[قسط دوم]
صفدر امام قادری
استاد شعبۂ اردو،کالج آف کامرس آرٹس اینڈ سائنس ،پٹنہ
[گذشتہ سے پیوستہ]
طارق متین عظیم آباد میںآندھی اور طوفان کی طرح آتا اور پھر بہت دنوں تک اس کا کچھ َاتا پتا نہیںرہتا۔عظیم آباد میں اُس کی آمد چند گھنٹے اور چند دن کی نہیں ہوتی۔ہفتہ عشرہ تویقیناً وہ شہر کی ادبی گلیوں اور اڈّوں میں گھومتا پھرتا ۔جس ادیب کے گھر آپ جایئے تو معلوم ہوگا کہ آج طارق متین نام کا ایک نیا شاعر وہاں حاضرہوا تھا ۔پھلواری شریف میں سلطان اختر سے لے کر پٹنہ سٹی میں رمز عظیم آبادی کے گھر تک ،سبزی باغ کے ہو ٹل، کتاب کی دکانیں اور ادیبوں شاعروں کے اڈّوں پر پہنچنے والا وہ پہلا آدمی ہوتا۔ہم عصر شاعری کا ایسا چسکا کہ سیکڑوں نئے اور انوکھے شعراکے اشعار اُس کی زبان پر ہوتے۔ کلاسیکی شعرا کا انداز بھی اُسے مرغوب تھا اور عرفان صدیقی بھی اُسے بے حد عزیزتھے۔دیکھتے دیکھتے طارق متین عظیم آباد کی ادبی برادری میں اپنی موجودگی درج کرانے میں کامیاب ہوگیااور ایک طرح سے اس کا لازمی حصہ ہو گیا۔اب ہمیں بھی یہ انتظار رہنے لگا کہ کب طارق متین لکھمنیاسے واردِ عظیم آباد ہوگا اور سرگرمی کے ساتھ ڈھیر سارے ادیبوں اور شاعروں سے اُس کی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
اِسی دوران ایک روز اُس کی آمد ہوئی اور ایک نئے رسالے پر بات چیت شروع ہوگئی ۔اُس نئے رسالے کا نام ’علم و ادب‘ طے ہوا۔ اب یاد نہیں کہ یہ نام طارق متین کا خود تجویز کردہ تھا یا تبادلۂ خیالات میں یہ نام اُبھر کر سامنے آیا ۔اُ س کے پاس اپنے گاؤں سے تعلق رکھنے والے دو چار شعرا کے کلام کے علاوہ غالباً کوئی اور تخلیق نہیں تھی ۔ رسالے میں اُن کی مالی معاونت چودھری حسان الزماں کر رہے تھے۔ اِس لیے یہ طے ہوا کہ وہ چیف ایڈیٹر ہوں گے اور طارق متین ایڈیٹر رہیں گے۔ نئے مواد کی تلاش و جستجو شروع ہوچکی تھی۔میں نے عظیم آباد کے مختلف شعرا و ادبا سے انھیں رابطہ قائم کرنے کو کہا ۔ احمد یوسف نے اپنا ناولٹ دے دیا ۔ رمز عظیم آبادی اور خورشید اکبر کی غزلیں آ گئیں ۔ اتفاق سے مظہر امام صاحب واردِ عظیم آباد ہوئے تھے۔ ایک سوال نامہ تیار کرکے میں خود طارق متین کو لے کر اُ ن کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُن سے ایک انٹر ویو کی درخواست کی گئی ۔یہ یاد رہے کہ طارق متین اب بھی ایم۔اے کی منزلوں سے سرفراز نہیں ہوئے تھے اور دس بیس غزلوں سے آگے کا اُن کا کوئی سلسلہ نہیں بڑھا تھا۔ نثر لکھنے کی مشق بھی نہیں تھی ۔ میں نے مظہر امام صاحب سے یہ گزارش کی کہ لڑکا نیا اور ناتجربہ کار ہے ، اِس لیے وہ اپنے جوابات لکھا دیں ۔مظہر امام صاحب نے ہو بہو یہی کیا ۔اُس زمانے میں صلاح الدین پرویز کو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ملا تھا اور ہر طرف ایک شور برپا تھا۔میں نے ناول ’آئڈنٹٹی کارڈ ‘ پر محمود ہاشمی کے طویل مقدمے کو موضوع بناتے ہوئے ایک نرم گرم مضمون لکھا تھا۔ طارق متین نے کہا کہ اِسے مہمان اداریے کے طور پر شامل کر لیا جائے ۔ رسالے کی کتابت کی ذمہ داری ہمارے شاگرد فیاض احمد کے سپرد ہوئی اورایک مہینے میں رسالہ چھپ کر سامنے آگیا۔ طارق متین نے اُس رسالے کو ملک بھر کے ادیبوں اور شاعروں تک پہنچانے کا انتظام کیااور دیکھتے دیکھتے نئے رسائل کی بھیڑ میں’ علم و ادب ‘اپنے پہلے شمارے سے ہی ایک آشنااور معقول ادبی صحیفہ بن گیا۔ملک بھر سے طارق متین کو مبارک باد اور تعریف و توصیف کے خطوط آنے لگے اورساتھ ہی ساتھ نئی نئی تخلیقات بھی پہنچنے لگیں۔۱۹۹۱ء کا سال تھا۔طارق متین اگرچہ ایک نو آموز شاعرتھامگر ساتھ ساتھ وہ ایک اُبھرتا ہوا مدیر بھی بن گیا۔
اب طارق متین رسالہ نکالنے کے فن سے واقف ہو چکا تھااور خاندانی کاروبار کے سلسلے سے کلکتہ آنے جانے کا سلسلہ بھی پیدا ہو گیا۔پٹنہ سے بہتر چھپائی کے وسائل وہاںبہ آسانی مل گئے۔ اب زیادہ رنگ و روغن کے ساتھ’علم و ادب‘کے شمارے آنے لگے۔رسالہ مرتّب کرنے کا جو یہ چسکا لگا،طارق متین اِس سے کبھی آزاد نہ ہو سکا۔ کئی برسوں تک ’علم و ادب‘ کی بزم خاموش پڑی رہی، پھر سے ایک نیا شمارہ شائع ہو گیا اور طارق متین حلقۂ احباب میں یہ وعدہ کیے چل پھر رہا ہے کہ اب باقاعدگی سے یہ رسالہ نکلے گا مگر ہوا نہیں ۔وقفہ بڑھتا جاتا۔ اِس دوران شادی کے بعد لکھمنیا سے وہ مونگیر آکر بس گئے ۔گھر گرہستی کے ساتھ ادب کا بھی سلسلہ چلتا ہی رہا۔شاعری سے الگ رسائل نکالنے کے شوق کا اندازہ اِس سے کیا جا سکتا ہے کہ طارق متین نے اِس دوران تنِ تنہا یا کسی کے ساتھ مل کر جو چند رسالے شائع کیے ، اُن کے نام کچھ اِس طرح سے ہیں:آغاز،گُلبن ، گل و صنوبر ، سخن وراں۔ یہ تمام رسائل زیادہ غورو فکر اور اندرونی تیاری کے بغیر نکلے ،اِس لیے باقاعدگی ممکن نہیں تھی۔’سخن وراں ‘تو ایک ہی شمارہ نکل سکا ۔ ’آغاز ‘کے انجام تک پہنچنے میں دو شمارے شائع ہو سکے۔دو چار شمارے سے زیادہ الگ الگ ناموں کے اِن رسائل کی زندگی نہیں رہی۔ کبھی کبھی میں کہتا کہ یہ الگ الگ نام غیر ضروری ہیں’ علم و ادب‘ کے نام سے ہی پھر سے رسالہ نکلتا رہے۔مگر طارق متین کو کوئی دوست نئے نئے رسائل شائع کرنے کے اِس شوق سے دست بردار نہ کر سکا۔ گذشتہ دس برسوں میں طارق متین بھی نئے رسالہ شائع کرنے اور اُس کی دو سو چار سو کاپیاں ملک بھر میں تقسیم کرا دینے کے عمل سے غالباً تھک گیا تھا۔ اِس لیے اِس دوران اب کوئی نیا رسالہ سامنے نہیں آیا ۔ اِس طرح’ سخن وراں‘ اُن کی ادبی صحافت کا آخری نمونہ اور یادگارہے۔ جس کا اجرا پروفیسر لطف الرحمان کے ہاتھوں عظیم آؓباد میں ہوا تھا۔
طارق متین نے کم عمری میں شاعری شروع کر دی تھی اور اپنی سیماب صفتی کے سبب بہ عجلت کلام کو جِلد بند کرنے میں بھی مستعد رہے۔ ۲۹ برس کی عمر میں’ مُشکِ سخن‘ عنوان سے اُ س کا پہلا مجموعہ ۱۹۹۷ء میں شائع ہوا جس میں محض پچاس غزلیں شامل تھیں۔ ۲۰۰۸ء میں ۸۵غزلوں پر مشتمل مجموعہ ’قندیلِ ہنر ‘ شائع ہوا۔۲۰۱۶ء میں اُس وقت تک کی باقی ماندہ ستّر غزلوں کے ساتھ’غزالِ درد‘ مجموعہ شائع ہوا۔ میں نے طارق متین سے کہا کہ ابتدائی دونوں مجموعے موجود نہیں، اِس لیے ایک کلیات قسم کی چیز تیار کر لی جائے۔ ’ریاضتِ نیم شب‘ ۲۰۱۶ء میں میری نگرانی میں مکتبۂ صدف کی طرف سے شائع ہوا جس میں ۲۰۵ غزلوں کے علاوہ ایک حمد اورایک نعت بھی شامل ہے۔۲۰۱۸ء میں اُس چہرے کے نام ،عنوان سے دیوناگری رسمِ خط میں طارق متین کی ۱۲۵ غزلیں مکتبۂ صدف کی جانب سے شائع ہوئیں۔ اس کی ترتیب کا کام میں نے اپنی شاگرد ڈاکٹر افشاں بانو کے ساتھ مل کر کیا تھا۔۲۰۱۶ء کے بعد طارق متین نے جو غزلیں کہیں، بالخصوص اردو فورم، مونگیر کی طرحی نشستوں میں شمولیت کے لیے جو کلام لکھا اور پڑھا، وہ اِس سے الگ ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ ایسی تیس چالیس غزلیں بے شک بکھری ہوئی ہوں گی جن کی حفاظت اور کلیات میں ازسرِ نو شمولیت ضروری ہے ۔ طارق متین نے کچھ نظمیں بھی کہی تھیں، اُن کی بھی تلاش کر کے اِس نئے کلیات میں محفوظ کر لینا ہمارے ادبی فرائض کا حصہ ہونا چاہیے ۔
طارق متین کی شخصیت شروع سے ہی ایک شعلۂ مستعجل کی طرح تھی۔کسی آدمی نے اُس شخص کو زیادہ دیر تک ایک جگہ پر چین سے بیٹھے ہوئے نہ دیکھا ہوگا۔میرے گھر تو یہ عام سی بات تھی کہ کچھ دوستوں اور شاگردوں کے بیچ طارق متین اپنی گُل افشانیِ گفتار میں منہمک ہیں۔ طرح طرح کے شعر ، ادیبوں اور شاعروں کے واقعات اور خوش گپیوں کا دور چل رہا ہے۔ اچانک طارق متین محفل سے غائب ہو جاتا۔ مجھ سے مروّت کا ایک رشتہ تھا، اِس لیے سگریٹ پینے کے لیے وہ میرے گھر سے باہر نکل جاتا ۔ کبھی کبھی ہمارے کسی شاگرد نے دیکھا کہ سڑک کے کسی ہوٹل میں کچھ ناشتہ اور چائے بھی اِس وقفے میں وہ فرما رہے ہیں ۔