طویل عرصہ اور غیر یقینی دور کے بعد آج ملک آزاد ہونے جا رہا ہے ۔ ایسا لگ رہا ہے پوری فضا کو کسی غیبی طاقت نے خوشگوار بنا دیا ہے۔کیوں نہ ایسے میں دھننامل کی کو ٹھی پر جگہ جگہ ترنگا لہرا یا جائے؟سلک اور ململ کے بجائے کیوں نہ وہ کھدر کا کرتا پہنیں؟ ابھی ہی انہوں نے کانگریس کو بھاری رقم ڈونیٹ کی ہے ۔تقریبا سبھی اخباروں میں یہ خبر نما یاں طور پر چھپی تھی۔
میرا یہ بیانیہ شاید طنز آمیز ہو۔ مگر یقین مانیے یہ میراقصور نہیں۔میرا طرز نوشت ہی ایسا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ملک کے کاموں کے تئیںسیٹھ جی جتنا آگے آگے ہو تے ہیں اتنا شاید ہی کوئی اور ہو تا ہے۔کم از کم مشہور تجارتی شہر کے اس نامور محلے میں تو اور کوئی ایسا نہیں ہے۔
ان دنوں سیٹھ جی بڑے کھلے کھلے سے رہتے ہیں۔مانو انکے اندر کچھ مچل رہا ہے۔ایسا لگتا ہے دیش کی ساری غلامی کا بوجھ انہی پر آپڑا تھا ۔اور اب وہ ان سے نجات پانے جارہے ہیں۔
ـ ـ ـ ـ’’ـــارے بھئی پندرہ اگست آرہا ہے ۔۔۔ تیاری ہو رہی ہے نا۔۔۔۔۔؟ ‘‘
کئی اشراف کے درمیان ۔۔ ۔کووں کے بیچ ہنس کی مصداق سیٹھ جی کو اپنی برتریت کا احساس ہو رہا تھا ۔ پندرہ اگست کو کیا کیا کرنا ہے،اس کی فہرست بھی بنا لی ہے انہوں نے۔ چونکہ موقع بہت خاص ہے اوروہ محلہ کی ناک بھی ہیں اس لئے وہ تھوڑے فکر مند بھی ہو رہے تھے۔فخر سے ان کی گردن پھولی جا رہی تھی۔کاغزوں تلے دبے منیم جی سے بولے، ’’منیم جی قمقمے وغیرہ تو لے ہی آئے ہو نگے۔۔۔ دیکھو مکان وغیرہ سب کی سفیدی ہوگی۔۔انتظام کر لینا۔۔یہ بھی سہی۔۔دیش کی آزادی کے نام پر!‘‘ سیٹھ جی بولتے بولتے اچانک اپنی بات پر ہنس پڑے۔ پھر انہوں نے مڑ کر وہاں بیٹھے لوگوں کی جانب دیکھا۔ان کی بات کا ان پر کیا اثر پڑا اس کا جائزہ لینا چاہتے تھے وہ۔سبھی کے چہرے پر تعریف منھ بائے بیٹھی تھی۔مگر کسی نے کچھ بولا نہیں۔سیٹھ جی نے سبھی کوا پنی طرف مخاطب کیا۔ خود کو دانشور خیال کرتے ہوے فرمایا،’’حقیقت میں ہمیںاس آزادی کے لئے بہت قربانیاں دینی پڑی ہیں۔ہماری ایسی ایسی شخصیتیں جو صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں،سب قربان ہو گئیں۔نیتا جی کو تم کیا سمجھتے ہو۔۔۔۔؟ایسا بہادر کبھی ہوا ہے دنیا میں۔۔۔۔۔اب جب ہم آزاد ہونے جا رہے ہیں، تو کیا ہم اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ آزادی کی دیوی کا کھل کر خیر مقدم کریں۔‘‘
’’ٹھیک کہتے ہیں سیٹھ جی آپ! اتنے بڑے دن کو عام دنوں کی طرح گزار دینا حماقت ہے۔عقل کا دیوالیہ پن ہے یہ۔ـ‘‘مقامی صحافی شیاما چرن کا شاید نشنلزم جاگ اٹھا تھا۔
