زندگی میں واقعات و حادثات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے ۔ہر شخص اپنے اپنے انداز میں زندگی کو جیتا اور بسر کرتا ہے۔ناکامیوں اور نامرادیوں سے پریشان ہونے اور زندگی کو عذاب کے طور پر گزارنے والے بھی مل جائیں گے مگر حالات سے مقابلہ کرنے اور شر میں خیر کا پہلو تلاش کرنے والے کم ہی ملتے ہیں۔ پروفیسر کبیر احمدجائسی (۱۶،نومبر ۱۹۳۴ء ۔۷،جنوری ۲۰۱۳ء )کا شمار ایسے ہی لوگوں میں کیا جانا چاہیے جنھوں نے حالات کی کبھی پروا نہیں کی علم و ادب سے غیر معمولی وابستگی کوپوری زندگی شعار بنائے رکھا۔حالات چاہے کتنے ہی نامساعد رہے ہوں اس کے سامنے کبھی سرنگوں نہیں ہوئے ۔
علم و ادب سے متعلق جائسی صاحب کے گوناگوں اور متنوع جہات کے حامل تجربات کی اپنی ایک دنیا ہے ،ان کے مطالعہ سے نہ صرف علم و دانش کے جویا کی تسکین ہوتی ہے بلکہ علمی و ادبی سرگرمیوںاور بعض علاقائی اور انفرادی تجربات کا لطف بھی ملتا ہے ۔انھوں نے یوں تو بہت سے موضوعات پر قلم اٹھایااور خوب لکھالیکن ’’تاریخ ادبیات تاجیکستان سے ’’جدید تاجیکی شعرا‘‘تک ایسے موضوعات پر جن پر بالعموم اردو میں بہت کم لکھاگیا۔مگر جائسی صاحب کی ان علمی و تحقیقی تصنیفات نے دنیا کے ایک نئے خطے کی طرف اردو د والوں کو متوجہ کیا ۔اس سے نہ صرف علم و تحقیق کا ایک نیا باب وا ہوا بلکہ اردو زبان کی علمی و تحقیقی روایت کو بھی جلا ملی ۔
کبیر احمد جائسی کے خطوط بھی اک نوع کی علمی شان لیے ہوئے ہیں خصوصاً ’’شمس کبیر‘‘کے تناظر میںیہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے ۔’’شمس کبیر ‘‘میں ایک جگہ جائسی صاحب نے ڈرائی کلین کا اردو متبادل ’’خشک دھلائی ‘‘دیا ہے ۔اس ترجمہ کی داد نہ دینا ناانصافی ہوگی ۔شبلی کالج کے بین الاقوامی سمینار( ۲۴۔۲۵،فروری ۲۰۰۷ء) کے دوران جب میں نے اس لفظ کی مبارک باد دی تو ان کی آنکھوں میں نہ صرف ایک خاص قسم کی چمک جاگ اٹھی بلکہ بہت دیر تک باتیں کرتے رہے ۔میں نے جب انھیں یہ بتایا کہ اس کتاب کامیرے ساتھیوں نے اجتماعی مطالعہ کیا ہے ،بہت سے الفاظ بھی انھیں سنائے اور یہ بھی بتایا کہ دلی کی زندگی سے متعلق انھوں نے جو تجربات لکھے ہیں ان میں سے کچھ ہم لوگوں نے آزما لیے ہیں تو بے ساختہ کہہ اٹھے کہ قیمت وصول ہوگئی۔ کبیر احمد جائسی سے باضابطہ یہ پہلی ملاقات تھی ۔البتہ ساتھیوں کے درمیان ان کی تحریروں بطور خاص خطوط کے بارے میں گاہے بہ گاہے گفتگو ہوتی رہی ۔
پروفیسر کبیر احمد جائسی کی ایک اہم علمی خدمت عبدالسلام شناسی ہے ۔طالب علمی کے زمانے سے آخری عمر تک ایک وظیفے کے طورپروہ اس کام کو انجام دیتے رہے ۔جب بھی اور جہاںبھی انھیں موقع ملا مولانا عبدالسلام ندوی کی شخصیت اور ان کی علمی وادبی خدمات کو پیش کیا ۔یہ کہنا شاید غلط نہیں ہوگاکہ جائسی صاحب کی انھیں کوششوں کا ثمرہ ہے کہ مولانا عبدالسلام ندوی کا ذکر ہمیشہ ہوتا رہا ۔دارالمصنفین شبلی منزل سے وابستہ عظیم المرتبت اسکالروں نے ہندستان کی علمی،تہذیبی اور ثقافتی زندگی کو جس طرح پیش کیا اور علم و تحقیق کا جو مینارۂ نور قائم کیا اس کی مثال نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے ۔سید الطائفہ علامہ سید سلیمان ندوی سے مولانا مجیب الدین ندوی تک علم و ادب کی جو کہکشاں ہے وہ اپنی مثال آپ ہے مگر جس تواتر کے ساتھ مولانا عبدالسلام ندوی کو ان کے علمی و ادبی اکتسابات کے تناظر میں یاد کیا جارہا ہے یہ سعادت شبلی منزل کے دیگر صاحبان علم کو حاصل نہیںہوسکی اس کاسہرا پروفیسر کبیر احمد جائسی کے سر ہی جاتا ہے ۔حالیہ چند برسوںکے دوران مولانا عبدالسلام ندوی سے متعلق ڈاکٹر شباب الدین(مولاناعبدالسلام ندوی کی ادبی خدمات۔۱۹۹۹) اورڈاکٹر محمدالیاس الاعظمی (یگانۂ روزگار مولانا عبدالسلام ندوی ،۲۰۱۴ء )کی کتابوں کے علاوہ مضامین و مقالات کا ایک طویل سلسلہ ہے ۔
پاکستان میں ڈاکٹر نگار سجادظہیر نے مولانا کے ذکر کو بلند کررکھا ہے ۔مولانا عبدالسلام ندوی پر کبیر احمد جائسی کی حالیہ تحقیقی کتاب انھیں کے ادارہ (قرطاس )نے شائع کی ہے ۔نیز جائسی صاحب کے خاکوں کا پہلامجموعہ’’ڈھونڈو گے انھیں ‘‘ بھی یہیں سے شائع ہوا تھا۔ اس کے علاوہ پاکستان میں مولانا پر تحقیق و تنقید کے قابل قدرکام سامنے آچکے ہیں ان میں شائستہ بتول (اقبال کامل از مولانا عبدالسلام ندوی کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ )اور گلشن طارق کی کتاب (عبدالسلام ندوی کی ادبی خدمات )دستاویزی حیثیت کی حامل ہیں۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ ہمارے زمانے میں شبلی منزل کے جن علماء و فضلا کے فکر و فن کو موضوع بنایا گیا اور جن کے افکارو نظریات پر داد تحقیق دی گئی ان میں سر فہرست مولانا عبدالسلام ندوی ہی ہیں تو کچھ غلط نہ ہوگا ۔