واپسی پر میں نے شکایت کی کہ یہ سب کام تو گھرمیں ہوتا ہی رہتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سگریٹ پیتے ہوئے چائے کی طلب پیدا ہوگئی، چائے پینے بیٹھے تو گرم سموسے دیکھ کر کچھ کھا لینے کی اشتہا بھی جاگ اُٹھی۔ایسا سیکڑوں بار ہوتا رہتا تھاکہ طارق متین ہمارے گھر میں لوگوں کے بیچ سے چند لمحے کے لیے غائب ہوجاتا اور پھر تھوڑی دیر میں واپس آکر گفتگو کی مرکزی ڈور اپنے ہاتھوں میں سنبھال لیتا ۔
طارق متین کی آخری بیماریوں کو چھوڑ دیجیے تو وہ اِنرجی سے بھر ی ہوئی ایک شخصیت کا نام تھا۔ اِس کے پیچھے اُن کے مزاج کا دخل تو تھا ہی مگر اپنی تمام طرح کی بے توجہی کے برعکس صبح کی چہل قدمی کا مشغلہ بھی اسے بہت محبوب تھا۔ طارق متین جب پٹنہ میں ہو تو یہ ہمارے معمول کا حصہ تھا کہ وہ ڈیزی ہوٹل ، سبزی باغ سے نکل کر آٹو سے اِین ۔ آئی ۔ ٹی موڑ پہنچ جاتا اور پھر ہم پانچ سات کیلومیٹر تیز قدموں کے ساتھ چہل قدمی کرتے۔ طارق متین کی طرح چلنے میں میں بھی تیز رَو تھا، اِس لیے دوڑ کے انداز کی ہماری چہل قدمی خوب جمتی تھی۔ جب کبھی میں چار کیلو میٹر پر اُسے روکنے کی کوشش کرتا تو بہلا پھسلا کر ایک دو کیلو میٹر اور آگے لے جانے پر وہ کامیاب ہو جاتا۔ اپنی عادت کے مطابق بیچ بیچ میں رُک کر چائے اور سگریٹ کا اُس کا شوق جاگتا مگر میں اتنی دیر رکنے اور کسی دوسرے مشغلے میں شامل ہونے سے بازرکھنے میں ہمیشہ کامیاب ہو جاتا۔ گنگا کنارے کی یہ چہل قدمی اور ہانپتے دوڑتے شعر و ادب کی گفتگو ہماری زندگی کا وہ حصہ ہے جو شاید بھلائے نہ بھولے۔ کسی پروگرام میں شامل ہونے کے لیے جب میںمونگیر پہنچتااور اکثر طارق متین کی دعوت پر ہی ایسی گنجائش ہوتی، صبح سویرے طارق متین بایک سے ہوٹل پہنچ جاتا اور پھر ہم کمپنی باغ کے میدان اور گنگا کے کنارے اُسی طرح سے گھنٹا سوا گھنٹا دل جمعی کے ساتھ ٹہلتے۔
برسوں یہ معمول رہا کہ چہل قدمی کرنے کے بعد ہم دونوں گھر آتے۔ کبھی سورج نکل چکا ہوتا اور کبھی نکلنے کی باری ہوتی ۔ میں بغیر دودھ اور چینی کی گرین ٹی تیار کرتا۔ طارق متین کو کالی اور ہری چائے پسند نہیں تھی۔ مگر میرا ساتھ دینے کے لیے وہ شریکِ بزم ہوتا۔ پھل او ر بسکٹ میںوہ بہ خوشی شامل رہتا ۔ کبھی کبھا ر میں نے پوچھا کہ گرین ٹی جب پسند نہیں ہے تو پی کیسے لیتے ہو۔ اس کا سُلجھا ہوا جواب ہوتا: مجھے یہ معلوم ہے کہ یہ چیز مفیدہے ، اِس لیے یہ گوارہ کر لیتا ہوں ہر چند اُس کے ذایقے اور خوشبو سے مجھے کچھ اُنس پیدا نہ ہوا۔چاے نوشی کے دَور کے ساتھ ہم اپنے پسینے سکھاتے اور پھر طارق متین کی خواہش پر دودھ کی چائے تیار ہوتی۔ تب اُسے سیری حاصل ہوتی ۔میرے کچھ شاگرد بھی رفتہ رفتہ آنے لگتے ۔کچھ شاگردطارق متین سے گھل مل گئے تھے ۔ وہ تو اور پہلے آ جاتے تاکہ معمول کے درس سے پہلے زندہ ادبی درس کا حصہ ہو جائیں۔ بچوں کی پڑھائی شروع ہونے سے پہلے اگر ہماری بوا تشریف لے آئیں تو ہم ساتھ ساتھ ناشتہ بھی کر لیتے ورنہ کتنی بار یہ ہوا کہ میں طلبہ کو پڑھانے میں مصروف ہو گیا۔ طارق متین کنارے کی ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے کسی کتاب یا رسالے میں گم ہو جاتا ۔ایسا بھی ہوتا کہ اُسے معلوم تھا کہ یہ درس کا سلسلہ دو گھنٹے تک چلے گا، وہ کہتا :میں اِس بیچ قاسم خورشید کے یہاں سے ہو کر آتا ہوں ۔ وقت کی پابندی کے ساتھ گھوم کر پھر ہم لوگ اگلے پروگرام میں شامل ہو جاتے ۔ کون ایسا دن ہوگا جب کوئی ادبی منصوبہ نہ بنتا ہو اور پوری اردو دنیا کے مسائل پر ہم تبادلۂ خیالات نہ کرتے ہوں ۔
صبح کی محفلیں ہی محدود نہیں تھیں۔کالج سے واپسی کے بعد شام کی محفلیں بھی شروع ہو جاتیں۔ہمارے کچھ قریبی شاگردوں سے اس کا ایسا والہانہ رشتہ قائم ہو گیا تھا کہ وہ مجھے بتائے بغیر بھی انھیں فون کرکے بُلا لیتا ۔ نہ جانے کتنی بار ہوا ہوگا کہ میری واپسی سے پہلے آدھی ادھوری محفل میرے گھر پر جم چکی ہوتی ۔ ڈاکٹر تسلیم عارف ،ڈاکٹر الفیہ نوری اور ڈاکٹر افشاں بانو سے اُن کی شفقت حد سے سوا تھی۔ اب سب یہ بچے ہماری یو نی ورسٹیوں کے لائق و فائق اساتذہ میں شامل ہیں۔ طارق متین کی حیات رہتی اور پھر سے وہ شعر و ادب کے کوچے میں اپنے دوستوں کے بیچ آسکتا تو شاید مزید خوش ہوتا کہ جن کی تربیت میں وقتاً فوقتاًاس نے بھی اپنا خونِ جگر صر ف کیا ، وہ سب نسلِ نو کی تربیت میں باضابطہ طور پر لگ گئے ہیں۔ تسلیم عارف کو تو شاعری کی طرف راغب کرنے میں طارق متین کا بڑا ہاتھ تھا۔ اُس نے ایک ٹوٹی پھوٹی غزل کہہ رکھی تھی ۔ میرے کہنے پر اُس نے طارق متین کو اپنی غزل دکھائی۔ کچھ مصرعے طارق متین نے بدلوائے۔ کسی شعر کو نئے سِرے سے کہنے کے لیے اُکسایا اور دیکھتے دیکھتے اردو ادب میں ایک اُبھرتا ہوا نقاد شعری منظر نامے پر بھی دستکیں دینے کے لیے تیار ہو گیا۔ اُسی دوپہر میں ادارۂ تحقیقات ِ عربی و فارسی میں شعری نشست طے تھی۔ ہم سب اُس میں جا رہے تھے۔ طارق متین نے تسلیم عارف کو ترنم کے ساتھ غزل پڑھنے کی مشق کرا دی ۔ گھنٹے بھر کے بعد تسلیم عارف شاعر کی حیثیت سے عظیم آباد کی محفل میں نہ صر ف یہ کہ شامل ہوئے بلکہ عمائدین ادب سے داد وصول کرنے میںبھی کامیاب ہوئے۔ تسلیم عارف نے ایک دو غزل اور کہہ لی تھی۔ اُسے لکھمنیا کے مشاعرے میںبھی طارق متین نے دعوت دے دی ۔ خدا کی مہربانی کہیے کہ ۲۰۱۶ء کا وہ وقت تھا ، تسلیم عارف کے پاس ابھی صرف تین غزلیںہوئی ہیں مگر وہ ہمارے ساتھ قطر،سعودی عرب اور کویت کے ادبی سفر پر نکل پڑے۔ عمرہ بھی کیا اور تین غزلوں کی بنیاد پر ہی تین ملکوں کی سیر کر کے واپس آئے۔ سفر میں تسلیم عارف کی مشق واحد نظیر بھی کمرے میں کراتے رہے۔طارق متین کے پاس پاسپورٹ نہیں تھا، اِس لیے وہ ہمارے ممالکِ غیر کے اس سفر کا حصہ نہیں بن سکا۔
طارق متین کی سیماب صفتی کا ایک ادبی حلقہ گواہ رہا ہے۔ وہ کب لکھمنیا سے مونگیر ،مونگیر سے پٹنہ ، پٹنہ سے کلکتہ اور اُسی طرح دلی پہنچ جائے گا، کوئی نہیں جانتا تھا۔ ۹۱۔۱۹۹۰ء کے بعد تین دہائیوں میں اُس نے ایسے ایک سو سفر ضرور کیے ہوں گے۔ پٹنہ کے مستقل اور غیر مستقل قیام کا دورانیہ الگ ہے جہاں ایک مدت تک ڈیزی ہوٹل کا ایک کمرہ اُس کے لیے مخصوص رہا ۔ جہاں وہ ٹھہرے یا نہ ٹھہرے، کرائے کی ادائیگی وہ باضابطہ طور پر کرتا رہا۔ طارق متین نے چوں کہ خود کو ملازمت کی زنجیروں سے نہ باندھا تھا، اِس لیے اُسے اِس گھومنے پھرنے میں بڑی مدد ملی۔ دلی کے ایک دو ہفتے میں دس بیس محفلوں کا حصہ بنا ، ایک ایک شاعر ادیب کے آستانے پر حاضری دی ۔ اپنے پُرانے تعلقات کی تجدید کی اورلوگوں سے نئے نئے ادبی منصوبوں پر گفتگو ہوئی۔اُبھرتے ہوئے شعراو ادبا، ریسرچ اسکالرز کے درمیان بھی اُسی طرح گھومتے پھر تے رہا۔پٹنہ ، کلکتہ اور دہلی جیسے شہروں میں طارق متین کے چاہنے والوں کی جو ایک بڑی فوج نظر آتی ہے، اُس میں اِس بے غرض سلسلۂ ملاقات کا بھی بڑا دخل ہے۔ ہر شہر میں کچھ نہ کچھ نئے لکھنے والوں کی وہ شناخت کر لیتا ۔یو نی ورسٹیوں کے ریسرچ اسکالرز میں اکثر تازہ ترین ادب اور شاعری سے بے شغفی عام ہے ۔ طارق متین اُنھیں اپنے حلقے میںلے کر نئے شعرا کے کلام کی تھپکیاں دے دے کر ذہن سازی کرنے میں کامیاب ہوا۔ بہت سارے لوگوں کو موضوعات دے کر کتابیں لکھنے کے لیے ترغیب دیتا اور عملی معاونت بھی کرتا ۔ اِس طرح وہ نئے لکھنے والوں کی ٹھوس پُشت پناہی کرنے میںکامیاب ہوا ۔ کہیں کوئی اچھے شعر کہنے والا مل گیا، اُس کی مختلف مشاعروں اور پروگراموں میںمتعلقہ افراد سے سفارش کرتا۔خالد مبشر اور شہزاد انجم برہانی کو بزمِ صدف کی تقریبات میں مجھ سے کہہ کر بلوایا۔ اُس وقت تک یہ بہت نمایاں نام نہیں تھے مگر انھوں نے اپنی بہترین شاعری پیش کی۔ایک دہائی گزرتے گزرتے یہ سب مستند ناموں کی طرح سے نمایاں ہو چکے ہیں۔ اِسے انگریزی میں Talent Hunting کہا جاتا ہے اور اب رفتہ رفتہ شعبۂ ادب میں بھی باضابطگی کے ساتھ اِسے شامل کر لیا گیا ہے۔ طارق متین بے لوث طریقے سے اپنی طرف سے یہ کام کرتا تھا۔
پٹنہ کے اے۔ این ۔ سنہا انسٹی ٹیوٹ میں۲۰۱۶ء میں بزمِ صدف انٹر نیشنل کا عالمی سے می ناراور مشاعرہ تھا۔ سے می نارکا ایک جلسہ پروفیسر ناز قادری کی حیات و خدمات کے لیے وقف تھا ۔ مشاعرے کی صدارت سلطان اختر فرما رہے تھے۔ ملک بھر سے بہت سارے ادبا اور شعرا جمع تھے ۔ مشاعرے کے ا ختتام پر شکریے کی رسم ادا کرنے کے لیے میں جیسے ڈائس پر کھڑا ہوا ، طارق متین صفتِ سامعین میں سے بلند آہنگی کے ساتھ گویا ہوا کہ ایسا ایک سے می نار سلطان بھائی پر بھی ہونا چاہیے ۔ آس پاس بیٹھے لوگوں نے اتفاق کیا۔ منتظم کی حیثیت سے اُس رسمِ شکریہ کے دوران ہی میں نے یہ اعلان کیا کہ آیندہ سال سلطان اختر کی ادبی خدمات کے موضوع پر ایک عالمی سے می نار منعقد کیا جائے گا۔ میں نے دوسرا اعلان کیا کہ سلطان اخترکا کلیات بزمِ صدف شائع کرے گی اور اُن کا ایک انتخاب ِ کلام بھی شائع کیا جائے گا۔ میں نے یہ بھی اعلان کیا کہ سلطان اختر کے مصرعئہ طرح پر ایک عالمی مشاعرہ منعقد ہوگا ۔ اسٹیج سے اترتے ہی طارق متین نے مجھے گلے لگا لیا کہ ایک دوست کی فرمائش کا میں نے بھرم رکھ لیا تھا۔ اب یہ تاریخ کا حصّہ ہے کہ ایک سال کے اندر ہی بزمِ صدف نے سلطان اختر کی حیات و خدمات پر ایک عالمی سے می نار منعقد کیا۔ اُس موقعے سے سلطان اختر کا ضخیم کلیات’سرِشاخ طلب‘ شائع ہوا۔ سلطان اختر کی حیات و خدمات پر اکتالیس مضامین کا ایک بھرپور مجموعہ بھی مرتب کرکے شائع کیا گیا۔ سلطان اختر کی ۱۰۱ غزلوں کا انتخاب ’پسِ عرضِ ہنر ‘ کے نام سے شائع ہوا اور جو طرحی عالمی مشاعرہ ’کاسۂ دل سے لہو، آنکھوں سے پانی لے گیا‘ منعقد ہوا ، اُس کی صدارت شہپر رسول نے کی۔ سلطان اختر بہ نفیس موجود رہے۔ قطر، سعودی عرب، ایران ،دوبئی اور کینیڈا کے شامل ۴۱شعرانے اپنا طرحی کلام پیش کیا۔ ایسا اہتمام کسی زندہ شخصیت کے لیے بہت کم ہوتا ہے۔ طارق متین کے ذہن میں نہ جانے کس موقعے سے اپنے پیش رو بزرگ کی عزت افزائی کا خیال پیدا ہوا اور اتنا بڑا کام مکمل ہوا۔ تقریب میں طارق متین بھی پھولے نہ سماتا تھا۔ خدا اِس تمام نیکی کا اَجرطارق متین کو عطا کرے ۔ اب نہ طارق متین ہے اور نہ سلطان اختر مگر جو کچھ ہوا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page