افسانہ ٹی۔او۔ڈی کی بنت. خوب ہے ۔ استعاراتی اور معنوی پرت والے نقوش خیالات ہیں جو اسلوب کے صراط پر گرین کارپیٹ کی طرح مصنف نے قاری کی تفہیمی راہ پر بچھا دیا ہے .قاری کی فکر اس چمچما تی سڑک پر پھسلتی نہیں ہے۔ افسانے کی صرف ایک قرات میں جادونگری کے فکری و عملی نظام شمشی کے محور Axis اور Orbit پر گردش کرتا ہوا بلو اسٹار Blue Earth میں دمکنے والا وہ سہ رنگی گلستان کسی ہیولے کی طرح قاری کے ذہن کے گلوب پر اپنے ترانے اور تہذیبی ہمہ رنگی کی جھانکیاں بکھیر دیتا ہے۔ ایسے میں قومی احترام ایک خواب دیکھنے کے حوصلے کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوتاہے لیکن فکری biometric کی شناخت کا ڈر ،خواب زندگی کے در پر قفل ، ڈار سے ٹوٹے گہنائی ہوئی ازادی کے ساتھ comfort zone میں پناہ لینے پر خود کو مجبور پاتا ہے۔ اجتماعی زندگی اسٹوری ٹیلر کی چوپال پر احساس کے کان میں روئی ڈالے کہانی سننے کی formality اور مشینی فریضہ ادا کرنے پر خود کو راضی کرالیتی ہے۔
ڈاکٹر فیضی کے افسانوں میں علا متی اشارے نئ صدی کے فلاح وبہیبودگی کی ردا اوڑھے اتے ہیں۔
اسٹوری ٹیلر،سامعین ،
گلستان ،جادو نگری ،علائم اور استعارے ہیں۔
انکے یہاں ایک معانی فہم استعار تی بیانیہ ہی نہیں بلکہ عالمی سیاسی بساط کی vision کے ساتھ شعور اشنا خو د اگہی کے تخلیقی چشمے بھی رواں ہیں ۔جہاں گزیدہ زندگی خار وخش پر لہو لہا ن ہے۔جو جبر ، بے اعتدالی نفسیاتی چبھن اور سماجی کشاکش سے لتھڑی ہوئی ریزہ ریزہ ملتی ہے لیکن اس خوف کے مشینی چکر وویو سے نکلنے کی شعوری کوشش پر پہرہ بیٹھا دیتی ہے . ذاکر فیضی کے افسانوں میں بے اعتدالی اور اس کی زد میں اکر پس جانے والی زندگی کی ایک loud آواز سنتے ہیں ۔ان کے افسانوں میں عالمی چودھراہٹ کی ریشہ دوانی سے تھر تھراتے ہراساں وپریشاں خواب ہیں ۔ نۓ مسا ئل علا متی بنت اورکرافٹ خوب ہےلیکن الفاظ کا بے دریغ استعمال میں تمہید کہانی کے قالب پر ایک بوجھ کا احساس ہوتاہے ۔ منظر نگاری اور مرقع نگاری کا حسن اوراس کا غلبہ اس پر پر دے کا کام کرتا ہے۔
اجتماعی روح حاکمیت،معاشرتی کرب،عالمی ریشہ دوانی اور تاناشاہی کی صلیب پر ٹنگی ہے۔ اسٹوری ٹیلر کے ادراک پر عصری حالات سے adapt کرتی پژ مردہ زندگی کی بہترین مرقع کشی فیضی کے یہاں ہوئی ہے۔
افسانہ”ٹی۔او۔ ڈی“عالمی snake and dragon کے بساط پر عصری کرب سے دوچار زندگی تہذیبی ،معاشی تصادم اور ذہنی کشاکش کے ساتھ جوجھتی ملتی ہے۔ یہ وہ زندگی ہے جو ننگے فکری حمام کی میٹھی جارحیت کا شکار ہے۔
اس افسانے میں ہم یہاں مصنف نے اسٹوری ٹیلر کے ذریعہ وسماجی اور معاشی exploitation کے طریقوں کی قلعی کھولی ہے۔
عوام پر ٹیکس کا بوجھ، رابطے اور ترسیل کی ترقی کے نام پر لوگوں کی privacy پر نگرانی، عالمی سیاسی بازی گروں کے ذریعہ شب خون مارنے کا بیان مصنف نے اسانی سے گرفت تفہیم میں انے والے استعاروں میں بیان کیا ہے اور اس ننگی جبر اور اسکی حقیقت کی گرہ کشائی کی ہے۔
مصنف بیانیہ کے خوش فکر افسانہ نگار ہیں ۔انکے افسانے کے کرافٹ کی خوبی ان کے بیانیہ میں ہے۔
ایک اسٹوری ٹیلر کی بیان کی ہوئی کہانی کے خدثات کا جو مستقبل میں ظہور پذیر ہونے والے ہیں وہ یہاں listener پر پہلے أزمایا جا چکا ہے ۔بازو پر چپس chipsکے خطر ے سے الرٹ کرنے والی یہ محتاط فکر پہلے سے وائرل ہوکر عوامی زندگی کی نظام شمشی کے مرکزے میں وہ بے حسی کی چپسchips لگادی گئ ہے۔استحصالی ,حا کمیت والے ہمارے افکار ،زندگی، خواب اور ازادی کو نگلنے کے لۓ منھ کھولے کھڑے ہیں ۔ بیضا ۓ موسوی تو ہے مگر اپنے بغلوں میں چھپے ہوے بے عملی کا شکار ہیں۔
سامعین اس کہانی کو ایک مشینی عمل کی طرح سن رہے ہیں ۔اجتماعی شعور کسی ٹھنڈے گھر کے تابو ت میں لیٹی کسی طرح کے ردعمل سے خالی فیصلوں کے خلاف اواز بلند کرنے ،ردعمل کا اظہا ر کرنے ،داغ داغ أزادی پر بپھرنے اپنے جائز خوابوں میں رنگ بھرنے کی خواہش سے خالی ہے ۔ سا معین گاندھی کے تین بندر کی طرح خائف اپنے حواس پر معذ وری کے قفل ڈالے بیٹھے ہیں۔
احتجاجی نعرے
”آزادی کے خواب, جینے کی آزادی ,اظہار کی آزادی پر ٹراجن ہارس Trojan Horse کے پہرے بٹھا دۓ گے ہیں۔ اسٹوری ٹیلر کہا نی سنا رہی ہے۔ردعمل کی منتظر ۔۔۔۔ آڈیٹوریم پر ایک خاموشی طاری ہے۔
نشاتۀ ثانیہ renaissance والی فکری بیداری لانےوالی تحر یر وں کی بے اثری دیکھ وہ پریشان ہوجاتی ہے کہ ایک بجلی بھری کہانی کی فکری تھراپئ کے باوجود بھی بھیڑ کسی مثبت ومنفی ریسپانس کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتی ؟
یہ تو انکی ہی کہانی ہے انکے لاشعور کا وہ بنیادی خواب ہے جس میں رنگ بھرنے کی ازادی اسے by birth حاصل ہے۔
کہانی اپنے نقطہ عروج کو پہنچ کر اب پنچ لائن کا منتظر ہے۔
اسٹوری ٹیلر حیرت کے بت کدے میں کھڑی سامعین کے ردِعمل کے اظہار سے خالی احساس سے عاری آڈیٹوریم سے باہر نکلتے حسرت اور یاس سے دیکھ رہی ہے جیسے ان کے بازو میں بھی شاید وہ چِپ chipنصب ہو۔
جس نے اپنی مرضی سے سا ئنسی ترقی کی شرساری والی cookies کو اپنی زندگی کی device پر accept کی ہے اور اس کرشماتی سائنسی تہذیب والی أزادی اور خواب کی اس نیلم پری کی EULA End user licence agreement کو سائن بھی کیا ہے۔کچھ لوگوں کو علامتیں کان کھجاتے ہوۓ خرگوش کی طرح اسانی سے گرفت میں اجاتے ہیں لیکن گلستان ،جادو نگری کے علاوہ ایسے اور بھی پرت دار استعارے ہیں جو معانی اور مسائل کے طلسم سے لیس ہیں۔ مصنف کی فکر فلسفیانہ موشگا فیوں کے پرخار راستوں سے اجتناب کرتی ہوئی اختتام کی ننگی حقیقتوں تک پہنچتی ہے۔
اس لۓ چمکیلے لفظ ،لچیلے لہجے ،،مینا کار جملے اور خوبصورت نین ونقش و نگار والی زبان کے بغیر بھی کھردری حقیقت کو انکی فطری مناسبت سے بیان کیا جاسکتا ہےاور ایسے افسانے کو رد نہیں کیا جا سکتا ۔یہ موجودہ عالمی تناظر کے منظر نامے ہیں جو اردو ادب کا حصہ بن رہے ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page