حال ہی میں مجھے دہلی کی تاریخ کا اولین نشان، لال کوٹ قلعے، کے معائنے و مشاہدے کا موقع ملا۔ مہرولی کے قریب واقع سنجے ون میں موجود اس قلعے کی شکستہ دیواروں کے بیچ پہنچا تو وہاں مجھ پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی، جیسے صدیوں پرانی کہانیاں اپنی خاموش زبان میں مجھے پکار رہی ہوں۔ ہر پتھر، ہر دیوار، اور ہر کونے میں ایک تاریخ دفن ہے جو دہلی کے وجود کا آغاز اور اس کے ارتقاء کی گواہی دیتی ہے۔ ان شکستہ دیواروں کو دیکھتے ہوئے، میرا ذہن تاریخ کے ان اوراق میں گم ہو گیا جہاں دہلی کے بسنے کی کہانیاں لکھی گئیں۔ لال کوٹ، جو دہلی کے اولین شہری علاقے کی بنیاد ہے، آج بھی اپنے اندر کئی صدیوں کی تاریخ، ثقافت، اور سیاسی تبدیلیوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔
لال کوٹ قلعے کی بنیاد 1060 عیسوی میں تومر راجپوت حکمراں، راجہ اننگ پال دوم نے رکھی تھی۔ یہ قلعہ نہ صرف ایک مضبوط فوجی مرکز تھا بلکہ دہلی کی اولین بستی کا بھی مرکز تھا۔ تومر حکمرانوں نے اس علاقے پر 700 عیسوی سے حکمرانی کی، جس کے آثار آج بھی جنوبی دہلی کے سورج کنڈ کے قریب دیکھے جا سکتے ہیں۔ راجہ اننگ پال نے لال کوٹ کو دہلی کی بنیاد کے طور پر تعمیر کیا، اور یہاں ایک منظم بستی بسائی۔ بارہویں صدی میں چوہان راجپوتوں نے دہلی پر قبضہ کیا اور راجہ پرتھوی راج چوہان کے دور میں لال کوٹ کو مزید وسعت دی گئی۔ اس قلعے کو نئے نام،”قلعہ رائے پتھورا“، سے جانا گیا۔ پرتھوی راج چوہان نے نہ صرف قلعے کی فصیل کو مضبوط کیا بلکہ اس کے ارد گرد نئے علاقے بھی آباد کیے۔
چندر بردائی کی مشہور تصنیف ”پرتھوی راج راسو“ میں ذکر ملتا ہے کہ دہلی شہر کو ”دہلی“ کا نام راجہ اننگ پال نے دیا تھا۔ اننگ پال کی جانب سے تعمیر کردہ یہ قلعہ کئی کلومیٹر پر محیط تھا اور اس کی دیواروں کے نشانات قطب مینار کے قریب واقع ان شکستہ دیواروں کے بیچ دیکھے جا سکتے ہیں۔ بارہویں صدی کے اواخر میں، دہلی پر قبضے کا خواب لیے محمد غوری نے جب راجپوت حکمرانوں کے خلاف مہم شروع کی اور پہلی جنگِ ترائن (1191 عیسوی) میں راجپوتوں نے غوری کو شکست دی، مگر ان کے اعزاز کے ضابطے کے تحت انھیں رہا کر دیا گیا۔ تو اگلے ہی سال قوت کو مجتمع کر کے انھوں نے پھر حملہ کیا اور دوسری جنگِ ترائن میں محمد غوری نے راجپوتوں کو شکست دے کر پرتھوی راج چوہان کو قید کر لیا۔ محمد غوری کی فتح کے بعد لال کوٹ اور قلعہ رائے پتھورا اسلامی سلطنت کے قبضے میں آگئے۔ محمد غوری نے دہلی کو اپنا مرکز بنایا اور اپنے آزاد کردہ غلام اور بہادر جرنیل قطب الدین ایبک کو دہلی کا نائب مقرر کیا۔ قطب الدین ایبک نے لال کوٹ میں کئی تعمیراتی منصوبے شروع کیے، جن میں قطب مینار اور قوت الاسلام مسجد شامل ہیں۔ کئی مؤرخین کا کہنا ہے کہ ان تعمیرات میں ہندو اور جین مندروں کی باقیات کا استعمال کیا گیا، جس کی جھلک آج بھی ان عمارتوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔
1206 میں محمد غوری کے قتل کے بعد، قطب الدین ایبک نے خود کو دہلی کا سلطان قرار دیا اور غلام خاندان کی بنیاد رکھی، جس نے دہلی پر 80 سال سے زائد عرصے تک حکمرانی کی۔ اس خاندان کے ایک اور عظیم حکمران، شمس الدین التتمش نے قطب مینار کی تکمیل اور قوت الاسلام مسجد کی توسیع کی۔ قطب خاندان کے بعد خلجی خاندان نے اقتدار سنبھالا۔ علاؤالدین خلجی، جو اس خاندان کا سب سے طاقتور حکمراں تھا، نے لال کوٹ کے قریب کئی اہم عمارتیں تعمیر کیں۔ انہوں نے علائی مینار کی بنیاد رکھی، جو قطب مینار سے دوگنا اونچا ہونا تھا، اور علائی دروازہ تعمیر کیا۔ علاؤالدین خلجی نے قلعہ سِری کی بھی تعمیر کروائی، جو ایک فوجی کیمپ کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔
لال کوٹ کے موجودہ آثار زیادہ تر مہرولی کے جنگلات میں محفوظ ہیں۔ ان شکستہ دیواروں کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ قلعہ کس قدر وسیع اور مضبوط تھا۔ 1992 سے 1995 کے دوران محکمہ آثارِ قدیمہ کے ادارے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) نے یہاں کھدائی کرائی، جس میں ”اننگ تال“، راجپوت دور کے برتن، سکے، اور دیگر اہم تاریخی اشیاء دریافت ہوئیں۔ اننگ تال، جو لال کوٹ کے مرکز میں واقع تھا، راجہ اننگ پال کی تخلیقی سوچ اور انجینئرنگ کا مظہر ہے۔ بدقسمتی سے یہ تالاب آج جنگل کے بیچ چھپا ہوا ہے، اور وہاں تک پہنچنے کا کوئی منظم راستہ تک نہیں۔ لال کوٹ کی موجودہ دیواریں، جو قطب مینار کے قریب واقع ہیں، وقت کے ساتھ شکستہ ہو چکی ہیں۔ 2007 اور 2009 میں اے ایس آئی نے ان دیواروں کے تحفظ کی کوشش کی، مگر زمین کے تنازعے کی وجہ سے کام رک گیا۔ دہلی ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے) کی زمین پر یہ دیواریں واقع ہیں، اور اس کے باعث ان کی حفاظت کا کام اٹک کر رہ گیا اور آج تک مکمل نہیں ہو سکا۔
دہلی کے نام کی کئی کہانیاں ہیں، جن میں سب سے مشہور یہ ہے کہ اس علاقے کو ”دہلی“ یا ”دھلی“ کا نام راجہ اننگ پال نے دیا۔ کچھ مؤرخین کے مطابق دہلی کا نام ”راجہ دہلو“کے نام پر رکھا گیا تھا، جو 800 قبل مسیح میں یہاں کا حکمراں تھا۔ تاہم، اننگ پال کی تعمیرات اور لال کوٹ قلعے کی بنیاد دہلی کو اس کا موجودہ مقام دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ لال کوٹ کی اہمیت محض ایک قلعے کی نہیں بلکہ یہ دہلی کی اولین شہری بستی کا مرکز تھا۔ اس نے دہلی کی تاریخ میں ایک سنگِ میل کا کردار ادا کیا، جہاں مختلف ادوار میں تومر، چوہان، غوری، اور ترک حکمرانوں نے اپنی چھاپ چھوڑی۔ یہ قلعہ نہ صرف ایک فوجی مرکز تھا بلکہ دہلی کی ثقافتی اور سماجی زندگی کا بھی محور رہا۔ راجہ اننگ پال کی تعمیرات سے لے کر قطب الدین ایبک اور علاؤ الدین خلجی کے دور تک، لال کوٹ نے کئی اہم تاریخی واقعات کا مشاہدہ کیا۔
لال کوٹ کی شکستہ دیواریں ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ عظیم سلطنتیں اور ان کے آثار بھی وقت کے ساتھ زوال پذیر ہو سکتے ہیں۔ تاہم، ان کی تعمیرات اور تاریخ ہمیں ان کے عروج و زوال کی کہانی سناتی ہیں۔ دہلی کے شہریوں کے لیے لال کوٹ محض ایک آثار قدیمہ کا مقام نہیں، بلکہ ان کی تاریخ اور وراثت کا حصہ ہے۔ لال کوٹ کا معائنہ کرتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں وقت کے ساتھ پیچھے جا رہا ہوں۔ ان دیواروں کو دیکھتے ہوئے راجہ اننگ پال، پرتھوی راج چوہان، اور محمد غوری جیسے عظیم کرداروں کی شبیہیں ذہن میں گردش کرنے لگیں۔ لال کوٹ نہ صرف دہلی کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے بلکہ یہ ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ تاریخ کو محفوظ رکھنا اور اس سے سبق لینا کتنا ضروری ہے۔ دہلی کی موجودہ شکل اس قدیم قلعے کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی، اور اس کے تحفظ کے لیے مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔ لال کوٹ کا دورہ ا یک یادگار تجربہ تھا جو تاریخ کے اوراق میں گم ایک سنہرے باب کی یاد دلاتا ہے۔لال کوٹ قلعے میں چہل قدمی کرتے ہوئے یہ احساس شدت اختیار کر رہا تھا کہ یہ صرف پتھر اور دیواروں کا مجموعہ نہیں، بلکہ تاریخ کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہے۔ یہ قلعہ دہلی کی بنیاد، اس کے عروج و زوال، اور مختلف ادوار کی کہانیوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ لال کوٹ کے باقیات کو محفوظ کیا جائے اور اس کی تاریخی اہمیت کو اجاگر کیا جائے، تاکہ آنے والی نسلیں اپنی تاریخ سے جڑ سکیں۔ لال کوٹ کا معائنہ محض ایک سفر نہیں بلکہ ماضی کے اوراق میں جھانکنے کا موقع تھا، جہاں دہلی کی بنیاد رکھی گئی اور تاریخ کے اہم باب لکھے گئے۔
٭٭٭
(موبائل: 8539054888)
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page