شیخ حسینہ علی محمد
(ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو، گجرات یونیورسٹی، احمدآباد۔ موبائل: 9068018655)
ترجمہ کسی بھی تہذیب کے پھیلاؤ اور رابطے کا ایک مضبوط ذریعہ ہے اورہر ذی شعور انسان نئی تبدیلیوں کا نہ صرف خواہشمند ہوتا ہے، بلکہ اپنی تہذیب سے ملتے جلتے اسالیب میں دوسرے معاشروں سے بھی ارتباط چاہتا ہےاور ان سے ہم آہنگی پیدا کرنے کی بھی کوشش کرتا ہے۔اس تناظر میں ترجمے کا عمل انتہائی اہمیت کا حامل ہوجاتاہے۔ کیونکہ ترجمہ نہ صرف ترقی کے نئے دروازے کھولنے اور دنیا کے مختلف خیالات و نظریات سےہمیں آشنا کرنے کا ذریعہ بنتا ہےبلکہ تہذیبوں سے آشنائی بھی فراہم کرتا ہے۔ ترقی کی جانب گامزن ہونے کی جستجو انسان کو نئی جہتوں کی طرف لے جاتی ہے، اور یہ ترجمہ ہی ہے جو اس کی تجسس کو تسکین بخشتا ہے۔یہ وہ عمل ہے جس میں ایک زبان کے مفہوم کو دوسری زبان میں منتقل کیا جاتا ہے، تاہم اس میں اصل متن کے خیالات اور اثرات کو محفوظ رکھا جاتا ہے۔ ترجمہ ایک ایسا فن ہے جو فکری، علمی اور تہذیبی ورثے کو ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کر کے علم کے دروازے کھولتا ہے۔اسی لیے قدیم زمانے میںبھی مختلف زبانوں میں تراجم کا سلسلہ جاری تھا۔ جیسے کہ یونانی فلسفیوں کی تصانیف کو بیت الحکمۃ اور دیگر اداروں کے ذریعے عربی میں ترجمہ کیا گیا، جس سے اسلامی دنیا میں فلسفے اور سائنس کی ایک نئی لہر اٹھی۔ پھر یوروپ کی نشاۃ ثانیہ کے زمانے میں بیت الحکمۃ کی مطبوعات کو یوروپی زبانوں میں منتقل کیا گیا۔ اسی طرح ہندوستان میں سنسکرت اور فارسی سے تراجم کی روایت رہی ہے، جس نے مقامی ادب اور ثقافت پر گہرا اثر ڈالا۔ ترجمہ کی تعریف میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ نہ صرف زبان کی حدیں پار کرنے کا عمل ہے بلکہ اصل متن کے مفہوم کو برقرار رکھتے ہوئے اسے نئی زبان اور نئے قارئین تک پہنچانے کا عمل ہے۔ ترجمہ کے اس عمل میں مترجم کا کمال یہ ہے کہ وہ تحریر کے اصل جذبات اور لہجے کو نئے رنگ میں اس طرح بیان کرتاہےکہ ترجمہ کی روانی اور شائستگی برقرار رہ سکے۔کیونکہ ترجمے کی بے دھیانی سے اصل معنی بگڑ سکتے ہیں۔
ترجمہ کی اہمیت اور ضرورت:
ترجمہ کی ضرورت کوئی جدید ایجاد نہیں بلکہ یہ انسان کے اولین دور سے ہی موجود ہے۔زمانہ قدیم سے ہی انسانوں کے ذریعے دوسرے افراد سے رابطہ قائم کرنے اور اپنی بات سمجھانے کے لیے جو اشارے یا علامات استعمال کیے جاتے تھے، وہ بھی ایک طرح سے ترجمے کا ہی حصہ ہیں۔یہ انسانی شعور کی ایک ایسی ضرورت ہے جس نے ہزاروں سال سے انسانوں کو مختلف تہذیبوں، زبانوں اور خیالات کے ساتھ جڑے رہنے کا موقع دیاہے۔ آج کے ترقی یافتہ دور میںترجمہ ایک بنیادی ضرورت بن چکا ہے؛ کیوں کہ جدید علوم و فنون کا پھیلاؤ اور اسے مختلف زبانوں میں شامل کرنے کا عمل ترجمہ ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ دراصل زبانیں آسمان سے نہیں اترتیں بلکہ ایک دوسری زبان کی کوکھ سےہی جنم لیتی ہیں۔ یوں موجودہ دور میں جب مختلف قومیں ترقی کی راہوں پر گامزن ہیں، ترجمے کا عمل کسی بھی ترقی پذیر قوم کے لیے ایک بنیادی ضرورت بن چکا ہے۔ جدید علوم و فنون کو اپنی تہذیب میں شامل کرنے کے لیے ترجمہ ہی وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعے ہم دیگر قوموں کے خیالات و افکار کو اپنی زبان میں منتقل کر سکتے ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تراجم کے بغیر کسی زبان میں وسعت، فصاحت و بلاغت نہیں آ سکتی۔ترجمہ کے ذریعے ہی ہم مختلف تہذیبوں کی رنگینیاں اور مختلف قوموں کی روایات اپنی زبان میں سمونے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اس لیے عربی، فارسی، انگریزی، فرانسیسی اور جاپانی ادب کے تراجم اردو زبان میں شامل کر کے اردو قارئین کو ان تہذیبوں سے روشناس کرایا گیا۔ مغربی اصناف جیسے ”ناول“، ”شارٹ اسٹوری“(افسانہ) ، ”اسکیچ“ (خاکہ) ، ”سانیٹ “اور جاپانی صنف ”ہائیکو“ کا اردو ادب میں تعارف اور اس کے دلچسپ انداز بیان کا سہرا بھی ترجمہ کے سر ہی جاتا ہے۔ ان کا اردو میں ترجمہ کر کے اردو قارئین کو ان اصناف کی خوبصورتی سے آشنا کیا گیا۔اور اب اردو ادب پر ان تراجم کے اثرات واضح ہیں ۔ ان کی بدولت اردو ادب میں نئے موضوعات اور خیالات کا اضافہ ہوا ہے۔ آج کے دور میں ترجمے کی افادیت اور بڑھ گئی ہے کیونکہ دنیا گلوبلائزیشن کے عمل سے گزر رہی ہے اور مختلف زبانوں کے لوگوں کا آپس میں رابطہ بڑھ رہا ہے۔ اس دور میں ترجمے کے ذریعے زبانوں اور تہذیبوں کے مابین رابطے کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ ترجمہ ادب میں تخلیق کا اضافہ بھی کرتا ہے اور نئے خیالات و اسالیب کو پیش بھی کرتا ہے۔ اس طرح ترجمے کے ذریعے مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کو ایک دوسرے کے قریب لایا جا سکتا ہے۔یہ تراجم ثقافتی رشتوں کو مضبوط کرتے ہیں اور مختلف قوموں کو ایک دوسرے کے تہذیبی ورثے سے روشناس کراتے ہیں۔ تراجم کے ذریعے مختلف قومیں ایک دوسرے کے قریب آتی ہیں اور ثقافتی تبادلے کو فروغ ملتا ہے۔ مترجم دو مختلف زبانوں کے بولنے والوں کے درمیان رابطہ پیدا کرتا ہے۔ مصنفین اپنی تخلیقات کو اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہیں، مگر انہیں ایک مترجم ہی نئے قارئین کے لیے ایک نئے انداز میں پیش کرتا ہے۔ترجمے کا عمل ایک قوم کو دوسری قوم کی تہذیب، تمدن اور علمی ورثے سے روشناس کراتا ہے۔ ڈاکٹر حسن الدین احمد کے مطابق، ”ایک زبان کے ادبی شہ پاروں کو دوسری زبان کے ادیبوں اور دانشوروں تک پہنچانا ضروری ہے تاکہ ادبی رجحانات کو فروغ ملے۔“ اگر ایک زبان میں دوسری زبانوں کے خیالات، استعارات اور الفاظ کو جذب کرنے کی صلاحیت نہ ہو تو وہ زبان ترقی نہیں کر سکتی۔ترجمے کی اہمیت اس وجہ سے بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ مختلف قوموں کے مابین فکری ہم آہنگی پیدا کرتا ہے، کہ جب ایک قوم کی علمی یا ادبی وراثت دوسری قوم تک پہنچتی ہے تو اس سے نہ صرف ذہنی کشادگی پیدا ہوتی ہے بلکہ معاشرتی تبدیلی کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس طرح ترجمہ ایک ایسی کڑی ہے جو معاشرتی ترقی اور ہم آہنگی کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ اس لیے ترجمے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
ترجمہ کا فن اور اس کی باریکیاں:
ترجمہ ایک ایسی مشق ہے جس کے ذریعے ایک زبان میں موجود تحریر، خیالات، نظریات یا ادبی تخلیقات کو دوسری زبان میں منتقل کیا جاتا ہے، اس طرح کہ ان کی اصل روح برقرار رہے۔ ترجمے کا لغوی معنی ہے نقل یا ترسیل، یعنی ایک زبان میں موجود تحریر یا تخلیق کو دوسری زبان میں منتقل کرنا۔ ترجمہ کے لیے انگریزی میں لفظ ”Translation “ استعمال ہوتا ہے، جو لاطینی زبان سے آیا ہے اور اس کے لغوی معنی ہیں ”پار لے جانا“۔ ترجمہ محض زبان کی تبدیلی کا عمل نہیں ہے بلکہ یہ ایک فکری اور تہذیبی تعامل بھی ہے جس میں زبان کی گہرائی اور تہذیبی رنگ کو برقرار رکھا جاتا ہے۔معاشرتی تناظر میں ترجمہ ثقافتی، تہذیبی اور علمی رشتوں کو قائم رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ ترجمہ کے عمل میں صحیح الفاظ کا انتخاب اور ان کا مناسب استعمال کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ ضروری نہیں کہ مترجم ہر جگہ اصل متن سے متفق ہو، لیکن ایک بہترین ترجمہ کرنے کے لیے مترجم کو اپنی ذاتی رائے کو ایک طرف رکھ کر اصل متن کی روح کو زندہ رکھنا پڑتا ہے۔ اسی میں مترجم کی مہارت اور فن کا امتحان ہوتا ہے۔ اگر مترجم احتیاط نہ برتے تو تحریر اپنے اصل معنی سے دور ہو سکتی ہے۔کیونکہ الفاظ اور محاورات کا درست استعمال ہی متن کے اصل مفہوم کو منتقل کر سکتا ہے۔ مترجم کا یہ فرض ہے کہ وہ متن کے بنیادی خیالات کو جوں کا توں پیش کرے، چاہے اس کا ذاتی نظریہ اس سے مختلف ہو۔ ایک بہترین ترجمہ وہ ہے جس میں مترجم اپنی پسند اور ذاتی نظریات سے بالاتر ہو کر اصل متن کو زیادہ سے زیادہ درستگی کے ساتھ منتقل کرے۔
اردو ادب میں ترجمے کے نمایاں کردار:
اردو زبان کا دامن اتنا وسیع ہے کہ اس میں نہ صرف ادبی بلکہ سائنسی اور فنی مواد بھی بخوبی جذب ہو سکتا ہے۔ اردو میں ترجمے کی ضرورت اس وقت محسوس کی گئی جب جدید علوم اور فنون میں دلچسپی بڑھنے لگی۔ انگریزی، عربی، اور فارسی سے علوم کو اردو میں منتقل کرنے سے اردو قارئین کو علمی موضوعات کی تفہیم میں مدد ملی۔اردو ادب میں ترجمے کی روایت صدیوں پرانی ہے۔ اس کی ابتداء فارسی اور عربی زبان کے تراجم سے ہوئی، جس نے اردو ادب میں فکر اور دانش کی نئی راہیں کھولیں۔ فارسی اور عربی کے ساتھ ساتھ انگریزی ادب کے تراجم بھی اردو ادب میں شامل کیے گئے۔ اس سے نہ صرف اردو ادب کو وسعت ملی بلکہ نئے ادبی رجحانات بھی سامنے آئے اور اردو میں ترجمے کے ذریعے مغربی ادب ، جدید طب، سائنس، انجینئرنگ، اور دیگر فنی علوم کو عوامی سطح پر قابل رسائی بنایا گیا ۔اس طرح اردو قارئین کو بین الاقوامی ادب، سائنس اور فلسفے سے روشناس کرانے کے لیے بھی ترجمے کا عمل بہت مفید ثابت ہوا۔ترجمے کے ذریعے مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کو اردو میں منتقل کیا گیا کیوں کہ یہ عمل مختلف تہذیبوں کے مابین ثقافتی پل باندھتا ہے۔ اردو میں فورٹ ولیم کالج ، دہلی کالج کی ورنا کیولر سوسائٹی، 1865میں قائم روہیل کھنڈ کی لٹریری سوسائٹی ، سائنٹفک سوسائٹی علی گڑھ، دار الترجمہ جامعہ عثمانیہ ، انجمن ترقی اردو اور دارالمصنفین اعظم گڑھ جیسے اداروں نے ترجمے کے میدان میں بڑی خدمات انجام دی ہیں۔ ان اداروں نے مختلف زبانوں کے علمی و ادبی مواد کو اردو میں منتقل کر کے اردو قارئین کو عالمی ثقافت اور تہذیبوں سے روشناس کرایا۔ ان تراجم نے نہ صرف اردو ادب کو وسعت دی بلکہ اردو زبان میں تہذیبی اور ثقافتی رنگ بھی شامل کیا۔ ان اداروں کے ذریعے اردو میں مختلف ثقافتوں کے ادب کو ترجمہ کر کے ایک ایسی وسعت پیدا کی گئی جس سے اردو قارئین کو مختلف تہذیبی اور ثقافتی رجحانات کو سمجھنے میں مدد ملی ہے۔ اردو ادب میں عالمی ادب کے تراجم کے نتیجے میں نئی فکر اور نئے موضوعات کا تعارف ہوا۔ اردو قارئین کو بین الاقوامی ادب کی خوبصورتی اور گہرائی سے روشناس ہونے کا موقع ملا، جس سے اردو زبان کی وسعت اور معیار میں بہتری آئی۔ اردو ادب میں ترجمہ ایک خاموش مگر انتہائی اہم کردار ادا کرتارہا ہے۔ اردو زبان کے کئی معروف مترجمین جیسےمیرامن، سرسید احمد خان، ڈپٹی نذیر احمد، تیرتھ رام فیروزپوری، سجاد حیدر یلدرم ، مولانا غلام رسول مہر ، عزیز احمد، قرۃ العین حیدر، سعادت حسین منٹو، احتشام حسین ، جمیل جالبی، محمد اکرام چغتائی، مظہر الحق علوی، یعقوب یاور، ارجمندآرا اور اجمل کمال وغیرہ نے اردو ادب میں دیگر زبانوں کے اعلیٰ خیالات کو شامل کر کے اسے مالا مال کیا ہے۔مگر ہمارے ادب میں مترجم کو شاید وہ مقام نہیں مل سکا جو تخلیق کار کو دیا گیا ہے، لیکن ہر ادبی قاری اس بات سے اتفاق کرے گا کہ تراجم کے بغیر زبان میں وسعت اور فصاحت و بلاغت پیدا نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ ترجمہ ہمیں دیگر تہذیبوں کے رنگ اور روایتوں سے روشناس کراتا ہے اور اسی کی بدولت ہماری زبان و ادب کو تازگی اور قوت ملتی ہے۔ اردو زبان کی تاریخ میں ایسے کئی مترجمین کے نام شامل ہیں جنہوں نے اپنی محنت اور مہارت سے اردوزبان و ادب کو گراں قدر خزانہ فراہم کیا۔ یہ مترجمین فارسی، عربی ، انگریزی اور دیگر زبانوں کے بلند پایہ ادب کو اردو زبان میں منتقل کرتے ہوئے ہماری زبان میں علم و ادب کی وسعت کا باعث بنے۔ جیسے کہ میرامن جنہیں گلکرسٹ نے گوشۂ گمنامی سے باہر نکال کر ترجمے کی دنیا میں لا کھڑا کیا۔فورٹ ولیم کالج میں ملازمت کے دوران فارسی سے ”قصہ چہار درویش“ کا آپ نے ”باغ و بہار“کے نام سے ترجمہ کیا۔ ان کی تحریروں نےاردو میں عام فہم اسلوب کو رائج کیا، اسی طرح ملا حسین واعظ کاشفی کاترجمہ ”اخلاق محسنی“ نے اردو نثر کو علمی لحاظ سے برتر ثابت کیا۔ سر سید احمد خان نے دہلی کالج کے لیے علم ریاضی سے متعلق ایک فارسی مکالمے کا ترجمہ کیا،جو ان کے نانا خواجہ فرید الدین کی تالیف تھی اور ڈپٹی نذیر احمد نے انڈین پینل کوڈ سمیت کئی اہم تخلیقات کا ترجمہ کر کے اردو کے علمی زبان ہونے کے دعوے کو مستحکم کیا۔ سجاد حیدر یلدرم نے ترکی افسانوں سے اردو افسانے میں شیرینی، نفاست اور خیالات کی رعنائی کو شامل کر کے اردو افسانے میں ایک نئے اسلوب کا اضافہ کیا۔علاوہ ازیں عزیز احمد کی ”بوطیقا“ ، جمیل جالبی کی” ایلیٹ کے مضامین“، نیاز فتح پوری کی ”گیتانجلی“، محمد ہادی حسن کی ”مغربی شعریات“ عصمت جاوید کے تراجم ، اختر حسین رائے پوری کی ”گورکی کی آپ بیتی “ و دیگر ترجمہ نگاروں نے اہم تراجم پیش کیے۔یہ سب مثالی تراجم ہیں، جن سے اردو ادب کی ثروت مندی میں اضافہ ہوا۔یہ تراجم اردو ادب کو ایک عالمی سطح پر پیش کرتے ہیں اور اردو قارئین کو دنیا کی مختلف زبانوں اور ادبیات سے روشناس کراتے ہیں۔
ان مترجمین میں مظہر الحق علوی نے انگریزی زبان کے تقریباً 89 ناولوں کو اردو میں منتقل کیا۔ یوں انہوں نے اردو ادب کو مغربی ادب کے خیالات و نظریات سے مالا مال کیا۔ اردو ادب کے خاموش خادم یعقوب یاور نے بھی دو درجن سے زائد مغربی ناولوں کے ترجمے کیے اور کئی اہم انعامات سے نوازے گئے ۔اسی طرح اردو کے دوسرے مترجمین نے اپنی زبان کی خدمت کی اور اسے ترقی یافتہ زبانوں کی صف میں لا کھڑا کیا۔
ترجمے کے سماجی اور ثقافتی فوائد:
ترجمہ صرف ایک زبان سے دوسری زبان میں الفاظ کا تبادلہ نہیں بلکہ اس میں تہذیبوں کا اشتراک اور مختلف ثقافتوں کے درمیان افہام و تفہیم کا عمل بھی شامل ہوتا ہے۔ ترجمے کے ذریعے ہم مختلف تہذیبوں کی روایات، رنگینیوں اور طرز زندگی کو اپنی تہذیب میں سمو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، انگریزی ادب کے مترجم اردو قارئین کو نہ صرف انگریزی تہذیب و تمدن سے روشناس کراتے ہیں بلکہ اس کے فوائد بھی بتاتے ہیں، جیسے کہ مختصر اور جامع انداز میں بات کرنے کا فن۔
ترجمہ ہمیں نہ صرف دوسری تہذیبوں سے آشنا کرتا ہے بلکہ اس کے ذریعے پرانی تہذیب و ثقافت کو زندہ جاویدبھی رکھا جا سکتا ہے۔ ترجمہ قوموں کے درمیان تعلقات کو مضبوط بناتا ہے اور مختلف قوموں کے تجربات سے دوسروں کو فائدہ اٹھانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ تراجم کے ذریعے علمی اور ثقافتی میراث کا لین دین ہوتا ہے اور اسی کی بدولت انسانی تہذیب و تمدن کو ترقی حاصل ہوتی ہے۔ ماہرینِ لسانیات کا یہ خیال بالکل درست ہے کہ اگر ایک زبان میں دوسری زبان کے الفاظ، استعارات اور خیالات کو جذب کرنے کی صلاحیت نہ ہو تو وہ زبان ترقی نہیں کر سکتی۔یہ کام ترجمے کے ذریعے ہی فروغ پاتا ہے۔
ترجمے کا تعلیمی و سائنسی میدان میں کردار:
آج اردو میں سائنسی مواد کی دستیابی نوجوانوں کے لیے جدید علوم کی تفہیم میں مددگار ثابت ہو رہی ہے۔ اردو میں سائنسی تراجم کے ذریعے جدید موضوعات کی کمی پوری کی گئی ہے اور نئی نسل کو سائنس، طب، انجینئرنگ، اور دیگر علوم میں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے گئے ہیں۔ترجمہ نہ صرف ادبی اور ثقافتی میدانوں میں اہم ہے بلکہ تعلیم اور سائنس کے میدان میں بھی اس کی خاص اہمیت ہے۔ اگر سائنسی مضامین اور تکنیکی علوم کا ترجمہ اردو زبان میں نہ کیا جاتا تو آج ہم ان علوم پر دسترس حاصل نہیں کر سکتےتھے۔ اس طرح ترجمہ علمی دنیا میں نئی راہوں کو روشن کرتا ہے اور ہماری زبان کو ان علوم و فنون سے روشناس کراتا ہے جو دوسری زبانوں میں موجود ہیں۔ اور اب جدید ٹیکنالوجی نے ترجمے کے عمل کو تیز تر اور قابل رسائی بنا دیا ہے۔ کمپیوٹر کی مدد سے تراجم کرنے کے نئے طریقے اور مشین لرننگ ٹولز اس عمل کو نہایت آسان اور موثر بنا رہے ہیں۔ اس کام نے اردو زبان کو سائنسی مضامین میں استعمال کے قابل بنا دیاہے۔ اس طرح اردو میں بھی جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تراجم کیے جا رہے ہیں تاکہ عالمی ادب، سائنس، اور دیگر موضوعات کا مواد اردو میں بھی دستیاب ہو اور اردو زبان کے قارئین کو دنیا کی معلومات تک رسائی حاصل ہو سکے۔
معیاری ترجمے کے چیلنجز:
ترجمے کو اکثر لوگ صرف الفاظ کے تبادلے کا عمل سمجھتے ہیں اور یہ کہہ دیتے ہیں کہ ترجمے میں نیا کیا کرنا ہوتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ترجمے کے دوران مترجم کو مختلف زبانوں کے اسالیب، محاورات اور طرز بیان کو سمجھنا اور اپنی زبان میں انہیں اسی کیفیت کے ساتھ منتقل کرنا ہوتا ہے۔ یہ ایک پیچیدہ اور محنت طلب کام ہے جس میں مترجم کو کئی زبانوں اور تہذیبوں کے مابین پل کا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔اردومیں سائنسی اور فنی موضوعات کا ترجمہ ایک اہم اور مشکل کام ہے۔ لیکن دہلی کالج اور دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ جیسے اداروں نے سائنسی اور فنی مواد کو اردو میں منتقل کرنے کا آغاز کر کے اردو زبان میں علمی مواد کا ذخیرہ بڑھانے کا راستہ صاف کر دیا تھا۔ اصطلاحات اور سائنسی تراکیب کا اردو میں ترجمہ کرنا بھی چیلنج سے بھرپور کام ہے۔ اس کے علاوہ ترجمے کے عمل میں متعدد مشکلات بھی درپیش ہوتی ہیں۔ ہر زبان کی اپنی مخصوص اصطلاحات، محاورے، اور طرز بیان ہوتے ہیں جو دوسری زبان میں درست طور پر منتقل کرنا مشکل ہوتا ہے۔سائنسی اور فنی مضامین میں درست اصطلاحات کا ترجمہ مشکل ہوتا ہے۔ جدید اصطلاحات کے لیے مناسب اردو الفاظ نہ ملنے کی وجہ سے تراجم میں مشکلات آتی ہیں۔ اس کے باوجود، اردو مترجمین نے ان چیلنجز کا سامنا کیا اور اردو زبان میں بہترین تراجم کیے ہیں۔ اردو میں تراجم کے دوران مترجمین کو اس بات کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے کہ اصل متن کی معنویت برقرار رہے اور اردو قارئین کے لیے فہم کی راہ ہموار ہو۔اس لیے اس کام کو معمولی سمجھ کر ثانوی درجے پہ رکھنے کی بھول نہیں کرنی چاہیے۔ کیونکہ انسانی تہذیب کی ترقی میں ترجمہ ایک اہم کردار ادا کرتا ہے اور مختلف اقوام کے درمیان باہمی تعلقات اور افہام و تفہیم کو فروغ دینے کا ذریعہ بنتا ہے۔ ترجمہ ذہن کو وسعت دیتا ہے اور یہ ترجمے کی ہی دین ہے کہ آج مشرق و مغرب کے درمیان فاصلوں میں کمی آئی ہے۔ پہلے ادبی دنیا میں ترجمے کے حوالے سے کچھ تعصب موجود تھا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ترجمے کے مثبت نتائج دیکھنے کے بعد ادبی حلقوں میں اس کے بارے میں نظرئیے میں تبدیلی آئی ہے۔
آخر میں یہ کہنا بجا ہے کہ ترجمہ ایک اہم علمی و فکری عمل ہے جو مختلف زبانوں، تہذیبوں، اور ثقافتوں کے درمیان پل باندھتا ہے۔ ترجمہ کسی بھی زبان کے فروغ اور تہذیب کے ارتقا کے لیے ناگزیر ہے۔ ترجمے کے ذریعے ہی ایک قوم دوسری قوم کے علم و ادب، تہذیب و تمدن اور ثقافتی ورثے سے روشناس ہو سکتی ہے۔ ترجمہ دراصل علم و ثقافت کا سفر ہے جو انسانی معاشرت اور تہذیب کو جوڑنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ اس کے بغیر اقوام کی ترقی اور علمی ورثے کا تبادلہ ممکن نہیں۔اردو ادب میں ترجمے نے نہ صرف اردو زبان کو جدید علوم و فنون سے ہم آہنگ کیا ہے بلکہ مختلف زبانوں کی ادبی تخلیقات کو بھی اردو قارئین تک پہنچایا ہے۔ اس کے ذریعے اردو میں عالمی ادب اور سائنس کے موضوعات کو شامل کیا گیا ہے اور اردو ادب کو بین الاقوامی سطح پر قابل قبول بنایا گیا ہے۔
حوالہ جات:
1۔ ترجمہ کافن اورروایت۔ مرتب: ڈاکٹرقمررئیس، تاج پبلشنگ ہاؤس دہلی، ۱۹۷۶
2۔ فن ترجمہ نگاری، مرتب: خلیق انجم، ثمر آفسیٹ پرنٹرز نئی دہلی، ۱۹۹۶
3۔ فن ترجمہ نگاری، پروفیسر ظہورالدین، سیمانت پرکاشن نئی دہلی، ۲۰۰۶
4۔ بیرونی ممالک میں اردو،مرتب: ڈاکٹر انعام الحق جاوید،مقتدرہ قومی زبان، پاکستان، ۱۹۹۶
5َ ۔ بیسویں صدی (نصف اول) کےمصنفین: ڈاکٹر سنجیدہ خاتون، قومی اردو کونسل، ۲۰۰۸
6۔ سہ ماہی ادراک (شمارہ 11) ، ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ، پاکستان
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page