لٹریچر فیسٹیولز اور جشنِ ادب و ثقافت کے انعقاد کا رجحان آج کل بڑے پیمانے پر مقبول ہو رہا ہے، جو ایک خوش آئند تبدیلی ہے۔ ان تقریبات کے ذریعے نہ صرف شعراء، ادباء اور دیگر فنکاروں کی عزت افزائی ہو رہی ہے بلکہ معاشرتی اور تہذیبی اقدار کو بھی فروغ مل رہا ہے۔ تاہم، ان فیسٹیولز کے اصل مقاصد حاصل کرنے کے لیے منتظمین کو دو اہم نکات کا خاص خیال رکھنا ہوگا۔
پہلا نکتہ یہ ہے کہ ان تقریبات میں فلمی دنیا سے وابستہ فنکاروں کے بجائے شعر و ادب سے وابستہ شخصیات کو اولیت دی جائے۔ اس سے ان تقریبات کا مقصد محض تفریح یا لذت کشی کے بجائے عقل و دل کی اپیل اور علمی مکالمے کا فروغ بن سکے گا۔ دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ ان فیسٹیولز کو کارپوریٹ کلچر کا آلہ کار بننے سے محفوظ رکھا جائے۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ یہ تقریبات انسانی ذہن و دل کو غذا فراہم کرنے کے بجائے کارپوریٹ اداروں کے مفادات کی تکمیل کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ مفید و غیر مفید مصنوعات کے اشتہارات کا حد سے زیادہ غلبہ یہ تاثر دیتا ہے کہ یہ فیسٹیول عام انسانوں کے بجائے کارپوریٹس کے مفادات کے لیے منعقد کیے جا رہے ہیں۔
حال ہی میں مجھے انڈیا ٹوڈے گروپ کے زیرِ اہتمام منعقدہ "ساہتیہ آج تک” فیسٹیول میں شرکت کا موقع ملا۔ اس فیسٹیول کا پرائم اسپانسر ایک ایسی کمپنی تھی جس کے پروڈکٹس انسانی صحت کے لیے مضر سمجھے جاتے ہیں اور اس کا اعتراف خود انھیں بھی ہے۔یہ حیرت انگیز اور افسوس ناک تھا کہ ایک ادبی فیسٹیول میں ایسی مصنوعات کی تشہیر کی جا رہی تھی جو انسانی صحت کے لیے بےحد مضر ثابت ہوئی ہے۔ مزید یہ کہ اس بار فیسٹیول میں شرکت کے لیے ٹکٹ کی فیس پانچ سو روپے رکھی گئی تھی، جو شاید شرکت کنندگان کی کم تعداد کی ایک بڑی وجہ بنی۔ ایک اسٹیج کو چھوڑ کر بقیہ تمام اسٹیجز پر کرسیوں کا خالی رہنا اور حاضرین کی غیر حوصلہ افزا تعداد اس بات کا ثبوت تھا کہ یہ حکمتِ عملی کامیاب نہیں رہی۔ ہاں شام کے وقت مشارکین کی تعداد میں تھوڑا اضافہ ضرور ہوا، لیکن اسے بھی قابلِ ذکر نہیں کہا جاسکتا۔
تمام اسٹیجز پر فلمی ستاروں کی موجودگی کو دیکھ کر ہم آگے بڑھ گئے اور بک اسٹالز کی طرف پہنچے تو ایک اور مایوس کن حقیقت سامنے آئی۔ اردو کے کسی بھی پبلشر کی موجودگی نہ تھی، حتیٰ کہ ساہتیہ اکادمی نے بھی اپنے اسٹال پر اپنی اردو مطبوعات پیش نہیں کی تھیں۔ میں نے اپنی پسند کی کچھ ہندی کتابیں خریدیں اور اسٹال کے منتظم سے فروخت کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے گلوگیر آواز میں کہا کہ اسٹال تو فری میں فراہم کیا گیا ہے لیکن فروخت اتنی کم ہے کہ کتابوں کے لانے لے جانے کا خرچہ بھی پورا نہیں نکل پا رہا ہے۔ طلبہ اور قارئین کی غیر موجودگی کا ایک اہم سبب فیس کی زیادتی اور تفریحی پروگراموں کی بھرمار تھی۔ انھوں نے کہا کہ پانچ سو روپے فیس دینے کے بجائے طلبہ دریا گنج سے دو کتابیں خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں، اور وہ یوٹیوب اور ٹی وی پر آسانی سے نظر آنے والے فلمی ستاروں یا شخصیات کو دوبارہ دیکھنے کے لیے یہاں تک کا سفر کیوں کریں گے اور اتنا خرچ کیوں کریں گے؟ مجھے لگا کہ مارکیٹ اسٹریٹجی کو جس قدر آسانی سے وہ بیان کر رہا ہے وہ انڈیا ٹوڈے گروپ کے منتظمین کے لیے سمجھنا کتنا مشکل ہوگا! کتابوں کی خریداری کر ہی رہے تھے کہ معروف شاعرہ محترمہ علینا عترت صاحبہ اور محترمہ نصرت مہدی صاحبہ نظر آئیں، سلام کلام ہوا اور امریکہ کے سفر کے تجربات سن کر ہم نے اگلے اسٹال کا رخ کیا۔
فیسٹیول کے ایک مثبت پہلو کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔ "ساہتیہ آج تک” نے ایک منفرد کوشش کی جس میں قارئین کو کتاب پڑھنے کی دعوت دی گئی۔ تیس منٹ تک کتاب پڑھنے والے افراد کو ایک کوپن دیا گیا، جس کے ذریعے وہ کسی بھی اسٹال سے پچاس فیصد رعایت پر کتاب خرید سکتے تھے۔ یہ ایک خوش آئند اور منفرد پہل تھی، جو قارئین کو مطالعے کی جانب راغب کرنے میں مددگار ہو سکتی ہے۔ یہ واحد جگہ تھی جو ہمیں واقعی متاثر کرنے میں کامیاب رہی اور تصویر اتروانے پر آمادہ کرگئی۔ قارئین کو دوبارہ کتابوں کی طرف راغب کرنے کے لیے ناشرین اور اداروں کو ایسی تخلیقی حکمتِ عملی اختیار کرنی چاہیے۔ "قاری غائب لٹریچر” کے دور میں مطالعے کے رجحان کو فروغ دینا آج ادب کی سب سے بڑی خدمت ہے۔ اس لیے قارئین کو مطالعے کی طرف راغب کرنے کی اس نوعیت کی کوششوں کو فروغ دیا جانا چاہیے۔ ناشرین اور تعلیمی اداروں کو بھی اس طرح کے اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ کتاب اور قاری کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو ختم کیا جا سکے۔
ایسے فیسٹیولز کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ یہ ذہنی و فکری ارتقاء کا ذریعہ بنیں، نہ کہ محض سستی تفریح یا تجارتی سرگرمیوں کا۔ جب تک یہ تقریبات حقیقی معنوں میں ادب، علم، اور شعور کی ترویج کے لیے استعمال نہیں ہوتیں، ان کے انعقاد کا مقصد مکمل طور پر حاصل نہیں ہو سکے گا۔ اس لیے پروگرام کو ترتیب دیتے ہوئے تقریبات کے منتظمین کو اس حوالے سے چوکنا رہنا چاہیے ورنہ صرف جشن اور فیسٹیول منعقد کرنا ہی مقصد بن کر رہ جائے گا، جو "قاری غائب لٹریچر” کے ماحول میں کھوکھلی اسٹریٹجی ہی کہلائے گی۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page