اردوادب میں ناول کو بہت پسندیدہ صنف مانا جاتا ہے۔ ناول سے پہلے اردو ادب میں نثری اصناف میں داستان کو کافی مقبولیت حاصل تھی۔ داستان میں حقیقی زندگی کی بجائے مافوق الفطرت واقعات اور عناصر کی کارفرمائی ہوتی ہے۔ داستان میں کہانی در کہانی ہوتی ہے، ابتدا سے اخیر تک داستان میں ایک ہی کہانی بیان نہیں کی جاتی ہے بلکہ ایک کہانی کے ساتھ کئی کہانیاں چلتی رہتی ہیں۔ ناول میں ایسا نہیں ہے۔ ناول انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہوتا ہے۔ لفظ ناول اطالوی زبان کے لفظ ناولا (Novella) سے نکلا ہے۔ ناولا کے معانی ہےنیا۔ لغت کے اعتبار سے ناول کے معانی نادر اور نئی بات کے ہیں۔ لیکن صنف ادب میں اس کی تعریف زندگی کے حقائق کو بیان کرنا ہے۔ ناول کی اگر جامع تعریف کی جائے تو وہ کچھ یوں ہوگی کہ ناول ایک نثری قصہ ہے جس میں پوری زندگی کی کہانی بیان کی جاتی ہے۔ ناول کے عناصر ترکیبی میں کہانی، پلاٹ، کردار، مکالمے، زبان و مکاں، اسلوب اور نقطہ نظر وغیرہ شامل ہیں۔ افسانہ میں کسی فرد کی زندگی کے کسی ایک پہلو کو بیان کیا جاتا ہے، تا ہم ناول میں پوری زندگی بیان کی جاتی ہے۔ واضح ہو کہ ناول کا لفظ اطالوی زبان سے مشتق ہے۔ سب سے پہلے یہ لفظ چودہویں صدی عیسوی میں سامنے آیا۔ اس کی اصل Novella Storia ہے یہ اصطلاح تازہ کہانی کا مفہوم رکھتی تھی لیکن بعد میں ناول کا لفظ اس کہانی کے لیے مخصوص ہو گیا جو نثر میں لکھی گئی اور جس میں رومانی اثرات ملے ۔ اب تک کی تاریخی تحقیق کے مطابق ناول کا سلسلہ نسب اطالوی زبان کی مذکورہ بالا اصطلاح سے ملتا ہے۔ بوکیشیو (Boccaccio) کے بعد اس صنف کے ساتھ ساتھ یہ لفظ بھی دوسری زبانوں میں پہنچا اور رفتہ رفتہ نثر میں قصہ گوئی کی ایک مخصوص ماہیت اور نوعیت کو ناول کا اصطلاحی نام دیا گیا۔ بعد میں مختلف عہد اور مختلف زبانوں میں مختلف فن کاروں نے ناول کی مختلف تعریفیں کیں۔
ور جینا وولف نے ناول کی اہم خصوصیات کا احاطہ یوں کیا ہے:
“They are about people. They excite in us the feelings that people excite in us in real life. The novel is the only form of art which seeks to make us believe that it is giving a full and truthful record of the life of a real person. And in order to give that full record of life, not the climax and the crisis but the growth and development of feelings which is the novelist’s aim, he copies the order of the day, Observes the sequence of ordinary things even if such fidelity entails chapters of description and hours of research. Thus, we glide into the novel with far less effort and less break with our surroundings than into any other form of imaginative literature۔”1
کلارا ریوی کے مطابق ’’ ناول اس زمانے کی سچی تصویر ہے جس زمانے میں وہ لکھا جائے ‘‘2
رالف فوکس نے اپنی کتاب ’The Novel and The People ‘ میں ناول کی تعریف مندرجہ ذیل الفاظ میں کی ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں :
‘‘The novel is the epic art form of our modern bourgeois society; it reached its full stature in the youth of that society……..It did not exist except in every rudimentary form, before that modern civilization which began with the Renaissance and like every new art form it has served its purpose of extending and deepening human consciousness.”3
سر ایفور اِیوَنس نے ناول کی تعریف و توضیح قدرے وضاحت سے کی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں :
‘‘Thus the novel can be described as a narrative in prose, based on a story, in which the author may portray character, and the life of an age, and analyze sentiments and passions, and the reactions of men and women to their environment. This he may do with a setting either of his own times, or of the past. Further, beginning with a setting in ordinary life he may use the novel for fantasy, or some portrayal of the supernatural4’’۔
ناول کی درج بالا تعریف بڑی وسعت رکھتی ہے ۔ اس تعریف کے دائرے میں ناول کی تمام قسمیں آجاتی ہیں ۔ نیز یہ بات بھی منکشف ہو جاتی ہے کہ ناول کا فن اس مخصوص کہانوی بیت و ماہیت سے عبارت ہے جس نے کہانی کے پس پردہ سماجی شعور کی تنقید و ترجمانی زیادہ حقیقت پسندانہ انداز میں شروع کی ۔ ناول کی سب سے بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ ناول سماجی کش مکش اور طبقاتی آمیزش و آویزش کو زیادہ معروضیت اور حقیقت پسندی کے ساتھ پیش کرتا ہے ۔ صرف یہی نہیں کہ داستان اور ناول کے فن کے درمیان ایک خط امتیاز ہے بلکہ یہی وہ بنیادی اور حقیقی معیار ہے جو نئی اور جمالیاتی سطح پر پست و بلند اور کامیاب و نا کامیاب ناول کے درمیان افتراق و امتیاز میں ممد و معاون ہے ۔
وکٹورین عہد کے مصنف اسٹونسن نے ناول کی تعریف درج ذیل الفاظ میں کی ہیں :
’’ناول ایک ایسی نقل نہیں کہ اس کا فیصلہ اصل پر رکھ کر کیا جائے بلکہ وہ زندگی کے کسی خاص پہلو یا نقطۂ نظر کی وضاحت ہے اور اس کی فنا و بقا اسی وضاحت کی اہمیت پر مبنی ہے۔ ایک اچھا لکھا ہوا ناول اپنے مقصد و غرض کو اپنے ہر باب، ہر صفحے اور ہر جملے سے پکارتا اور دہراتا ہے ۔‘‘5
ناول کی تعریف کے سلسلے میں پروفیسربیکر کی رائے کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں :
’’ناول نثری قصے کے ذریعے انسانی زندگی کی ترجمانی کرتا ہے۔ وہ بجائے ایک شاعرانہ و جذباتی نظریۂ حیات کے ایک فلسفیانہ، سائنٹفک یا کم سے کم ایک ذہنی تنقیدِ حیات فاش کرتا ہے۔ قصے کی کوئی کتاب اس وقت تک ناول نہیں کہلائے گی جب تک وہ نثر میں نہ ہو، حقیقی زندگی کی ہو بہو تصویریا اس کے مانند کوئی چیز نہ ہوں اور ایک خاص ذہنی رجحان ( نقطۂ نظر) کے زیر اثر اس میں ایک طرح کی یک رنگی و ربط موجود نہ ہوں ۔‘‘6
ناول کی تعریف وتوضیح کے سلسلے میں اردو ناقدین کے یہاں بھی مختلف اور متنوع را ئیں ملتی ہیں ۔ ان ہی میں سے چند اربابِ نقد و نظر کی رائے یہاں نقل کی جاتی ہیں ۔ڈاکٹر سہیل بخاری اپنی کتاب اردو ناول نگاری میں لکھتے ہیں:
’’فن کی رو سے ناول اس نثری قصے کو کہتے ہیں جس میں کسی خاص نقطۂ نظر کے تحت زندگی کی حقیقی و واقعی عکاسی کی گئی ہو۔ شیکسپیر تو زندگی کو ڈراما کہتا ہے لیکن ہمارے نزدیک حیات ارضی ایک مہتم بالشان ناول ہے جس کا مرکزی کردار انسانیت ہے ۔ اب اگر ہم اس ناول کا مطالعہ کرنا چاہیں تو ہمیں اپنی تمام تر توجہ اس مرکزی کردار پر صرف کرنا ہوگی ۔ کائنات کو ہم محض اس نظر سے دیکھیں گے کہ اس نے انسانیت کے بنانےیا بگاڑنے میں کہاں تک حصہ لیا ہے ۔ مختلف افراد کی زندگیاں اپنی جگہ کوئی حقیقت نہیں رکھتیں ۔ یہ تو عالم انسانیت کے مرکزی قصے کے ضمنی پلاٹ ہیں ۔ناول انہیں افراد کی زندگیاں پیش کرتا ہے ۔ اس لیے ہمارا مرکز توجہ ایک شخص ( مرکزی شخص قصہ) اور اس کے واسطے سے اس کا ماحول یا معاشرہ ہوتا ہے ۔ جس طرح کائنات سے الگ انسانیت کا تصور ناممکن ہے بالکل اسی طرح مخصوص ماحول یا معاشرے سے جدا ہو کر انفرادی زندگی کے کوئی معنی نہیں رہ جاتے ۔ اس لیے ہمیں ان واقعات کا مطالعہ بھی ناگزیر ہے جو اس سے اثر پذیر بھی ہوئے اور اس پر اثر انداز بھی اور اس طرح ناول انسان کی باطنی اور خارجی زندگی کے تصادم کا ایک مسلسل نثری قصہ ہے جو قدیم افسانوں کی بہ نسبت ہماری زندگی سے زیادہ قریب ہوتا ہے ۔‘‘7
احتشام حسین اپنی کتاب ’ذوقِ ادب اور شعور‘ میں اردو ناول اور سماجی شعور کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :
’’تاریخ کو پیش نظر رکھ کر دیکھا جائے تو ناول ایک صنف کی حیثیت سے عہد سرمایہ داری کی پیداوار ہے جب فرو اور سماج کی کش مکش بڑھی، جاگیر داری دور کی قدروں سے متعلق شک کا اظہار کیا جانے لگا اور جب سائنس نے عقائد اور روایات کی پرکھ پر آمادہ کیا ، اس وقت انسان اور اس کے مسائل کو بہت سے پہلووں سے دیکھنے کی ضرورت محسوس کی گئی، گویا ناول ایک پیچیدہ سماج کا مظہر ہے ۔ اٹھارہویں صدی سے یورپ میں ناول نے شاعری اور ڈرامے جیسے اہم ادبی اصناف کو نیچا دکھا کر یا کم سے کم ان کی اونچی مسندوں سے انہیں ہٹا کرسب سے اہم ادبی فارم کی حیثیت اختیار کرلی اور ہر قسم کے سنجیدہ، فلسفیانہ، فکری اور گہرےخیالات کے اظہار کے لیے اس صنف ادب سے کام لیا جانے لگا ۔‘‘8
آل احمد سرور صاحب اپنی کتاب ’تنقیدی اشارے‘ میں اردو ناول کا ارتقاء کے مضمون میں رقمطراز ہیں :
’’ناول میں زندگی کے مختلف تجربات اور مناظر ہوتے ہیں، واقعات کا ایک سلسلہ ہوتا ہے ، پلاٹ، کردار، مکالمہ، منتظر نگاری اور فلسفۂ زندگی کی جھلک ہوتی ہے ۔ ہر نادل ایک ذہنی سفر کا آغاز ہوتا ہے اور فطرت انسانی سے پردہ اُٹھانے کی کوشش ۔ ناول لکھنے کے لئے بڑی پختگی اور بڑے رچے ہوئے شعور کی ضرورت ہے ۔۔۔۔ قصہ گوئی انسان کی ابتدا سے ملتی ہے مگر ناول مہذب انسانوں کی ایجاد ہے ۔ سرمایہ داروں نے افراد سے دلچسپی پیدا کی اور اس دلچسپی نے ناول کو جنم دیا ۔‘‘9
ڈاکٹر مسیح الزماں ناول کے فن پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ناول میں انسان کی معاشرتی زندگی کی تصویر پیش کی جاتی ہے ۔ یہ تصویر واقعات، حالات، اور افکار کے میل جول سے اس طرح مرتب کی جاتی ہے کہ اس سے پڑھنے والے پر زندگی کا وہ نظر یہ یا وہ تصور واضح ہو جائے جو ناول نگار کے ذہن میں ہے ۔۔۔۔اس کے علاوہ سب سے ضروری شرط یہ ہے کہ ناول کو سچی زندگی کی تصویر ہونا چاہیئے ۔ کرداروں کی نشست و برخاست اور گفتگو کے طور طریق میں کہیں پر زندگی سے علاحدگی نہیں ملنا چاہیے اگر ناول میں حقیقی زندگی سے علیٰحدگی ہوئی تو وہ اپنی تاثیر اور افادیت کھو کر تفریح کی چیز تو ہو سکتا ہے لیکن زندگی کی تفسیر یا تنقید نہیں ۔‘‘10
پروفیسر قمر رئیس ناول کی صنفی حیثیت پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ناول اپنی موجودہ فنی اور صنفی ہیئت میں صنعتی دور کی تخلیق ہے ۔ یورپ میں نشاة ثانیہ کے بعد جب علم وفن کی روشنی پھیلی، سائنسی ترقی ہوئی، مادی وسائل بدلے اور ایک ایسا نظامِ زندگی وجود میں آیا جس میں فرد یا عام انسان کی شخصیت ، صلاحیت اور قوت نمایاں ہوئی تو اس کی تفسیر وتر جمانی کے لئے ادب میں ناول جیسی صنف پیدا ہوئی ۔یہ نئی سائنسی، صنعتی اور سرمایہ دارانہ معاشرت اپنی ساری کشمکش اور ہما ہمی کے ساتھ جوں جوں ترقی کرتی گئی ناول کے فن میں بھی نکھار آتا گیا ۔‘‘11
سیدوقار عظیم داستانوں کا جائزہ لیتے ہوئے ناول نگاری کا سراغ لگاتے ہیں اور ناول کے ضمن میں لکھتے ہیں :
’’ زمانے نے ادیب اور فنکار سے کہانی کی ایک ایسی صنف کا تقاضا کیا تھا جو رومان کی رنگینیوں کے بجائے زندگی کی سادہ پر پیچ حقیقتوں کی حامل ہو ۔ایک ایسی صنف جس میں فنکار کے تخیل اور تصور کی جدت پسندی نہیں بلکہ نظر کی گہرائی شامل ہو، جس میں انسان زندگی کی تلخیوں سے گھبرا کر ایک ان دیکھی دنیا کی سیر کرنے کی جگہ اس کی کشمکش سے دو چار اور نبرد آزما ہو، جہاں اسے زندگی سے فرار کی نہیں، اس سے الجھنے اور اس کی الجھنوں کو سلجھانے کی تعلیم ملے ۔ جہاں فنکار محض مصور نہیں، مبصر، نقاد اور معلم کے فرائض اور منصب پورے کرنے کی خدمت انجام دے، جہاں جذبات اور احساسات پرفن کی منطق حاوی اور غالب نظر آئے ۔ زمانے کی اس طلب اور تقاضے نے ناول کی تخلیق کی اور آہستہ آہت اس نے داستان کی جگہ لے لی ۔‘‘12
مندرجہ بالا تعریفات کی روشنی میں یہ نتیجہ مستنبط ہوتا ہے کہ ناول نے داستان کی بنیاد پر اپنی انفرادیت قائم کی اور بدلتے ہوئے سماجی نظام اور اقدار کی ترجمانی و عکاسی کی خدمت اپنے ذمہ لے لی ۔ نیز بتدریج فنی پختگی اور ارتقائی منازل سے گزرا ۔
ناول کے اجزائے ترکیبی
ناول کے متعلق جو مختلف تعریفات و نظریات اور تصورات موجود ہیں ان سےناول کی توضیح اور فن بخوبی آشکار ہو جاتا ہے ۔ دراصل ناول ایک ایسی نثری تحریر ہے جس میں حقیقی زندگی کی عکاسی دیکھائی دیتا ہے۔ اسی حقیقی زندگی کی ممثلت کو سامنے رکھتے ہوئے مختلف ناقدینِ ادب نے اس کے اجزائے ترکیبی مرتب کیے ہیں۔ علی عباس حسینی نے ناول کے اجزائے ترکیبی سے بحث کرتے ہوئے پلاٹ، کردار، مکالمہ اور مناظر کو لازمی قرار دیا ہے جبکہ دوسرے ناقدین نے اس میں زمان و مکان، نظریۂ حیات اور اسلوب بیان کا اضافہ کیا ہے ۔ علاوہ ازیں قصہ پن، جذبات نگاری، فلسفۂ حیات، تکنیک و فنی چابکدستی کو بھی ناول کے لازمی اجزاء کا درجہ دیا گیا ہے ۔ ابواللیث صدیقی ناول کے فن پر گفتگو کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :
’’ناول سے مراد سادہ زبان میں ایسی کہانی ہے جس میں انسانی زندگی کے معمولی واقعات اور روزانہ پیش آنے والے معاملات کو اس اندا میں بیان کیا جائے کہ پڑھنے والے کو اس میں دلچسپی پیدا ہو ۔ یہ دلچسپی پلاٹ ، منظر نگاری، کردار نگاری اور مکالمہ نگاری سے پیدا کی جاتی ہے اور یہی ناول کے بنیادی عناصر ہیں، ان میں پلاٹ اور مکالمہ نگاری خاص طور پر بہت اہم ہیں ۔‘‘13
پروفیسر عتیق اللہ ناول کی صنفی حیثیت پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ناول کو ایک صنف کا درجہ دینے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کی ساخت و ہیئت کے ایسے قاعدے تشکیل دیے جائیں جیسے مسلمہ اصناف ( Canonic genres) کے ساتھ مختص ہیں ۔ اسی لیے ناول کا فن بہت سی آزادیاں فراہم کرتا ہے جن سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اپنے اوپر بہت سی پابندیاں عائد کرنی پڑتی ہیں ۔ بے اصولے پن میں بھی کسی نہ کسی اصول کی تلاش کو اپنا منصب بنانا پڑتا ہے۔ یہ ایک ایسا وسیع کھیل کا میدان ہے جہاں کھلنڈرے پن، تفریح، دل بہلاوے، دماغ سوزی، سنجیدگی ، ٹہوکہ لگانے اور چھیڑ چھاڑ کرنے کی کافی گنجائش ہے ۔ ناول نگار کو ایک وسیع تر دنیا آباد کرنی پڑتی ہے۔ باختن مسلمہ روایتی اصناف کے مقررہ اسالیب اور ہیئتی اصولوں میں Unification یعنی متحد کرنے کے عمل کو زبان کی ہم کلامی (Dialogic) کے پہلو کو پیچھے دھکیل دینے کا باعث قرار دیتا ہے ۔ ناول ایک پیچیدہ مگر سیال تنظیم کا نام ہے ۔ اسی معنی میں ہر ناول ایک نیا فنی تجربہ ہوتا ہے جس میں بقول باختن ہم بہ یک وقت زبان و تکلم کے کئی اسالیب سے دو چار ہوتے ہیں ۔ زبان کے اُس متشدد کردار کا بھی سامنا ہوتا ہے جو مقتدرہ اور ہر قسم کی آئیڈ یولوجی کورد کرنے کی طاقت رکھتا اور مرکز جو یا نہ کوششوں کا تمسخر اڑاتا ہے ۔ زبان کا یہ تصور مقتدرہ کے مستند ادبی زبان کے تصور کے منافی ہے۔ ناول کی زبان متضاد زبانوں سے ترکیب پاتی ہے اور جس میں نشو ونمو اور ارتقا کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے ۔‘‘14
مریم ایلوٹ ناول کے فن اور عناصر ترکیبی پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتی ہیں :
‘‘The novelist is no exception. Whether he considers characterization, narrative technique or the requirements of a good prose style, he is in fact making a statement about the nature of the novel, thus reminding us that form and substance are closely bound together……………………..How small a part ‘story’ plays in comparison with other elements in his craft appears in the subsequent discussion; the ‘finer growths’ are investigated under these general headings and sub-headings:
- Structural Problems
- Unity and Coherence
- Plot and Story
- The Time-factor
- Narrative Technique
- Characterization
- Dialogue
- Background
- Style15’’
فن کے نقطۂ نظر سے ناول میں جن اجزاء کی موجودگی کو ضروری قرار دیا گیا ہے وہ حسبِ ذیل ہیں ۔کہانی، پلاٹ، کردار نگاری، مکالمہ نگاری، پس منظر و زمان و مکان، طرزِ اسلوب اور نقطۂ نظر یا فلسفۂ حیات۔
قصہ گوئی
قصہ وہ بنیادی شے ہے جس کے بغیر کوئی ناول وجود میں نہیں آسکتا ۔ کوئی واقعہ، کوئی حادثہ، کوئی قصہ فن کار کو قلم اٹھانے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ایک ضروری بات یہ ہے کہ پڑھنے والے کو یہ کہانی بالکل سچی لگنی چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ قصہ جتنا جاندار ہو گا، قاری کی دلچسپی اس میں اتنی ہی زیادہ ہوگی ۔ اب یہ فنکار کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس دلچسپی کو بر قرار رکھے ۔ اس کی صورت یہ ہے کہ کہانی اس طرح آگے بڑھے کہ پڑھنے والا یہ جاننے کے لیے بے تاب رہے کہ اب کیا ہونے والا ہے ۔
کہانی کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس سے مسرت اور تفریح حاصل ہوتی ہے اور یہ ہمیں بصیرت و بصارت اور درس و عبرت سے مستفیض کرتی ہے ۔ قصہ پن افسانوی ادب کی جان ہے ۔ کہانی کے بغیر کوئی بھی افسانوی ادب مکمل نہیں ہے ۔ اسی وجہ سے ایی۔ ایم۔ فورسٹر نے کہانی کو ناول کی ریڑھ کی ہڈی سے تعبیر کیا ہے جبکہ ہڈسن کہتا ہے کہ ناول چاہے کچھ ہو یا نہ ہو لیکن کہانی ضرور ہو ۔
یہاں ایک بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہر کہانی ناول ہے؟ ظاہر ہے کہ جواب نفی میں ہوگا تا ہم کہانی میں دلچسپی اور تحیر بنیادی خصوصیت ہے ۔ کہانی میں تحیر جذ بۂ تجسس کو بیدار اور باعمل رکھتی ہے ۔ ناول کی کہانیوں میں واقعات زمانی ترتیب کے ساتھ بیان کیے جاتے ہیں ۔ہر ایک ناول میں کہانی بیان کی جاتی ہے ۔ ہر کہانی کہنے والا اپنے انداز میں کہانی بیان کرتا ہے ۔ اچھی کہانی عام طور پر وہی سمجھی جاتی ہے جس میں دلچسپی ہو، جس کو سننے سے ایک طرح کی مسرت حاصل ہوتی ہے تاہم اعلیٰ درجے کی کہانی میں مسرت کے ساتھ ایک نئی آگہی بھی حاصل ہوتی ہے ۔
کہانی اور قصہ پن تو ہر افسانوی صنف میں بیان ہوتی ہے لیکن ناول میں حقیقی زندگی کی کہانی پیش کی جاتی ہے۔ ناول کی کہانی پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایک جانی پہچانی دنیا کی سیر کر رہے ہیں ۔ ہر تخلیق کار کا ایک اپنا اسلوب اور رنگ ہوتا ہے ۔ یہی طرزِ اسلوب ناول نگار کو ایک دوسرے سے مختلف بناتا ہے ۔ ناول کے قصہ کی بنیاد مختلف واقعات و حادثات پر ہوتی ہے ۔ ناول نگاران واقعات کو سیدھے سادہ طور پر بیان نہیں کرتا بلکہ انہیں فنی اور جمالیاتی انداز میں تراش خراش کر اور بنا سنوار کر پیش کرتا ہے اور زندگی کے مختلف اور متنوع واقعات و حادثات میں سے اپنی ضرورت اور قصہ کی نوعیت کے اعتبار سے ان کا انتخاب کرتا ہے ۔ ناول میں اسی کو واقعہ طرازی کا نام دیا گیا ہے ۔ اس سلسلہ میں ناول نگار ایسے واقعات کا انتخاب کرتا ہے جو ہماری سماجی اور معاشرتی کش مکش کے آئینہ دار ہوتے ہیں اور حسی اور عقلی اعتبار سے ہماری عملی زندگی سے ربط و تعلق رکھتے ہیں ۔ ناول میں واقعہ طرازی کی پہلی شرط اس کا فطری اور حقیقی زندگی سے قریب تر ہونا ہے ۔ اس لئے کہ اس کی فضا اور زندگی انسان کی سماجی اور حقیقی زندگی کا آئینہ ہوتی ہے ۔ ناول میں ایسے قصوں کی گنجائش نہیں جو محض تخیلی ہوں اور جن کا تعلق روز مرہ کی زندگی سے نہ ہو ۔
پلاٹ
پلاٹ قصے کو ترتیب دیے کا نام ہے۔ ایک کا میاب فنکار واقعات کو اس طرح ترتیب دیتا ہے جیسے موتی لڑی میں پروئے جاتے ہیں ۔ ان واقعات میں ایسا منطقی تسلسل ہونا چاہیےکہ ایک کے بعد دوسرا واقعہ بالکل فطری معلوم ہو ۔ واقعات ایک دوسرے سے پوری طرح پیوست ہوں تو پلاٹ مربوط یا گٹھا ہوا کہلائے گا اور ایسا نہ ہو تو پلاٹ ڈھیلا ڈھالا کہلائے گا جو ایک خامی ہے۔ امراد جان ادا کا پلاٹ گٹھا ہوا اور کسا ہوا ہے جب کہ فسانہ آزاد کا پلاٹ ڈھیلا ڈھالا ہے۔ ناول میں ایک قصہ ہو تو پلاٹ اکہرا یا سادہ کہلائے گا۔ ایک سے زیادہ ہوں تو مرکب جیسا کہ امراؤ جان ادا میں ہے ۔
پلاٹ جتنا گٹھا ہوا اور مربوط ہوگا اسی قدر وہ اچھا سمجھا جاتا ہے ۔ اردو ناول نگاروں نے انگریزی ناولوں سے اچھی طرح واقفیت کے بعد بہت اچھے پلاٹ کے ناول لکھے ۔ ڈپٹی نذیر احمد کے ابتدائی دو ناولوں میں یعنی مراة العروس اور بنات النعش میں اچھا پلاٹ نہیں ملتا لیکن بعد کے ناولوں میں پلاٹ زیادہ بہتر ہیں ۔ رتن ناتھ سرشار کے فسانہ آزاد میں بہت ہی ڈھیلا ڈھالا پلاٹ ملتا ہے لیکن اس کی وجہ سے انہوں نے انیسویں صدی کی لکھنوی زندگی کو بہت ہی وسیع انداز میں پیش کیا ہے ۔ عبد الحلیم شرر نے سر والٹر اسکاٹ کے ناولوں کا بہت گہرائی سے مطالعہ کیا تھا ۔ اس سے متاثر ہوکر انہوں نے تاریخی ناول لکھا ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ناول فرودی بریں میں بہترین اور بہت چست پلاٹ ملتا ہے ۔
درج بالا مباحث سے جہاں ایک طرف پلاٹ کی تعریف اور اہمیت وا ہوتی ہے وہیں یہ بات بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ پلاٹ کا بہتر ہونا ہی ایک اچھے ناول کے لیے ضروری نہیں ہے بلکہ بعض اوقات زندگی کو بہت وسیع پیمانے پر بیان کرتے ہوئے ناول نگار پلاٹ کے مربوط اور منظم ہونے کی پرواہ نہیں کرتا ہے ۔ پلاٹ کی کمی یا کمزوری کی تلافی زندگی کو بہت وسیع انداز میں پیش کرنے سے پوری ہو جاتی ہے ۔ اسی وجہ سے پرسی لیک نے اپنی معرکۃ الآرا کتاب The Craft of Fiction میں کہا ہے کہ بعض وقت معمولی درجے کے ناول نگار پلاٹ سازی میں قدرت پیدا کرلیتے ہیں ۔ صرف اسی وجہ سے ناول نگاری میں ان کا درجہ بلند نہیں ہوتا ہے ۔ لہٰذا پلاٹ کا بہترین ہونا کسی بھی ناول کے بڑے ہونے کی عمارت نہیں ہو سکتا ہے، بلکہ ناول کا مجموعی تاثر ہی اس کا درجہ متعین کرتا ہے ۔
کردار نگاری
کردار نگاری ناول کا اہم جزو ہے ۔ ناول میں جو واقعات پیش آتے ہیں ان کے مرکز کچھ جاندار ہوتے ہیں ۔ ضروری نہیں کہ یہ انسان ہی ہوں ۔ حیوانوں سے بھی کام کیا جاسکتا ہے ۔ یہ افرادِ قصہ کردار کہلاتے ہیں ۔ یہ جتنے حقیقی یعنی اصل زندگی کے قریب ہوں گے، ناول اتنا ہی کامیاب ہوگا ۔ کردار کو دو زمروں میں تقسیم کیا جاتا ہے؛ ایک پیچیدہ (راؤنڈ) دوسرے سپاٹ (فلیٹ ) ۔جن کرداروں میں ارتقا ہوتا ہے یعنی جو کردار حالات کے ساتھ تبدیل ہوتے ہیں وہ راؤنڈ کہلاتے ہیں ۔ جیسے مرزا ہادی رسوا کا ناول ’امراؤ جان ادا‘ میں سلطان مرزا کا کردار ۔ اسی طرح کے کردار جیتے جاگتے کردار کہلاتے ہیں اور ادب کی دنیا میں یاد ہو جاتے ہیں ۔ جو کر دار ارتقا سے محروم رہ جاتے ہیں پورے ناول میں ایک ہی سے رہتے ہیں وہ سپاٹ کہلاتے ہیں ۔ نذیر احمد کے ناول ’توبۃ النصوح‘ کامرزا ظاہر دار بیگ اور سرشار کے ناول ’فسانہ آزاد‘ کا خوجی اس کی بہترین مثال ہیں ۔ یہ کردار دلچسپ ہو سکتے ہیں مگر سچ مچ کے انسانوں سے ملتے جلتے نہیں ہو سکتے ۔
یک رخی کرداروں کے بعض اوصاف ہمیشہ قائم رہتے ہیں ۔ ان میں حالات، زمان اور مکان کی تبدیلیوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے ۔ یہ کردار عام طور پر مزاحیہ ہوا کرتے ہیں ۔ یک رخی کرداروں سے ناول نگار اور قاری کو جو سہولت میسر آتی ہے اس کو اجاگر کرتے ہوئے ایی۔ ایم ۔ فوسٹر نے لکھا ہے :
‘‘One great advantage of flat characters is that they are easily recognized whenever they come in—recognized by the reader’s emotional eye, not by the visual eye, which merely notes the recurrence of a proper name…. It is a convenience for an author when he can strike with his full force at once, and flat characters are very useful to him, since they never need reintroducing, never run away, have not to be watched for development, and provide their own atmosphere.16’’
ناول نگار جب کرداروں کو تشکیل دیتا ہے تو اس میں اس چیز کا بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ کردار ناول نگار کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن کر نہ رہ جائے بلکہ وہ فطری معلوم ہوں ۔ وہی کردار متاثر کن ہوتے ہیں جوذرا منفرد ہوں اور زندگی کے زیادہ قریب ہوں ۔ ناول کے کرداروں میں مثبت اور منفی دونوں پہلو پو شیدہ ہوتے ہیں ، ساتھ ہی کردار گوزنده پیش کرنا زیادہ آسان ہے بہ نسبت موت کے ۔ کرداروں کی موت کو اچھے انداز میں پیش کرنے میں ناول نگار کے اصل فن کی آزمائش ہوتی ہے ۔ حقیقی زندگی میں انسان کی موت یقینی ہوتی ہے لیکن ناول میں کرداروں کی موت کو پیش کر نا ناول نگار کا اصل امتحان تصور کیا جاتا ہے ۔ ایک اچھا ناول نگار ہی کردار کی موت کو بہتر انداز میں پیش کر سکتا ہے ۔ ایی۔ ایم۔ فوسٹر کردار نگاری کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ناول کی ادبی اہمیت اس کی کردار نگاری پر منحصر ہے اور اگر کوئی ناول نگار کردار نگاری کی قوت نہیں رکھتا تو وہ صحیح معنی میں ناول نگار کہلائے جانے کے لائق نہیں ہے ۔۔۔۔ کردار کی زندگی عام زندگی نہیں ہوتی بلکہ ناول نگار کی قوت متخیلہ اس کو ایسی نئی زندگی بخش دیتی ہے کہ وہ عام لوگوں سے زیادہ پر کیف و پر اثر ہو جاتی ہے ۔‘‘17
مکالمہ نگاری
مکالمہ نگاری پر بھی ناول کی کا میابی اور نا کامی کا بڑی حد تک دارومدار ہوتا ہے۔ ناول کے کردار آپس میں جو بات چیت کرتے ہیں وہ مکالمہ کہلاتی ہے۔ اسی بات چیت کے ذریعے ہم ان کے دلوں کا حال جان سکتے ہیں اور انہیں کے سہارے قصہ آ گے بڑھتا ہے۔ مکالمے کے سلسلے میں دو باتیں ضروری ہیں۔ ایک تو یہ کہ مکالمہ غیر ضروری طور پر طویل نہ ہو کہ قاری انہیں پڑھنے میں اکتا جائے ۔ دوسری بات اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ مکالمہ جس کردار کی زبان سے ادا ہور ہا ہے اس کے حسب حال ہو۔
مکالمے کردار کی اہمیت میں بہت نمایاں رول ادا کرتے ہیں ۔ ناول میں مکالموں ہی کی وجہ سے ڈرامائیت پیدا ہوتی ہے۔ مکالموں ہی کے ذریعے ناول میں کرداروں کی سماجی، طبقاتی اور تہذیبی کیفیت نمایاں ہوتی ہے۔ مکالموں میں ناول نگار کو یہ خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے کہ ہر کردارا اپنے حیثیت کے مطابق بات کرے، شائستہ، مہذب اور عالمانہ گفتگو کے ساتھ عامیانہ، غیر مہذب اور غیر شائستہ میں بہت فرق ہوتا ہے۔ یہ ناول نگار کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے ۔ مثلاً پر و فیسر اور ایک نوکر کے مکالمے سے ہمیں ان کی حیثیت اور مقام و مرتبہ کا علم ہوتا ہے ۔ چنانچہ ناول نگار کو مکالمہ لکھتے وقت کرداروں کےمقام و مرتبہ کا خیال رکھنا چاہیے ۔ ڈاکٹر اسلم آزاد اپنی کتاب ’اردو ناول آزادی کے بعد ‘ میں مکالمہ کی اہمیت کو مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کرتے ہیں :
’’مکالمہ نگاری کی خوبی و کامیابی کا راز اس میں ہے کہ کرداروں کی باہمی گفتگو ہماری عام زندگی کی گفتگو سے ملتی جلتی ہو ۔ اندازِ گفتگو یا لب و لہجہ میں ایسا تکلف اور تصنع نہ ہو کہ قاری اس کے غیر حقیقی ہونے کو محسوس کرے ۔ مکالموں کے لئے روانی ، چستی اور بے تکلفی ضروری ہے ۔ طوالت بے جا کے حامل مکالمے بھی مصنوعی بن جاتے ہیں۔ مکالموں کے لب و لہجہ کی بے ساختگی ہی ان کو سریع الاثر بناتی ہے ۔ الفاظ کی ثقالت اور جملوں کی پیچیدگی بھی مکالموں کا خراب اثر ڈالتی ہے۔ ناول کے واقعات ان مکالموں کے ذریعہ بھی آگے بڑھتے ہیں اور جابجا ناول نگار کے بیانات بھی ان کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ان بیانات میں بھی واقعیت پسندانہ شعار کا ہونا ضروری ہے ۔‘‘18
عظیم الشان صدیقی مکالمہ پر گفتگو کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :
’’ناول میں مکالمہ نہ صرف کردار کے جذبات ، خیالات، احساسات اور خواہشات کا ترجمان ہوتا ہے بلکہ یہ پلاٹ کے ارتقا میں بھی مدد دیتا ہے۔ یہ قصہ کو روشنی بخشتا ہے اس کی اندرونی فضا کو جگاتا ہے اور حادثات و واقعات کی تشریح کرتا ہے ۔ یہ ناول نگار کے نظریات کے اظہار کا ایک آلہ اور اس کے مقصد کے حصول کا ایک ذریعہ ہوتا ہے ۔۔۔۔مکالموں میں متکلم کے سن و سال، علاقائی و طبقاتی خصوصیات، ماحول اور آپسی رشتوں کا بھی لحاظ رکھنا ضروری ہے تا کہ وہ اپنی زبان کے اعتبار سے ایک دوسرے سے ممتاز نظر آسکیں ۔‘‘19
درج بالا اقتباسات کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مکالمہ ناول کا ایک اہم جزو ہے جس کا تعلق کردار سے بھی ہے اور واقعہ طرازی کے علاوہ دوسرے اجزائے ترکیبی سے بھی تعلق رکھتا ہے ۔ مکالمہ حقیقتاً ڈرامہ کا ایک لازمی عنصر ہے اس لئے مکالمہ کے ساتھ ڈرامائیت کی خصوصیت بھی لازمی ہے ۔ اس کو ناول نگار کے ہاتھ میں بہترین آلہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس کو ہنر مندی سے کام میں لاناناول نگار کی فن شناسی پر دلالت کرتا ہے ۔ اس کے لئے جدت، ندرت، اختصار، برجستگی، بے ساختگی، بے تکلفی، چست فقرہ اور برجستہ جملہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ مکالمہ جتنا مختصر، بلند آہنگ اور شکوہ کا حامل ہوگا اتنا ہی با اثر ہوگا۔ مکالمہ کرداروں کی اندرونی شخصیت و سیرت کو بھی سامنے لاتا ہے اور واقعہ طرازی کو بھی آگے بڑھاتا ہے۔ قصہ کے ارتقا میں اس کا بہت بڑا حصہ ہوتا ہے، کیونکہ اس کے ذریعہ واقعات پر روشنی پڑتی ہے۔ مکالمہ کرداروں کے احساسات و جذبات کی ترجمانی کرتا ہے ۔ اس سے ان کی باطنی شخصیت اور نفسیاتی خصوصیات کا بھی اظہار ہوتا ہے ۔ لہٰذا مکالمہ کو واقعہ، کردار اور پلاٹ سے گہرے طور پر مربوط اور وابستہ ہونا چاہئے تا کہ قصہ کا فطری ارتقا بھی برقرار ہے اور کرداروں کی شخصیت کا حقیقی اظہار بھی ہو سکے ۔
زمان و مکان
ناول کے اجزائے ترکیبی میں پس منظر یا زمان و مکان کو ایک غیر معمولی حیثیت حاصل ہے ۔ اس ضمن میں دو باتوں کا لحاظ رکھنا ازحد ضروری ہے ۔ پہلی بات تو یہ کہ قصہ کس سماجی ، معاشی اور تہذیبی پس منظر میں رونما ہوا اور دوسری یہ کہ کسی عصر و عہد کی نمائندگی کا درجہ اسے حاصل ہوا۔ اول الذکر مکانی پس منظر کی وضاحت کرتا ہے اورآخر الذکر زمانی پس منظر کی ۔ بہر کیف کوئی بھی قصہ کسی نہ کسی خاص وقت میں اور خاص جگہ پر رونما ہوتا ہے۔ ناول نگار اس مخصوص وقت کے پیش نظر اسی دور میں پیدا ہونے والے مطالبات و مسائل کو پیش کرتا ہے، اس دور کی تحریکات اور ذہنی لہروں کی آغوش میں چلنے اور پرورش پانے والے افراد کی کہانی ان کے فطری تقاضے کی روشنی میں بیان کرتا ہے ۔
تغیرِ زمانہ اور تبدیلی مقامات کے ساتھ ساتھ زندگی کی رسوم و روایات اور حالات و واقعات میں انقلاب و تبدیلی لازمی ہے ۔ فنکار کو اس بات کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ وہ زمان و مکان کی وحدت کو سامنے رکھے اور اگر ان میں تغیر رونما ہو تو اسی جہت سے واقعات و کردار کی پیش کش میں فطری تبدیلی سامنے آئے ۔ اگر زمان و مکان کے احساس سے ناول نگار غافل رہا تو اس کی غفلت و حدت تاثر اور دلچسپی کے عنصر کو مجروح کرتی ہے۔ محمد احسن فاروقی صاحب نے اپنی کتاب ’ادبی تخلیق اور ناول‘ میں زمان و مکان کے تعلق سے اپنے خیال کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’عام طور پر ناول نگار اپنے مانوس ماحول کا نقشہ کھینچتا ہے اور اپنے ذاتی تجربہ کو واضح کرتا ہے اس لیے ناول کی بابت یہ کہا جاتا ہے کہ وہ فلاں مقام کی فلاں زمانے میں تصویر ہے مگر ناول عظیم دائرے میں جب ہی آتی ہے جب کہ وہ ایک زمانہ اور مقام کی تصویر ہر زمانے اور ہر مقام والوں کے لیے ہو جائے ۔یہ قطرے میں دجلہ دکھائے اور جزو میں کل ۔‘‘20