کبیر احمد جائسی کی علمی جہات کے متعدد رخ ہیں ان میں ایک رخ وہ شخصی خاکے ہیں جو انھوں نے مختلف اوقات میں معاصر علمی وادبی شخصیات اور اپنے بعض اساتدہ پرلکھا ۔تاریخ کے ان اوراق کو جو صرف ان کی یادوں کاحصہ تھے ، عام ادبی حلقوں تک پہنچایا ۔ان خاکوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ جن شخصیات پر لکھے گئے ان سے جائسی صاحب کی قربت اور تعلق تو تھا ہی مگر اسی قربت اور تعلق نے متعلقہ شخصیات کے ساتھ ساتھ اپنے بارے میں بھی بہت کچھ لکھنے پر مجبور کردیا۔جائسی صاحب نے اپنے بارے میں جو کچھ لکھا ہے خاکوں اور ان کی بعض دیگر تحریروں کو یہاں اس طرح پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس سے جائسی صاحب کی زندگی اور ان کی شخصیت کے خدو خال متعین ہوسکیں۔اس کے پیچھے صرف یہی جذبہ ہے کہ وہ شخص جس نے بے شمار لوگوں کو نہ صرف اپنے حافظے کا حصہ بنایا بلکہ جاتے جاتے ان یادوں کو محفوظ کردیا ۔انھیں محفوظ یادوں کے توسط سے کبیراحمد جائسی کی یہ مختصر خودنوشت پیش کی جارہی ہے ۔شمیم حنفی کا شعر ہے
جاں کا بس ایک قرض ہے وہ بھی اتر ہی جائے گا
اور کسی عزیز کا ہم پر حساب کچھ نہیں
یہ شعر جائسی صاحب پر صادق آتا ہے ۔اپنے احباب اور جاننے والوں پر اس کثرت سے لکھنا اور بہت سی خوبیوں کو خامیوں کے ساتھ تاریخ کے صفحے پر محفوظ کردینا جائسی صاحب کا کارنامہ ہے ۔اس فہرست میں وہ خود بھی شامل ہیں ۔جائسی صاحب نے مولانا حفظ الرحمن مرحوم کا خاکہ ’’عکس بتاں کے نام سے تحریرکیاتھا ،یہ خاکہ ان کے کسی مجموعہ میں شامل نہیں ہے اس دلچسپ خاکہ کی ابتدائی سطریں ملاحظہ فرمائیں:
’’یادیں انسانی زندگی کا کتنا اہم سرمایہ ہیں اس سے وہی لوگ کچھ آشنا ہوسکتے ہیں جن کی زندگی اس کشمکش سے دوچار ہوکہ کن کن چیزوں کو بھلا دیاجائے اور کن کن چیزوں کو یاد رکھا جائے ؟یعنی یادوں کو شاخ گل اور تلوار دونوں سے تشبیہ دی جاسکتی ہے کیونکہ ان کا دامن صلح وپیکار دونوں ہی کے دامن سے بندھا ہوا ہوتا ہے ۔کچھ یادیں انسان کو تڑپاتی ہیں اسے خجل کرتی ہیں اور دست تاسف ملنے پر مجبور کرتی ہیں اور کچھ یادیں ایسی ہوتی ہیں جو انسان کو جو ش و خروش عزم و ولولہ سے معمور کردیتی ہیں ۔(ادیب علی گڑھ جنوری فروری ۱۹۶۳ء ص ۹)
ان سطور سے جائسی صاحب کی درد مندی تو ظاہر ہے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ جن لوگوں نے جائسی صاحب کی تحریریں پڑھی ہیں وہ ضرور گواہی دیں گے ان سطور کے اولین مخاطب خود جائسی صاحب ہی ہیں ۔ خاکوں کی صورت میں انھوں نے یادوں کی جو صورت گری کی ہے اس کے پس پردہ یہی احساس کارفرما تھا۔ وہ تمام عمر یادوں کی اسی کشمکش سے دوچار رہے جو ان کے لیے کبھی شاخ گل تو کبھی تلوار کا کام کرتی رہی ۔
جائسی صاحب کے خاکوں کا پہلا مجموعہ ’’ڈھونڈوگے انھیں ‘‘۲۰۰۳ء میںکراچی ،پاکستان سے شائع ہوا تھا جبکہ ’’نقوش جاوداں ‘‘کے عنوان سے ڈاکٹر شباب الدین نے ان کے خاکوں کا دوسرا مجموعہ اپنے مفصل مقدمہ کے ساتھ مارچ ۲۰۱۳ء میںاعظم گڑھ ،ہندستان سے شائع کیا ۔
ان خاکوں کی روشنی میں جائسی صاحب کا خاکہ اور ان کی خود نوشت مرتب کی جاسکتی ہے ۔ان خاکوں میں علی گڑھ کی علمی ، تہذیبی اور ثقافتی روایات پوری طرح جلوہ گر ہیں ،انھوں نے جو کچھ پیش کیا حقیقت یہ ہے کہ وہ ضروری تھا ورنہ ہم پورے علی گڑھ کو سمجھنے سے محروم رہ جاتے۔حالانکہ اس سے قبل مختلف انداز سے علی گڑھ کے بارے میں لکھا جاتا رہاہے جس سے علی گڑھ کی علمی و ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
جائسی صاحب نے علی گڑھ کو کئی حیثیتوں سے دیکھا ۔طالب علم کے طور پر ،ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے اور درمیان کا وہ دور بھی جب وہ ملازمت کے لیے تگ و دو کررہے تھے اور پھر ۱۹۸۰ء کے بعد کا زمانہ جب وہ باقاعدہ یونی ورسٹی سے منسلک ہوگئے ۔یونی ورسٹی کی سیاست پر جائسی صاحب کا طنز ، ارباب اقتدار سے قربت اور اس کے لیے اساتذہ کی تملق پسندی کے بے شمار واقعات ان خاکوں میں ملیں گے ۔حیرت یہ ہے کہ جائسی صاحب نے کہیں بھی رعایت سے کام نہیں لیا بلکہ جیسا دیکھا اور جو کچھ محسوس کیا اپنے خاص طنزیہ اسلوب میں اسے صفحۂ قرطاس پر منتقل بھی کردیا ۔خود اپنے بارے میں بھی اسی انداز و اسلوب کوروا رکھا ۔ ’’سفرنصیب‘‘مختار مسعودکا سفرنامہ ہے۔ اس کا حصہ دوم علی گڑھ سے متعلق ہے ۔یہ ایک دلکش تحریر ہے جسے پڑھ کر مسلم یونی ورسٹی کو دیکھے بغیربھی اس کے بارے میں بہت کچھ سمجھا جاسکتا ہے ۔’’سفر نصیب ‘‘کا آخری باب ’’زاد سفر‘‘ہے جس کا مرکزی کردار فضل الرحمن ہے ۔یہ ایک سیلانی اور جنونی تھا اسے نئی دنیاؤں کو دیکھنے اور وہاں کی تہدیب و ثقافت جاننے کا شوق تھا مگر اب ایسے لوگ کہا ں ملتے ہیں جنھیں ہر آن نئی دنیاؤں کی سیر کرنے کاجنون ہو۔ فضل الرحمن کوعلی گڑھ کی بہت سی روایات پسند نہیں تھیں مگر ان ناپسند روایات کو جس خوش اسلوبی سے مختار مسعود نے پیش کیاہے وہ انھیں کا حصہ ہے ۔جائسی صاحب نے ایسا نہیں کیا ۔وہ ایسا کر بھی نہیں سکتے ہیں کیونکہ ان کے زمانے میں کوئی فضل الرحمن نہیں تھا ۔سیلانیوں اور جنونیوں کادور ختم ہوگیا تھا۔فضل الرحمن نے انٹروڈکشن نائٹ ’’شب تعارف‘‘کو سفر سے تعبیر کیا تھااور اپنے ساتھیوں کو کمروں کے بجائے ملکوں اور نئے لڑکوں کے بجاے نئی قدروں سے تعارف حاصل کرنے کا مشورہ دیا تھامگراسے قبول کون کرتا۔نئے دنیاؤں کو دریافت کرنے کاکسی میں حوصلہ نہیں رہا سب کے سب اسی مادر علمی کے اسیر و حریص ہوکر رہ گئے اور غالباً اسی لیے مسائل بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ خراب ادوار کی درجہ بندی کی جانے لگی ۔یہ ایسا ہی ہے کہ جب آنکھو ںکے مریض سے ڈاکٹر مختلف قسم کے شیشے لگاکر یہ پوچھتا ہے کہ اب صاف کہ اب صاف ۔
