*تحریر : نسیم اشک* ، جگتدل
کچھ گوشت پوست کے بنے ہماری زندگی میں ایسے بھی آتے ہیں جن سے ملنے کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی اور جہاں کے ہیں ایسا اسلئے محسوس ہوتا ہے کیونکہ ہمیں جن سے پالا پڑتا ہے وہ بھی ہماری ہی طرح عام قسم کے ہوتے ہیں ہماری طرح ان کے بھی مسائل ہوتے ہیں،ہماری طرح وہ بھی سوچتے ہیں،ہماری طرح وہ بھی زیست کے جھمیلوں میں گھرے شکوے گلے پر آمادہ ہوتے ہیں۔حیرت کا مقام اس وقت ہوتا ہے جب ہمارے جیسے دکھنے والے بالکل ہماری طرح نہیں ہوتے وہ مسائل زیست کو زندگی کے تحائف سمجھتے ہوئے نہ صرف قبول کرتے ہیں بلکہ ایسے تحائف دینے والوں کا تہہ دل سے شکریہ بھی ادا کرتے ہیں۔حیات و کائنات کو سمجھنے کے لئے وجود کو کا کائنات کا حصہ نہیں بلکہ پوری کائنات بنانا پڑتا ہے۔ظفر اوگانوی ایسی ہی ایک رمز و ایمان کی کائنات کا نام ہے۔
ڈاکٹر دبیر احمد کا نام بنگال کے ادبی منظرنامے میں بہت نمایاں ہے۔ انکے چھ نثری مجموعے "اذہان و اشخاص”,”شاہ ادب”,”ظفر اگانوی (مونو گراف)””بنگال کا اردو ادب”,”نظیر اکبر آبادی: حیات و شاعری،”متاع فکر و نظر”منظر عام پر آ کر داد و تحسین حاصل کرچکے ہیں۔درس و تدریس کے فریضے نے ان کے اندر ایک نثار کو جلا بخشی۔موصوف ایک کشادہ اور محبت سے لبریز دل رکھتے ہیں اور انہوں نے ظفر اگانوی پر مقالہ رقم کرکے اپنی محبت کا عملی ثبوت بھی پیش کیا ہے۔انہوں نے محبت کا دعویٰ نہیں کیا محبت ثابت کی ہے اور ایک مشفق استاد کو قابل تحسین خراج پیش کیا ہے۔ ان کا تعلق تینوں "ت” سے ہے۔تعلیم،تحقیق اور تنقید۔ایک تلاش حق کی جستجو میں بھٹکنے والا اس بات سے بخوبی واقف ہوتا ہے کہ اس جستجو میں اس کی محنت کے ہمراہ محبت بھی ہونی چاہئے ورنہ اس حق شناسی میں کھوٹ ہوتی ہے۔ڈاکٹر دبیر احمد کی کتاب "ظفر اگانوی حیات وخدمات”ان کے پی ایچ ڈی کا تھیسس ہے۔پہلے تو قابل قدر بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے تھیسس کو شائع کیا اور اردو ادب کے قاری کو ایک شاعر ،افسانہ نگار اور ناقد ظفر اگانوی کی مختلف جہتوں سے روشناس کرایا دوسری بات اور اہم بات کہ اکثر لوگ اپنا مقالہ منظر عام پر لانے سے گریز کرتے ہیں مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا ۔یہ بات جتنی آسان لگ رہی ہے اتنی ہے نہیں۔تحقیقی مقالوں کا منظر عام پر آنا اردو ادب میں گرانقدر اضافے کی حیثیت رکھتا ہے اور آنے والی نسلوں کے لئے مشعلِ راہ بنتا ہے۔ڈاکٹر دبیر احمد کی اس کتاب میں جہاں انہوں نے ایک عہد ساز شخصیت کی ذاتی اور ادبی زندگی کو قاری کے سامنے پیش کیا ہے وہی اپنی محبت کے پھول بھی نچھاور کئے ہیں اس بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے محبت کا عملی ثبوت بھی پیش کیا ہے۔ادب کا ہر قاری کو شکر گزار ہونا چاہئے کہ عصر حاضر میں ایسے محقق پا بہ مرداں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں اور صفحۂ قرطاس پر ایسی تحاریر چھوڑ ے جاتے ہیں کہ جن کا ہونا باعث فخر و انبساط کا سبب ہے۔
موصوف نے اپنے مقالے میں ظفر اگانوی کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر خاطر خواہ روشنی ڈالی ہے۔ظفر اگانوی جن کو شہرت بحیثیت تجریدی و علامتی افسانہ نگار کے ملی وہ ایک شاعر،ادیب ،محقق،ناقد اور بلند خیال شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے "صفیر بلگرامی حیات و کارنامے” کے عنوان سے علامہ جمیل مظہری کی نگرانی میں اپنا مقالہ قلمبند کرکے پٹنہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ کلکتہ یونیورسٹی میں شعبہ اردو میں لیکچرر مقرر ہوئے اور اپنی خدمات انجام دی۔کالج سروس کمیشن کے ممبر بھی بنے اور اقلیتی کمیشن کا جز وقتی چیئر مین بھی رہے۔ظفر اگانوی جہاں بھی رہے ان کا قلم ان کے ساتھ ساتھ چلتا رہا انہوں نے گیارہ افسانوں پر مشتمل پہلا افسانوی مجموعہ”بیچ کا ورق "کے نام سے منظر عام پر لایا۔ان کے افسانوں کے قارائین ان کے بیشتر افسانوں کی فہم نہیں رکھتا مگر ان کی رواں بیانی کا قائل ہیں۔
ڈاکٹر دبیر احمد واقعی قابل تعریف ہے کیونکہ انہوں نے ایک ایسے شخص پر اپنا مقالہ لکھا جن سے ان کے گہرے مراسم تھے،دل میں انکی محبت گھر کی ہوئے تھی جب ایسے شخص پر تحقیقی کام کرنا ہوتا ہے تو امتحان اور مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ ایک محقق کو تحقیق کرتے وقت حق شناس کے ساتھ ساتھ منصف بھی ہونا ہوتا ہے۔وہ اپنی محنت اور لگن سے حاصل شدہ معلومات کو پیش کرتے وقت اپنی تحقیق کو اپنے مراسم پر فوقیت دیتا ہے اور غیر جانبداری کا ثبوت پیش کرتا ہے اس لحاظ سے ڈاکٹر دبیر احمد نے محقق ہونے کا پورا حق ادا کیا ہے اور اپنے تحقیقی مقالے کو اس طرح کے شبہات سے پاک رکھا ہے جو ایک منصف محقق کا شیوہ رہا ہے۔
موصوف نے ظفر اگانوی سے قبل کی ادبی روایت سے بہت خوب بحث کی ہے۔اردو ادب میں بلا شک و شبہ 1857 ایک Landmark کی حیثیت رکھتا ہے۔غدر کے پہلے بھی اردو ادب کی روایت بجا طور پر ملتی ہے مگر 1857 ان معنوں میں اہم ہے کیونکہ یہ سال انقلاب کا سال تھا ایسا انقلاب جس نے انسانی زندگی میں،ملک میں ،ادب میں،طرز زندگی میں،فکر و بیان میں اور دوسرے تمام طرح کے میدان عمل کو اپنے زیر سایہ رکھا اور نمایاں تبدیلیوں کا سزاوار ہوا لہذا جب بھی کسی عمل کی روداد سنانی ہو تو ہم کسی ایسے ہی موڑ پر جاکر رکتے ہیں جہاں سے زیست کو ایک ایک نیا موڑ ملا ہو اس لئے موصوف نے بھی اسی سن سے آغاز کیا جو اپنے ملک کی تاریخ زیست کا ایک اہم موڑ ہے۔سارے فلسفے زیست سے ہی شروع ہوتے ہیں اور زیست پر ہی ختم ہوتے ہیں اور ادب زیست کا ترجمان ہے۔موصوف نے ظفر اگانوی سے پہلے ادب کی روایت کو سلسلہ وار اور منظم طریقے سے بیان کیا ہے جس سے انکی معاملہ فہمی اور عرق ریزی کا پتہ چلتا ہے۔موصوف نے اس موضوع کے تحت مفصل اور جامع گفتگو کی ہے اور اپنے بیان کے دوران مختلف ادبی تحریکات کا جائزہ لیتے وقت انکی زبان و بیان کی گرفت پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
ظفر اگانوی کی حیات و شخصیت کا جائزہ لیتے وقت موصوف کے تمہیدی سطور حق و صداقت پر مبنی ہے۔
"انسان اپنے عہد اور سماج کے اندر ہی اپنی انفرادیت کا اظہار کرتا ہے۔لہذا وہ ادیب جو اپنے عہد سے پوری طرح ہم آہنگ ہوتا ہے،اسی سے ادبی سرمائے میں اضافے کی توقع کی جاسکتی ہےلیکن اگر وہ اپنے عہد اور سماج سے ہم آہنگ نہ ہو تو اس سے ادبی سرمائے یا سماجی شعور میں کسی اضافے کی توقع نہیں کی جاسکتی”
انہوں نے ظفر اگانوی کی عادات و اطوار،ذات و صفات،شکل و شباہت اور انکی ذاتی و ادبی زندگی کا بخوبی جائزہ لیا ہے۔ظفر اگانوی کو بحیثیت مدیر پیش کرکے انکی دیگر ادبی خدمات کو بھی جلا بخشی ہے۔ادبی دنیا کا عجب حال رہا ہے بہت جلد اپنے خادموں کو بھلا دیتی ہے ایسے میں گر کوئی ادیب یا شاعر فراموش کر دیا جایے تو کوئی حیرانی کی بات نہیں لہذا خوش نصیب ہیں وہ ادباء و شعراء جن پر تحقیقی کام ہوا اور اب بھی جاری ہے کم سے کم ان کو انکے خدمات کا کچھ تو صلہ ملے نیز ادب کی آبیاری میں ان کے کام ،تجربے،اور خیالات سے استفادہ حاصل کیا جاسکے۔ ادبی حلقہ ظفر اگانوی سے بطور افسانہ نگار واقفیت رکھتا ہے مگر بحیثیت شاعر واقف ہونے والوں کا دائرہ یقیناً محدود ہوگا.موصوف نے جہاں ظفر اگانوی کی شاعرانہ صلاحیتوں کا اظہار کیا ہے وہیں انکے شاعری کے متعلق بیان سے انحراف بھی کیا ہے جو بالکل صحیح ہے۔یہ ممکن ہے کہ ان کے ساتھ یہ معاملہ رہا ہو مگر شاعری کے ساتھ یہ بات فٹ نہیں آتی۔شاعری زندگی کے ہر پہلو کو پیش کرنے،ہر خیالات کی ترجمانی کرنے کا مادہ رکھتی ہے۔موصوف نے ظفر اگانوی کی جو شاعری پیش کی ہے اسے پڑھ کر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ افسانہ نگار اچھے تھے یا شاعر۔ان کے اشعار اور نظمیں جو مصنف نے پیش کی ہیں قاری کو متحیر کر دے گا۔
افسانے کی روایت سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے افسانے کے اجزائے ترکیبی کے بیان کے ساتھ افسانے کے تعلق سے ناقدین کی آراء کو پیش کیا ہے اور اسکی روایت کا ذکر بڑی ربطگی سےکیا ہے۔ اردو ادب کےبعض حقیقت نگار افسانہ نگاروں پر ان کی گہری بصیرت کا اندازہ آپ ان کے اس اقتباس سے لگا سکتے ہیں۔
"اردو ادب کے بعض افسانہ نگاروں نے زندگی کے پہلؤوں کو بہت قریب سے دیکھا اور حقیقت نگاری پر توجہ دی اور زندگی کی تلخ حقیقتوں کو اپنے افسانوں میں پیش کیا۔حلانکہ ایسا کرنے سے وہ معتوب ضرور ہوئے لیکن ایک بے رحم اور تجزیاتی عمل کی مدد سے ان لوگوں نے زندگی کے داغ دھبوں کو اپنے افسانوں میں پیش کرنے میں کامیابی حاصل کی.”
اردو ادب میں جتنی بھی تحریکات واقع پزیر ہوئ ان میں چند تحریکیں ایسی تھی جس نے اردو ادب میں ایک نئے باب کا آغاز کیا۔ترقی پسند تحریک کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے مگر جدیدیت نے بھی اردو ادب پر اپنے گہرے نقوش چھوڑے گرچہ کچھ نظروں میں اسے تحریک نہیں بلکہ ایک رحجان کے طور پر دیکھا جاتا ہے ،معاملہ جو بھی مگر اس حقیقت سے انحراف ممکن نہیں کہ جدیدیت نے اردو ادب میں زندگی کا ایک نیا نظریہ پیش کیا۔جدیدیت کے زیر اثر جو افسانے رقم کئے گیے ان میں علامتوں کو کئی معنوں میں استعمال کیا گیا۔ان علامتوں میں گہرے رمز تھے بلکہ یہ کہنا ذیادہ مناسب ہوگا کہ یہ علامتیں افسانوں کی ارواح تھیں گرچہ جدیدیت کا اثر پہلے شعری اصناف نے قبول کیا مگر تیزی سے اس نے نثری اصناف کو بھی اپنے حلقے میں لے لیا خاص طور پر افسانوں نے اس کا گہرا اثر قبول کیا۔موصوف نے اردو ادب میں جدیدیت کے اثرات اور اہمیت کے حوالے سےمدلل گفتگو پیش کی ہے۔
تصنیف اور تنقید ایک عہد کی پیدوار ہوتے ہیں ۔شاعر ہو یا ادیب یہ کوئی بھی فنکار اپنے عہد کا ترجمان ہوتا ہے ۔اس کے فن کا معیار اس عہد کے تناظر میں ہونا چاہئے جس عہد میں اس نے اپنے فن کا نمونہ پیش کیا۔ایک عہد کے فنون کا تجزیہ اگر دوسرے عہد میں کیا جائے اور رواں عہد ہد کے عصری تقاضے کے مطابق کیا جائے تو روا معلوم نہیں ہوتا۔ وقت کے ساتھ فن،فن کی معونیت،مقصد اور اہمیت وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں میں مصنف کے اس خیال کو پیش کرنا چاہتا ہوں جس سے میں ذاتی طور پر خود متفق ہوں۔
"کسی بھی ادب پارے کی تفہیم و تجزیہ ،اس کے عہد کے تناظر میں کیا جانا چاہئے۔کیوں کہ ہر ادب پارہ اپنے دور ،عہد اور سماج کا آئینہ ہوتا ے اور اس کی مکمل جھلک اسی آئینہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔”
جدیدیت کے علمبرداروں میں ظفر اگانوی ایک معتبر نام ہے۔”بیچ کا ورق” کا خالق،جنہوں نے افسانوں میں اپنے خیال کی دنیا آباد کی تھی اور وہ جنہوں نے علامتوں میں اپنی بصیرت کی ترسیل کر سوئے ہوئے دلوں کو بیدار کیا، انہوں نے افسانوں کے عام روش سے ہٹ کر اور افسانے کی روایتی اجزائے ترکیبی سے انحراف کرتے ہوئے افسانے رقم کئے۔جدیدیت سے متاثر افسانہ نگاروں نے کرداروں کی جگہ ایک لفظ کو بطور علامت بنا کر پورا افسانہ کہہ ڈالا ہے ظفر صاحب کے یہاں بھی یہ خاصیت ملتی ہے۔انکے افسانوں میں نعرہ بازی سے پرہیز ملتا ہے۔،عصری کرب،سیاسی و سماجی جبر،وجودیت کی تلاش،انسان کی نفسیاتی کشمکشِ انکے افسانے کے موضوعات رہیں۔ایک بات جو قابل تعریف ہے وہ یہ کہ جب جدیدیت کا زور ختم ہونے لگا اور افسانوں میں کہانی پن کی واپسی ہوئی تو ظفر اگانوی نے اپنے افسانوں کو گہرے علامتوں سے دور کر لیا اور ایک فنکار کی سب سے بڑی خوبی ہوتی ہے جو زمانے کے بدلتے تیور کو بھانپ لیتا ہے اور بدلتے موضوعات کے ساتھ اپنے فن کے پیشکش میں نمایاں تبدیلی لاتا ہے کیونکہ فنکار خصوصی طور پر تخلیق کار زمانے کا نباز ہوتا ہے۔موصوف نے ظفر اگانوی کے افسانوں کا بہت خوبصورت تجزیہ کیا ہے جس سے نہ صرف افسانے کی تفہیم میں آسانی ہوتی ہے بلکہ افسانے کے نئے خارجی اور باطنی مفاہیم بھی پیدا ہو رہے ہیں اور ظفر صاحب کے افسانوں کو پڑھنے اور پھر سے پڑھنے کی للک پیدا ہوتی ہے۔افسانے کے تجربے کے دوران ان کے اندر کا محقق” بیچ کا ورق ” کی صفحہ گردانی کرتے مصروف دکھائی دیتا ہے۔تجزئے کے دوران انہوں نے افسانے کے مغربی و مشرقی ناقدین کی آراء کو بھی سامنے رکھا ہے جو ان کے عمیق مطالعے کی غمازی کرتا ہے۔
ظفر اگانوی بطور ایک محقق اور ناقد اپنی شناخت رکھتے ہیں۔میری دانست میں ایک بہترین فن کار بہترین ناقد فن ہوتا ہے۔ایسا اس لئے کیونکہ اپنے تخلیقی سفر کے دوران وہ ان تمام تر کیفیات و احساسات خواہ جس قسم کے بھی ہو بذات خود محسوس کیا ہوتا ہے۔ایک تخلیق کار تخلیق کے دوران جس کرب سے گزرتا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے لہذا جب ایک تخلیق کار فن پر محو گفتگو ہوتا ہے تو فن اپنے پورے آب و تاب کے ساتھ قارئین کے سامنے آتا ہے۔
ظفر اگانوی نے اپنی تنقیدی بصیرت سے بھی ادب کو منور کیا اور اردو ادب پر گہرے اثرات مرتسم کئے۔ان کا تنقیدی شعور پختہ اور علمی بصیرت سے معمور تھا۔انہوں نے تنقید کے وقت محاسن بیان کئے تو معائب بھی۔ان کی تنقید کے مطالعے سے فن پر چاہے نثری ہو یا شعری ان کی گرفت کا پتہ چلتا ہے۔
اردو ادب کی تاریخ میں ظفر اگانوی کا مقام سے متعلق موصوف نے دلائل کی روشنی میں تعین کیا ہے۔ظفر اگانوی کی شخصیت اور ادبی کارنامے کا بغور مطالعے کی روشنی میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ظفر اگانوی ایک منفرد افسانہ نگار،محقق اور ناقد تھے ساتھ ہی ساتھ یہ حقیقت بھی منکشف ہوتی ہے کہ وہ شاعر بھی تھے اور بہترین شاعری بھی کی ہے۔موصوف نے "کلام ظفر اگانوی” کے عنوان سے انکی چند خوبصورت نظموں کو شامل کرکے قارئین سے ظفر اگانوی کے اندر چھپے شاعر کو روبرو کرایا ہے۔انہوں نے یادوں کے نگار خانے سے کچھ نایاب تصویروں کو شامل کرکے اپنی کتاب کو مصور کی برش کا ایک فائنل ٹچ دیا ہے اور ظفر اگانوی کی نایاب تصویر قاری کے صفحہ ذہن پر کھینچ ڈالی ہے۔ظفر اگانوی پر کام کرنے والوں کے ساتھ ساتھ اردو ادب کے سنجیدہ قارئین کے لئے انہوں نے بیش بہا تحفہ دیا ہے۔
ڈاکٹر دبیر احمد کے مضامین میں ان کی فکری اڑان وسعت نظر،کثرت مطالعہ کے ساتھ ان کی انفرادیت کا بھی پتہ دیتی ہے،جن موضوعات کو انہوں نے چنا ہے اس میں ان کی موثر وضاحتیں داد طلب ہیں۔ ان کی نثری خدمات صرف بنگال کا ہی نہیں بین الاقوامی اردو ادب کا سرمایہ ہے اور یہ سرمایہ ہمارے لئے باعثِ افتخار ہے۔مختار کل سے دعا گو ہوں کہ انکا نثری سرمایہ روز یونہی بڑھتا رہے اور وہ اپنی معیاری تحاریر سے اردو ادب کی خدمت یونہی کرتے رہیں۔آمین
نسیم اشک
ہولڈنگ نمبر10/9گلی نمبر3
جگتدل 24 پرگنہ مغربی بنگال
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
1 comment
واہ بہت عمدہ ۔۔۔ماشاء اللہ۔۔۔۔