عظیم الشان صدیقی زمان و مکان کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ناول میں زمان و مکان کا تصور واقعات حادثات اور کرداروں میں حقیقت کے رنگ کو گہرا کرتا ہے۔ کیونکہ ہر علاقہ کی کچھ نہ کچھ اپنی مخصوص خصوصیات ہوتی ہیں۔ اسی طرح ہر زمانہ بھی کچھ مخصوص خصوصیات کا حامل ہوتا ہے اور ہر قوم وطبقہ بھی اپنی مخصوص تہذ یب و تمدن اور سماجی اقدار رکھتا ہے۔ ان کی یہی مخصوص خصوصیات اور علامات ان میں امتیاز اور انفرادیت قائم رکھتی ہیں ۔ چنانچہ زمان و مکان کی یہی خصوصیت کسی واقعہ اور کردار کو پرکھنے کی کسوٹی ہوتی ہے ۔‘‘21
اسلوبِ نگارش
اسلوبِ نگارش یا اندازِ بیان کا تعلق واضح طور پر زبان سے ہے ۔ زبان ہی وہ ذریعۂ اظہار ہے جس کی مدد سے فنکار اپنے تخلیقی تجربات کوفنی روپ دیتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسلوب کا فن سے خارجی رشتہ ہوتا ہے بلکہ اس کا حقیقی رشتہ ہوتا ہے جس طرح روح و جسم کا رشتہ ہوتا ہے اسی طرح اسلوب کا اپنے فن سے ہے ۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جب سوچنے اور محسوس کرنے کے لیے زبان ہی ذریعہ استعمال کے طور پر کام آتی ہے تو زبان کے سلسلے میں بغیر کسی تامل کے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسلوب حقیقتاً فن کار کی تخلیقی شخصیت کا مادی اظہار ہے۔ فن میں لاشعوری طور پر فنکار اپنی شخصیت کا اظہار کرتا ہےجبکہ شعوری سطح پر بھی فنکار کی شخصیت کے مختلف پہلو اظہار کی منزلوں سے گزرتے ہیں ۔ ڈاکٹر سہیل احمد بخاری اسلوب بیان پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ناول نگار واقعات سے جو اثر قبول کرتا ہے وہ لفظوں اور جملوں کے ذریعے ہی دوسروں تک پہنچاتا ہے ۔ اس لیے اثر پذیری کی صحیح صحیح ترجمانی اور واقعی عکاسی اس کے اسلوب بیان کی دلکشی اور دلآویزی پر ہی منحصر ہے ۔‘‘22
ہر ناول نگار کا ایک منفرد اور خاص اسلوب ہوتا ہے ۔ اسلوب کا انداز ناول نگار اپنی زبان و بیان کے پس منظر میں بیان کرتا ہے ۔ ناول میں اسلوب آئینہ کے زنگار کی طرح ہوتا ہے ۔ ناول کی پیش کش میں ناول نگار کا اسلوب روپوش ہوتا ہے۔ اسلوب بالکل زنگار کی طرح ہونا چاہیے تا کہ ناول کا مطالعہ کرتے ہوئے ہماری توجہ ناول کی طرف مبذول نہ ہو بلکہ قاری خود بخو دلطف اندوز ہوتا رہے ۔ ناول نگار اسلوب کی انفرادیت کو قائم رکھتے ہوئے بھی واقعات اور کرداروں کو بہت ہی اچھے انداز میں پیش کرتے ہیں ۔ اسلوب چونکہ ناول نگار کی شخصیت کا حصہ ہوتا ہے ، اس وجہ سے وہ بیک وقت کردار اور واقعات کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ ہم سب ان کے اسلوب سے لطف اندوز ہوتے ہوئے بھی اپنی پوری توجہ ناول کے دیگر اجزا پر مبذول رکھتے ہیں ۔
مقصد حیات یا نقطۂ نظر
ہر ایک ناول میں مقصدِ حیات و نقطۂ نظر،نصب العین، نظریۂ حیات یا فلسفۂ زندگی کی معنویت و اہمیت کو واضح طور پر محسوس کیا جاتا ہے ۔ یہ تمام اصطلاحیں ہم معنی اور مترادف ہیں۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی ناول نگار یا فنکار اپنے صدف فن کی آغوش میں کوئی خاص گوہر معنی رکھتا ہے جس کی تفصیل ، تشریح، وضاحت، تنقید، تر جمانی یا عکاسی اور آئینہ داری کے لیے وہ تخلیقی کرب کی منزلوں سے گذرتا ہے۔ یہی شے اس کے فن کی تحریک بنتی ہے۔ اپنے فن کے اس محرک و منہج کو پیش کرنے کے لیے فنکا رفنی اور جمالیاتی قدروں کے پل صراط سے گذرتا ہے جہاں ذرا سی لغزش بھی قہرِ نا کامی میں پہنچا سکتی ہے۔ اس لیے فنکار اس کی طرف بہت ہی حساس، باشعور، جمالیاتی اور تخلیقی رد عمل کا اظہار کرتا ہے ۔ ناول میں مقصدِ حیات کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے عظیم الشان صدیقی لکھتے ہیں :
’’ادب اور مقصدکا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ناول نگار بھی کسی مقصد کی حصول کے لیے زندگی کی عکاسی کرتا ہے ۔وہ جس زندگی کا عکاسی کرتا ہے وہ بھی کسی مقصد سے خالی نہیں ہے ۔۔۔۔کسی فنکار سے اس بات کی توقع کرنا بے جانہ ہوگا کہ وہ اپنے ناول میں جو مقصد حیات پیش کرے وہ اس قدر جامع اور واضح ہو کہ ایک عام قاری کے لیے بھی اس سے نتائج اخذ کرنے میں غلطی کا امکان نہ رہے ۔ اس طرح ناول نگار سے اس بات کا مطالبہ کرنا بھی بے جانہ ہوگا کہ زندگی کے بارے میں اس کا کوئی واضح نقطۂ نظر ہونا چاہئے۔ غیر واضح مقصد حیات نہ صرف ناول نگار کو بلکہ قاری کو ذہنی الجھاؤ میں مبتلا کر دیتا ہے ۔‘‘23
علی عباس حسینی ناول نگار اور ایک عام فنکار کے مقصدِ حیات کے مابین فرق بتاتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ناول نویس بھی جو کچھ لکھتا ہے وہ کسی خاص مقصد سے، کسی خاص نظریے کی تعلیم وتبلیغ کے لئے، لیکن ایک فن کار اور معمولی لکھنے والے میں فرق صرف اتنا ہے کہ آخر الذکر اپنے مقصد کو واضح کر دیتا ہے اور اس کی تصنیف محض تبلیغ اور پروپگنڈا ہو کر رہ جاتی ہے اور اول الذکر جو اثر پیدا کرنا چاہتا ہے اسے واقعات کے بیان کی ترتیب سے حاصل کر لیتا ہے ۔ وہ پروپگنڈا اور تبلیغ نہیں کرتا۔ وہ خواہ مخواہ مصلح ، ناصح اور راوی بن کر اپنی رائے ہمارے اوپر وارد نہیں کرتا ۔ وہ ناظر کو بہت ہی آہستہ آہستہ باتوں میں لگا کے اپنے راستے پر لے آتا ہے اور ایک غیر محسوس طور پر اس کے خیالات میں تبدیلی پیدا کر دیتا ہے ۔‘‘24
درج بالا بحث سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ ناول میں زندگی کو پیش کیا جاتا ہے۔ زندگی کی پیش کش کے سلسلے میں ناول نگار کا نقطۂ نظر سامنے آتا ہے۔ ناول کی کہانی کئی طرح سے بیان کی جاتی ہے ۔ کبھی خود ناول نگار کہانی بیان کرتا ہے ،بعض دفعہ کوئی ایک کردار کہانی کے سارے واقعات کو پیش کرتا ہے یا پھر ناول کا مرکزی کردار اپنی آپ بیتی سناتا ہے۔ کہانی کا راوی خواہ کوئی بھی ہو، ناول نگار کا نقطۂ نظر ظاہر ہو جاتا ہے۔ نقطۂ نظر میں آمد اور آورد کا زبر دست عمل دخل ہوتا ہے۔ اس کو مثال سے کچھ یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ نذیر احمد کے تمام ناول مقصدی ہیں ۔ انہوں نے ہر جگہ اپنا فلسفۂ حیات پیش کیا ہے۔ اس کے باوجود ان کی اہمیت کم نہیں ہوئی ہے ۔ وہ اپنا جو خاص نقطۂ نظر رکھتے ہیں اس کو انہوں نے اپنے ناول میں ہمیشہ پیش کیا ہے ۔ اسی طرح پریم چند اپنا ایک نقطۂ نظر رکھتے تھے ۔ اس کو انہوں نے اپنی تمام تخلیقات میں پیش کیا ہے ۔ اس کے باوجودان کی فن کاری مجروح نہیں ہوئی اس لیے کہ یہ ان کی اپنی فکر کا حصہ تھا، ان کی ذات اور فکر میں یہ بات شامل تھی ۔ یہ کوئی درآمد کیا ہوا نقطۂ نظر نہیں تھا ۔ لیکن ایسے ناول نگار جو کسی نقطۂ نظر کو درآمد کر لیتے ہیں یا صرف رواج زمانہ کے مطابق اختیار کر لیتے ہیں، وہ کوئی اعلیٰ فنی کارنامہ نہیں پیش کر سکتے ۔ بہر کیف ناول میں نقطۂ نظر کی اپنی اہمیت ہے کیونکہ ناول کے تمام اجزائے ترکیبی نقطۂ نظر سے متاثر ہوتے ہیں ۔
حوالہ جات
- Woolf, Virginia. (1958). Granite and Rainbow. New York: Harcourt, Brace and Company, pp.141
- علی عباس حسینی ۔ اردو ناول کی تاریخ اور تنقید، علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، 1987، ص 17
- Fox, Ralph. (1944). The Novel and The People. Calcutta: A.K Bose, Bowbazar.
- Evans, Ifor. (1990). A Short History of English Literature.
- علی عباس حسینی ۔ اردو ناول کی تاریخ اور تنقید، علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، 1987، ص 37-36
- علی عباس حسینی ۔ اردو ناول کی تاریخ اور تنقید، علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، 1987، ص 40
- ڈاکٹر سہیل احمد بخاری۔ اردو ناول نگاری، الحمرا پبلشرز دہلی، 1972، ص12-11
- پروفیسر احتشام حسین۔ ذوق ادب اور شعور، ادارۂ فروغ اردو، لکھنؤ، 1963، ص33
- آل احمد سرور۔ تنقیدی اشارے، چوتھا ایڈیشن، ادارۂ فروغ اردو، لکھنؤ، 1964، ص15
- ڈاکٹر مسیح الزماں۔ معیار و میزان،الہ آباد لیتھو گرافرس اینڈ پرنٹرس، الہ آباد، 1968، ص119-117
- پروفیسر قمر رئیس۔ پریم چند کا تنقیدی مطالعہ بحیثیت ناول نگار،عفیف آفسیٹ پرنٹرس، دہلی 2004، ص371
- سید وقار عظیم۔ داستان سے افسانے تک، ایم۔ کے آفسٹ پرنٹرز دہلی، 2003، ص19
- ڈاکٹر ابواللیث صدیقی۔ اردو کی ادبی تاریخ کا خاکہ، جاوید پریس کراچی، 1964، ص169-168
- سید علی کریم(مدیر) فکر و تحقیق (سہ ماہی۔ ناول نمبر) قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی۔ اپریل تا جون 2016۔ ص11-10
- Mariam Allott. (1959). Novelists on the Novel. London: Routledge and Kegan Paul ltd. pp.161
- M. Foster. (1927). Aspects of the Novel. New York: Harcourt, Brace and World Inc. pp.68-69.
- ڈاکٹر محمد احسن فاروقی و سید نور الحسن ہاشمی (مرتب)۔ ناول کیا ہے، نامی پریس لکھنؤ،1960، ص24-23
- ڈاکٹر اسلم آزاد۔ اردو ناول آزادی کے بعد، نکھار پریس مئو، 1981، ص۔26
- عظیم الشان صدیقی۔ اردو ناول: آغاز و ارتقا (1857 تا 1914)، عفیف آفسیٹ پرنٹرس، دہلی، 2008، ص39-38
- ڈاکٹر احمد صغیر۔ اردو ناول کا تنقیدی جائزہ 1980 کے بعد، عفیف پرنٹرس، دہلی،2015، ص35
- عظیم الشان صدیقی۔ اردو ناول: آغاز و ارتقا (1857 تا 1914)، عفیف آفسیٹ پرنٹرس، دہلی، 2008، ص39
- ڈاکٹر سہیل احمد بخاری۔ اردو ناول نگاری، الحمرا پبلشرز دہلی، 1972، ص31
- عظیم الشان صدیقی۔ اردو ناول: آغاز و ارتقا (1857 تا 1914)، عفیف آفسیٹ پرنٹرس، دہلی، 2008، ص43-42
- علی عباس حسینی ۔ اردو ناول کی تاریخ اور تنقید، علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، 1987، ص 64-63
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page