پروفیسر کبیر احمد جائسی صاحب کے صبر وضبط اور ان کے بعض شخصی اوصاف جن سے کہ عام طور پر لوگ ناواقف ہیں ان خاکوں کی مدد سے سمجھ سکتے ہیں ۔ان کے مزاج،غصے اور ہاؤ بھاؤ کو ان خاکوں کی روشنی میں اچھی طرح سمجھاجاسکتا ہے ۔غالباً دو یا تین بار ہی ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہو ا لیکن ’’شمس کبیر‘‘کے مطالعہ کے بعد ان کی شخصیت اور مزاج کا جو کچھ حصہ سمجھناباقی تھا اسے خاکوں کی مدد سے بآسانی سمجھ لیا ۔مزاج کی تلخی دراصل ان سچائیوں سے عبارت سے جن سے عام طور پر لوگ سامناکرنے سے کتراتے ہیں ۔کبیرجائسی صاحب جہاں رہے ہوں تلخ حقائق اور سچائیوں سے کبھی خود کوالگ نہیں کیا۔
خاکہ غیر افسانوی ادب کا حصہ ہے ۔جس سے زندگی کے تصدیق اور تکذیب کی جاسکتی ہے ۔اس تناظر میں جائسی صاحب کی زندگی کے بہت سے اہم پہلوؤں کو مرتب کیا جاسکتا ہے ۔ان خاکوں سے سوانح اور خود نوشت دونوں کا لطف حاصل کیا جاسکتا ہے ۔جائسی صاحب نے ان خاکوں کے توسط سے یادوں کی تشکیل/شکل عطا کرنے بصورت دیگر صورت گری کا کام کیا ہے ۔اس میں سوانح ہے اس عہد کی جس میں یہ خاکے لکھے گئے اور خود نوشت خاکہ نگار کی کیونکہ عہد مذکور سے اس کا ربط ضبط محض دکھاوا نہیں بلکہ سرگرمی اور جانفشانی کا رہا ۔اس نے اپنے عہد کو پورے اہتمام سے برتااور جیا ۔اپنے عہد کے علمی و ادبی معاملات کے ساتھ ساتھ سماجی سطح پر بھی اس کے اثرات تھے ۔اعظم گڑھ،عبدالسلام ندوی اور علی گڑھ جائسی صاحب کی کمزوری تھے ۔عبدالسلام ندوی ،شبلی منزل اور شبلی کالج کے بار بار ذکر اور یہاں کی معاشرت اور ثقافت پر غیر معمولی دسترس کی وجہ سے لوگ انھیں اعظم گڑھ کا سمجھتے تھے ۔اس بابت انھوں نے خود لکھا :
’’جو حضرات علم جغرافیہ سے نابلدہیں وہ میرے وطن جائس کو اعظم گڑھ کا کوئی گاؤں ،دیہات یا پورہ سمجھتے ہیں …اعظم گڑھ میں برسوں رہنے اور شبلی کالج میں پڑھنے کی وجہ سے کمزور جغرافیہ والے مجھ کو اعظم گڑھ کا باشندہ سمجھتے ہیں ‘‘
(نقوش جاوداں ص:۱۶۰)
اپنی تاریخ پیدائش وطن اور بعض ابتدائی باتوں کے ساتھ ساتھ اپنے بزرگوں کے بارے میں انھوں نے خود لکھا ہے :
’’میں رہنے والا تو اودھ کے مشہور قصبے جائس کا ہوں جہاں میری پیدائش ۱۶؍ نومبر ۱۹۳۴ (ہائی اسکول سارٹی فکٹ پر ۱۶؍ نومبر ۱۹۳۶ء درج ہے جو غلط ہے) کو جائس کے اپنے آبائی مکان واقع محلہ شیخانہ نزد ماموں بھانجے کی قبر میں اس تاریک اور ہوا کا گزر نہ ہوسکنے والی کوٹھری میں ہوئی جس کو وہاں کی زبان میں ’’سووروالی‘‘ کوٹھری کہا جاتا ہے، جائس کے ہر مکان میں ایک ایسی کوٹھری ضرور ہوتی ہے جس میں اس مکان کے مکینوں کی اولادیں پیدا ہوتی ہیں۔ میرے والد ظہیر احمد صاحب مرحوم ہیوٹ انجینئرنگ اسکول لکھنؤ سے ڈپلوما لینے کے بعد ۱۹۱۹ء میں اعظم گڈھ چلے گئے تھے جہاں پر ان کو ضلع کے بورڈ یعنی ڈسٹرکٹ بورڈ میں اورِسیّری کی ملازمت ملی تھی۔ میرا بچپن اور نوجوانی کا زمانہ بھوجپوری بولنے والوں کے درمیان گزرا غالباً یہی وجہ ہے کہ کتابی اردو سے گریز کرتے ہوئے جب بھی اپنی زبان میں گفتگو کی کوشش کرتا ہوں تو بھوجپوری اور اودھی کا ملغوبہ بولنے لگتا ہوں بلکہ بعض بعض اوقات میری اودھی پر بھوجپوری غالب آجاتی ہے۔ شہر اعظم گڈھ میں رہنے کی وجہ سے مجھ کو بہت سے ایسے بزرگوں سے ملنے اور ان کے سامنے ادب سے بیٹھنے کا موقع ملا جن سے ملنے کی تمنا میرے بعض بعض بڑے بھی کیا کرتے تھے ان میں مولانا عبدالسلام ندوی، اقبال سہیل اور کیفی چریاکوٹی کا نام سرفہرست ہے۔ نہ جانے کیوں میں مولانا عبدالسلام ندوی سے دوسروں سے زیادہ متاثر ہوا۔ اسی تاثر کا نتیجہ تھا کہ میں نے ۱۹۵۶ء کے اوائل میں جب کہ وہ حیات تھے ان کے ایک ایسے ادبی پہلو پر خانہ فرسائی کی جس سے بہت ہی کم لوگ واقف تھے۔ یعنی میں نے ان کی شاعری پر ایک مقالہ لکھ کر ان کی خدمت میں پیش کیا اس مقالے کو پڑھ کر مولانا عبدالسلام ندوی نے اپنی شاعری کے بارے میں کئی اشعار اور واقعات مجھ کو بتلائے جن کو میں نے اپنی زبان میں ڈھال کر اپنے مقالے میں شامل کرلیا اور اس زمانے کے مشہور رسالے ’’آج کل‘‘ میں شائع ہونے کے لئے بھیج دیا۔
(عبدالسلام ندوی ایک مطالعہ،کبیر احمد جائسی ص:۱۱۔۱۲)
ان خاکوں میں جائسی صاحب کے زمانے کے اعظم گڑھ کی جو تصویر ابھرتی ہے اس کو اب بتانے والے بھی نہیں رہے ۔جائسی صاحب نے تاریخ کے ان ا وراق کو محفوظ کردیا ہے ۔و ہ لکھتے ہیں :
’’اس زمانے میں تکیہ قائم شاہ کو شہر کی سیاسی اور سماجی زندگی میں ایک خاص مقام حاصل تھا تکیہ قائم شاہ کو عرف عام میں صرف تکیہ ہی کہاجاتاہے ‘‘(نقوش جاوداں، ص:۱۶۱)
تکیہ پر مولانا عبدالباقی مرحوم (سابق ممبر اسمبلی )کے مکان کو سیاست کے مرکزکی حیثیت حاصل تھی جبکہ ڈاکٹرمحمد معظم مرحوم اور ڈاکٹر جان محمد کے مطب ثقافتی شناحت رکھتے تھے ۔یہیں پر محمد حسن کا چائے کا ہوٹل اور اصغر کے پان کی دوکان تھی اس کا دلچسپ بیان جائسی صاحب کی زبانی سنئے :
محمدحسن کا ہوٹل اور اصغر پان والے کی دوکان عوامی ادارے کی حیثیت رکھتے تھے ۔وہاں بھانت بھانت کا آدمی آتا اور دوسروں کی بہو بیٹیوں سے لے کر پیر پیغمبر تک کے واقعات اور قصے بیان ہوتے ،شہر کے اہم واقعات زیر بحث آتے کسی لیڈر کی آمد آمد ہوتی تو اس کے چرچے ہوتے چونکہ محمد حسن کے ہوٹل میں شبلی کالج کے اساتذہ اور طلبہ بڑی تعداد میں آتے اس لیے طلبہ کی یونین کا الیکشن ،کالج کی سیاست،پرنسپل کی تعریف یا شکایت ،اساتذہ کی نااہلی،طلبہ کی بے تہذیبی ان سب ہی مو،ضوعات پر کھل کر اظہار خیال ہوتا ۔‘‘(نقوش جاوداں، ص:۱۶۷)
پروفیسر ملک زادہ منظور احمد کی خود نوشت سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے ۔انھوں نے لکھا ہے :
آصف گنج کی جس گلی میں ،میںرہتا تھا ۔اس میں پرانے طرز کے امام باڑے کی ایک عمارت تھی جو منہدم ہورہی تھی ۔یہ گلی آگے جاکر تکیہ کے چوراہے پر نکلتی تھی جہاں ڈاکٹر معظم کا مطب تھا جو دواخانہ ہونے کے ساتھ ساتھ شام کو شبلی کالج کے اساتذہ کے لیے بیٹھک کا کام بھی دیتا تھا ….مطب کی سڑک کے اس پار مسجد کے سامنے محمد حسین (جائسی صاحب نے محمد حسن لکھا ہے )کا چائے خانہ تھا اور اعظم گڑھ میں وہی کردار اداکرتا تھا جو گورکھ پور میں گاندھی کا ہوٹل کررہا تھا یہ چائے خانہ سیاسی چپقلش اور افواہوں کا مرکز تھا ۔لوگوں میں مشہور تھا کہ ابھی کوئی تصور آپ کے ذہن میں پیدا ہوا ہے کہ اس کی بازگشت آپ محمد حسین کے چائے خانہ میں سن سکتے ہیں ۔یہاں پر اساتذہ طلبا،وکلا،شعرااور سیاست داں سبھی وقتاً فوقتاًبیٹھ کر ایک پیالی چائے پر مقامی،قومی اور بین الاقوامی مسائل حل کیا کرتے تھے۔‘‘(رقص شرر، ص:۱۰۴)
جائسی صاحب کے خاکوں میں علم و ادب کی ایک دنیا سانسیں لیتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور ان میں علی گڑھ کا حصہ کچھ زیادہ ہے ۔جائسی صاحب اپنے علمی و تحقیقی کارناموں کے علی الرغم اس طرح کی تحریریں کیوں اور کیسے لکھتے تھے اس بارے میں ڈ اکٹر شباب الدین کا خیال ہے کہ:
تحقیق وتنقیدکی کی سنگلاخ وادی میں سفر کرتے کرتے جب وہ تکان محسوس کرتے تو یادوں کے نہاں خانوں میں پناہ لیتے ،اس طرح خاکہ نگاری کی ایک نئی دنیا آباد ہوگئی جس میں ان کے بزرگ،اساتذہ،معاصرین اور احباب چلتے پھرتے ،اٹھتے بیٹھتے اور ہنستے بولتے نظر آتے ہیں ۔ہم یہاں اس بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ جائسی صاحب کے ان خاکوں کی نوعیت تاثراتی ہے ‘‘(نقوش جاوداں ،ص: ۲۰)
جیسا کہ گزشتہ سطور میں لکھا جاچکا ہے کہ جائسی صاحب نے ان خاکوں کے توسط سے اعظم گڑھ،علی گڑھ،جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علم ود انش کے بعضـ دیگر حلقوں کی جو صورت گری کی ہے وہ ہماری علمی تاریخ کا ایک خاموش باب ہے اور بہت ممکن ہے کہ اب ان کو بتانے والا بھی کوئی نہ ہو ۔انھوں نے ان خاکوں میں اپنے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اسے ملاحظہ فرمائیں :
٭
بات بہت پرانی ہے اتنی پرانی کہ سنہ تک یاد نہیں ،البتہ یہ یقین ہے کہ ۱۹۵۶ یا ۱۹۵۷ء کے تعلیمی سال کے آغاز کا زمانہ تھا ،پورب کے مخصوص انداز میں جھماجھم بارش تھمے ابھی کچھ دیر نہ ہوئی تھی کہ شبلی کالج کے صدری دروازے سے جو نالہ بہتا تھا اس میں اچھی خاصی تعدادمیں مچھلیاں دکھائی دینے لگیں ،کالج کے صدری دروازے سے دس بیس قدم آگے جو سڑک پہاڑ پور کی طرف جاتی ہے اس کے موڑ پردو تین دھوبیوں کے گھرانے آباد تھے وہ اپنے اپنے ججمانوں کی چادریں اور مستورات کے دوپٹے لے کر آگئے اور مچھلی ’’چھاننے ‘‘لگے ،اس منظر کو انہماک سے دیکھنے کے لیے ایک طالب آکر کھڑا ہوگیا اور مچھلی پکڑنا دیکھنے لگا،داڑھی اس زمانے میں بھی ان کے چہرے کی زیبائی کو رونق دے رہی تھی اور ماشاء اللہ پٹھے کے بالوں سے مٹھی دو مٹھی بڑے ۔میں شبلی کالج میں تھرڈ کلاس سے پڑھ رہاتھااس لیے اکثر طالب علموں سے واقف تھا اس لیے مجھ کو تجسس ہوا کہ یہ کون صاحب ہیں (یہ ذکر اسرار احمد صاحب کا ہے جو مشہور سائنس داں تھے ،انھوں نے بی ایس سی فزکس میں گورکھ پور یونی ورسٹی ٹاپ کیا تھا)جو شاعروں سے بھی بڑے بال رکھے ہوئے ہیں ۔دوسرے طالب علموں سے پوچھنے پر پتہ چلاکہ یہ صاحب مہوارہ کلاں(اعظم گڑھ کا ایک گاؤں) کے رہنے والے ہیں جو پشپ نگر انٹر کالج سے سائنس سے انٹر میڈیٹ کرکے آئے ہیں اور یہاں بی ایس سی سال اول کے طالب ہیں ۔‘‘(نقوش جاوداں، ص:۱۵۵)
٭
میں کرکٹ ٹیم میں بھی تھا اور کالج کی بیت بازی ٹیم میں بھی ،چھوٹے موٹے مشاعروں کو بھی کنڈکٹ کرنے لگا تھا اور بڑوں کے اکسانے پر کبھی کبھی چھوٹی موٹی تقریر بھی جھاڑدیا کرتا تھا ،ضرورت پڑی تورکشا میں بیٹھ کر گھوم گھوم کر لاؤڈسپیکر سے شہر بھر میں اعلان بھی کردیا کرتا تھا ،یا د پڑتا ہے کہ سید سلیمان ندوی مرحوم کے جلسۂ تعزیت کا اعلان بھی میں نے کیا تھا۔ (نقوش جاوداں، ص:۱۱۷)
اسکول سے چھٹی ملنے کے بعد جب ہم لوگ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوتے تو پہلے محلہ تکیہ پڑتااور جب کچھ آگے بڑھتے تو پرانی کوتوالی کاعلاقہ آتاتکیہ اورپرانی کوتوالی کے بیچم بیچ دو سردار صاحبان کے مکانات تھے جن میںسے ایک صاحب اتنے ضعیف تھے کہ ان کی بھویں تک سفیدہوگئی تھیں ،غالبالاولد تھے اس لیے میاں بیوی تنہائی کی زندگی بسر کرتے تھے ،ان کے بغل میں جن سردار صاحب کا مکان تھا وہ خاصے جوان اور پستہ قد شخص تھے جو خوانچہ لگایاکرتے تھے۔ہفتے عشرے میں جب ہم لوگوںکی چنڈال چوکڑی کی رگ ظرافت پھڑکتی تو طے کرکے چلتے کہ آج سردار صاحب کو چھیڑنا ہے ۔‘‘(نقوش جاوداں،ص:۱۴۶)
٭
اب تو شبلی اسکول اور کالج کا نقشہ اتنا بدل چکا ہے کہ ہمارے بچپن کی یادگاروں کانام و نشان تک باقی نہیں ،ہماری طالب علمی کے زمانے میں کالج کی فیلڈ سے ملحق ایک خاصا وسیع و عریض آم کا باغ تھا جو ہم لوگوں کی ’’ستم ظریفیوں‘‘کا نشانہ بناکرتااب تو موسم نے بھی چولہ بدل لیا ہے اور پھول اور پھل نے اپنے کھلنے اور پکنے کا وقت تبدیل کرلیاہے اس زمانے میں اس باغ کے پیڑوں پر اگست کے اواخر میں آم آتے اور تقریباً ایک ماہ تک پیڑ پر پتے رہتے کچھ ایسا اتفاق تھا کہ چند پیڑ ایک کونے پر تھے تو چند دوسرے دونوں پر ہوتا یہ کہ چنڈال چوکڑی دو حصوںمیں تقسیم ہوکر ایک ایک کونہ سنبھا ل لیتی اور پیڑ پر ایک کونے سے ’’ڈھلواس‘‘شروع کردیتی ،اس باغ کی معمر رکھوالن گالیاں بکتی چیختی چلاتی اس کونے کی طرف بھاگتی جدھر بقول لالہ گردھاری لال’’کلوخ اندازی ‘‘کا بازار گرم ہوتا ابھی وہ اس کونے تک پہنچ پاتی کہ دوسرے کونے سے مشق ستم کا آغاز ہوجاتا۔‘‘(نقوش جاوداں، ص:۱۶۴۔۶۵)
٭
چنڈال چوکڑی کی ایک ٹکڑی میں شمیم جیراجپوری ضرور شامل ہوتے مگر پکڑے کبھی اس لیے نہیں گئے کہ ’’چھار کھٹ‘‘بھاگنے کے ماہر تھے،اس چنڈال چوکڑی کے ایک انتہائی فعال رکن محمد جمال انصاری مرحوم جو بعد میں شبلی کالج میں سائی کلوجی کے لکچرر ہوگئے تھے کئی بار دھرے گئے ۔‘‘(نقوش جاوداں، ص:۱۶۵)
٭
’’۱۹۵۵ء میں جب مولانا اسلم جیراج پوری اعظم گڑھ تشریف لائے تھے اور اپنے صاحبزادے ڈاکٹر محمدمعظم مرحوم کے یہاں قیام پذیر تھے تو میں ان سے آٹو گراف لینے معظم صاحب کے گھر گیا تھا م،مولانا ایک نوجوان طالب علم سے بڑی شفقت سے پیش آئے اور آٹو گراف سے نوازا ۔‘‘(نقوش جاوداں،ڈاص:۱۶۸)
٭
’’اکتوبر ۱۹۵۷ء میں ہم چند ہم عمر ساتھیوں نے طے کیا کہ آگرہ چل کر ماہ کامل میں تاج محل کا نظارہ کریں ۔چنانچہ سات آٹھ نوجوانوں کا قابلہ اعظم گڑھ سے آگرہ گیا اور تاج محل کے مناظر سے لطف اندوز ہوکر واپسی میں علی گڑھ ہوتا ہوا اعظم گڑھ آگیا‘‘۔(نقوش جاوداں، ص:۸۳)
٭
۵۸۔ ۱۹۵۹ کے تعلیمی سال میں مجھ کو اس زمانے کے شبلی ڈگری کالج میگزین کے اردو کے حصے کا ایڈیٹر مقرر کیا گیا تھا۔ مجھ کو یہ سعادت حاصل ہے کہ میں نے کالج میگزین کا عبدالسلام نمبر نکالا تھا۔ اس نمبر کو سراہنے اور میری ہمت افزائی کرنے والوں میں مولانا امین احسن اصلاحی اور مولانا عبدالماجد دریابادی کا نام سرفہرست ہے۔(عبدالسلام ندوی ایک مطالعہ،کبیر احمد جائسی ص:۱۲)
٭
’’اکتوبر۱۹۵۹ء میں مجھ کو ان کا (ڈاکٹر ابن فرید )ایک خط ملا کہ جامعہ اردو کے ترجمان’’ادیب‘‘کی ادارت ان کے سپردہوگئی ہے اور انھوں نے ادیب کے شبلی نمبر کا پورا پلان تیار کرلیا ہے ،میں ارباب دارالمصنفین سے علامہ شبلی نعمانی پر مضامین حاصل کرکے ان کو بھیج دوں اور خود بھی کوئی مضمون لکھوں‘‘(نقوش جاوداں ص:۸۵)
٭
’فروری ۱۹۶۰ء میں ان کا(ڈاکٹر ابن فرید)جو خط آیا اس میں ایک جملہ یہ بھی تھا :’’ادیب کے لیے بھی اب آپ کی ضرورت بری طرح محسوس کرنے لگا ہوں ‘‘۔پھر میری زندگی میں ایک ایسا انقلاب آیا کہ میں جولائی ۱۹۶۰کی کسی تاریخ کو علی گڑھ آگیا اور دودھ پور کی منصور منزل نامی عمارت میں ایک کمرہ کرائے پر لے کے رہنے لگا ۔‘‘(نقوش جاوداں، ص:۸۵)
’’میں ۱۹۶۱ء میں مسلم یونی ورسٹی کا طالب علم بنا ۔یہ کرنل بشیر حسین صاحب زیدی کی وائس چانسلری کازمانہ تھا ،میں اپنے سینئر س کی زبانی سنتا رہتا ،ارے اب کیا یونی ورسٹی ہے ،یونی ورسٹی تو ذاکر صاحب کے زمانے میں تھی‘‘۔(نقوش جاوداں،ص:۶۹)
’’میں نے مولانا (ڈاکٹر ابن فرید)کی تشویق پر جولائی ۱۹۶۱ء میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں بی اے سال دوم میں داخلہ لے لیاتھا،رہنے کے لیے چونکہ اس زمانے کے ضیاء الدین اور اس زمانے کے شبلی ہوسٹل میں جگہ ملی تھی جو جامعہ اردو کے بالمقابل ہی تھا ۔‘‘(نقوش جاوداں، ص:۸۷)
٭
’’میںاس وقت بے کار تھا ،مجھ کو باکار کرنے کے لیے مولانا(ڈاکٹر ابن فرید)نے اس زمانے کے جامعہ اردو کے رجسٹرار سید ظہیر الدین صاحب علوی (سید علوی )کو ’’پھانسنا‘‘شروع کیا اور آخر کار مجھ کو ۱۹۶۱ء میں ’’ادیب ‘‘کا مدیر معاون مقررکروانے میں کامیاب ہوگئے۔انھوں نے اپنے سوروپے کے معاوضہ میں سے تیس روپے ماہوار میرے محنتانہ کے لیے کٹوادیا اور میرا نام پکی روشنائی میں چھپنے لگا ….فروری ۱۹۶۴ء تک ادیب میں مولانا کا ساتھ نبھاتا رہا ،ان تین برسو ں میں ہم نے زندگی کا جو مزہ لوٹا ،جس شان سے رہے اور اکثر وبیشتر لوگوں کو جس طرح لوہے لوہے کرتے وہ زندگی میں کبھی نصیب نہ ہوا۔‘‘(نقوش جاوداں، ص:۸۶۔۸۷)
٭
’’مولانا نے ادیب کا ’’مولانا عبدالسلام نمبر‘‘دسمبر ۱۹۶۱ء میں شائع کیا جس کی ضخامت ۵۶صفحات تھی ،اس نمبر میں مولانا عبدالسلام ندوی سے متعلق میری وہ ساری تحریریں جو ۱۹۵۵ء سے اس وقت معرض وجود میں آچکی تھیں ،اس سلیقے سے یکجا کردی تھیں کہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے یہ ایک موضوعی مقالہ(مونوگراف)ہے ۔‘‘(نقوش جاوداں،ص:۹۰)
٭
’’میرا اور مولانا (ڈاکرابن فرید)کا رابطہ تو اصل میں ادارہ ادب اسلامی کی وجہ سے ہوا تھا ،ادیب سے تعلق تو بعد کا قصہ ہے علی گڑھ آنے سے پہلے میں تحریک اسلامی کا زمینی کارکن تھا میلوں پیدل چل کر ضلعی اجتماعات میں شرکت کرنا،مسجدوں میں زمین پر سونا،اجتماعی طو رپر جو کچھ پکتا اس کو کھالینا اور قلم کو ادارہ ادب اسلامی کے لیے وقف کیے رہنا یہاں آنے سے پہلے کا معمول تھا،علی گڑھ آنے کے بعد پتہ چلاکہ تحریک اسلامی کا کام افرنگی صوفہ سیٹوں پر بیٹھ کر سگریٹ کے دھویں کے چھلوں کے درمیان ’’گرین لیبل ٹی‘‘کے گھونٹ لیتے ہوئے بھی انجام دیا جاسکتا ہے اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے وہ ہر چیز کی جاسکتی ہے جو ’’سرخوں‘‘کی شریعت میں جائز ہی نہیں مستحب بھی ہے ،یہ وہ زمانہ ہے جب جنت کاسہل الحصول طریقہ علی گڑھ میں نیا نیا منظر عام پر آیا تھا اور طلبہ ہی نہیں اساتدہ بھی لکھے پڑھے اور سرکھپائے بغیر جنت پاجانے کی بشارت حاصل کررہے تھے ،اب ادارہ ادب اسلامی کی نشستیں کم سے کم تر ہونے لگی تھیں اور تحریک اسلامی کے طالع آزماافراد طاغوت سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہندستان کی سرزمین کو ناکافی گردانتے ہوئے ان ممالک کی طرف ’’ہجرت ‘‘کرنے لگے جہاں پٹروڈلر کا دریا رواں تھا ،اس عمل سے افراد کو کوئی فائدہ ہوا ہو تو ہوا ہو مگر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں تحریک اسلامی اور ادارہ ادب اسلامی دونوں کے کاموں کو جو نقصان پہنچا اس کی تلافی آج تک نہیں ہوسکی ہے ۔‘‘(نقوش جاوداں ،ص:۹۲)
٭
ہم نے ۱۹۶۳ء میں ادیب کے بارہ کے بجائے صرف سات شمارے شائع کیے،فائل کے نمبروں کے لحاظ سے تو یہ تعداد سات ہوتی تھی مگر دسمبر۱۹۶۳ء کا شمارہ جنوری ۱۹۶۴ء میں شائع ہوا تھا اس پر دسمبر ۱۹۶۳ء کے ساتھ ساتھ جنوری ۱۹۶۴ بھی درج تھا مگر بعد میں جنوری پر کالک پوت دی گئی تھی،میں اس سال بی اے فائنل کا امتحان دے رہا تھا ،ہر وقت یہ خوف ستاتارہتا کہ کہیں جامعہ اردو اور ادیب کی وجہ سے ڈویژن نہ ماری جائے بہر حال اپریل میں سالانہ امتحان ہوا اور جون میں نتیجہ نکلنے پر معلوم ہواکہ میں نے پوری آرٹس فیکلٹی میں ٹاپ کیا ہے ‘‘(نقوش جاوداں ،ص:۹۳)
٭
’’بہر حال ہنستے کھیلتے لڑتے بھڑتے ۱۹۶۳ء بھی گزر گیا ،۱۲،جنوری ۱۹۶۴ء کو ظہیر الدین علوی صاحب کا انتقال ہوگیا اس دن یونی ورسٹی کاکانوکیشن تھا جس میں مجھ کو اپنی ڈگری اور میڈل لینا تھا ‘‘(نقوش جاوداں،ص:۹۴)
٭
۱۹۶۵ء میں میں نے ایم اے پاس کرلیا،ڈویژن تو میں نے پالیا لیکن پوزیشن تیسری رہی اس کا قلق آج تک ہے کہ فرسٹ کلاس تھرڈ کیوں رہا ،فرسٹ کلاس فرسٹ کیوں نہ ہوا ،بہر حال اترپردیش گورنمنٹ کا وظیفہ ایک سو دس روپے سے بڑھ کر دو سو روپے ماہوا ہوگیا یوں سمجھیے فارغ البالی آگئی ‘‘(نقوش جاوداں،ص:۹۷)
٭
’’دیکھتے دیکھتے ۱۹۶۶ء بھی گزر گیا اس زمانے میں یوجی سی کی اسکالرشپ کے لیے جو جونیئر فیلوشپ کہلاتی تھی آج کی طرح امتحان نہ ہوتا تھا شائع شدہ کاموں پر اسکالرشپ دے دیا جاتا ،اس زمانے میں یہ اسکالرشپ تین سو روپے ماہوا ر کا تھا میں نے بھی اپنی درخواست اور مطبوعات یوجی سی کو بھیج دی تھیں ،اللہ کا کرم اس ’’منصب سہ صدی ‘‘(جونیئر فیلوشپ)کے لیے میرا انتخاب ہوگیا۔مولانا (ڈاکٹر ابن فرید)کی خوشی کی ٹھکانہ نہ رہا ،ان کے ٹھیلنے پر میں نے ایک مکان کرایہ پر لیا اور والدین اور بیوی بچوں کے ساتھ میرس روڈ پر واقع عمار منزل کے ایک مکان میں رہنے لگا ،اب مولانا سے ملنا کچھ کچھ کم ہونے لگا تھا ‘‘(نقوش جاوداں ،ص:۹۷)
٭
’’۱۹۶۹ء میں میری اسکالرشپ ختم ہوگئی ۔ملازمت اس وقت کوئی مل نہ رہی تھی حال خستہ ہوکر رہ گیا ۔اسی سال یکم نومبر ۱۹۶۹ء کو مسلم یونی ورسٹی کے شعبۂ فارسی میں لیکچرر شپ کا انٹرویو ہوا ،اس زمانے کے صدر شعبۂ فارسی پر ایک دینی جماعت کے افراد اس طرح حاوی ہوئے کہ انھوں نے علی الاعلان حق و انصاف کا خون بہا کر وقتی سرخروئی حاصل کی ،اس وقت تک میری اوسط حجم کی تین کتابیں اور پینتالیس مضامین شائع ہوچکے تھے ،میرا یہی لکھنا پڑھنا میرے حق میں زہر بن گیا ،نومبر ۱۹۶۹ء سے اپریل ۱۹۷۱ء تک مولانا (ڈاکٹر ابن فرید)نے میری کس کس طرح دلداری کی اور کبھی بھی مجھ کو جادۂ اعتدال سے بھٹکنے نہیں دیا ‘‘(نقوش جاوداں ،ص:۹۹)
٭
’’اللہ مغفرت کرے پروفیسر آل احمد سرور صاحب کی ،انھوں نے اپریل ۱۹۷۱ء میں مجھ کو انجمن ترقی اردو میں تین سو روپے ماہوار مشاہرہ پر رکھ لیا ،مولانا(ڈاکٹر ابن فرید)بہت خوش تھے کہ میں باکار ہوگیا ،اس خوشی میں وہ اپنا غم بھول بیٹھے،مگر اللہ تعالی کو میری زندگی کا سب سے بڑا امتحان لینا تھا ،۵مئی ۱۹۷۱ء کو میری اہلیہ کا اچانک انتقال ہوگیا ،پھر کیاہوا ؟کیا سنائیں بری داستاں ہے‘‘سانحہ پر مولانا نے بے حد غم زدہ ہوکر کہا ،’’کبیر صاحب آ پ تو مجھے بھی مات دے گئے ‘‘(نقوش جاوداں ،ص:۱۰۰)
٭
’’اپریل ۱۹۷۱ء کی کسی تاریخ کو استاد محترم پروفیسر آل احمد سرور صاحب مرحوم نے انجمن میں میرا تقرر کردیا ،میرا تقرر ہوا تو کلرکی پر تھا لیکن اس زمانے میں کلکرکوں کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے کسی کو بک ڈ پو انچارج ،کسی کو لٹریری اسسٹنٹ ،کسی کو چپراسییوں کا نگراں اور ’ہماری زبان ‘کی ترسیل کا ذمے دار کہا جاتا۔‘‘(نقوش جاوداں،ص:۱۰۵)
٭
میری خوش قسمتی تھی کہ مجھ کو یکم اپریل ۱۹۷۳ء سے ۱۵؍ ستمبر ۱۹۷۴ء تک آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے ترجمان ’’کانفرنس گزٹ‘‘ کو ترتیب دینے کا موقع ملا اور مجھ کو یہ بھی شرف حاصل ہوا کہ جو ’’کانفرنس گزٹ‘‘ چوبیس برسوں سے شائع نہیں ہورہا تھا اس کو منظرعام پر لائوں۔بہ اعتبار عہدہ ایڈیٹر کی حیثیت سے نام عبیدالرحمن خاں صاحب شیروانی کا شائع ہوتا مگر میں جو بھی اداریے لکھتا وہ ک۔ ا۔ ج کے نام سے شائع ہوتے۔ اب مجھ کو موقع مل گیا تھا کہ میں مولانا عبدالسلام ندوی کے تعلیم سے متعلق مختلف مضامین کو کانفرنس گزٹ میں شائع کرتا رہوں۔ ڈیڑھ سال کے عرصے میں میں نے ان کے مضامین بھی شائع کیے اور غیرمطبوعہ خطوط بھی۔ پھر ۱۹۷۴ء سے ۱۹۸۴ء تک کا تقریباً ایک دھا دوسرے دوسرے کاموں میں نکل گیا۔(عبدالسلام ندوی ایک مطالعہ،کبیر احمد جائسی ص:۱۲۔۱۳)
٭
’’۱۹۷۴ء میں جب میں نے علی گڑھ چھوڑا اس وقت تک مذکورہ روایتوں کی پاس داری ۱۹۶۵ء کے واقعہ کے باوجود (اپریل ۱۹۶۵ء میں اس وقت کے وائس چانسلر علی یاور جنگ کو بری طرح زدو کوب کیا گیا تھا)ہوتی تھی ،یہ فرق ضرور پڑا تھا کہ مذکورہ واقعہ کے بعد کچھ ’’بڑے ‘‘اور کچھ چھوٹے حکومت وقت کے تنخواہ دار بننے میں عار محسوس نہ کرتے تھے،ستمبر ۱۹۷۴ء تک جب میں نے علی گڑھ کو خیر باد کہا اس وقت تک بہت سی پرانی روایتوں کی پاس داری ہوتی تھی جنوری ۱۹۸۴ء میں جب میں جامعہ ملیہ اسلامیہ اور کشمیر یونی ورسٹی کی چاکری کرکے علی گڑھ واپس آیا تو وہ علی گڑھ نہیں تھا جس کو میں چھوڑ کر گیا تھا ۔‘‘(نقوش جاوداں،ص:۶۹تا۷۰)
٭
’’دن گزرتے رہے ،ستمبر۱۹۷۴ء آگیا ،میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں فارسی کا لیکچرر ہوکر دہلی گیا‘‘(نقوش جاوداں،ص:۱۰۱)
٭
’’میں نے ۱۹۸۰ء کے اواخر میں جامعہ(جامعہ ملیہ اسلامیہ ) کو خیرباد کہا ‘‘(نقوش جاوداں،ص:۶۶)
٭
’’میں نے یکم نومبر ۱۹۸۰ء کو اقبال انسٹی ٹیوٹ میں ریڈر کی جگہ کا جائزہ اور ۳۱،دسمبر۱۹۸۳ء کو ایک سال کی رخصت پر علی گڑھ آگیا تھا۔(نقوش جاوداں،ص:۱۸۸)
۱۹۸۴ء میں جب میں نو سالہ بن باس سے لوٹ کر کر ادارہ علوم اسلامیہ میں ریڈر ہوچکا تھا ،ہادی حسن ہال کے پرووسٹ صاحب(شاید ڈاکٹر ایم۔بی خان)کا خط مجھ کو ملا کہ ہال میگزین کے لیے کوئی مضمون بھیج دوں ۔‘‘(نقوش جاوداں ،ص:۱۳۲)
٭
’’مئی ۱۹۸۶ء کی ایک ڈھلتی شام تھی ،میں ان دنوں سرسید نگر کے غازی پور لاج میں رہتا تھا جو اسرار کے مکان کے قریب ہی ہے ،گرمی کی وجہ سے میں گھر کے باہر ہی بیٹھا تھا دفعتاً میری نگاہ باہر کی طرف گئی تو کیا دیکھتا ہوں کہ اسرار اپنی مخصوص چال کے ساتھ جس میں ہلکی سی جھومنے کی کیفیت بھی تھی چلے آرہے ہیں،اس وقت ان کے آنے پر کچھ تعجب بھی ہوا خیر صاحب،سلامت اور احوال پرسی کے بعد انھوں نے کہا کہ میں نے تہذیب الاخلاق کی ادارت قبول کرلی ہے اور میرا نام مدیر معاون کی حیثیت سے دے دیا ہے،کیا آپ میرا ساتھ دیں گے ؟میں نے آپ ہی کے بھروسے پر یہ ذمہ داری قبول کی ہے ‘‘(نقوش جاوداں ،ص:۱۲۴)
٭
جولائی ۱۹۸۶ء میں جب ادارۂ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘میں میرا تقررہوا تو اس کے ایڈیٹر پروفیسر اسرار احمد صاحب کے ساتھ ایک مشن کے تحت’’تہذیب الاخلاق ‘‘کے لیے مضامین لکھ رہا تھا ‘‘۔(نقوش جاوداں، ،ص:۱۳۲)
٭
’’گزشتہ سطور میں،میں یہ لکھنا بھول گیا کہ اسرار نے میری ایما پر شباب الدین (صدر شعبۂ اردو شبلی نیشنل ڈگری کالج ،اعظم گڑھ)کو جو اس وقت ریسرچ اسکالر تھے ،اسسٹنٹ ایڈیٹر مقرر کرلیا تھا ‘‘۔(نقوش جاوداں،ص:۱۲۶)
٭
’’رسالہ جب شائع ہوکر آجاتا تو پڑھنے والے گھنٹہ دو گھنٹہ میں پڑھ لیتے ان کو کیامعلوم ہوتا کہ اس میں مسلسل ایک ماہ کی محنت لگی ہے ،رسالہ کامواد پریس میں جاتے ہی دوسرے دن سے اگلے شمارے کی کتابت شروع ہوجاتی ،مضامین کا انتخاب ہم دونوں مل کر کرتے اسرار مضمون کے مواد پر نظر رکھتے اور اس مضمون میں کلی پھندنے میں لگایا کرتا یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہا جب تک اسرار’’ تہذیب الاخلاق‘‘ سے الگ نہیں ہوگئے ان کے بعد تقریباً تین برسوں تک میں نے تہذیب الاخلاق کی ادارت کی ’مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی ‘۔‘‘(نقوش جاوداں،ص:۱۲۷)
٭
’’میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھاکہ میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے ادارہ علوم اسلامیہ سے منسلک ہوں گا مگر مشیت ایزدی کو یہی منظور تھاکہ میں آخری ملازمت اسی ادارہ میں کروں اور ’’بہ سگاں ادب نمودم بہ خراں سلام کردم ‘‘کہتا ہوااپنی چاکری سے سبکدوش ہوں،۱۹۸۳میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں پرنسل پرموشن کا سیلاب آیاتھااسی کے ساتھ ساتھ جو ’’ریگولر’’جگہیں خالی تھیں ان کو بھی بھراجارہا تھا میں اس وقت کشمیر یونی ورسٹی کے اقبال انسٹی ٹیوٹ میں استاد محترم پروفیسر آل احمد سرور صاحب کی ماتحتی میں ریڈر کی حیثیت سے کام کررہاتھا ،کشمیر کے حالات ابھی بگڑے نہ تھے مگر سرور صاحب کاکوئی بھروسہ نہ تھا وہ کب اقبال انسٹی ٹیوٹ کو خیر باد کہہ کر اپناگوشہ عافیت آبادکرلیں ،میں نے ان کی اجازت سے شعبۂ فارسی اور ادارہ علوم اسلامیہ کی ریڈر ان ایرانین اسٹڈیز کی جگہوں پر درخواست دیدی،ادارہ علوم اسلامیہ کا انٹرویوپہلے ہوا اور میرا وہاں کی جگہ پر انتخاب ہوگیا اس انتخاب کے بعد میں شعبۂ فارسی کے انٹرویو میں شامل نہیںہوا اور ایک سال کی رخصت پر علی گڑھ آگیا،بعد میں وقت آنے پر اپنا استعفی بھیج دیا جو فوراً منظور کرلیاگیا ،اس طرح میں ادارۂ علوم اسلامیہ کا ایک رکن بن گیا ۔(نقوش جاوداںص:۱۷۹)
٭
’’چونکہ میں علی گڑھ ہی کا طالب علم تھااس لیے ادارہ کے کئی حضرات کو پہلے سے ہی جانتا تھا مگر کئی حضرات میرے اجنبی تھے مگر مجھ سے اس لیے خفا رہتے تھے کہ یہ ’’خارجی‘‘(Out Sider)کہاں سے آگیا جو ایک جگہ ماری گئی ۔‘‘(نقوش جاوداں،ص:۱۸۰)
٭
میں ۱۹۹۴ء کے اوائل تک تہذیب الاخلاق سے منسلک رہا اس طویل عرصے میں میں نے مختلف عنوانات سے تواتر کے ساتھ مولانا عبدالسلام ندوی کی یاد کو تازہ رکھا۔ اکتوبر کا مہینہ سرسید احمد خاں کا ماہ پیدائش ہے اس لئے اکتوبر کا شمارہ یاد سرسید کے لئے وقف ہوتا۔ مولانا عبدالسلام ندوی فروری کے مہینے میں پیدا ہوئے تھے اس لئے ہر سال فروری کے مہینے میں خاص طور سے ان پر کوئی مضمون یا ان کا کوئی اقتباس نمایاں طور پر شائع کیا جاتا۔ (عبدالسلام ندوی ایک مطالعہ،کبیر احمد جائسی ص:۱۳)
٭
یہ حقیقت ذہن میں رہنی چاہیے کہ ایران کے چوٹی کے ادیب ومحقق پروفیسر سعید نفیسی نے ادارہ علوم اسلامیہ کی فارسی کلاسیں شروع کی تھیں ان کے ایران واپس جانے کے بعد پروفیسر منیب الرحمن نے سعید نفسی کی جگہ سنبھالی مگر جب ان پر کلام اللہ کو جلوانے کی تہمت لگی تو وہ علی گڑھ کو خیر باد کہہ کر امریکہ چلے گئے،وائس چانسلر(غالباً عبدالعلیم صاحب ہی تھے)نے غضب یہ کیا کہ منیب الرحمن صاحب کے جانے کے بعد ایرانین اسٹڈیزکی جگہ پر محمود الحق کا تقرر کردیا،جوفارسی سے قطعاًنابلد ہیں،اس تقرر پر امیرالدین صدیقی نے عدالتی چارہ جوئی کی،ان کا دائرہ کردہ مقدمہ بارہ یا چودہ سال تک چلتا رہا،جب عدالت نے محمودالحق کے خلاف فیصلہ دے دیاتو وہ جگہ مشتہر ہوئی ،جس پر انٹرویو کے بعد میرا تقرر ہوا،میری سبکدوشی (۱۹۹۶ء)کے بعد دس برسوں تک یہ جگہ خالی رہی اور جب بھری گئی تو وہی غلطی دہرائی گئی جس کا ارتکاب پہلے کیا جاچکا تھا۔‘‘(نقوش جاوداں،ص:۱۸۱)
٭
۲۰۰۱ء میں مجھ سے فرمائش کی گئی کہ میں ساہتیہ اکیڈمی کے معیار کے مطابق مولانا عبدالسلام ندوی پر ایک کتاب لکھوں۔ میں نے اس بات کو اپنی سعادت سمجھا کہ میں مولانا عبدالسلام ندوی کی شخصیت اور کارناموں کو ان افراد تک پہنچائوں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔ بہرحال ۲۰۰۱ء میں میری کتاب ’’مولانا عبدالسلام ندوی‘‘ کے عنوان سے ساہتیہ اکیڈمی نے شائع کردی۔ (عبدالسلام ندوی ایک مطالعہ،کبیر احمد جائسی ص:۱۴)
کبیر احمد جائسی کی ان تحریروں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی پوری زندگی علم و داب کے سرگرم مجاہدہ میں گزری ۔دنیا اور اہل دنیا کے سرد و گرم حالات کا انھیں نہ صرف تجربہ تھا بلکہ سخت کوشی اور حالات کی ستم ظریفیوں نے انھیں کسی قدر تند مزاج بھی بنادیا تھا مگر ان سب کے باوجود علم و ادب سے پوری زندگی سرگرم تعلق قابل رشک بھی ہے اور قابل قدر بھی ۔دوسروں پر اس فراخدلی سے لکھنے والے اب کہا ںملتے ہیں ۔
کتابیات:
رقص شرر،پروفیسر ملک زادہ منظور احمد ،لکھنؤ ۲۰۰۴ء
سفر نصیب،مختار مسعود،لاہور ۱۹۹۵ء
عبدالسلام ندوی ایک مطالعہ،کبیر احمد جائسی ،ممبئی ۲۰۱۳ء
نقوش جاوداں ،پروفیسر کبیر احمد جائسی ۔ڈاکٹر شباب الدین(تقدیم و ترتیب)اعظم گڑھ مارچ ۲۰۱۳ء
عمیر منظر
اسسٹنٹ پروفیسر
شعبۂ اردو،مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی ۔لکھنؤ کیمپس
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page