ازبیکستان مرکزی ایشیا کا ایک اہم ملک ہے جس کا شمار دنیا کے قدیم ممالک میں ہوتا ہے۔ یہ خشکی اور خوبصورت پہاڑوں کے درمیان واقع ہے اس کی سرحدیں مغرب اور شمال میں قزاخستان مشرق میں کرگستان اور تاجکستان، جنوب میں افغانستان اور ترکمانستان سے ملتی ہیں۔ یہ دنیا کا دوسرا ایسا ملک ہے جس کے چاروں طرف ایسے ممالک ہیں جو خود بھی سمندر سے محروم ہیں۔ آزادی کے بعد اس ملک کی قومی زبان ازبیک ہے۔ یہ ایک ترکی زبان ہے جو ترکی اور دیگر ترک زبانوں سے ملتی جلتی ہیں۔ ازبیکستان عہد قدیم سے ہی ایک علمی مرکز رہا ہے خواہ اسلامی علوم و فنون ہوں یا ادبی و ثقافتی، دیگر ممالک نے بھی یہاں کے علمی سوتے سے فیض حاصل کیا ہے۔ بڑے اورعظیم اسکالروں کا تعلق بھی اس سرزمین سے رہا ہے۔ حدیثوں کو یکجا کرنے والے امام بخاری کا تعلق بھی ازبیکستان کے شہر بخارا سے رہا ہے۔ ان کے علاوہ ابن سینا، البیرونی، الخوارزمی، احمد الفرغانی وغیرہ بھی ازبیکستان کے ہی رہنے والے تھے ان میں سے ہر شخص اپنے میدان کے بڑے اسکالر تھے۔ ہندوستان سے مرکزی ایشیا اور خاص طور پرازبیکستان سے رشتے کافی پرانے ہیں۔ تصوف کی روایت ہمارے یہاں وہیں سے آئی ہیں اور سیاسی طور پر بھی وہاں سے اہم رشتے ہیں کیوں کہ مغل حکومت کے بانی بابر بھی ازبیکستان کے شہر فرغانہ سے آئے اور ہندوستان پر حکومت کی اس کو اپنا وطن بنالیا اوریہیں کے ہو کر رہ گئے۔ اس اعتبار سے بھی ازبیکستان کو خصوصی اہمیت حاصل ہے کہ مختلف سطح پر اس ملک کے نمائندگان نے ہندوستان کو مضبوطی فراہم کی ہے۔ مذہبی، لسانی تجارتی اور تہذیبی تناظرمیں ہندوستان کی تاریخی اہمیت کا جائزہ لیا جائے تو ازبیکستان کا ذکر خصوصی طور پر سامنے آتاہے۔ ازبیکستان سے سماجی سیاسی، تہذیبی، تمدنی، تجارتی اور لسانی سطح پر ہندوستان سے بہت قریبی مراسم رہے ہیں اور ہندوستان کو انھوں نے متاثر بھی کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1995 سے قبل جب ازبیکستان کو باقاعدہ ایک ملک ہونے کا درجہ حاصل نہیں تھا یا ازبیکستان اپنی خصوصی ریاست کے لیے سرگرم جدو جہد تھا اورمتحدہ روسی نظام کے ماتحت ہونے کے باعث یہ اپنے وجود یا وقار کی جنگ لڑ رہا تھا۔ بالآخر 1991 میں جب اسے آزادی کا پروانہ ملا تو اس پر مہر لگانے والا یا اسے عالمی افق پر تسلیم کرنے والا پہلا ملک ہندوستان بنا اور سب سے پہلے اس کو آزادی کی مبارک باد پیش کی۔ اس سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ازبیکستان اور ہندوستان کے آپسی مراسم اور رشتے کس قدر مضبوط اور مستحکم ہیں۔
اردو جنوبی ایشیاء کی ایک اہم اور بڑی زبان ہے۔ یہ بھارت کی بائیس قومی زبانوں میں سے ایک ہے۔ دنیا کی دیگر زبانوں کی طرح اس زبان پر بھی کچھ اہم زبانوں کے اثرات نمایاں ہیں۔ مثلا سنسکرت اور اپ بھرنش کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی، ترکی اور ازبیک وغیرہ۔ اگرچہ اردو کی بنیاد کھڑی بولی اور اب بھرنش زبانوں اور بولیوں پر استوار ہیں۔ فارسی کا کئی صدیوں تک بھارت میں سرکاری زبان ہونا ایک ایسا عمل ہے جس نے ہندوستانی زبانوں میں اپنے گہرے نقوش ثبت کیے ہیں۔
