محسن خالد محسنؔ
(شعبہ اردو)گورنمنٹ شاہ حسین ایسوسی ایٹ کالج،لاہور
انسان بھی عجب شے ہے۔ جب سے پیدا ہوا ہے تب سے اس نے اپنے لیے مسائل پیدا کر رکھے ہیں۔ اس دُنیا سے اس کی مانوسیت ہنوز تشنہ تکمیل کے مراحل میں ہیں۔ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے والا معاملہ اس کی ذات سے شروع ہو کر تخلیقی گلستان تک پہنچتا ہے جہاں قسم قسم کے سیکڑوں نباتات اپنے احیا کے لیے باغباں کے منتظر ہیں ۔
یہ باغباں بھی عجب ہے اسے ان نباتات کی تراش خراش اور پرداخت کا وقت ہی نہیں ملتا۔ ذات و پات،رنگ و نسل، تمیز و افتراق اور نا جانے کیا کچھ اس ذہن میں بیک وقت گردش کیے رہتا ہے اور اس گھمبیر صورتحال میں اس کا تخلیقی گلستان بُری طرح متاثر ہوتا ہے اور پھوٹتے ہوئے سَوتے سوکھنے اور مرجھانے لگتے ہیں۔
انسان نے جب سے اس زمین پر قدم رکھا ہے تب سے اسے سنوارنے اور موزوں بنانے کی سعی کر رہا ہے اور یہ عمل ہزاروں برس سے یونہی تسلسل سے کارفرما ہے ۔انسان نے اپنے لیے ہر طرح کی آسائش اور سہولت کی خواہش کی ہے اور اسے حاصل کرنے کے لیے تن،من اور دھن کو کام میں لایا ہے۔
انسان اکیلا،تنہا اور بے سہارا نہیں رہ سکتا تھا۔ اس نے اپنے جیسے انسانوں کو جمع کیا۔ بستیاں آباد کیں اور بستیوں سے ملک آباد ہوتے پھیلتے چلے گئے اور اب یہ عالم ہے کہ انسان اس کرۂ ارض پر تعداد کے اعتبار سے سب سے بڑی جاندار مخلوق بن چکے ہیں اور ان کی تعداد آٹھ ارب سے متجاوز کر چکی ہے۔
انسانوں کے اس انبوہ نے اپنے جذبات و احساسات کے لیے پہلے پہل علامتوں،اشاروں سے کام لیا۔رفتہ رفتہ الفاظ تراشے اور ان الفاظ سے ہزاروں مختلف زبانیں وجود میں آئیں جن کے ذریعے سے انسان ایک دوسرے سے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کرتے ہیں اور لین دین اور جمہ افعالِ زیست کے امور انجام دیتے ہیں۔
انسان نے اپنے علاوہ دیگر انسانوں سے متصل جذبات ،احساسات،خیالات اور افکار کو سمجھنے کے لیے زبان کو بطور اظہار استعمال کیا۔ اظہارِ ذات کا یہ عمل پہلے قولی بعد ازاں تحریری صورت اختیار کرتے کرتے "ادب” کی اصطلاح میں اس قدر وسعت اور عالمگیریت کا مظہر بن گیا کہ آٹھ ارب انسانوں کے انبوہ نے ہزاروں زبانوں میں اپنے جملہ جذبات و احساسات اورا فکارِ زیست کو تحریری انداز میں رقم کر ڈالا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
ادب کسی بھی زبان سے تعلق رکھتا ہو ؛اس کی غرض و غائیت خواہ کچھ بھی ہو؛اس کی اہمیت اور جواز اس میں لکھا جانے والا وہ تحریری سرمایہ ہے جسے ہم "تخلیقی ادب” سے منسوب کرتے ہیں۔ ادب میں نثری ادب اور نظمیہ ادب کی اصطلاحیں رائج ہوئیں اور ان کے وسیلے سے انسانوں نے خوابوں،خواہشوں ،آرزؤں اور جملہ افکارِ زیست کے طلسمات کو داستان،ڈراما، ناول،افسانہ کی صورت پیش کرکے دُنیا بھر میں پھیلے انسانوں کو یکجائی اور اجتماعیت عطا کی ۔
نثری اد ب میں سب سے پہلے داستان کا آغاز ہوا جس کا زوال ڈراما کے ساتھ شروع ہوا اور ڈراما کے متوازی ناول نے مغرب سے مشرقی دریچوں میں جھانکی لگائی اور یہی کا ہو رہا اور بعدازاں اپنی کوکھ سے افسانہ نویسی کی تخلیق کی۔ ان نثری اصناف میں صدیوں سے لکھا جا رہا ہے جسے پڑھنے والے کڑروں کی تعداد میں ہے ۔
اُردو افسانہ نویسی کا آغاز یوں تو اٹھارھویں صدی کے اواخر میں ہو گیا تھا ،تاہم اس صنف کو باقاعدہ منظر ِ عام پر آنے کے لیے اُنیسویں صدی کا منہ دیکھنا پڑا۔ برصغیر میں انگریزی عمل داری نے داستان اور ڈراما کے متوازی ناول اور افسانہ کی راہ ہموار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
سجاد حیدر یلدرم اور پریم چند کو اس صنف کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ کسی بھی زبان کے ادب میں مَرد لکھاریوں کو ہمیشہ سے اولیت ملتی رہی ہے اور یہ تاثر آج بھی پوری شدت کے ساتھ اُردو ادب میں جاری ہے۔ خواتین لکھاریوں کو برصغیر میں پہلے پہل توسِرے سے قبول ہی نہیں کیا گیا ۔
برصغیر کا معاملہ بھی عجب ہے۔ یہاں عورت کو عورت ہونے پر شرمساری رہی ہے۔ عورت کے وجود کو تسلیم کرنے سے یہ برصغیری معاشرہ صدیوں حیل و حجت کرتا تاہم انگریزی عمل داری نے اس تاثر اور ردعمل کے حصار کو کافی حد تک توڑنے میں اہم کردار ادا کیا اور عورت کو بطور انسان تسلیم کرنے اور اس کے حقوق کی فراہمی کے لیے عملی کوشش کی ۔
انگریزی بلاشبہ برصغیر میں اپنے مفادات کے لیے حکومت کر رہے تھے اس کے باوجود ان کے ہاں انسانیت کا احساس کچھ زیادہ فراواں محسوس ہوتا ہے۔ کلونل سسٹم اور اس سے متصل نظامِ ہائے زیست کے جملہ عناصر اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ انگریزی عمل داری کے دوران اُردو زبان اور ادب نے اپنی جڑوں کو مضبوط کیا اور یہ زبان دیگر متوازی اور تقابلی زبانوں کے حصار سے خود کو آزاد کرنے اور ہر طرح کے خیالات وافکار کی ترجمانی کرنے کے قابل ہو گئی تھی۔ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی لکھتے ہیں:
"ایک بڑا اہم سوال یہ ہے کہ افسانہ نگار خواتین اپنی معاصر خواتین تبصرہ نقادوں کی آراء کو مَردوں کی آراء کے مقابلے میں کم تر اور غیر اہم کیوں گردانتی ہیں؟وہ اب بھی مَردوں کی طرف تحسین آمیز نظروں سے دیکھتی ہیں اور انھیں کی آراء کو نسبتاً معتبر خیال کرتی ہیں؟یہ اور اس طرح کے بہت سے سوالات ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خواتین فکشن نگاروں اور ادیبوں کے تانثینی احتجاج و مزاحمت کو معنویت حاصل ہو سکے”۔(۱)
اُردو افسانہ نگاری میں مَرد افسانہ نگاروں کی ایک طویل فہرست ہے جبکہ خواتین کی تعداد گنی چنی سی ہے۔ خواتین لکھاریوں کی لکھت کو اوائل میں مدتوں نظر انداز کیا جاتا رہا بعدازاں کسی حد تک قبول کیا مگر سراہا نہیں گیا۔ خواتین لکھاریوں نے حوصلہ نہیں ہارا۔ اپنی شناخت کے عمل کی سعی کو تسلسل سے جاری رکھا ۔
اُردو افسانہ نگاری میں دبنگ انداز میں پہلی انٹری کرنے والے مضبوط اعصاب کی حامل خاتون ” ڈاکٹر رشیدہ جہاں” ہیں ۔انھوں نے اپنے افسانوں میں قدامت پسندی کی زنجیروں کو توڑ ڈالا اور اس کے کھوکھلے قلعے پر ایسی زور دار چوٹ داغی کہ یہ پاش پاش ہو کر رہ گیا۔ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی لکھتے ہیں:
"یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ "انگارے” کی کہانیوں میں سب سے زیادہ گہرا طنز اور قدامت پسندی کے خلاف براہ راست ضرب اگر کہیں لگائی ہے تو وہ رشیدہ جہاں کے افسانے تھے جن میں کوئی قابلِ اعتراض بات نہ ہونے کے باوجود ان پر جملے کسے گئے اور ان کی زندگی اجیرن کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی گئی۔۔۔ہندوستان میں پہلی مرتبہ اُردو میں کسی خاتون نے ان موضوعات پر اظہارخیال جن پر لفظ تک کہنا گردن مارے جانے کے مترادف تھا”۔(۲)
