تنقید کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ تنقید سے ہی ہمیں اپنی خوبیوں اور خامیوں کا علم ہوتا ہے۔ ہم اپنے تنقیدی شعور کی مدد سے خود کو بہتر طور پر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ دوسرے لوگ اپنے تنقیدی شعور کی روشنی میں ہمیں پڑھتے اور پرکھتے ہیں۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ہم کیا ہیں اور کیسے ہیں۔ یہ بہت ممکن ہے کہ ہمارے تنقیدی شعور میں اتنی بالیدگی نہ ہو جتنی کہ ان لوگوں کے تنقیدی شعور میں ہو جو ہم پر تنقید کرتے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود بھی ہمارا معاملہ یہ ہے کہ جب بھی ہم پر تنقید کی جاتی ہے ہم برہم ہو جاتے ہیں۔ تنقید کو شاید اس کے آغاز سی ہی مثبت عمل نہیں سمجھا گیا۔ غالباً یہی وجہ رہی کہ مثبت اور منفی تنقید کی اصطلاحیں وضع کرنا پڑیں۔ ان دو اصطلاحوں کی مدد سے در اصل یہ سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ مثبت تنقید اچھی چیز ہے اور منفی تنقید بری چیز ہے۔ مثبت تنقید کا مطلب یہ ہوا کہ کسی کی خوبی کا اعتراف کرنے کے ساتھ اس کی خامی کی نشاندھی بھی کردی جائے۔ یعنی اس کی تعریف علامہ جمیل مظہری کے اس شعر کے مصداق ہے:
نہ سیاہی کے ہیں دشمن نہ سفیدی کے ہیں دوست
ہم کو آئینہ دکھانا ہے دکھا دیتے ہیں
منفی تنقید سے مراد یہ ہے کہ اس میں خوبیوں کا ذکر نہ ہو بلکہ صرف خامیاں ہی خامیاں بیان کی گئی ہوں۔ اس میں یہ بھی ممکن ہے کہ کسی کی بظاھر نظر آنے والی خوبی کو بھی خامی کے کسی زمرے میں رکھ دیا جائے۔ اول الذکر تنقید مفید ہے اور ثانی الذکر تنقید غیر مفید۔ مثبت تنقید تعمیری ہوتی ہے اور منفی تنقید تخریبی ہوتی ہے۔ ایک میں بھلائی کا پہلو پوشیدہ ہوتا ہے اور دوسرے میں تنقیص و تحقیر کا راز پنہا ہوتا ہے۔
محاسن کے بیان کے ساتھ معائب کی نشاندھی کرنا بلا شبہ ایک مثبت عمل ہے۔ مثبت تنقید بالکل اس آئینے کی طرح ہے جس میں آپ اپنی شکل دیکھتے ہیں۔ آئینہ آپ کو دکھاتا ہے کہ آپ کے چہرے پر کہاں داغ اور دھبے ہیں۔ جب آپ کسی پروگرام اور فنکشن میں جانے کی تیاری کرتے ہیں تو گھر سے باہر قدم نکالنے سے قبل ایک بار آئینہ ضرور دیکھتے ہیں۔ آپ کو اپنے چہرے پر کہیں داغ نظر آتا ہے تو آپ اسے صاف کرتے ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا ہے کہ چہرے پر کوئی داغ نظر آنے اور بالوں میں کسی قسم کی کجی دیکھنے کے بعد آپ ہاتھ میں پتھر اٹھا کر آئینہ پر دے مارتے ہیں۔ اس کے بر عکس آپ اندر ہی اندر خوش ہوتے ہیں کہ باہر نکلنے سے قبل آپ کی کمی آپ کو نظر آ گئی۔ آپ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر مکمل طور پر مطمئن ہو جاتے ہیں پھر باہر قدم رکھتے ہیں۔ آپ کو اطمنان بخشنے میں آئینہ اہم رول ادا کرتا ہے۔
بالوں کی ترتیب کا بگڑنا اور چہرے پر کہیں کسی طرح کے داغ کا رہ جانا بہت معمولی سی بات ہے لیکن اس کے لیے بھی آپ محتاط نظر آتے ہیں۔ یہ کوئی عیب کی بات بھی نہیں ہے، خوبصورت بن کر باہر نکلنا برائی میں شامل نہیں ہے۔
آپ نے کبھی اس بات پر غور کیا ہے کہ چہرے کے داغ دھبے کو لیکر آپ جس قدر محتاط نظر آتے ہیں کیا اسی قدر آپ اپنی شخصیت اور اس سے جڑی ہوئی چیزوں میں پائی جانے والی کمی کو لیکر حساس ہوتے ہیں؟ ہم انسان ہیں اور انسان ہونے کے ناطے اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ ہمارے اندر کمیاں ہوتی ہیں۔ بہت جلد غصہ ہو جانا، اونچی آواز میں بات کرنا، غرور کا پیدا ہو جانا، غریبوں کی تذلیل کرنا، اپنے اوپر کسی کو ترجیح نہیں دینا اور اس طرح کی دوسری اخلاقی کمیاں انسان کے اندر موجود ہوتی ہیں۔ اگر آپ مصنف یا ناول نگار ہیں تو ممکن ہے آپ کی تحریروں میں بہت سی خامیاں راہ پا جائیں جن کا آپ کو احساس تک نہ ہو۔ ہماری شخصیت میں کیا نقص ہے اور ہماری تحریر میں کیا کمی ہے اس کا پتہ ہم خود سے صحیح صحیح نہیں لگا سکتے۔ ہمارے اندر بہت سی کمیاں ہوتی ہیں جن پر کبھی ہماری نظر نہیں پڑتی۔ ہماری اس کمی کا ٹھیک ٹھیک تخمینہ دوسرے لوگ لگاتے ہیں۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ہمارے اندر کیا کیا کمیاں ہیں اور کہاں کہاں اصلاح کی ضرورت ہے۔ ہماری نادانی دیکھیں کہ جب کوئی ناقد ہماری کمی بتاتا ہے تو ہمیں اس کی بات اچھی نہیں لگتی۔ ہم کو ہمارے معائب بتانے والے برے لگتے ہیں۔ ہم ان کو اپنا دشمن سمجھ لیتے ہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ ہماری کمی کی طرف اشارہ کرنے والوں کا ہم شکریہ ادا کریں اور اپنی اصلاح کرنے کی کوشش میں لگ جائیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارا رویہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔
یہ در اصل انسانی فطرت ہے۔ انسان بنیادی طور پر تعریف پسند واقع ہوا ہے۔ اس کے سامنے اس کی خوبیوں کا ذکر کریں تو اسے اچھا لگتا ہے اور اس کی کمیوں کی طرف اشارہ کریں تو اسے بڑی تکلیف پہنچتی ہے۔ یہ تنقید اس کی ذات کے تعلق سے ہو یا اس کی تحریر و تصنیف کے تعلق سے وہ اسے برداشت نہیں کر پاتا۔ وہ بنا غور و فکر کیے اپنے دفاع میں کود پڑتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے وہ ہمیشہ ایک کمی اور نقص کے ساتھ لوگوں کے درمیان زندہ رہتا ہے۔ میں مولانا وحیدالدین خان صاحب کو ایک جگہ سن رہا تھا۔ وہ اپنی ایک گفتگو میں کہہ رہے تھے کہ Criticism is Super Blessing۔ بلاشبہ تنقید ایک طرح کی رحمت ہے۔ تنقید انسان کو یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اپگریڈ کرے اور بہتر سے بہترین بنائے۔ ہم ہیں کہ کسی کی تنقید کو Blessing کی بجائے اپنی ذات اور صلاحیت پر ایک حملہ تصور کر لیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم تنقید کے مفہوم اور اس کی اہمیت سے واقف ہی نہیں ہیں۔ ہم تنقید کو ہمیشہ اپنی ذات پر کیا جانے والا ایک حملہ سمجھتے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ بعض دفعہ تنقید ہرزہ سرائی کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ اس کا مقصد کردار کشی اور انسان کو نیچا دکھانا ہوتا ہے۔ لیکن ہر تنقید کو اس زمرے رکھنا مناسب نہیں ہے۔ ہمارے آس پاس اور دور دراز بہت سے ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو بڑی باریکی سے ہم کو اور ہم سے وابستہ ہر شئے کو پڑھتے اور پرکھتے ہیں۔ ہماری عادات و اطوار اور کردار و گفتار پر ان کی نظر ہوتی ہے۔ ہم کیا لکھتے ہیں اور کیسے لکھتے ہیں، وہ بہت گہرائی اور گیرائی سے اس کا مطالعہ کرتے ہیں۔ وہ ہماری خوبیوں کا اعتراف کرتے ہیں اور دوسروں سے ان کا تذکرہ بھی کرتے ہیں۔ اگر وہ ہم پر تنقید کرتے ہیں اور ہمارے اندر پائی جانے والی کمیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو اس کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ ان کا مقصد ہمیں نیچا دکھانا نہیں ہوتا بلکہ وہ خامیوں سے اوپر اٹھنے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔ وہ ہمارے لیے آئینے کی مانند ہوتے ہیں۔ ان پر خفا اور غصہ ہونے سے خود ہمارا اپنا نقصان ہوتا ہے۔ جمیل مظہری کا ہی ایک شعر ہے:
چہرے کی سیاہی دھو دیجئے آئینوں پہ غصہ مت کیجئے
آئینے تو سچ ہی بولیں گے آئینے کو جھوٹا کون کرے
ہمارے سامنے ہماری تعریف کرنے والوں سے کہیں بہتر وہ لوگ ہیں جو ہمارے سامنے ہماری کمی بتاتے ہیں۔ اپنی تعریف سن کر خوش ہونے سے بہتر ہے کہ ہم اپنی کمی معلوم کر کے اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔
اگر تو دوست ہے تو بتا سب خامیاں میری
سنی ہے بارہا غیروں سے اپنی خوبیاں میں نے
آپ پر جب تنقید کی جائے تو آپ خوش ہو جایا کریں۔ آپ یہ خیال کریں کہ آپ پر کی جانے والی ہر تنقید آپ کے اندر کی ایک کمی کو دور کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ ممکن ہے منفی تنقید کے ذریعہ کوئی آپ کی کردار کشی اور آپ کو چھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کرے۔ ایسے میں پریشان ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ اس طرح کی تنقید کی بنیاد متعصبانہ سوچ پر منحصر ہوتی ہے۔ اس کا اثر آپ کی ذات پر نہیں ہوتا۔ اس لیے آپ اس پر بھی چراغ پا نہ ہوں۔ ایسے لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ آپ کا ردعمل ان کے لیے آکسیجن کا کام کرتا ہے۔ آپ کی خاموشی ان کی موت کا سامان بن جائے گی۔ آپ کے لیے کرنے کا کام صرف یہ ہے کہ مثبت تنقید کو ویلکم کریں اور منفی تنقید کو اگنور کر دیں۔ اچھی زندگی گزارنے کا یہ بہترین طریقہ ہے۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page