بابرکے آنے سے کئی صدی قبل اردو ہندوستان میں اپنے بال و پر نکھار چکی تھی۔ بابر خود ازبیک زبان کے بڑے شاعر کی حیثیت سے تسلیم شدہ ہیں۔ بابر کے ساتھ ہی مغلوں کو جس طرح کی طاقت ہندوستان میں ملی اور بھارت نے ترقی کے جو منازل عہد مغلیہ میں طے کیے اس دور کو سونے کی چیڑیا کی حیثیت سے بھارت کا مایہ ناز دور سمجھا جاتا ہے۔ بابر کی افواج اور خود بابر نے ہندوستان کی زبان پر فارسی کے توسط سے یا بالواسطہ فارسی کے توسط سے اردو پر ازبیک کے اثرات بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ گرچہ فارسی اورترکی کے اثرات ازبیک کے مقابل زیادہ نمایاں ہیں، لیکن ازبیک چونکہ ترکی سے زیادہ قریب ہے پھر بھی ازبیک پر فارسی کے اثرات بہت زیادہ نمایاں ہیں۔ اس لیے بہت سی چیزیں جو ازبیک کے راستے ہندوستان پہنچی جیسے کھان پان، لباس اور زبان جو ازبیک سے تھی لیکن فارسی کے خانہ میں چلی گئی، کیونکہ بھارت کی سرکاری زبان فارسی تھی۔ یہ بھی ہے کہ بہت سی روایتیں جو فارسی اورازبیک کی مشترکہ تھیں وہ آج اردو کا بھی حصہ ہے۔
عالمی منظرنامے پرازبیکستان ایک ایسا ملک ہے جس سے اردو زبان و تہذیب کے قدیم ترین مراسم ہیں۔ اس کا آغاز ہندوستان میں ازبیکوں کی آمد سے ہوتا ہے۔ انھوں نے ہندوستان کے تہذیبی و ثقافتی اور لسانی دھارے میں خود کو شامل کر کے ایک نیا رنگ دیا۔ اردو زبان کے لفظیات میں ازبیکی الفاظ کا اضافہ کیا۔ نیزحدود سلطنت کی وسعت کے ساتھ ساتھ اردو زبان کا دائرہ بھی وسیع کیا۔ دوسری طرف ہندوستانی مسلمان جب ازبیکستان گئے تو اپنے ساتھ یہ زبان بھی لے گئے۔ اس کے علاوہ ازبیکستان کو ہم اس اعتبار سے بھی جانتے ہیں کہ یہ اردو ادب و تہذیب کا بڑا گہوارا بھی ہے۔ اردو تدریس کے لحاظ سے ازبیکستان اردو کی ایک اہم بستی ہے۔ ازبیکستان میں اردو زبان کے رشتے کافی قدیم ہے۔
آزادی کے بعد ہی ازبیکستان کے تاشقند یونیورسٹی میں باقاعدہ السنہ ہند کے نام سے شعبہ قائم ہوگیا تھا جہاں اردو زبان وادب کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی تہذیب، تاریخ اور سیاست وغیرہ کے مضامین پڑھائے جاتے تھے، ابتدا میں اس شعبہ کے پہلے ہندوستانی استاد مدن تھے جو پہلے اردو پڑھاتے تھے پھربعد میں ہندی زبان پڑھانے لگے۔ انہیں روسی زبان میں بھی مہارت حاصل تھی۔
