میر انیس فن مرثیہ گوئی کے بادشاہ کہلاتے ہیں، انکا شمار اردو کے عظیم شاعروں میں ہوتا ہے۔میر انیس کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے صنف مرثیہ کو بام عروج پر پہنچا دیا ۔مرثیہ کو زندہ جاوید بنایا اور اس کو کمال تک پہنچایا ۔ انیس کا ایک مرثیہ ہے جس میں وہ اپنی شاعری سے متعلق دعا مانگتے نظر آتے ہیں۔
مبتدی ہوں مجھے توقیر عطا کر
شوق مدّاحی شبّیر عطا کر یا رب
صاف حیرت زدہ معنی ہو تو بہزاد ہو دنگ
خوں برستا نظر آئے جو دیکھاؤں صف جنگ
میر انیس کی دعا قبول ہوئ اور جو واقعہ بیان کیا اسکی تصویر کھینچ دی۔ اور میدان جنگ کی تصویر اس خوبی سے کھینچی کہ ایک خونی ڈرامہ پیش نظر ہو گیا۔
انیس کو مرثیہ گوئی اور مرثیہ نگاری دونوں ورثہ میں ملی تھی۔ میر انیس کے والد میر خلیق ایک مرثیہ گو شاعر تھے مرثیہ کے اجزائے ترکیبی کے انتخاب میں میر انیس کا منفرد مقام ہے میر انیس نے اپنے والد سے تعلیم وتربیت حاصل کی۔ میر انیس کی طبیعت میں رسائیت تھی باپ کی محبت نے انکے اندر مرثیہ گوئی کا شوق پیدا کردیا اور پھر جذبہ فطرت نے دونوں کو پائہ کمال تک پہنچایا ۔میرانیس واقعہ نگاری کے مرد میدان ہیں ۔ بقول شبلی نعمانی:
” میرانیس نے واقعہ نگاری کو جس کمال کے درجہ تک پہنچایا اُرد و کیا فارسی میں بھی اس کی نظیر یں مشکل سے ملتی ہیں۔“
میر انیس کو سپہ گری سے فطری لگاؤ تھا نیزسپہ گری میں کمال حاصل تھا۔جب میر انیس تحت الفط میں (اپنے والد کی طرح) مرثیہ پڑھتے تھے تو اپنی محاکات سے اس منظر کا مرقع پیش کر دیتے تھے۔میر انیس نے خلیق و ضمیر کی قائم کردہ بنیادوں کو پختگی بخشی واقعات نگار ی،مناظر قدرت،اخلاقی مضامین اور زم کو حد کمال تک پہنچایا۔میر انیس اردو زبان کی بیحد خدمت کی انکا کلام سادگی اور وضاحت کے لئے بہت مشہور ہے ۔میر انیس ذبان و بیان کے تحت لفظوں کے انتخاب و ترتیب پر بہت توجہ صرف کرتے۔
انکے یہاں جتنے الفاظ کا ذخیرہ ہے وہ اردو کے کسی اور شاعر ک یہاں نہیں ملتا پھر استعارات اور تشبیہات کا بر محل استعمال انکے کلام کا زیور ہیں۔ انکے استعمال میں میر انیس نے بڑی فنکارانہ مہارت کا مظاہرہ کیا ہے۔چند مثالیں ملاحظہ ہوں:-
یوں برچھیاں تھیں چار طرف اس جناب کے
جیسے کرن نکلتی ہے گرد آفتاب کے
ان خوبیوں کے باوجود تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ میر انیس کا کلام خامیوں سےیکسر خالی نہیں۔بقول پروفیسر مسعود حسن رضوی:-
"انکا یہ عیب ایسا نظر آتا ہے جیسے چاند میں داغ”
مگر بقول پروفیسر آ ل احمد سرور:-
"یہ وہ داغ ہیں جن سے چاند کے حسن میں کمی نہیں آتی”
میرانیس انسانی نفسیات سے گہری واقفیت رکھتے ہیں کہ کسی صورتحال میں کیا واقعہ پیش آسکتا ہے یا کسی موقع پر کون سا کردار کیا قدم اٹھاۓگایااسکیذبانسےکیاکلماتاداہونگےیہیوجہہےکہمیرانیسنےکردارنگاریمیںبڑیمہارتکاثبوتدیا۔اسلئےانھوںنےاتنےاچھےمکالمے لکھے ہیں کہ ہر فنکار نہیں لکھ سکتا۔ میرانیس نے اسی موقع کے لئے کہا تھا-
"یعنی موقع ہو جہاں جس کا عبارت ہو وہی”
لفظوں پر بے پناہ قدرت ہی کا فیض ہے کہ وہ ایک ہی بات کو دو دفعہ کہتے ہیں۔لفظ بدل بدل کر،انداز بدل بدل کر اور اس طرح سے لطف کم۔نہیں ہوتا۔ایک جگہ فرما تے ہیں:-
گل دستئہ معنی کو نۓڈھنگ سے میں باندھوں
ایک پھول کا مضمون ہو تو سو رنگ سے باندھوں
میر انیس ایک ایسے با کمال فنکار ہیں کہ کوئی خیال ان کی گرفت سے بچ کر نہیں جا سکتا۔لفظوں کا جتنا بڑا ذخیرہ میر انیس کو میّسر ہے اتنا اردو کے کسی اور شاعر کو نصیب نہیں ہو سکا،نظیر اکبر آبادی کو بھی نہیں۔میر انیس کے مرثیوں میں فطرت کی تصویر کشی کے بہترین نمونے ملتے ہیں۔ کہیں صبح کا سماں،کہیں تپتی دوپہر کا منظر، کہیں شام کی منظر کشی ہے، انیس نے مناظر قدرت کا جیتا جاگتا مرقع پیش کیا ہے صبح کا بیان ملاحظہ ہو:-
ٹھنڈی ٹھنڈی وہ ہوائیں وہ بیاباں وہ سحر
دم بدن جھومتے تھے وجد کے عالم میں شجر
کھا کھا کے اور اور بھی سبزہ ہرا ہوا
تھا موتیوں سے دامن سحر بھرا ہوا
بول ٹی۔ایس۔ایلیٹ:
انیس کی شاعری لا محالہ ڈرامے کے نزدیک آ جاتی ہے۔انیس کی شاعری اس کسوٹی پر پوری اترتی ہے۔ہم ان کے مرثیوں میں کربلا کے واقعات کا بیان نہیں سنتے بلکہ جو کچھ پیش آیا وہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں۔
میر انیس کے مراثی سے اردو زبان کا دامن بہت وسیع ہوا اردو شاعری میں ابھی تک کسی نے اتنے الفاظ ومحاورات استعمال نہیں کئے جتنے میر انیس نے کئے ہیں۔
رام بابو سکسینہ مصنف ”تاریخ ادب اردو “ کہتے ہیں ۔
” انیس کی شاعری جذباتِ حقیقی کا آئینہ تھی اور جس نیچرل شاعری کا آغاز حالی اور آزاد کے زمانے سے ہوا، اس کی داغ بیل انیس نے ڈالی تھی انیس نے مرثیہ کو ایک کامل حربہ کی صورت میں چھوڑا جس کا استعمال حالی نے نہایت کامیابی سے کیا۔“
پروفیسر آل احمد سرور فرماتے ہیں کہ،
” انیس کی شاعرانہ عظمت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ انیس نے سلاموں اور مرثیوں میں وہ شاعری کی ہے جن میں بقول حالی حیرت انگیز جلوئوں کی کثرت ہے جن میں زبان پرفتح ہے جو شاعر کی قادر الکلامی جذبے کی ہر لہر اور فن کی ہر موج کی عکاسی کر سکتی ہے۔ جس میں رزم کی ساری ہماہمی اور بزم کی ساری رنگینی لہجے کا اُتار چڑھاؤ اور فطرت کا ہر نقش نظرآتا ہے ان کا یہ دعویٰ کس طرح بےجا نہیں ،
تعریف میں چشمے کو سمندر سے ملا دوں
قطرے کو جو دوں آب تو گوہر سے ملا دوں
ذرے کی چمک مہر منور سے ملا دوں
کانٹوں کو نزاکت میں گل ِ تر سے ملا دوں
گلدستہ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں
اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |