ظفر احمد صدیقی’عکس ونقش‘: ایک مطالعہ – محمداویس سنبھلی
رابطہ:7905636448
ڈاکٹر مشیر احمد تحقیقی مزاج کے حامل ایک سنجیدہ ذہن اور کم گو شخصیت کے مالک ہیں، جن کی تعلیم وتربیت اور علمی پرورش علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی فضا میں پروفیسر ظفر احمد صدیقی جیسے متین، مشفق، محقق و مدون، دانشور کی نگرانی میں ہوئی، اور’’خطوط غالب کے ادبی مباحث کا تنقیدی جائزہ‘‘کے موضوع پر مقالہ لکھ کر 2006ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، اسی کتاب نے ادبی ذوق رکھنے والوں کے درمیان ڈاکٹر مشیر احمد کو شناخت عطا کی، جس کی داد انہوں نے شمس الرحمن فاروقی سے بھی وصول کی۔کلیات شبنم گورکھپوری (2014ء) اور تنقیدی تاثرات (2023ء) کی اشاعت کے بعد ان کی تازہ ترین کتاب ’’ظفر احمد صدیقی: عکس ونقش‘‘ منظر عام پر آئی ہے۔پروفیسر ظفر احمد صدیقی کی وفات کے بعد ان پر یہ پہلا باقاعدہ کام ہے جو کتابی شکل میں منظر عام پر آیا، چونکہ مشیر صاحب ان کے شاگرد خاص رہے ہیں لہٰذا یہ ذمہ داری بھی انہیں کی تھی جس کو اپنی محنت سے انہوں نے بخوبی انجام دیا ہے۔
پروفیسر ظفر احمد صدیقی کی شخصیت علمی، ادبی نیز مذہبی حلقوں میں یکساں اہمیت کی حامل تھی، تحقیق وتنقید کے ساتھ تدوین متن، کلاسیکی متون پر غائز نظر اور اسلامیات میں ید طولی رکھتے تھے اور ایک منکسر المزاج انسان اور اچھے معلم تھے، مزید یہ کہ ادبی حلقوں میں فارسی اور عربی زبان وادب کے سلسلہ میں مرجع کی حیثیت کے حامل تھے، جس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ شمس الرحمن فاروقی اور رشید حسن خان جیسے ناقد ومحقق اپنے ادبی اور علمی مرتبہ کے باوجود بعض معاملات میں پروفیسر صاحب سے مراجعت کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے جس کا ہمیں کتاب کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے۔
ظفر احمد صدیقی صاحب کی پیدائش 1955ء میں قصبہ گھوسی ضلع مئو کے ایک نامور علمی خانوادہ میں ہوئی، ابتدائی اور ثانوی تعلیم مدرسہ میں حاصل کی اور آپ کی تربیت اور مزاج میں ہندوستان کے دو اہم بڑے مدارس مظاہر العلوم، سہارنپور اور دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کا خاص کردار ہے، جس نے آگے چل کر عربی اور فارسی کے حوالے سے انہیں ایک منفرد شناخت عطا کی، بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے بی اے، ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور بحیثیت لیکچرر درس وتدریس کی ابتداء بھی یہیں سے ہوئی۔1998 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں ریڈر کے طور پر تقرر ہوا، 2005ء میں پروفیسر شپ حاصل کی اور پھر صدر شعبۂ اردو کے عہدہ پر بھی فائز رہے۔ ظفر صاحب نے کم وبیش 40 ؍سال تدریسی خدمات انجام دیں اور اپنے تحقیقی وتدوینی مقالات وتصنیفات سے صلاحیت وقابلیت کا لوہا منوایا۔’’علامہ شبلی کی علمی وادبی خدمات‘‘،’’قصیدہ: اصل، ہیئت اور حدود‘‘اور’’شرح دیوان اردوئے غالب‘‘ (سید حیدر علی نظم طباطبائی) ان کی بے انتہا مقبولیت حاصل کرنے والی کتابوں میں شمار ہوتی ہیں۔ شبلی اور غالب سے متعلق ان کے مضامین ومقالات اور سینکڑوں تحریریں ہند وپاک کے مختلف ادبی رسائل میں شائع ہوچکی ہیں۔ تحقیق وتدوین کے دشوار گزار میدان میں ان کی دیانت داری اور کوشش سے متعلق (شرح دیوان اردوئے غالب کے پیش لفظ میں) پروفیسر خالد محمود رقم طراز ہیں:
’’پروفیسر ظفر احمد صدیقی ایک دقیقہ سنج محقق، مشفق استاد اور منکسر المزاج انسان ہیں۔ ان سے مل کر علمی انکسار کے معنی منکشف ہوتے ہیں۔ تحقیق کے خارزار میں جس ریاضت اور استقامت کی ضرورت ہے وہ اس سے بخوبی واقف ہیں اور اس پر عمل پیرا رہتے ہیں۔ انھوں نے جس موضوع پر قلم اٹھایا ہے اس کا حق ادا کرنے کی دیانت دارانہ کوشش کی ہے۔ ان کا انداز بیان واضح، مدلل اور عالمانہ ہے۔ نرم روی اور شائستہ بیانی ان کی نثر کے خاص جوہر ہیں۔ ادب کے دقیق اور پیچیدہ مسائل بھی ان کی دلیلوں سے پانی ہو جاتے ہیں۔‘‘
زیر نظر کتاب ایک طویل مقدمہ کے علاوہ چار حصوں پر مشتمل ہے،’’عکس‘‘ کے ضمن میں مولانا سید رابع حسنی ندوی، پروفیسر قاضی افضال حسین، قاضی جمال حسین اور افراد خاندان کی تاثراتی، سوانحی اور شخصی نوعیت کی گیارہ تحریریں شامل کی گئی ہیں جن سے مذہبی حلقوں میں ان کی مقبولیت، طریقۂ تدریس اور اسلامیات میں ان کی دسترس کا پتا چلتا ہے، دیگر تحریریں ان کی اخلاقی بلندی، انکساری، گھریلو زندگی اور اعزہ واقارب کے مابین ان کی انفرادیت کو پیش کرتی ہیں۔ ڈاکٹر عبدالرزاق کا ظفر صدیقی کی نگرانی میں ہی تیار کردہ ان کا ’’شناس نامہ‘‘کئی اعتبار سے اہم ہے، اول تو یہ کہ ظفر صاحب کے سوانحی کوائف کے ساتھ تمام ضروری معلومات ایک جگہ جمع ہوگئی ہیں، دوسرے یہ کہ مختلف اداروں میں ہونے والے ان کے لیکچرز، خطبوں کے موضوعات، سو سے زائد قومی اور بین الاقوامی سمیناروں میں ان کی شرکت اور دو سو کے قریب مضامین ومقالات کا اشاریہ اہمیت میں اضافہ کرتا ہے جو ظفر صاحب پر کام کرنے والوں کے لئے نہایت معاون ثابت ہوگا۔
واضح رہے کہ پروفیسر ظفر احمد صدیقی کے انتقال پر سہ ماہی ’کاوش‘ شاہجہانپور(جلد:6؍شمارہ 19،اپریل تا جون، 2021) نے 72؍صفحات پر مشتمل ایک خصوصی گوشہ شائع کیا تھا۔ظفر صاحب کے انتقال پر کسی رسالہ کی طرف سے ان کی شخصیت اور خدمات پر یہ پہلا بھرپور گوشہ تھا ، جس کی سعادت رسالہ سہ ماہی ’کاوش‘ کو حاصل ہوئی۔اس گوشہ میںظفر احمد صدیقی کی اہلیہ ، گھر کے بعض افراداور ان کے سوانح و آثار نیز علمی ، ادبی و تحقیقی خدمات پرڈاکٹر رئوف خیر، حکیم وسیم احمد اعظمی، ڈاکٹر محمد الیاس اعظمی، ڈاکٹر عمیر منظر، ڈاکٹر شاہنواز فیاض، ڈاکٹر ابراہیم افسر، ڈاکٹر عقیل احمد، ڈاکٹر دائود احمداور جناب محمدعشرت صغیر کے مضامین شامل تھے۔ ڈاکٹرعبدالرزاق کا تیار کردہ شناس نامہ بھی اس میں شامل تھا۔
ڈاکٹر مشیر احمد نے اپنی کتاب کے دوسرے حصے’’ نقش ‘‘میں اردو کے کئی اہم ناقدین اور سرکردہ شخصیات کے مضامین کو جگہ دی ہے، جس میں شمس الرحمن فاروقی، پروفیسر عراق رضا زیدی، پروفیسر احمد محفوظ، پروفیسر ظفر الاسلام اصلاحی اور ڈاکٹر محمداکرم کی تحریریں شامل ہیں، کل مضامین کی تعداد انیس (19) ہے، جن کی نوعیت علمی، ادبی، فنی، تنقیدی اور تجزیاتی ہے۔ ان تحریروں کے مطالعہ سے پروفیسر ظفر احمد صدیقی کا علمی مقام ومرتبے، ان کے تحقیقی مزاج، تنقیدی پرکھ اور علمی سنجیدگی کا علم ہوتا ہے۔ اگلے حصہ میں مرتب کتاب نے پروفیسر ظفر صاحب کے پانچ منتخب نمائندہ علمی، ادبی، مذہبی اور تنقیدی و تحقیقی مضامین کو کتاب کا حصہ بنایا ہے اورآخر میں پروفیسر ظفر احمد صدیقی کی تحریر کا عکس بھی شامل ہے۔
زیر تبصرہ کتاب ’’ظفر احمد صدیقی: عکس ونقش‘‘ میں ڈاکٹر مشیر احمد نے ایک مفصل مقدمہ تحریر کیا ہے، جس میں ان کے خاندان، تعلیم وتربیت، سلسلۂ ملازمت، اور علمی وادبی سرگرمیوں کے بھرپور بیان کے ساتھ زندگی کے تمام گوشوں کا احاطہ کیاہے، نیز ان کی جملہ تصانیف کا سرسری جائزہ پیش کیا ہے۔’قصیدے کی تدریس‘‘ اور ’’ظفر احمد صدیقی بہ حیثیت غالب شناس‘‘ کے ذیلی عنوان سے ڈاکٹر مشیر احمد نے ان کے تنقیدی نظریات پر سیرحاصل گفتگو کی ہے، قصیدہ کے فنی مسائل، رموز ونکات،نصرتی، سودا، غالب، ذوق اور محسن کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شاملِ نصاب پانچوں قصائد کے طریقۂ تدریس سے متعلق ظفر صاحب کی مہارت پر مثالوں کے ساتھ طویل کلام کیا ہے نیز غالب ونسخہ حمیدیہ پر ظفر احمد صدیقی کے نکات اور تصحیح وتمحیص پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
پروفیسر ظفر احمد صدیقی کو اردو کے علاوہ عربی وفارسی کے کلاسیکی ادبیات سے خاص شغف تھا، مذہبی علوم اور اسلامیات پر ان کی گہری نگاہ تھی۔ قیام بنارس کے دوران ایک زمانہ تک جامعہ اسلامیہ ریوڑی تالاب میں رضاکارانہ طور پر حدیث کی مشہور کتاب مسلم شریف کا درس دیتے رہے۔ شبلیات ان کے مطالعہ کا خاص موضوع تھا اور اس پر انھیں درسترس حاصل تھی۔ شبلی سے متعلق ان کی بہت سی چیزیں انکشاف اور نئی تحقیق کا درجہ رکھتی ہیں۔ تحقیق وتدوین کے حوالہ سے ہی’ شرح دیوان اردوئے غالب کی تدوین اور نسخہ حمیدیہ کی بازیافت‘ پر ظفر احمد صدیقی کا مضمون نہایت اہم ہے۔ اپنے ایسے ہی کارہائے نمایاں کے سبب ظفر صاحب علمی، ادبی اور تحقیقی دنیا میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ امید ہے ڈاکٹر مشیر احمد صدیقی کی یہ تازہ کتاب اہل علم وادب اور پروفیسر ظفر احمد صدیقی کے چاہنے والوں کے درمیان پسندیدگی کی نظر دیکھی جائے گی اور ان پر تحقیقی کام کرنے والے افراد کے لئے نہایت معاون ثابت ہوگی۔
کتاب 470؍صفحات پر مشتمل ہے ، اسے مرکزی پبلی کیشنز ، جامعہ نگر، نئی دہلی نے شائع کیا ہے۔ مرتب کتاب ڈاکٹر مشیر احمدسے فون نمبر9560786298پر رابطہ کرکے اسے طلب کیا جاسکتا ہے۔
٭٭٭
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page