سرسید احمد خان اور تہذیب الاخلاق
سرسید احمد خان کی پیدائش ۱۷ ؍اکتوبر ۱۸۱۷ کو دلی میں ہوئی، ان کے نانا خواجہ فرید الدین تھے اور شجرۂ نسب امام تقی سے ملتا تھا۔سرسید احمد خان کے والد جہاں زوال پذیر مغل سلطنت سے وابستہ تھے وہیں ان کے نانا خواجہ فرید الدین احمد برسوں انگریزی سرکار کی ملازمت کرچکے تھے، انگریزی زبان سے اچھی واقفیت تھی اور ایران کی سفارت کے فرائض انجام دے چکے تھے۔سرسید احمد خان کی شخصیت پر نانہال اور دادھیال کا اثر پڑا، وہ ماضی کی تاریکیوں سے بھی واقف تھے ساتھ ہی مستقبل کی تابناکی کو دیکھ سکتے تھے۔سرسید احمد خان کی زندگی پر ان کی والدہ کی شخصیت کا بھی اثر ہوا، ان کی والدہ نیک صفت، دانشمند، دور اندیش اور عمدہ اخلاق کا مرقع تھیں۔والدہ کی ان خوبیوں کے اثرات سرسید احمد خان کی زندگی میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔
سرسید احمد خان کی زندگی اور ان کے کارناموں پر کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں، ان کتابوں میں سرسید احمد خان کی ادبی، سماجی، سیاسی خدمات کے جائزہ کے ساتھ ان کی فکری بصیرت کو محور و مرکز بنایا گیا ہے۔
سرسید احمد خان کی خدمات کا دائرہ وسیع ہے، انہوں نے اردو شاعری کے مزاج کو بدلنے پر زور دیا تو ساتھ ہی آسان نثر کے فروغ میں عملی طور پر شریک ہوئے، انہوں نے جہاں مذہب اور مذہبی اشخاص پر کتابیں اور مضامین لکھے وہیں تاریخ ،سیاست کے ساتھ کچھ نہایت اہم اشخاص کی سوانح بھی لکھی۔مگر ان کا ایک نہایت اہم کارنامہ ان کی صحافت نگاری بھی ہے۔ صحافت ہی وہ ذریعہ تھا جس سے وہ عوام سے نہ صرف مخاطب ہوتے بلکہ ان کے نظریات کی تشہیر میںبھی صحافت نے نہایت اہم رول ادا کیا ہے۔انہوں نے کئی رسالے اور اخبارات نکالے مگر ’’ تہذیب الاخلاق‘‘ کی اشاعت ان کا وہ کارنامہ ہے کہ آج ایک صدی کے بعد بھی سر سید اور ان کے فکر کو سمجھنے میں معاون و مددگار ہے۔’’ تہذیب الاخلاق صرف ایک رسالہ نہیں تھا بلکہ اسے ایک مشن کے طور پر دیکھنا چاہیے۔سرسید اس رسالے سے قوم کی تقدیر بدلنے کے خواہاں تھے۔ ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ جاری کرنے کے سلسلے میں انہوں نے محسن الملک کو ایک خط میں لکھا تھا:
’’ایک اخبارخاص مسلمانوں کے فائدے کے لیے جاری کرنا تجویز کرلیا ہے اور تہذیب الاخلاق اس کا نام فارسی میں اور انگریزی میں محمڈن سوشل ریفارمر رکھ لیا ہے۔ اس کا منظر نامہ یہاں بہت خوبصورت کھدوالیا ہے، کاغذ بھی ایک برس کے لائق خرید لیا ہے۔‘‘
(سفرنامہ مسافران لندن۔ سید احمد خان۔ مرتبہ شیخ اسمعیل پانی پتی)
اس خط سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سرسید احمد خان ’’ تہذیب الاخلاق‘‘ کی اشاعت کے سلسلے میں کس قدر سنجیدہ تھے۔ سرسید احمد خان ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ سے مسلمانوں کی سماجی، سیاسی پسماندگی دور کرنا چاہتے تھے، انہوں نے خود اپنے مقاصد کی طرف اشارہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ اس پرچے میں صرف مضامین مفیدہ جو مسلمانوں سے متعلق ہیں چھاپہ ہوتے ہیں اور اس سبب سے اخبار امصار و دیار اس میں مندرج نہیں ہوتے۔ مقصود اس پرچے کے اجرا سے یہ ہے کہ مسلمانوں کے حسن معاشرت اور تہذیب کی ترقی ہو اور جو غلط اوہام مذہبی اس ترقی کے مانع ہیں اور درحقیقت وہ مذہب اسلام کے بر خلاف ہیں وہ بھی مٹاوے جاویں۔‘‘
لندن میں کتب خانوں کی چھان بین کے دوران سرسید کو ٹیٹلر اور اسپیکٹیٹرنامی دو رسالے ملے، بنیادی طور پر ان دونوں رسالوں کا مقصد انگریزوں کے اخلاق و عادات، رسم و رواج اور دوسرے شعبوں میں انقلاب برپا کرنا تھا۔ سرسید بھی ان دونوں رسالوں سے کافی متاثر ہوئے۔انہوں نے ان رسالوں کا بڑی توجہ کے ساتھ مطالعہ کیا، ’’ تہذیب الاخلاق‘‘ کی اشاعت کی ایک بڑی وجہ یہ دونوں رسائل رہے ہیں ۔ وہ قوم کی حالت، معاشرت کی اصلاح کے خواہاں تھے ،شاید یہی وجہ تھی کہ انہوں نے سوشل ریفارمر یعنی تہذیب الاخلاق کے نام کا انتخاب کیا ۔ اس رسالے کی پہلی اشاعت ۱۸۷۱ سے ۱۸۹۷ کے درمیان ہوئی۔’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے پہلے ورق پر انگریزی زبان میں The Mohammadan Social Reformدرج ہوتا تھا، اور ہر شمارے کی ابتدا ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ سے ہوتی تھی۔ جہاں تک ’’ تہذیب الاخلاق‘‘ کی اشاعت کی بات ہے تو یہ رسالہ کبھی ماہنامہ تو کبھی مہینے میں دو اور تین بار بھی شائع ہوتا تھا۔اس جانب خود سرسید نے بھی اشارہ کیا تھا کہ’’ یہ پرچہ ہر مہینے میں ایک بار یا دو بار جیسا کہ تقاضائے مضامین ہوگا چھپا کرے گی۔‘‘اس رسالے میں ان مضامین کو ترجیح کے ساتھ شائع کیا گیا جس میں مسلمانوں کی پسماندگی کے وجوہات اور ان کے حل کی بات کی گئی تھی۔
اگر ہم عہد سرسید میں مسلمانو ں کی زندگی کا مطالعہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ مسلمان ہر میدان میں کافی پسماندہ تھے۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد مسلمانوں کے طرز زندگی میں اور بھی گراوٹ آئی۔ ۱۸۵۷ کی پہلی جنگ آزادی (جسے بغاوت کے نام سے بھی جانا جاتا ہے)میں مجاہدین آزادی کو انگریزوں کے ہاتھوں شکست ملی، اس جنگ میں ہر مذہب اور ہر فرقے کے لوگوں نے شرکت کی تھی، مگر انگریزوں نے اس بغاوت کو مسلمانوں سے منسوب کردیا۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کو ہزاروں کی تعداد میں شہید کردیا گیا۔سرسید احمد خان پر اس اندوہناک واقعہ کا گہرا اثر ہوا ،یہی وجہ تھی کہ انہوں نے بغاوت کے چند برسوں بعد ’’ اسباب بغاوت ہند‘‘ نام کی ایک کتاب لکھی جس میں انہوں نے نہ صرف بغاوت کے وجوہات پر روشنی ڈالی بلکہ یہ ثابت بھی کیا کہ انگریزی حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے بغاوت کی صورت پیدا ہوئی۔ بغاوت میں ناکامی اور مسلمانوں کے شہادت نے سرسید جیسے حساس شخص کو بے چین کردیا ، انہوں نے جب بغور مسلمانوں کی زندگی کا مطالعہ کیا تو انہیں یہ اندازہ ہوا کہ دراصل مسلمان کئی سطح پر پسماندہ ہیں۔ مسلمانوں کی طرز زندگی کو بہتر بنانے کے لیے انہوں نے تعلیم پر بہت زور دیا۔ ان کا خیال تھا کہ جب تک مسلمان تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں ہوجاتے ان کی زندگی نہیں بدل سکتی۔ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ میں وہ لکھتے ہیں
’’ہم اپنی قوم کو بارہا بتا چکے ہیں کہ جب تک مسلمان خود اپنی تعلیم کا بوجھ آپ نہیں اٹھاویں گے اس وقت تک ان کی ذلت، ان کا ادبار زندگی نہیں ہوسکتا۔ اس طرح ہمارے قول کی تصدیق ہوچکی ہے اور جو رہی سہی باقی ہے وہ جلد ہونے والی ہے۔قوم کی جو حالت ہو نے والی ہے اور جو ہماری آنکھوں کے سامنے کھڑی ہے اس نے ہمارے دل کو دکھایا ہے، اس ہمدردی اور دل دکھنے سے ہم نے مسلمانوں کے لیے مدرستہ العلوم کے قائم کرنے کا بوجھ اُٹھایا ہے، مگر بہت افسوس کے بہت تھوڑے آدمیوں نے اس کے ساتھ ہمدردی کی…اے مسلمانوں دیکھو! وقت چلا جاتا ہے۔ گیا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا۔ تم سب پر فرض ہے کہ مدرستہ العلوم کی تکمیل پر توجہ کرو۔صرف اس کو روپے کی مدد درکار ہے۔ محنت کرنے والے موجود ہیں، پس ہمت کرو اور چندہ سے امداد کرو‘‘
اس اقتباس میں دو باتیں واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہیں، اقتباس کے پہلے حصے میں تہذیب الاخلاق کی اشاعت کا جواز پیش کیا گیا ہے تو دوسرے حصے میں انہوں نے خطیبانہ رخ اختیار کرتے ہوئے عوام کو مالی تعاون دینے کی بات کہی ہے۔سرسید احمد خان کی یہ کوشش بظاہر مسلمانوں کی حالت کو بہتر کرنے کی نظر آتی ہو مگر حقیقت میں وہ بلا کسی مذہبی اور نسلی تفریق وہ ملک و قوم کی ترقی کے خواہاں تھے، یہی وجہ ہے کہ جب ان کا تبادلہ ۱۸۸۴ میں غازی پور ہوا تو انہوں نے ہندو اور مسلم دونوں کے چندے سے ایک جدید طرز کا اسکول قائم کیا۔انہوں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ لوگوں کو اتحاد اور امن کے ساتھ رہنا چاہیے۔
’’ اگر کوئی مذہب سچ ہے اور معتقد اس کو خدا کی طرف سے جانتے ہیں تو ان کو یقین کرنا چاہیے کہ اس میں باہم انسانوں میں محبت اور ہمدردی پیدا کرنا سب سے بڑا فرض ہے، پس اگر اس فرض کو ہمیشہ خیال میں رکھیں تو کسی مذہب سے انسان کے دل میں بغض و حسد، کینہ پیدا نہیں ہوسکتا۔ہمارا تو یہی یقین ہے اور اسی پر برتاؤ ہے۔‘‘
سرسید کا خیال تھا کہ مسلمانوں کی ترقی تبھی ممکن ہے جب وہ اعلی تعلیم حاصل کریں، انہوں نے مشرقی علوم کے ساتھ ساتھ مغربی علوم کی حصولیابی پر زور دیا ، یہی وجہ ہے کہ قیام لندن کے دوران انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی کا دورہ کیا اور اور وہاں کے علمی ماحول سے متاثر ہوئے۔
سرسید احمد خان نے مشترکہ تہذیب اور قومیت پر بہت زور دیا ہے۔مولوی عبد الحق نے تو ’’تہذیب الاخلاق‘‘کی اشاعت کی ایک بڑی وجہ یہ بتائی ہے کہ سرسید اس رسالے سے مسلمانوں کے اندر قومیت کا جذبہ پیدا کرنا چاہتے تھے۔مولوی عبد الحق لکھتے ہیں:
’’سب سے پہلا فرض تہذیب الاخلاق کا یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے قوم میں نیشنلیٹی کا خیال پیدا کرے اور جب تک یہ خیال ہماری خیال میں پیدا نہ ہوگا ہم کبھی اعلی ترقی اور تہذیب کے رتبے تک نہیں پہنچ سکے۔‘‘
سرسید احمد خان نے خود بھی اس نیشنلٹی پر زور دیا ہے، انہوں نے تہذیب کی ترقی اور مذہبی مسائل پر گفتگو کو اہم بتایا ہے۔انہوں نے تعصب کو انسانی زندگی اور تہذیب و تمدن کا خسارہ بتایا ہے۔ سرسید احمد خان نے رسم و رواج ، ہمدردی آزادی رائے، بچوں کی تربیت، عورتوں کے حقوق، تعلیم، یہاں تک کے کھان پان اور اخلاقیات کے موضوع پر مضامین لکھا وہ دراصل مسلمانوں کو ایک مہذب اور مثالی قوم بنانا چاہتے تھے۔
سرسید احمد خان نے ’’ تہذیب الاخلاق‘‘ میں مذہب اسلام اور اسلامی تعلیمات کو سائنس کے نقطہ نظر سے بھی سچ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے سورۃ ’الفیل‘، سورہ جن وغیرہ سورتوں کی تفسیر بھی لکھی۔ ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:
’’ایک زمانہ یقین کا کہلاتا ہے جو بات کہی جاتی ہے وہ کیسی ہی عجیب ہو اس پر یقین ہوتا ہے، مگر حال کا زمانہ وہ زمانہ نہیں ہے بلکہ شک کا زمانہ ہے، کوئی بات ہو جب تک اس کے سچ ہونے کا یقین نہ آوے سچ نہیں مانی جاتی اور یہی سبب ہے کہ انسانوں کے مذہب پر یا یوں کہو یا ان کے اعتقاد ات پر زمانے نے سب سے برا اثر ڈالا ہے۔‘‘
’’’تہذیب الاخلاق‘‘ میں شامل مذہبی مضامین کے تعلق سے ڈاکٹرعبد الحئی نے لکھا ہے کہ سرسید اپنے رسالے میں مذہبی امور پر گفتگو نہیں کرنا چاہتے تھے مگر یہاں کی فضا نے انہیں مذہبی موضوعات پر لکھنے کے لیے مجبور کردیا۔خود سرسید کی ایک تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے مذہبی امور پر بحالت مجبوری اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان کے پیش نظر اسٹیل اور ایڈیسن کے رسالے اسپیکٹیٹر اور ٹیٹلر تھا۔ جس میں مذہب کے بجائے اخلاقی اور سماجی تعلیمات پر زور دیا گیا تھا۔
مختصر یہ کہ سرسید احمد خان نے ایک مشن ایک مقصد کے تحت ’’ تہذیب الاخلاق‘‘کی اشاعت کا فریضہ انجام دیا ،سرسید احمد خان اسلام کے متعلق پھیلی غلط فہمی کو دور کرنا چاہتے تھے،یہی وجہ ہے کہ انہوں نے قرآن میں پیش واقعات کو جدید سائنسی علوم کی روشنی میں ثابت کیا، اللہ کی وحدانیت ،کائنات کی تخلیق یا اس سے جڑی تمام چیزوں کو سچ ثابت کیا ہے۔ یہ رسالہ پہلی مرتبہ سات برسوں تک جاری رہا، چند برسوں کے وقفے کے بعد ۱۸۸۱ میں شروع ہوا ، ایک بار پھر سے اس رسالے کی اشاعت رک گئی اور تیسرے دور کا آغاز دسمبر ۱۸۹۳میں ہوا۔ سرسید احمد خان نے مذہب، سماج، سیاست، اخلاقیات، جیسے موضوعات پر اپنے خیالات پیش کیے، جہاں تک زبان کا تعلق ہے تو سرسید احمد خان نے سادہ اور عام فہم زبان کے استعمال پر زور دیا۔