سونو شرما ایک نیٹورک مارکیٹر اور موٹیویشنل اسپیکر ہیں۔ میں نے ان کی ایک ویڈیو دیکھی جس میں وہ اس نکتے کی وضاحت کر رہے تھے کہ خدا نے انسان کو دو کان اور ایک ہی زبان کیوں دیے ہیں۔ دو کان اور ایک زبان عطا کیے جانے کا مطلب یہ ہوا کہ انسان بولے کم اور سنے زیادہ۔ یہ ایک منطقی توضیح ہے جو ہمارے جسم کی ظاہری ساخت کے اعتبار سے کی گئی ہے، ورنہ ایک کان سے بھی آدمی اتنا ہی سنے گا جتنا وہ دو کانوں سے سن سکتا ہے۔ سونو شرما اس منطق سے در اصل اپنے سامعین کو یہ سمجھانا چاہ رہے تھے کہ زیادہ بولنے سے بہتر ہے کہ انسان زیادہ سنے۔
آپ میں سے اکثر لوگوں نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا ہوگا کہ سننا بولنے سے بہتر ہوتا ہے۔ ہمارے سماج میں بولنے کا عمل خوبی میں شمار ہوتا ہے۔ اگر کوئی دس آدمی کے بیچ میں اپنی بات رکھ لے تو اسے ہیرو تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ سننے کا عمل خوبی میں شمار نہیں ہوتا، اس لیے اس کی اہمیت پر بات بھی نہیں کی جاتی۔ اکثر لوگ سننا ضروری نہیں سمجھتے ہیں جب کہ فطرت کے قانون میں پہلے سننا ہے اور بعد میں بولنا ہے۔ ایک بچہ پیدا ہوتے ہی بولنے نہیں لگتا، وہ سالوں تک پہلے ہر ایک کی بات غور سے سنتا ہے پھر بولنا شروع کرتا ہے۔ فطرت کا یہ قانون بتاتا ہے کہ سننے کا کام پہلے کرنا ہے اور بولنے کا کام بعد میں۔ انسان فطرت کے اس قانون کو بھول کر عملی زندگی میں سننے سے پہلے بولنا چاہتا ہے۔ آپ جب بھی سنے بغیر بولیں گے تو لازمی طور پر آپ مہمل بات کریں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ ایسی بات کر جائیں جس کے لیے آپ کو بعد میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔
گفتگو کے دوران زیادہ سننے اور کم بولنے کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ بطور سامع اپنے علم میں اضافہ کرتے ہیں۔ جب آپ بول رہے ہوتے ہیں تو فکری سطح پر آپ جہاں ہوتے ہیں وہیں رہتے ہیں۔ بولتے ہوئے آپ کے علم میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ دوران گفتگو آپ نے کسی کا کچھ نہیں سنا تو آپ کی بات میں بھی ایسا کچھ نہیں ہوگا جس سے دوسرے محظوظ ہوں۔ آپ گھنٹوں بولتے رہیں گے تو بھی آپ کی بات اثرانگیز نہیں ہوگی۔ بنا سنے ہوئے بولنا در اصل بنا سوچے ہوئے بولنا ہے۔
سننا بولنے کے برعکس عمل نہیں ہے۔ سننا در اصل بولنے سے قبل بولنے کی تیاری کرنا ہے۔ سن کر بولنا مکمل تیاری کے ساتھ بولنے کا ایک عمل ہے۔ جب آپ ہمہ تن گوش ہوتے ہیں تو فکری سطح پر آپ ہر لمحہ بدل رہے ہوتے ہیں۔ سننا علم میں مسلسل اضافے کا باعث ہوتا ہے۔ سننے کا عمل آپ کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ آپ حاصل ہونے والی معلومات کا تجزیہ اپنی معلومات کے سامنے رکھ کر کریں اور ایک بہتر نظریہ قائم کریں۔ سن کر بولنا در اصل سوچ کر بولنا ہے۔ گفتگو کے دوران زیادہ سننا آپ کو اس قابل بناتا ہے کہ آپ زیادہ موثر انداز میں بات کر سکیں۔ انگریزی میں کہتے ہیں:
A good listener is a good speaker
جس کے اندر سننے کی صلاحیت اچھی ہوتی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اندر بولنے کی صلاحیت بھی اچھی ہے۔
آپ سن کر بولتے ہیں تو آپ کی گفتگو سب کی گفتگو ہو جاتی ہے۔ وہ صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں ہوتی، اس میں معنی اور مفہوم بھی ہوتے ہیں۔ آپ دوسروں کو سنتے ہیں تو دوسرے بھی آپ کی گفتگو میں دلچسپی لیتے ہیں۔ جب آپ بنا سنے ہوئے بولتے ہیں تو آپ کی گفتگو میں صرف آپ ہی موجود ہوتے ہیں۔ وہ معنی سے خالی ہو جاتی ہے اور سننے والے بور ہوتے ہیں۔
آپ روز ہی ایسے لوگوں سے ملتے ہوں گے جو دوران گفتگو آپ کا ایک لفظ نہیں سنتے ہیں۔ وہ خود ہی طے کر لیتے ہیں کہ آپ کا مسئلہ کیا ہے اور خود ہی اس کا جواب بھی دینے لگتے ہیں۔ وہ سارا وقت بولتے رہتے ہیں اور اتنا بولتے ہیں کہ بولتے بولتے بھٹک جاتے ہیں۔ ان کے ایک گھنٹے کی گفتگو میں مشکل سے ایک یا دو منٹ کی گفتگو کام کی ہوتی ہے۔ وہ زیادہ بول کر اپنا بھی وقت ضائع کرتے ہیں اور دوسروں کا بھی۔
در اصل جو صرف بولنے سے مطلب رکھتے ہیں ان کو لگتا ہے کہ سننا ایک نن پروڈکٹیو(Non-Productive) عمل ہے اور بولنا ایک پروڈکٹیو(Productive) عمل ہے۔ ان کو یہ نہیں معلوم کہ سننے کا عمل بولنے کے عمل کو نتیجہ خیز بناتا ہے۔ بنا سنے ہوئے بولنے والے صرف امپریس(Impress) کرنا چاہتے ہیں اور سن کر بولنے والے اکسپریس(Express) کرنا چاہتے ہیں۔ سن کر بولنے والے خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور سنے بغیر بولنے والے صرف الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے انگریزی میں ایک کہاوت ہے:
Speak to express not to impress
میں پچھلے مہینے پیرس میں کچھ اسکالرز کے درمیان بیٹھا تھا۔ جن میں اکثر ہندوستانی اور پاکستانی تھے۔ بات دیسی اور ملکی سیاست پر ہو رہی تھی۔ ہندوستان کے ایک پی ایچ ڈی اسکالر جن کا تعلق سائنس کے میدان سے ہے، وہ پاکستان کے داخلی مسائل پر بنا رکے ہوئے اور بنا سر پیر کے بولے جا رہے تھے۔ ان کو ایک پاکستانی اسکالر، جن کا تعلق سوشل سائنس سے ہے، نے بیچ میں روکنا چاہا کہ وہ اپنی رائے دے سکیں تو انہیں ایسے نظر انداز کیا جیسے وہ خود پاکستان سے ہوں اور وہاں کے اندرونی حالات سے ان سے بہتر کوئی واقف نہ ہو۔ میں نے نوٹس کیا کہ ان کی اس حرکت کے بعد نہ صرف پاکستانی اسکالر بلکہ وہاں موجود دوسرے اسکالرز نے موصوف کی گفتگو میں دلچسپی ختم کر دی۔ اس کا انہیں احساس نہیں ہوا کیونکہ ان کا مدعا اپنی گفتگو کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ وہ در اصل وہاں موجود سبھی کو اپنی گفتگو سے مرعوب کرنا چاہ رہے تھے۔ جب کہ وہاں سبھی باشعور اور صاحب علم لوگ موجود تھے۔ آپ مرعوب صرف ناسمجھ اور کم علم لوگوں کو کر سکتے ہیں۔ پڑھے لکھے لوگوں کے درمیان بیٹھ کر آپ تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ تبادلہ خیال میں جتنی اہمیت بولنے کی ہے اتنی ہی اہمیت سننے کی ہے۔ آپ سننے کی عادت ڈالیں تاکہ جب آپ کے بولنے کا وقت آئے تو بہتر اور موثر طریقے سے اپنے خیالات کا اظہار کر سکیں اور سننے والے اپنی دلچسپی بھی برقرار رکھ سکیں۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |