ہندوستانی تہذیب وثقافت، امن واتحاد اور جمہوری وراثت کے علمبردار نظیر اکبر آبادی کسی رسمی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ فارسی، عربی کے علاوہ ہندی، پنجابی اور سنسکرت زبان سے گہری واقفیت رکھتے تھے۔ عوام اور ان کے مسائل سے آگاہ بھی تھے، انہوں نے ان مسائل کا اظہار اپنے ٹھیٹ زبان میں کیا۔ حالانکہ اشرافیہ کے ایک طبقے کو نظیر کا یہ انداز اور ان کے موضوعات پسند نہیں آئے، یہی وجہ ہے کہ نظیراکبرآبادی کی فطری شاعری کا اعتراف نہیں کیا گیا اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ نظیر نے بنیادی طور پر زندگی کے عام حقائق سے سروکار رکھا اور ان حقائق کو پیش کرنے میں کسی طرح کی پیچیدہ بیانی سے بھی اپنی شاعری کو بچانے کی کوشش کی۔ نظیراکبرآبادی کی شاعری پر کلیم الدین احمد نے ایک ایسے وقت میں توجہ دی اور ان کی شاعرانہ اہمیت کا اعتراف کیا جب ان کی طرف سنجیدگی کے ساتھ کسی نے توجہ نہیں دی تھی۔کلیم الدین احمد نے نظیرکی شاعری پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا تھا کہ نظیر اردو شاعری کے آسمان پر تنہاستارے کی طرح درخشاں ہے۔ حالانکہ شمس الرحمن فاروقی نے اپنے مضمون ’’نظیر کے شعری کائنات میں‘‘ نظیر کے تعلق سے اچھی رائے نہیں دی ہے ۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ دور جدید کی یہ انتہائی دو صورتیں سامنے آئیں جو ایک دوسرے کے متضاد تھیں۔ حالانکہ کلیم الدین احمد اور شمس الرحمن فاروقی دونوں ہی ہیئتی نقاد ہیں۔
نظیر اکبر آبادی کی شاعری پر ان کے ناقدین کے یہاں انتہاپسندی پائی جاتی ہے۔ مصطفی علی خاں شیفتہ نے ’’گلشن بے خار‘‘ میں خاردار انداز اختیار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’نظیراکبرآبادی کی شاعری بازاری ہے، اس لیے انھیں شاعروں میں شمار نہیں کیا جانا چاہئے۔‘‘ حالانکہ ایک مغربی مفکر فیلن نے اپنی ہندوستانی ڈکشنری میں نظیر کی تعریف کرتے ہوئے نظیرکو واحد ایسا شاعر بتایا ہے جس کے اشعار نے عام لوگوں کے دلو ںمیں جگہ بنائی ہے۔جب کہ مجنوں گورکھپوری نے نظیر اکبر آبادی کو اردو کا اول نظم نگار ثابت کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’سب سے پہلی بات جو پہلی ہی نظر میں معلوم ہو جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر قصائد و مثنویات کو نظم میں شمار نہ کیا جائے اور نظم کی اصطلاح کو جدید معنوں میں استعمال کیا جائے تو نظیر اکبر آبادی اردو کے پہلے نظم نگار ہیں۔ لکھنے کے لیے انھوں نے غزلیں بھی لکھی ہیں، اس لیے کہ غزل کا ہر طرف زور تھا اور کوئی شاعر اس وقت تک تسلیم نہیں کیا جاتا تھا جب تک کہ وہ اپنے کو غزل کا مردِ میدان ثابت نہ کردے لیکن اول تو غزل نظیر اکبرآبادی کا کارنامہ نہیں ہے۔ وہ اپنی نظموں کے بل پر زندہ رہے اور زندہ رہیں گے۔‘‘
اس تضاد بیانی کی وجہ جو بھی رہی ہو مگر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ نظیر اکبرآبادی اپنی شعری دنیا خود بناتے ہیں، وہ کسی کی تقلید نہیں کرتے بلکہ اختلافات کے باوجود نظیر کے اثرات کو بعد کی نسل نے اختیار بھی کیا۔نظیر کے ناقدین نے جہاں ان کی شاعری کو بازاری اور عامیانہ کہا وہیں بعض ناقدین نے ان کی شاعرانہ خوبیوں کا اعتراف بھی کیا ہے۔ سید محمد عبدالغفور شہباز نے ’’زندگانی بے نظیر‘‘ کے نام سے اردو میں پہلی کتاب لکھی جس میں نظیر اکبر آبادی کی سوانح اور ان کی شاعرانہ خوبیوں کا تنقیدی جائزہ لیاگیاہے۔ نیاز فتح پوری نے رسالہ ’’نگار‘‘ کا نظیر اکبرآبادی نمبر شائع کیا۔ نگار کا یہ نمبر 1940 میں شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد پروفیسر شمس الحق عثمانی نے ’’نظیر نامہ‘‘ کے نام سے ایک کتاب ترتیب دی، اس کتاب میں شامل چند مضامین تو نگار سے لیے گئے ہیں مگر بعض مضامین ایسے بھی ہیں جو اس وقت کے ناقدین نے شمس الحق عثمانی کے درخواست اور اصرار پر تحریر کی تھیں، یہی نہیں نئی نسل نظیر اکبرآبادی کے متعلق کیا سوچتی ہے، اس کا بھی خیال شمس الحق عثمانی نے رکھا اور اپنی مذکورہ کتاب میں نوجوان ناقدین کی تحریروں کو بھی جگہ دی۔
نظیر فہمی اور نظیراکبرآبادی کا اعتراف کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ نے دسمبر 2008 میں ایک بین الاقوامی سمینار کا انعقاد کیا تھا جس میں اردو کے اہم ناقدین نے شرکت کی تھی۔ ان مضامین کو ’’غالب نامہ‘‘ جنوری 2010 کے شمارے میں شائع کیا۔ ’’غالب نامہ‘‘ کا یہ خاص نمبر نظیر فہمی میں نہ صرف معاون ہے بلکہ نظیر کے کلام کی تفہیم میں یہ ہماری رہنمائی بھی کرتا ہے۔ میں نے ’’غالب نامہ‘‘ کے اس خاص نمبر میں شامل مضامین کو سمجھنے کی ایک کوشش کی ہے۔ ’’غالب نامہ‘‘ کے اس خصوصی نمبر میں بائیس مضامین شامل ہیں۔ ان مضامین میں سب سے پہلا مضمون پروفیسر شمیم حنفی کا بعنوان ’’نظیر کا آدمی نامہ (1735 تا 1830) ‘‘ ہے۔ نظیراکبرآبادی کی شاعری پر اعتراض کرنے والوں کے سلسلے میں شمیم حنفی نے نہایت اہم اشارے کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہمیں نظیراکبرآبادی اور اس عہد کے زمانی فاصلے کا خیال رکھنا چاہئے ، انھو ںنے خفگی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’پتا نہیں ایسا کیوں ہوتا ہے لیکن ہوتا یہی آیا ہے کہ ہم دو سو برس پہلے کے آدمی کی دنیا میں داخل ہونے کے بجائے اسے اپنی دنیا میں کھینچ بلانے پر اصرار کرتے ہیں اور افکار یا شعری اظہار کی سطح پر اس سے انھی تقاضوں کو پورا کرنے کی توقع رکھتے ہیں جو ہماری اپنی شخصیت کی ترکیب میں شامل ہیں۔‘‘(صفحہ:10)
شمیم حنفی کے مذکورہ خیالات کو پوری شاعری پر اطلاق کیا جاسکتا ہے۔ہمیں کسی بھی فن پارے کی قرأت کرتے ہوئے اس کے عہد اشاعت یا زمانہ کو پیش نظر رکھنا چاہئے، جہاں تک نظیراکبر آبادی کا تعلق ہے تو ان کی پوری شاعری کا محور ایک ایسا سماج اور معاشرہ ہے جہاں طرح طرح کے لوگ آباد ہیں۔ ان کی زندگی اور ان کے مسائل کو نظیر نے پیش کیا ہے ساتھ ہی چرند، پرند، کیڑے مکوڑے وغیرہ کے ساتھ مختلف تہواروں اور رسوم وعقائد کو بھی اپنی نظموں میں جگہ دی۔ انسان اور انسانی اقدار کا جو اظہار نظیر کے یہاں نظر آتا ہے اس کا رشتہ شمیم حنفی نے کبیر سے قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ نظیر اور کبیر دونوں کے یہاں انسانی خیال اور عمل پر حدیں قائم کرنے سے صریح انکار اور ادراک، مشاہدے اور شعر حسیت کو آزاد رکھنے پر اصرار ملتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’معلوم نہیں نظیر نے کبھی کبیر کا نام اور کلام سنا تھا یا نہیں لیکن دونوں کے یہاں انسانی خیال اور عمل پر حدیں قائم کرنے سے صریح انکار اور ادراک، مشاہدے اور شعری حسیت کو ہر حال میں آزاد رکھنے پر جو اصرار ملتا ہے، وہ دونوں میں ایک باطنی تعلق بھی استوار کرتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ کبیر کو اپنی قلندری اور آزادہ روی کے باوجود ارضی اور مابعد الطبیعاتی حقیقتوں کے بعض مظاہر پر ناگواری اور برہمی کا احساس بھی ہوتا تھا اور کبھی کبھی مدھم لَے میں اپنی بات کہتے کہتے وہ اچانک پھٹ پڑتے تھے اور زندگی کے بے تکے پن پر اپنے غم وغصے کے اظہار میں بے قابو بھی ہو جاتے تھے۔ اس کے برعکس نظیر ہرصورت حال میں، وہ چاہے جتنی سخت، شدید، ناپسندیدہ اور بے جواز ہو، اپنے آپ کو سنبھالے رکھتے تھے۔ سنجیدہ بات کہتے کہتے اچانک مسکرانے لگتے تھے۔ اپنی افسردگی اور کوفت کو چھپالے جاتے تھے اور زندگی کی طرح موت کے یا معقولیت کی طرح مہملیت کے مانوس تماشوں کو ایک سی سہجتا کے ساتھ قبول کرتے جاتے تھے۔ بپتا کی ہر گھڑی میں وہ اپنے آپ کو دلاسہ دینے کا ہنر جانتے تھے اور اس ضمن میں کسی بیرونی سہارے کی توقع یا تلاش ان کی طبیعت سے مناسبت نہیں رکھتی تھی۔‘‘
شمیم حنفی کا خیال ہے کہ اپنی باطنی کیفیت اور تجربے کی تشکیل کے لیے نظیر جو تلازمات ڈھونڈ کر نکالتے ہیں اس معاملے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ نظیر کی شاعری میں معشوق کے کردار کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ چونکہ نظیر اکبرآبادی آس پاس کی زبانوں سے نہ صرف استفادہ کرتے تھے بلکہ اس کی بولی روایات کا بھی خیال رکھتے تھے، اس وجہ سے ان کی غزلوں میں محبوب کے لیے مؤنث کا صیغہ استعمال ہوا ہے، یعنی ان کا محبوب عورت ہے اور ظاہر ہے یہ غزل کی روایت سے مختلف ہے۔
قمررئیس کا مضمون ’’میاں نظیر اور ہولی کا گلال وعبیر‘‘ بھی اس شمارے میں شامل ہے۔ نظیر اکبرآبادی کی شاعری مشترکہ تہذیبی وراثت کا حصہ ہے، ان کی نظموں میں ہندوستان کی تہذیب کی روح بسی ہوئی ہے۔ ان کے یہاں ایسی نظموں کی تعداد بہت ہے جس میں مختلف تہواروں کا ذکر ملتا ہے۔ کہیں کہیں ان کا اندازناصحانہ ضرور ہو جاتا ہے مگر وہ ایسا دنیا کی بے ثباتی کو ثابت کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ قمر رئیس نے لکھا ہے:
’’کلیات نظیر میں ہولی کے حوالے سے ایک ایسی نظم بھی ہے جس میں ایک نازک مسئلہ کو کمال ہنر سے استعاراتی رنگ میں پیش کیا گیا ہے اس کا عنوان ہے ’’ہولی سفید وزرد کی لڑائی‘‘ نظیر خوب جانتے تھے کہ ان کے عہد میں مسلمانوں کا ایک طبقہ ہولی کی رنگ افشانی سے دور رہتا ہے اور اگر اس کے سفید لباس پر عبیر وگلال کا چھینٹا بھی پڑ جائے تو اسے گناہ سمجھتا تھا۔ نظیر کے نزدیک بسنت اور پھاگن کے ایام کی مستی اور بہار ایسی فطری نعمت ہے کہ اس سے ہر فرد کو شاد کام ہونا چاہئے۔‘‘
سبھوں کے عیش کو پھاگن کا یہ مہینہ ہے
سفید و زرد میں لیکن کمال کینا ہے
طلا کار زرد کیے سر بسر خزینہ ہے
سفید پاس فقط سیم کا دفینا ہے
ہر ایک دل میں ہے رستم وزال ہولی میں
یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ مشترکہ تہذیب کا عام طور پر جو تصور ہمارے ذہنو ںمیں یہ ہے کہ ایک مسلم شاعر جب کسی ہندو مذہب سے متعلق شاعری کرے گا اور ایک ہندو جب مسلم تہواروں اور رسوم و عقائد پر شعر کہے گا تبھی وہ مشترکہ تہذیب کا امین کہلائے گا میرا خیال ہے کہ اس تصور میں تھوڑی تبدیلی کی جانی چاہئے چونکہ ہندوستان ایک کثیرالمذاہب ملک ہے، اس لیے ایسی تمام تخلیقات جس میں اتحاد، امن اور بھائی چارگی پر زور ملتا ہے اسے ہم مشترکہ تہذیب کا حصہ کہہ سکتے ہیں، خواہ نظیر نے دیوالی پر نظم کہی ہو یا عید پر۔
خلیق انجم نے اپنے مضمون ’’نظیراکبرآبادی: تذکرہ نگاروں اور نقادوں کی نظر میں‘‘ میں مختلف تذکرہ نگاروں اور نقادوں کے اقتباس پیش کیے ہیں اور جیساکہ ابتدا میں، میں نے عرض کیا کہ نظیر کے ناقدین کے یہاں اختلاف رائے کی ایک کھائی ہے، ایک طرف جہاں انھیں اردو نظم کا بڑا شاعرکہا جاتا ہے وہیں ایسے ناقدین بھی ہیں جنھوں نے ان کی زبان اور موضوعات کو عامیانہ بتایا ہے۔ خلیق انجم نے ان اقتباس کو پیش کرکے اپنی رائے بھی دی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ نظیر کی شاعری کو عامیانہ کہنا ان کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔
مضمون ’’نظیراکبرآبادی بحیثیت نظم نگار‘‘ محمد ولی الحق انصاری کی ایک طویل تحریر ہے۔تقریباً 43صفحات پر مشتمل یہ مضمون نظیر اکبر آبادی کی نظموں کا بھرپور احاطہ کرتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ نظیر کو دانستہ طور پر نظر انداز کیا گیا ان کے معاصرین کے علاوہ دوسرے ناقدین نے بھی ان کی شاعری پرکوئی خاص توجہ نہیں دی۔ نیچرل شاعری پر زور دینے والے محمد حسین آزاد کے یہاں بھی نظیراکبرآبادی کو لے کر عدم توجہی پائی جاتی ہے ۔ نظیر کی شاعری پر گفتگو کرتے ہوئے ولی الحق لکھتے ہیں:
’’زندگی کی ناپائیداری کا احساس دو قسم کے فلسفوں کو جنم دیتا ہے۔ Stoicism Epicureanism (فلسفۂ خوش گواری) اور Stoicism۔ نظیر کے کلام میں ان دونوں کی جھلک نمایاں ہے۔ زندگی کی حقیقت سمجھ لینے کے بعد دو ہی راستے ہیں یا تو دنیا سے مکمل بے نیازی حاصل کرلی جائے اور خود کو حالات پر چھوڑ دیا جائے یا پھر جتنا بھی اس دنیا میں وقت مل سکے اسے ہنس ہنسا کر گزار دیا جائے اس لیے کہ پھر دنیا میں نہیں آنا ہے۔ تنبیہ الغافلین میں نظیر، خیام کا ہمنوا معلوم ہوتا ہے۔ وہ بار بار احساس دلاتا ہے کہ جلد ہی وقت آنے والا ہے جب نہ تم ہوگے نہ ہم ہوںگے۔ اس لیے جتنا وقت بھی دنیا میں ملے اسے ہنسی خوشی سے بسر کرلینا چاہئے۔‘‘
چمن میں چل کر بیٹھو اور صراحی جام منگائو
پیو بھر بھر کے ساغر تم بھی اور ہم کو بھی پلوائو
گلے لپٹو ہمارے اور ہمیں ہنس ہنس کے بوسہ دو
اجل کافر کھڑی ہے سر پہ اے دلدار سنتے ہو
نہ یہ چہلیں نہ یہ دھوئیں نہ یہ چرچے بہم ہوں گے
میاں اکدن وہ آوے گا نہ تم ہوگے نہ ہم ہوں گے
دراصل نظیر کی شاعری حقیقت پسندی پر مبنی ہے جس میں انسانیت کی بقا اور تحفظ پر زور دیا گیا ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ تمام انسانوں کو زندگی کے لیے یکساں وسائل ملنا چاہئے۔ اس ضمن میں ان کی نظم ’’مفلسی‘‘ کو پیش کیا جاسکتا ہے۔ اس نظم میں سماج کو جس تناظر میں پیش کیا گیا ہے وہ قابل مطالعہ ہے۔ اس نظم میں تشبیہ و استعارے تو ہیں ہی تلمیح اور محاوروں کا بھی خوبصورت استعمال کیا گیا ہے۔
نظیر کی نظم ’’بنجارہ نامہ‘‘ ایک ایسی نظم ہے جس میں دنیا اور اس کی حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ٹُک حرص و ہوس چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھرے مارا
قزاق اجل کا لوٹے گا دن رات بجاکر نقارا
کیا بدھیا، بھنیا، پیتل، شُتر، کیا گونی، پلا، سربھارا
کیا گیہوں، چاول، موٹھ مٹر، کیا آگ دھواں کیا انگارا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ
نظیرکبھی دنیا اور زندگی کی حقیقت سے ہمیں روبرو کراتے ہیں تو کبھی اس کی بے ثباتی کی جانب توجہ مبذول کراتے ہیں۔ ولی الحق انصاری نے نظیر کی متعدد نظموں کا جائزہ لیتے ہوئے انھیں ایک قلندر صفت شاعر بتایا ہے، ایک ایسا شاعر جس نے تنقید کی فکر کیے بغیر عوام اور عوامی زبان کے لیے خود کو وقف کردیا۔
پروفیسر ابوالکلام قاسمی کا مضمون ’’نظیر کی شاعری کے تعین قدر کا مسئلہ‘‘ بھی غالب نامہ کے اس خصوصی شمارے میں شامل ہے۔ ابوالکلام قاسمی کایہ مضمون نظیر کی شاعری کے قدر کو متعین کرنے میں مدد کرتاہے۔ نظیر کے معترضین نے نظیر کی شاعری پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ جذبات واحساسات کے بجائے مشاہدے اور تجربات پر انحصار کرتے ہیں۔ اس ضمن میں پروفیسر ابوالکلام کہتے ہیں:
’’اتفاق سے اس نوع کے سارے اعتراضات جزوی طور پر برحق معلوم ہوتے ہیں۔ تاہم جہاں تک نظیر کی شاعری میں جذبات واحساسات سے زیادہ مشاہدے پر انحصار کا سوال ہے تو اس سلسلے میں اس بات کا اعتراف کیے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ ان کے شعری اظہار میں جذبے کی شدت تو یقینا کم ملتی ہے مگر حسی طور پر نظیر کے حواس خمسہ جس قدر بیدار اور متحرک دکھائی دیتے ہیں اس کا بدل کم شاعروں کے یہاں تلاش کیا جاسکتا ہے۔ یوں اردو شاعری میں حسِ بصارت کے استعمال کے غالب رجحان کے برخلاف نظیر کے یہاں باصرہ کے ساتھ ساتھ سامعہ، لامسہ، ذائقہ اور شامہ جیسے احساسات اس حد تک فعال اور کارفرما ہیں کہ ان کی شاعری کو حواس خمسہ کا نگار خانہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اگر مکتبی انداز میں اس نکتے کی وضاحت کی جائے تو ایسے ان گنت پیکروں کی نشان دہی کی جاسکتی ہے جن میں کسی مخصوص حسی پیکر کے ساتھ ساتھ محتلف حواس پر مبنی امتزاجی اور مشترک پیکروں کی بہتات ملتی ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ وہ مغرب میں امیجری کی تحریک کے زیر اثر، پیکر تراشی کے ساتھ استعارہ سازی نے ہم آمیز ہو کر امیجری اور پیکر تراشی کو جس نقطہ عروج پر پہنچایا اور اس کا معیار قائم کیا تھا، اس کی مثالیں نظیر کی شاعری میں ڈھونڈھے سے بھی نہیں ملتیں۔‘‘
نظیر کی شاعری کا مرکز ہی زندگی اور اس سے متعلق مختلف واقعات ہیں، وہ اپنی قوت متخیلہ کو بروئے کار لاتے ہوئے جس طرح مختلف رسوم ورواج اور موسم کا ذکر کرتے ہیں وہ قابل تقلید ہے۔ برسات کی بہاریں ہوں یا برسات سے پیڑپودے میں آنے والی ہریالی کا ذکر ہو سب نظیر کی نظموں میں موجود ہے۔ یہی خوبیاں ان کی غزلوں میں بھی موجود ہے۔ ظاہر ہے نظموں کی طرح غزل میں کسی خیال کو مربوط انداز میں پیش نہیں کیا جاسکتا مگر نظیر کے سادہ اسلوب کی جھلک یہاں بھی مل جاتی ہے۔
کھول دی چاہ، دیدئہ تر نے
یاں نہ لازم پلک بھگونا تھا
سب کتابوں کے کھل گئے معنی
جب سے دیکھی نظیر دل کی کتاب
’’نظیر اکبر آبادی کا فارسی کلام: ایک مطالعہ‘‘ شریف حسین قاسمی کا مضمون ہے۔ نظیراکبرآبادی نہ صرف فارسی زبان وادب سے واقف تھے بلکہ انھوںنے فارسی میں اشعار بھی کہے۔ شریف حسین قاسمی نے لکھا ہے کہ ’’نظیراکبرآبادی نے ایک دیوان مرتب کیا تھا جو اب دستیاب نہیں ہے۔‘‘ ظاہر ہے جب دیوان ہی دستیاب نہیں تو پھر فارسی شعر گوئی میں نظیر کی انفرادیت کیسے طے کی جاسکتی ہے۔ البتہ کلیات نظیر (اردو) میں فارسی کے چند اشعارموجود ہیں جن سے ہم نظیر کی فارسی شاعری کاعمومی جائزہ لے سکتے ہیں۔ نظیر کے فارسی کلام کا جائزہ لیتے ہوئے شریف حسین قاسمی نے لکھا ہے کہ ’’نظیر نے اپنے فارسی کلام میں بلاتکلف ہندی الفاظ استعمال کیے ہیں۔‘‘ ان کا خیال ہے کہ فارسی کلام میں نظیر کی بلند خیالی بھی نظر آتی ہے اور اردو شعری روایت کو اختیار کرتے ہوئے موضوع عشق، محبوب اور اس کی ادا، وصل وغیرہ کو پیش کیا گیا ہے۔
لطف الرحمن کا مضمون ’’نظیر تنہارنگ کا تنہا شاعر‘‘ کے عنوان سے رسالے کی زینت ہے۔ انھو ںنے اپنے مضمون کا آغاز ان جملوں سے کیا ہے کہ ’’میرا نظریہ یہ ہے کہ اردو میں نظیراکبرآبادی قلندرانہ روایت کا تنہا شاعر ہے۔‘‘ اختراورینوی نے لکھا تھا کہ ’نظیر کی نظمیں من موجی،بے خبری کا عالم اور ہر حال میں خوش رکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔‘ اختراورینوی کی تائید ان اشعار سے ہوتی ہے۔
زر کی جو محبت تجھے پڑجاوے گی بابا
دکھ اس میں تری روح بہت پاوے گی بابا
برکھا نے کو ہر پینے کو ترساوے گی بابا
دولت جو تری یاں ہے نہ کام آوے گی بابا
پھر کیا تجھے اﷲ سے ملوادے گی بابا
زردار ہے تو ہرگز مت مار اپنے من کو
تن زیب تن سکھوں سے ترسانہ اپنے تن کو
جو نر چلن چلیں ہیں چل تو بھی اس چلن کو
مرشد کا ہے یہ نکتہ رکھ یاد اس سخن کو
دل کی خوشی کی خاطر چکھ ڈال مالِ دھن کو
گر مرد ہے تو عاشق کوڑی نہ رکھ کفن کو
شمیم حنفی نے جہاں نظیر اور کبیر کے کلام میں ممثالت کی طرف اشارہ کیا ہے مگر اختر اورینوی کا خیال ہے کہ نظیر دراصل بھگتی تحریک کے شعرا اور کبیر سے آگے ہیں۔ لطف الرحمن نظیر کی شاعری پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یہ رائے حقیقت پسندی کی مظہر ہے۔ نظیر کی قلندرانہ شخصیت مذہب ومسلک کے امتیاز سے آزاد تھی۔ غیرمسلموں سے ان کی زیادہ قربت بھی رہی تھی۔ راجا بلاس رائے کے فرزندوں کے اتالیق تھے۔ آگرہ کے بازاروں کی رونق تھے۔ زوال پذیر معاشرے کے نمائندہ۔ وہ اخلاقی اور تہذیبی اور معاشرتی اور سماجی انحطاط کے جمالیاتی شاہد تھے۔ فرسودگی اور یکسانیت اس عہد کی تخصیص تھی۔ اشرافیہ طبقہ اپنی تہذیب اور زبان کے تحفظ کو وقار کا مسئلہ سمجھتا تھا۔ ان کے لیے نظیر قابل قبول ہوہی نہیں سکتے تھے۔‘‘ (صفحہ:136)
نظیر ایک ہندوستانی شاعر تھے، ہندوستانی سے میری مراد یہ ہے کہ نظیر کی شاعری میں ہندوستانی تہذیب، یہاں کی زندگی، عوام کے مسائل، مختلف رسوم ورواج یہاں تک کہ میلوں ٹھیلوں کا ذکر ترجیحی طور پر ملتا ہے۔ ہولی، شب برأت، دیوالی، بسنت، راکھی، عرس وغیرہ پر نظیر نے باضابطہ نظمیں کہی ہیں۔ انھوں نے جن تشبیہات و استعارات کو پیش کیا ہے وہ بھی خالصتاً ہندوستانی ہیں۔ معاشرے کے ہر پہلو پر شاعری اور انہی خوبیوں کی وجہ سے انھیں عوامی شاعر بھی کہا جاتا ہے۔
قاضی افضال حسین نے اپنے مضمون ’’نظیر کی برہنہ گفتاری: نظیر تنقید کا مسئلہ (چند اشارے)‘‘ میں نظیر کی شاعری اور ان کے ناقدین پر تبصرہ کیا ہے۔ انھوں نے نظیر کی شاعری میں استعمال ہوئے عوامی اور بول چال کی زبان کو عامیانہ بتایا ہے۔ شیفتہ نے نظیر کو اس لیے شاعر ماننے سے انکار کردیا تھا کیونکہ ان کے کلام کو عوامی مقبولیت (جسے انھوںنے سوقیوں کی زبان کا حاوی ہونا بتایا ہے ) حاصل تھی۔ حالانکہ شبلی نے نظیر کی سادگی اور صفائی کو میرانیس اور میرتقی میر کے برابر کا بتایا ہے۔ قاضی افضال لکھتے ہیں:
’’جہاں اردو کی معروجہ شعری روایت کے لیے اجنبی الفاظ، شعری اظہار کے بنیادی تقاضوں سے بے نیاز ہو کر بڑی بے تکلفی سے استعمال کیے گئے ہیں۔ جہاں کہیں یہ عامیانہ لفظ اپنی تنظیم کی نئی دلالت روشن کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، تو شعر تخلیقی اظہار کی بنیادی شرط پوری کرتا معلوم ہوتا ہے اور جب نظیر لفظ کو اس کی لغوی سطح یا روایتی سیاق سے بلند کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو ان کی برہنہ گفتاری، نامانوس اور سطحی خوش فیلیوں سے زیادہ نہیں رہ جاتی۔ ‘‘ (ص: ۱۴۸)
سامنے اس صفِ مژگاں کے میں کل جاونگا
چھد تو جاونگا پر آگے سے نہ ٹل جاونگا
آخر اس بہانے سے ملا یار سے نظیر
کپڑے بلا سے پھٹ گئے سودا تو پٹ گیا
اس کے بالا ہے اب وہ کان کے بیچ
جس کی کھیتی ہے چھوک جان کے بیچ
قاضی افضال حسین نے لکھا ہے کہ نظیر اکبر آبادی کی شاعری میں خیر و شر کی تفریق نہیں ہے، ان کا خیال ہے کہ نظیر کسی واقعے کو نظم کرتے ہوئے اس کے اقداری صفات کا استعمال کم سے کم کرتے ہیں۔اس لیے نظیر کے کلام کو وہ تنقید کے لیے ایک مشکل سوال مانتے ہیں۔
محمد زماں آزردہ کا مضمون’’ نظیر اکبر آبادی کی شاعری میں مقامی رنگ‘‘بھی شامل رسالہ ہے۔ نظیر کی شاعری کلی طور پر گل و بلبل کے استعارے سے عاری تو نہیں ہے مگر اتنی بات ضرور ہے کہ ان کے یہاں گل و بلبل جیسے استعارے بہت کم استعمال ہوئے ہیں۔ان کے یہاں عشق کا تصور بھی عام تصور سے الگ تھا وہ عوام اور عوامی تقریبات میں خودکو ضم کردینا ہی اپنی کامیابی تصور کرتے ہیں۔ نظیر کو دربار کی نوکری بھی ملی تھی مگر آزاد اور قلندرانہ صفت کا حامل ہونے کی وجہ سے انہوں نے درباری نوکری اور منصب کو قبول نہیں کیا۔جہاں تک نظیر کے کلام میں مقامی رنگ کا تعلق ہے تو نظم ’’ عید الفطر‘‘ سے چند مصرعے ملاحظہ کریں۔
بیٹھے ہیں پھول پھول کے مہمانوں میں کلال
اور بھنگ خانوں میں بھی سر سبزیاں کمال
چھنتی ہیں بھینگیں اڑتے ہیں چرسوں کے دم نڈھال
دیکھو جدھر کو سیر مزا عیش قیل و قال
ایسی نہ شب برأت نہ بقرید (بقر عید)کی خوشی
جیسی ہر ایک دل میں ہے اس عید کی خوشی
محمد زماں آزردہ نے لکھا ہے کہ نظیر نے عید کو مقامی روایت، رنگ اور ماحول کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ نظیر کی شاعری میں عوامی زندگی کے ہر رنگ کو اپنی شاعری میں پیش کیا ہے۔محمد زماں آزردہ لکھتے ہیں:
’’انصاف سے دیکھا جائے تو نظیر اپنے عہد کا ایک باغی شاعر تھا جس نے ایک طرف یہ بھی ثابت کردیا کہ وہ اپنے معاصرین سے کسی طرح کم نہیں اور ان کے میدان میں وہ بہ آسانی قدم رکھ سکتا ہے مگر اس میدان میں انھوں نے اپنے لیے توسیع کا ایسا سامان پیدا کیا کہ دوسروں کا ان وسعتوں میں قدم رکھنا اس زمانے کے مزاج اور وضع کے منافی تھا۔‘‘
چونکہ انسانیت کا حسن ہی عوام سے ہے اس لیے نظیر کی شاعری ان معنوں میں اہم کہ ان کی شاعری میں یہ حسن جگہ بہ جگہ نظر آتا ہے۔
پروفیسر شارب ردولوی کا مضمون’’ نظیر کی زبان اور اس کے تہذیبی رشتے‘‘ کے عنوان سے رسالے میں شامل ہے۔انھوں نے مضمون کے آغاز میں ہی نظیر کو زبان اور موضوع کے لحاظ سے روایت شکن شاعر بتایا ہے۔نظیر کی زبان کو سوقیانہ کہنے والے ناقدین کے حوالے سے پروفیسر شارب ردولوی لکھتے ہیں کہ نظیر کی خوبی یہ ہے کہ وہ ادبی اسلوب میں عوامی زبان اور لہجے یا روز مرہ کو استعمال کرنے میں تکلف نہیں کرتے۔نظیر کی زبان کا جازئہ لیتے ہوئے پروفیسر شارب ردولوی لکھتے ہیں۔
’’شاعری جذبات اور مشاہدات کا بے ساختہ اور بلا تکلف اظہار اور اپنے عہد کے معتقدات، توہمات اور زندگی کے اقدار کا اظہار بھی ہے۔ کسی بھی عہد کی شاعری اس عہد کی تہذیبی و ثقافتی تاریخ بھی ہوتی ہے۔ پر تکلف اور آراستہ شاعری خوبصورت اور مسرت انگیز ہوتی ہے، لیکن بے تکلف اور بے ساختہ شاعری پر اثر اور دل میں اتر جانے والی ہوتی ہے۔ وہ اشعار جو یاد رہ جانے والے ہوتے ہیں عام طور پر بے تکلف زبان اور بے تکلف اظہار کا نمونہ ہوتے ہیں اور روز مرّہ کی بھی یہی صفت ہے کہ اس میں اس عہد کی زندگی کا عکس دکھائی دیتا ہے۔یہ کارنامہ ایک حد تک اس عہد میں میر نے بھی انجام دیا لیکن نظیر کی شاعری زبان و بیان کی بے ساختگی کا ایک ایسا نمونہ بن گئی جس نے ان کی شاعری کو اس عہد کی تہذیبی و ثقافتی تاریخ بنادیا۔‘‘ (ص:۱۷۸)
نظیر اکبر آبادی کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جہاں وہ مختلف زبانوں سے واقف تھے وہیں انہوں نے اپنی شاعری میں سب سے زیادہ الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ ان میں فارسی اور ہندی کے علاوہ ٹھیٹ زبان کا استعمال کیا ہے۔پروفیسر شارب ردولوی نے نظیر اکبر آبادی کو اپنے عہد کا مؤرخ بتایا ہے۔ان کا خیال ہے کہ نظیر کی شاعری اپنے عہد کی تہذیبی تاریخ ہے۔وہ لکھتے ہیں۔
’’نظیر کا احاطۂ فکر اور مشاہدہ اس قدر وسیع ہے کہ اس میں اُس عہد عہد کے معتقدات، توہمات، پسند و نا پاپسند، رسم و رواج، موسم و تہوار سب اپنی پوری آن بان کے ساتھ نظر آتے ہیں۔‘‘ (ص: ۱۸۲)
نظیر کی شاعری کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ہم آسانی سے اس عہد کے رسم و رواج کے ساتھ اس عہد کی تہذیب و ثقافت ، میلے ٹھیلے یہاں تک کی زبان کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
آذرمی دخت صفوی کا مضمون’’نظیر بے نظیر ‘‘ ہے۔ انھوں نے اپنے مضمون میں نظیرکی روایت شکنی کو مدّ نظر رکھتے ہوئے نظیر کو انوکھا، آزاد، بیباک اور سرکش شاعر بتایا ہے۔نظیر کی شاعری میں موجود منظر کشی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اسے حقیقی منظر سے تعبیر کیا ہے۔وہ لکھتی ہیں کہ نظیر کے الفاظ پر زور اور پر شور ہوتے ہیں۔آذرمی دخت صفوی نے اٹھارہویں صدی کی شاعری کا ذکر کیا ہے جو فارسی زبان بلکہ ایرانی کلچر سے پوری طرح متاثر نظر آتاہے۔گل و بلبل کا استعارہ ہو یا پھر شیریں ،فرہاداور لیلیٰ مجنوں کے واقعات ہوںیہ سب فارسی زبان و تہذیب سے متاثر تھے مگر نظیر اکبر آبادی نے فارسی پر عبور ہونے کے باوجود اپنا محور و مرکز کو خالص ہندوستانی روایت سے جوڑ کر رکھا۔