مشرق وسطی میں تاشقند اردو، ہندی تعلیم و تدریس کا ہمیشہ سے عظیم مرکز رہا ہے۔ یہاں کے ادیبوں میں کئی بڑے نام شامل ہیں جنھوں نے اردو زبان و ادب اور ہندی ادب کی نہایت ہی قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔ ان میں رحمان بیردی محمد جانوف، نبی جان محدوف، زینت اللہ عاشور بائف، فتح تیشا بائف، صورت میر قاسموف، طاہر ابراہیموا، آزاد شاماتوف، تاش مرزا، سونیا چیر نیکووا، قربان بیگ، غفور رخصت وغیرہ اولین جماعت تھی جو باقاعدہ مدن جی کے شاگرد تھے اور انھیں کی نگرانی میں اردو زبان سیکھی۔ یہ لوگ بعد میں ازبیکستان کے مختلف اداروں میں اردو تدریس کے فرائض پر معمور ہوئے۔ اس کے علاوہ ازبیکستان میں موجود اردو ہندی کے چند اور اردو اساتذہ کے نام یہ ہیں پروفیسر الفت محب، مکتوبہ مرتضی خوجہ، ڈاکٹر محیا عبدالرحمانوا، مخلصا صاحبہ، امید صاحبہ،ماہرہ صاحبہ اور مخرم صاحبہ وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
رحمن بیردی محمد جانوف: ازبیکستان میں اردو زبان و ادب کو فروغ دینے والے رحمن بیردی اردو کے بڑے محسن اور سرپرست تھے۔ وہ ازبیک اور اردو زبان و تہذیب کے سچے علم بردار تھے۔ اردو زبان وادب کے قواعد کے تمام پہلووں پر قدرت کاملہ رکھتے تھے۔ ان کے شاگردوں کی تعداد کافی کثیر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ساٹھ کی دہائی میں ازبیکستان میں اردو کا سب سے بڑا کتب خانہ ان کا گھر تھا جہاں اردو کی نادر ونایاب کتابیں موجود تھیں۔ رحمن صاحب بہت کم گو اور منکسرالمزاج شخصیت کے مالک تھے ہمیشہ تحقیقی اور علمی کاموں میں مشغول رہتے تھے۔ انھوں نے باقاعدہ تاشقند کے اسکولوں اور یونیورسٹی کے اردو کورسز کے لیے درسی کتابیں تیار کیں۔ تدریسی اور غیر تدریسی کتابوں کے علاوہ ان کا اہم کارنامہ ترجمہ نگاری بھی ہے۔ انھوں نے اردو شعر وادب کو ازبیکی زبان میں منتقل کیا مثال کے طور پر غالب کے اردو دیوان کے منتخب کلام کو ازبیک زبان میں پیش کیا۔ اس کے علاوہ پریم چند کے مشہور ناول گئودان کا ترجمہ بھی پیش کیا۔ وہ نہ صرف اردو سے ترجمہ کرتے تھے بلکہ از بیک ادیبوں اور شاعروں کی تصانیف کے تراجم بھی اردو میں انجام دیتے تھے۔ ان میں علی شیر نوائی۔ عمیر الدین باندہ اور جدید ازبیک شعرا کے کلام شامل ہیں۔ ان کے ارود سے کئے گئے ترجموں میں پریم چند، را بندر سنگھ بیدی، خواجہ احمد عباس، کرشن چندر، سجاد ظہیر جیسے ادیوں کی تخلیقات قابل ذکر ہیں۔ وہ خود بھی اردو میں شاعری کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ازبیکستان میں اردو کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت پاکستان نے انھیں تمغہ امتیاز سے نوازا۔
نبی جان محمدوف: ازبیکستان میں باقاعدہ سردار جعفری کی شاعری پر مقالہ لکھ کر ڈاکٹریت کی سند حاصل کرنے والے پہلے اسکالر تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ نہایت ہی ذہین، خوش گفتار، حاضر جواب اور وسیع المطالعہ شخصیت کے ماہر انسان تھے۔ اردو ازبیکی اور روسی زبانوں میں یکساں مہارت تھی جس کی وجہ سے وہ اکثر سرکاری و غیر سرکاری پروگراموں میں مترجم کے فرائض انجام دیتے تھے۔ نبی جان ترجمہ نگاری کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں۔ مرزا ہادی رسوا کا شاہکار ناول امراو جان ادا کا ترجمہ ازبیک زبان میں کیا جو بہت مقبول ہوا۔ اس کے علاوہ سردار جعفری اور فیض کی شاعری کا بھی ترجمہ بھی انھوں نے پیش کیا۔