ڈاکٹر رشید جہاں کے بعد عصمت چغتائی نے احتجاج اور مزاحمت کے تحسین آمیز نمونے چھوڑے جس سے خواتین افسانہ نگاروں کا حوصلہ بڑھا اور انھوں نے ممنوعہ گردانے جانے والے موضوعات پر اس قدر کُھل کر لکھا کہ مَرد دانتوں میں اُنگلیاں دینے پر مجبور ہو گئے۔ ڈاکٹر رشید جہاں اور عصمت چغتائی کے تراشے ہوئے راستے پر بعد کو ہاجرہ مسرور،خدیجہ مستور،جمیلہ ہاشمی،جیلانی بانو، واجدہ تبسم،بانو قدریہ اور زاہدہ حنا نے کامیابی سے سفر جاری رکھا ۔ مذکور خواتین افسانہ نگاروں نے اپنی افسانوی تخلیقات سے برصغیر کے سماجی کی کھوکھلی معاشرت، حاسدانہ منافقت،عیب دار چلن اور دوہری روشِ حیات پر چوٹ دار ضربیں کیں اور ہر طرح کے منفی ردعملِ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اُردو افسانہ کی صنف کو خواتین کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ بنا ڈالا۔آسیہ نازلی لکھتی ہیں:
"اُردو افسانے کو خواتین نے جو وسعت اور کشادگی عطا کی ہے اور جن انسانی تجربات سے متصل کیا ہے وہ اُردو ادب کا لازوال ادبی سرمایہ ہے۔ اسالیب کے تنوع کو تجربات کے اژدہام سے مغلوب ہونے سے نہ صرف بچایا بلکہ نسائی جذبات کی ترجمانی کا قابلِ ستائش کینوس تخلیق کیا جس پر رنگا رنگگل بوٹے کلکاریاں کرتے ہونٹوں کو متبسم اور روح کو گدا ز کیے جاتے ہیں۔خواتین افسانہ نگاروں کی تخلیقات نے اُردو افسانہ نگاری کی صنف کو تانثیت کے خلا سے بھر دیا ہے”۔(۳)
اُردو افسانے کی ایک اتنہائی معتبر اور جاندار آواز زاہدہ حنا ہیں۔ زاہدہ حنامحض ایک لکھاری نہیں ہیں بلکہ ایک بہت بڑی اور ناقابلِ فراموش لکھاری ہیں جنھوں نے اپنے تخلیقی جودت سے ایسی شمع جلائی ہے جس سے صدیوں کی تاریکی کو منہ چھپانے کے لیے جگہ نہیں مل رہی۔ زاہدہ حنا ایک وسیع الذہن اورناقابلِ مفتوح حساس خواتین افسانہ نگار ہیں جنھوں نے افسانہ کے علاوہ،ناول بھی لکھے اور کالم نگاری کاحق بھی خوب ادا کیا ہے۔
زاہدہ حنا کا ذہنی منظر تخلیقی اور ادبی تسلسل کی روایت سے متصل گھرانے سے متعلق ہے۔ ان کے دادا مرزا عبدالستار بیگ ایک صوفی مشرب انسان تھے جنھوں نے تصور، تاریخ اور مذہب پر بہت عمدہ لکھا ۔زاہدہ حنا کا خاندان ایک پڑھا لکھا خاندان تھا جہاں وراثت اور جہیز تک تعلیم و تربیت کی صورت دیا جاتا تھا۔ ان کے والد نے ملک اور انسانوں کی آزادی کے لیے اپنی جان کو نثار کرنا گوارا کر لیا تھا لیکن جھکنا اور سمجھوتہ کرنا گوارا نہ تھا۔
زاہدہ حنا کا اصل نام "زاہدہ ابو الخیر” تھا۔آپ1946میں ہندوستانی ریاست کے شہر”سسرام” میں پیدا ہوئیں۔ابتدائی تعلیم” سسرام "سے حاصل کی بعدازاں پورا خاندان کراچی منتقل ہو گیا۔ 1966ء میں اسلامیہ کالج فار ویمن کراچی سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔1970ء میں ان کی مشہور شاعر جون ایلیاء سے شادی ہوگئی۔زاہدہ حنا نے بچپن سے لکھنے لکھانے کا شوق پال لیا تھا۔ بارہ برس کی عمر میں ان کا پہلا مضمون سکول کے رسالہ میں چھپا۔اس مضمون پر انھیں ایوارڈ ملا جس نے زاہدہ کا حوصلہ بڑھایا ۔
زاہدہ نے 1962 ءمیں پہلا افسانہ ماہنامہ "ہم قلم” کراچی میں بعنوانؔ فردوس گشتہ” سے لکھ کر افسانہ نگاری میں قدم رکھا ۔زاہدہ نے تخلیقی ذوق کے ساتھ خود کفیل ہونے کے لیے 1964ء میں نیشنل بینک کی ملازمت اختیار کی ۔اس سے جلد دل اچاٹ ہو گیا اور صحافت میں چلی آئیں جو ان کی طبیعت کو ایسا بھایا کہ زندگی کا دو تہائی حصہ اسی میدان میں صرف کر ڈالا اوردام کے ساتھ نام بھی خوب کمایا۔