آذرمی دخت صفوی نے اپنے مضمون میں نظیر اور امیر خسرو کے درمیان ایک رشتہ قائم کرنے کی کوشش کی ہے، ان کا خیال ہے کہ صدیوں کے فاصلے کے باوجود فکروفن اور شخصیت کی بعض سطحوں پر حیرت انگیز حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔دراصل مضمون نگار کے نزدیک ان دو بڑے شعرے کے موضوعات میں یکسانیت اہم ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ان دونوں شعرا کے یہاں ہندوستان اور ہندوستانی کلچر سے ایک وابستگی بلکہ عشق ملتا ہے۔ انھو ںنے یہ بھی لکھا ہے کہ خسرو جہاں لوگوں کی فرمائش پر نظمیں کہہ دیتے تھے، وہیں نظیر بھی راہ چلتے لوگوں کی فرمائش پر نظمیں کہہ دیا کرتے تھے۔
شمس الحق عثمانی کا مضمون ’’منظر سام…نظیر‘‘ ہے۔ انھو ںنے اپنے مضمون کی ابتدا نظیر اکبرآبادی کے اس شعر سے کیا ہے۔
دیکھ لے اس چمن دہر کو دل بھر کے نظیر
پھر ترا کا ہے کو اس باغ میں آنا ہوگا
شمس الحق عثمانی نے نظیر اکبر آبادی کی عوامی شاعری کو نظرانداز تو نہیں کیا ہاں اپنے قارئین سے یہ سوال ضرور قائم کیا ہے کہ چونکہ ہرناقد نظیر کے بارے میں یہی کہتا ہے کہ وہ عوامی لب ولہجہ اور عوامی زبان کا شاعر ہے اس لیے ہمارا ذہن نظیر کے بارے میں اکہرے پن کا شکار ہوگیا ہے اور ہم نظیر کے کلام میں موجود تہہ داری اور بلیغ اشاروں کو نہیں سمجھ پاتے۔ انھوںنے نظیر کے کلام سے کچھ نمونے پیش کیے ہیں جن کی سنجیدہ قرأت ہمیں معنی و تفہیم کی ایک نئی دنیا میں لے جاتی ہے۔
گھنگرو کی پڑی آن کے پھر کان میں جھنکار
سارنگی ہوئی بِین، طنبوروں کی مددگار
طبلوں کے ٹھُکے طبل، یہ سازوں کے بجے تار
راگوں کے کہیں غل، کہیں ناچوں کے بندھے تار
ڈھولک کہیں جھنکارے ہے مردنگ زمیں پر
ہولی نے مچایا ہے عجب رنگ زمیں پر
جو وصول میں ہیں ان کے جوڑے مہک رہے ہیں
جھولوں میں جھولتی ہیں گہنے جھمک رہے ہیں
جو دکھ میں ہیں سو ان کے سینے پھڑک رہے ہیں
آہیں نکل رہی ہیں آنسو ٹپک رہے ہیں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
نظیر کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے شمس الحق عثمانی لکھتے ہیں:
’’مظاہرِ کائنات کو اپنے حواس سے اور اپنے حواس کو مظاہرِ کائنات سے آزمانے کے لیے نظیر جس قدر بے تاب و وارفتہ رہے، وہ کسی ایک فلسفے، کسی ایک دبستانِ فکر یا کسی ایک مشروط و محدود نقطۂ نظر کی اصطلاحوں میں یا کسی ایک تھیوری میں مقید ہونے والی شے نہیں__ یعنی نظیر کا ذہنی سفر، افقی اور عمودی دونوں سمتوں میں ہے اور ایک سمت میں دوسری سمت کا ادراک شامل ہے۔‘‘
علی احمد فاطمی نے ’’نظیر اکبر آبادی کی شاعری میں ہندو و ہندوستانی تہذیب‘‘ کے عنوان سے نظیر کی شاعری کا جائزہ لیا ہے ۔ نظیر اول تو مذہبی حد بندی کے قائل نہیں تھے، یہی وجہ ہے کہ شیعہ مکتب فکر سے تعلق رکھنے کے باوجود نظیر نے کوئی مرثیہ نہیں کہا، دوم ہندوئوں کے ساتھ ان کے تعلقات زیادہ تھے لہٰذا ان کی شاعری میں ہندو بلکہ خالص ہندوستانی رسوم وعقائد کی پیش کش کا بہترین اظہار ملتا ہے۔ عید، شب برأت وغیرہ پر جہاں ان کی ایک ایک نظم ملتی ہے وہیں دیوالی، ہولی وغیرہ پر کئی نظمیں ملتی ہیں۔
نظیر کی نظم ’’کنہیاجی‘‘کا ایک بند یکھئے جس میں شادی بیاہ کے رسوم کے ساتھ ہندو سماج کی کتنی اچھی تصویر پیش کی گئی ہے۔ شیو اور پاربتی کی شادی کے موقع پر بھوجن کی منظرکشی ملاحظہ ہو:
جب راجا نے یہ حکم دیا تیاری ہو اب بھوجن کی
منگوائے میوے لاکھوں من اور میوے مصری شکر گھی
حلوائی ہزاروں آ بیٹھے کر گرم کڑھائو رکھ تھالی
کر کھووے ستھرے دودھ منگا اور ڈالی چینی شکر تری
پھر ڈالا ’وب گلاب اس میں ڈالی اور ڈلیا مصری کی
انبار لگائے پیڑوں کے اور ڈھیر گلابی اور برفی
پھر لڈو بھی تیار کیے دے قند بہت بادام گری
براق مگمذر اور خرمے بھی خوب امرتی بیر بھی
وہ خوب جلیبی اور کھجلے وہ گھیو بالوساہی بھی
دراصل نظیر کا عہد موجودہ عہد سے بالکل مختلف تھا۔ ہندی کے ناقد داموداس نے نظیر پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’نظیر کے عہد میں ہندو عوام کے بیچ جو دھرم چل رہا تھا جسے ہندو ویدوں، برہم، گرنتھوں، اپنشدوں، رامائن، مہابھارت وغیرہ گرنتھوں سے نکلا ہوا مانتے تھے۔ اس کال میں ویدک دیوی دیوتائوں کے مقام پر اور انیک دیوی دیوتائوں کی مان دان زیادہ ہوگئی تھی۔ کرشن کی پوجا زیادہ تھی۔ نظیر نے کرشن کے متعلق زیادہ شاعری کی ہے۔‘‘ (صفحہ:232)
داموداس وشسٹھ کے مذکورہ قول سے بھی اس جانب اشارہ ملتا ہے کہ نظیر جہاں ایک طرف کرشن سے متاثر تھے وہیں اس پسند اور عقیدت میں اس عہد کے سماجی ریتی رواج کا بھ اہم رول تھا۔
قاضی جمال حسین کا مضمون ’’نظیر کے تنقیدی محاکمے کا خاکہ‘‘ دراصل نظیر پر لکھی گئی تنقید کا جائزہ پیش کرتا ہے۔ نظیر کے ناقدین کے یہاں جو تشدد اور نظریاتی اختلاف پایا جاتا ہے، اس جانب اس مضمون میں کئی حوالے دیے جاچکے ہیں۔ یہاں قاضی جمال حسین کا ایک اقتباس پیش کرنا چاہتا ہوں جس سے اس مضمون کا مرکزی خیال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
’’واقعہ یہ ہے کہ بے ثباتی، دنیا، آخرت کی ترغیب یا دیگر اخلاقی موضوعات پر جس بے تکلفی سے نظیر نے نظمیں کہی ہیں اسی آزادی اور کشادہ دلی سے انھوں نے جنسی موضوعات پر بھی شعر کہے ہیں۔ بے ساختہ اور بے محابا اظہار، ان کے اسلوب کی بنیادی صفت ہے۔ موضوع خواہ کچھ بھی ہو۔ وہ جنسی جذبے کو بھی جملہ تفصیلات کے ساتھ اسی انہماک سے بیان کرتے ہیں۔ جس دلچسپی سے اخلاقی مضامین کو۔ بے ثباتیٔ دنیا کا احساس انھیں دنیا بیزاری پر آمادہ نہیں کرتا بلکہ کم فرصتیٔ زیست میں وہ دنیا کو ہررنگ میں جی بھر کے دیکھ لینا چاہتے ہیں۔ پھر یہ کہ ان کے مخاطب بھی اہل حرفہ، نیم خواندہ عوام اور جمہور کا انبوہ کثیر ہے جن کے نزدیک محبت کا کوئی تصور، جنسی جذبے کی آمیزش سے آزاد نہیں ہوتا۔ نظیر کے محاکمے میں اس حقیقت کو نظر انداز کرکے پیشتر غلط نتائج نکالے گئے ہیں۔‘‘
رات ہوئے تھے واہ واہ کیا ہی نشے رسا رسا
پیتے تھے مے بسا بسا پھولوں میں ہم بسا بسا
شوخ بغل میں چاند سا دیتا تھا بوسے ہنس ہنسا
زلفوں میں اس کے دل پھنسا آن و ادائیں جی بسا
جامہ بدن میں چس چسپا پھول ہوا تھا بس بسا
نیندوں میں بار رِسما لے تھا جمائی کسمکسا
اس میں رقیب کرکسا کرکے سحر کا وسوسا
لاکے نقارہ یا دہل دھوں دھوں بجا یا کس کسا
صبح کے ڈر سے ہڑا بڑا یا رنے گھر کی راہ لی
ہم بھی دغا میں آگئے مفت بہار لٹ گئی
کمر نازک مٹکتی چال آنکھیں شوخ تن گورا
نظر چنچل ادا اچیل یہ ہے پہچان سمدھن کی
سنہری تاش کا لہنگا روپہلی گوٹ کی انگیا
چمکتا حسن جوبن کا جھمکتی آن سمدھن کی
ملائی سا شکم سینہ مصفا خوش نما ساقیں
صفا زانو کا آئینہ ملائم ران سمدھن کی
ان مضامین کے علاوہ ریحانہ خاتون (نظیر کے عہد کا آگرہ، ایک گزارش)، اقبال مرزا (نظیر اکبر آبادی کا پہلا عشق)، کاظم علی خان (غالب اور نظیراکبرآبادی)، شیما رضوی (نظیر اکبر آبادی اردو کا پہلا عوامی شاعر)، قدوس جاوید (عاشق تو قلندر ہے)، کشمیری لال ذاکر (نظیر اکبرآبادی اردو کا پہلا شاعر) اور نور فاطمہ (نظیراکبرآبادی کی شاعری میں جزئیات نگاری) کے مضامین شامل ہیں۔
ان مضامین کے مطالعے سے نظیر فہمی کا ایک روشن باب وا ہوتا ہے۔نظیراکبرآبادی کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں ان کے عہد اور اس دور کے سماج کو بھی دیکھنا ہوگا۔ نظیر ایک شاعر ہیں اور انھیں شاعر کی کی نگاہ سے ہی دیکھنا چاہئے۔ دوسرے شعرا کی طرح نظیر کے یہاں بھی موضوعات کا تنوع ہے، ان کے یہاں اخلاقی پہلو پر نظمیں ملتی ہیں تو شراب وشباب کا ذکر بھی ان کے یہاں موجود ہے، قدرتی مناظر کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری اپنے دور کی تہذیب وثقافت کو بھی پیش کرتی ہے،میلوں ٹھیلوں کا بھی ذکر ہے اور مختلف مذہبی عقائد پر مبنی نظمیں بھی موجود ہیں۔دنیا کی بے ثباتی کا بھی ذکر ہے اور دنیا کی رنگینی پر بھی اظہار خیال ملتا ہے۔ ایک ایسا شاعر جس کے کلام میں ایک پورا عہد جیتا جاگتا نظر آتا ہے ،ایسے میں اسے نظرانداز کرنا نظیر کے ساتھ بے انصافی کے مترادف ہوگا۔میرا خیال ہے کہ نظیر کی پوری شاعری کا ایک مرکزی خیال اور وہ ’انسان دوستی‘ ہے۔ یہاں انسانی اقدار اور تحفظ کا ایک جذبہ ہے۔ میں اپنی بات نظیر کے ان مصرعوں پر ختم کرنا چاہتا ہوں ؎
ہے دنیا جس کا نانویاں یہ اور طرح کی بستی ہے
جو مہنگوں کو تو مہنگی ہے اور سستوں کو سستی ہے
یاں ہر دم جھگڑے اٹھتے ہیں ہر آن عدالت بستی ہے
گر مست کرے تو مستی ہے اور پست کرے تو پستی ہے
کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یا سودا دست بدستی ہے
جو اور کسی کا مان رکھے تو اس کو بھی ارمان ملے
جو پان کھلاوے پان ملے جو روٹی دے تو نان ملے
نقصان کرے نقصان ملے احسان کرے احسان ملے
جو جیسا جس کے ساتھ کرے پھر ویسا اس کو آن ملے
کچھ دیر نہیں اندھیرنہیں انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بدستی ہے
جو پار اتار دے اوروں کو اس کی بھی نائو اترتی ہے
جو غرق کرے پھر اس کی بھی یاں ڈبکوں ڈبکوں کرتی ہے
شمشیر تبر بندوق سناں اور نشتر تیر نہرتی ہے
یاں جیسی جیسی کرتی ہے پھر ویسی ویسی بھرتی ہے
کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بدستی ہے
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page