زِیست اور مَوت کے بیچ۔۔۔۔۔
مضمون: سید کامی شاہ۔ کراچی۔
انسان عظیم ہے کہ وہ عمر بھر رنج و غم اٹھاتا ہے، زندگی کی سختیوں سے نبرد آزما رہتا ہے، ذلتیں اور صعوبتیں سہتا ہے، اپنوں کی موت کی دہشت ناکی کا سامنا کرتا ہے مگر اپنے خوابوں اور امیدوں سے دست بردار نہیں ہوتا۔،،
ایک شعر کبھی کہا تھا۔۔
خیر مقدم کے لیے بھیج پرندوں کے ہجوم
اک خرابے سے تِرا عشق بچا لایا ہوں،،
زندگی نام کے اس خرابے میں رہتے ہوئے اپنے اندر کی خوبصورتی، نیکی اور سچائی کو بچا کر رکھنا اور اپنے خوابوں کے ساتھ جُڑے رہنا انسان کا ہُنر بھی ہے اور صلاحیت بھی۔
یہ کتاب جس کا نام زرد موسم کی یادداشت ہے، زندگی کی کتاب ہے جو ایک ناگہانی اور اذیت ناک موت سے شروع ہوتی ہے۔ ایک ننھے وجود کی ناگہانی موت جو کلیجے کو چھلنی اور دل کو ویران کر جاتی ہے اور ہر طرف ایک زرد اداسی چھا جاتی ہے جس کا کوئی انت نہیں ہے۔
موت اس کتاب میں شکلیں بدل بدل کرسامنے آتی ہے اور زندگی بھی اپنی رنگا رنگی کے ساتھ تماشا گری میں مشغول رہتی ہے، اسی موت اور زیست کے بیچ میں برپا اس تماشے میں بہت سے خواب بھی ہیں، قدیم اور گمبھیر خواب، کمسن اور شفاف چہروں والے رنگ آمیز خواب، زندگی کی تعمیر و تشکیل کرنے والے ٹھوس اور سنجیدہ خواب اور ایک امید ہے، معاملات میں بہتری کی امید،اپنوں کے ساتھ رہنے اور ایک آسودہ زندگی گزارنے کی امید، کمیوں، خامیوں اور اذیتوں سے پاک زندگی کی امید۔
یہ کتاب جو ایک ناگہانی اور اذیت ناک موت سے شروع ہوتی ہے زندگی کی ہمہ جہتی کا احاطہ کرتے کرتے ایک یقین نُما اُمید پر ختم ہوتی ہے۔۔۔
بہت سے صفحے رکھے تھے جن پر بہت سے لفظ لکھے جانے تھے۔ ان کے سانسوں میں زندہ رہنے کی خواہش چُھپی تھی۔ صفحے ان کے انتظار میں مردہ دِکھتے تھے کہ جب ان کی برہنگی پر لفظوں کا لباس پہنایاجائے گا، یہ زندہ نظر آئیں گے۔ مجھے ان لفظوں کی تلاش میں جانا ہوگا، شاید میں انہیں تلاش کرتے کرتے کہیں گُم ہوجائوں، لیکن میں واپس ضرور آئوں گا، میری واپسی ایک ایسے گھر کے لیے ہوگی جہاں ایک خوشبودار باغ مہکتا ہے، جس کی خوشبو نے مجھے بھٹکنے نہیں دیا اور کبھی بھٹکا بھی تو رُندھی آنکھیں لیے واپس لوٹ آیا کہ ایک خوشبودار باغ میرے انتظار میں تھا اور اس باغ میں ابھی ایک پھول کھِلنا تھا۔،،
معاملہ ادب کا ہو یا آدمی کا اس کا موضوع ہی اسے بڑا بناتا ہے اور اس کائناتِ ہست و نیست میں آدمی سے بڑا موضوع کوئی اور نہیں ہے۔۔
امینِ ارض خلیفہ خدا کا ہے انسان
کوئی کہے کہ لطیفہ خدا کا ہے انسان
مَیں جانتا ہوں اِسے جھوٹ بولتا نہیں دل
جو کہتا ہے کہ صحیفہ خدا کا ہے انسان
یہ آدمی ہی بُھلکڑ ہے، بھول جاتا ہے
خدا گواہ، وظیفہ خدا کا ہے انسان،،
اس ہونے، نہ ہونے کے حیرت انگیز کھیل میں انسان ایک مہمان کی طرح آتا ہے اور اچھے برے شب و روز گزار کر کسی اور ہی جہاں میں چلاجاتا ہے مگر انسان کے اندرچیزوں اورمعاملات سے جُڑ جانے کی ایک عجیب جبلت ہے کہ وہ اس دنیا اور اس کی رنگا رنگی سے وابستہ ہوجاتا ہے اور اس میں مبتلا ہو کر خود کو اس دنیا کا مستقل باسی سمجھنے لگتا ہے۔
مگر کسی اپنے کی موت اس پر زندگی کی سفاک حقیقت کو منکشف کرتی ہے، زندگی دینے والے باپ کی موت کی اذیت اور زندگی کی تعمیر کرنے والی ماں کے مرجانے کا غم عمر بھر تازہ رہتا ہے۔
زندگی سے بھرا ایک توانا جسم کیسے بڑھاپے اور بیماری کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ موت جو اس دنیا کی سب سے بڑی اور سفاک حقیقت ہے کیسے آدمی کو انکشاف ذات سے ہمکنار کرتی ہے یہ وہی جانتا ہے جو اس سے گزرتا ہے۔
اس نے اپنے باپ کی موت کا غم جھیلا اور پھر ماں کے بوڑھے بدن کو مٹی کے حوالے کیا اور پھر ایک معصوم روح جو چند ہی دنوں تک اس گھر میں مہمان رہی اور پھر کسی ایسے نگر چلی گئی جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔۔۔۔۔
خالد معین نے کہا تھا ۔۔۔۔۔
زندگی کے نگار خانے میں
موت سب سے بڑی حقیقیت ہے،،
زندگی کیا ہے، کیوں ہے، کیسی ہے اور کیسی ہونی چاہیے پر ہزاروں مباحث قائم کیے جاسکتے ہیں مگر موت پر کوئی بحث نہیں کی جاسکتی کہ اس کے آہنی پنجے جب اپنے شکار کو دبوچتے ہیں تو کوئی دعا، کوئی وظیفہ، کوئی حکمت کام نہیں آتی اور ہم اپنے پیاروں کو کسی نامعلوم دنیا میں جاتا دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
کوئی واپس وہاں سے آتا نہیں
جانے والے جہاں چلے گئے ہیں
کس قدر پیار کرنے والے تھے
لوگ جو ناگہاں چلے گئے ہیں
سرخ اور سبز کچھ پرندے تھے
اُڑ کے جانے کہاں چلے گئے ہیں،،
لکھنا ایک مشکل اور اذیت ناک عمل ہے۔ زیست اور موت کے بیچ میں برپا اس تماشے میں رونما ہونے والے رنج و الم اور شکست و ریخت کے زہریلے پنجے آدمی کو اندر سے تو کھرچتے ہی ہیں مگر اس بارے میں لکھتے ہوئے اور اپنے لکھے ہوئے کو دوبارہ پڑھتے ہوئے قلم کار اس دردناکی سے دوبارہ بلکہ سہہ بارہ گزرتا ہے اور وہ سب کچھ نئی جزئیات کے ساتھ اس کے اندرون میں پھر سے برپا ہوتا ہے جس سے وہ گزر کر آچکا ہوتا ہے۔ مگر لکھنے کا عمل ایک طرح کی لطف انگیز اذیت بھی ہے جیسے کوئی عادی نشہ باز نشے کے مضمرات سے تنگ بھی ہوتا ہے مگر اس لہر میں رہنا بھی چاہتا ہے۔ قلم کار بھی ایسا ہی کوئی قدیم نشہ باز ہوتا ہے جو خود کو بار بار ان دوہرائی ہوئی حالتوں سے گزارتا ہے جو اذیت ناکی و الم ناکی کا باعث ہوتی ہیں۔
کپل وستو کا شہزادہ جب گوتم بدھ نہیں بنا تھا اور ایک شہزادے کی حیثیت سے محلاتی زندگی سے لطف اندوز ہورہا تھا تو اس کے باپ نے ہمیشہ بیماری، بڑھاپے اور موت کو اس کی نگاہوں سے دور رکھا مگر کہتے ہیں کہ سچائی ایک بیج کی طرح ہوتی ہے جسے چاہے جتنا بھی گہرا دبادیا جائے وہ ایک نہ ایک دن پھوٹ نکلتی ہے۔ ایسی ہی ایک انکشافِ ذات کی دوپہر تھی جب گوتم نے کچھ لوگوں کو ایک بوڑھے اور بیمار آدمی کو طبیب کے پاس لے جاتے دیکھا۔۔۔۔
اور زیادہ وقت نہیں گزرا تھا جب اس بوڑھے اور بیمار آدمی کا جسم مردہ حالت میں اس کے سامنے سے گزرا تو استفسار کیا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟
بتایا گیا کہ انسان وقت گزرنے کے ساتھ بوڑھا اور بیمار ہوجاتا ہے اور پھر مر جاتا ہے، اسی طرح یہ بوڑھا اور بیمار شخص بھی مر چکا ہے۔۔۔۔۔
تو پوچھا کہ مر کر آدمی کہاں چلا جاتا ہے؟
لوگوں نے سر جھکا کر کہا کہ ہمیں نہیں معلوم۔۔۔،،
ہمارے سامنے تو زندگی کی چمک دمک سے عاری یہ جسدِ خاکی رہ گیا ہے جسے مذہبی رسومات کے تحت دفنادیا جائے گا یا جلا کر اس کی راکھ کو مقدس ندی میں بہادیا جائے گا۔
زندگی کی یہ چند ابدی سچائیاں جن پر اس کے باپ نے پردہ ڈال رکھا تھا وہ ایک ہی جھٹکے میں عیاں ہوگئیں۔۔۔۔۔
صوفیا کرام فرماتے ہیں کہ بشر کی آنکھ پر چالیس پردے ہوتے ہیں جو اسے ابدی سچائیوں کو دیکھنے سے روکے رکھتے ہیں۔ گوتم بدھ کی آنکھ سے ایک ہی دوپہر میں کئی پردے اٹھ گئے اور اسی رات انہوں نے بیوی، بچے اور محل کی آسودہ زندگی کو چھوڑ کر جنگل کی راہ لی اور کائنات کی ابدی سچائیوں کا کھوج لگانے کی ٹھانی اور برسوں کی تپسیا کے بعد عظیم بدھا بن گئے۔۔۔
ارشد رضوی جدید دور کا گوتم ہے، میں نے 1996 میں تشکیل کے کسی شمارے میں ارشد رضوی کی جو پہلی کہانی پڑھی تھی اس کا نام سدھارتھ، تھا جو کہ عظیم بدھا کا اصل نام بھی ہے، مجھے لگتا ہے کہ ارشد رضوی جدید دور کا بدھا ہے جو کائناتی سچائیوں کی کھوج کے لیے کسی جنگل کی راہ نہیں لیتا بلکہ شہری سماج میں اپنے جیسے لوگوں میں رہتے ہوئے نہ صرف ایک فعال فرد کا کردار ادا کرتا ہے بلکہ زیست اور موت کے تلخ و شیریں حقائق کا تجربہ اور مشاہدہ کرتا ہے اور انہیں لفظوں کی جادوگری کے ذریعے کہانیوں کی صورت میں پیش کرتا ہے۔
ارشد رضوی کی کہانیوں میں موت اور اذیت اور ذلت کے مہیب سایوں میں ہی زندگی کے رنگ چمکتے ہیں اور خواب ہیں اور امید جو کبھی آنکھوں میں اشک بن کر جھلملاتی ہے اور کبھی آسمان پر ستارہ بن کر ٹمٹماتی ہے۔۔۔۔
اس بے معنی اور لایعنی تماشے میں اگر کوئی چیز معنویت پیدا کرسکتی ہے تو وہ سیکس اور آرٹ ہے، اگرچہ سیکس بھی ایک طرح کا آرٹ ہی ہے کہ اس کے ذریعے ہم اپنے جیسا جیتا جاگتا انسان تخلیق کرنے پر قادر ہوکر خالق کے منصب پر فائز جاتے ہیں جبکہ ادب اور آرٹ کے شعبے میں بھی ہم کسی نہ کسی طرح کا کچھ خلق کرتے ہیں اورتخلیق کار کہلاتے ہیں، مگر ہم تیسری دنیا کے باسی جس پسماندہ معاشرے میں رہتے ہیں وہاں سیکس پر بات نہیں کی جاسکتی اس لیے ہم ادب اور آرٹ سے جُڑ کر اس بے معنی سیاپے میں سے کچھ معنی اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
محوِ آرائشِ جمال بتا
جی میں آتا ہے کیا خیال بتا
زندگی کیا ہے کوئی بات تو کر
کس لیے ہے یہ سب وبال بتا
اک ذرا آنکھ لگ گئی تھی مِری
اب ذرا عمرِ ماہ و سال بتا،،
شاعر اور ادیب انسانی شخصیت، زندگی اور کائنات کی سچائیوں کا نہ صرف کھوج لگاتے ہیں بلکہ اسے فنکارانہ انداز میں اپنے قارئین کے سامنے پیش بھی کرتے ہیں۔ اپنے بن باس کے دوران، خزاں کی ایک صبح گوتم بدھ نے اپنے شاگرد آنند کو آواز دی اور کہا کہ آنند یہ جو بکھرے ہوئے پتے ہیں انہیں میرے پاس لائو۔ آنند نے خشک اور زرد پتوں سے جھولی بھری اور لا کر سارے پتے بدھ کے قدموں میں بچھادیئے۔
گوتم نے استفسار کیا۔۔
آنند کیا تو نے سارے پتے سمیٹ لیے؟
آنند نے جواب دیا۔۔ نہیں مہاراج، یہ پتے بہت زیادہ ہیں میری جھولی میں جتنے سماسکے وہ آپ کے سامنے رکھ دیئے ہیں اگر آپ حکم کریں تو مزید پتے اٹھا لاتا ہوں۔،،
گوتم نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکتے ہوئے کہا۔۔۔۔ نہیں اس کی ضرورت نہیں، بس ان پتوں کو دیکھو اور سمجھو کہ خدا کی اس لامحدود کائنات میں بے پناہ سچائیاں ایسے ہی بکھری پڑی ہیں، ہر کوئی اپنے دامن کی وسعت کے مطابق کچھ سچائیاں سمیٹ لیتا ہے مگر پھر بھی ان گنت سچائیاں ایسی رہ جاتی ہیں جو ہماری جھولی میں کبھی نہیں سما پاتیں۔
انسان کے بعد اس کائنات کی سچائیوں کا سب سے بڑا مجموعہ ہمیں کتابوں اور صحیفوں میں ملتا ہے، صحیفہ یعقوبیہ میں لکھا ہے کہ خیر و شر ہماری طرف سے ہیں، دھوکہ دینے والا بھی ہماری طرف سے ہے اور دھوکہ کھانے والا بھی اور دھوکہ از خود بھی ہماری ہی طرف سے ہے۔۔ اور یہ دنیا ایک دھوکے کا گھر ہے، تمہارے لیے بہتر ہوگا کہ اس کے فریب میں مت آنا۔،،
اسی زرد موسموں کی کتاب میں ایک شاندار فقرہ ہے کہ ہم تیسری دنیا کے باسیوں کے ذہن میں کوئی اچھا خیال مشکل سے ہی آتا ہے تو ہم عظیم انسان جو اس تیسری دنیا کے تعفن زدہ کوڑے خانے میں جی رہے ہیں زندگی کو ایسا ہی پاتے ہیں، ناقابلِ فہم اور ناقابلِ اعتبار، دھوکوں، اذیتوں اور خرابیوں سے بھری مگر انسان بھی عجیب ہے جو اذیت ناک، درد انگیز اور قابلِ رحم حالتوں میں بھی زندگی سے جُڑا رہنا چاہتا ہے۔۔۔۔
احسن سلیم نے کہیں بڑے مزے کا فقرہ کہا تھا کہ اس لامحدود کائنات میں انسان محدودات کا شکار ہے۔۔۔۔،،
جن لوگوں سے ہمیں از حد محبت ہوتی ہے وہ ایک دن ہمیں چھوڑ جاتے ہیں اور ہم ان کا سوگ منانے کے لیے پیچھے رہ جاتے ہیں، اپنے محدودات کا شکار، بے بس، حیران اور تہی داماں۔۔۔۔
جس چہرے کی چاہت کی اور جن آنکھوں سے پیار کیا
اُن آنکھوں نے اک دن مجھ کو حیرت سے دوچار کیا،،
زندگی میں اگرچہ سب سے بڑا خوف موت کا ہوتا ہے مگر اس کے علاوہ بھی کئی طرح کے اوہام، وساوس اور خوف عمر بھر ہمارا احاطہ کیے رہتے ہیں، تنہائی کا خوف، بھوک کا خوف، ذلت کا خوف، اپنوں کے بچھڑ جانے کا خوف، معاش کے مسائل، فنا اور بقا کے جھگڑے، ہست اور نیست کے مسائل۔۔۔
ایک شعر کہا تھا۔۔۔۔۔
فنا، بقا کے عجب بھید ہیں جو کھُلتے نہیں
جو کھُل رہی ہے فقط نیلگوں سی حیرت ہے،،