زاہدہ حنا بھی اُن خواتین افسانہ نگاروں میں شامل ہیں جنھوں نے تقسیم پاکستان کے بعد کی صورت حال کو بہ چشم ِ خود دیکھا اور دل سے اس کربِ ناہنجار کو محسوس کیا ہے۔ زاہدہ کے افسانوں کے موضوعات محدود ،سطحی اور مقامی نہیں ہیں بلکہ ان کے ہاں ذات و پات،زمین و مکانات اور مقامیت و ماورائیت سے کہیں آگے کی بات نظر آتی ہے۔
زاہدہ نے جو بھی لکھا ہے اس میں نقص اور ابہام کی گنجائش بہت کم چھوڑی ہے۔ ان کے افسانوں میں ایک اُٹھان اور ردعمل کی شدید کربناک صورتحال دکھائی دیتی ہے جو پڑھنے والے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ زاہدہ کی تخلیقات میں موجودہ دور کے ہیجان انگیز اور انتشار آمیز صورتحال کا ذکر ملتا ہے۔تلخ سے تلخ حقیقت کو بڑے سہل اور رواں اندازمیں پیش کرنے کا فن خوب جانتی ہیں۔ ان کے افسانوں میں ماضی سے حال اورحال سے حقیقت تک کا سفر ملتا ہے۔ ان کے افسانوں کے متنوع موضوعات میں تاریخی حقائق کے واقعاتی پس منظر کو خاص اہمیت حاصل ہے۔
ان کے افسانے "نا کچا آباد،زیتون کی ایک شاخ،پانیوں کے سراب” اور ابنِ ایوب کا خواب”:تاریخی شعور کی دبیز لَے سے معمور ہیں۔ زاہدہ حنا کے افسانوں میں عورت کو ایک کمزور مضمحل،خوفزدہ اور ڈرپوک دکھانے کی بجائے ،نڈر،بہارد،ردعمل ظاہر کرنے والی اور شعور سے آراستہ پیش کیا گیا ہے۔ زاہدہ کے ہاں عورت کوئی بھیڑ بکری نہیں جسے ہر کوئی اپنے کھوٹے سے باندھ لے بلکہ وہ ایک مضبوط اعصاب کی شیرنی معلوم ہوتی ہے جس کی دھاڑ کے آگے شکاریوں کے حوصلے پست ہو جاتے ہیں۔زاہدہ حنا اپنے تخلیقی سفر کے بارے میں لکھتی ہیں:
"دُنیا کی نام نہاد ترقی جو اپنے جَلو میں بے پناہ تباہی اور بربای لیے ہوئے ہے؛اس کی بربادی پرمیرا قلم افسردہ ہو جاتا ہے۔یہ افسردگی کسی مخصوص خطے سے وابستہ نہیں بلکہ اس میں پوری دُنیا کی تہذیب کا نوحہ سمٹ آیا ہے”۔(۴)
بیسویں صدی کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ کُلی طور پر ہجرت کی صدی ہے جس نے پوری دُنیا کی مکانکی فلسلفے کو اُدھیڑ کر رکھ دیا۔ پہلی جنگِ عظیم سے شروع ہونے والی مہاجرت نے دوسری جنگِ عظیم تک لاکھوں بلکہ کڑوروں انسانوں کے اپنےاوطان سے محروم کیا اور ان کے لیے موت و حیات کے درمیانی خلا کو تاریکی و نااُمیدی سے بھر ڈالا۔
زاہدہ حنا نے تقسیم کے عمل کو شعوری طور پر نہ صرف محسوس کیا بلکہ سر کی آنکھ سے انسانیت کی ارزانی اور ہلاکت آمیز سبکی کو دیکھا اور ناقابلِ برداشت اور دلخراش واقعات کو ذہن میں نا چاہتے ہوئے بھی مستقل اقامت دینے پر مجبور ہوئیں۔ زاہدہ کے افسانوں کے ان کے بچپن اور لڑکپن کی مہاجرانہ ذہنیت کا نقش واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ زاہدہ کا دل آج بھی اپنے آبائی علاقے اور جنم بھومی یعنی سسرام کے تڑپتا ہے۔
زاہدہ نے تقسیم کے عمل کو اقدار کی شکست و ریخت کا ماتم قرار دیا ہے جس نے قدیم اسلامی سلطنت کے جملہ مظاہر کو درگور کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ڈاکٹر عبدالعزیز ملک لکھتے ہیں:
"زاہدہ حنا کے افسانے مقصدی اور فکر انگیز ہیں۔ وہ قارئین قاریئن کو سوچنے پر مجبور کرتی ہیں اور یہ سوچ قارئین کو اندھیرے سے اُجالے کی طرف لے جاتی ہے ۔زاہدہ کے افسانے باہمی رواداری اور سیکولر سوچ کے علم بردار ہیں اس لیے ان کے افسانے بھی اسی نظریے کے عکاس ہیں”۔(۵)