زینت اللہ عاشور بائف: تاشقند کے اورینٹیل اسنٹی ٹیوٹ کے ممتاز اسکالروں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ انھوں نے منٹو کی کہانیوں پر پی ایچ ڈی کی علاوہ منٹو کی کہانیوں کا ازبیک میں ترجمہ بھی کیا۔ انھوں نے اردو زبان بہت محنت سے سیکھی اور وہ روانی سے اردو میں باتیں کیا کرتے تھے۔
فتح تیشا بائف: ساٹھ کی دہائی میں ازبیکستان سے جن طلبا کی جماعت اردو کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہندوستان آئی تھی ان میں ایک اہم نام فتح کا ہے یہاں وہ دہلی یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور طالب علم رہے۔ بعد میں سر سید کے سماجی افکار کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ازبیکستان کے سابق صدر اسلام کریموو کی دور حکومت میں نائب وزیر خارجہ کی زمہ داری نبھائی اس کے بعد امریکہ میں سفیر کے باوقار عہدے پربھی فائز رہے۔ ازبیکستان کی اردو دنیا میں انھوں نے اپنی صلاحیت، محنت اور ذہانت سے جو مناصب حاصل کیے اس میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ فتح صاحب ہندوستان میں جب ازبیکستان کے سفیر بنائے گیے تو سب سے پہلے انھوں نے یہ کوشش کی کہ دونوں ملکوں کے لسانی، ثقافتی اور تجارتی رشتے مزید مستحکم ہوں اور اس کے توسط سے دونوں ممالک کی زبان کو بھی فروغ ہو حاصل ہو۔ اس کے لیے دہلی میں ایک ہند ازبیک سوسائٹی بھی بنائی گئی جس کے تحت ازبیکستان کے قومی تہوار منانے کے ساتھ ساتھ کئی ادبی وثقافتی سیمینار بھی منعقد کئے گئے۔
طاہر ابراہیموو: طاہر ابراہیموو کا شمار بھی ازبیکستان کے نامور اردو ادیبوں اور دانشوروں میں ہوتا ہے۔ اردو زبان وادب سے ان کا والہانہ لگاؤ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب آپ تاشقند کے ایک اعلی اشاعتی مرکز غفور غلام کے اہم ذمہ دار تھے تو آپ کی سرپرستی میں اس ادارے سے کلاسیکی اور جدید اردو ادب کے کئی کتابیں ترجمہ ہوکر شائع ہوئیں۔ جس میں ایک نہایت ہی اہم کام میرامن دہلوی کی داستان ’باغ وبہار‘ کا ازبیک ترجمہ ہے جسے انھوں نے خود کیا۔اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس داستان کا پہلا اڈیشن ساٹھ ہزار شائع ہوا اور چند مہینوں میں ہی یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوگئی۔ در اصل قصہ چہار درویش ازبیکستان میں بہت مقبول تھی اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس کا ترجمہ بھی آسان اور عام فہم زبان میں کیا گیا تاکہ ہر ایک کو سمجھ آسکے۔