سیٹھ جی مچل اٹھے۔یکایک منیم جی سے بولے۔’’منیم جی چودہ ،پندرہ اور سولہ اگست کو لگاتار شربت کی پیاوٗ لگے گی۔۔۔اچھاسنو۔۔۔۔ ۔۔ چینی کے بورے منگوا لینا۔۔۔۔۔ـ‘‘پھر انہوں نے موجود لوگوں کی طرف نظر دوڑائی۔خاص کر کانگریس کے ایک بڑے کارکن،جو اپنے نام سے زیادہ نیتا جی کے نام سے مشہور تھے ،کی طرف نگاہ کر کے بو لے۔’’کیوں نیتا جی!بیس بورے ٹھیک رہینگے نا؟ دیکھو منیم جی ، پی۔آر ۔او۔ کے پاس تمہیں چلے جائو۔۔ایساشبھ اوسر بار بار نہیں آتا۔‘‘
سیٹھ جی نے نیتا جی کے سامنے ہاتھ جوڑ دیا۔’’نیتا جی میں اپنی کار بھیج دونگا۔ذرا چلے جائیے۔جیسے بھی ہو یہ چینی آپ دلوا دیجئے۔بڑی مہربانی ہوگی۔اس طرح کے کاموں کے لئے چینی دینے کا آرڈر ہے۔ مگر یہ سالے بڑے چکر کٹواتے ہیں۔کبھی کہتے ہیں کل آنا،کبھی کہتے ہیں پرسو!نیتا جی! سچ بات تو یہ ہے کہ یہ کام جتنی لگن سے کیا جائے گااتنا ہی سود مند ثابت ہوگا۔‘‘
اپنی بات کو انہوں نے اور زور دیکر دہرا یا۔
’’سود مند ہوگا نیتا جی!دنیا اور آخرت دونوں میں۔‘‘
نیتا جی کی آنکھوں میں آنسوں بھر آئے۔انکے چہرے کی لکیروں سے الفاظ پھسل رہے تھے۔ــ’’آپ مہان ہیں! آپ جیسوں کی مہربانی ہی ہے جو یہ دن دیکھنے کو مل رہا ہے!‘‘ انہوں نے حامی بھرتے ہوے کہا،’’ ضرور ،ضرور! ایسا موقع بار بار اور آسانی سے نہیں آتا۔‘‘
تبھی گزرے ہوے دن کے کچھ سنسنی خیز امتحانوں کی تصویریںانکے آنکھوں تلے سے چمک کر غائب ہوگئیں۔ ’’وہ کانگریس کا لومہر شک ابھیان! ــ‘‘ انہوں نے ایک لمبی سانس لی۔
صحافی شیاما چرن بیما اجنٹ منوہر لال سے بولے۔ـ’’لکشمی اور سرسوتی کا ایسا سنیوگ درلبھ ہے۔‘‘
سیٹھ جی کے ہاتھ ابھی تک نیتا جی کے لئے جڑے ہی ہوے تھے۔انہوں نے اسے ذرا اوپر کر کے پورے خشوع و خضوع کے ساتھ اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ اور بد بدانے لگے۔’’اس چولے سے جتناپنیہ بھی بن جائے سب اسی ایک پربھو کی ما یا ہے۔ ‘‘
مانو خدا کی رحمت کا نزول ان پر فورا ًہوا ہو۔ایسا لگا اب وہ رو پڑینگیں۔
ـ’’آہ! دیش آزاد ہوگا۔‘‘
پھر ایک جھٹکے میں شاید ہوش آگیا۔منیم جی سے پوچھنے لگے،
’’ہاں منیم جی! ذرا چلے جائو نیتا جی کے ساتھ! اور سنو،مٹرو سے ذرا شربت اور پان کے لئے کہہ دو۔‘‘
جزبہ، لگن ،جوش سب جیسے برس رہے تھے ان پر۔
سیٹھ جی نے ادھر ادھر دیکھا ۔کمرے میں کو ئی نہیں تھا۔وہ اپنی مسند کا سہارا لیکر سر پر ہاتھ رکھتے ہوے گویا ہوے،
ـ’’کیوں منیم جی، ایک بورا چینی کتنے کا ہے؟‘‘
’’ساٹھ روپے‘‘
منیم جی نے بتا یا۔
سیٹھ جی نے فو راً حساب لگا نا شروع کر دیا۔
’’ ساٹھ کا ایک بورا تو بیس بورے۔۔۔۔۔۔؟ بارہ سو ۔۔۔۔۔۔ ایک ہزار۔۔۔۔۔۔۔۔ دو سو،۔۔۔۔۔ہوں!‘‘
سیٹھ دھننامل فکر کے کنویں میں غوطہ لگانے لگے۔ پھر اچانک منیم جی کی طرف دیکھ کر داہنی آنکھ مارتے ہوے بولے،
’’اور بازار میں کیا بھائو ہے؟‘‘
منیم جی ’بازار کا بھائو ‘ سمجھ گئے۔ انہوں نے بولا،
’’ ٹھیک نہیں معلوم۔ ویسے اندازہ ہے ۔۔۔۔۔ ایک سو ساٹھ ہو گا۔‘‘
’’ایک۔۔۔سو۔۔۔ساٹھ! ‘‘
سیٹھ جی نے ایک ایک لفظ کو زور دیکر دہرا یا۔ پھر ہونٹوں کو دبا کر ہلکی سی آواز نکا لی،
’’ہوں۔‘‘
تھوڑی دیر سوچنے کے بعد سیٹھ جی نے فیصلہ کن لہجے میںبڑے میٹھے انداز سے کہا،
’’منیم جی دس بورے نکل وا دو بازار میں!باقی بچے دس۔۔تو دس بوروں میں سے پانچ گھر کے خرچ کے لئے اندر بھجوا دو۔ اور پھر پانچ بورے میں سے جتنا چاہو خرچ کر دو! کیوں ٹھیک ہے نا؟ بے کار اتنی چینی خراب کر کے ہو گا کیا؟ پھر تم جانتے ہی ہو چیز ملتی نہیں ہے آج کل! پانچ بوری گھر اس لئے کہ وقت بے وقت کام ہی آئے گی! تم جانتے ہو، گھر گر ہستی ہے، بیس کام ہیں۔پیسہ لئے پھرو پھر بھی چیز نہیں ملتی۔اور یہ چینی تو امرت ہے امرت! تپسیا کرنی پڑے اس سے تو بہتر ہے۔ کیوں ٹھیک ہے نا؟ ‘‘
سیٹھ جی نے اپنے ہاتھوں کے اشارے اور باتوں سے منیم جی کے دماغ میں ساری باتیں ڈال دینے کی پوری کوشش کی۔
’’جی بالکل ٹھیک ہے!‘‘
منیم جی نے سر ہلایا۔کھاتے پر دوڑتی قلم ٹھہر گئی تھی۔
’’اور ہاں ایک کام اورکرنا منیم جی! کینوڑے کی شیشی لے آنا۔ شربت میں ڈالنے کے لئے۔پانچ چھ لانا،زیادہ نہیں۔ اور دیکھو شربت ذرا اپنی دیکھ ریکھ میں بنوانا۔ زیادہ میٹھا بھی نہ ہو جائے۔ برف کی سیلوں کے لئے کہہ دیا۔۔۔۔؟‘‘
منیم جی نے پھر ہاں کہتے ہوے سر ہلا دیا۔
سیٹھ جی نے چودہ اگست کو ہی اپنی کوٹھی کے دونوں طرف شربت کے پیائو لگوادیے۔لائوڈ اسپیکر وغیرہ لگنے لگے۔پرانے ترنگوں کو ہٹا کر نئے ترنگے لگا دئے گئے۔ پندرہ اگست کو بینڈ بلانے کا انتظام تھا۔شامیانے بھی لگائے گئے۔یہ سب دیکھ کر لو گوں کو سیٹھ جی کی لڑکی کی شادی کے مناظر یاد آنے لگے۔ آزادی کی دیوی کی آمد پر جیسی سچی خوشی ا نہیں ہو رہی تھی اور جس جوش سے وہ اس کا اظہار کر رہے تھے،اس کے سامنے سب لوگ جزباتی ہوے جا رہے تھے۔ مقامی اخباروں کے اونینگ ایڈیشن میںسیٹھ جی کی سخاوت پر تین تین کالم رنگے گئے۔
ایک اخبار تویہ سوچ رہا ہے کہ آزادی اسپیشل پیج پر ایک مضمون بہ عنوان ’آزادی کی لڑائی اور سیٹھ دھننا مل کا تعاون‘ شائع کرے۔ انکی تصویر و ںکی ہورڈینگس شہروں میں جلد لگا ئی جائینگی۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page