ایسی ان گِنت نیلمیں اور سرمئی حیرتیں اس کتاب میں بکھری پڑی ہیں۔۔۔ موت کا شکار ہونے والا ننھا وجود کبھی پرندہ بن کر گھر کی منڈیر پر آبیٹھتا ہے، کبھی آنکھوں میں اشکوں کی صورت جھلملاتا ہے، کبھی خواب بن کر راتوں کو آسودہ کرتا ہے، کبھی قبر پر اُگے کسی پھول کی صورت میں نظر آتا ہے جس کی خوشبو بڑی مانوس معلوم ہوتی ہے مگر خوشبو کسی کی گرفت میں کب آتی ہے۔۔؟
ارشد رضوی کی کہانیوں میں فقط انسان ہی کردار نہیں ہوتے بلکہ دھوپ، سائے، گھر، مکان، عمارتیں، منڈیریں، سڑکیں، گلیاں، قبرستان، چھپکلیاں، سانپ، مینڈک، سمندر، دھوپ، چیلیں، درخت، پرندے، پھول، خوشبو سب زندہ کردار ہیں۔۔۔ یہاں رات ایک پچھل پیری ہے اور وقت ایک سخت گیر حاکم ہے، اپنے باسیوں سے انجان شہر اپنے ہی کسی نادیدہ دکھ میں مبتلا ہے، گلیاں شکوہ کناں ہیں، مکانات گلہ گزار ہیں تو قبرستان بے بس پڑے ہیں، سورج ایک خونخوار درندہ ہے اور بے شرم ننگا چاند سب کو ایک کمینی خاموشی سے دیکھتا رہتا ہے، سڑکیں بھوکی ہیں اور دنیا پاگل ہوچکی ہے۔
ایک آدمی ہے جسے اس بے معنی تماشے کو بامعنی اور پُراثرکہانیوں میں ڈھالنے کی اذیت سونپی گئی ہے اور وہ اپنا فرض سمجھ کر اس ذمے داری کو نبھائے چلا جارہا ہے کہ ادب کی تعمیر و تشکیل ایک سنجیدہ سماجی سرگرمی ہے۔
اپنی پہلی کہانی سے لے کر آج اس کتاب، زرد موسم کی یاد داشت تک جسے ارشد رضوی نے علامتی خود نوشت کا نام دیا ہے، ارشد رضوی ایک خوبصورت، گہرا اور دلچسپ شخص نظر آتا ہے جو ایک حیرت انگیز اور باکمال لکھاری کے طور پر ادبی منظرنامے میں موجود ہے۔ ارشد رضوی نے اپنے دو افسانوی مجموعوں کے ذریعے اردو ادب کے ذخیرے میں حیرت انگیز، دلچسپ اور انوکھی کہانیوں کا اضافہ کیا ہے۔
یہ تازہ کتاب، زرد موسم کی یادداشت، کیسی ہے اور اسے اردو فکشن میں کس مقام پر رکھا جائے گا یہ طے کرنا نقادوں کا کام ہے یا اس بارے میں سب سے مستند رائے وقت دے گا جو ہست ونیست کے تمام معاملات کا سب سے بڑا عینی شاہد ہے۔
ہم تو اپنے طور پر ادب اور آدمی کے ذریعے زندگی کی سچائیوں کو کھوجنے میں لگے ہوئے تھے جب ارشد رضوی نے بڑی محبت سے اس کتاب پر اظہارِ خیال کی دعوت دی، تو ایسے ہی برسبیلِ تذکرہ ایک تازہ واقعہ یاد آگیا۔۔۔۔۔
ابھی کچھ عرصہ قبل ترکی میں زلزلہ آیا۔۔۔۔ ایک عمارت تھی جس میں کچھ فلیٹس تھے جن میں کچھ لوگ رہتے تھے۔۔۔ مالک مکان نے دھونس دھمکی سے کرایہ بڑھادیا اور مجبور کرائے دار کو اس کی بات ماننا پڑی کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔۔۔
تین دن بعد زلزلہ آیا اور پوری عمارت زمیں بوس ہوگئی، نہ کوئی مکان رہا، نہ مالک مکان اور نہ کوئی کرائے دار۔۔ مالک مکان کے بیوی بچے بھی مرگئے اور کرائے دار کے بھی، اگلے دن دونوں یو این او کے ریلیف کیمپ میں بیٹھے ایک دوسرے کی شکلیں دیکھ رہے تھے۔۔
ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد
عالم تمام حلقہءِ دامِ خیال ہے،،
(ڈاکٹر ارشد رضوی کی کتاب زرد موسم کی یادداشت، کی تقریبِ پذیرائی میں پڑھا گیا)
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page