ہندی کہانی
ٹیمپٹن دستور اس وقت چھوٹے تھے جب انہوں نے اپنے گھر کی چھوٹی سی کیاری میں صبح سویرے ایک کلی کو کھلتے ہوئے دیکھا تھا۔وہ گلاب کی چھوٹی سی منظم کلی تھی۔اس کی پنکھڑیاں آپس میں گتھی ہوئی تھیں۔سبز پتیوں سے گھری اس مخروطی کلی کے اوپر ی حصے میں ایک بہت باریک ساسوراخ تھا،جسے دستور جی ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے تھے۔جیسے جیسے دھوپ بڑھتی گئی،وہ چھوٹا سا سوراخ نامعلوم طریقے سے کھلتا گیا اوردیکھتے ہی دیکھتے آپس میں گتھی ہوئی پنکھڑیاں ایک دوسرے سے آزاد ہو کر باہر کی طرف کھلنے لگیں۔
ٹیمپٹن دستور غورو فکر کے عادی تھے ۔ان کے معصوم ذہن میں تجسس اور دریافت کا مادہ تھا۔کئی دن سے وہ یہ جاننے کے لیے بے قرار تھے کہ پھول کیسے کھلتا ہے؟اس دن جب کئی گھنٹوں کی یکسوئی،مسلسل نگرانی اور سمجھنے کی سچی لگن کے بعد انہوں نے پھول کھلتے ہوئے دیکھا تو وہ بھی کھل اٹھے۔یہ ایک خوشگوار واقعہ تھا۔اس بے پناہ معصوم ،نازک اور اَن چھوئے سکھ کو وہ چھونا چاہتے تھے۔تھوڑی شرم اور تھوڑی جھجھک کے باوجود اچانک ان کا ہاتھ سکھ کی طرف بڑھا اور فوراً درد سے کراہتے ہوئے وہ پیچھے ہٹ گئے۔ان کے دودھ جیسے سفید ہاتھ کی گلابی انگلی پر خون کی ایک بوند ابھر آئی۔
وہ کافی دیر تک دوسرے ہاتھ سے اس انگلی کو پکڑ کر کراہتے رہے۔ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔پھر اس ڈر سے کہ کوئی انہیں دیکھ نہ لے،انہوں نے کانٹے کے ڈنک سے تکلیف میں مبتلا انگلی کو منہ میں ڈال لیا۔
اس چبھن ،سوزش اورتکلیف نے ٹیمپٹن جی کے ناپختہ اور نیم ترقی یافتہ شعور پر انمٹ نقش چھوڑ دیا۔خون کی وہ اکلوتی بوند جسے انہوں نے چوس لیا تھا،ان کے اندر گھل مل نہ سکی۔وہ بوند ان کے تمام لہو کی گردش سے مختلف تھی۔وہ حیرت انگیز طور پر سخت،الگ اور تنہا تھی۔پہلے وہ بوند ان کے خون میں ادھر ادھر بھٹکتی رہی لیکن بعد میں اس میں اڑیل پن آتا گیا اور جیسے جیسے وہ بڑے ہوتے گئے،انہیں اپنے اندر ایک طرح کی کھٹک اور چبھن مسلسل برھتی ہوئی محسوس ہوتی رہی۔
حالانکہ وہ پشتینی طور پر اتنے ہی شرمیلے،پرسکون اور تنہائی پسند تھے جتنے ان کے ماں باپ،دادا دادی،اور ان کے آباو اجداد لیکن اس الگ طرح کی باطنی خلش اور چبھن نے اس پشتینی سلسلہ میں انحراف پیدا کر دیا اور وراثت میں ملے یکساں مزاج میں تھوڑا خبط اور تھوڑی بے قراری شامل ہو گئی۔
اپنے فرقہ کی فطری صفات سے اختلاف کے باوجود جس ماحول میں ان کی پرورش ہوئی تھی،اس کا اثر کسی نہ کسی روپ میں ان کی زندگی پر پڑتا رہا۔دھوبی تالاب،مرین لائنس،سنتوک جی لین،نو روز ڈاوَر لین،سہراب جی سنتوک لین،دادی اگیاری لین،کاوَش جی ہر مُش جی اسٹریٹ،انجینئر ہاؤس،دستور ہاؤس،دادی سنتوک ہائوس اور آس پاس پھیلی سیکڑوں چار منزلہ پتھر کی پرانی عمارتوں سے گھرا آتش بہرام۔
اس وقت وہ لٹل فلاور اسکول میں پڑھتے تھے۔صبح اپنے گھر سے پرنسز اسٹریٹ جاتے وقت اور اسکول سے دوپہر کی بھیڑ بھاڑ میں واپس لوٹتے وقت ان کی نظریں صرف سڑکوں پر نہیں بلکہ ان برسہا برس پرانی عمارتوں پر رہتی تھیں جس میں لگ بھگ سبھی گھروں میں ایک جیسے لکڑی کی زینے،ایک جیسی شیشم کی ریلنگ اور ایک طرح کی بڑی بڑی بروٹھے دار کھڑکیاں تھیں اور ان کھڑکیوں سے انہیں ہر وقت کچھ بوڑھے چہرے جھانکتے دکھائی دیتے۔اتنے جامداور پرسکون جیسے انہیں کھڑکی کے ساتھ ہی مڑھ دیا گیا ہو۔ان سب بوڑھوں کا پہناوا ایک جیسا تھا۔سب کی عمر بھی ایک جیسی تھی اور اس میں شبہ نہیں کہ سب کے چہرے بھی ایک جیسے تھے۔وہ کبھی کسی سے کچھ کہتے نہیں تھے۔چپ چاپ یکساں سپاٹ اندازمیں وہ صرف دیکھتے رہتے تھے۔آپا دھاپی،الجھی ہوئی کچ کچ،مچلتی ہوئی آرزوئوں اور مصروفیت سے لت پت شہر سے اتنے ہی نا وابستہ تھے جتنا شہران کی ساکت تصویر سے۔
اور ٹیمپٹن دستور جب لٹل فلاور اسکول سے نکل کر سر جے جے ہائی اسکول جانے لگے تب انہیں پتہ چلا کہ صرف شہر کو ہی نہیں بلکہ لڑائیوں، دنگوں،قحطوں اور بغاوت سے بھرپور گزشتہ زمانے کو بھی ان سب بوڑھوں نے صرف تماش بین کی طرح چپ چاپ اپنی کھڑکی سے دیکھا ہے۔
لیکن کھڑکی سے باہر کی زندہ دنیا سے وہ جتنے ناوابستہ تھے،گھر کے اندر کی بے جان چیزوں کے معاملہ میں اتنے ہی بے چین۔اور باہر سڑکوں سے یکساں سپاٹ دکھائی دینے والے ان کے چہرے کھڑکی سے پرے ہٹتے ہی مختلف قسم کے ہائو بھائو کے ایک سے بڑھ کر ایک نمونے پیش کرنے لگتے تھے کیونکہ مزاج کی یکسانیت کے باوجود ان میں سے ہر ایک بوڑھا عجیب و غریب عادت کا شکار تھا۔کسی کو دن میں چار بار اپنی ربر کی چپلیں دھونے کی عادت تھی ،کسی کو پانچ بار جوتے چمکانے کی،کسی کو اپنے گرامو فون سے انسیت تھی، تو کوئی اپنے پرانے والو والے ریڈیو کا دیوانہ تھا۔وہ اسے بار بار دھوتے پونچھتے اور سہلاتے رہتے تھے اور اپنی صحت سے زیادہ ان کی درستگی کا خیال رکھتے تھے۔
یہ اتحا د میں ایسا اختلاف تھا جو بعد میں دستور جی کے لیے مشکل سے سمجھ میں آنے والا سبق بن گیا۔
وہ ان چھتریوں،گھڑیوں،کمانی والے چشموں،بڑے بڑے والو ریڈیو ،گرامو فون،لمبی ٹانگوں والی کرسیوں ،دائروی میزوں،مہوگنی کی بک شیلفوں،چینی مٹی کے برتنوں،اِنڈِز کمپنی کی کٹلر ی،بوہیمیا کے کرسٹلوں،ہاتھی دانت کے دستہ والی چھڑیوں،سفید سوتی کپڑوں، گول ٹوپیوں،گینڈے کی کھال کے سوٹ کیسوں،جھالر دار کچے ریشم کے پردوں،تاریخی ٹیبل لیمپوں،فائونٹن پنوں،پین ہولڈروں، ہالینڈ کے میز پوشوں،ایران کے قالینوں ،جاپان کے شمع دانوں،پھولدانوں اور برطانوی دور حکومت کی موٹر کاروں کے بیچ پل بڑھ رہے تھے،جن کی عمر ان سے کئی گنا زیادہ بڑی تھی۔ان کے آس پاس ایسی کوئی چیز نہیں تھی جس کی عمر سو ڈیڑھ سو یا دو سو سال سے کم ہو۔لیکن وہ سب چیزیں صرف چیزوں کی طرح نہیں بلکہ فیملی ممبرز کی طرح ان گھروں میں رہتی تھیں۔اتنے ہی عزت و احترام کے ساتھ جتنی عزت اور احترام کامستحق ایک انسان ہوتاہے۔
وہ سب چیزیں اپنے بوڑھے ساتھیوں کی طرح ہمیشہ متحرک اور فعال رہتی تھیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان چیزوں کو کبھی زنگ اور دیمک نے نہیں گھیرا تھا۔بیشک وہ بہت پرانی تھیں اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ وہ موجودہ ٹرینڈ کے حساب سے چلن سے باہر تھیں لیکن ان کے چھوٹے سے فرقہ کے چھوٹے چھوٹے خاندانوں میں اب بھی چلن میں تھیں۔وقت کے بہاؤنے انہیں اپنے ساتھ بہا کر کباڑ خانے تک نہیں پہنچایا تھا۔
ٹیمپٹن دستور جب بڑے ہوئے تو ان کے لیے یہ ایک تحقیق کا موضوع تھا۔صارفیت کے سیلاب اور ’یوز اینڈ تھرو‘کے تیز بہاؤ میں یہ سب پرانی چیزیں اور پرانی طرز زندگی اور ان کا اپنے خول میں بند فرقہ اب تک ڈوبنے سے کیسے بچا ہوا ہے؟
دوسری بات،جو اس سے زیادہ حیرت انگیز اور متضا د تھی، وہ یہ کہ اس ملک کے دوسرے فرقے جب اپنا دبدبہ اور قوت بڑھانے کے لیے آبادی بڑھانے پر تلے ہوئے ہیں ،ان کے سماج میں خود کو سمیٹ لینے کی یہ خود کش عادت اور تولید کے تئیں اتنی بے نیازی کیوں ہے؟وہ ہمیشہ گھر گھسو کیوں بنا رہنا چاہتا ہے؟ تجارت اور تحقیق کے میدان میں اہم ترین رول ادا کرنے کے باوجود وہ کبھی کسی مین اسٹریم میں شامل نہیں ہوا جبکہ اس نے اس ملک کی ثقافتی جڑوں سے غذا حاصل کی ہے۔
پھر اس کی بیلیں ثمر بار ہونے کے لیے آرزومند کیوں نہیں ہیں؟وہ مرجھا کیوں رہا ہے؟کیااس لٹل فلاور کو مرجھانے سے کوئی نہیں بچا سکتا؟کیا کوئی جانتا بھی ہے کہ بہت دھیرے دھیرے بالکل نامعلوم طریقے سے اس کی پنکھڑیاں نیچے گر رہی ہیں اور اس کے بے مثال حسن،اس کی منفرد تابانی کو یوں ہی فراموش کیا جا رہا ہے۔
ٹیمپٹن دستور اکثر سوچتے سوچتے بہت دور تک چلے جاتے۔کیا تاریخ صرف انقلابوں،بغاوتوں،مردانہ بہادری یا مخالف قوموں کی آپسی مار کاٹ کے خوں ریز کارناموں،لڑائیوں ،بٹواروںاور قربانیوں کی ہوتی ہے؟ صنعت کاری ،بہترین منصوبہ بندی اور خو د کفیل ہونے کی کوئی تاریخ کیوں نہیں ہوتی؟
جب انہوں نے اس پر کچھ لکھنے کا فیصلہ کیا تو ایک بار پھر انہیں بچپن کے دنوں والی بے چینی اور تجسس نے گھیر لیا۔لیکن یہ ایک معاشرتی حقیقت تھی ،کوئی پھول نہ تھا جسے صرف یکسو ہو کر کھلتے ہوئے دیکھا جا سکے۔ان کے پاس نہ تولکھنے کا کوئی تجربہ تھا اور نہ ہی دیگر تاریخ نویسوں جیسا وسیع فہم اور نہ کوئی دستاویز ،جس کا ان کے متعینہ موضوع سے براہ راست کوئی تعلق ہو۔جس کی بنیا دپر وہ کثیر منزلہ لفظی عمارت تعمیر کر لیتے۔ان کے پاس اگر کوئی چیز تھی تو وہ تھی خون کی اکلوتی بوند ،جو ان کے رگ وریشے میں مسلسل ادھر ادھر بھٹک اور کھٹک رہی تھی۔دوسرے،اپنے فرقہ کی کھلی ڈلی زندگی،ان کی یادیں اور اس کے علاوہ ان کی ایک اسی سالہ کنواری بوا اور ان کے صوفی مزاج لیکن پر عزم والد،جو ان کے ماضی ،حال اور مستقبل کا محورتھے۔
