تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے ـجس کا مادہ حـقـ ق ہےـ عربی لغت میں باب”تفعیل” پر تحقیق کا مطلب ہے جاننا ،پہچاننا ، معنی ثابت کرنا ، یا سچائی ثابت کرنا ،کھرے کھوٹے کی تمیز کرنا ، حقیقت کا ادراک کرناـ
انگریزی میں تحقیق کو ریسرچ (Research) کہاجاتا ہےـ جو کہ دو لفظوں کا مجموعہ ہے:
1: Re 2: Search
” Re” کا مطلب دوبارہ کے ہیں جبکہ "Search” کا مطلب تلاش کرنے کے ہیںـ یوں موجود مواد کی تصیح اور وضاحت کے لئے کی جانے والی کاوشوں کو تحقیق یا ریسرچ (Research) کا نام دیا جاتا ہےـ یعنی حق ، حقیقت اور سچائی کی تلاش میں منضبط جستجو یا طریقہ کار کا نام تحقیق ہےـلہذا تحقیق سے مشکلات اور مسائل کا حل تلاش کیا جاتا ہے، اصول اور قوانین وضع کیے جاتے ہیں ،تحقیق سے انسان علم میں اضافہ ہوتا ہے اورنئےنظریات قائم ہوتے ہیںـ
تحقیق کے لغوی معنی کسی شے کی حقیقت کا اثبات ہے ـ اصطلاحا یہ ایک ایسے طرز مطالعہ کا نام ہے جس میں موجود مواد کے صحیح یا غلط کو بعض مسلمات کی روشنی میں پرکھا جاتا ہے ـ
لفظ تحقیق کا اگر محدود معانی بیان کیا جائے تو وہ یوں ہے :
"کسی تعلق کی صداقت کی تصدیق یا تردید کا نام تحقیق ہے ـ”
مختلف ادوار میں مختلف ماہرین نے تحقیق کی مختلف تعریفات بیان کی ہیںـرشید حسن خان نے تحقیق کی تعریف یوں کی ہے:
” حقائق کی بازیافت کا نام تحقیق ہےـ”
ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں :
” تحقیق کے معنی ہیں کسی مسئلے یا کسی بات کی کھوج لگا کر اس طور پر اس کی تہہ تک پہنچنا کے وہ مسئلہ وہ بات اصل شکل ،حقیقی روپ میں پوری طرح سامنے آجائے ”
قاضی عبدالودود کے نزدیک:
” تحقیق کسی امر کو اس کی اصل شکل میں دیکھنے کا نام ہے-”
گیان چند جین قاضی عبدالودود کی تعریف کو نا کافی اور مبہم کہتے ہوئےتحقیق کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں :
” نامعلوم یا کم معلوم کو جاننا ،یعنی جو حقائق ہماری نظروں کے سامنے نہیں ہیں انہیں کھوجنا ، جو سامنے تو ہیں لیکن دھندلے ہیں ان کی دھند دور کرکے انہیں آئینہ کر دیناـ”
ڈاکٹر سید عبداللہ اپنے مضمون ” تحقیق و تنقید ” میں لکھتے ہیں:
"تحقیق کے لغوی معنی کسی شے کی حقیقت کا اثبات ہےـ اور اصطلاح میں یہ ایک ایسے طرز مطالعہ کا نام ہے جس میں موجود مواد کےصحیح اور غلط کو بعض مسلمات کی روشنی میں پرکھا جاتا ہے۔”
قاضی عبدالودود کے نزدیک:
” تحقیق کسی امر کو اس کی اصل شکل میں دیکھنے کا نام ہے-”
ڈاکٹر تبسم کاشمیری کے نزدیک:
"تحقیق صداقت یا سچائی کی تلاش کا نام ہےـ اور اس صداقت کو محققین منطقی اور معروضی عمل کے ذریعے پہنچتے ہیںـ”
یوسف سرمست تحقیق کے حوالے سے رقمطراز ہیں :
” تحقیق سے مراد صرف حقائق جمع کرنا نہیں بلکہ تحقیق کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ حقائق کا از سر نو جائزہ لے کر نئے نتائج تک پہنچنے کی کوشش کی جائے ـ”
According to John W. Creswell :
“Research is formal systematic and intensive process of carrying on a scientific method of analysis.”
According to Waltz and Bansell :
“Research is a systematic, formal, rigorous and precise process employed to gain solutions to problems or to discover and interpret new facts and relationships.”
ڈاکٹر تلک سنگھ کے نزدیک:
” تحقیق علم کا وہ شعبہ ہے جس میں منظم لائحہ عمل کے تحت سائنسی اسلوب میں نامعلوم و نا موجود حقائق کی کھوج اور معلوم و موجود حقائق کی نئی تشریح اس طرح کرتے ہیں کہ علم کے علاقے کی توسیع ہوتی ہے ـ”
(یہ بھی پڑھیں ثقافت اور تہذیب کےمفاہیم کا معنوی وصوری جائزہ – نثار علی بھٹی )
ان تمام خیالات میں تحقیق کے بارے میں ایک مشترک عنصر ملتا ہےـ وہ حقیقت کی تلاش کا جذبہ اور حقائق کی بازیافت ہےـ جو مختلف ذرائع سے حاصل کیے گئے اعداد و شمار کی چھان بین کے بعد نئی دریافت پیش کرتی ہے-
تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردۂ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصۂ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔مزید واقعاتی حقائق کا جائزہ لینے اور ان کے اثرات معلوم کرنے کا نام بھی تحقیق ہے ۔
تحقیق ایک ایسے طرز فکر کا نام ہے جو منظم اور سائنسی طریقہ کار کو بروئے کار لاتے ہوئے مخصوص میدانوں میں پیش نظر مسائل کا حل تلاش کرتی ہےـ
مجموعی طور پر ہم تحقیق ایسے باضابطہ طریق کار کو کہہ سکتے ہیں جو حقائق کی دریافت ، باز یافت اور تقابلی طور پر حدود علم کی توسیع کا سبب بنے ـگویا تحقیق نتیجہ نہیں طریق کار ہےـ
تحقیق بعض مفروضات (Assumptions) کے ساتھ تقابل کرتے ہوئے فرضیات (Hypotheses) کے حقائق دریافت کرنے میں مدد دیتی ہےـ یہ منظم، معروضی، مدلل اور کلی ہوتی ہےـ
تحقیق کا مقصد محض صداقت کی تلاش اور حقائق کی تفتیش یا بازیا فت نہیں بلکہ یہ ایک نہایت ذمہ داری ،دقت نظری اور ریاضت کا کام ہےـتحقیق کا کام بہت دشوار گزار اور محنت طلب ہےـ اس راہ پر چلنے کے لئے صرف شوق ہی نہیں، جنون درکار ہےـ لیکن حقیقت تک رسائی چاہنے والے دیوانے کو فرزانگی کی بھی ضرورت ہے تاکہ وہ سمندر کی تہہ سے صرف گوہر مراد تلاش کر سکے ـدراصل تحقیق تلاش و جستجو کے اعمال کو تمام تر قوت ارادی سے جاری رکھنے کا نام ہے ـیہ کام بہت ذمہ داری ، متانت ، خلوص اور حقیقت پسندانہ کاوش کا متقاضی ہے ـ سچائی کی تلاش مطالعہ ، مشاہدہ ،موازنہ اور تحریر کے ذریعے کی جاتی ہے ـاس تلاش میں محقق کی سوچ حقائق پر اثر انداز نہیں ہو پاتی اور وہ اپنے متعین کردہ مفروضوں کو اس وقت تک مفروضہ ہی سمجھتا ہے جب تک حقائق خود اپنی زبان سے انہیں حقائق کا درجہ نہ دیں ـ
تحقیق صداقت کی معروضی تلاش ہے اور معروضی صداقت صرف وہی نہیں ہوتی جو کوئی ایک شخص موضوعی طور پر جانتا ہو بلکہ یہ لازم ہے کہ دوسرے لوگ بھی اسی کی طرز پہ اس کیفیت کو معروضی طور پر ہی جان سکیں ـ
ادبیات کے شعبے میں تحقیق کھرے اور کھوٹے کی چھان بین یا کسی بات کی تصدیق کو کہا گیا ہےـ یعنی ہم اپنے علم و ادب میں کھرے کو کھوٹے سے ، حق کو باطل سے الگ کرسکیں ـیہ تلاش اور تصدیق ایک باضابطہ طریق کار کے مطابق انجام پاتی ہےـ یہ طریقہ کار منطقی اور معروضی ہوتا ہےـ ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے تیقن اور تحقیق دونوں کو صداقت کی تلاش کا عمل قرار دیتے ہوئے زیادہ بہتر طور پر وضاحت کیہےـ ان کے نزدیک:
"صداقت کی تلاش تو مابعدالطبعیات کا بھی اہم مقصد ہے لیکن اس صداقت تک رسائی کا ذریعہ روحانی عمل ہے، جبکہ تحقیق میں صداقت تک پہنچنے کا ذریعہ منطقی اور معروضی عمل ہے-”
تحقیق کا مذہبی نظریہ:ـ
دین اسلام میں تحقیق کا سلسلہ روز اول سے ہی شروع ہے- واقعات کی صحت معلوم کرنےکا اصول اللہ تعالی نے قرآن مجید کی سورۃ الحجرات میں یہ کہہ کر قائم کر دیا ہے:
” اے ایمان والو ! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق بدکردار غیر ذمہ دار شخص سے کوئی خبر لائے تو اس کی خوب تحقیق کر لیا کرو کرو ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو بے علمی میں ضرور پہنچاؤ پھر تم اپنے کیے پر پچھتانے لگو ـ”
اس آیت مبارکہ میں واضح طور پر کسی امر کو جاننے کے لیے خوب تحقیق کر لینے کا حکم ہے ـ قبولیت سے قبل تحمل مزاجی کے ساتھ بات کی اچھی طرح سے اس وقت تک تحقیق کرتے رہنا چاہیے جب تک اس کی صحت و صداقت معلوم نہ ہو جائے ـ گویا محض روایات یا معلومات کے جمع ہو جانے کو علمی تصدیق قرار نہیں دیا جا سکتا جب تک کہ اس کے دوسرے شواہد جمع نہ کر لئے جائیں ـ
تحقیق کا اہتمام اگر نہ کیا جائے اور صرف زبانی باتوں پر یقین کر لیا جائے تو آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"آدمی کے جھوٹا ہونے کی یہ دلیل کافی ہے کہ جو کچھ سنے (بغیر تحقیق کے) روایت کر دے ـ”
قرآن مجید اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم دونوں نے تحقیق کرنے کی ہدایت فرمائی ـ جس کے پیش نظر مسلمان ہر دور میں حفاظت و تدوین حدیث کے عمل میں نہ صرف محتاط رہے بلکہ جو کچھ سنا پہلے مکمل طور پر تحقیق کی ـحتیکہبعضوں نے صحت حدیث معلوم کرنے کے لیے دور دراز کے سفر کئے اور مختلف نوعیت کی مشکلات کا سامنا کیا ـڈاکٹر سید مرتضی جعفری لکھتے ہیں:
"اسلام میں تحقیق کی روایت بہت قدیم ہے ـرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے تقریبا ایک صدی بعد محدثین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی جمع آوری کا کام شروع کیا اور بڑی تحقیق اور محنت سے ان کے ارشادات کو یکجا کرنے کا کام جاری رکھا ـنہ صرف احادیث کو تحقیق کی کسوٹی پر پرکھا ، بلکہ جن راویوں سے یہ احادیث ملیں، ان کے بارے میں اور خاص طور پر ان کے افعال و کردار کے متعلق مکمل تحقیق کے بعد ان کی روایتوں کو قبول کیا ـاور اگر کہیں ذرا بھی شک وشبہ کی گنجائش نظر آئی ، اس کی حدیث کو قبول کرنے سے انکار کر دیا”
ڈاکٹر ایم سلطانہ بخش لکھتی ہیں :
"سائنس میں تحقیق کا عنصر بہت حد تک مسلمانوں کا مرہون منت ہے ـ کیونکہ علم کے لیے تجربات ، مشاہدات ، باریک بینی اور تلاش و جستجوئے حقائق میں مسلمان یونانیوں سے بھی آگے بڑھ گئے تھے ـاگرچہ یونانی محققین بیشتر حقائق کی فراہمی کے ذمہ دار تھے ،تاہم اس ضمن میں عربوں کی بالادستی ان کی عمیق نظری کا باعث تھی ـالفارابی ، الغزالی ، ابن خلدون ، ابن سینا اور ابن رشد جیسے سائنس دانوں اور ماہرین علم نے جدید طریقہ تحقیق کی بنیاد ڈالی اور ان ہی کی تحقیقات سے اہل یورپ نے استفادہ کیاـ”
تحقیق کے اصول وتقاضے:ـ
تحقیق چونکہ ایک نہایت مشکل اور محنت طلب کام ہےـ لہذا تحقیق کرنے کے لیے جہاں ایک محقق میں مختلف صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہے وہاں ان صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے چند اصول و ضوابط بھی طے پا چکے ہیں جن پر عمل کرکے ہی محقق اپنی تحقیق کو معتبر بنا سکتا ہےـ
تحقیق کا کام سرانجام دینے والوں کو جن بنیادی اصول وشرائط کو مد نظر رکھنا چاہئے ان میں سب سے اولین”صداقت اور عدل” پر ایمان رکھنا ہےـ زمانے میں موجود ات کے حوالے سے اسے اس بات پر یقین ہونا چاہیے کہ اس دنیا میں موجود ہر چیز سے متعلق سوچا جا سکتا ہے، ہر چیز کو دہرایا یا تبدیل کیا جاسکتا ہے اور نتائج کی بنیاد پر کوئی پیشگی گفتگو بھی کی جاسکتی ہےـ محقق اپنے یقین کی بنیاد پر سچ کی تلاش کی سعی کرتا ہے- جب ہم کوئی دعوی سنتے یا پڑھتے ہیں تو اس کے درست یا غلط ہونے کے بارے میں تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیںـ اس مشکل وقت میں محقق کا کردار یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنے دلائل کی مدد سے حق کی تلاش کرے اور اپنی بے لاگ رائے سے لوگوں کی رہنمائی کرےـبقول ڈاکٹر جمیل جالبی :
” تحقیق تلاش کے ذریعے حقائق معلوم کرنے اور ان کی تصدیق کا نام ہے”
صداقت کسی بھی نئے یا پختہ کار محقق سے غیر جانبدار اور غیر متعصبانہ طریقہ کار اور رویے کی طالب ہوتی ہے ـ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ بے تعصبی تحقیق کی جان ہےـ تحقیق کی غرض و غا یت ہرگز یہ نہیں ہونی چاہیے کہ پہلے سے متعین شدہ مفروضات کو درست یا غلط ثابت کیا جائےـیا بے لاگ تحقیق سے اپنے قائم کردہ نتائج کی تائید یا تردید نہ ہو تو اس تحقیق کو توڑ مروڑ کر اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیا جائے- یہ ادبی بددیانتی ہےـمحقق کو تحقیق کے ممکنہ نتائج کے لیے کھلےدل سے تیار ہونا چاہیےـ ڈاکٹر عطش درانی لکھتے ہیں:
"صداقت کی تلاش ایک ایسا عمل ہے جو سابقہ تجربات پر مبنی قدم بہ قدم آگے بڑھتا ہے”
محقق کے سابقہ تجربات اس کے مشاہدات پر مبنی نئے تصورات کو جنم دیتے ہیں یہ تصورات علم کی بنیادی اکائیاں قرار پاتے ہیں بعض تصورات جامد اور بعض متغیر ہوتے ہیں تحقیق انہی متغیرات کو قابو میں رکھ کر نئے تصورات کے ساتھ تقابلی مطالعہ کرنے کا نام ہے ـاس لیے ضروری ہے کہ محقق عدل کرنے والا ، سچ بولنے والا ،غیر متعصب ہو اور اس کے ساتھ اس کے اندر توازن اور اعتدال بھی موجود ہوـ
محقق کو تحقیقی کام کرنے کے لیے بے حد محنت کی ضرورت ہوتی ہےـ اور محنت کا یہ کام انتہائی صبر اور لگن کے ساتھ انجام دینا پڑتا ہےـ اگر دیکھا جائے تو تخلیق دنیا کا مشکل ترین کام ہے ادب کی تخلیق اس سے بھی بڑھ کر مشکل ہےـلیکن تحقیق میں یہ مشکلات اور زیادہ بڑھ جاتی ہیں کیونکہ یہ پرانی روایات اور عقائد کو نئے انداز میں دیکھنے کا عمل ہےـ اس بارے میں ڈاکٹر غلام مصطفی خان کہتے ہیں:
” تحقیق کو بطور ایک طرز زندگی اپنانا ہی اولین ،بنیادی اور لازمی شرط ہےـ اور اس راستے کا پہلا قدم ہے سچی لگنـ اور جو فی الحقیقت ہر صبر آزما کام کے لیے ضروری ہے ـ”
کیونکہ تحقیق بے حد محنت اور بال کی کھال اتارنے کا عمل ہےـ اس لیے یہ کام صرف وہی لوگ انجام دے پاتے ہیں جن کے اندر محنت ، صبر اور برداشت کی خصوصیات موجود ہوں تاکہ وہ نتائج کے حصول تک پوری دلجمعی سے کام کرتے رہیں اور اگر طویل تحقیق کے بعد بھی ان کے ہاتھ کچھ نہ لگے تو دل برداشتہ نہ ہوںـاس ضمن میں رانا سلطان محمود اپنی کتاب میں یوں رقم طراز ہیں:
” محقق اس وقت تحقیق کے میدان میں کامیاب ہوگا جب وہ پوری لگن اور تندہی سے اپنے کام میں محو ہو کر دن کا چین اور رات کا سکون کام پر قربان کرکے اور شب و روز کی محنت کے بعد ہی تحقیقی سرمایہ فراہم کرنے کے لائق ہو سکتا ہےـ”
محقق جس میدان میں تحقیق کرے اس سے متعلقہ تمام تکنیکی تعلیم و تربیت پر عبور حاصل ہونا اس کے لیے ضروری ہے ـمحقق کو سب سے پہلے تو اپنی زبان اور اپنے مضمون پر مکمل مہارت حاصل ہونی چاہیے ـعربی ، فارسی کلاسیکل زبانوں کا درجہ رکھتی ہیں ـ اردو کے محقق کو ان مضامین میں تھوڑی بہت مہارت حاصل ہونا انتہائی ضروری ہے جس سے اردو کی ادبی تحقیق میں نمایاں فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں ـ کیونکہ تمام تاریخی تذکرے ، ملفوظات ، مکتوبات ، دستاویزات اور اسی نوعیت کی دوسری اہم کتابیں بکثرت فارسی میں ہیں جن کے حوالے اردو تحقیق میں لائے جاتے ہیں ـ پھر عربی سے کسی قدر واقفیت بذات خود اچھی اردو ،اچھی فارسی کے لیے بے حد ضروری ہےـ
تحقیق ایک مسلسل عمل ہے ـوقت کے ساتھ ساتھ نئی معلومات اور ان کا علم ہمارے سامنے آتا رہتا ہےـ بہت سی چھپی ہوئی حقیقتیں پردوں سے نکل آتی ہیںـ یہی وجہ ہے کہ تحقیق موجودہ وقت تک حاصل شدہ معلومات پر ہی مبنی ہوتی ہےـ آنے والے وقت میں جب نئی معلومات اور نئے راز سامنے آتے ہیں تو ان سے حاصل ہونے والی معلومات کو جو تحقیق کے اصول کے مطابق ہوں لازمی قبول کرلینا چاہیے، خواہ یہ نئی حاصل ہونے والی معلومات پہلے کی گئی تحقیق کو رد بھی کرتی ہوں ـاسی طرح دریافت کا عمل جاری رہے گا ـ
تحقیقی امور سر انجام دیتے ہوئے قابل اعتماد ماخذ تک رسائی ایک محقق کے لئے بہت ضروری ہےـمعلومات یا شہادتیں ایسی ہونی چاہیئے کہ ان کی مدد سے تحقیق کی حدود کے اندر رہتے ہوئے بہتر نتائج نکالے جا سکیں موجودہ وقت تک میسر معلومات کے مطابق قابل اعتماد ماخذ سے کام لیا جانا چاہیے- غیر متعین اور مشکوک مآخذات کی بنیاد پر تحقیق سے قابل قبول نتائج نہیں نکالے جا سکتےـ
تحقیق کی زبان کو واضح ، غیر مبہم اور براہ راست ہو نا چاہیے-مرصع زبان تحقیق کی ضرورت کے پیش نظر بے اثر ہوتی ہے اور وہ تحقیق کے سائنسی اور ذہنی عمل کا ساتھ نہیں دے سکتیـمحقق کے طرز تحریر میں تکمیل، وحدت ، وضاحت ، سنجیدگی اور تاثر وغیرہ کو لازمی عنصر تصور کیا جاتا ہے ـ رشید حسن خان بھی تحقیق کی زبان کی آرائش اور مبالغہ آرائی کے حق میں نہیں ہیں لکھتے ہیں :
"تحقیق کی زبان کو مبالغے اور آرائش سے پاک ہونا چاہئے اور صفاتی الفاظ کے استعمال میں بہت زیادہ احتیاط کرنا چاہیے ـاردو میں تحقیق جس طرح انشاپردازی کا آرائش کدہ بن کررہ گئی ہے وہ عبرت حاصل کرنے کے لئے کافی ہے- اور تحقیق کو اس حادثے کا نشانہ نہیں بننے دینا چاہیے- ”
قاضی عبدالودود یوں رقمطراز ہیں:
"استعارہ و تشبیہ کا استعمال صرف توضیح کے لیے کرنا چاہئے ، آرائشی گفتار کی غرض سے نہیںـتناقض و تضاد اور ضعف استدلال سے بچنا چاہیےـ اور مبالغہ کو تحقیق کے لیے سم قاتل سمجھنا چاہیے ـ تحقیق کا مطمح نظر یہ ہونا چاہئے کہ کم سے کم الفاظ میں پڑھنے والے پر اپنا مافی الضمیر ظاہر کر دےـ”
محقق کا مطالعہ وسیع تر ہونا چاہیےـ کیونکہ تحقیق کا موضوع ، مسئلہ ، فرضیہ ، مفروضہ وغیرہ اسی وسعت مطالعہ سے سامنے آ سکتے ہیں- ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی لکھتے ہیں :
"محقق کا مطالعہ وسیع ہونا چاہیے کہ تحقیق کا دارومدار مطالعہ پر ہے-”
محقق میں استدلال ،تفکر اور اصول تحریر سے آگاہی کی خوبیوں کے علاوہ بنیادی اخلاقی امور کی تربیت سے بھی متصف ہونا چاہیے ـ معلومات کے مآخذ کو صیغہ راز میں رکھنا ، کاپی رائٹ کا احترام کرنا ، دوسروں کی عزت نفس کا خیال رکھنا ،رد عمل ہمیشہ مثبت ہونا وغیرہـ دوسروں کی تحقیق سے استفادہ کرتے ہوئے ان کا حوالہ نہ دینا غیر اخلاقی ہی نہیں ،بلکہ غیرتحقیقی عمل بھی ہے ـ
المختصر ہم اس ساری بحث سے ان نتائج پر پہنچ سکتے ہیں کہ اگر ایک محقق تحقیق کرتے ہوئے ان اصول و شرائط کو پیش نظر رکھتا ہے تو وہ بہترین محققین کی فہرست میں شامل ہو سکتا ہےـ
حوالہ جات:ـ
1)ایم سلطانہ بخش ، اردو میں اصول تحقیق ، لاہور: اردو اکیڈمی ، 2012
2) تبسم کاشمیری ، ادبی تحقیق کے اصول ، اسلام آباد : مقتدرہ قومی زبان ، 1992
3)عبدالرزاق قریشی ، مبادیات تحقیق ، لاہور : خان بک کمپنی
4) رفاقت علی شاہد ، تحقیق شناسی ،
5) گیان چند ، تحقیق کا فن ، اسلام آباد : مقتدرہ قومی زبان (جلد دوم) 2002
6) عبداللہ سید ، مباحث ، لاہور : مجلس ترقی ادب 1925
7) عطش درانی ، جدید رسمیات تحقیق ، اردو سائنس بورڈ 2005
8) رشید حسن خان ، ادبی تحقیق : مسائل اور تجزیہ ، لاہور : الفیصل غزنی سٹریٹ ، 2003
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |