موجودہ دور سماجی اقدار و روایات میں غیرمعمولی تبدیلیوں کا دور ہے اور ان کے تعلق سے عوام کی پسند و ناپسند بھی بہت تیزی کے ساتھ بدل رہی ہے۔ ان سماجی اقدار میں تبدیلی کا بنیادی ماخذ تیزرفتار صنعتی ترقی اور اس کے بطن سے پیدا ہونے والی مصنوعات اور وسائل ہیں جو ان کے استعمال کے تعلق سےانسانی ضروریات کو فوری طور پر کچھ اس انداز سے بڑھا کر پیش کر تے ہیں یا سامان تعیش کو انسان کی بنیادی ضرورت بتاکر اس طرح مروج اور مشتہر کر تے ہیں کہ عام آدمی سمجھتا ہے کہ اس کے بغیر اب چارہ نہیں ۔ ان ہی کے مدنظر آج کل جائز و ناجائز اور حلال وحرام کے تعلق سے مسلم معاشروں میں کافی غلط فہمیاں بھی پیدا ہوتی جارہی ہیں اور اسی کے ساتھ کچھ ابہام بھی در آتاہے ۔ سماج میں تعلیم ترقی، تہذیب، فیشن اور اقدار کے نام پر بہت ساری جائز اور قابل قدر چیزوں کے ساتھ کچھ ناروا، نازیبا اور اجنبی چیزیں بھی رواج پا جاتی ہیں جس سے عام آدمی تو دور خود علماء اور تعلیم یافتہ طبقہ بھی ان کے جواز اور عدم جوازکے تعلق سے خاصےکنفیوژن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ایک المیہ یہ بھی ہے مسلم دانشوروں کا ایک طبقہ سماجی ترقی کے دوران در آنے والے ان بنیادی عوامل اور جدید لادین نظریات کو معاشی ترقی اور معاشرتی فعالیت کے نام پر اسلام کے ڈھانچے میں کسی نہ کسی طرح شمولیت کیلئے کوشاں بھی رہتاہے ۔
جدید ترقی یافتہ دنیا میں فیشن اور اس سے ملحق لوازمات اب اربوں ڈالر کے منافع کے ساتھ ایک بہت بڑی اور ترقی یافتہ صنعت کی شکل میں ترقی کررہے ہیں۔فیشن کی مصنوعات کو پوری دنیا میں رائج کرنا ان صنعتوں کے مالکان کا بنیادی مقصد ہے جس کیلئے وہ لگاتار پوری دنیا بشمول اسلامی ممالک میں ایک مربوط حکمت عملی کے ذریعہ نافذ اور رائج کر تے جارہے ہیں۔ اگر مسلمانوں کی آدھی آبادی برقع ، عبایا اور نقاب میں رہ کر اپنا چہرہ، جسم اور لباس چھپا کر رہنا چاہتی ہے تو ان فیشن مصنوعات کی فروخت اور منافع کافی حد تک کم ہو جائے گا اسی لئے پوری دنیا میں ایک طرف فیشن انڈسٹری سے متعلق لوگ مسلم عورتوں کے پردے میں رہنے یا نقاب پہن کر باہر نکلنے پر سخت تنقید اور مخالفت کرتے ہیں، اور ان لوگوں نے کچھ اس طرح اس کا پروپیگنڈا کیا ہے کہ مسلم علماء اور دانشوروں اور عوام کی ایک بڑی تعداد عورتوں کے پردے کے تعلق سے خؤد بھی ابہام میں مبتلا ہوگئی اور لوگ اچھے خاصے کنفیوژن اور گو مگو کی کیفیت میں مبتلا رہتے ہیں اور اس بحث کے پیچھے چھپے مقاصد کو بھی سمجھنے سے قاصر ہیں۔
اسی طرح سے موجودہ دور کا ایک بہت بڑا فتنہ سود پر مبنی مالیات اور بینکنگ کانظام ہے جس نے پوری دنیا کو کچھ اس طرح اپنے گرد لپیٹ لیا ہے کہ اب اس نظام کے بغیر کسی معاشی زندگی اور صنعت و تجارت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ سود کی پر مبنی موجودہ مالیاتی و معاشی نظام اس دور کےپورے باطل اور استحصالی نظام حکومت کی بنیاد ہے جسے موجودہ عالمی نظام حکومت کو بنیاد اور مضبوطی فراہم کرنے والے بین الاقوامی ادارے ،عالمی بینک ، عالمی مالیاتی فنڈ یا اسی طرح کے دوسرے اداروں کے ذریعہ پوری دنیا بشمول عالم اسلام میں نافذ کر چکا ہے۔ یہ ادارے اور تنظیمیں غریب اور ضرورت مند ملکوں کو اپنی شرائط پر سودی قرض فراہم کرتے ہیں اور سودی نظام کا بنیادی نظریہ ہی اس بات پر مبنی ہے کہ دنیا کے ہر شخص کی چھوٹی سے چھوٹی آمدنی ، دولت یا بچت کو بینکنگ نظام کے ذریعہ کچھ اس طرح اکٹھا کر لیا جائے کہ عوام کے پاس ان کی قوت خرید کم ہوکر وہی پیسہ صنعت کاروں اور بڑے تاجروں کی تجارت کےلئے استعمال ہونے لگے۔ اس کو سرمایہ اور سرمایہ کاری کا نام دے کر چند دولتمندوں کے قبضہ اور اختیار میں دیدینا ہے تاکہ وہ دولتمند سرمایہ دار اپنی مرضی اور پسند کے مطابق سرمایہ کاری کرکے دنیا کے پیداواری وسائل پر قبضہ کرے اور اپنی مرضی سے من چاہی قیمت اور بھاری منافع کے ساتھ عام لوگوں کو وسائل آمدنی کو استعمال کرنے کی اجازت دے اور اس مشترکہ بچت اور اس کے ذریعہ ہونے والی آمدنی کا صرف ایک چھوٹا حصہ اصل مالکان کو سود کی شکل میں واپس کردے۔ عوام کو بھی ان کی ضروریات اور خواہشات کا باربار احساس دلا کر سودی قرض لینے کی طرف مائل کیا جاتا ہے تاکہ سرمایہ داروں کی صنعت اور پیداوار کا نظام جاری رہ سکے۔ اس وقت پوری دنیا میں سودی بینکنگ نظام عوام کے استحصال اور غربت میں اضافے کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ موجودہ بینکنگ نظام ایک استحصالی نظام مالیات و معیشت ہے جس میں صرف چند بڑے سرمایہ داروں اور تاجروں کے ذریعہ مختلف طریقوں سے عوام کا استحصال کیا جاتا ہے۔ جو آدمی بینک میں اپنا پیسہ جمع کرتا ہے اس کا بھی استحصال ہوتا ہے اور جو بینک سے قرض لیتا ہے اس بھی ہوتا ہے۔
ستم ظریفی یہ کہ مسلمانوں کا تعلیم یافتہ طبقہ بشمول علماء دین کی بڑی تعداد اس استحصالی نظام مالیات کو کسی نہ کسی طرح اسلام کا لبادہ اوڑھاکر عام لوگوں کو اس کا حصہ بنانا چاہتی ہے۔ علماء دین اب گاہے بگاہے اس نظام کے حق میں دلائل دیتے ہیں اور اب یہ عام وطیرہ بن گیا ہے کہ خواہ عام آدمی ہو، سیاست داں ہو یا عالم دین ، بیان دینے کے بعد کہہ دیتے ہیں کہ میرے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ لیکن سودی نظام میں عملی شمولیت سے علانیہ انکار اور اسے باطل نظام کا حصہ ماننے میں تامل کا اظہار بھی اب مسلمانوں درمیان عام ہوتا جارہا ہے۔ ۱۹۹۲ میں جامعتہ الرشاد اعظم گڑھ کے فقہی سیمینار میں جب ملک کے مخصوص حالات میں تاجروں اور دوکانداروں کے لیے اپنے مال اور صنعت و تجارت کے انشورنس کی اجازت اور اس کے حق میں سیمینار میں موجود علماء اور فقہاء کے ذریعہ دلائل دئے گئے تو اس کے فوراً بعد سے ہی اسے مسلم عوام اور خواص کے درمیان ہر قسم کے بیمہ کے لئے پذیرائی حاصل ہونا شروع ہوگئی اور اب سودی بینکنگ اور بیمہ نظام کے ہر عمل اور اس میں شمولیت کے حق میں فقہی دلائل موجود ہیں۔ موجودہ بینکنگ نظام اور اس سے حاصل ہونے والے سود کے حق میں ہندوستان کے کچھ علماء اور دانشور حضرات کتاب بھی تحریر کر چکے ہیں اور سود کو سود کہنےکے بجائے تجارت کا منافع کہتے ہیں اور اس کے حق میں دلائل کیلئے کتاب بھی شائع کرتے ہیں ۔ وہ دن دور نہیں جب مسلمانوں کے درمیان بینکنگ نظام پورا کا پورا جائز ہو جائیگا ۔ جب کہ اسلام میں سود کے حرام اور ناجائز ہونے کی بنیاد ہی اس کے ذریعہ عوامی استحصال اور ضرورت مند کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا ہے۔ بینکنگ سیکٹر کا یہ استحصال اور اس کا معاشی نظام ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بالکل اسی طرح آج بھی جاری ہے جس بنیاد پر اسے ناجائز اور حرام قرار دیا گیا تھا۔
موجودہ وقت جس طرح سے شیئر بازار میں سرمایہ کاری کو جائز اور برحق کہنےکے لئے ہر طرح کے دلائل دئے جارہے ہیں وہ بھی عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہے ، اس وقت ملک میں شییر بازار کا بڑا حصہ جائز شرطوں پر کی جانے والی سرمایہ کاری اور اس سے حاصل ہونے والے منافع کے بجائے سٹے اور جوئے کے طرز پر چل رہا ہے جس میں سرمایہ کاری کے جواز کیلئے بنیادی شرائط کی پابندی پر بہت کم لوگ عمل کرتے ہیں۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page