آزاد شاماتوف: ازبیکستان میں اردو کے حوالے سے پروفیسر آزاد شاماتوف کا ایک معتبر نام ہے۔ انھوں نے ڈاکٹریٹ کے ساتھ ڈی لٹ کی اعلی سند بھی حاصل کی۔ ان کی صلاحیت اور علمیت کا ہر کوئی معترف ہے۔ درس وتدریس ان کا اصل میدان تھا جہاں وہ نہایت ایمانداری اور اصول پسند تھے اور شعبہ کے دیگر اساتذہ کو تربیت کیا کرتے تھے کہ درس وتدریس اور علمی کاموں میں محنت و جانفشانی سے کام کریں تاکہ طلبا پر اس کا مثبت اثر ہو۔ اردو لسانیات، زبان کی نشو و نما اور اس کی لسانی خصوصیات کے حوالے سے آزاد شاماتوف کا نام سر فہرست ہے۔ آزاد شاماتوف کا اصل میدان دکنیات تھی۔ یہی وجہ ہے کہ دکنی ادب، خصوصی طور پر قطب مشتری اور دیگر دکنی ادبیات کی روشنی میں انھوں نے لسانیات کے حوالے اہم کام کیے ہیں علاوہ ازیں دیگر جرائد ورسائل میں بھی ان کے مضامین شائع ہوتے تھے۔ ان کے اردو شاگردوں کی ایک طویل فہرست ہے جو ازبیکستان کے مختلف شعبوں میں اردو کے حوالے سے کام کر رہے ہیں جیسے مختلف اداروں میں درس وتدریس، ٹی وی، ریڈیو کے علاوہ سیر سیاحت کی جگہیں اور ائیر پورٹ وغیرہ۔ آزاد شاماتوف کو ازبیکستان میں اور خاص طور پر ادبی وعلمی حلقوں میں نہایت ہی عزت واحترام کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔
غفور رخصت الائف: ازبیکستان کے اردو منظر نامے پر ایک اہم نام غفور رخصت کا ہے۔ ان کا تعلق ایک زمانے تک ریڈیو ازبیکستان کے شعبہ اردو سے تھا جہاں وہ نہایت ہی ہنرمندی اور مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے پروگرام کرتے تھے۔ غفور جان تاشقند کے مشرقیات یونیورسٹی میں اردو کے استاد بھی رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ جب ازبیکستان کے شہر تاشقند میں ماسکو کا اردو اشاعت گھر کا قیام ہوا تو ان کو اس کی ایک اہم ذمہ داری دی گئی اور اس زمہ داری کا حق ادا کرتے ہوئے انھوں نے بے شمار ازبیکی شعر و ادب کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرایا۔ اس کے علاوہ خود بھی کئی ازبیک ادیبوں کی کتابوں کو اردو میں منتقل کیا۔
سونیا چیر نیکووا: اردو میں تحقیق کا کام ہمیشہ سے اہم رہا ہے اس اعتبار سے دیار غیر میں سونیا چیر نیکوا کا ایک نمایاں نام ہے۔ تحقیق کے موضوع پر ان کی کتاب اردو کے صیغے ایک اہم کتاب ہے۔ تاشقند یونیورسٹی میں ایک عرصے تک اردو کی استاد تھیں۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی اردو پڑھنے،پڑھانے،سیکھنے،سکھانے اور اس زبان کی خدمت و تحقیق میں صرف کردی۔ انھیں اردو محاورے اور قواعد پر غیر معمولی دسترس تھا۔ اردو زبان میں نہایت شائستگی، شگفتگی اور روانی سے باتیں کیا کرتی تھیں۔ اردو میں مرکب افعال کی اقسام، پر ان کی ایک اہم کتاب موجود ہے جسے انھوں سب سے پہلے روسی زبان میں شائع کرایا پھر بعد میں خود اردو میں منتقل کیا۔
ازبیکستان کی کئی یونیورسٹیز میں باقاعدہ اردو زبان کی تدریس ہوتی ہے جن میں مشرقیاتی یونیورسٹی تاشقند اور تاشقند اسٹیٹ یونیورسٹی آف اورینٹل اسٹڈیزکے نام قابل ذکر ہیں۔ ازبیکستان میں اردو زبان کی درس و تدریس کا باقاعدہ آغازتو 1920ء میں ہوچکا تھا جب تاشقند میں فارسی زبان کے ساتھ ساتھ اردو کی بھی تعلیم جاری کر دی گئی تھی۔ لیکن اس وقت اردو شناسی کو زیادہ فروغ حاصل نہیں ہوا اور سب سے پہلے مشرقیاتی یونیورسٹی میں اردو کی پڑھائی شروع ہوئی۔ اس طرح ازبیکستان میں اردو تعلیم کا آغاز تو 1920میں ہی ہوا لیکن حال میں وہاں کی مختلف یونیورسیٹیز میں اردو زبان وادب اور اس کی تہذیبی تاریخی اور لسانی موضوعات پر باقاعدی ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی ہورہی ہے۔ بعد کے اساتذہ میں ڈاکٹر تاش مرزا، ڈاکٹر محیا عبدالرحمن وا، محترمہ مکتوبہ مرتضی، محترمہ امید صاحبہ اور ماہرہ صاحبہ وغیرہ بھی اہم ہیں۔ ان اساتذہ نے بھی ازبیکستان میں اردو زبان کی تعلیم اور اس کی بنیاد کو مستحکم کیا۔
پروفیسر تاش مرزا:ازبیکستان میں اردو ادب کے حوالے سے ایک نمایاں نام مشہورشرق شناس، سوویت اور ازبیک سفارتکار، ماہر لسانیات، ازبیکستان میں اردو کے بڑے محسن استاد ڈاکٹر تاش مرزا صاحب کا ہے۔ تاش مرزا نے ازبیکستان میں اردو کو دورِنو سے روشناس کرایا۔ اردو میں جو تبدیلی آئی اس کو بھی انھوں نے واضح کیا۔ وہ ساری عمر اردو پر کام کرتے رہے اور اب بھی کر رہے ہیں۔ انھوں نے روسی اردو روسی صفات ترتیب دی اس اہم کاوش پر انھوں نے تیس سال کام کیا۔ اردو زبان کی گرامر، نحو، تاریخ اور تبدیلی پر مرزا صاحب کی کئی کتابیں اور مقالے ہیں۔ جن میں دو لغات بھی شامل ہیں، اردو روسی اور اردو ازبیک ڈکشنری جسے مقتدرہ قومی زبان پاکستان نے شائع کیا۔ اس کے علاوہ، اردو ریڈراور ہندوستان میں اردو کی ترویج کی چند خصوصیات وغیرہ اہم ہیں۔ ڈاکٹر تاش مرزا کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ انھوں نے وسطی ایشیا اور خاص کر ازبیکستان میں سینکڑوں اردوداں اور ہزاروں ماہرین کی تعلیم و تربیت کی۔ مشرقیاتی یونیورسٹی تاشقند میں اردو کے پروفیسر تھے اب وہ سبک دوش ہوچکے ہیں۔
ڈاکٹر محیا عبدالرحمانوا: اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹیل لنگویجیز تاشقند میں اردو ادب کی استاد اورغالب شناس ڈاکٹر محیی عبدالرحمانوا ایک معتبر نام ہے۔ انھوں نے قدیم اردو کے افعال پر کام کیا۔ محترمہ محیا صاحبہ غالب کی غزلوں کو ازبیکی زبان میں، ازبیک زبان میں غالب کی غزلوں کا انتخاب اور امام بخاری کے ملک میں چند روز، نامی سفرنامہ کا ترجمہ کر چکی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی کتابوں میں اردو ادب اور زبان، بابر کے زمانے کی زبان کے علاوہ مختلف جرائد ورسائل میں متعدد مضامین بھی ان کے شائع ہو چکے ہیں۔
پروفیسر الفت محب: مرکزی ایشیائی ملک ازبیکستان کا شہر تاشقند زمانہ قدیم سے اردو کی تعلیم وتدریس کے لیے اہم مرکز رہا ہے۔ خاص طور پراسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹل اسٹڈیز تاشقند، جہاں 1947 سے ہی اردو ہندی کی تعلیم دی جارہی ہے۔ اس ادارے سے کئی اہم شخصیات وابسطہ رہی ہیں جن میں پروفیسر الفت محب صاحبہ کا نام بھی ہے۔ اس وقت وہ اس شعبہ کی صدر ہیں۔ بابری عہد کے ادب پر ان کا بڑا اہم تحقیقی کام ہے۔
