادہ گالیوں سے اپنی آتش انتقام کو بجھاتا ہے۔۔۔ یہ نظم کوئی گالی نہیں لیکن جب تک ان خیالات کی روشنی میں اس کو دیکھا نہیں جائے گا۔ اس وقت تک یہ سمجھ میں نہیں آسکتی!۔۔۔ صدیوں کی غلامی نے ہندوستان کو ناکارہ کردیا ہے۔ اس میں اتنی سکت نہیں کہ وہ آگے بڑھ سکے۔ اس میں اتنی جرات نہیں کہ وہ جبرو استبداد کی قوتوں کے خلاف کوئی جارحانہ اقدام کرسکے۔ اس کے نزدیک ان قوتوں سے انتقام لینا کوئی آسان کام نہیں۔ لیکن اس کے باوجود اجتماعی اور انفرادی دونوں حیثیتوں سے انتقام کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ انفرادی کوشش کی ایک مثال یہ بھی ہے جو راشدؔ نے اختیار کی ہے۔ اور جس میں اس کی شکست خوردہ ذہنیت کی تصویر بے نقاب ہے۔ لوگ اس کو عریاں نظم کہتے ہیں۔ میں اس کو ہندوستان کی کسمپرسی، زبوں حالی، اور بے بسی کے مرثیے کا ایک رخ سمجھتا ہوں۔
ہمارے سماجی ماحول کی ایک ’کارفرمائی‘ یہ بھی ہے کہ ہمارے نوجوان بری طرح جنسی بھوک کے شکار ہیں۔ صنف نازک پر یہاں جو پابندیاں عائد ہیں۔ وہ اور کسی ملک میں نظر نہیں آتیں۔ یہاں مرد اور عورت ایک دوسرے سے کھل کر مل نہیں سکتے۔ بات نہیں کرسکتے، ایک ساتھ اٹھ بیٹھ نہیں سکتے۔ ان حالات کانتیجہ یہ ہے کہ ہندوستانی نوجوانوں کے یہاں ہمیں جنسی دباؤ Sex-Repressor کا احساس ہوتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ان کا یہ فطری جذبہ گھٹ کر رہ گیا ہے۔ چنانچہ وہ کبھی کوئی تخلیقی کارنامہ پیش کرتے ہیں، تو اس کا اثر اس میں بھی صاف جھلکتا ہے۔ نئی شاعری بھی اس سے بچ نہ سکی۔ اکثر نئے شاعروں کے یہاں یہ کیفیت جگہ جگہ نظر آتی ہے۔ میراؔجی جب ’’ترغیب‘‘ میں یہ کہتا ہے کہ،
رسیلے جرائم کی خوشبو
مرے ذہن میں آرہی ہے
رسیلے جرائم کی خوشبو
مجھے حدِّادراک سے دور لے جارہی ہے
جوانی کاخوں ہے
بہاریں ہیں موسم زمیں پر
پسند آج مجھ کو جنوں ہے
نگاہوں میں ہے مرے نشے کی الجھن
کہ چھایا ہے ترغیب کا جال ہر اک حسیں پر
رسیلے جرائم کی خوشبو مجھے آج للچارہی ہے!
قوانین اخلاق کے سارے بندھن شکستہ نظر آرہے ہیں
حسیں اور ممنوع جھرمٹ، مرے دل کو پھسلا رہے ہیں
یہ ملبوس ریشم کے اور ان کی لرزش،
یہ غازہ۔۔۔ یہ انجن
نسائی خون کی ہر اک موہنی آج کرتی ہے سازش
مرے دل کو بہکا رہی ہے!
مرے ذہن میں آرہی ہے
رسیلے جرائم کی خوشبو!
(ترغیب)
تو وہ صرف اپنی ایک داخلی کیفیت کی تصویر ہی نہیں کھینچتا۔ بلکہ سارے ہندوستانی نوجوانوں کی ترجمانی کردیتا ہے۔
لیکن عریانی کے یہ پہلو، جن کا بیان اوپر ہوا، اردو کے سارے نئے شاعروں کے یہاں نطر نہیں آتے۔ ایسے شاعر بہت ہی کم ہیں۔ آج کل ہندوستان، چونکہ ایک انتشاری اور امتحانی دور سے گزر رہا ہے، اس لیے ہمارے زیادہ شاعر، اپنی شاعری میں وقت کے ضروری اور اہم مسائل کو سمو رہے ہیں۔ وہ اپنی شاعری سے بھی صور کا کام لینا چاہتے ہیں۔ ان میں سے اکثر پر عورت سوار نہیں۔۔۔!۔۔۔ خصوصاً وہ شاعر جن کا تعلق ترقی پسند تحریک اور ترقی پسند گروپ سے ہے۔ ان کے یہاں تو عریانی دور تک نظر نہیں آتی۔ بعضوں کے یہاں تو رومان تک کا فقدان ہے۔ وہ سب کے سب زندگی کی تلخ اور ٹھوس حقیقتوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔ فیض اگرچہ جدید شاعروں میں ایک بڑے مرتبے کا مالک ہے۔ لیکن اس کے یہاں عریانی کا شائبہ بھی نہیں ہوتا۔ ایک دور وہ ضرور تھا، جب وہ رومان کے چمن زادوں میں بھٹک رہاتھا۔ لیکن پھر رومان و حقیقت کے سنگم پر آگیا۔ اور آخر میں زندگی کی تلخ اور ٹھو س حقیقتوں کو بے نقاب کرنے لگا۔ یہی حال احمد ندیم قاسمی کا ہے، کہ وہ عرصے تک رومان کی دنیا میں رہا۔ لیکن ادھر آکر اس کی شاعری بالکل ایک دوسری راہ پر چلنے لگی۔۔۔ علی جواد زیدی، علی سردار جعفری، مخدوم محی الدین جانثار اختر اور جذبیؔ تو اپنی شاعری میں زندگی کے ضروری اور اہم مسائل کو پیش کرنے کے سوا اور کچھ جانتے ہی نہیں۔۔۔ وہ تو عورت تک کا تذکرہ کم کرتے ہیں۔ نئے شاعروں میں یوسف ظفرؔ، قیوم نظر اخترالایمان اور منیب الرحمن کے یہاں بھی بڑی سنبھلی ہوئی کیفیت ہے۔ ان کی شاعری میں بھی کوئی بے راہ روی نظر نہیں آتی۔ اگرچہ ان کی شاعری میں بھی داخلی عنصر غالب ہے، لیکن وہ کسی جگہ بہکتے نہیں۔۔۔ پھر بھی جدید شاعری کی عریانی، کے خلاف ایسا ہنگامہ ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔۔۔!
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page