زاہدہ حنا کی بیشتر کہانیوں کا موضوع استحصالی جَور مزاحمت کا شکار وہ انقلابی آوازہ ہے جس نے حقِ آزادی کے لیے جذبات کو مہمیز کیا اور جان نثار کرنے پر آمادہ کیا۔ تشدد اور عدم بردشات کے خلاف ظلم کی شدت کو سہنے کی طاقت ہی در اصل آزادی کی نعمت سے آشنا ہونے کا اصل عنصر ہے۔ اس راہ میں "تتلیاں ڈھونڈنے والی” کہانی کی معنویت سمجھ میں آتی ہے جو اس اُمید پر اختتام کو پہنچتی ہے کہ آنے والی نسلوں کی راہ کے خار کو نسلِ ہنوز نے اپنے پاؤں میں پازیب کی صورت پہن کر راستہ ہموار کرنا ہے ۔آسیہ نازلی لکھتی ہیں:
"زاہدہ حنا کے افسانوں کے موضوعات میں متصوفانہ اور فلسفیانہ افکار کی ترجمانی مختلف کرداروں کی صورت میں ملتی ہی۔ تصوف کی قدیم روایات کو عصرِ حاضر کی صورتِ حال سے ہم آہنگ کرکے قادری کے سامنے یوں لایا گیا کہ خدا،مذہب اور کائنات پر اُٹھائے جانے والے سوالات کے جوابات دینے کا کسی میں یارا نہیں۔ زاہدہ کے افسانوں میں "ہوا پھر سے حکم صادر”،منزل ہے کہاں تیری،جاگے ہیں خواب میں،پانیوں پر بہتی پناہ،تتلیاں ڈھونڈنے والی”میں وقت کے تسلسل اور فنا کے موضوعات کو واضح طور پر دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے”۔(۶)
زاہدہ حنا نے افسانہ نگاری کی صنف کو جہاں اپنے تخلیقی اظہار کا وسیلہ بنایا وہاں انھوں نے اپنے عہد کی مجموعی صورتحال کو قدرے ڈرامائی اور فلسفیانہ انداز میں تصوف اور تاریخ کے خام مسالے سےموضوع کی بُنت میں کھپانے کی شعور ی کوشش بھی کی ہے۔ زاہدہ کا ذہن انتہائی پختہ اور منجھا ہوا ہے۔ ان کے افسانوی کردار قاری کے ذہن کو اُلجھانے کی بجائے شرح کرنے کا کام کرتے ہیں۔
زاہدہ نے کمال ہنر مندی سے عورت کے کرب اور اس کی عدم شناخت کے قضیے کو افسانوی رنگ میں بیان کیا ہے۔ زاہدہ کے افسانوں میں کہیں کہیں بے جا طوالت محسوس ہوتی ہے تاہم یہ گِراں باری ان کی ذہنی وسعت اور تاریخی شعور کے شعوری ادراک کا مظہر بھی ہے۔
زاہدہ کے افسانے "کُم کُم بہت آرام سے ہے” سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے:
"امریکی بمباری کے خلاف کول کٹا،شما کیجئے گا،مجھے یاد نہیں رہا کہ کلکتہ،،ممبئی اور مدرا س کے نام سُن کر غصہ آجاتا ہے۔ہاں تو جب کلکتہ کی سڑکوں پر لاکھوں لوگوں کا جلوس نکلا تو میں بھی اس میں گئی تھی۔ٹیلی ویژن پر میری جھلک دیکھ کر آپ بہت خوش ہوئی تھیں اور جلوس میں نہ جانے پر آپ نے بھیا اور ششمتا کو طعنے دئیے تھے۔پھر جب ریلیف روک کے لیے کابل کے اندرا گاندھی انسٹیٹوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کی طرف سے ڈاکٹروں کی مانگ آئی اور میں نے والنٹئیر کیا تو یہ صرف آپ تھیں جنھوں نے آشیر واد دی ؛ورنہ گھر میں تو سب ناراض تھے۔ ماتا کا غصے سے بُرا حال تھا”۔(۷)
زاہدہ نے جس طرح بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے اوائل کی بلاخوف و خطر تلخ حقیقت کا پردہ چاک کیا۔یہ دیکھنے کی چیز ہے۔ زاہدہ نے پاکستانی سماجی کی کھوکھلی معاشرت،سیاسی منافقت اور تہذیبی دوہریت کو اپنے افسانوں کے ذریعے عیاں کیا اور ردعمل کی اذیت سے خود کو دو چار کیا ؛یہ عمل پڑھنے اور سننے سے سے زیادہ سہنے اور برداشت کرنے سے تعلق رکھتا ہے۔عقیل احمد روبی لکھتے ہیں:
"زاہدہ حنا کا شمار اُردو کے صفِ اول کے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ سچ کی تلاش،آزادی کے لیے جدوجہد،مظلوم سے ہمدردی، ظالم سے نفرت، انسانی جذبات سے آگاہی،انسان سے دوستی،عدل و انصاف اور حقوقِ انسانی کے لیے لڑنا۔ یہ تمام موضوعات بڑے لکھنے والوں کی تحریروں کی اصل ہیں ۔ زاہدہ کی زنبیل انھیں موضوعات سے بھری پڑی ہے”۔(۸)
زاہد حنا نے رومانی اور تخیاتی دُنیا کو اپنے افسانوں کی آماجگاہ بنانے کی بجائے اس بے رحم اور ظالم دُنیا کے کرتوت اور اصلیت کو سامنے لانے کے لیے اظہار کا وسیلہ بنایا۔ ایک لکھاری کے لیے یہ سب سے بڑا چیلنج ہوتا ہے کہ وہ کن موضوعات کو اپنے بیانے کے اظہار کا وسیلہ بناتا ہے اور کس حد تک اس کوشش میں کامیاب ہوتا ہے۔
زاہدہ نے اپنے لیے آسان اور محفوظ راستہ چھوڑ کر سنگلاخ اور خاردار راستے کا انتخاب کیا اور کمال بہادری اور دیدہ دلیری سے ایسے حقائق اور نسائیت کے کربناک واقعات کے گورکھ دھندوں کو افسانوں میں عملی تجربے سے گزارے ہوئے کرداروں کے پیش کیا کہ پڑھنے کا حوصلہ بیٹھ جاتا ہے اور واقعات و مشاہدا ت کی گہرائی اور سچائی کو قبول کیے بغیر رہا نہیں جاتا۔
زاہد کے افسانے "زیتون کی شاخ” کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجیےجس میں ویتنامی آزاد منشوں کی کوشش کو جہاں زاہدہ نے شاباشی دی ہے وہاں امریکی جارحیت پر زور دار چوٹ بھی کی ہے:
"میں جنگ سے نفرت کرتا تھا اس کے باوجود مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ میں ویتنام جانے سے انکار کردوں اور دوسروں کے کے تمسخر اور استہزا کا نشانہ بنوں اور سرکاری دباؤ کو برداشت کروں۔ میں بہت بُزدل ہوں ؛محض خواب دیکھنے والا،ایک سُست عنصر انسان اور کچھ نہیں”۔(۹)
عورت ایک زمانے کا محض ایک دل لُبھانے والے شے تھی مگر اب وہ دور گزر چکا۔ عورت نے بیسویں صدی کے اختتام کے بعد اکیسویں صدی میں جس دبنگ انداز میں قدم رکھا ہے اور ہر میدان میں ہر حوالے سے اپنی صلاحیتوں کا جس انداز میں لوہنا منوایا ہے یہ دیکھنے اور سراہے جانے کے لائق ہے۔ زاہدہ حنا محض ایک افسانہ نگار نہیں ہیں جن کے ہاں عورت کا رونا دھونا اور خانگی قضیوں کی داستانِ امیر حمزہ پڑھنے کو ملتی ہے بلکہ ان کے معاملہ ہی برعکس ہے۔ زاہدہ نے مقامی حدود سے خود کو ماورا کرکے عالمیگیریت کا افسانے کی زبان بنایا۔ دُنیا جس تیز سے بدلاؤ کے عمل سے گزر رہی ہے ‘زبان کے ساتھ ادب کے ساختیاتی سٹرکچر میں بھی اتنی سُرعت سے بدلاؤ ہو رہا ہے۔
عورت کو محض گھر تک محدود رکھنا اور اسے اپنی مرضی سے ہینڈل کرنے کا وقت اور دور فنا ہوا۔ اب عورت ہر معاملے ،مسلئے اور زیست کے جملہ معاملات میں برابر کی شریک اور ساجھے دار ہے ۔یہ نہ صرف اپنی رائے کا اظہار کررہی ہے بلکہ تنقیدی شعور کے پختہ اسالیب سے مَرد کے شانہ بشانہ تقابل کے بیانیے پر ایستادہ ہے۔
محمدحمید شاہد لکھتے ہیں:
"سیدہ حنا کو کہانی کے ٹھوس پن سے وفاداری نبھاینا اچھا لگتا ہے۔ واقعے کے ساتھ ساتھ چلنا اور اسے یوں لکھنا کہ اس میں کوئی اُلجھن نہ آئے۔زندگی جیسی ہے اُسے ویسے ہی لکھ دینا۔سادگی اور سہولت کے ساتھ یہ روش بہت مشکل معلوم ہوتی ہے مگر سیدہ حنا کے ہاں یہ عمل انتہائی سہل اور رواں تخلیقی دھارے سے گزرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ سیدہ کی کہانیوں یعنی افسانوںمیں "جھوٹی کہانیاں،پتھر کی نسل،تھپڑ، انہونی،رقصِ شرر،ہزار پایہ” پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ ان کا قلم حقیقت کے مقابل ہوت ے ہوئے کتنا سفاک ہو جاتا ہے”۔(۱۰)
ایک فنکار کے لیے یہ مرحلہ انتہائی دُشورا گزرا ہوتا ہے کہ وہ اپنے فن کی وقعت کو فن کے بیانیے کے ساتھ متصل کرنے اور اس کی پختگی کو دیکھنے والی کی حُسنِ نظر سے لازوال داد کی صورت وصول کرنے کا عمل کامیابی سے طرح حاصل کر لے۔ فنکار کی ساری زندگی اپنے فن کی پروش و پرداخت اور تراش خراش میں صرف ہو جاتی ہے۔ فن پارہ بذاتِ خود کچھ نہیں ہوتا ؛اس فن پارے کے اندر کی تراش خراش اور نک سکھ کی بناوٹ سے اظہار کی تکمیل کی پیش کش اس کی وقعت اور قدر و قیمت کا تعین کرتی ہے۔
زاہد ہ کے افسانوں کو پڑھتے ہوئے مذکورہ تاثر کا اثبات اپنے تمام تر حقائق کے ساتھ فرواں نظرا ٓتا ہے۔ زاہد ہ نے طوالت کی بجائے اختصار سے کام لیا۔ مبالغہ،غلو اور اغراق سے ماورا ہو کر حقیقت بلکہ سفاک آمیز حقیقت کے اظہار کو لکھنے پر نہ صرف اپنے قلم کو مجبور کیا بلکہ قلم کی زبان کو نجی زندگی کی کربناکی اذیت سے مسلسل ٹیم کرنے میں بھی سعی کی ہے۔افغانستان میں گذشتہ صدی سے جس جارحیت کا نشانہ افغانی بنتے آئے ہیں۔
افسانہ” رقصِ مقابر” کے اس اقتباس سے ملاحظہ کیجئے:
"ہڈیاں لے لو،ہڈیاں لے لو۔ازبک اور پشتون ہڈیاں۔تاجک اور ترکمان ہڈیا،ہزاروں اور پنجارہ ہڈیاں۔یکے پنجرِ افغان۔پنچاہ سینٹ،پنچاہ سینٹ۔یہ سرزمینِ قابیل ہے۔آدم ؑ کے قاتل بیٹے کی بسائی ہوئی۔شاید اسی لیے اس کی خاصیت ہو چکی ہے کہ ادیر کسی کی حکومت برداشت نہیں کرتی”۔(۱۱)
زاہدہ نے قرۃ العین حیدر کی طرح اپنے افسانوں کے موضوعات اور کرداروں کو تاریخیت سے متصل کیا ہے۔ قرۃ العین نے اپنے ناول”آگ کا دریا” میں برصغیر کی اڑھائی ہزار سالہ تاریخ کو جس انداز میں قلمبند کیا ؛یہی انداز یعنی "شور کی رَو”کو زاہدہ نے بھی اپنے افسانوں میں کامیابی سے برتا ہے۔ادیب سہیل لکھتے ہیں:
"زاہدہ حنا کی یہاں تاریخ و اساطیر سے آگہی اور اس کا گہرا شعور کہانی کو آگے بڑھاتا رہتا ہے بلکہ اس کی تعمیر میں جا بجا مضبوط ستون فراہم کرتا جاتا ہے ۔زاہدہ کے بیشتر افسانوں کی خوبی یہ ہے کہ یہ تمثیلی اور علامتی فضا رکھنے کے باوجود اپنے کہانی پن کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے”۔(۱۲)
زاہدہ نے افسانے” معدوم ابن معدوم” میں ہجرت اور مہاجرت کے مسائل اور پیش آمدہ صورتحال کا جس انداز میں نقشہ کھینچا ہے ؛اس کیفیت کو پڑھنے والے کا کلیجہ دہل جاتا ہے۔ زاہدہ کے عورتوں پر ہونے والے ظلم اور جور کو تاریخی جھروکوں کی کن انکھیوں سے دکھانے کی سعی کی گئی ہے۔ زاہدہ کے وسیع المشرقی ذہن کے اسلام کے بیانیے کو سیاست کی ہرزہ سرائی سے منسوب کرنے کی بجائے اپنے طور پر ایک انفراد بخشا ہے جس نے زاہدہ کی کہانیوں کو جہاں ادبیت کی شان عطا کی وہیں قاری کے لیے سوچنے اور ڈی کنڈشنگ کرنے کے عمل کو مہمیز بھی کیا ہے۔
"رقص بسمل ہے” سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے:
"یہیں کہیں آتشِ نمرود دہکائی گئی تھی لیکن آتشِ نمرودتو ہر زمانے اور ہر زمین میں دہکائی گئی ۔۔۔ہیرو شیما اور ناگا ساکی ،مائی لائی اور تورا بورا، بغداد اور بصرہ،آتشِ نمرود کا امریکی ورژن ۔نمرود نے سارا اہتما م اکیلے ابراہیم ؑ کے لیے کیا تھا؛یہاں تو لاکھوں اور ہزاروں لوگ آتشِ نمرود کے امریکن ورژن کا ایندھن بنے”۔(۱۳)
ڈاکٹر تحسین بی بی لکھتی ہیں:
"زاہدہ حنا نے اپنے گرووپیش کی ناہمواریوں،ناانصافیوں اور ڈھکی چھپی تلخیوں کو دھڑلے سے بیان کیا ہے۔ وہ ظلم کے خلاف ایک طاقت ور آواز بن کر اُبھری ہیں۔ انھوں نے امن ،عدل و انصاف ،ظلم کی روک تھام،مظلوم سے ہمدردی،محبت اور انسان دوستی جیسے موضوعات کو اپنے افسانوں میں خوبصورتی سے سمویا ہے۔ ان کے ہاں سماج میں ہونے والے ظلم و جور کی نشاندہی بھی ملتی ہے۔ وہ معصوم،مجبور،مظلوم اور سماج کے ہاتھوں بے بس و لاچار لوگوں کی نمائندگی کرتی ہیں اور حق کی بات بڑے دلیرانہ اور بے باکانہ انداز میں کرنا گویا ان کی اصل پہچان ہے”۔(۱۴)
زاہدہ حنا نے اپنے تخلیقی صلاحیتو ں کو خانگی ناہمواری کے سامنے سرنگوں ہونے سے بچائے رکھا۔ ایک فنکارکی زندگی میں کئی ایک حادثات رونما ہوتے ہیں جو اس کی نجی زندگی کے سکون اور آرام کو برباد کر ڈالتے ہیں۔ یہ ایک طرح کی شکستگی کا احساسِ فراواں ہے تاہم اس کا مثبت ردعمل فنکار کی صلاحیتوں کو جلا بخشتا
ہے۔ زاہدہ نے اپنے ذاتی مسائل کو افسانوں کا موضوع بنا کر رونے دھونے اور لعن طعن کرنے کی بجائے ایک مردِ آہن کی طرح دُنیا کے جملہ مظاہر اور حوادث و واقعات کو بہ چشم سر دیکھا اور اس پر اپنی تنقیدی رائے کا بے لاگ اظہار بھی کیا ۔ ان کے اسی وصفِ انفراد نےانھیں صفِ اول کی افسانہ نگار بنا دیا ۔آسیہ نازلی لکھتی ہیں:
"برصغیر میں ہونے والی تباہی و بربادی بالخصوص پاکستان میں جاری دہشت گردی کے حوالے سے زاہدہ حنا کا قلم خون کے آنسو بہاتا نظر آتا ہے۔ زاہدہ کے کالموں میں مختلف شہروں کے موجودہ عہد کے مسائل کا اظہار جس دلسوزی سے ملتا ہے اُسےمعمولی نہیں لیا جا سکتا”۔(۱۵)
زاہدہ حنا نے افسانہ نگاری کے علاوہ ناول نگاری میں بھی اپنا نام بنایا۔ افسانہ نگاری کے علاوہ زاہدہ کا بڑا کام کالم نگاری ہے۔ زاہدہ گذشتہ پچاس برس سے کالم لکھ رہی ہیں اور صحافت کے میدان میں اپنے مخصوص لب و لہجے اور اسلوبِ بیان سے قارئیں کو متاثر کیے ہوئے ہیں۔
زاہدہ کے قلم نے جھوٹ،مبالغہ،خود پسندی اور نرگسیت کو سر سے قبول ہی نہیں کیا بلکہ تلخ و تُرش اور ناقابلِ برداشت صورتحال کی اصلیت کے کرب کو اظہار کا وسیلہ بنایا ہے۔
زاہدہ حنا کا تخلیقی سفر ہنوز جاری ہے۔ اُمید کی جاتی ہے کہ زاہدہ کا قلم یونہی حقیقت و اصلیت کا ترجمان بنا رہے گا اورمنافقانہ طرِ ز سیاست کے جملہ اطوار کو اپنے بے لاگ تنقیدی افکار سے سوچنے پر مجبور کر تا رہے گا۔
حوالاجات
۱۔شہاب ظفر اعظمی،ڈاکٹر،جہانِ فکشن،اُتر پردیش،اُردو اکادمی،2006،ص:136
۲۔ شہاب ظفر اعظمی،ڈاکٹر،جہانِ فکشن،ص:138
۳۔آسیہ نازلی،زاہدہ حنا،تحقیقی و تنقیدی مطالعہ،الحمد بپلیکیشنز،لاہور،2017،ص:49
۴۔ آسیہ نازلی،زاہدہ حنا،تحقیقی و تنقیدی مطالعہ،ص:103
۵۔عبدالعزیز ملک،ڈاکٹر،زاہدہ حنا کا افسانوی تنوع،مشمولہ ،زاہدہ حنا،تحقیقی و تنقیدی مطالعہ،الحمد پبلیکیشنز،لاہور،2017ء،ص:126
۶۔ آسیہ نازلی،زاہدہ حنا،تحقیقی و تنقیدی مطالعہ،ص:155
۷۔زاہدہ حنا، کُم کُم بہت آرام سے ہے، مشمولہ،رقصِ بسمل،الحمد بپلیکیشنز،لاہور،2020ء،ص214
۸۔روبی،احمد عقیل،مشمولہ،تتلیاں ڈھونڈنے والی، الحمد پبلیکیشنز،لاہور،2017ء،ص:168
۹۔زاہد ہ حنا، قیدی سانس لیتا ہے،کتابیات پبلیکیشنز،کراچی،بارِ سوم،1990،ص:33
۱۰۔محمد حمید شاہد،مشمولہ ، مئی 11, 2021https://daanish.pk/49389/
۱۱۔زاہد ہ حنا، مشمولہ ،رقصِ مقابر،رقصِ بسمل ہے،الحمد پبلیکیشنز،لاہور،مارچ،1990ء،ص:136
۱۲۔ آسیہ نازلی،زاہدہ حنا،تحقیقی و تنقیدی مطالعہ،ص:187
۱۳۔ایضاً،ص:166
۱۴۔تحسین بی بی،ڈاکٹر،محمد ناصر آفریدی،اکیسویں صدی کے چیلنجز اور زاہد ہ حنا کا فن:امکانات و مباحث،مشمولہ،نورِ تحقیق،(جلد ۳،شمارہ:۱۰)گریژن یونیورسٹی،لاہور،2019ء،ص:22
۱۵۔آسیہ نازلی،زاہدہ حنا،تحقیقی و تنقیدی مطالعہ،ص:210
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |