بقلم : ڈاکٹر امام اعظم
ریجنل ڈائریکٹر
(مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی)
کولکاتا ریجنل سینٹر
________
میر تقی میر کا ایک نہایت مشہور شعر ہے :
کہا میں نے گل کا ہے کتنا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا
اردو شاعری میں زیستِ انسانی کی بے ثباتی پر اس طرح کے سیکڑوں اشعار کہے جاچکے ہیں اور اب بھی کہے جارہے ہیں۔ موت دنیا کی سب سے تلخ حقیقت ہے ۔ انسان کو قدرت بطنِ مادر میں اسی وقت زندگی بخش دیتی ہے جب اس کی سانسوں کا عمل جاری ہوتا ہے ، لیکن حیات و موت کے درمیان کا یہ وقفہ بس سانسوں کی آمد و شد تک ہی محدود ہے۔ کچھ زندگیاں بطنِ مادر میں شروع ہو کر وہیں ختم ہوجاتی ہیں اور کچھ کو قدرت اس دنیائے فانی میں بھیج کر کچھ مہلت دیتی ہے کہ وہ اس کارزارِ حیات میں اپنے فرائض کو انجام دے کر ابدی نیند سوجائے ۔ شوق لکھنوی کا مشہور شعر ہے :
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ ، کل ہماری باری ہے
یعنی یکے بعد دیگرے ہر ایک ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہی ہے۔ اس سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ موت کے ایک آفاقی حقیقت ہونے کے باوجود کچھ اموات ایسی ہوتی ہیں جو نہ صرف اس مرنے والے کے عزیز و اقارب کو بلکہ عوام الناس کو بھی رنج و غم میں مبتلا کردیتی ہیں۔ ایسی موت پر نہ صرف متوفی کے اپنے آنسو بہاتے ہیں بلکہ زمانہ افسوس کرتا ہے۔ اور ایسا اس وقت ہوتا ہے جب دنیا سے جانے والانہایت ہی کم وقفے میں کارہائے نمایاں انجام دے کر رخصت ہوجاتا ہے۔ ایسی ہی ایک مرگِ ناگہاں معروف شاعر جناب خورشید اکرم سوز اور محترمہ نزہت جہاں قیصر کے اکلوتے اور جواں سال لختِ جگر عزیزی شکیب اکرم کی ہوئی ۔
خورشید اکرم سوز صاحب سے غائبانہ تعارف تو پہلے سے تھا ، لیکن ہفتہ عشرہ قبل ان سے بذریعہ موبائل نیاز حاصل ہوا۔ موصوف پیشے سے مائننگ انجینئر اور ISO-Cell کے انٹرنل آڈیٹر ہیں، وہ ان دنوں ایوت محل (مہاراشٹر) میں ویسٹرن کول فیلڈز لمیٹیڈ (کول انڈیا لمیٹڈ) کے ماتحت ایک کوئلہ کان میں ملازم ہیں۔ ان کے شعری مجموعہ "سوزِ دل” (مطبوعہ۲۰۰۷ء) کا چرچا کافی سن رکھا تھا لیکن گزشتہ دنوں ان کی ترتیب شدہ کتاب "ذکر تیرا بعد تیرے” (تعزیتی تحریروں کا مجموعہ ) بزرگ محترم سیّد محمود احمد کریمی کے توسط سے دستیاب ہوئی۔ اس کا ذکر اخبارات اور وہاٹس ایپ کر ہورہا تھا اور یہ بھی جانکاہ خبر ملی تھی کہ ان کے اکلوتے نور چشم شکیب اکرم ۱۹فروری ۲۰۲۱ء کو چینئی میں ایک سڑک حادثے کا شکار ہوگئے تھے۔ انھیں اپولو ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا ۔ صورت حال سنگین تھی لہٰذا ٹرین ایمبولینس سے ۲۷مارچ ۲۰۲۱ءکو کولکاتا کے انسٹی ٹیوٹ آف نیورو سائنس لایا گیا جہاں داخل ہوتے ہی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ ۲۸مارچ ۲۰۲۱ءکو بعد نماز مغرب باگماری قبرستان، کولکاتا میں تدفین عمل میں آئی۔ نمازِ جنازہ خورشید اکرم سوز نے پڑھائی۔ ع
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!
مشیتِ ایزدی کے سامنے انسان مجبور اور لاچار ہے۔ کسی کی مجال نہیں کہ اس کی مشیت کے آگے دم مارے۔ انسان کے لیے بجز صبر و شکر کے کوئی چارہ نہیں ۔ پھر بھی کم عمری اور جواں سالی کی موت پر دل کچھ زیادہ ہی ملول ہوتا ہے۔ بقول شیخ محمد ابراہیم ذوق :
پھول تو دو دن بہارِ جاں فزا دکھلا گئے
حسرت اُن غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے
شکیب اکرم مرحوم کا خاندانی پس منظر اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ زیادہ تر لوگ اعلیٰ ملازمتوں سے منسلک ہیں یا درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ بہار شریف سے نسبت ہے۔ والد مائننگ انجینئر اور معروف شاعر ہیں۔ والدہ سیّدہ نزہت جہاں قیصر مگدھ یونیورسٹی سے گریجویٹ کی سند حاصل کی ہیں۔ دادا شیخ الحدیث مولانا عبدالصمد مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ میں وائس پرنسپل تھے۔ انھوں نے آزادی کی جدوجہد میں بھی حصہ لیا تھا ۔ نانا سیّد نثار احمد کسٹمز اینڈ ایکسائز محکمہ میں اعلیٰ افسر تھے۔ ایک ماموں سیّد وقار احمد قیصر راج شاہی یونیورسٹی ، بنگلہ دیش میں فزکس کے پروفیسر تھے جب کہ دوسرے ماموں سیّد ذو الفقار احمد قیصر محمد جان ہائی اسکول ، کولکاتا میں لائف سائنس کے استاد کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے۔
شکیب اکرم مرحوم (ولادت ۲۸ مئی۱۹۹۸ء، نرسا ، دھنباد) چینئی کی ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں سافٹ ویئر انجینئر کے عہدے پر متمکن ہونے والا تھا ۔ اس کم عمری میں دینداری کے ساتھ ساتھ بے حد خلیق اور ملنسار بھی تھا۔ اکلوتے بیٹے کے سانحٔہ ارتحال کے بعد خورشید اکرم سوز نے خود کو اور اپنی اہلیہ نزہت جہاں قیصر کو سنبھالا۔ اس دوران ان کے عزیز و اقارب اور اردو کے شعرا و ادبا کی کثیر تعداد نے ان کے غم میں شریک ہوتے ہوئے تعزیتی پیغامات ارسال کئے جو منظوم اور منثور دونوں تھے۔ کچھ احباب نے باضابطہ طویل تاثراتی مضامین لکھے جن کا مقصد شکیب اکرم کی تعزیت کے ساتھ اس کے غم زدہ والدین کی دل جوئی اور صبر کی تلقین تھا۔ سوز صاحب نے ان تعزیتی تحریروں کو حرزِ جاں بنا کر رکھا کہ یہی تحریریں اب ان کے لیے شکیب کی یادوں کی طرح جینے کا سہارا تھیں۔ اسی دوران چند احباب نے یہ مشورہ بھی دیا کہ کثیر تعداد میں موجود ان تحریروں کو زیادہ دنوں تک سنبھال کر رکھنا مشکل ہوگا، اس لیے مناسب ہوگا کہ انھیں کتابی شکل میں محفوظ کردیا جائے۔ سوز صاحب نے اس مشورے کو مناسب جانا اور اس پر عمل کرتے ہوئے زیرِ نظر کتاب ترتیب دی جو نہ صرف غم زدہ والدین کی اپنے مرحوم فرزند کے لیے آخری تحفہ کی شکل اختیار کرگیا بلکہ اردو کے تعزیتی ادب کا ایک بہترین نمونہ بھی اجتماعی طور پر منظرِ عام پر آیا۔
یہ کتاب نثری اور شعری تحریروں پر مشتمل ہے جو اردو کے علاوہ انگریزی میں بھی ہیں۔ اردو میں۶۳ اور انگریزی میں۳ طویل مضامین ہیں۔ منظومات میں حمد باریِ تعالیٰ اور نعتِ رسولِ پاک کے بعد ۶۰نظمیں اور ۱۵شعرا کی رباعیات و قطعات شامل ہیں۔ ۱۱ افراد کے تعزیتی مکاتیب کے علاوہ اردو میں۱۸ اور انگریزی میں۱۱مختصر تاثرات بھی کتاب کا حصہ ہیں۔ اس قدر تعزیتی تحریروں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان کے لکھنے والوں کا دائرہ بھی بہت وسیع ہوگا اور یہ درست بھی ہے کہ ہندوستان کے مختلف علاقوں کے علاوہ بیرونِ ہند بالخصوص امریکہ ، انگلینڈ ، پاکستان اور بنگلہ دیش کے قلم کاروں کے جذباتی تاثرات بھی خورشید اکرم سوز صاحب کو موصول ہوئے جسے انھوں نے کتاب میں شامل کیا۔ یہ کتاب ۲۰۲۳ءمیں دربھنگہ ٹائمز پبلی کیشنز، دربھنگہ (بہار) سے شائع ہوئی ہے اور کتاب کی تزئین و آرائش میں خود مرحوم کے والدین نے کوئی کسر نہیں رکھ چھوڑی گویا یہ کتاب ہی ان کے فرزند سے وابستہ آرزؤں ،تمناؤں اور خوابوں کی تعبیر ہے۔
کتاب کے مطالعہ کے دوران جہاں میں نے ان غم زدہ والدین کے رنج و غم میں خود کو بھی شریک پایا وہیں اہلِ قلم حضرات کی تعزیتی تحریروں سے بھی بے حد متاثر ہوا۔نتیجتاً عزیزی شکیب اکرم مرحوم کے حوالے سے چند مصرعوں نے ایک نثری نظم کی صورت اختیار کرلی، جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے :
زندگی /ہلکے سے ارتعاش سے اُٹھ جاتی ہے چونک کر/اور جب
تسلسل ٹھہر جاتا ہے/تو آنکھوں میں اُتر آتا ہے/ اذیت ناک اشارہ
کیا پھر کوئی عمرِ جواں/تحلیل ہوئی ہے بھُربھُری اور گیلی مٹی میں
کیا پھر کوئی سانحہ/ نم آنکھوں کی سطح پر/تبدیل ہوا ہے؟
وہ ماضی/ جو کبھی جگنو کی طرح گُم تھا/حسین خوابوں میں/یکلخت بکھر گیا ہے
اے شکیب اکرم!/کل تک—تم/مچل رہے تھے/زندہ عناصر کے تمام حوالوں میں
ماں کی ممتا اور باپ کی شفقت/اپنے قہقہوں کے پالنے میں تمہیں/ دُعائیں دے رہی تھیں
حکمِ ربیّ/نہ ٹلتا ہے/نہ ٹالا جاسکتا ہے/ سنگ و تیشہ کا منظرنامہ/ وِجدان ہوتا ہے
باطن کی شفافیت کا/ جسارت کے پہلو میں بغاوت نہیں ہوتی/ اس لئے بھی کہ/آدمی کو سرفرازی حاصل ہے
آتشِ شوق کا یہ رشتہ/ دَورِخزاں میں بھی خود کو/سنوارنے کا کام کرتا ہے/موت کا راستہ/امتحانِ شعور سے ہوکر گزرتا ہے
بھائی محمد خورشید اکرم سوز/ اور محترمہ نزہت جہاں قیصر/فخرِ ایماں یہی ہے کہ/شہادت موت کی علامت نہیں ہوتی
جنت الفردوس کے دروازے پر/آپ کا بیٹا آپ کا منتظر ہے/چمکتے دمکتے چہرہ کے ساتھ!
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اپنے حبیب پاک کے صدقے مرحوم شکیب اکرم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور ان کے والدین کو صبر جمیل پر قائم رہنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین بجاہِ سیّدالمرسلین۔ علامہ اقبال کے اس شعر پر اپنی گفتگو ختم کرتا ہوں :
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
***
_________
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page