ڈاکٹر لولا مکتوبہ مرتضی: جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ اردو ازبیکستان کی ایک مقبول زبان ہے جس میں ماہرین اردو اساتذہ اور طلبا کی ایک اہم تعداد موجود ہے۔ جن میں لولا مرتضی کا نام بھی اہم ہے۔ تاشقند اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹل اسٹڈیز میں اردو اور ہندی کی استانی ہیں۔ وہ تقریباً تیس برسوں سے اردو زبان وادب سے وابستہ ہیں۔ اردو زبان کے حوالے سے ان کا خیال ہے کہ یہ بہت ہی خوبصورت اور پیاری زبان ہے۔ وہ اردو نہایت ہی آسانی اور روانی سے بولتی ہیں۔
ان کے علاوہ اور بھی دیگر شخصیات جو اردو زبان وادب کی تدریس سے وابستہ ہیں جن میں ڈاکٹر سراج الدین نورمتو، موجودوہ صادیقوا، سلیمانوامعمورا، شارا حمیدوامخلصہ، کمالہ ارگا شوا اور محترمہ تمارا خوجائیوا صاحبہ بہت ہی اخلاص اور محنت و مشقت سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ ان اساتذہ میں بہت سے ایسے ہیں جن کے مضامین ہند و پاک کے رسائل و جرائد میں شائع ہوچکے ہیں۔ زیادہ تر اساتذہ پی ایچ ڈی کے علاوہ ڈی لٹ کی بھی ڈگری حاصل کر چکے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ازبیکستان میں اردو زبان وادب کی تاریخ اوراردو تدریس و تعلیم تقریباً سو سالوں سے بڑے پیمانے پر وہاں کی مختلف یونیورسیٹیوں میں باضابطہ ہورہی ہے۔ ازبیکستان میں اردو زبان و ادب کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ سو سال سے زائد عرصے سے وہاں کی یونیورسٹیوں میں اردو پڑھائی جا رہی ہے۔ ازبیکستان میں اردو کو نہ صرف ایک زبان کے طور پر پڑھایا جاتا ہے بلکہ اس کے پس منظرمیں قدیم ترین دوستی اور ایثار و قربانی کے جذبے کی پوری تاریخ موجود ہے جسے ازبیکی کبھی فراموش نہیں کرنا چاہتے۔ کیونکہ تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی طور پر ازبیکستان کی عوام ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں اور لسانی اعتبار سے اردو اورازبیکی زبانیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں۔ رسم الخط میں تبدیلی کے باوجود ان کے پاس لاتعداد الفاظ، کہاوتیں عام ہیں۔ اسی لیے ازبیکی برصغیر کو اپنا دوسرا وطن اور اردو زبان کو اپنا قدیم اور قیمتی اثاثہ و سرمایہ سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ازبیک دانشورازبیکستان میں اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں۔
حوالہ جات:
.1 ارمغان تاشقند، مرتبہ نو بہار صابر
.2ازبیکستان، انقلاب سے انقلاب تک۔ پروفیسر قمر رئیس
.3ماہنامہ انشا، (رسالہ) کولکاتہ، مئی، جون 2007
.4تاشقند کا جوہری، محمد طاہر نقاش
.5ازبیکستان اور علی شیر نوائی، پروفیسر قمر رئیس
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |