غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام ’غالب کے تین اہم معاصرین: صہبائی آزردہ اور شیفتہ‘ کے موضوع پر دو روزہ قومی سمینار کا انعقاد
23/ ستمبر 2023
صہبائی آزردہ اور شیفتہ غالب کے ایسے معاصرین ہیں جو صرف شاعر نثر نگار اور محقق ہی نہیں سماجی زندگی میں فعال اور نظریہ ساز شخصیت کے مالک تھے۔ وہ اس نشاۃ الثانیہ کے نقیب تھے جو شمالی ہند میں رونما ہوئی اور جس کے نتیجے میں وہ خود اعتمادی پیدا ہوئی جس نے 1857 کی پہلی جنگ آزادی کے لیے زمین ہموار کی۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ذمہ داران لائق مبارکباد ہیں جنھوں نے ان تین معاصرین غالب کا انتخاب کیا اور ان پر باقاعدہ مذاکرے کا انعقاد کیا۔ ان خیالات کا اظہار فارسی و اردو کی عالمی شہرت یافتہ اسکالر پروفیسر آذر می دخت صفوی نے غالب انسٹی ٹیوٹ میں منعقد دو روزہ قومی سمینار ’غالب کے تین اہم معاصرین: صہبائی آزردہ اور شیفتہ‘ کے افتتاحی اجلاس میں کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کیا۔ سمینار کا افتتاح سابق سکریٹری حکومت ہند جناب نوید مسعود نے کیا۔ اس موقع پر انھوں نے کہا کہ غالب کی شخصیت اپنے عہد میں ایسی نمایاں ہوئی کہ دیگر افراد اس میں دب گئے حالانکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو دہلی میں اس وقت تمام ایسی شخصیات کا مجمع تھا جو اپنے اپنے فن میں کامل نظر آتی ہیں۔ صہبائی آزردہ اور شیفتہ غالب کے ایسے ہی معاصرین میں شمار ہوتے ہیں۔ افتتاحی اجلاس کی صدارت غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی نے فرمائی اپنے صدارتی خطاب میں انھوں نے کہا کہ معاصرین غالب کے تعلق سے یہاں پہلے بھی سمینار منعقد ہوئے ہیں لیکن یہ تین حضرات ذیلی طور پر تو زیر بحث آئے لیکن ان پر باضابطہ اب تک سمینار نہیں ہوا تھا۔ آج کا یہ سمینار ایک اہم گوشے کو روشن کرے گا اور مجھے امید ہے کہ جب یہ مقالات کتابی شکل میں شائع ہوں گے تو اس موضوع پر لوگ پھر سے توجہ کریں گے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے دائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے مہمانوں اور حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ غالب کے تین اہم معاصرین صہبائی، آزردہ اور شیفتہ کی شخصیت اردو اور فارسی ادب کے تعلق سے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ، غالب اور عہد غالب سے متعلق سمینار کا انعقاد کرتا رہتا ہے۔ اس بار ہم نے جس موضوع کا انتخاب کیا ہے وہ ایک اہم ضرورت کے مد نظر ہے۔ ان تینوں شخصیات نے صرف ادب میں ہی نہیں ہندستان کی پہلی جنگ آزادی میں خدمات دیں اور اس کی قیمت کسی نے گھر دے کر اور کسی نے جان دے کر ادا کی۔ میں تمام مہمانوں اور حاضرین کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور امید ہے کہ کل کے ادبی اجلاس میں بھی آپ کی بھرپور شرکت رہے گی۔ کل یعنی 24/ ستمبر کو صبح 10/ بجے سے شام 5/ بجے تک مقالات پیش کیے جائیں گے۔ جن مقالہ نگار حضرات کی شرکت متوقع ہے ان کے اسمائے گرامی اس طرح ہیں: پروفیسر شریف حسین قاسمی، پروفیسرعراق رضا زیدی،ڈاکٹر محمود فیاض ہاشمی،پروفیسر چندر شیکھر، پروفیسر علیم اشرف،پروفیسر احمد محفوظ، ڈاکٹر شمس بدایونی،پروفیسرعمر کمال الدین، پروفسیر اخلاق احمد آہن، ڈاکٹر کلیم اصغر، ڈاکٹر مشتاق تجاروی،ڈاکٹر واحد نظیر، ڈاکٹر قمر عالم، ڈاکٹر محمد مقیم، ڈاکٹر یاسر عباس اورڈاکٹر محضر رضا۔اجلاس کے صدور پروفیسر عتیق اللہ، پروفیسرعمر کمال الدین،پروفیسر نجمہ رحمانی، اور پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین اور ناظمِ اجلاس، ڈاکٹر سفینہ، ڈاکٹر علی احمد ادریسی، ڈاکٹر امیر حمزہ اور ڈاکٹر شاداب شمیم ہوں گے۔
23/ ستمبر 2023
صہبائی آزردہ اور شیفتہ غالب کے ایسے معاصرین ہیں جو صرف شاعر نثر نگار اور محقق ہی نہیں سماجی زندگی میں فعال اور نظریہ ساز شخصیت کے مالک تھے۔ وہ اس نشاۃ الثانیہ کے نقیب تھے جو شمالی ہند میں رونما ہوئی اور جس کے نتیجے میں وہ خود اعتمادی پیدا ہوئی جس نے 1857 کی پہلی جنگ آزادی کے لیے زمین ہموار کی۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ذمہ داران لائق مبارکباد ہیں جنھوں نے ان تین معاصرین غالب کا انتخاب کیا اور ان پر باقاعدہ مذاکرے کا انعقاد کیا۔ ان خیالات کا اظہار فارسی و اردو کی عالمی شہرت یافتہ اسکالر پروفیسر آذر می دخت صفوی نے غالب انسٹی ٹیوٹ میں منعقد دو روزہ قومی سمینار ’غالب کے تین اہم معاصرین: صہبائی آزردہ اور شیفتہ‘ کے افتتاحی اجلاس میں کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کیا۔ سمینار کا افتتاح سابق سکریٹری حکومت ہند جناب نوید مسعود نے کیا۔ اس موقع پر انھوں نے کہا کہ غالب کی شخصیت اپنے عہد میں ایسی نمایاں ہوئی کہ دیگر افراد اس میں دب گئے حالانکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو دہلی میں اس وقت تمام ایسی شخصیات کا مجمع تھا جو اپنے اپنے فن میں کامل نظر آتی ہیں۔ صہبائی آزردہ اور شیفتہ غالب کے ایسے ہی معاصرین میں شمار ہوتے ہیں۔ افتتاحی اجلاس کی صدارت غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی نے فرمائی اپنے صدارتی خطاب میں انھوں نے کہا کہ معاصرین غالب کے تعلق سے یہاں پہلے بھی سمینار منعقد ہوئے ہیں لیکن یہ تین حضرات ذیلی طور پر تو زیر بحث آئے لیکن ان پر باضابطہ اب تک سمینار نہیں ہوا تھا۔ آج کا یہ سمینار ایک اہم گوشے کو روشن کرے گا اور مجھے امید ہے کہ جب یہ مقالات کتابی شکل میں شائع ہوں گے تو اس موضوع پر لوگ پھر سے توجہ کریں گے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے دائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے مہمانوں اور حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ غالب کے تین اہم معاصرین صہبائی، آزردہ اور شیفتہ کی شخصیت اردو اور فارسی ادب کے تعلق سے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ، غالب اور عہد غالب سے متعلق سمینار کا انعقاد کرتا رہتا ہے۔ اس بار ہم نے جس موضوع کا انتخاب کیا ہے وہ ایک اہم ضرورت کے مد نظر ہے۔ ان تینوں شخصیات نے صرف ادب میں ہی نہیں ہندستان کی پہلی جنگ آزادی میں خدمات دیں اور اس کی قیمت کسی نے گھر دے کر اور کسی نے جان دے کر ادا کی۔ میں تمام مہمانوں اور حاضرین کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور امید ہے کہ کل کے ادبی اجلاس میں بھی آپ کی بھرپور شرکت رہے گی۔ کل یعنی 24/ ستمبر کو صبح 10/ بجے سے شام 5/ بجے تک مقالات پیش کیے جائیں گے۔ جن مقالہ نگار حضرات کی شرکت متوقع ہے ان کے اسمائے گرامی اس طرح ہیں: پروفیسر شریف حسین قاسمی، پروفیسرعراق رضا زیدی،ڈاکٹر محمود فیاض ہاشمی،پروفیسر چندر شیکھر، پروفیسر علیم اشرف،پروفیسر احمد محفوظ، ڈاکٹر شمس بدایونی،پروفیسرعمر کمال الدین، پروفسیر اخلاق احمد آہن، ڈاکٹر کلیم اصغر، ڈاکٹر مشتاق تجاروی،ڈاکٹر واحد نظیر، ڈاکٹر قمر عالم، ڈاکٹر محمد مقیم، ڈاکٹر یاسر عباس اورڈاکٹر محضر رضا۔اجلاس کے صدور پروفیسر عتیق اللہ، پروفیسرعمر کمال الدین،پروفیسر نجمہ رحمانی، اور پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین اور ناظمِ اجلاس، ڈاکٹر سفینہ، ڈاکٹر علی احمد ادریسی، ڈاکٹر امیر حمزہ اور ڈاکٹر شاداب شمیم ہوں گے۔
تصویر میں دائیں سے: جناب نوید مسعود، ڈاکٹر ادریس احمد، پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی،پروفیسر آذر می دخت صفوی
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |