تنقیدی تاثرات / ڈاکٹر مشیر احمد – امتیاز احمد
مبصر: امتیاز احمد-ایم۔ اے۔ اردو (سالِ اول)
شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
تخلیق اور تنقید کا رشتہ چولی دامن کا ہے۔ جب بھی کوئی تخلیقی فن پارہ منصۂ شہود پر نمودار ہوتا ہے تو اس کی ادبی وقعت و معیار اور فنی اہمیت و معنویت کو اجاگر کرنے کے لیے تنقید کا سہارا لینا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ یہ تنقید ہی ہے جو ہمیں زبان و ادب کے نئے زاویوں، جدید تناظر اور نادر مبادیات و امکانات سے روشناس کراتا ہے۔ البتہ تنقیدی عمل کے لیے ضروری ہے کہ ناقد حمایت و مخالفت، تنقیص و تحمید اور تاثرات و تعصبات کے یک رخی رجحان سے احتراز کرے اور معتدل و میانہ روش اختیار کرتے ہوئے مکمل دیانتداری و ایمانداری سے فن پارے پر خامہ فرسائی کرے۔ اس تناظر میں جب ہم ڈاکٹر مشیر احمد کی زیر نظر تصنیف ‘تنقیدی تاثرات’ کو دیکھتے ہیں تو اس میں ایک متوسط اور بالینس زاویۂ نظر اور اسلوب نگارش نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر مشیر احمد کو مکتوباتی ادب پارے سے خاصا شغف ہے جس کا اندازہ ان کی کتاب ‘خطوط غالب کے ادبی مباحث’ اور اس کتاب میں شامل خلیل الرحمٰن اعظمی، چکبست، شمس الرحمن فاروقی، شبنم گورکھپوری اور پنڈت جواہر لال نہرو کے مضامین سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔اردو زبان و ادب میں مکتوباتی فن پارے ایک گراں قدر اہمیت رکھتے ہیں۔ ان خطوط میں بہت سے ایسے گوشے اور زاویے وا ہوتے ہیں جن کی گنجائش دیگر اصناف ادب میں بہت کم ہی ہوتی ہے۔
زیرِ نظر کتاب ‘تنقیدی تاثرات’ تیرہ مضامین اور ایک دیباچہ پر مشتمل ہے۔ ان مضامین میں اردو کی مختلف اصناف مثلاً تحقیق، داستان، افسانہ، ڈرامہ، مضمون نگاری اور مکتوب نگاری کو زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ اس نیرنگیٔ مضامین اور وسعتِ عناوین سے مصنف کے مطالعے کی گہرائی و گیرائی اور زورِ قلم کا علم ہوتا ہے۔
دیباچہ میں مصنف نے مضامین کی نوعیت، ان کی ترتیب و تنظیم کی وجوہات، پروفیسر ابن کنول، ڈاکٹر اشفاق احمد، اسامہ عزیز، ارمان علی اور اپنی بہن و بہنوئی حفصہ خاتون اور مسعود اختر انصاری کے احسان و حمایت کا ذکر کیا ہے جنہوں نے کتاب کی تیاری و اشاعت میں دامے درمے قدمے سخنے ان کو تعاون دیا اور حوصلہ افزائی کی۔
کتاب کی ابتداء گورکھپور کی ادبی فضا بالخصوص تحقیق و تدوین کے منظر نامے سے شروع ہوتی ہے۔ مصنف نے اس مضمون کے ابتدائی سطور میں اردو ادب میں تحقیق و تدوین کی مروجہ روش اور اس کے تنزل پذیر حالات کو زیرِ بحث لا کر اس کے قابلِ غور پہلوؤں کی طرف طلبہ و اساتذہ کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ہے مثلاً علمی و ادبی سرقہ، اجرت پر مبنی مقالہ نویسی، اقتباسات کی کثرتِ استعمال اور ثانوی مواد کے عدم حوالہ اور ریسرچ اسکالرز کا تحقیق، تنقید اور تدوین متن کے اصول سے عدم واقفیت وغیرہ۔
مصنف نے تحقیق و تدوین کے خال و خد اور پیچ و خم کو اجاگر کرنے کے بعد گورکھپور کی تحقیقی و تدوینی خدمات کو پانچ ممتاز و عبقری شخصیات پروفیسر محمود الٰہی، پروفیسر نور العین لاری، ڈاکٹر اختر بستوی، پروفیسر افغان اللہ، ڈاکٹر محمد رضی الرحمن کے زیر نگرانی ہونے والے کل اکیاسی 81 تحقیقی مقالے کے اجمالی تعارف کے ذریعے اجاگر کیا ہے۔ متذکرہ مقالات کے اجمالی خاکے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ شعبۂ اردو گورکھپور یونیورسٹی میں مختلف موضوعات پر مقالے تحریر کیے گئے جن میں سے بعض مقالے معیاری اور اہم ہونے کی وجہ سے زیورِ طبع سے آراستہ ہو کر منظرِ عام پر آ چکے ہیں اور اربابِ ادب سے قبولِ عام بھی حاصل کر چکے ہیں جبکہ بعض مقالات نظرِ ثانی اور ترمیم و اضافہ کے بعد منصۂ شہود پر لانے کے متقاضی ہیں۔
کتاب کا دوسرا مضمون راجندر سنگھ بیدی کے افسانہ گرم کوٹ کے تجزیہ پر مشتمل ہے۔ مصنف نے اس مضمون میں سب سے پہلے بیدی کی افسانوی کائنات اور اس کی ادبی امتیازات و خصوصیات پر سرسری روشنی ڈالا ہے۔ بعد ازاں اس افسانہ کی اہمیت و معنویت اور عصری مناسبت و موزونیت کو مختلف ذیلی عناوین مثلاً مثالی بیوی کا کردار، پر خلوص شوہر اور مشفق باپ کا کردار، تنگ دستی میں خود اعتمادی کا بکھراؤ اور غریب گھرانے کے بچے و عورت کے حالت زار کی تصویر کشی کے توسط سے اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور آخر میں اس کی عصری موزونیت و معتبریت اور ادبی معیار و مقام کو منکشف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بیدی کا افسانہ ‘گرم کوٹ’ واقعات کی ٹھوس حقیقت، جزئیات کی موزونیت اور جذباتیت کی شدت و حدت سے کپکپاتا اور تھرتھراتا معلوم ہوتا ہے۔ اسی لیے یہ افسانہ آج بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا پہلے تھا اور اس کی معنویت آج بھی قائم و دائم ہے۔
کتاب کا تیسرا اور چوتھا مضمون بالترتیب دو شخصیتوں خلیل الرحمن اعظمی اور محسن الملک کی سرگزشتِ زندگی پر مشتمل ہیں۔ مصنف نے اول الذکر شخصیت کی زندگی کے مختلف گوشوں مثلاً ابتدائی تعلیم، ملازمت و معیشت اور ادبی خدمات کو ان کے خطوط کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان خطوط سے جہاں ایک طرف ان کی ابتدائی آزمائشوں اور تگ و دو کی جھلکیاں ابھرتی ہیں وہیں دوسری جانب ان کی ادبی ناقدری اور گمنامی کے اسباب و علل بھی منکشف ہوتے ہیں۔ خلیل الرحمان اعظمی کے دستیاب خطوط کے تناظر میں ان کا سوانحی خاکہ پیش کرنے کا یہ ایک کامیاب کوشش ہے البتہ یہ خطوط ایک مکمل و جامع سوانحی خاکے کے لیے ناکافی معلوم ہوتے ہیں۔ آخر الذکر شخصیت کے ادبی و تہذیبی اور اصلاحی خدمات کو متنوع حوالہ جات کی روشنی میں اجاگر کیا گیا ہے۔ سر سید کے رفقائے عزیز میں محسن الملک ایک غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سر سید اپنے تہذیبی و اصلاحی مشن کے ہر فیصلے میں ان کو شامل رکھتے تھے۔ ڈپٹی نذیر احمد، مولوی ذکاء اللہ، الطاف حسین حالی اور علامہ شبلی نعمانی کی معیت و تعاون اور خدمات پر تو بہت کچھ لکھا گیا ہے البتہ محسن الملک کی معیت و خدمات اور کارناموں پر بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ مصنف کا یہ تاثراتی مضمون اس خلا کو پُر کرنے کی ایک عمدہ کاوش ہے۔
کتاب کا اگلا مضمون انشاءاللہ خاں انشاء کی داستان ‘رانی کیتکی کی کہانی’ کے تفصیلی تجزیے پر محیط ہے ۔ مصنف نے پہلے انشاء اللہ کی مختصر حالات زندگی اور ان کی ادبی مقام و مرتبہ کو زیرِ بحث لایا ہے۔ اس کے بعد کہانی کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے جس میں کہانی کی سن تصنیف، اس کے دریافت کرنے والے، کہانی کا وجہِ تسمیہ، خلاصہ، شعریات، کردار کی نوعیت، سماجی پس منظر، رسوم و رواج کے مختلف لوازمات مثلاً ہندوستانی تہذیب و معاشرت کی جھلک، عیش و عشرت کا سماں، متنوع تقاریب اور آرائش و زیبائش کے گوناگوں رنگ، جزئیات نگاری، زبان و بیان اور کہانی میں مستعمل الفاظ و جملوں کی موجودہ ہیئت و ساخت وغیرہ۔ مصنف نے مضمون کے اختتام پر اس کی اہمیت و افادیت اور معنویت و ادبیت کو مختلف نقادوں کے اقتباسات کی روشنی میں ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
چکبست کے مضمون میں مصنف نے ان کے شعر و سخن کے مرتبہ اور مقام کے اجمالی تعارف کے بعد ان کی نثری خدمات سے متعارف کرانے کی کوشش کی ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے ان کے خطوط اور ایک ڈرامہ ‘کملا’ کو زیرِ بحث لایا ہے۔ ان خطوط میں جہاں شعر و شاعری کے متعلق ان کے افکار و نظریات نمودار ہوئے ہیں وہیں ان کی شخصی خاکساری و انکساری بھی واضح ہوئے ہیں جبکہ سماجی بے راہ روی، بے جوڑ شادی بیاہ کے نقصانات اور جاگیردارانہ نظام کے ظلم و ستم کی جھلکیاں ان کے ڈرامہ ‘کملا’ میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مصنف نے ان خطوط اور ڈرامہ کے تناظر میں چکبست کی نثری خدمات کی اہمیت و عظمت کو اجاگر کیا ہے۔
پروفیسر محمد انصار اللہ نظر کے مضمون کی ابتدائی سطور میں مصنف نے ان کے علمی و ادبی سفر اور ملازمت کے منصبوں کا ذکر کیا ہے۔ اس کے بعد ان کے تحقیقی مقالے پر قدر تفصیل سے روشنی ڈالی ہیں۔ اس مضمون میں ‘گورکھپور میں تحقیق و تدوین کی روایت’ کا ایک صفحہ جوں کا توں وارد ہوا ہے جو غیر ضروری تکرار کا غماز ہے۔ بعد ازاں مصنف نے پروفیسر محمد انصار اللہ نظر کے مضمون ‘کچھ اپنے بارے میں’ کو بغیر ترمیم و اضافے کے نقل کیا ہے جس سے پروفیسر انصار اللہ نظر کے سوانح ابھر کر سامنے آ جاتا ہے۔ اس مضمون میں مصنف کا تاثراتی اسلوب اور زاویہ نگاہ مفقود نظر آتا ہے۔ مضمون کو جوں کا توں نقل تو کر دیا گیا ہے لیکن اس پر اپنا کوئی تاثر یا نظریہ قلم بند نہیں کیا ہے۔
کتاب کا آٹھویں مضمون ‘اردو میں مضمون نگاری کی روایت’ اپنی جامعیت و قطعیت کے لحاظ سے بہت اہم ہے۔ مصنف نے اس میں مضمون کی وجہِ تسمیہ، مختلف زبانوں مثلاً انگریزی، عربی، فارسی اور اردو میں اس کے ابتدائی نقوش کو زیرِ بحث لاتے ہوئے اس کے ترکیبی عناصر پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ اردو میں مضمون نگاری کی روایت کے ضمن میں مصنف نے فورٹ ولیم کالج، دلی کالج، علی گڑھ تحریک، اودھ پنچ رجحان، رومانوی تحریک، جدیدیت کی تحریک اور مابعد جدیدیت کی تحریک کے زیرِ اثر لکھنے والےمضمون نگاروں پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ کتاب کے نویں مضمون میں مصنف نے محمد اسلام کی تصنیف کردہ کتاب ‘نگارشاتِ جگر’ میں شامل جگر مراد آبادی کی نثری تحریریں مثلاً مقدمے، دیباچے اور تقاریظ کے تجزیے کی روشنی میں ان کے شعری افکار و نظریات اور مبادیات و شعریات کو موضوعِ گفتگو بنایا ہے۔ مصنف نے ان نثری تحریروں میں جگر کے بیان کردہ مختلف تنقیدی افکار و خیالات اور گوشوں کو وا کیا ہے اور اپنی اس کوشش کے ذریعے جگر کو بحیثیت نثر نگار متعارف کرانے اور ان کے منفرد اسلوب بیان کو لوگوں کے سامنے لانے کی سعی کی ہے۔ مضمون کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مصنف ایک حد تک اپنے اس مقصد میں کامیاب ہیں۔
کتاب کے اگلے مضمون میں مصنف نے نیر مسعود کی مرتب کردہ کتاب "افسانے کی تلاش” کے تجزیے میں فکشن کے بہت سے تنقیدی پہلوؤں اور مباحث سے پردہ اٹھایا ہے۔ یہ کتاب کل 14 تنقیدی و تحقیقی مضامین پر مشتمل ہے۔ ان مضامین میں نیر مسعود کے بیان کردہ تنقیدی نظریات و تصورات اور تعبیر و تفہیم کو اجاگر کرنے کے بعد مصنف نے ان پر اپنا تاثراتی ریمارکس بھی قلم بند کیا ہے۔ کتاب میں شامل ‘پی کہاں’، ‘لہو کے پھول’ اور ‘افسانے کی تلاش’ کے تجزیے میں انہوں نے قدرے تفصیل سے کام لیا ہے جبکہ بقیہ مضامین کے مطالعے میں ایجاز و اختصار کا سہارا لیا ہے۔ مصنف کتاب پر تفصیلی بحث و مباحثے کے بعد یہ نتائج اخذ کرتے ہیں کہ نیر مسعود کے طرزِ تنقید سے فکشن کے رہنما اصول مرتب ہوتے ہیں اور افسانے کو نئے ڈھنگ اور جدید آہنگ سے پڑھنے کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔
کتاب کے اگلے مضمون میں مصنف نے شمس الرحمن فاروقی کے ادبی خطوط کی روشنی میں اردو زبان و ادب کے عصری مسائل و مباحث کو منظر عام پر لانے کی کوشش کی ہیں جیسے اردو رسم الخط، اردو املا، روشِ کتابت، عطف و اضافت کے ساتھ مسئلۂِ اعلانِ نون، علاقائی الفاظ کا لغت میں شمولیت اور ترجمے کی اہمیت و افادیت وغیرہ۔ مصنف ان مسائل و مباحث کے علاوہ اشعارِ غالب کی تشریح پر لکھی گئی کتاب "تفہیمِ غالب” پر بھی تفصیلی گفتگو کی ہے اور اس گفتگو کے نتیجے میں کچھ اصولوں کی طرف اشارہ بھی کیا ہے۔ مثلاً شعر کی تشریح سے پہلے الفاظ کے معنی لکھنا، شعر میں کوئی لفظ اگر اپنا پس منظر رکھتا ہو تو اس کا ذکر کرنا اور آخر میں شعر کی مکمل تشریح پیش کرنا وغیرہ۔ گفتگو کے اختتام پر مصنف نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ خطوطِ فاروقی علم و ادب کے حوالے سے کافی اہم ہیں جن میں زندگی کے ساتھ ساتھ علمی و ادبی مباحث بھی زیرِ بحث آئے ہیں۔
مکتوباتِ شبنم گورکھپوری کے توسط سے مصنف نے ان کی علمی و ادبی شخصیت کو اجاگر کیا ہے۔ اس مضمون کے ابتدائی سطور میں شبنم گورکھپوری کی سوانح کا اجمالی خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ بعد ازاں ان کے ادبی خطوط کو زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ ان خطوط میں جہاں ایک طرف ان کی نثر نگاری کی عمدہ جھلکیاں نظر آتی ہیں وہیں اردو زبان و ادب کے فروغ و ترقی کے تئیں ان کے اضطراب و بےقراری اور فکر و لگن نظروں کے سامنے ابھرتے ہیں۔ مصنف نے مشن Hundred Urdu Poets کے تئیں شبنم گورکھپوری کے جوش و ولولہ اور شوق و فکر کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ادبیات کے متعلق ان کے افکار و نظریات کو بھی منظر عام پر لانے کی سعی کی ہے۔
کتاب کا اخری مضمون مکتبہ جامعہ لمیٹڈ کے نام لکھے گئے پنڈت جواہر لال نہرو اور ان کے متعلقین کے خطوط کے تجزیے پر مشتمل ہے۔ اس مضمون کے ذریعے مصنف مکتبہ کی دیرینہ اہمیت و افادیت اور معیار کو منظر عام پر لانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وافر تعداد میں خطوط کی عدم دستیابی کی وجہ سے وہ کامیاب ہونے سے قاصر نظر اتے ہیں۔ پنڈت نہرو نے اپنی کتاب Eighteen Months in India کے اردو ترجمہ اور My Autobiography کے حوالے سے مکتبہ جامعہ کو خطوط لکھے۔ اسی طرح جب مکتبہ جامعہ نے نہرو کی کتاب Glimpses of World History کا اردو ترجمہ شائع کرنے کا ذمہ لیا تو ان کے سیکرٹری پدم جا نے اس حوالے سے ڈاکٹر ذاکر حسین کے نام ایک استفساری خط لکھا۔ مصنف نے ان خطوط کے تجزیے کے بعد آخر میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ کتاب کی طباعت و اشاعت کے تعلق سے پنڈت نہرو اور ان کے متعلقین کے خطوط تو دستیاب ہو گئے البتہ مکتبہ کے ذمہ دار حامد علی خاں اور بعض دیگر اکابرین کے خطوط دستیاب نہ ہو سکے جس کی وجہ سے مکتبہ جامعہ کی دیرینہ اہمیت و افادیت کے متعلق اکابرینِ قوم کے نظریات کو کما حقہ اجاگر کرنا ممکن نہیں ہو سکا۔
زیرِ تبصرہ کتاب کے مطالعے کی روشنی میں یہ تاثرات ابھرتے ہیں کہ یہ کتاب اپنے متنوع موضوعات کی شمولیت و وضاحت کی وجہ سے غیر معمولی اہمیت کے حامل ہے۔ اس میں اردو ادب کی مختلف اصناف کی صنفی اہمیت و حیثیت اور ادبی معنویت و عظمت سے واقف ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے متعلق تنقیدی نظریات و تصورات اور مبادیات و شعریات سے روشناس ہونے کے مواقع حاصل ہوتے ہیں۔ رانی کیتکی کی کہانی کے ذریعے ہمیں داستانوی مبادیات و لوازمات کا علم ہوتا ہے، افسانے کی تلاش سے ہمیں فکشن تنقید اور شعریات سے واقفیت حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح خطوط کے توسط سے مکتوب نگار کی سرگزشتِ زندگی کے انکشاف کے ساتھ ساتھ ان میں موجود تنقیدی افکار و خیالات اور نظریات و تصورات سے روبرو ہونا ممکن ہوتا ہے۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page