بہرائچ میں اردو شاعری کی ابتدا حضرت شاہ نعیم ؔاللہ بہرائچیؒ کے ذریعہ ہوئی ۔آپ صوفی شاعری کے سرتاج حضرت مرزا مظہر ؔجان جاناں شہیدؒ کے خلیفہ اجل اور شاگرد رشید تھے۔آپ کا قلمی کلام آپ کے خانوادے میں محفوظ ہے اور کچھ کلام شائع بھی ہو چکے ہیں۔آپ کے بعد دبستان دبیر ؔ اور دبستان انیسؔ کے ساتھ ساتھ دبستان داغؔ نے فروغ پایا اور یہاں ایک سے ایک مایاناز شعرائے عظام نے اپنے جوہر دیکھائے انہیں میں کچھ شعرائے عظام نے صوفی شاعرکے طور پر اپنی پہچان بنائی جن میں راجہ جنگ بہادر خاں جاہؔ (والی ریاست نانپارہ)، مولوی ضامن علی خاں انیقؔ بہرائچی ،حکیم صفدر علی وارثی صفاؔ بہرائچی،شیخ رحیم ؔجرولی ،عبد الرحمن خاں وصفی ؔ بہرائچی کے نام قابل ذکر ہیں ۔ان حضرات کے علاوہ ایک نام اور ہے جن کا ذکر یہاں کیا جا رہا ہے اور وہ نام ہے خانوادے علامہ فضل حق خیرآبادی کے چشم و چراغ اور مشہور شاعرریاضؔ خیرآبادی، مضطرؔ خیرآبادی، نیّرؔ خیرآبادی کے قریبی عزیز حضرت واصف ؔالقادری نانپاروی ۔اس مضمون میں میری کتاب زیر ترتیب ’ بہرائچ ایک تاریخی شہر‘کے حصہ دوم ’بہرائچ اردو ادب میں ‘سے اقتباس لئے گئے ہیں۔
حضرت عبدالوارث مشہود علی واصف ؔالقادری کی پیدائش مارچ 1917ءمیں بہرائچ ضلع کی ریاست نانپارہ میں محلہ توپ خانہ ،نانپارہ میں ہوئی۔ آپ کا آبائی وطن خیرآباد ضلع سیتاپور تھا۔آپ کے والد مولانا حاجی حافظسید مقصود علی خیرآبادی درگاہ غوثیہ میں معتمد کے عہد ے پر فائز تھے۔
عرفان عباسی لکھتے ہیں کہ ”خیرآباد کے مشہور شاعرریاضؔ خیرآبادی، مضطرؔ خیرآبادی نیّرؔ خیرآبادی وغیرہ آپ کے عزیزوں میں سے تھے۔واصف صاحب کا نسبی تعلق سندیلہ کے سلسلہ قادریہ نقشبندیہ کے صوفی بزرگ سید مخدوم نظام سے تھا۔ آپ کا سلسلہ مخدوم الہدایہ قدس سرہ سے ملتا تھا۔ آپ کےخاندان میں علم و فضل شعروادب اور تصوف کا شروع ہی سے چرچا رہا اور آپ کے خاندان میں مشاہیر علم و ادب پیدا ہوتے رہے۔ واصف القادری کو بچپن سے ہی گھر میں دینی علمی ماحول ملا ،جس نے آپ کی ذہن کو روشنی،قلب کو تازگی اور روح کوجلا بخشی۔ واصف صاحب نے ابتدائی دینی تعلیم حاصل کی اور اس سے پہلے کہ اعلیٰ تعلیم کی طرف رخ کرتے والد کا انتقال ہو گیا، واصف القادری کی عمر اس وقت 13سال کی تھی۔ والد کی بے وقت کی جدائی نے بچپن میں ہی فکر معاش سے دو چار کر دیا لیکن بلند حوصلوں سے سر بلند کر لیا۔ بعد میں واصف صاحب نے حکمت کا پیشہ اختیار کیا۔ عوام میںآپ کو حکیم کی حیثیت سے پورے شہر میں مشہور ہو گئے۔ لیکن آپ ایک اچھے شاعر کے طور پر بھی مشہور تھے۔‘‘(تذکرۂ شعرائے اتر پردیش جلد 20مطبوعہ 2000ءص306)
واصف ؔالقادری صاحب نے ابتدائے شاعری میں اصغرؔ رشیدی نانپاروی تلمذہ پیارے صاحب رشیدؔلکھنوی سے مشورہ شخن حاصل کیا بعد میں مذہبی شاعری کی طرف رجحان ہوا اور مشق سے کلام میں پختگی محسوس کرنے لگے تو سلسلہ ختم کر کے اپنی ذاتی صلاحیتوں کو رہنما بنا لیا۔ واصف القادری کے بارے میں بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ آپ صوفیانہ رنگ میں شعر کہتے تھے۔ واصفؔ القادری نے نعت ،غزل ،رباعیات، قظعات اور مثنوی وغیرہ سبھی اصناف میں کلام لکھے۔ (یہ بھی پڑھیں مشاہیر بہرائچ کا اجمالی تعارف – جنید احمد نور )
عرفان عباسی مزیدلکھتے ہیں کہ واصف القادری نہ مشاعرہ باز شاعر تھے۔نہ پیشہ ور سکون قلب کے لئے احترام و عقیدتکے ساتھ نعت رسولؐ کہتے تھے اور بزرگان دین کی شان میں قصائد کا نذرانہ پیش کرتے تھے۔
آپ کے تین شعری مجموعہ شائع ہوئے جن کے نام اس طرح ہیں۔ مجاز حقیقت،تجلیات حرم ،عزم وایثار ۔
خیرآبادکے مشہورشاعرنجمؔخیرآبادی آپ کے حقیقی بہنوئی تھے۔قمرؔ گونڈوی اور نیپال کے مشہور شاعرنیپال کے سب سے اعلیٰ ادبی انعام یافتہ جناب حاجی عبدالطیف زرگر شوقؔ نیپالی آپ کے شاگردوں میں قابل ذکر ہیں۔ آپ کے بہت سے شاگرد ملک نیپال اور نانپارہ میں ہیں۔
قمر ؔ گونڈوی لکھتے ہیںکہ 1952ء-1953ءکی بات ہے گونڈہ میں ہم لوگوں نے جگرؔمرادآبادی کی سرپرستی میں ایک مشاعرہ منعقد کیا اس میں مشاعرے میں تمام بڑے بڑے شعرا کرام نے شرکت کی تھی اس میں ایک نام جو اس وقت ہمارے لئے اجنبی تھا وہ واصفؔ بابا کاتھا جن کو قادر باباجومحکمہ سی آئی ڈی گونڈہ میں ملازم تھے کے اسرار پر مشاعرے میں دعوت دی گئی ۔یہ پہلا مشاعرہ تھا جس میں علامہ شفیق ؔجونپوری کا نیاض حاصل کیا اور دوسرے حضرت واصف ؔنانپاروی تھے جن کو پہلی بار دیکھا ۔ اسٹیج شاعروں سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا ۔ شہنشاہِ متغزلین حضرت جگرؔ مرادآبادی ایک خوبصورت مخملی کار چوبی کے کھڑے ہوئے بڑے سے گاؤ تکیہ کے سہارے سر پر بھورے رنگ کی ترچھی بال دار ٹوپی لگائے ۔۔۔۔۔شیر وانی کے بٹن کھولے تمام عظیم شعرا کے درمیان جلوہ گر تھے۔پنڈال میں تل رکھنے کی جگہ نہیں تھی۔کرشن بہاری نورؔ لکھنوی اپنا ایک قطعہ پڑھ کر داد لےگئے ۔ان کے بعد ناظم مشاعرہ عمر قریشی نے واصفؔ صاحب کو زحمت سخن دی۔ڈائز پر صفِ شعرا کی سب سے پچھلی جگہ سے ایک بزرگوار میلی کچیلی سر پر ٹوپی لگائے ، بے ڈول کوٹ میں خود کو لپیٹے ہوئے،شکن آلود بڑے پائنچے کا پائجامہ سنبھالتے ہوئے گرتے پڑتے آرہے اور جگرؔ صاحب کے پیچھے بیٹھ گئے اور بڑھ کر عمرؔقریشی کے کان میں چپکے سے کہا تو انہوں نے اعلان کیا کہ واصفؔ صاحب کا کلام ان کے شاگرد وصی ؔ نانپاروی پڑھیں گے۔وصیؔ نانپاروی سر پر چمکدار ترچھی ٹوپی لگائے زرق برق کرتا پائجامے میں ملبوس مائک کر اُچک کر پہنچ گئے۔غزل کا مطلع پڑھا تو ظالم کی سریلی اور پاٹ دار آواز کانوں سے ٹکراکر سیدھے دل میں اتر گئی۔مطلع تا مقطع واصف ؔصاحب کی غزل کے حوالے سے محفل پر چھا گئی بلکہ دلوں کی دھڑکن بن گئی۔ہر شعر پر سامعین نے دل کھول کر داد دی اور واصفؔصاحب اپنی کامیابی پر مسلسل جگرؔصاحب کے ہاتھوں کو بوسہ دے رہےتھے۔جگر ؔ صاحب نے واصف ؔ صاحب کا ہاتھ پکڑ کر اپنے بغل میں بٹھا لیاداد وتحسین کے ساتھ جگر صاحب کا واصفؔصاحبسے اس شدتِ شوقِ خلوص نے دیکھنے والوں کو حیرت زدہ کر دیا۔اختتام غزل پر جگرؔ صاحب نے عمر قریشی سے شعرا کی لسٹ مانگی نہیں بلکہ چھین لی اور عادت کے مطابق عالم غیض وغضب میںچیخ کر بولے کس نالائق نےیہ لسٹ مرتب کی ۔غضب خدا کا استاد شاعرکا نام مبتدی شعراء کے ساتھ لکھاگیا۔محبوب اور ہم ۔۔۔دونوں ڈائیز سے بھاگ لئے ،آئی گئی سب شمس الہدی فاروقی کے سر گئی۔غریب سر جھکائے بر سرمنبر جگر صاحب کی جھاڑ پھٹکار سنتے رہے۔(گلابی کرن دہلی،ماہ ستمبر 1996 ،ص 10)
واصف ؔالقادری صاحب کے اعزاز میں1973ء میں ضلع گونڈہ میں ایک جشن واصف کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں گورنر اتر پردیش نے بھی شرکت کی تھی اور ایک یادگاری کتاب کا اجرا بھی ہوا تھا جو واصف ؔ صاحب کی حیات اور خدمات پر مشتمل تھا جس میں آپ پر متعدد ادبی شخصیات نے اپنے مضامین لکھے تھے۔جو ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ ا ن میں سے کچھ کے اقتسابات کو اس مضمون میں نقل کیا گیا ہے۔
نجم الحسن رضوی نجم ؔ خیرآبادی لکھتے ہیں کہ حضرت واصف ؔ جس خاندان سے تعلق رکھتے ہیںا س نے توحید و عرفان کی شمع صدیوں سے روشن رکھی۔خود انکے والدبزرگوارنے دنیا کے اکابر مشائخ سے فیوض و برکات حاصل کئے ۔حضرت واصفؔ خود بھی حقیقتآگاہ مردہا خداحضرت وزیر علی شاہ ؒ کے چشمۂ عرفان سے سیراب تھے۔جس کا اعتراف انہوں نے کتاب ’’عزم و ایثار‘‘میں بھی کیا ہے ؎
درفیض وزیر باصفا مجھ کو نظر آیا
حقیقت آشنا وہ رہنما مجھ کو نظر آیا
آپ کے والد کا شمار اچھے دریوشوں میں ہوتا تھا ۔انہیں بزرگوں کے فیض و برکات کے سایہ میں واصف ؔ صاحب کی شاعری پروان چڑھی تھی۔
سعید اختر خلش ؔ لکھتے ہیں کہ واصف ؔصاحب نے یوں تو نظمیں اور قطعابھی کہے ہیں لیکن ان کے اصلی جوہرغزل میں کھلتے ہیں۔واصف صاحب کے مداحین کا عام خیال ہےیہ ہے کہ وہ ایک صوفی شاعر ہیں اور ان کے کلام کا بیشتر حصہ تصوف کے رنگ میں ڈوبا ہے۔واصف کے اشعار میں ان کے دل کی تڑپ،جذبٔہ بے فوری،اور ولہانہ انداز پورے طور پر کارفرماہے۔
ڈاکٹر ولی الحق انصاری لکھتے ہیں کہ واصفؔ صاحب کی نظموں میں وطنیت اور مذہبیت کا مضر بھی بہت کافی موجود ہے۔انکی نظمیں ’’ علامہ فضلِ حق خیرآبادی کے حضور میں‘‘ اور’’ گاندھی جی‘‘ان کے وطن پرستی کے جذبات کی آئینہ دا رہیںاور ’’اسلام اور داعی اسلام‘‘ اور بارگاہ رسالت مآب میں‘‘ان کی اسلام اور بانیٔ اسلام سے والہانہ محبت کی عکاسی کرتی ہیں۔ان دونوں نظموں کے علاوہ ’’مجاز حقیقت‘‘ اک پورا باب ’’تجلیات حرم‘‘کے عنوان سے نعت و ذکر رسولﷺکے لئے وقف ہے۔