اتنی محدود معلومات کے باوجود دستور جی اپنے فرقہ کو اتنی ہی غور سے دیکھنے لگے جتنی غور سے اس کلی کو دیکھا کرتے تھے لیکن اب معاملہ نباتات کا نہیں ،انسان کا تھا۔انہیں پتا بھی نہیں چلا کہ کب بڑھتی ہوئی یکسوئی نے انہیں آگہی کے دائرہ میں گھسیٹ لیا۔وہ اگیاری لین کی بابا آدم کے زمانے کی کتابوں کی بڑی بڑی دکانوں میں گھنٹوں پرانی کتابوں کو الٹتے پلٹتے،رات رات بھر جاگ کرانہیں پڑھتے اور ہر رات کسی نہ کسی کارواں کے ہم سفر بن جاتے۔کچھ بے گھر اور جڑ سے اکھاڑے گئے فرقوں کی ہجرت،پہاڑوں،دروں،ندیوں اور سمندروں کو پار کرکے اجنبی جگہوں اور نئی جغرافیائی حالت میں ان کی جدو جہد اور دو مختلف ثقافتوں کے تصادم یا میل جول سے پیدا ہونے والی، ایک دوسرے سے الجھے بے شمار معاشرتی ڈھانچوں ،جنہیں سمجھنے کے لیے وہ بے شمار روایتوں اور مروج عقیدوں کو پھلانگتے،کئی نظریات سے ٹکراتے،کبھی سارتر کی وجودیت،کبھی لائبنز کیuncertainty،کبھی کانٹ کی کاسمو لوجی،تو کبھی فوکو اور دریدا کی تشکیل اور مابعد تشکیل لہروں میں تھپیڑے کھاتے ہوئے Casual Theoryکے مشہور ترین اصول ساز مارکس تک پہنچ گئے لیکن اپنے اصل مزاج ،جس میں کوئی تصادم نہیں تھا اور دلائل و شواہد سے دور ہٹ کر صرف انتظار کرنے کی عادت کی وجہ سے وہ کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ پائے۔ اور تب انہوں نے ان وجہوں کو سمجھنے میں وقت دیا،صرف وجہوں کو ہی نہیں بلکہ انہوں نے وقت کو بھی وقت دیا ،اتنا ہی وقت جتنا ان کے اجداد نے اپنے کاموں کی منصوبہ بندی میں دیا تھا۔
اور تیس سال کے اس طویل عرصہ نے ان کی عمر کے اس حصہ کو نگل لیا جو آدمی کو دنیا داری سکھاتا ہے اور اسے اپنا رفیق زندگی اور کیرئر منتخب کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ایسے مواقع ٹیمپٹن دستور کی زندگی میں کب آئے اور کب چلے گئے،انہیں بالکل پتہ ہی نہیں چلا اور اب وہ ہر طرح کی دنیا داری سے بے نیاز ہیںاور کسی بھی طرح کے کیرئر کے بغیر اپنی تمام فطری احساسات سے کنارہ کشی کرتے ہوئے وہ عمر کے چھیالیسویں پائدان پر پہنچ گئے ہیں،جہاں سے پیچھے پلٹ کر دیکھنے پر انہیں دور دراز شام کی یاد آتی ہے جب ان کے والد انہیں آگ سے متعارف کرانے کے لیے سنجان لے گئے تھے۔
اس وقت وہ صرف سولہ برس کے تھے اور ان کے والد رومنگٹن دستور نے انہیں بتایا تھا کہ جب وہ سولہ سال کے ہوئے تب ان کے والد بھی انہیں زندگی کا سب سے اہم سبق دینے کے لیے َسنجان لے کر آئے تھے۔
یہ وہ قدیم ترین آگ تھی جسے تیرہ سو سال پہلے سولہ مذہبی رہنمائوں نے زرتشتی رسومات کے ذریعہ خاص دعائیہ عمل میں لا کرآسمان میں کڑکتی آتش کو زمین میں ایک ہندورے(ایک گول پتھر جس پر آتش دان رکھا جاتا ہے)پر سجائی گئی لکڑیوں کی طرف متوجہ کرکے جلایا تھا اور تب سے آج تک وہ آگ بجھی نہیں ہے۔اور یہی وہ آگ تھی جس کی روشنی میں ان کے اجداد نے انویسٹمنٹ کے لیے نئے نئے راستے تلاش کیے اور جس کے عزم کی تپش میں انہوں نے اپنی قوت ارادی کو تپا کر مختلف صنعتوں میں ڈھالا۔ان عابدوں کی روح بھلے ہی مذہبی اور قدیم ترین عناصر سے بنی تھی لیکن نئی صنعتوں میں ڈھل کر انہوں نے نئے حالات کے مطابق تکنیکیں ایجاد کیں۔کوالٹی پر کھرے اترنے والے ان کے پروڈکٹس میں کہیں کوئی ملاوٹ نہیں تھی اور ان کے بہی کھاتوں میں کبھی کالی پونجی کے ناگ ادھر ادھر رینگتے نظر نہیں آتے۔کیونکہ ان کے سارے مشینی اور تجارتی اعمال و افعال ان کے مذہبی عقائد کے ساتھ بہت مضبوطی سے منسلک تھے۔
ممبئی سے سنجان،سنجان سے ادواڑہ اور ادواڑہ سے نوساری تک کا سفرگر چہ ایک مذہبی سفر تھا لیکن ٹیمپٹن دستور کے لیے یہ ایک تعلیمی سفر بن گیا۔ہمیشہ چپ رہنے والے ان کے والد اس چلتی پھرتی کلاس میں ایک لیکچرر کا رول ادا کر رہے تھے۔
وہ ساری باتیں سنجان کے سمندری ساحل سے لے کر دور دراز ایران تک پھیلی ہوئی تھیں جہاں سے ان کے اجداد تیرہ سو سال پہلے ہجرت کرکے آئے تھے۔
سب سے پہلے انہیں سنجان کے پاؤ محل میں لے جایا گیا۔جب انہیں بتایا گیا کہ اس اگیاری کے تہہ خانہ میں جو آتش بہرام ہے،وہ آج سے بارہ سو پچہتر سال پہلے روشن کی گئی آگ سے بنا ہے تو انہیں تعجب ہوا۔اس مقدس آگ کے سامنے بوئے دینے(ایک قسم کی دعا)اور پیشانی پر آتش بہرام کی راکھ لگا کر نیائش اور نرنگ پڑھنے کے بعد وہ اس تاریخی مقام سے باہر آ گئے۔
یہ سب کچھ بہت پراسرار تھا۔ٹیمپٹن دستور کے ناپختہ شعور میں ایک ساتھ ساری پرانی،معصوم،پیچیدہ اور مافوق الفطرت باتیں گردش کرنے لگیں۔اس تاریخی شہر کی پتھریلی تنگ گلیوں،کھنڈروں اور برسوں سے بند پڑے مکانوں کے بیچ سے گزرتے ہوئے وہ سمندر کے کنارے پہنچ گئے،جہاں ایک پرانی پارسی سرائے تھی۔وہ ان کے سفر کا پہلا پڑاؤ تھا۔
رومنگٹن دستور نے آرام کرنے کے لیے جو کمرہ کھلوایا اس کی کھڑکی سمندر کی طرف کھلتی تھی۔یہ وہی کھڑکی تھی جس سے چھن کر آ رہے اجالے اور سمندری ہواؤں کے تھپیڑوں میں آج سے تیس برس پہلے ان کے والد سہراب جی دستور نے انہیں سند دی تھی اور اب ایک طویل زمانی وقفہ کے بعد وہ خود اس کرسی پر بیٹھے تھے اور وہ بھی اپنے بیٹے کو وہی سبق دینے جا رہے تھے جو ان کے والد اور ان کے والد نے اپنے والد اور ان کے والد کے والد نے اپنے والدوں ،دادائوں اور لکڑ داداؤں سے سیکھا تھا۔
یہ کلاس دو دن تک چلی اور تب ٹیمپٹن جی کو یہ معلوم ہوا کہ ان کے نام کے آ گے جو’دستور‘کا لاحقہ ہے اس کے کیا معنی ہیں اور کل وہ جس آگ کی زیارت کر آ ئے ہیں وہ آگ کتنی گہری عقیدتوں اور کتنی مشکل کوششوں کی نمائندگی کرتی ہے اور یہ کہ وہ آتش تنہا آ تش نہیں ہے بلکہ اس میں پندرہ اور آتش شامل ہیں۔اور یہ پندرہ قسم کی آتش ہوائی اور مافوق الفطری نہیں ہیں بلکہ راست طور پر زمین سے جڑے اعمال و افعال سے روشن ہوئی ہیں۔یہ الگ الگ طرح کی آتش ہمارے روزگار کی نمائندگی کرتی ہیں ،جس میں لاش جلانے والے ڈوم،کمہار،نائی،رنگریز،کیمیا گر،صنم ساز،لوہار،چرواہے،بڑھئی،لکڑہارے،نانبائی،لشکر کے جنگجو،اسلحہ بنانے والے کاریگر،دست کار اور کاشت کار سب آ جاتے ہیں۔
ان دو دنوں میں ٹیمپٹن جی اپنے والد کی انگلی پکڑ کر کئی صدیوں کی دوری پار کرتے ہوئے حجری دور تک پہنچ گئے۔ان پرانی راکھ کے بڑے گڈھوں والے غاروں میں جہاں انسان اپنے سب سے بڑے خزانہ کی طرح آگ کی حفاظت کرتا تھا۔کیونکہ وہ اس کی اب تک کی سب سے بڑی حصولیابی تھی اور آج لاکھوں صدیاں گزر گئی ہیں لیکن آ گ کی اہمیت کسی نہ کسی روپ میں آدمی کی ضرورتوں میں سب سے بنیادی حیثیت کی حامل ہے۔
وقت گزرتا گیا اور سمندر کے سامنے آگ کا یہ بیان گھنٹوں چلتا رہا ۔ان دو دنوں میں رومنگٹن دستور کے ذریعہ بتائی گئی باتوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے آج بھی ٹیمپٹن دستور کی یادداشت میں تیرتے رہتے ہیں۔۔۔۔’آگ انسان کو منظم بناتی ہے۔۔۔اس میں ذمہ داری کا احساس بیدار کرتی ہے۔۔۔۔وقت کی رفتار پر دھیان رکھنا سکھاتی ہے۔۔۔آگ جلانے اور اسے جلائے رکھنے سے بڑا انسان کا کوئی فرض نہیں ہے۔۔۔۔‘
۔۔۔جب کوئی انسان اپنے کام دھندوں سے اپنی روزی روٹی چلا رہا ہوتا ہے تو اس کے دن رات کے خیالات کا سیدھا اثر اس کے گھر کے چولہے اور اس کے دھندے کی بھٹی کی آتش پر پڑتا ہے۔۔۔۔اصلی آتش پرست بستہ کستیان زرتشتی صرف وہی ہوتا ہے جو ان آتشوں کو کبھی مرنے نہیں دیتا اور ان پر کوئی عذاب نہیں پڑنے دیتا۔
’۔۔۔ سوئے اتفاق جب جب ان آتشوں پر کوئی عذاب پڑنا ضروری ہوجاتا ہے تب تب زرتشت صاحب کی بتائی ہوئی ترکیبوں کو عمل میں لانا چاہئے۔جو ایسا نہیں کرتا ہے اور آتش پر عذاب پڑنے دیتا ہے وہ اصلی زرتشتی نہیں۔۔۔‘
اپنے فرقہ کے مذہبی عقائد کے بارے میں ان کے والد نے اور بھی کئی باتیں کہی تھیں،وہ سب باتیں ٹیمپٹن دستور کی میموری میں بعینہ درج ہیں۔سات دن کے اس سفر کے بعدوہ ممبئی واپس لوٹ آئے تھے لیکن بامبے سینٹرل کے گیٹ سے نکلنے کے بعد جب ان کے والد نے نو روز ڈابل لین کے دستور ہاؤس کا پتا بتانے کے بجائے’ڈنگور واڑی‘کے لیے ٹیکسی بک کی تو وہ سوچ میں پڑ گئے۔یہ لفظ انہوں نے پہلے بھی دو چار بار سنا تھا۔حافظہ پر زور دینے سے یاد آیا، یہ لفظ صرف اس وقت استعمال میں آتا تھا جب ان کے فرقہ کے کسی فرد کی موت ہو جاتی تھی۔
شروع میں انہوں نے مطلق کچھ اندازہ نہیں لگایا۔ان کے اندر کسی قسم کے خوف کا اندیشہ بھی نہیں تھا لیکن والد کے سپاٹ اور جذبات سے عاری چہرے کو دیکھ کر وہ بے چین ہو گئے۔ٹیکسی جب بھیڑ بھاڑ اور شورو غل کے بیچ سے راستہ بناتی ہوئی کھلی سڑک پرآ کر تیزی سے دوڑنے لگی تب انہوں نے پوچھا،’’ڈونگر واڑی کس لیے جا رہے ہیں؟‘‘
والد نے فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔پسینے سے نم ان کے سفید چہرے پر بھوری لٹیں لہرا رہی تھیں۔پھر ان کے کومل چہرے پر ایک لمبی لکیر ابھری۔۔۔۔ایسی لکیر جو صرف اس وقت ابھرتی ہے جب کوئی دکھ میں مسکراتا ہے۔ایک ایسی مسکراہٹ جس میں تکلیف اور تسلی دونوں ایک ساتھ ظاہر ہوتے ہیں۔
کچھ دیر بعد اس نے اپنے بچے کو بڑے اپنائیت سے اپنے قریب کھینچ لیا،’’تمہیں ڈر لگ رہا ہے؟‘‘
ٹیمپٹن دستور تھوڑا سہمے پھر انہوں نے ہڑبڑاہٹ میں سر ہلایا،جس کا مطلب تھا ۔۔نہیں۔پھر والد نے اپنے بچے کو کندھے سے لگا لیا۔
ڈونگر واڑی پہنچنے کے بعد ٹیکسی سے اترتے ہی ان کا ہاتھ تھام لیا اور ایک رہنما کی طرح آگے بڑھتے چلے گئے۔وہ ٹیڑھے میڑھے اور کبڑے درختوں کے جھرمٹ سے گھرے ایک راستے پر تیزی سے اوپر چڑھتے جا رہے تھے۔ڈونگر واڑی کی سنسان دوپہر کی گرم اور بے حد کمزور سناٹے میں کہیں دور سے کوئوں کی کائیں کائیں اور چیلوں کی لمبی چیخیں سنائی دے رہی تھی۔جیسے جیسے وہ آ گے بڑھتے گئے،وہ آواز اور زیادہ تیز ہوتی گئی۔
دو تین موڑوں کے بعد وہ راستہ جب ختم ہوا تو سامنے ایک پچیس تیس فٹ اونچا اور بہت بڑا گول گھیرا دکھائی دیاجس کے دہانے پر بے شمار چیل کوے منڈلا رہے تھے۔اس اونچے دہانے تک جانے کے لیے پتھر کی سیڑھیاں بھی بنی تھیں۔
’یہ کیا ہے؟اس گول گھیرے کو کیا کہا جاتا ہے؟‘
’ٹاور آف سائلنس۔‘ان کے والد انہیں پھر سمجھانے لگے،’پارسیوں کی زبان میں اسے دخمہ کہا جاتا ہے۔‘
وہ کشمکش کی حالت میں والد کے چہرے کو دیکھتے رہے،’اس کے اندر کیا ہے؟‘
جواب میں والد نے ان کا ہاتھ سختی سے بھینچ لیا اور وہ سیڑھیاں چڑھنے لگے۔
ٹیمپٹن جی جس وقت سیڑھیاں چڑھ رہے تھے اس وقت ان کے دل میں صرف اشتیاق تھا گویا ان کے والد ان کو کسیzooمیں لے آئے ہوں لیکن اوپر چڑھ کر جب انہوں نے نیچے جھانکا تو دم بخود رہ گئے۔انہوں نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا مگر اندر سے اٹھتی ابکائی کو روکنا نا ممکن تھا۔وہ وہیں دوہرے ہو گئے اور بے قابو رفتار سے ان کے منہ سے الٹی کا فوارہ پھوٹ نکلا۔پھر وہ زور زور سے رونے لگے۔ان کے والد نے جب انہیں چھونا چاہا تو انہوں نے ان کے ہاتھ کو جھٹک دیا اور اسی طرح سسکتے ہوئے سیڑھیاں اترنے لگے۔
ایک خوشگوار اور معلوماتی سفر کا آ خری پڑائواتنا بھیانک ہوگا،یہ ان کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں تھا۔
وہ کچھ دور جا کر پتھر کی ایک بنچ پر بیٹھ گئے۔کافی دیر تک وہ یونہی پتیوں کی سرسراہٹ اور کووں کی کائیں کائیں سنتے رہے۔ایک طویل خاموشی اور جمود کے بعد آ خر کار والدکا ہاتھ اٹھا اور بیٹے کو اپنی پیٹھ پر تسلی بخش لمس محسوس ہوا اور اس لمس نے ساری تلخی اور بیزاری کو پرے ہٹا کر بیٹے کا سر باپ کی گود میں ڈال دیا۔اب باپ کے دونوں ہاتھوں کی دسیوں انگلیاں بیٹے کے دماغ کی الجھی ہوئی گتھیوں کو سلجھا رہی تھیں۔
’یہ ہمارا آخری مقام ہے،زندگی کے ہر سفر کا اختتام۔زندگی کے کسی بھی راستے سے گزرتے وقت ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ آ خر کار سب کچھ یہیں چھوڑ کر جانا پڑتا ہے۔‘
کچھ ہی دیر میں بیٹے کی اکھڑی ہوئی سانسیں ہموار ہو گئیں ۔دماغ میں چل رہی اتھل پتھل دھیرے دھیرے پرسکون ہونے لگی اور کووں کی کائیں کائیں کے باوجود والد کا مدھم لہجہ ان کو بالکل صاف سنائی دے رہا تھا۔
’الگ الگ مذاہب میں آخری سفر کے الگ الگ رواج ہیں۔اپنے مذہب کی بنیاد charityپر رکھی گئی ہے۔اس لیے ہمارے بزرگوں نے فرما یا ہے کہ مردوں کو دفنا کر یا جلا کر ضائع کرنے کے بجائے انہیں چیل کوؤں کے حوالے کر دو۔اس سے وہ شکم سیر ہوتے ہیں،سکون ملتا ہے۔‘
والد کی گود میں سر ڈالے وہ سب کچھ سنتے رہے۔یہ ان کے عنفوان شباب کے دن تھے جب کسی بھی نوجوان کو صرف خوش نما ماحول،صرف کھیل تماشے،صرف رسیلی اور چٹپٹی چیزیں اچھی لگتی ہیں۔انہیں ڈارک کلر،صاف کھلی ہوا میں لہراتی خوشبو،ہلکی روپہلی موسیقی اور باسلیقہ اور خوبصورت لڑکیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔رنگ برنگی پوشاکوں، جلوے بکھیرنے کے جوش سے معمور یہ عمر اپنی دلکش سراسیمگی ،ملائم،شگفتہ اور روحانی جذبات اور زمین سے پچاس میٹر اوپر خیالات سے اپنی خواب آگیں دنیا تعمیر کرتی ہے،جس کا حقیقی دنیا اور اس کے اصول و ضوابط سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
لیکن ٹیمپٹن دستور ان بدنصیبوں میں سے تھے جنہیں کسی مولوی،پجاری،پادری یا دستور کے گھر میں جنم لینا پڑتا ہے اور جیسے عام گھرانوں میں بدقسمتی سے کوئی بچہ پیدائشی اندھا یا گونگا بہرا ہوتا ہے،ٹھیک اسی طرح ان مذہبی گھرانوں میں پیدا ہونے والے یہ بچے پیدائشی فرماں بردار ہوتے ہیں۔
اس دن ڈونگر واڑی میں زندگی کے آخری پڑائو کو دیکھنے کے بعد وہ واپس لوٹ رہے تھے،تب اپنی کمر سے بندھی کُشتی کی ڈور کے ایک سرے کو اپنی انگلی میں باربار لپیٹتے اور کھولتے ہوئے وہ بہت گہری سوچ میں ڈوب گئے تھے۔انہیں خوف ستا رہا تھا کہ اس مذہبی سفر اور والد کے ذریعہ دی جا رہی ہدایتوں کا اصل مقصد انہیں دستور بنانا اور مذہبی امور کے لیے تربیت کرنا تو نہیں ہے؟وہ دل ہی دل میں اس حالت سے نمٹنے کی تیاری کرنے لگے۔انہیں بالکل احساس نہیں تھا کہ یہ سب سوچتے ہوئے ان کا سرخود بخود انکار میں ہل رہا تھا۔اور ان کے والد واضح طور پر اس پوشیدہ ناگفتہ انکار کو دیکھ رہے تھے۔
دوسرے دن وہ انہیں اپنی بڑی بہن یعنی ہکوفئی(بوا) کے بھروسے چھوڑ کر ناگپور چلے گئے۔جاتے وقت انہوں نے کوئی نصیحت نہیں کی۔ان کے چہرے سے یہ بالکل ظاہر نہیں ہو رہا تھا کہ وہ ہمیشہ کے لیے اس شہر اور اس گھر کو چھوڑ کر جا رہے ہیں۔وہ بھٹی،چمنی اور بوائلر کے ماہر تھے۔امپریس مل کی بھٹیاں انہیں بلا رہی تھیں اور وہ آ گ کے کسی بھی بلاوے کو ٹالتے نہیں تھے۔
اب اس بات کو تیس برس بیت گئے۔والد نے انہیں جو آزادی دی تھی اور اپنی راہ خود منتخب کرنے کا جو اختیار دیا تھا،اس کے لیے وہ ان کے بہت احسان مند تھے۔شاید یہی وجہ تھی کہ انہوں نے کچھ اور بننے کے بجائے مؤرخ بننے کا فیصلہ کیا اوردوسرے تاریخی واقعات کے بجائے وہ مسلسل آگ کی طرف بڑھتے گئے۔بائیو ایکولوجی اور آگ،طاقت اور بدلتی ہوئی ٹیکنالوجی،بس انہیں چیزوں کے بارے میں وہ سوچتے تھے۔اس کے علاوہ کبھی کچھ نہیں سوچتے تھے۔
ان کی بوا ہکو فئی نے انہیں کئی بار دوسری چیزوں کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی،لیکن ان کی کوششیں مؤثرہونے کے باوجود ناکام ہو جاتی تھیں۔کیونکہ ان کوششوں میں فورس تو بہت ہوتا تھا لیکن سمت نہیں ہوتی تھی۔کیونکہ وہ خود نہیں جانتی تھیں کہ غلط کیا ہے اور صحیح کیا ہے۔اچھے اوربرے کا فرق بھی کبھی کبھی ان کے لیے صفر ہو جاتا تھا۔کیونکہ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ وہ’گییلی کیس‘ہیں۔یہ صفت مکادم بردران کی ایجاد ہے جن کے بارے میں یہ مانا جاتا ہے کہ وہ خود بھی’گویلے کیس‘ہیں۔
آج بھی اپنی زندگی کا محاسبہ کرتے ہوئے ٹیمپٹن دستور کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ ان کے والد نے ان کی دیکھ ریکھ کے لیے انہیں ہکو فئی کے حوالے کیا تھایا ہکو فئی،جو یقیناً کسی دوسرے سیارہ کی مخلوق تھیں،کی دیکھ بھال ان کے ذمہ چھوڑ گئے تھے۔
زندگی کے بیسویں سال میں جب ہر چیز کے بارے میں تھوڑی تھوڑی سمجھ پیدا ہو گئی تھی،انہوں نے صاف دیکھ لیا تھا کہ دنیا کی کوئی بھی تہذیب ہکوفئی کا علاج نہیں کر سکتی اور زندگی کی آخری سانس تک ویسی ہی رہیں گی جیسی ہیں۔ان کی دھماکے دار ہنسی ہمیشہ کبوتروں کو ڈراتی رہے گی،تڑپا تڑپا کر ان کی پیار کرنے کی عادت اور اپنے آتشیں بوسوں سے کسی کو بھی اپنے بس میں کر لینے کی صلاحیت ہمیشہ برقرار رہے گی۔ان کی دبنگ دخل اندازی،ان کی بے لوث اور پھوہڑ گالیاں،اور ہر کام میںخواہ وہ کتنا ہی فوری کیوں نہ ہو،بغیر ہچکچائے فوراًفیصلہ لینے اور اس پر عمل در آمد کا حوصلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ان کی بکھیڑے بازی اور عجیب و غریب کارناموں سے ان کے پڑوسی ہمیشہ ہلکان رہیں گے اور ان کے دونوں عاشق(مکادم برادر)قیامت تک پلوں کی طرح ان کے آ گے پیچھے دم ہلاتے رہیں گے۔اور ان کا چھوٹا بھائی رومنگٹن دستور مار کھانے کے خوف سے ہمیشہ ان سے چھپتا رہے گا۔
اس انتہائی سنکی،غصہ ور،جذباتی،رحم دل،سنگ دل،روادار اور اتنی ہی سخت دل عورت کی کردار نگاری کرنا بہت مشکل ہے۔ جس عورت نے دو مردوں اور وہ بھی وہ دو سگے جڑواں بھائیوں سے ایک ساتھ پیار کیا ہو اور جو سر عام ان کے کان مروڑ دینے اوربیچ راستے میں انہیں اپنی چھتری سے پیٹ دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرتی ہو،جو ریڈیو اور گرامو فون ایک ساتھ بجاتی ہو،جس کے لیے آملیٹ بناتے بناتے پیانوبجانا اور پیانو بجاتے بجاتے آملیٹ بنانا ایک ساتھ ممکن ہو ،جسے اپنی ادھیڑ عمر کے باوجود سیٹی بجانا اور آنکھ مارنا آتا ہو،جو اپنی کھڑکی کے چھجوں پر کبوتروں کے جوڑے کا افزائش نسل کے لیے چونچ ملاتے دیکھ کر کسی کمسن دوشیزہ کی طرح شرما جاتی ہو،جسے سبزی اور دودھ والے سے روپے آٹھ آنے کے لیے لمبی لڑائیاں لڑتے وقت اپنی کروڑوں کی پراپرٹی کا ذرا بھی دھیان نہیں رہتا،اور جو اپنی کام والی بائی کے بچوں کے ایڈمیشن کے لیے ،کبھی دودھ والے کی بیوی کی زچگی اور کبھی اپنی کار کے ڈرائیور کے باپ کے آپریشن کے لیے روپیوں سے بھرا بیگ لیے گھنٹوں اسکول کے،اسپتال کے اور اسپتال سے میٹرنٹی ہوم کے چکر لگاتی ہو،جس کے لیے ریڈیو کا ایک والو خراب ہونا اتنا ہی فکر مندی کا سبب ہو،جتنا کسی کے لیے کڈنی یا گردے کا خراب ہونا،اس کے بارے میں کوئی کیا اور کیسے لکھ سکتا ہے؟
اس بات پر بھی کوئی یقین کر سکتا ہے کہ چلتی پھرتی غفلت کی یہ گٹھری ،جسے ایک آملیٹ تک ٹھیک سے بنانا نہیں آتا،ایک زمانے میں بہت کامیاب فوڈ ٹیکنالوجسٹ تھی اور اس کے وہ دو نیم پاگل اور مریل عاشق ٹی ایف مکادم اور ایچ ایف مکادم،جنہیں اپنے پاجامے کا ازار بند بھی ٹھیک سے باندھنا نہیں آتا،ایک زمانے میں’ بیسٹ ‘جیسی بے حد کامیاب اور ملک کی سب سے بڑی سٹی بس سروس کی بنیاد ڈالنے اور اسے شہر کے چپے چپے تک پھیلانے کا حوصلہ مند کام کر چکے تھے۔اور رومنگٹن دستور یعنی ان کی بوا کے چہیتے چھوٹے بھائی جو اتنے ڈرپوک تھے کہ لکڑکی کی سیڑھیوں پر اپنی بہن کے قدموں کی چاپ سنتے ہی سہم جاتے تھے اور ہمیشہ چھینکتے اور ناک سڑسڑاتے رہتے تھے۔اور اپنی کمزور اور بچے جیسی شیریں آواز میں دن بھر میں بمشکل تمام دو چار جملے بول پاتے تھے،کے بارے میں یہ جان کر کتنی حیرت ہوتی ہے کہ ملک کی سب سے اہم اور اپنے زمانے کی سب سے بڑی کپڑے کی مل کا پورا درجہ حرارت ان کے ہاتھوں متعین ہوتا تھا۔
اب وہ سب بہت بوڑھے ہو چکے ہیں اور ان کے ذریعہ رقم کی گئی تاریخ کو یا تو نئی چیزوں نے ملیا میٹ کر دیا ہے یا بالکل بدل دیا ہے۔فینٹا،لمکا اور پیسٹن جی آئس کریم موجود ہوتے ہوئے بھی غائب ہیں۔’بیسٹ‘ کو سرکار کے حوالے کر دیا گیا اور ’امپریس‘مل ایک قدیم مقبرہ میں تبدیل ہو گئی ہے جس کے گھاس پھوس سے بھرے کھنڈرات کے بیچ بند پڑے اسٹاف کوارٹر میں آج بھی رومنگٹن دستور اکیلے رہتے ہیں۔ان کا بوڑھا لرزیدہ جسم پاور لوموں کی قبروں کے آس پاس کسی مجاور کی طرح منڈلاتا رہتا ہے۔
ٹیمپٹن جی کو جب معلوم ہوا کہ مل کو بند ہوئے چھ مہینے ہو گئے ہیں تو وہ ایک دم فکر مند ہو گئے۔ان کے والد نے نہ تو مل بند ہونے کی اطلاع دی تھی اور نہ ہی اپنے بارے میں کوئی پیغام کہ وہ اب کیا کر رہے ہیں اور آگے کیا پلان ہے۔کئی بار کوشش کرنے کے باوجود جب ان سے رابطہ نہیں ہوپایا تو ٹیمپٹن جی سیدھے ناگپور چلے آئے۔’امپریس مل‘کے سو سال پرانے اسٹاف کوارٹرکے احاطے کا گیٹ جو ہمیشہ شاندار بیگن وولیاکی بیلوں سے مزین رہتا تھا،اس بار بالکل ویران پڑا تھا۔بیگن وولیا کی ہڈیوںکا ڈھانچہ گیٹ اور بائونڈری وال پر بکھرا پڑا تھا۔اور ٹیمپٹن جی کا استقبال اس بار سدا بہار گملوں اور کیاریوں نے نہیں،الجھے ہوئے جھاڑ جھنکاڑ نے کیا۔وہ بہت دیر تک دونوں ہاتھوں سے ان آدم قد جھاڑیوں سے لڑتے رہے اور جب کوارٹر نمبر چھ تک پہنچے توبہت مشکل سے اپنے والد کے گھر کو پہچان سکے۔گھر کا آنگن خشک پتیوں سے پٹا پڑا تھا۔جھاڑیاں دروازوں اور کھڑکیوں کے راستے گھر کے اندر تک گھس گئی تھیں اور فرش کی دراروں میں بھی گھاس اگ آ ئی تھی۔سب کچھ گردو غبار سے اٹا اور ویران تھا۔کہیں زندگی کا نام و نشان نہیں تھا۔ٹیمپٹن جی ڈرتے ڈرتے گھر کے اندر داخل ہوئے۔انہوں نے چاروں کمرے چھان مارے،یہاں تک کہ ٹائلٹ،باتھ روم اور کچن میں بھی جھانک آئے لیکن کہیں کوئی نظر نہیں آیا۔تب وہ احاطے میں پھر نکل آئے اور جھاڑیوں کو ہاتھوں سے ہٹاتے اور پائوں سے پھلانگتے ہوئے دوسرے کوارٹر کی طرف بڑھے۔بیشتر گھر بند پڑے تھے۔صرف ایک گھر کے آنگن میں دو درختوں کے بیچ بندھی رسی میں انہیں کپڑے سوکھتے ہوئے نظر آئے۔وہ آنگن بالکل صاف ستھرا تھا۔کھڑکی،دروازے،پردے سب ٹھیک ٹھیک تھے۔ٹیمپٹن دستور نے راحت کی سانس لی اور سیدھے گھر کے دروازہ تک پہنچ گئے۔انہوں نے دروازہ کی کنڈی کو دھیرے دھیرے کھٹکھٹایا۔اندر سے کوئی آواز نہیں آئی۔پھر دوسری بار ذرا زور سے انہوں نے کنڈی کھٹکھٹائی اور اس بار اندر سے ایک نسوانی لہجہ سنائی دیا۔
’کون ہے؟‘
’میں رومنگٹن کا بیٹا۔‘
’کون؟‘
’’رومنگٹن کا بیٹا ٹیمپٹن۔‘
’ہاں۔۔ہاں۔۔۔آتی ہوں۔‘
کچھ دیر بعد دروازہ کھلا اور ایک سفید چھوٹے چھوٹے بالوں والی بالکل دبلی پتلی اور گوری چٹی بڑھیا ان کے سامنے تھی۔اس کے ایک ہاتھ میں اون کاتنے کی چھوٹی سی چرخی اور دوسرے ہاتھ میں اسٹریلین اون کا گولا تھا۔کچھ دیر وہ اپنی مشتبہ نگاہوں سے ٹیمپٹن دستور کو پرکھتی رہی پھر مطمئن ہو کر دھیرے سے مسکرائی ،’آؤ بیٹے آؤ۔‘
ٹیمپٹن اندر آ گئے۔
کیسی ہے تمہاری بوا؟مزے میں ہے؟‘
’پاپا کہاں ہیں؟‘
ٹیمپٹن جی نے ان کے رسمی سوال کا جواب دیے بغیر براہ راست سوال کیا۔بڑھیا کچھ دیر یونہی دیکھتی رہی۔اس کے دونوں ہاتھوں کے بیچ اون کی پتلی سی ڈور کپکپا رہی تھی۔پھر اس نے اون اور چرخی کو ٹیبل پر رکھ دیااور دھیرے سے اپنے دونوں ہاتھ ٹیمپٹن جی کے کندھوں پر رکھ دیے۔
’تیرا باپ پاگل ہو گیا ہے۔‘
ٹیمپٹن جی نے اس بات پر کوئی حیرت ظاہر نہیں کی،کیونکہ اپنے والد کے بارے میں ایسی باتیں وہ پہلے بھی ہکو فئی کے منہ سے سن چکے تھے۔کچھ دیر وہ یونہی بغیر کچھ کہے کھڑے رہے اور کمرے میں موجود چھٹ پٹ چیزوں کو دیکھتے رہے۔کچھ دیر میں انہیں اندازہ ہو گیا کہ یہی بڑھیا اب ان کے والد کی دیکھ بھال کر رہی ہے۔
’کہاں ہیں پاپا؟‘
’مل میں ہوں گے اور کہاں جائیں گے۔۔۔‘
’مل میں؟‘اس بار ٹمیپٹن جی کو تھوڑا تعجب ہوا،’مل تو مہینوں سے بند پڑی ہے۔‘
’پاگلوں کو کیا سمجھ آتا ہے۔وہ تو ابھی بھی مقررہ وقت پر ڈیوٹی پر جاتا ہے،کئی بار تو رات کے اندھیرے میں نائٹ شفٹ کرنے جاتا ہے۔پتا نہیں وہاں جا کر کیا کرتا ہے؟میں کچھ بولتی ہوں تو بھڑک جاتا ہے۔ایک بار تو اس نے میرے گال پر طمانچہ بھی مار دیا تھا۔‘
بڑھیا کا لہجہ گلو گیر ہو گیا۔اپنی عینک اتار کر وہ آنکھیں پونچھنے لگی۔’اچھا ہوا بیٹا تو آ گیا،اب تو اسے سنبھال،میرے سے نہیں ہوتا۔‘
ٹیمپٹن کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کس طرح وہ بڑھیا کے تئیں احسان مندی کا اظہار کریں۔وہ ان نئی اطلاعات سے حیران تھے۔کچھ دیر وہ یونہی کھڑے رہے۔پھر جانے لگے۔آٹھ دس قدم چلنے کے بعد وہ پھر رک گئے۔مل کے گیٹ پر تو تالا لگا ہے۔پھر اندر جانے کا راستہ کہاں ہے؟انہوں نے سر کھجلاتے ہوئے پلٹ کر بڑھیا کی طرف دیکھا ۔بڑھیا انہیں پچھواڑے تک لے گئی اور سرکنڈوں کی گھنی جھاڑی کے ڈھکی ہوئی ایک پگڈنڈی پر ان کے آگے آگے چلنے لگی۔
پگڈنڈی کی آڑی ترچھی رکاوٹوں کو پھلانگتے ہوئے اس کی بڑبڑاہٹ اور جھنجھلاہٹ مسلسل جاری تھی۔تقریباً دس منٹ تک چلتے رہنے کے بعد انہیں مل کے احاطے کی چہار دیواری نظر آئی۔ٹیمپٹن جی سوچ میں پڑ گئے کہ اتنی اونچی اور کانٹے دار تاروں سے گھری ہوئی دیوار کو کوئی کیسے پھاند سکتا ہے؟لیکن جب وہ دیوار کے پاس پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ جہاں پگڈنڈی ختم ہوتی تھی،وہیں دیوار کے نچلے حصے میں ایک بہت بڑا سوراخ تھا،جس کے اندر سے عام قدو قامت کا کوئی بھی انسان آ جا سکتا تھا۔اس سوراخ کے آس پاس ٹوٹی پھوٹی اینٹوں اور پلستر کا چونا بکھرا پڑا تھا۔
’یہ راستہ تیرے باپ نے خود بنایا ہے۔یہ بہت خفیہ راستہ ہے۔میرے علاوہ کسی کو معلوم نہیں ہے۔‘
بڑھیا اب بری طرح ہانپ رہی تھی۔’جا اندر رائٹ سائڈ میں چلا جا،پانچ نمبر کے شیڈ میں،دیکھ وہیں ہوگا۔‘
ایک بار پھر ٹیمپٹن جی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ پسینے سے تر بتر اس ہانپتی ہوئی بڑھیا کا کن الفاظ میں شکریہ ادا کریں،جو جون کی چلچلاتی دھوپ میں انہیں راستہ دکھانے آئی تھی۔وہ بے وقوفوں کی طرح پلکیں جھپکاتے ہوئے کھڑے رہے۔بڑھیا نے قریب آ کر ان کا کندھا تھپتھپایا اور انہیں ڈھارس بندھا کر چلی گئی۔
اور اب ٹیمپٹن جی چہار دیواری کو ادھیڑ کر بنائے گئے اس خفیہ راستے کو دیکھ رہے تھے۔کچھ دیر لمبی لمبی سانسیں لیتے ہوئے وہ اپنے اندر ہمت مجتمع کرتے رہے،جیسے انہیں دیوار کے اس پار نہیں بلکہ کسی دوسری دنیا میں جانا ہو۔کچھ دیر بعد وہ جھکے،اپنا سر سوراخ کے اندر داخل کیا پھر اناڑی پن سے اپنے ہاتھ پیر موڑ سکوڑ کر اندر گھسنے کی کوشش کرنے لگے۔کچھ دیر کی کسرت کے بعد وہ دوسری دنیا میں آ گئے۔وہاں بھی ان کے سامنے ویسی ہی پگڈنڈی تھی۔۔اپنے دونوں ہاتھوں سے خشک ٹہنیوں اور جھاڑیوں کو ہٹاتے ہوئے وہ دائیں طرف بڑھتے چلے گئے۔چلتے چلتے انہیں بچپن میں پڑھی ہوئی ایک چینی کہاوت یاد آئی۔’جب یہ دنیا بنی تھی تب اس میں راستے نہیں تھے ۔۔۔لوگ ہی ہیں جنہوں نے چل چل کر راستے بنائے۔‘
پگڈنڈی پر انہیں اپنے والد کے جانے پہچانے کینواس کے جوتوں کی چھاپ دکھائی دی۔ان کے چھوٹے چھوٹے جوتوں کی چھاپ کے علاوہ وہاں دوسرا کوئی نشان نہیں تھا۔انہیں یہ سوچ کر ایک عجیب ڈرائونا احساس ہوا کہ یہ خود اپنے پائوں سے بنی اکیلی راہ ہے،جس پر ان کے والد کے علاوہ آج تک کسی نے پیر نہیں رکھا ہوگا۔
پگڈنڈی پانچویں شیڈکے پاس جا کر ختم ہو گئی تھی لیکن جھاڑیوں،ٹہنیوں اور سوکھی پتیوں کا شیڈ میں چاروں طرف قبضہ تھا۔صرف لوہے کے ستونوں کو ہی نہیں بلکہ بند پڑی پاور لوموں کو بھی اس نے دھر دبوچا تھا۔کھر پتوار کی یہ فوج بہت پر عزم اور ناقابل تسخیر تھی۔وہ اس انڈسٹری کی لاش کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھی۔یہ وہی مشینیں تھیں جو اپنی جناتی صلاحیت سے کروڑوں ٹن کپاس دھن چکی تھیں۔جو بے شمار بے ناپ سوت اگل چکی تھیںاور سوت کے ان دھاگوں کو آپس میں ملا کر کروڑوں میٹر کپڑا بن چکی تھیں۔
لیکن اب وہاں کوئی ہلچل نہیں تھی۔صرف ویرانی تھی۔ٹیمپٹن جی بہت غور سے مشینوں کے مقبروں کو دیکھ رہے تھے۔’صرف آدمی ہی ریٹائر نہیں ہوتا،ٹیکنالوجی بھی ریٹائر ہوتی ہے۔‘انہیں پھر کسی عالمگیریت کے شارح کا تبصرہ یاد آیا۔اور آدمی تو ایک عمر کے بعدریٹائر ہوتا ہے لیکن ٹیکنالوجی اپنے ریٹائرمنٹ سے پہلے بھی ریٹائر ہو سکتی ہے۔پھر ان لوگوں کا کیا ہوگا جن کی زندگی پرانی تکنیک میں ڈھل چکی تھی اور وہ اس کے اتنے ہی عادی ہو گئے تھے جتنے بچے اپنے ماں باپ کے عادی ہو جاتے ہیں۔
ٹیمپٹن جی کچھ دیر کے لیے اپنے والد کو بھول گئے اور بہت گہری سوچ میں ڈوب گئے۔مشینیں جب چلن سے باہر ہو جاتی ہیں تو ان کے کل پرزے الگ کر دیے جاتے ہیں ،انہیں تپا کر گلایا بھی جا سکتا ہے اور کوئی دوسرا روپ بھی دیا جا سکتا ہے۔لیکن انسان اور اس کی زندگی؟ٹیمپٹن جی کے اندر لہو کی وہ اکلوتی بوند پھر سے گردش کرنے لگی ۔وہ اس بارے میں سوچتے سوچتے نہ جانے کب تک وہاں کھڑے رہے،پھر انہیں برسوں پہلے کا وہ سفر اور اگیاری کی وہ آگ یاد آئی اور اپنے باپ کی وہ بات بھی جو انہوں نے آرٹرس کے سامنے کھڑے ہو کر کہی تھی۔۔۔’یہ صرف آگ نہیں ہے،یہ ہماری قوت ارادی ہے،اسے کبھی بجھنے نہیں دینا چاہئے۔‘
ٹیمپٹن جی کی نظریں آس پاس پھیلی بدحالی کے اوپر سے گزرتی ہوئیں دور مل کی چمنی کی طرف اٹھ گئیں۔وہ چمنی آدھی ٹوٹی ہوئی تھی۔چمنی کے آس پاس ٹوٹی پھوٹی اینٹوں اور پلستر کا ڈھیر لگا تھا۔بہت دیر تک وہ ان کھنڈرات کو دیکھتے رہے،اس کی لمبائی چوڑائی گولائی اور ان کے آس پاس پھیلی خاموشی اور ویرانی نے ٹاور آف سائلنس کی یاد تازہ کر دی۔انہیں ایک بار اپنے اندر ٹھیک ویسی ہی ابکائی محسوس ہوئی جیسے برسوں پہلے ڈونگرواڑی میں ہوئی تھی لیکن اس بار انہوں نے اس ابکائی کو ضبط کر لیا۔
انہیں یہاں آئے کافی دیر ہو چکی تھی۔دھیرے دھیرے دوپہر بھی ڈھلنے لگی۔ڈھلتی دوپہر کی زرد دھوپ اب سندوری رنگ میںڈھل رہی تھی۔کچھ دیر گاڑھے سندوری اور ہلکے سیاہ کے بیچ کھڑے اپنے سایے کو دیکھ کر وہ ڈر گئے۔جب ڈھلتی شام کا منظر اتنا بھیانک ہے تو رات میں یہ سب کیسا نظر آتا ہو گا؟وہ یہ سوچ کر حیران رہ گئے کہ رات میں ان کے والد یہاں کیسے آتے ہوں گے؟اور اس سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ وہ یہاں آ کر آ خر کرتے کیا ہیں؟
انہوں نے ایک بار پھر دور دور تک نظر ڈالی۔ہر طرف گھماؤ دارکیبلوں کابھیانک پھیلاؤ، ٹیڑھے میڑھے اور ایک دوسرے میں الجھے پھنسے لوہے کے اینگل،منہدم اور زمیں بوس اسٹرکچر،ایک دوسرے پر گرے پڑے بیم اور گارڈر،گیس کٹر سے کاٹ کاٹ کر الگ کیے گئے دھول میں دھنسے اور گھاس پھوس سے ڈھکے مشینوں کے پرزے اور کالک سے سنے سیکڑوں دستانے،جو اب زندہ انسانی ہاتھوں کی عدم موجودگی میں لاوارث لاشوں کی طرح یہاں وہاں پڑے تھے۔
ان سب بے جان اور فضول چیزوں پر ایک سرسری نظر ڈالنے کے بعد ان کی نگاہ پھر چمنی پر جا ٹکی۔اس بار انہوں نے بہت فیصلہ کن انداز میں اپنی گردن ہلائی اور ان کے قدم چمنی کی طرف بے خوف بڑھنے لگے۔
اب اس احاطے میں صرف کھر پتوار سے الجھتے ان کے قدموں کی سرسراہٹ کے علاوہ دووسری کوئی آواز نہیں تھی۔آخر میں جب وہ چمنی کے بالکل پاس بھٹی کے دہانے تک پہنچے تو انہوں نے اپنے والد کو دیکھا۔وہ بہت غور سے بھٹی کے اندر دیکھ رہے تھے۔بھٹی کے اندرونی حصے سے دھویں کے چھوٹے چھوٹے سست بادل اوپر اٹھ رہے تھے۔ان کے قدموں کے پاس دستانوں کا ڈھیر تھا۔
کچھ دیر بعد جب بھٹی کی آنچ دھیمی پڑ گئی تو انہوں نے جھک کر کچھ دستانے اٹھائے اور انہیں ایک ایک کرکے آ گ کے حوالے کر دیا۔اور اگلے ہی پل وہ بہت اونچی آواز میں آتش نیائش پڑھنے لگے۔جیسے وہ کسی اگیاری میں کھڑے ہوں۔اس مختصر مذہبی رسم کے بعد جب وہ چپ ہو گئے تب ٹیمپٹن جی نے دھیرے سے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔اس لمس سے وہ چونک گئے۔انہوں نے فوراً گردن موڑ کر پیچھے دیکھا اور جیسے ہی ٹیمپٹن دستور کی نظر اپنے والد کے چہرے پر پڑی،وہ دم بخود رہ گئے۔ڈر کی وجہ سے ان کے سر کے بال تک تھرا گئے۔وہ فوراپلٹ کر بھاگنے لگے۔ایک خوف زدہ رونا ان کے اندر سے پھوٹ پڑا۔اس بوکھلاہٹ اور ہڑبڑاہٹ میں ان کے پائوں جھاڑیوں سے الجھ گئے اور وہ منہ کے بل گرے۔انہوں نے کسی شتر مرغ کی طرح سوکھی گھاس میں اپنا چہرہ چھپا لیا۔
وہ بری طرح ہانپ رہے تھے۔کچھ دیر بعد انہیں کھر پتوار کی سرسراہٹ سنائی دی جو واضح طور پر کسی کے دھیمے قدموں سے پیدا ہو رہی تھی۔وہ آواز ان کے کان کے پاس آ کر رک گئی۔ایک بار پھر سناٹا چھا گیا اور ٹیمپٹن جی ،جو دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے کو ڈھانپے اوندھے منہ پڑے تھے،ایک بار پھر اس تصور سے سہم گئے کہ ابھی کوئی ہاتھ ان کے بازو یا پیٹھ کو چھوئے گا ،ابھی کوئی پکار سنائی دے گی اور ایک بار پھر انہیں اس چہرے کو دیکھنا پڑے گا جسے اتنے برسوں بعداتنی غمگین تبدیلیوں کے ساتھ دیکھ کر وہ ڈر گئے تھے۔
حالانکہ ویسا کچھ نہیں ہوا جیسا اندیشہ تھا۔نہ کوئی لمس نہ پکار۔کچھ دیر بعد پھر وہی سرسراہٹ سنائی دی لیکن اب وہ آواز بتدریج دور جا رہی تھی۔کھر پتوار سے الجھتے قدموں کی دھیمی مر۔۔مر۔۔
جب انہوں نے سر اٹھا کر دیکھا تو انہیں والد کا کمزور اور لڑکھڑاتا جسم دکھائی دیا۔ٹیمپٹن جی ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑے ہوئے۔اپنے ڈر کے باوجود وہ پاگلوں کی طرح ان کے پیچھے بھاگے۔وہ انتہائی خوف زدہ لہجہ میں معافی تلافی کرتے ہوئے گڑگڑا رہے تھے۔انہیں اچانک اس احساس جرم نے گھیر لیا کہ انہوں نے اپنے والد کی کوئی دیکھ بھال نہیں کی۔اگر وقت رہتے انہوں نے کچھ معلومات رکھی ہوتیں تو حالات اتنے نہ بگڑتے۔انہیں اپنے فرقہ کے بارے میں سوچنے کے ساتھ ساتھ اپنے پریوار کے بارے میں بھی کچھ سوچنا چاہئے تھا۔کیا اپنے والد کے تئیں ان کا کوئی فرض نہیں بنتا؟کیا ان کی زندگی بھر کی جدو جہد کا یہی صلہ تھا کہ انہیں ایک ویران کھنڈر میں پریت کی طرح بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا جائے؟
انہوں نے لپک کر اپنے والد کے راکھ اور کالک سے آلودہ ہاتھوں کو پکڑ لیا اور ان کی طرف دیکھے بغیر ،اور بغیر کچھ کہے انہوں نے ان کے بائیں ہاتھ کو اپنے کندھے پر رکھا اور ان کی کمر میں اپنا ہاتھ ڈال کر چلنے لگے۔وہ اب بھی رو رہے تھے لیکن اب اس رونے میں خوف نہیں، ہمدردی تھی۔اپنے والد کے ڈگمگاتے اور لڑکھڑاتے جسم کو سنبھالنے کے لیے جس تجربہ اور مہارت کی ضرورت تھی ،اس کا فقدان تھا۔جنہوں نے کبھی کسی کو سہارا نہ دیا ہو،وہ جب اچانک کسی کو سہارا دینے کی کوشش کرتے ہیں تو خود کو لڑکھڑانے سے بچا نہیں پاتے۔
ٹیمپٹن جی اپنے والد کے کمزور جسم کو سہارا دیتے اور خود ڈگمگاتے ہوئے واپس جب گھر پہنچے تو اندھیرا ہو چکا تھا۔انہوں نے بتی جلائی،کچھ دیر یونہی کھڑے رہے۔پھر پلٹ کر والد کی طرف دیکھا۔وہ ایک لمبی ٹانگوں والی کرسی پر نیم دراز تھے۔ان کی آنکھیں بند تھیں اور اور سانس تیز چل رہی تھی۔ٹیمپٹن جی نے ان کا ہاتھ سہلایااور ان کی کمزور سوکھی ہوئی انگلیوں کو اپنی ہتھیلیوں میں لے لیا۔وہ بے یقینی،ڈپریشن،اور کشمکش کے بیچ کافی دیر تک بے قرار سے کھڑے رہے۔پھر ان کے ذہن میں ایک خیال آیا اور انہوں نے کچھ ایسے انداز سے سر ہلایاجیسے وہ خود اپنے خیال کے تئیں ہامی بھر رہے ہوں۔
’پاپا۔۔۔‘اس بار انہیں اپنی آواز میں وہ کھنک سنائی دی جو ایک نوجوان کی آواز میں ہوتی ہے۔’ابھی تک آپ نے جو کچھ کیا ہے وہ کم نہیں ہے،اب یہاں کرنے کے لیے کچھ نہیں بچا ہے۔‘
رومنگٹن دستور نے آنکھیں اوپر اٹھا کر اپنے بیٹے کی طرف دیکھا اور کچھ دیر تک پلک جھپکائے بغیر اسے دیکھتے رہے۔
’پاپا۔۔۔‘ٹیمپٹن دستور ان کے قدموں میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے۔
’اب ضد چھوڑیے،واپس لوٹ آئیے۔‘
’نہیں۔۔۔‘رومنگٹن دستور کی آواز نسبتاً سخت تھی۔
’لیکن آپ یہاں کیوں رہنا چاہتے ہیں؟کیا بچا ہے اب یہاں؟‘
’آگ۔۔۔۔‘
’آگ؟‘ٹیمپٹن جی چونک گئے۔
’ہاں۔۔۔‘ان کے والد کے لہجہ میں ابھی بھی وہ اطمینان تھا جو ذہنی طورپر صحت مند اور سلجھے ہوئے آدمی میں ہوتا ہے۔’میں اس بھٹی کو بجھنے نہیں دوں گا۔‘
وہ کچھ دیر تک والد کا چہرہ دیکھتے رہے۔ایک بات جو بالکل صاف سمجھ میں آ رہی تھی وہ یہ تھی کہ جس آگ کی وہ بات کر رہے تھے،وہ آگ کوئی ایسی ویسی آگ نہیں تھی جو یونہی لگ جاتی ہے اور یونہی بجھ جاتی ہے۔اس آگ میں ان کے اجداد کا پر جوش خون شامل تھا،جوناقابل تسخیر تھا۔انہیں پھر وہ آتشیں دعائیں یاد آ گئیں جو ان کے والد بھٹی کے سامنے کھڑے ہوکرپڑھ رہے تھے۔
ایک ڈیڑھ گھنٹے کی ماتھا پچی کے بعد انہوں نے تسلیم کر لیاکہ والد کو واپس لے جانا نا ممکن ہے۔اب صرف ایک ہی راستہ بچا ہے۔۔۔ہکو فئی۔صرف اسی عورت میں اتنی طاقت ہے ۔صرف وہی رومنگٹن دستور کی ضد اور ان پر منڈلاتے تباہی کے زبردست گھماسان سے نمٹ سکتی ہے۔کیونکہ وہی تو ہر بار انہیں پکڑ پکڑ کر لاتی رہی ہے۔چاہے وہ روٹھ کر گھر سے نکل بھاگے ہوں یا مار کھانے کے ڈر سے کسی سنسان جگہ چھپے ہوں یا بھیڑ میں کہیں کھو گئے ہوں یا کسی سنک پر سوار ہو کر اوپر اڑ گئے ہوں یا کسی زعم میں مبتلا ہو کر گہری ڈبکی لگا بیٹھے ہوں۔ہر بار لمبے لمبے ہاتھوں والی ان کی یہ اڑیل بہن کہیں نہ کہیں انہیں دبوچ لیتی تھی اور واپس گھسیٹ لاتی تھی۔
انہیں یا د آیا کہ ہکو فئی کے حوصلے،سنک اور ان کی جابرانہ کاروائیوں کے کیسے کیسے قصے ان کے محلے میں مشہور تھے۔اس پھرتیلی،چھریری اور بے حدخطرناک بلی نے بچپن سے ہی اس محلے میں دہشت پھیلانا شروع کر دی تھی۔جب وہ تیرہ سال کی تھیں تو ان کی نانی نے لندن سے ان کے لیے ایک فولڈنگ سائکل بھیجی تھی لیکن ہکو فئی کے لیے وہ سائیکل صرف سائیکل نہیں ،ٹینک تھا،جس پر سوار ہو کر وہ دشمنوں کے اڈوں پر دندناتے ہوئے دھاوا بولنے نکل پڑتی تھیں۔بھیڑ بھاڑ والی سڑکیں ہوں یا تنگ گلیاں،گیراج کے پیچھے کباڑ خانہ ہو یا کسی بند پڑے مکان کا سنسان تہہ خانہ،وہ ان لونڈوں کو کہیں نہ کہیں گھیر لیتیں جو اپنے ماں باپ کی بات نہیں مانتے تھے اور ہوم ورک کرنے کے بجائے یا اسکول سے گولا مار کر گلیوں میں آوارہ گردی کرتے پھرتے تھے اور چوری چھپے ایسی کارگزاریوں میں مشغول رہتے تھے جو ہکو فئی کو سخت ناپسند تھیں۔
ان دنوں ٹیسٹر مکادم،ہر جی مکادم اور رومنگٹن۔۔۔یہ تین تلنگے ان کے سب سے زیادہ اہم اور عزیز دشمن تھے۔آج تک ان تینوں میں سے کوئی ہکو فئی نام کی اس خوفناک مصیبت سے نمٹ نہیں پایا تھا،جو انہیں بچپن میں مرضی کے مطابق باہر آنے جانے کی اجازت نہیں دیتی تھی،جو ان کے خفیہ کھیل کو بے نقاب کرنے میں ماہر تھی،جو نوجوانی میں چپ چاپ کھیلے جاتے ہیں۔اور مکادم برادر جب جوان ہو گئے اور سچ مچ کے مرد بن گئے تب ہکو فئی نے دن دہاڑے دونوں بھائیوں کو ایک رنڈی کے کوٹھے میں رنگے ہاتھوں پکڑا تھااور پاجامے کا ازار بند باندھنے کا موقع دیے بغیر گھسیٹ لائی تھی۔پھر کالرپکڑ کر دونوں کو اپنی آنکھوں کی اونچائی تک اٹھایا اور اسی طرح کالر سے پکڑے پکڑے وہ انہیں بیچ گلی سے اٹھائے ہوئے سڑک پر لائی اور اپنی کار کے پاس پہنچ کر ہی انہیں دو پیروں پر کھڑے ہونے کا موقع دیا۔
وہ دونوں بری طرح ہانپ رہے تھے اور دونوں کو پختہ یقین تھا کہ اب جو نکلے گا وہ شعلہ ہوگا کیونکہ دونوں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ان کے گناہ جتنے سنگین ہوتے تھے،ہکو فئی کا ردعمل اس سے بھی زیادہ سنسنی خیز اور بھیانک ہوتا تھا۔اور اس دن انہوں نے جو کیا تھا،وہ ان کی اب تک کی زندگی کا سب سے بڑا گناہ تھا۔
راستے بھر ہکو کچھ نہیں بولی۔گھر پہنچنے کے بعد بھی وہ بالکل خاموش تھی۔دونوں ہم شکل کچھ دیر تک ایک دوسرے کا تھوبڑا دیکھتے رہے،پھر کار سے اتر کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔کچھ دیر تک وہ کشمکش اور بے قراری کے عالم میں ادھر ادھر چکر کاٹتے رہے،پھر دونوں ایک ساتھ کھڑکی کے پاس آئے اور ڈرتے ڈرتے کھڑکی کا پینل ہٹا کر نیچے جھانکا۔سڑک پر نہ تو ہکو تھی،نہ ان کی کار۔دونوں بھائیوں نے حیرت بھری خوشی سے ایک دوسرے کو دیکھا اور اچھل پڑے،جیسے کسی بڑے خطرے سے بال بال بچ گئے ہوں۔
لیکن تبھی بھڑاک سے کمرہ کا دروازہ کھلا۔ انہوں نے دروازے کے دونوں پلوں پر ہاتھ ٹیکے کھڑی ہکو کو دیکھا اور دونوں کے منہ سے ایک ساتھ چیخ نکل گئی۔وہ اپنی چہروں پر پھوٹ پڑے برفیلے پسینے اور اپنے دانتوں کو کٹکٹانے سے روک نہیں پائے،جب انہوں نے دیکھا کہ ہکو ان کے سامنے صرف ایک جانگھیے میں تھی۔اس شدیداور گھریلو برہنگی نے انہیں اتنا دہشت زدہ کر دیا کہ وہ اپنی پلکیں بھی جھپکانا بھول گئے۔
ہکو لمبے لمبے ڈگ بھرتی ہوئی ان کے پاس آئی اور اپنے لمبے طاقت ور ہاتھوں سے اس نے دونوں کے بال پیچھے سے پکڑے اور اپنے ان دودھ مونہے دشمنوں کے ہونٹوں میں اپنا ایک ایک پستان پکڑا کر یہ ثابت کر دیا کہ ’ہکو‘کے علاوہ اس دنیا میں ان کے لیے کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
اب زندگی کے آخری پڑائو میں ہکو فئی کے نحیف و نزار جسم میں گر چہ وہ تاب اوروہم و خیال کی آماجگاہ میں وہ آگ نہیں تھی لیکن اس کمزور اور پژمردہ موم جیسے کومل چہرے اور کپاس جیسے سفید بالوں والی دیا کی دیوی کے اندرچنگھاڑتی آواز اور ضدی اور ڈکٹیٹر اب بھی موجود تھی،جس کے غیض و غضب کا یہ عالم تھا کہ کسی بھی قسم کی نزاکت اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتی تھی۔جسے اب بھی گلا پھاڑ پھاڑ کر ہنسنا آتا تھا،جس کی انقلابی بیہودہ حرکتیں اب بھی معدوم نہیں ہوئی تھیں اور جس کے مخروطی اٹھان والے پستان مکادم برادر کی بے شمار چھیڑ چھاڑ کے باوجود ابھی تک سر نگوں نہیں ہوئے تھے۔
فون پر لگ بھگ آدھے گھنٹے سر کھپانے کے بعد ٹیمپٹن جی ہکو فئی کے تقریباً بہرے ہو چکے کانوں میں یہ بات ڈالنے میں کامیاب نہیں ہوئے کہ معاملہ کیا ہے۔والد اور ان کے گھر کاحال جب وہ بیان کر رہے تھے تو ان کو شک تھا کہ ان کی باتیں مناسب طریقے پر سمجھی جا رہی ہیں یا نہیں۔کیونکہ ہکو فئی نے بات چیت کے دوران کسی ایسے ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ وہ اس معاملے میں کون سا رخ اختیار کرنے والی ہیں۔
دوسرے دن دوپہر میں ٹھیک تین بجے ایک وین امپریس مل کے اسٹاف کوارٹر کے سامنے رکی۔وین کا پچھلا دروازہ کھلا۔پہلے ہکو فئی باہر نکلی پھر ان کے سب مصاحب،جس میں سب سے پہلے ان کی جھگڑالو اور منہ پھٹ نوکرانی اوشا بائی تھی،پھر ایک چتکبرا کتا وین سے نیچے کودا،جس کا نام ہکو فئی نے’جوائی‘(پورا نام اوشا بائی کا جوائی)رکھا تھا۔کتے کے باہر نکلتے ہی دودھ والا شمبھو باہر نکلا جو ہر وقت ہر مصیبت میں ہکو فئی کی مدد کے لیے دل و جاں سے تیار رہتا تھا۔اورسب سے آخر میں وین کے دروازے سے ہکو فئی کے سدا بہار کنوارے جڑواں عاشقوں کا جوڑا باہر نکلا۔اپنے ان پالتو عاشقوں کو وہ ہر سفر میں اپنے ساتھ رکھتی تھیں تاکہ وہ ان کی غیر حاضری کا’فائدہ‘نہ اٹھا سکیں۔
جب ہکو فئی کی پوری مہم جو ٹیم باہر آ گئی تب وین کی ڈکی کھولی گئی اور ٹیمپٹن جی جگر تھام کر ان ہولناک چیزوں کو باہر آتے دیکھتے رہے۔سب سے پہلے پھاؤڑا،بیلچہ،لوہے کا نکیلا پنجہ،بڑی بڑی قینچیاں اور درانتی باہر آئی۔پھر گینڈے کی کھال سے بنا سوٹ کیس۔پھر دو سو سال پرانی لکڑکی کی چھڑی،گم بوٹ،کینوس کی ہیٹ اور وہ فولڈنگ سائکل جسے وہ نانی کی یاد میں ہر سال سرخ و سفید رنگ سے پینٹ کراتی تھیں۔سب سے آخر میں جو چیز باہر آئی ،اسے دیکھ کر ٹیمپٹن جی سہم گئے۔۔۔لوہے کی وہ بیڑیاں جو ان کے خاندان کے نسب نامہ میں صدیوں سے ہم سفر تھیں اور جس کاا ستعمال دیوانگی کے موروثی مرض میں مبتلااس خاندان کے ستم زدہ،بے قابو اور اتنے ہی تباہ کن دوروں پر قابو پانے کے لیے کئی بار کیا جا چکا تھا۔
وین جیسے ہی رخصت ہوئی،ہکو فئی نے اپنے دونوں ہاتھوں کی دو دو انگلیوں کو اپنے پوپلے منہ میں تالو کے نیچے پھنسایا اور اسی وقت ایک خوفناک گونجتی ہوئی سیٹی اور زبردست پھنکارتی سانس نے امپریس مل کے کھنڈروں کو ہلا ڈالا۔پھر مہم جو ٹیم کے سبھی ممبروں نے پوزیشن لے لی اور رومنگٹن دستور کے گھر پر دھاوا بول دیا۔اوشا بائی نے درانتی کے ایک ہی وار سے لوہے کے گیٹ سے الجھی بیگن وولیا کی سوکھی جھاڑیوں کو کاٹ پھینکا۔شمبھو کی لمبی قینچی کھچ کھچ کی آواز کرتی ہوئی آنگن کے سوکھے ڈنٹھلوں پر جھپٹ پڑی۔پھر برآمدے میں پھیلے کھر پتوار کی باری آئی اور اس کے بعد ان ڈھیٹ ،اجڈ اور بے شرم جھاڑیوں کی، جو کھڑکیوں کے راستے سیدھے گھر میں گھس آئی تھیں۔ان جھاڑیوں سے نمٹنے کے لیے صرف قینچی ہی کافی نہیں تھی۔شمبھو نے اوپری ڈنٹھلوں کو کاٹنے کے بعد پھائوڑا ہاتھ میں لیا اورسیدھے جڑوں پر حملہ کر دیا۔جڑیں جیسے ہی زمین سے باہر آئیں،زمین کے اندر کے خفیہ تہہ خانوں سے چیونٹیوں اور کیڑے مکوڑوں کی فوج ابل پڑی۔یہ حملہ اتنا غیر متوقع تھا کہ کہ کچھ دیر کے لیے سب ہڑبڑا گئے لیکن ہکو فئی کے جاں باز عاشق ٹھیک اسی وقت سامنے آئے اور جراثیم کش دوائوں کا اسپرے ہاتھ میں لے کر انہوں نے مورچہ سنبھال لیا۔
اس افرا تفری اور ہڑبونگ کو جوائی بہت حیران کن انداز سے دیکھ رہا تھا۔اس کے کان تقریباًآدھے گھنٹے سے کھڑے کے کھڑے تھے۔وہ بھونکنا اور ککیانا تو دور،دم ہلانا بھی بھول گیا تھا۔وہ چوکنی آنکھوں سے ان ناقابل فہم انسانی اعمال و افعال کو دیکھتے ہوئے اپنی شراکت طے کر رہا تھا۔آخر جب اسے کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو کیڑوں کی فوج کے اوپر بلا وجہ دھما چوکڑی مچانے لگا۔اس احمقانہ حرکت سے کیڑوں کی قطار بند فوج منتشر ہو گئی اور بھگڈڑ کا نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ کیڑے کچل گئے،کچھ اس کی ٹانگوں پر چڑھ گئے اور کچھ مکادم برادر کے پاجامے میں داخل ہو گئے۔ٹیسٹر مکادم کی ران پر جیسے ہی ایک کیڑے نے ڈنک مارا،اس نے جھنجھلا کر اسپرے کا پمپ جوائی کے منہ پر دے مارا۔
ادھر گھر کے اندر اوشا بائی ہاتھ میں لمبے ڈنڈے والا جھاڑو لے کر ادھر ادھر چکر لگاتے ہوئے مکڑی کے جالوں پر ہاتھ آزما رہی تھی۔اس نے جیسے ہی اپنے جوائی کے رونے کی دردناک آواز سنی،فوراً جھاڑو پھینک کر کھڑکی کی طرف لپکی اور جیسے ہی اس نے آنگن میں جھانکا،اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ٹیسٹر مکادم اور ہرجی مکادم اپنے پاجامے اتار کر ننگے ناچ رہے تھے اور کیڑوں سے بچائو کے لیے شمبھو ان کے اوپر باری باری جراثیم کش دوا کا چھڑکائو کر رہا تھا۔
ان باہری بکھیڑوں سے بے خبر ہکو فئی غسل خانہ کی کائی زدہ دیواروں اور کھردری ریشے دار پرتوں سے سیاہ پڑ گئے حمام اور مہینوں پرانی سوکھی ٹٹی سے جام ہو چکے کموڈ پر پوری طاقت سے برش چلاتے ہوئے نہ جانے کس زبان میں بڑبڑا رہی تھی۔ان کی زوردار مردانہ گالیوں کا اثر اتنا تیز تھا کہ برسوں کی زنگ زدہ ٹونٹی خود بخود کھل گئی۔دیواروں سے کائی تو کائی،اس کے ساتھ پلاسٹر بھی ادھڑ گیااور میل کی پرتیں ایک پل میں ایسے غائب ہو گئیں جیسے ان کا وجود ہی نہ ہو۔نہانے کا تانبے کا لوٹااپنے آپ چمچمااٹھا،یہاں تک کہ نل سے آنے والے پانی میں جون کی بھیانک تپش کے باوجودٹھنڈک آ گئی اور پورا غسل خانہ ڈر کے مارے ایسے مہکنے لگاجسے معطر پانی سے اسے نہلا دیا گیا ہو۔
غسل خانے کی بیہودگیوں کو بہت سختی سے رگڑنے کے بعد ہکو فئی کے تیز گام قدموں نے کچن کا رخ کیااور اگلے ہی لمحے برسوں سے شانت پڑے برتنوں کے بیچ کہرام مچ گیا۔پسینے سے تر بتر اور غصے سے پھنکارتی اس بیاسی سالہ بڑھیا نے ایک ایک چمچ کی خبر لی اور گیس کے چولہے کو اتنی اونچی آواز میں پھٹکارا کہ آٹے کے کنستر میں چھپے کاکروچ بھی ڈر کے مارے بھاگ نکلے۔سب سے زیادہ مار ریفریجریٹر کو پڑی۔اس کے اندر بجبجاتی جیم اور سوس کی شیشیوں کو کیڑے مکوڑوں سمیت ناند میں ڈبو کر مار ڈالا گیا۔پھپھوند اور کائی سے لپٹے جالی دار شیلف کو باہر نکال کر پٹخ پٹخ کر پیٹا گیا۔پھر چولہے کے نیچے کی چبوترہ نما الماری کی باری آئی جہاں کاکروچوں اور چوہوں کی بلا شرکت غیرے حکمرانی تھی اور وہاں پڑی ہوئی چیزیں ایک دوسرے سے کہیں زیادہ الجھی ہوئی تھیں۔لیکن ہکو فئی نے بلا وجہ کی باریکیوں اور احتیاط سے اپنے کام کی رفتار کو سست کرنے کے بجائے اس کباڑ کو ہی پورا الٹ دیا اور کسی بھی طرح کی ٹوٹ پھوٹ کی پرواہ کیے بغیراپنے کام میں مصروف رہی۔
اور کچھ ہی دیر میں اس نے روز مرہ کی ضروری چیزوں کی ایک نئی دنیا ہی رچ ڈالی۔اس بیچ دو الگ الگ کمروں میں چھٹ پٹ کاروائیاں جاری تھیں۔فرش کی پھٹی ہوئی دراروں سے گھاس اکھاڑ کر اس میں سیمنٹ بھر دی گئی۔کھڑکی کے اڑیل پینلوں کے زنگ خورد ہ قبضوں سے زنگ چھڑا دی گئی۔دروازوں کو ٹھوک پیٹ کر ٹھیک کر دیا گیا۔دیمک کی چبائی پٹیوں پروارنش چڑھا دی گئی۔ہولڈروں سے پرانے فیوز بلب نکال کر نئے بلب لگا دیے گئے۔پوجا کی ویدی میں گرد وغبار سے آ لودہ پیغمبروں کو جھاڑ پونچھ کر واپس چمکا دیا گیا۔
ان سب کارگزاریوں کو رومنگٹن دستور اپنی لمبی ٹانگوں والی کرسی میں پڑے پڑ ے دیکھتے رہے۔وہ چاہتے بھی تو کچھ نہیں کر سکتے تھے کیونکہ ان کے دونوں ہاتھ کرسی کے ہتھوں کے ساتھ اس زنجیر سے جکڑ دیے گئے تھے جس کا استعمال ان کے اوپر پہلے بھی دو بار ہو چکا تھا۔ایک بار اس وقت جب انہوں نے اپنی ماں کے جسم کو ٹاور آف سائلنس میں دیکھا تھا اور دوسری باراس وقت جب ان کی بیوی نے کینسر کی بیماری سے عاجز آ کر اپنا پستان کٹوا لیا تھا۔
اب وہ اپنے سامنے ہو رہے ڈرامے کے صرف ایک تماش بین تھے لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ ان کا دھیان اس احمقانہ درو بست کی طرف نہیں تھا بلکہ وہ اس بتدریج ہونے والے تماشے کو دیکھ رہے تھے جو انہیں پس منظر میں دکھائی دے رہا تھا۔
وہ بہت دھیان سے دیوار پر آویزاں تصویروں کے اس لمبے پینل کو دیکھ رہے تھے جس میں پہلی تصویر جمشید جی ٹاٹا کی تھی اور آخری رتن ٹاٹا کی۔ان کی آنکھیں جمشید جی ٹاٹا کو بہت احترام آمیز جذباتیت سے دیکھتی رہیں ،پھر دھیرے دھیرے دوسری تصویروں سے پھسلتی ہوئی ان کی نظریں جب آخری تصویر تک پہنچیں تو ان کی آنکھوں میں اس احترام سے لبریز نمی کا نام و نشان نہیں تھابلکہ ان کی آنکھوں میں تھوڑی خفگی اور پیشانی پر ہلکی سی شکن ابھر آئی۔
پھر وہ تصویر دھیرے دھیرے دھندلی پڑنے لگی اور تصویر کے پوری طرح فیڈ ہوتے ہی اسی فریم میں یادوں اور تخیل آمیز مناظر کا گھال میل شروع ہو گیا۔فریم دھیرے دھیرے انلارج ہوتا ہے اور اسی تناسب میں بدلتے مناظر کا کولاژ کا دائرہ بڑا ہوتا ہے۔پھر منظر منجمد ہوتا ہے اور مل کے احاطے میں لیپ رن وے پر کھڑی رومنگٹن دستور کی شبیہ دکھائی دیتی ہے۔
لوہے کی پٹریوں پر منظر بہت دھیمی رفتار سے آگے بڑھتا ہے۔مل کے اجاڑے جا چکے اسٹرکچر کے ملبے کے بیچ سے گزرتے ہوئے لیپ رن وے پر سوار دستور جی کی شبیہ سب سے پہلے جننگ ڈیپارٹمنٹ کے شیڈ میں پہنچی۔وہاں کپاس دھننے کی ایک جناتی مشین تھی،جسے سیکڑوں گدھوں نے گھیر رکھا تھا۔وہ بڑے اطمینان سے لوہے کے ٹکڑوں کو نوچ اور نگل رہے تھے۔رن وے پر رینگتی دستور جی کی شبیہ جب وہاں سے گزری تو انہوں نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا،پھر اپنی گردنیں جھکا لیں اور مشین پر حسب سابق چونچیں مارنے لگے۔لگ بھگ یہی نظارہ اسپننگ ڈیپارٹمنٹ میں بھی تھا۔فرق صرف اتنا تھا کہ وہاں اب مشینوں کے نچے ہوئے باقیات تھے اور شکم سیر گدھ لوہے کے اینگلوںپر بیٹھے اونگھ رہے تھے۔
دستور جی کی شبیہ ان کے بیچ سے گزرتی ہوئی سابق اسپننگ ڈائریکٹر این بی سکلات والاکی قد آدم تصویر کے سامنے ٹھہر گئی۔سکلات والابہت بے بس نگاہوں سے دستور جی کو دیکھ رہے تھے۔دونوں ایک دوسرے کو کچھ دیر دیکھتے رہے۔پھر سکلات والا کی تصویر کا سر جھک گیا۔کچھ دیر بعد دستور جی کی شبیہ نے بھی سر جھکا لیا۔ان کی جھکے ہوئے سر والی شبیہ لیپ رن وے پر سرکتی ہوئی آگے بڑھی۔اسپننگ ڈیپارٹمنٹ سے باہر آ کر وہ مل کی کینٹین کی طرف مڑی۔وہاں اب بھی پچاس کی دہائی کے دھوتی کرتے اور پھینٹے والے لباس میں ملازمین کی ٹولی چائے کی پیالی ہاتھ میں لیے بیٹھی تھی۔ان کی پیالیوں سے حالانکہ اب بھی بھاپ اٹھ رہی تھی لیکن اب وہ چسکیاں لینے سے معذور تھے۔ان کے پیچھے ایک جوک باکس تھا جس میں ریکارڈ باری باری سے گر اور گھوم رہے تھے لیکن اب کسی بھی طرح کی آواز پیدا نہیں ہو رہی تھی۔دستور جی کی شبیہ نے اس بے آواز گردش کو غور سے دیکھا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ جوک باکس ایک بڑے کالے کوے میں تبدیل ہوگیا۔دستور جی کی شبیہ اچانک سہم کر پیچھے ہٹ گئی۔
کینٹین سے باہر نکلنے کے بعد بھی کائیں کائیں سنائی دیتی رہی۔راستے میں ایسے اور بھی پرانے باقیات تھے ۔اس عظیم الشان انڈسٹری کی ادھڑی ہوئی لاش پر دستور جی کی شبیہ تیزی سے گزرتی رہی۔نہ تو اس نے سر بیجن جی دادا بھائی مہتا کی کیچڑ کے سوکھے ڈھیر میں پڑی تصویر کو اٹھایا،نہ دھوپ اور جھلستی ہوئی د ھول میں لتھڑی جمشید جی کی مورتی کے سامنے سر جھکایا،نہ سہراب جی بیجن جی مہتا جی کی تصویر سے ہاتھ ملایا۔وہ چاروں طرف سے جھپٹتے کوؤں کے دہشت ناک شور وغل سے بچتے ہوئے ایک عمارت کی طرف بڑھے۔عمارت کے اندر داخل ہوتے ہی ان کی شبیہ نے دروازہ بند کر دیا اور کچھ دیر بعد کچھ دیر تک آنکھیں بند کرکے سانسیں لیتی رہی۔کچھ دیر بعد جب اکھڑی ہوئی سانسیں بحال ہوئیں تو ان کی شبیہ نے آنکھیں کھولیں اور خود کو مل کے کریچ میں پایا۔وہاں رسیوں سے بندھے ہوئے کئی قطار بند پالنے تھے۔پالنوں کی دوہری قطاروں کے بیچ کھڑی ان کی شبیہ ان بچوں کو دیکھ رہی تھی،جو کام پر گئی اپنی مائوں کے انتظار میں رو رہے تھے۔
وہاں بچوں کی دیکھ بھال کرتیں دائیاں بھی تھیں جو جھولے کی ڈور ہاتھ میں تھامے ایک ساتھ جھولے جھلاتیں،جھنجھنے بجاتیں اور بچوں کے ہونٹوں میں جنم گھٹی دیتی ادھر سے ادھر آتی دکھائی دیں۔پھر قریب سے دوپہر کی چھٹی کی گھنٹی سنائی دی اوربچوں کی اصل، بے قرار اور فکر مند مائیں ایک ساتھ ہڑبونگ مچاتی ہوئیں اپنے اپنے بچوں کو دودھ پلانے کی ہوڑ میں شامل ہوگئیں ۔پھر گود کے بچوں وکو دلار کرتے ہاتھوں کی تھپکیاں اور الگ الگ زبانوں میں گائی جا رہی لوریوں کی پنچ میل کھچڑی کا اجتماعی گیت سنائی دیتا ہے۔
ایک بار پھر منظر اور آوازوں کا پیچیدہ ہیر پھیرْ۔ماؤں کے اجتماعی گیت کی آواز پر نیلامی کی بولی اوور لیپ ہوتی ہے اور کریچ میں بچوں اور ان کی ماؤں کی جگہ کمپنی کا افسر اور کباڑی دکھائی دیتے ہیں۔
پانچ ہزار ایک سو ایک پر جانے کے بعد بولی ٹھہر گئی۔کباڑیوں کی ملی بھگت اور افسر کی حصہ داری نے آپس میں ایک بیہودہ اشارہ کیا اور سارا معاملہ بہت سستے میں نمٹ گیا۔
پھر یکے بعد دیگرے ٹیک وڈ سے بنے ان بیش قیمت جھولوں کو ہٹا دیا گیا،جنہیں روتے ہوئے بچوں کو چپ کرانے اور سلانے کا ایک سو ستائیس سال پرانا تجربہ تھا۔
اب اس خالی،ویران اور آسیبی ہال میں ابھی ابھی کاٹی گئی پرانی،مقدس،عہد بستہ اور رفیق رسیوں اور دھول کے ذرات سے بھری دھوپ کی آڑی ترچھی شہتیروں کے بیچ دستور جی کی اکیلی پتھرائی ہوئی شبیہ دکھائی دیتی ہے۔
یادوں اور تصویروں کی لمبی ریل جب ختم ہوتی ہے تو ہم دستور جی کے حقیقی جسم کو دیکھتے ہیں۔وہ کرسی سے بندھے ہیں اور ایک ٹک رتن ٹاٹا کی تصویر کو دیکھ رہے ہیں۔پھر کچھ دیر بعد ان کا مدھم اور اداس لہجہ سنائی دیا،’یہ ہمارے ملک کی پہلی مل تھی، جس میں لیڈیز ورکرس کے ننھے بچوں کے لیے جمشید جی نے کریچ بنوایا تھا۔۔۔۔آج وہ بھی نیلام ہو گیا۔‘
ٹیمپٹن دستور جو کافی دیر سے اپنے والد کی خاموش حرکات کو نہار رہے تھے،ان کے اس مکالمے سے چونک گئے۔ان کے کان کھڑے ہو گئے اور وہ اپنے والد کی بات دھیان سے سننے کے لیے تھوڑا آگے جھک گئے۔
’رتن!یہ مل ہماری مدرکنسرن تھی،اسی میں سے ٹاٹا کا پورا ایمپائر پیدا ہوا ہے۔۔۔پر تونے اپنی بوڑھی ماں کو لاوارث چھوڑ دیا ۔‘
اور پھر ہمیشہ چپ رہنے والے رومنگٹن دستور بولتے چلے گئے،’جمشید ٹاٹا سچے زرتشتی تھے۔انہوں نے یہ عظیم منصوبہ بندی اس غلام ملک کی کم نصیب رعایا کو سہارا دینے کے لیے کی تھی اور خاص طور پر انگریزوں کے سامنے خود کفیل بننے کے لیے وہ بھٹیاں جلائی تھیں لیکن حال کی پارسی اولاد سچ مچ بد نصیب ہے۔وہ اپنے ایسے عظیم اجداد کی اس مقدس تاریخ سے واقف ہونا نہیں چاہتی۔کمپٹیشن تو تب بھی تھا اور آج بھی ہے لیکن کمپٹیشن کرکے اپنی بھٹیوں کی آگ کو زندہ رکھنا ایک طرح کا ثواب ہے اور مل کو لیکویڈیشن میں ڈال کر ہاتھ کھینچ لینا ایک عذاب ہے۔‘ٹیمپٹین دستور حالانکہ بہت دھیان سے سن رہے تھے لیکن اس مونولاگ کو سمجھنے کے لیے انہیں پھر سے ویسی ہی یکسوئی کی ضرورت محسوس ہوئی،جو بچپن میں پھول کو کھلتے ہوئے دیکھنے میں ہوئی تھی۔جیسے پنکھڑیاں ایک دوسرے سے الگ ہو کر نیا روپ اختیار کرتی ہیں،ٹھیک ویسے ہی وجوہ (وجوہات)کی الجھی ہوئی گتھی جب کھلے گی تو ایک نئے اور مکمل معنی ظاہر ہوں گے۔
ٹیمپٹن جی کے اندر لہو کی وہ بوند پھر گردش کرنے لگی۔ان کی ریسرچ کا آخری اور فیصلہ کن باب اب شروع ہو گیا تھا۔ان کے پاس کچھ بھی جاننے اور سمجھنے کے لیے صرف ایک رات تھی۔یہی موقع تھا جب وہ جان سکتے تھے کہ تباہی کے اس حکم نامے میں کون سی کالی طاقتوں کے دستخط ہیں اور ستیا ناس کے اس ڈھیر کے نیچے اور کیا کیا دبا پڑا ہے۔کچھ بھی جاننے کے لیے وہ آ خری موقع تھا،کیونکہ کل ان کے والد کو واپس لے جایا جائے گا اور بے رحم ڈاکٹروں اور بے سدھ کر دینے والے انجکشنوں کے حوالے کر دیا جائے گا۔
جب وہ اپنے والد کی باتوں میں الجھے تھے،اس وقت گھر کا سارا ساز و سامان پیک کیا جا رہا تھا۔ہر چیز باعزت طریقے سے سلیقے اور قرینے سے ہال کے کنارے کنارے رکھی جا چکی تھی۔ٹیمپٹن جی کا دھیان حالانکہ پوری طرح اپنے والد کی باتوں میں تھا لیکن انہیں یہ سوال بھی بار بار پریشان کر رہا تھا کہ جس گھر کو کل ہمیشہ کے لیے چھوڑ دینا ہے،اس گھر کی آج اتنی شان دار اور زبردست صفائی کرنے کا کیا تک ہے؟ہکو فئی کے مزاج کے اس ابوجھے اسرار اور اپنے والد کی باتوںکی پیچیدگیوں میں وہ الجھتے چلے گئے اور آخر کار اتنا تھک گئے کہ ان کی آنکھوں کے پپوٹے بھاری اور سرخ ہو گئے۔پھر اپنے آپ نیند سے بوجھل پلکیں بند ہو گئیں۔
ایک لمبی جھپکی کے بعد جب ان کی نیند ٹوٹی تب ہلکا اجالا ہو چکا تھا۔باہر چڑیوں کی چہچہاہٹ سنائی دے رہی تھی۔وہ کچھ دیر آنکھیں ملتے رہے۔پھر ایک لمبی جمائی لیتے ہوئے گردن موڑی اور اگلے ہی پل ان کی سانسیں جہاں کی تہاں تھم گئیں۔کرسی سے ان کے والد غائب تھے۔یہ ایک ناممکن واقعہ تھا۔ان ہتھوں کو جڑ سمیت اکھاڑنے میں جس پناہ طاقت کی ضرورت تھی،وہ طاقت ان کے والد کے دبلے پتلے اورنحیف و نزار جسم میں کہاں سے آئی؟
وہ کھڑے ہو گئے۔کچھ دیر تک انہیں کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔پھر وہ ہڑبڑاہٹ میں بیڈ روم کی طرف بڑھے اور وہاں کا منظر اور بھی حیران کر دینے والا تھا۔ہکو فئی کمر تک بے لباس تکیے پر پیٹھ لگائے لیٹی تھیں اور ان کے دونوں میمنے اپنے حصے کا ایک ایک پستان منہ میں لیے نیندمیں تھے۔ٹیمپٹن دستور کے لیے یہ منظر بھی اتنا ہی غیر متوقع تھا۔انہوں نے جھٹ سے دروازہ بند کر دیا۔کچھ دیر تک وہ سوچتے رہے کہ ابھی ابھی جو کچھ انہوں نے دیکھا،وہ نیند کا خمار یا فریب نظر تو نہیں ہے؟کچھ دیر بعد جب انہیں یقین ہو گیا کہ ان کے ہوش و حواس درست ہیں ،تو انہوں نے دروازے کی زنجیرکو کھٹکھٹانا شروع کیا اور دروازہ کھلنے تک مسلسل کھٹکھٹاتے رہے۔گہری نیند اور تکان کے خمار سے اٹھی ہکو فئی گاؤن کے اوپری بٹن بند کرتی ہوئی اور چہرے پر کچھ نہ سمجھنے اور خفگی کا جذبہ لیے ہوئے جب ان کے سامنے آئیں تو ٹیمپٹن جی نے بنا وقت گنوائے ایک ہی سانس میں پورا واقعہ بیان کر دیا۔
ہکو فئی سست قدموں سے چلتے ہوئے ڈرائنگ روم میں آئیں۔انہوں نے اس کرسی کو دیکھا جس کے ہتھے غائب تھے۔پھر بغیر کسی ردعمل کا اظہار کیے ہوئے واش بیسن کی طرف چلی گئیں۔چہرے پر پانی کے چھینٹے مارنے کے بعد نیپکن سے منہ پونچھتے ہوئے انہوں نے ٹیمپٹن کو حکم دیا،’میری سائکل باہر نکال۔‘
ٹیمپٹن دستور کچھ دیر نا سمجھی کے عالم میں کھڑے رہے۔
’کیا کہہ رہی ہوں۔۔۔سنائی نہیں دیا؟‘اب ہکو فئی کی آواز میں صبح کی سستی اور خمار کا نام و نشان نہیں تھا۔
ٹیمپٹن دستور فوراً سائیکل کی طرف لپکے اور اسے برآمدے کی سیڑھیوں سے نیچے اتار کر آنگن میں آ کھڑے ہوئے۔کچھ دیر بعد ہکو فئی ہاتھ میں چھڑی لیے اور سر پر کینوس کا ہیٹ لگا کر نکل آئیں۔ان کے گم بوٹوں کی آواز سے برآمدہ گونج اٹھا۔ٹیمپٹن دستور نے زندگی میں پہلی بار کسی عورت کو گائون کے ساتھ گم بوٹ پہنے دیکھا تھا۔انہوں نے دستور کے ہاتھوں سے سائیکل لی اور لمبی ٹانگ اٹھا کر سیٹ پر قابض ہوئیں اور پیڈل پر داہنے پیر کی پوری طاقت لگا دی۔ان کی ستر سال پرانی سائیکل بنا چوں چر کیے سدھی ہوئی رفتار سے اس راستے پر چل پڑی،جس راستے سے ٹیمپٹن دستور مل کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوئے تھے۔
ہکو فئی کے جانے کے بعد ٹیمپٹن دستور نے ایک ایک کرکے سب کو نیند سے جگایا۔وہ صبح کی ضروریات سے فارغ ہو کر تیار ہوئے اور مل کی طرف نکل پڑے۔جب وہ دیوار کے سوراخ میں گھس کر مل کے احاطے میں داخل ہوئے تو انہیں دور تک ہکو فئی کی آواز سنائی دی۔وہ اونچی آواز میں چیخ چیخ کر اپنے بھائی کو پکار رہی تھیں۔کچھ دیر بعد وہ سب بھی رومنگٹن دستور کو تلاش کرنے کے لیے الگ الگ سمتوں میں بکھر گئے۔صبح سے شام تک سب ادھر ادھر بھٹکتے رہے لیکن وہ کہیں دکھائی نہیں دیے۔ہکو فئی نے مل نمبر ایک سے لے کر مل نمبر پانچ تک کے پورے یارڈ چھان مارے لیکن کہیں کوئی سراغ نہ ملا۔ان کے ساتھ جوائی بھی پورے جوش و خروش سے اس مہم میں جٹا ہوا تھا لیکن اسے بھی کہیں کوئی کامیابی نہیں ملی۔آخر سب تھک ہار کر واپس لوٹ آئے۔
رات میں کھانے کے وقت سب چپ چاپ بیٹھے رہے،صرف ایک بار جی ایف مکادم نے یہ مشورہ دیا کہ ایف آئی آردرج کرا دی جائے مگر ہکو فئی نے’نہ‘میں سر ہلا کر اس مشورہ کو خارج کر دیا۔
دوسرے دن بھی وہ بغیر کسی پیشگی منصوبہ کے پاگلوں کی طرح جھلساتی ہوئی دھوپ اور دھول میں ادھر ادھر بھٹکتے رہے اور پھر شام کو مایوس ہو کر واپس لوٹ آئے۔
تیسرے دن صبح ہوتے ہی ہکوفئی نے شمبھو کو اٹھایا۔اسے بیلچہ اور پھائوڑا ساتھ میں رکھنے کی ہدایت دی اور سیدھے مل کی بھٹی کے پاس جا پہنچیں۔بھٹی اب پوری طرح بجھ چکی تھی۔اس میں مل بند ہونے سے پہلے کی ٹنوں راکھ اور مل بند ہونے کے بعد آگ جلائے رکھنے کی ضد میں ڈالے گئے ربر کے ٹکڑوں اور کینوس کے دستانوں کے لاتعداد ادھ جلے ٹکڑے بھرے پڑے تھے۔
تھوڑی دیر اس کچرے اور راکھ کو کریدنے کے بعد ہکو فئی کو ایک چیز دکھائی دی،جسے دیکھتے ہی ان کی آنکھیں صدمے سے پھٹی رہ گئیں۔وہ چیز رومنگٹن دستور کی’ کشتی‘ تھی اور یہ ایک ایسی چیز تھی جسے کوئی بھی پارسی تا عمر اپنی کمرے سے باندھے رکھتا تھا۔
تو کیا رومنگٹن دستور نے۔۔۔؟
اور اس کے آگے ہکو فئی کچھ نہیں سوچ پائیں۔اون سے بنی ہوئی اس ڈور کو ہاتھوں میں لیے وہ منجمد کھڑی رہیںلیکن کچھ ہی دیر میں وہ پھر بیدار ہوگئیں ۔انہوں نے شمبھو کو حکم دیا کہ وہ راکھ کے ڈھیر کو ہٹا دیں لیکن بھٹی اتنی بڑی تھی کہ دس آدمی بھی دن بھر میں اسے خالی کرنے کے لیے ناکافی تھے۔پھر ایک کے بعد ایک سب بھٹی میں اترنے لگے۔اوشا بائی کہیں سے ایک تسلہ اٹھا لائیںاور مکادم برادر باری باری سے بیلچہ لاتے ہوئے راکھ گڈھے سے باہر نکالنے لگے۔ہکو فئی چپ چاپ کھڑی رہیں۔ٹیمپٹن دستور اڑتی ہوئی راکھ اور دھول کے بیچ بے چینی سے ادھر ادھر چکر کاٹتے رہے اور جوائی زور زور سے بھونکتے ہوئے چمنی کے چاروں طرف گول گول چکر کاٹتا رہا۔کبھی کبھی وہ چمنی کے اندر بھی گھس جاتا لیکن کسی نے اس کی طرف دھیان نہیں دیا۔
صبح سے شام ہو گئی لیکن راکھ اور کالک سے لتھڑے ان بھوتوں کو ا ٓخر تک یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ گڈھا کیوں کھدوایا جا رہا ہے۔آخر جب وہ بھٹی کی تہہ تک پہنچ گئے اور پھاؤڑے بیلچے نے فائر برکس سے ٹکرا کر آ گے چلنے سے انکار کر دیا تو سب گڈھے سے باہر آ گئے۔
اب وہ سب ہکو فئی کے چہرے کو دیکھ رہے تھے اور ہکو فئی کسی کو نہیں دیکھ رہی تھیں۔اتنی خاموشی اور اتنی گہری اداسی ان کے چہرے پر پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ان کے شاگردوں نے ایک ایک کرکے اپنے اوزار ڈال دیے ۔یہاں تک کہ جوائی نے بھی اپنی دم نیچے لٹکا دی اور سب چپ چاپ گردن جھکا کر کھڑے ہو گئے۔
اس شکست خوردہ اور مایوس واپسی کے بعد ہکو فئی نے کبھی کسی سے کوئی بات نہیں کی۔
ان سب کے واپس ممبئی لوٹنے کے بعد مل کے کھنڈرات کے بیچ کھڑی اس اکیلی اور اداس چمنی کے اوپر کچھ دنوں تک کوے منڈلاتے رہے،پھر سب کچھ پر سکون ہو گیا۔
دستور ہائوس میں اجداد کی تصویروں کی لائن میں رومنگٹن دستور کی تصویر بھی شامل ہو گئی۔ٹیمپٹن دستور اس تصویر کے سامنے ایک میز پر بیٹھے گھنٹوں کچھ نہ کچھ سوچتے رہتے ہیں۔لیکن اب وہ پھول کے بارے میں یا اپنے والد کے بارے میںیااپنے فرقے کے بارے میں نہیں،امپریس مل کی خالی کرائی گئی زمین پر بننے والی امپریس سٹی اور امپریس مال کے بارے میں سوچتے ہیں،جس کے شیئرابھی ابھی بازار میں ایشو کیے گئے ہیں۔وہ شیئر مارکیٹ کے ان اعداو شمار کو بھی غور سے دیکھتے رہے ہیں جس کے عدد ان دنوں لگاتار اونچائی کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں۔
اور ایک دن تیز رفتاری سے بڑھتے ہوئے سنسیکس نے دس ہزار کا آنکڑا پار کر لیا ۔ٹھیک اسی دن ٹھیک اسی وقت امپریس مل کی آخری نشانی کو گرا دیا گیا اور ایک سو ستائیس سال پرانی سو میٹر اونچی اور پندرہ میٹر چوڑی اس تاریخی چمنی کے ملبے کو ٹاٹا ہتاچی کمپنی کے ڈسچارج لوڈر نے صرف پانچ گھنٹے میں ہٹا دیا۔
اس وقت پورا ملک اسٹاک ایکسچینج کی بلڈنگ اور سچن تیندولکر کے ذریعہ بنائے جا رہے ورلڈ ریکارڈ کو دیکھ رہا تھا۔اس لیے کسی کو دکھائی نہیں دیا کہ چمنی کے اس ملبے میں اینٹ اور چونے کے پلاسٹر کے ساتھ انسانی جسم کا ایک ڈھانچہ بھی تھا۔اس کی گردن کی ایک ہڈی لوہے کے ایک موٹے تار کے پھندے میں پھنسی ہوئی تھی اور ہاتھ کی ہڈیاں کرسی کے ہتھوں کے ساتھ زنجیر سے جکڑی ہوئی تھیں۔
ٔ ٭٭٭٭٭٭
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
1 comment
احسن ایوبی انگلیوں میں قلم تھامے نہیں لکھتے بلکہ وہ کسی بھی تخلیقی فن پارے کا ترجمہ کرتے ہوئے اپنے پورے وجود کے ساتھ ساتھ حواس خمسہ کو بھی اپنے کام پر تعینات کردیا کرتے ہیں۔