آپ کے شاگرد شوقؔ نیپالی صاحب اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیںکہ واصف القادری صاحب بسلسلہ معاش نیپال گنج میں قیام رہا ہے ۔موصوف پہلے جس گھر میں کرایہ پر رہتے تھے لیکن کچھ ماہ بعد کرائے کے لئے مکان مالک کرائے کے جھگڑا کررہا تھا۔علی احمد صاحب نے مجھے یہ بات بتائی کہ آپ کا مطب چل نہیں رہا ہے اور اگر یہ خالی کردیں تو کرایہ معاف کر سکتا ہوں،میں نے یہ بات واصف صاحب کو سمجھائی تو آپ کی آنکھوںمیں آنسو بھر ّئے اور میں نے کہا کہ آپ پریشان نہ ہو بس یہ مکان خالی کر دیں اور جب تک آپ کو رہنا ہو میرے گھر تشریف لے چلیں وہیں قیام کریں وہ بھی اپنا ہی گھر سمجھیں اس طرح محترم کو اپنے گھر لے آیا ،محترم کی دکان تو نہ چلی ہاں لیکن شاعری کی دکان چلنے لگی۔میں نے جو کچھ بھی سیکھا محترم سے ہی سیکھا ہے۔آپ نے ہی بحروں میں شعر کہنے کا تمام طریقے بتائے،رموز شاعری سے آگاہ کیا شاعری کے قواعد و گرامر بتائیں ۔دھیرے دھیرے میرے تمام ساتھی محترم کے قریب آنے لگے ۔کچھ ساتھوں کے ساتھ 1گتے؍ساون2033بکرمی(نیپالی سال)میں ایک بزم ’’گلزار ادب‘‘ قائم ہوئی،جو بعد میں۲ حصو ں میں تقسیم ہو گئی۔2034بکرمی(نیپالی سال) میں واصف القادری صاحب پر فالج کا اٹیک ہوا تب انکو نانپارہ بھیج دیا گیا جب ٹھیک ہو گئے تب آپ پھر واپس نیپال گنج آ چکے تھے مگر فوراً دوسرا اٹیک2035بکرمی(نیپالی سال) میں پڑا جو گہرا تھا جس سے آپ سنبھل نہ سکے۔2039بکرمی میں جب آپ کا انتقال ہوا تب دونوں ادبوں نے مل کر شاندار تعزتی مشاعرہ کا اہتمام کیا۔
واصف القادری صاحب کی وفات4؍نومبر1984ءمیں نانپارہ میں ہوئی اور تدفین بھی نانپارہ میں ہوئی، آپ کی اولادیں آج بھی نانپارہ میں رہائش رکھتے ہیں۔
- گتے- نیپالی میں تاریخ کو گتے کہتے ہیں ۔
کلام واصفؔ
مانوس اشارے رہنے دے اے چشم کرم دل بیٹھ گیا |
گھبرا کے طلسمِ منزل سے اب رہروِ منزل بیٹھ گیا |
یہ مشقِ تصور کی حد ہے یا اپنی نظر کا دھوکا ہے |
محسوس یہ اکثر ہوتا ہے وہ آکے مقابل بیٹھ گیا |
مقتل میں فروغ حُسن ہوا اور میری عید ہوئی |
قاتل کی جبیں کی اڑ اڑ کر خونِ دِل بسمل بیٹھ گیا |
جب ان کو ہوااحساس مراتقدیرنےیوںپلتھا کھایا |
ہر ایک تمنا کو لے کر خودجذبٔہ کامل بیٹھ گیا |
پُرزورہوائیںچلتی تھیں موجوں میں تلاطم برپا تھا |
تھادل کا سفینہ ٹوٹاہوااوردورتھاساحل بیٹھ گیا |
للہ نہ چھٹروں واصفؔ کو در سے نہ اُٹھاؤ رہنے دو |
اک دوزخِ فرقت کا مارا جنت کے مقابل بیٹھ گیا |
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
1 comment
Mashallah bht khoob Junaid bhai dil khush hogya